Tag: روایات

  • مرنے والے کے جسم کا ایک حصہ یادگار رکھنے کی عجیب و غریب روایت

    مرنے والے کے جسم کا ایک حصہ یادگار رکھنے کی عجیب و غریب روایت

    دنیا بھر میں موت کے حوالے سے عجیب و غریب روایات و رواج رائج ہیں تاہم حال ہی میں ایک ایسی روایت سامنے آئی ہے جس نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ایک خاتون نے ریڈ اٹ پر اپنی کہانی شیئر کی ہے اور بتایا ہے کہ اس کے سسرال میں ایک عجیب و غریب روایت ہے جس میں مرنے والے کے لواحقین اس کے دانت توڑ کر اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں۔

    خاتون نے بتایا کہ یہ ٹوٹے ہوئے دانت میت کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، جو شخص میت کو جتنا زیادہ عزیز تھا اسے اسی کے مطابق دانت دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام دانت جو کہ میت نے اپنی ساری زندگی میں جمع کیے ہیں وہ اس کے جسم کے ساتھ دفن کر دیے جاتے ہیں۔

    خاتون نے بتایا کہ جب اس کے شوہر کی دادی فوت ہوئیں تو ساس نے اسے دادی کا دانت دیا، جب خاتون نے دانت رکھنے سے انکار کیا تو ان کا شوہر خفا ہوگیا۔

    خاتون نے دلیل دی کہ وہ نہ تو کسی کے دانت اپنے ساتھ رکھیں گی اور نہ ہی وہ چاہیں گی کہ مرنے کے بعد ان کے دانت توڑے جائیں۔ خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر کا خاندان بہت اچھا ہے لیکن انہیں یہ رسم بالکل پسند نہیں۔

    سوشل میڈیا صارفین نے اس عجیب و غریب روایت پر مختلف تبصرے کیے۔ ایک صارف نے کہا کہ یہ پاگل پن کی انتہا ہے۔

    ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ عجیب تو ہے لیکن یہ کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہا، آپ کو اس کا پس منظر ضرور جاننا چاہیئے۔

  • دنیا بھر میں شادی کی عجیب و غریب رسومات

    دنیا بھر میں شادی کی عجیب و غریب رسومات

    دنیا بھر میں زندگی کے ہر موقعے کے لیے عجیب و غریب رسمیں موجود ہیں، شادی بھی ایسا ہی موقع ہے جب ہر ملک میں مختلف رسموں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

    براعظم افریقہ رسومات کے حوالے سے نہایت منفرد اور انوکھا ہے۔ افریقہ کے ایک علاقے میں شادی والے دن ساس اپنے داماد کو مرغا بنا کر اس کے ٹخنوں پر ڈنڈے مارتی ہے۔

    اسی طرح ایک قبیلہ شادی کے قابل ہوجانے والے نوجوانوں کے ساتھ ایک تکلیف دہ رسم منعقد کرتا ہے، ان نوجوانوں کے ہاتھ ایک ایسے بیگ یا لفافے میں بند کردیے جاتے ہیں جس میں سرخ چیونٹیاں ہوتی ہیں۔

    ان چیونٹیوں کا ڈنک نہایت خطرناک ہوتا ہے اور نوجوانوں کو اسے برداشت کرنا ہوتا ہے، جو نوجوان تڑپ کر لفافے سے ہاتھ نکال لے اسے شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔

    اسی طرح ایک قبیلے میں لڑکے کے لیے لازمی ہے کہ وہ شادی سے قبل 12 سے 15 گائیں پالے، اور پھر ایک دن ان پر گوبر مل کر ایک ساتھ چھلانگ مارے۔ اگر اس دوران وہ گر پڑا تو اس کی شادی کا پروگرام منسوخ کردیا جاتا ہے۔

    ایسی ہی کچھ رسومات خواتین کے لیے بھی ہیں۔ ایک قبیلے کی خواتین کے لیے لازمی ہے کہ شادی سے قبل وہ اپنے دانتوں کو کلہاڑے سے نوکیلے کروائیں۔ اس کے بغیر ان کی شادی ہونا ناممکن ہے۔

  • دنیا بھر میں رمضان المبارک کی خوبصورت روایات

    دنیا بھر میں رمضان المبارک کی خوبصورت روایات

    رمضان اور عید گو کہ مذہبی تہوار ہیں لیکن مختلف ممالک اور مختلف خطوں میں اسے مختلف رسوم و رواج اور روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان کا استقبال بھی مختلف ممالک میں مختلف روایتوں کے تحت کیا جاتا ہے۔

    آئیں دنیا بھر میں رمضان کی خوبصورت روایات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    توپ داغنا

    سحر و افطار کے وقت توپ داغنے کی روایت کئی ممالک میں ہے۔

    مصر میں روایت ہے کہ ایک جرمن ملاقاتی نے مملوک سلطان الظہیر سیف الدین کو ایک توپ تحفتاً پیش کی۔ سلطان کے سپاہیوں نے یہ توپ شام کے وقت چلائی، رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اتفاق سے افطاری کا وقت تھا۔ شہریوں نے یہ تصور کیا کہ یہ ان کو افطار کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے ہے جس پر انہوں نے روزہ کھول لیا۔

    جب سلطان کے حواریوں کو یہ ادراک ہوا کہ رمضان المبارک کے دوران سحری و افطار کے وقت توپ چلانے سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے تو ان کو یہ روایت جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا۔

    آنے والے برسوں کے دوران اس نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی اور دنیا کے مختلف مسلمان ممالک نے بھی اسے اختیار کرلیا۔

    ترکی میں مختلف شہروں کی بلند ترین پہاڑی سے مقررہ وقت پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے جو روزہ کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔

    سعودی عرب میں بھی سحری کے وقت توپ چلائی جاتی ہے جبکہ روس میں بھی کچھ جگہوں پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے۔

    ڈرم بجانا، بگل بجانا

    سحری کے وقت ڈرم بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت کئی ممالک میں موجود ہے۔

    ترکی میں ڈرمر عثمانی عہد کا لباس پہن کر ڈرم بجا کرلوگوں کو جگاتے ہیں۔ مراکش میں ایک شخص ’نیفار‘ بگل بجا کر رمضان کے آغاز اور اختتام کا اعلان کرتا ہے۔

    منادی کرنا

    اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلال حبشی تھے جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کی ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کے لیے بیدار کریں۔

    مکہ المکرمہ میں مساہراتی کو زمزمی کہتے ہیں۔ وہ فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں کے چکر لگاتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص آواز سے بیدار نہیں ہوتا تو وہ روشنی سے جاگ جائے۔

    سوڈان میں مساہراتی گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بچہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری کے لیے آواز دے کر اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔

    مصر میں سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے رہائشی کا نام پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔

    ان افراد کو اگرچہ کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی لیکن ماہ رمضان کے اختتام پر لوگ انہیں مختلف تحائف دیتے ہیں۔

    رمضان خمیے

    سعودی عرب میں رمضان خیموں کی تنصیب عمل میں آتی ہے جہاں پر مختلف قومیتوں کے لوگ روزہ افطار کرتے ہیں۔

    یہ روایت روس میں بھی قائم ہے۔ ملک کی مفتی کونسل کی جانب سے ماسکو میں اجتماعی افطار کے لیے رمضان خیمہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    دیگر دلچسپ روایات

    ان روایات کے علاوہ بھی رمضان میں مختلف ممالک میں کئی دیگر منفرد و دلچسپ روایات دیکھنے کو ملتی ہیں۔

    مصر

    مصر میں رمضان المبارک کے دوران بچے چمکتے ہوئے فانوس یا لالٹین اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں۔ یہ روایت ایک ہزار برس قدیم ہے۔

    روایت کے مطابق 969 عیسوی میں اہل مصر نے قاہرہ میں خلیفہ معز الدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا اور ماہ رمضان کے دوران مصر میں فانوس یا لالٹین روشن کرنا روایت کا حصہ بن گیا۔

    سعودی عرب

    سعودی عرب میں ایسی بہت سی روایات ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں یا ان پر دوسری ثقافتوں کا گہرا اثر ہے۔ لوگ گھروں پر فانوس یا بلب لگاتے ہیں، دکانوں پر بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ رمضان المبارک کا جوش و ولولہ نظر آئے۔

    ترکی

    ترکی میں افطار کے وقت مساجد کی بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں جو صبح سحری تک روشن رہتی ہیں۔

    جدید اثرات اور یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث ترکی میں دوسرے ممالک کی طرح رمضان کے دوران ریستورانوں یا ہوٹلوں کی بندش کا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی رمضان کے دوران عوامی مقامات پر کھانے پینے کی ممانعت ہے۔

    ایران

    ایران میں افطاری کچھ مخصوص اشیا سے کی جاتی ہے جن میں چائے، ایک خاص طرح کی روٹی جسے ’نون‘ کہا جاتا ہے، پنیر، مختلف قسم کی مٹھائیاں، کھجور اور حلوہ شامل ہے۔

    ملائشیا

    ملائشیا میں زیادہ تر روزہ دار نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے ’مورے‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن میں روایتی پکوان اور گرم چائے شامل ہوتی ہے۔

    متحدہ عرب امارات

    متحدہ عرب امارات میں رمضان المبارک کے دوران کام کے اوقات کار کم کر دیے جاتے ہیں۔ یہاں رات بھر رمضان مارکیٹ کھلی رہتی ہے۔

  • بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    رحمت بی بی کی جھونپڑی میں آج گویا عید کا دن تھا، صرف ایک ان کی جھونپڑی کیا آس پاس کی تمام جھونپڑیوں میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی کیونکہ آج رحمت بی بی کی سب سے بڑی بیٹی شادی ہو کر رخصت ہونے جارہی تھی۔

    شادی کے لیے رحمت بی بی نے اپنی حیثیت کے مطابق بہت کچھ جوڑ لیا تھا۔ وہ سامان جو مستقبل میں نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ اس کے نئے گھر والوں کے بھی کام آنا تھا۔ کپڑے، برتن، ڈھیروں سجانے کی اشیا جو سب ہاتھ سے کڑھی ہوئی تھیں، ہاتھ کے پنکھے اور اس تمام سامان کو رکھنے کے لیے لوہے کے صندوق (جنہیں پیٹی بھی کہا جاتا ہے)۔ رحمت بی بی کا ایک بیٹا شہر میں ملازمت کرتا تھا سو ان کی حیثیت دیگر گاؤں والوں کے مقابلے میں کچھ بہتر تھی لہٰذا وہ بیٹی کو جہیز میں ایک عدد بکری بھی دے رہی تھیں۔ اور سب سے اہم چیز جو سب کو دکھانے کے لیے سامنے ہی رکھی تھی، 50 عدد تکیے۔

    یہ 50 عدد تکیے وہ اہم شے تھی جس کی تیاری رحمت بی بی اور ان کے گاؤں کی ہر ماں بیٹی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع کردیتی تھی۔ کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع اس گاؤں مٹھو گوٹھ میں بیٹی کی شادی میں اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر 50 تکیے لازمی تھے۔

    جہیز میں دیے گئے سامان پر ہاتھ سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے

    مٹھو گوٹھ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    ایک مٹھو گوٹھ ہی کیا سندھ کے طول و عرض میں آباد مختلف ذاتوں، قبیلوں اور برادریوں میں جہاں مختلف روایات دیکھنے کو ملتی ہے، انہی میں ایک روایت بیٹی کو جہیز میں ڈھیروں ڈھیر بستر دینا بھی ہے، البتہ یہ روایت پورے سندھ کی برادریوں میں نہیں ہے۔

    جن برادریوں میں یہ رواج ہے وہاں کم از کم 20 سے 30 کے قریب کڑھی ہوئی چادریں، تکیے اور رلیاں (کپڑے کے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا متنوع رنگوں کا سندھ کا روایتی بچھونا) دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ سے تیار سجاوٹ کی ایسی اشیا جو دیوار پر آویزاں کی جاسکیں، ازار بند اور پہننے کے لیے کڑھے ہوئے کپڑے ان کے علاوہ ہوتے ہیں۔

    تاہم بستروں پر اس قدر زور کیوں؟ اس بارے میں اندرون سندھ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے والی پرھ قاضی نے اپنی معلومات سے آگاہ کیا، پرھ اندرون سندھ کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔

    پرھ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تو سندھ کی مہمان نوازی ہے، سندھ دھرتی کی مہمان نوازی جو بیرون ملک سے آنے والوں کو بھی اپنائیت سے سرشار کردیتی ہے، سندھ کے رہنے والوں کی سادہ سی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے گھر آنے والوں کی بے انتہا آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بہترین پکوان جو گھر کے شاندار برتنوں میں سرو کیا جاتا ہے، تمام وقت مہمان کا خیال رکھنا (جس میں بجلی نہ ہو تو انہیں پنکھا جھلنا بھی شامل ہے)، رات سونے کے لیے نئے بستر بچھانا، اور وقت رخصت مہمانوں کو روایتی تحائف دینا سندھ کے لوگوں کا خاصہ ہے۔

    رحمت بی بی نے بیٹی کے جہیز کے لیے ڈھیروں بستر تیار کیے

    خاندانوں کا اکثر ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جانا اور رات قیام کرنا عام بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈھیروں بستر ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ اکثر گھروں میں اسی حساب سے چارپائیاں بھی رکھی جاتی ہیں جن پر بچھانے کے لیے چادریں اور تکیے درکار ہوتے ہیں جبکہ فرشی نشست کی صورت میں بھی یہی سامان درکار ہے۔ ایسے میں اگر بہو کے جہیز کے بستر مہمانوں کو بھلے لگیں اور وہ اس کی تعریف کردیں تو نہ صرف سسرال والوں کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے بلکہ گھر میں بہو کی اہمیت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

    پرھ نے بتایا کہ ایک رجحان جسے بظاہر ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہ رخصتی سے قبل جہیز کی نمائش کرنا ہے تاکہ ہر شخص دیکھ سکے کہ ماں باپ نے اپنی بیٹی کو کیا کیا دیا ہے۔ ’برادری والے باقاعدہ سوال پوچھتے ہیں کہ کتنے جوڑے دیے ہیں، کتنے بھرے ہوئے (کڑھائی والے)، اور کتنے سادہ ہیں، کتنی رلیاں ہیں، کتنے تکیے ہیں۔ ایسے میں جب بتایا جاتا ہے کہ 40 رلیاں ہیں، یا 50 تکیے، تو نہ صرف بتانے والے والدین کا سینہ چوڑا ہوجاتا ہے بلکہ سسرال والے بھی فخر سے اتراتے ہیں کہ دیکھو ہماری بہو اتنا کچھ لے کر آرہی ہے‘۔

    بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے جہیز کی تیاری کرنا، بظاہر والدین کے کندھوں پر بوجھ لگتا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ پرھ نے بتایا کہ بیٹی کو شادی کر کے رخصت کرنے تک ایک بھاری ذمہ داری سمجھنا تو برصغیر پاک و ہند میں عام ہے، لیکن اگر اس خاص پس منظر میں جہیز کی تیاری کی بات کی جائے تو یہ ذمہ داری سے زیادہ والدین اور خصوصاً ماں کے لیے وقت گزاری کا ذریعہ بھی ہے۔

    ان کے مطابق گھر کے تمام کاموں سے فرصت پا کر کڑھائی اور کشیدہ کاری کرنا دیہی سندھ کی خواتین کا خصوصی مشغلہ ہے۔ یہ ان کے لیے ایک سماجی تفریح بھی ہے کیونکہ کڑھائی کرنے اور سیکھنے کے بہانے دو چار گھروں کی خواتین ایک گھر میں جمع ہوجاتی ہیں، اس دوران گپ شپ اور کھانے پینے کا سلسلہ چلتا ہے جبکہ ایک سے ایک کشیدہ کاری کے نمونے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ دن کے اختتام پر جب سارا کام سمیٹا جاتا ہے تو ماں اس نئے تیار شدہ سامان کو ایک محفوظ جگہ رکھ دیتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہ بیٹی کی شادی میں کام آئے گا۔ اور صرف جہیز پر ہی کیا موقوف، اس بیٹھک کے دوران گھر کی سجاوٹ کی اشیا اور گھر کے مردوں کے لیے کڑھے ہوئے ازار بند بھی بنائے جاتے ہیں جو چند دن بعد ہی استعمال میں لے لیے جاتے ہیں۔

    سلائی کڑھائی کرنا گاؤں کی خواتین کے لیے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے

    سینئر صحافی اور محقق اختر بلوچ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جہیز میں بستروں کا یہ رواج سندھ کی ثقافت کا ایک حصہ ہے جو والدین اور بیٹی دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ چونکہ دیہی سندھ میں جہیز کا سامان بازار سے خریدنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے لہٰذا یہ سہل بھی لگتا ہے اور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔

    ان کے مطابق گھر میں اگر بہت مہمان زیادہ آجائیں تو پڑوس کے گھروں سے بھی بستر یا چارپائیاں ادھار لے لی جاتی ہیں، ایسے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کے گھر کی رلیاں بہت اچھی ہیں یا فلاں کے گھر کے تکیے بہت خوبصورت ہیں، یہ تعریف اس سامان کے مالکوں کی خوشی میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہے۔

    گھریلو استعمال کی بھی کئی اشیا ہاتھ سے بنائی اور سجائی جاتی ہیں

    سندھ کی ثقافت پر عبور رکھنے والے سینئر صحافی امر گرڑو بتاتے ہیں کہ سندھ کا ایک قبیلہ باگڑی اپنی ہر شادی میں ہزاروں مہمانوں کو مدعو کرتا ہے، اتنے مہمانوں کے قیام کے لیے اتنے ہی بستروں کی ضرورت ہے، اب ہر گھر میں سو یا 200 بستر بھی ہوں تو میزبانوں کا کام چل جاتا ہے۔

    ان کے مطابق شہر اور گاؤں کے درمیان فاصلہ ہونا ایک ایسی وجہ ہے جس کے باعث شہری سندھ کے لوگوں کو دیہی سندھ کے باسیوں کی کئی عادات نامانوس لگتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ جب شہر جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اشیائے ضرورت خرید کر اسٹاک کرلیں تاکہ بار بار اتنی دور کا سفر نہ کرنا پڑے، ایسے میں مہمانوں کی آمد کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اچانک مہمان آجائیں تو کسی شے کی کمی نہ ہو۔ بہت زیادہ تعداد میں بستر جمع کرنا بھی اسی عادت کا حصہ ہے۔

    امر نے بتایا کہ سندھ کی یہ روایت کچھ علاقوں میں ہے، جہیز کے حوالے سے پورے سندھ میں مختلف روایات دیکھنے کو ملیں گی۔ سندھ کی ایک برادری ایسی ہے جو بیٹی کو جہیز میں کچھ نہیں دیتی، تھر میں جوگیوں کا قبیلہ بیٹی کو جہیز میں سانپ دیتا ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں کے جغرافیائی حالات، وہاں کا ماحول اور آب و ہوا وہاں رہنے والوں کی ثقافت و روایات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، شہر والوں کے لیے جو روایت بہت اجنبی ہوسکتی ہے وہ کسی دوسرے سندھی قبیلے یا سندھی برادری کے لیے بھی اتنی ہی اجنبی ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے درمیان جغرافیے کا فرق ہے۔

  • دنیا بھر میں‌ نئے سال سے جُڑی دل چسپ اور عجیب و غریب روایات

    دنیا بھر میں‌ نئے سال سے جُڑی دل چسپ اور عجیب و غریب روایات

    نئے سال کا استقبال کرنے کے لیے جہاں دنیا بھر میں رنگا رنگ تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، وہیں اس روز کچھ عجیب و غریب رسومات اور روایات پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔

    دنیا کی بعض اقوام میں اس دن سے متعلق توہم پرستی بھی پائی جاتی ہے۔ کسی کے نزدیک گزرتے ہوئے سال کے کچھ خاص لمحے نحوست اور بدشگونی کی علامت ہوتے ہیں تو کوئی اسے خوش قسمتی سمیٹنے کا نادر موقع سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ اس روز کچھ خاص اعمال انجام دینا ضروری سمجھتے ہیں جب کہ مخصوص عبادات کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ سالِ نو سے متعلق چند عجیب و غریب تصورات اور روایات یہ ہیں۔

    رشتے داروں کے دروازے پر شیشے کے برتن توڑنا
    اس عجیب و غریب روایت پر برسوں سے ڈنمارک کے باسی عمل کرتے آرہے ہیں۔ وہاں شیشے کے پرانے برتنوں کو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھروں کے صدر دروازے پر مار کر چکنا چور کر دیا جاتا ہے۔ اس روایت پر اکتیس دسمبر کی شام گہری ہوجانے پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دوستوں اور عزیزوں کو خوش بختی کا پیغام دینا ہوتا ہے۔

    دروازے، کھڑکیاں اور تمام لائٹس کھول دینا
    سال کی آخری شب فلپائن میں لوگ گھر کو برقی قمقموں سے روشن کر کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بھی کھول دیتے ہیں اور رات کے بارہ بجتے ہی پُھرتی کے ساتھ انھیں بند کر دیا جاتا ہے۔ اکتیس دسمبر کو فلپائن میں لوگ گول اشکال والی اشیا کا استعمال بڑھا دیتے ہیں جن میں پھل اور سبزیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اس روایت کے پیچھے تصور یہ ہے کہ اس طرح خوش حالی آئے گی اور نیا سال منافع بخش ثابت ہو گا۔

    بدقسمتی کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے جھاڑو دینا
    نئے سال کی آخری شب چلی کے لوگ قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ وہ یہ لمحات اپنے ان پیاروں کے ساتھ گزارتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے ان سے دور جا چکے ہوں۔ اسی طرح اکتیس دسمبر کی رات منہ بھر کر دال کھانا بھی چلی میں خوش قسمتی سمیٹنے کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سال کی آخری رات گھر میں جھاڑو دی جاتی ہے جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ خاندان نے بدقسمتی کو گھر سے باہر نکال دیا ہے۔

    بارہ انگوروں سے جڑی خوش نصیبی
    اسپین میں نئے سال کی آمد کا جشن مناتے ہوئے رات بارہ بجے سے پہلے اگر کوئی شخص بارہ انگور منہ میں رکھ کر ایک ساتھ کھا لے تو اسے خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔

    کھڑکی سے باہر پانی پھینکنے کی روایت
    پورٹو ریکو میں روایت ہے کہ گزرتے ہوئے سال کی آخری شام بالٹی یا گلاس میں پانی بھر کے گھر کی کھڑکی سے باہر پھینکا جائے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ اس عمل سے بُری قوتوں کو گھر سے باہر نکال دیتے ہیں۔