ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے شہر ام القوین کے محکمہ پولیس میں روبوٹک افسر شامل کرلیا گیا جو مختلف جرائم کی تحقیقات کرے گا۔
مقامی میڈیا کے مطابق ایکسپو 2020 میں مذکورہ روبوٹک پولیس افسر کو پیش کیا گیا، ام القوین پولیس کے کمانڈر ان چیف میجر جنرل شیخ رشید بن احمد نے پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔
اس روبوٹک پولیس افسر کا کام بچوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات کرنا ہے۔
روبوٹ نے 3 سالہ تربیتی تجربے کے بعد 3 اکتوبر سے کام کرنا شروع کیا اور اس دوران اس نے بچوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات میں متاثر کن نتائج حاصل کیے۔
کمانڈر ان چیف کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ مستقبل کی ایک جھلک ہے اور تمام شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے نفاذ کی طرف ایک کوشش ہے۔
دنیا بھر میں مختلف روبوٹس تیار کیے جارہے ہیں جو مختلف کام سرانجام دیتے ہیں، اب حال ہی میں ماہرین نے ایسا روبوٹ بھی تیار کرلیا جو گھر کا کھانا بنا سکتا ہے۔
یہ باقاعدہ ہاتھ اور پاؤں والا روبوٹ نہیں بلکہ ایک اسمارٹ آلہ ہے جو 3 آسان مراحل میں کام کرتا ہے، اول کھانے کی ترکیب منتخب کریں، دوم اجزا ایک جگہ رکھیں، سوم چھوٹے مرتبان اجزا سے بھریں اور بٹن دبا دیں۔
اس طرح اولیور ریسپی کو دیکھتے ہوئے بقیہ کام از خود کرلے گا۔ اس میں ایک ذہین باورچی چھپا ہے جو مزیدار کھانے، سالن، سوپ، چاول، پاستا، فجیتا اور دیگر بے شمار اقسام کے کھانے تیار کرسکتا ہے۔
اس کے اوپر رکھے برتنوں سے وقفے وقفے سے اجزا نکل کر شامل ہوتے رہتے ہیں اور اندر موجود روبوٹک چمچ کھانے کو اپنے انداز سے تیار کرتا رہتا ہے۔
کھانا بننے کے بعد اسے کھولنا، بند کرنا اور دھونا بہت آسان ہے کیونکہ اس کے اندر چمچہ اور ہانڈی بھی یہی روبوٹ ہے۔
اس کے ایک یونٹ کی قیمت 630 ڈالر ہے جبکہ اس کی 2 سالہ وارنٹی بھی دی جارہی ہے۔
بیجنگ: چین میں ایک ایسا زیر آب ڈرون بنایا گیا ہے جو مچھلی کی طرح تیر سکتا ہے، اس ڈرون کو تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین نے ایک غیر معمولی اور حیران کن زیر آب ڈرون بنایا ہے جو بالکل مچھلی جیسا ہے۔
بیجنگ ملٹری ایکسپو میں اب تک ٹینکوں، میزائلوں اور دوسرے مہلک ہتھیاروں نے وہ شہرت اور توجہ حاصل نہیں کی جو اس مچھلی نے کی ہے۔ اس کی ویڈیو کافی وائرل ہوئی ہے جس میں اسے عام مچھلیوں کی طرح تیرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
قریب سے اور بغور دیکھنے پر ہی اندازہ ہو پاتا ہے کہ یہ دراصل ایک روبوٹ ہے، جو چین کی کمپنی بویا گونگ ڈاؤ نے تیار کیا ہے۔
اس کو بنانے میں اصلی مچھلی کی نقل و حرکت اور ظاہری شکل و صورت پر کافی تحقیق کی گئی ہے، اس میں کئی سینسرز موجود ہیں اور یہ گلوبل وژن کنٹرول ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہے اور 6 سے 8 گھنٹے کی بیٹری رکھتی ہے۔
یہ روبوٹ مچھلی تعلیمی اور سائنسی تحقیق میں بہت کارآمد ہو سکتی ہے اور سمندری حیات پر تحقیق میں بہت مدد دے سکتی ہے۔
کراچی: شہر قائد کے طلبہ عالمی روبوٹک مقابلے میں چھا گئے، آگ پر قابو پانے والا روبوٹ عالمی مقابلے میں چوتھی پوزیشن لے اڑا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستانی ہونہار طالب علموں نے قدرتی آفات سے نمٹنے والا روبوٹ تیار کر لیا، عالمی روبوٹک چیمپئن شپ میں پاکستانی طلبہ کے اس پروجیکٹ نے اعزاز حاصل کر لیا، کینیڈا میں ہونے والے مقابلے میں 70 ممالک شامل تھے۔
ابراہیم، برہان الدین اور مستنصر کا تعلق کراچی سے ہے، جو ساتویں، آٹھویں اور دسویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں، ان کے ٹیچر حسین نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں بتایا کہ بچوں نے جو پروجیکٹ تیار کیا اس میں لیگوز کے پارٹس کا استعمال کیا گیا ہے، یہ پارٹس بچوں نے آپس میں جوڑ کر روبوٹ کی شکل دی، پارٹس جوڑنے کے بعد اس کی پروگرامنگ کی جاتی ہے، اور اس کے بعد یہ روبوٹ کی طرح حرکت کرتے ہیں۔
پروجیکٹ کے بارے میں طالب علم ابراہیم نے بتایا کہ ہم نے حال ہی میں کینیڈا میں منعقدہ ورلڈ روبوٹ اولمپیاڈ (WRO) میں حصہ لیا تھا، انھوں نے ہمیں چیلنج دیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی پر کچھ کرنا ہے، تو ہم نے جنگلات میں آتش زدگی کے موضوع کو چُنا، کیوں کہ عالمی سطح پر اس سے جنگلات میں بڑی تباہی پھیل جاتی ہے۔
ابراہیم کا کہنا تھا پروجیکٹ کے لیے چار روبوٹ ڈیزائن کیے گئے، جب آگ لگتی ہے تو حدت کو ڈیٹیکٹ کرنے والی ایک مشین میں انفرا ریڈ سیکورٹی الارم بجتا ہے، جس کے بعد اسپرنکل روبوٹ وہاں پہنچ جاتا ہے اور تیزی کے ساتھ آگ پر پانی کا چھڑکاؤ کرتا ہے۔
انھوں نے کہا ایسے حالات میں ایک بنیادی مسئلہ بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ہوتا ہے، تو اس کے لیے الگ روبوٹ ہم نے ڈیزائن کیا ہے جس میں ایک فین فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کھینچ کر اسٹور کر لیتا ہے، یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پھر جیو تھرمل پاور پلانٹ میں آ کر خارج ہو جاتا ہے۔
دوسرے طالب علم برہان الدین نے بتایا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، آئرن آکسائیڈ اور پانی کے ساتھ پروسس ہو کر فیروک نکالتا ہے جو بہت مفید چیز ہے، ہوا میں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتا ہے یہ اس کو جذب کرتا اور اپنی بنیاد مضبوط کرتا ہے، یہ پھر قدرتی آفات میں تباہ نہیں ہوتا اور پھر اسے توانائی پیدا کی جاتی ہے۔
ابراہیم نے بتایا کہ انھوں نے یہ پورا پروجیکٹ 2 ہفتوں کے اندر تیار کیا تھا، طلبہ کے ٹیچر حسین کا کہنا تھا کہ یہ چاروں مشینیں ایک ہی پروجیکٹ کا حصہ ہیں، سب مختلف کام کر کے پروجیکٹ کی تکمیل کرتی ہیں، ایک مشین الارم بجاتی ہے، دوسری پانی کا چھڑکاؤ کرتی ہے، تیسری کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتی ہے اور چوتھی مشین جیو تھرمل پاور پلانٹ کی ہے جہاں فیروک کا اخراج ہوتا ہے۔
ان ہونہار طلبہ نے کرونا وبا کے سلسلے میں بھی ایک کو وِڈ اسسٹنٹ پروجیکٹ ڈیزائن کیا ہے، یہ مشین کرونا مریضوں کو پانی اور دیگر اشیا پہنچانے کے کام آتی ہے، اور نرسز کو مریض کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ٹیچر حسین نے بتایا کہ یہ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں، ان کو صرف اشارہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بعد مزید رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیگوز کے پارٹس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اس پوری کٹ کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔
سیئول: جنوبی کوریا میں ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے کے لیے روبوٹک نیوز اینکر پیش کردی گئی، اینکر مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کے ذریعے کام کرے گی۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے ایک نیوز چینل ایم بی این نے مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) سے کام کرنے والی نیوز اینکر کو متعارف کروایا ہے۔
ایم بی این نے اس پراجیکٹ کے لیے منی برین کے ساتھ اشتراک کیا اوراس اینکر کا نام کم جوہا رکھا گیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف حقیقت کے قریب اینیمیشن بنائی جا سکتی ہے بلکہ ایک منٹ میں ایک ہزار الفاظ بھی ادا کیے جا سکتے ہیں۔
پروڈیوسرز لکھے ہوئے مواد، ویڈیوز اور سب ٹائٹلز کو ترتیب دیں گے اور جب یہ کام مکمل ہو جائے گا تو یہ سارا مواد مصنوعی ذہانت سے کام کرنے والی اینکر میں اپ لوڈ کیا جائے گا جو اسے ٹی وی چینل پر پیش کرے گی۔
ایم بی این چینل کے ایک ملازم کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے خبروں کو جلد نشر کیا جا سکے گا اور اس سے وقت اور وسائل کی بچت ہوگی۔
سوشل میڈیا پر جعلی خبروں، تصاویر اور ویڈیوز کا پھیلاؤ نہایت آسان ہے تاہم اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی چیزوں کی سچائی پرکھنا بھی نہایت آسان ہوگیا ہے، ایسی ہی ایک ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں بحرین کے سلطان اپنے روبوٹ محافظ کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص روایتی عرب لباس میں ملبوس آگے آگے چل رہا ہے جبکہ اس کے پیچھے ایک قوی الجثہ روبوٹ نہایت مودبانہ انداز میں چل رہا ہے۔
King of Bahrain arrives in Dubai with his robot bodyguard fitted 360 with cameras and in built pistols. Technology moving very fast than ever in history. Now politicians might order this too pic.twitter.com/YK8aI65z4N
فلموں میں دکھائے جانے والے کسی سپر پاور جیسے روبوٹ کے قدموں کی دھمک لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور وہ انگشت بدانداں ہو کر اس طویل القامت روبوٹ کو دیکھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا کہ عربی لباس میں ملبوس شخص بحرین کے سلطان حماد بن عیسیٰ الخلیفہ ہیں اور روبوٹ ان کا ذاتی محافظ ہے جو 360 کیمروں اور بے شمار پستولوں سے لیس ہے۔
ایک ویریفائیڈ ٹویٹر اکاؤنٹ سے اس ویڈیو کے ساتھ کیپشن دیا گیا کہ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، بہت جلد سیاستدان بھی ایسے محافظ رکھنا شروع کردیں گے۔
ویڈیو پر لوگوں نے حیرت اور خوف کے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا۔
تاہم جلد ہی اس ویڈیو کی حقیقت پتہ چل گئی، مختلف ریورس سرچ کے ذریعے علم ہوا کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والا شخص نہ تو بحرین کے سلطان ہیں نہ ہی یہ روبوٹ ان کا باڈی گارڈ ہے۔
یہ ویڈیو 18 فروری 2019 کی ہے جب ابو ظہبی انٹرنیشنل ڈیفینس ایگزی بیشن میں پہلی بار اس روبوٹ کو پیش کیا گیا۔ 8 فٹ طویل اور 60 کلو گرام وزنی اس روبوٹ نے نمائش کے شرکا کا استقبال کیا۔
خلیج ٹائمز کی اگلے روز کی شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس روبوٹ کا نام ٹائٹن ہے اور یہ متعدد زبانیں بولنے کی اہلیت رکھتا ہے، یہ دنیا کا فرسٹ کمرشل انٹرٹینمنٹ روبوٹ ہے جسے ایک برطانوی کمپنی نے تیار کیا ہے۔
خلیج ٹائمز کی پوسٹ کردہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روبوٹ لوگوں کے درمیان گھوم پھر کر ان سے انگریزی اور عربی زبان میں باتیں کر رہا ہے۔ شرکا اشتیاق سے اسے دیکھتے اور اس کے ساتھ تصاویر بناتے دکھائی دے رہے ہیں۔
روبوٹ میں 360 کیمرے اور بندوق نصب ہیں، اس حوالے سے کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق وائرل ویڈیو میں موجود شخص بحرین کی ڈیفنس فورس کے چیف آف اسٹاف لیفٹننٹ جنرل دیاب تھے جو اس نمائش میں شریک ہوئے تھے۔
مناما: بحرین میں ایسا روبوٹ تیار کرلیا گیا ہے جو الٹرا وائلٹ شعاعوں کے ذریعے کرونا وائرس سمیت بیشتر جراثیموں کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
بحرین کی فیب لیب میں تیار کیا جانے والا روبوٹ شارٹ ویو تابکار شعاعوں کو مختلف سطحوں پر پھینکتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی روشنی اتنی طاقتور ہے کہ یہ 30 منٹ کے اندر 90 فیصد مختلف اجسام بشمول جراثیموں اور وائرسز کو ختم کرسکتا ہے۔
اس مشین کو فی الحال مخصوص ماحول میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جب یہ مشین مکمل طور پر تیار ہوجائے گی تو اسے مناسب قیمت پر فروخت کیا جائے گا۔
اس وقت مختلف خوردبینی اجسام کے خاتمے کے لیے اس آئیڈیے پر دنیا بھر میں کام کیا جارہا ہے، امریکا میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے بھی الٹرا وائلٹ شعاعوں کے ذریعے جراثیموں کے خاتمے کی مشین تیار کی ہے۔
ڈنمارک میں تیار کی جانے والی ایسی مشین 20 منٹ کے اندر کسی کمرے کو جراثیموں اور وائرسز سے پاک کردیتی ہے، اس کی مالیت 67 ہزار ڈالرز ہے۔
ایک چینی کمپنی نے بھی اپنے تیار کردہ روبوٹ کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روبوٹ میزوں اور کرسیوں کے درمیان گھوم گھوم کر الٹرا وائلٹ شعاعیں پھینک رہا ہے۔
اس دوران تمام افراد کو اس جگہ سے باہر رہنا ہوتا ہے کیونکہ اس کی طاقتور شعاعیں انسانی خلیات کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ یہ الٹرا وائلٹ شعاعیں وائرس کے خلیات کی جھلی کو توڑ دیتی ہے جس کے بعد اس کا ڈی این اے بکھر کر ٹکڑوں میں تقیسم ہوجاتا ہے۔
بحرین میں تیار کردہ روبوٹک مشینیں فی الحال اسپتالوں کے آئسولیشن وارڈز میں استعمال کی جارہی ہیں۔
یہ روبوٹ 12 زبانیں بول سکتے ہیں، سامنے آنے والے شخص کا درجہ حرارت چیک کر سکتے ہیں، عملے کی آواز کے مطابق کام کرسکتے ہیں جبکہ مریضوں کے چہروں کی شناخت بھی کرسکتے ہیں۔
بحرین کی وزارت طب نے اس روبوٹ کو طب کے شعبے میں انقلاب قرار دیا ہے۔
ریاض: سعودی عرب میں 2 جڑواں بھائیوں نے خود کار سینی ٹائزر روبوٹ تیار کرلیا، جیسے ہی کوئی شخص گھر میں داخل ہوتا ہے تو روبوٹ سرخ سگنل اور الارم بجا کر آنے والے کو متنبہ کرتا ہے کہ سینی ٹائزنگ ضروری ہے۔
سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں دو جڑواں بھائیوں نے خود کار سینی ٹائزر روبوٹ تیار کیا ہے، دونوں بھائی عماد اور معاذ العمودی کی عمر 14 برس ہے۔
مذکورہ دونوں بھائی ملائیشیا میں ذہنی حساب کے بین الاقوامی مقابلے میں مسلسل دو مرتبہ پہلی پوزیشن حاصل کر چکے ہیں۔ اب کرونا وائرس کے دنوں میں قرنطینہ کے دوران ملنے والے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خود کار سینی ٹائزر روبوٹ تیار کیا ہے۔
عماد اور معاذ کا کہنا ہے کہ کرفیو کے دوران 24 گھنٹے گھر میں گزار رہے تھے تو خیال آیا کہ کیوں نہ آن لائن مصنوعی ذہانت کے لیے روبوٹ پروگرامنگ کی تعلیم اور ڈیزائن سیکھی جائے۔ اس خیال کے آتے ہی اس پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے طے کیا تھا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے خود کار سینی ٹائزر تیار کریں گے، کرفیو کے دوران خود کار سینی ٹائزر روبوٹ پر کئی تجربات کیے۔ حالات معمول پر آئے تو روبوٹ پر پروگرامنگ کی۔ اس میں کئی ترامیم کیں اب یہ روبوٹ عمدہ طریقے سے کام کرنے لگا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی کوئی شخص گھر میں داخل ہوتا ہے تو روبوٹ سرخ سگنل اور الارم بجا کر آنے والے کو متنبہ کرتا ہے کہ سینی ٹائزنگ ضروری ہے، سینی ٹائزنگ سے فارغ ہونے پر روبوٹ گرین سگنل دیتا ہے۔
دونوں کا کہنا تھا کہ یہ کام کرونا وائرس سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ہمارا خواب تھا کہ وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں ہمارا بھی حصہ ہو۔
ریاض: سعودی عرب کے کنگ سلمان اسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کا کام روبوٹ نے شروع کردیا، روبوٹ کی بدولت طبی عملہ کرونا کے خطرے سے کسی حد تک محفوظ ہوگیا۔
سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے کنگ سلمان اسپتال ریاض میں روبوٹ نے کرونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کا کام شروع کردیا، روبوٹ کو ڈاکٹر بی ٹو کا نام دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر بی ٹو کرونا کے مریضوں کی صحت نگہداشت پر مامور ہے، یہ کیمروں کی مدد سے مہلک وائرس کے مریضوں کے احوال، مریضوں کی حالت اور علامتوں کی تشخیص کر لیتا ہے جبکہ ان کی بدلتی ہوئی حالت بھی ریکارڈ کرتا رہتا ہے۔
روبوٹ کیمروں سے آراستہ ہے، اس میں مریضوں کی جسمانی حالت ریکارڈ کرنے والی ٹیکنالوجی سے آراستہ خود کار آلہ نصب ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ کرونا وائرس مریض سے ڈاکٹر، نرس یا معاون طبی عملے میں منتقل نہیں ہوتا۔
وزارت صحت کے مطابق کنگ سلمان اسپتال میں روبوٹ ڈاکٹر بی ٹو کا تجربہ کامیاب ہونے پر دیگر اسپتالوں میں بھی روبوٹ کا استعمال عام کردیا جائے گا۔
بیجنگ: کروناوائرس کے پیش نظر چین میں جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسا روبوٹ کیا گیا ہے جو ڈاکٹرز کی طرح ذمے داریاں نبھا سکتا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کی سرفہرست جامعات میں شامل ڈیزائنر چینہوا یونیورسٹی کے محققین نے ایسا روبوٹ تیار کیا ہے جو اسپتالوں میں کروناوائرس سے لڑنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔
مذکورہ روبوٹ میں مریض کا الٹرا ساؤنڈ کرنے، جسم کے مختلف اعضا کی آوازیں سننے سمیت منہ کا معائندہ کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔ ’’اسٹیسی اسکوپ‘‘ سے لیے جانے والے تمام کام یہ روبوٹ کرسکتا ہے۔
روبوٹ میں دو بازؤں کے علاوہ جدید کیمرے بھی نصب ہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسر ژینگ کا کہنا ہے کہ مذکورہ روبوٹ کو ایسے مشن سونپے جاسکتے ہیں جس میں ڈاکٹروں کا مریض کے پاس جانا خطرے کا باعث ہو۔
خیال رہے کہ پروفیسر کو اس قسم کا روبوٹ ڈیرائن کرنے کا خیال پہلی مرتبہ ووہان میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران آیا جہاں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا تھا۔
کروناوائرس کے مریضوں کے پاس جاکر علاج کرنے والے متعدد ڈاکٹر بھی مہلک وائرس کا شکار ہوئے۔ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اس روبوٹ کو کروناوائرس کے مریضوں کے پاس بھیج کر بنیادی معائنے بھی کیے جاسکتے ہیں۔