Tag: روحانیت

  • مٹ مٹی!

    مٹ مٹی!

    معلوم ہوا کہ ہدایت جہاں سے ملنی ہوتی ہے، وہیں سے ملتی ہے۔ جہاں کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی نگاہ کام نہیں کرتی وہاں کسی انتہائی گنہگار، بدکار اور برے انسان کی بات بول کام کر جاتے ہیں۔

    ماں باپ کہتے کہتے تھک ہار، عاجز آ جاتے ہیں مگر وہی بات کوئی سجن بیلی کہہ دیتا ہے تو فوراً مان لی جاتی ہے۔

    بڑے بڑے قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں، معالجوں سے افاقہ نہیں ملتا اور فٹ پاتھ پہ بیٹھنے والے اتائی حکیم سے شفا نصیب ہو جاتی ہے۔

    میں نے پڑھا ہے اور بار بار میرے تجربے مشاہدے میں آیا ہے کہ اچھوں، نیکوں اور حاجیوں نمازیوں سے کہیں زیادہ گنہگاروں، خطاکاروں اور بروں کی بات میں اثر ہوتا ہے، وہ زیادہ دل پذیر اور دل نشین ہوتی ہیں۔

    بظاہر برے، بدمعاش، اجڑے ہوئے اور شرابی کبابی لوگ اچھوں، نیکوں سے کہیں بڑھ کر وفادار اور وقت پہ کام آنے والے ہوتے ہیں۔ اکثر اچھوں اور نیکوں کے ہاں اپنی پاک طینتی اور دین داری کا زعم و مان ہوتا ہے اور بروں، بد کاروں، گنہگاروں کے ہاں عجز ہی عجز، شرمندگی ہی شرمندگی اور ہر وقت خود پہ لعن طعن اور توبہ استغفار ہوتی ہے۔

    بس یہی شرم اور خود کو مٹ مٹی سمجھنا ہی میرے اللہ کو پسند ہے۔ کہتے ہیں کہ اتنے خالی پیٹ والے بیمار نہیں ہوتے جتنے کہ خوب بھرے ہوئے پیٹ والے بیمار ہوتے یا مرتے ہیں۔ اس طرح کبھی کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھو۔ خود کو نیک، اچھا، عبادت گزار، ولی اللہ اور دوسروں کو برا نہ کہو کہ کون جانے، کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا؟ بقول شخصے ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔

    (محمد یحیٰی خان کی کتاب "پیا رنگ کالا” سے اقتباس)

  • کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت دنیا بھر میں مختلف خلائی ادارے خلا میں جانے اور وہاں نئی نئی ریسرچز کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایسے میں خلا میں جانے والے زمینی باشندوں کے جسم پر پڑنے والے اثرات کا بھی بغور مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

    یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ خلا میں جانے کے بعد خلا بازوں کے جسم اور دماغ پر مختلف اثرات رونما ہوتے ہیں جو زمین پر واپسی کے کچھ عرصے تک قائم رہتے ہیں۔

    جسمانی تبدیلیوں کے علاوہ ان کے ذہن و نفسیات میں بھی مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    بعض بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق خلا میں جانے والے خلا باز اپنے سفر کے دوران مذہب اور روحانیت کی طرف بھی مائل ہوجاتے ہیں۔

    خلا میں جانے والے پہلے امریکی جان گلین نے، جو خلا میں جانے والے دنیا کے تیسرے شخص تھے، اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ کوئی مذہبی انسان نہیں تھے تاہم جب وہ خلا میں تھے تب باقاعدگی سے عبادت کرنے لگے تھے۔

    جان کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ جب آپ عقل سے ماورا ایک غیر معمولی مقام پر ہوں اور کائنات کی بے کراں وسعت کو دیکھ سکتے ہوں، تو ایسے میں آپ خدا کو نہ یاد کریں، اگر آپ خدا کو نہ بھی مانتے ہوں گے تو ایسے موقع پر اس کے جاہ و جلال پر ایمان لے آئیں گے۔

    سنہ 1968 میں اپالو 8 مشن پر چاند پر جانے والے امریکی و برطانوی خلا بازوں نے بھی اپنی منزل پر پہنچ کر بائبل کی آیات پڑھیں جنہیں پوری دنیا نے براہ راست ٹی وی نشریات پر دیکھا۔

    اسی طرح چاند پر قدم رکھنے والے اولین انسانوں نیل آرمسٹرونگ اور بز آلڈرن نے بھی چاند پر پہنچ کر سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور عبادت کی۔

    سنہ 1985 میں سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز خلا میں جانے والے پہلے مسلمان بنے جنہوں نے زمین کے مدار کے گرد چکر لگاتے ہوئے قرآنی آیات کی تلاوت کی۔

    شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز

    مذہب کا یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا، خلائی سفر سے واپسی کے بعد خلا بازوں کی زندگی میں عظیم تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کئی خلاباز ایسے تھے جو ریٹائر ہونے کے بعد مذہبی سرگرمیوں و مذہبی ریسرچ سے وابستہ ہوگئے۔

    ناسا نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ خلا سے واپسی کے بعد خلا باز عموماً روحانیت اور فلاح انسانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔

    زمین سے دور اندھیرے اور لامحدود خلا میں رہنا انہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ خدا نے انہیں زمین جیسی نہایت خوبصورت نعمت سے نواز رکھا ہے۔

    اکثر خلا باز اپنے انٹرویوز میں یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ وہ جنگوں اور خونریزی سے نفرت کرنے لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام انسان امن اور محبت سے رہیں۔

    خلا بازوں کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں دنیا کے صاحب ثروت اور مراعات یافتہ افراد، مشکلات کا شکار افراد کی مدد کریں کیونکہ وہ سب ایک خاندان کی طرح ہیں جنہیں خدا نے اس زمین پر اتارا ہے۔

    اکثر خلا بازوں نے کہا کہ زمین جیسی خوبصورت نعمت کے ہوتے ہوئے نفرت کا پرچار کرنا، دوسرے انسانوں کو اپنے سے کمتر سمجھنا اور زمین کی خوبصورتی کو تباہ کرنا کفران نعمت ہے، زمین دنیا کے تمام انسانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے اور سب کو اس کی قدر کرنی چاہیئے۔

  • کیکٹس: خدا سے رابطے میں‌ مددگار پودا

    کیکٹس: خدا سے رابطے میں‌ مددگار پودا

    دنیا بھر میں نباتات کی لاتعداد اقسام پائی جاتی ہیں جو خوش رنگ، خوش بُو دار اور بعض عجیب الخلقت یا بدصورت بھی ہیں۔ تاہم یہ سب اس کارخانۂ قدرت میں انسان کے لیے کسی نہ کسی طرح مفید اور کارآمد ضرور ہیں۔

     

    پھول اور پودے ہمیشہ سے انسان کو فرحت و تازگی بخشنے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے اور تکالیف و امراض سے انھیں‌ نجات دینے میں بھی مددگار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انھیں عبادت اور عقیدت کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

     

    کیکٹس کا پودا دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ صحراؤں، خشک پہاڑوں اور بنجر زمین پر پائے جاتے ہیں۔ برصغیر میں کیکٹس کی متعدد اقسام میں ناگ پھنی زیادہ معروف ہے۔ تھوہڑ اور چھتر تھور بھی ہمارے یہاں اس پودے کی مخصوص قسم کے لیے بولا جاتا ہے۔

     

     

    یہ بات شاید آپ کے لیے نئی ہو کہ ناگ پھنی سے کچھ قبائل روحانی لگاؤ رکھتے ہیں اور اسے مقدس مانتے ہیں۔
    میکسیکو اور شمالی امریکا کے کچھ قبائلیوں کے نزدیک یہ مقدس پودا ہے جو خدا سے رابطے میں مدد دیتا ہے۔ یہ قبائلی کیکٹس کی مخصوص قسم سے دعائیہ رسمیں ادا کرتے ہیں اور یہ ان کی تمام دعائیہ تقریبات کا اہم حصّہ ہوتا ہے۔

     

    کیکٹس کے پودے پانی کی بہت کم مقدار کے ساتھ بھی پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ اس پودے کی ہزاروں اقسام ہیں جن کی پہچان عام لوگوں کے لیے مشکل ہے۔

    کیکٹس کی ایک قسم یعنی ناگ پھنی چھوٹا اور بغیر گٹھلی کا پودا ہے جو امریکی ریاست ٹیکساس کے جنوب مغربی علاقوں اور میکسیکو کے صحرائی علاقے میں ملتا ہے۔