Tag: روسی ادب

  • ڈاکیے کا تھیلا

    ڈاکیے کا تھیلا

    کولیا ایک خوش مزاج، مگر غائب دماغ لڑکا تھا۔ اس نے پیٹرزبرگ میں اپنی دادی کو ایک بہت اچھا خط لکھا۔ جس میں انہیں برائٹ ہالیڈے کی مبارکباد دی، اپنے گاؤں کی زندگی کے بارے میں بتایا، اور یہ کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، وہ اپنا وقت کیسے گزارتا ہے، سب تفصیل سے بیان کیا۔

    ایک جملے میں بس یہ کہا جا سکتا تھا کہ خط بہت اچھا لکھا گیا تھا، لیکن کولیا نے خط کے بجائے خالی کاغذ کی آدھی شیٹ لفافے میں ڈال دی اور خط اسی کتاب میں رہ گیا، جہاں اس نے رکھا تھا۔ اس نے لفافے پر ٹکٹ لگائے، صاف ستھری لکھائی میں پتہ لکھا اور ڈاک خانے کا رخ کیا، جہاں لفافے پر مہر لگائی گئی اور کاغذ کی ایک خالی آدھی شیٹ، کولیا کی دادی کو چھٹی کی مبارکباد دینے سینٹ پیٹرزبرگ روانہ ہوگئی۔

    کولیا کے خط نے پانچ سو میل کا فاصلہ سرپٹ دوڑتے ہوئے طے کیا جیسے کسی اہم کام کے لئے جلدی میں ہو۔ ابھی وہ یہاں ہے، ابھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اور کچھ دیر بعد ڈاکیے کے تھیلے میں، جو سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا، داخلی راستوں پر گھنٹی بجاتا اور گھروں پر خط بانٹتا چلا جا رہا تھا، لیکن کولیا کا لفافہ تھیلے میں خاموش نہیں تھا۔ وہ تمام خالی مخلوقات کی طرح بہت باتونی اور متجسس تھا۔

    ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ اور آپ میں کیا لکھا ہے؟“ کولیا کے خط نے اپنے پڑوسی سے پوچھا جو ویلم پیپر (چمڑے کی جھلی) سے بنا ایک موٹا اور خوبصورت لفافہ تھا۔ وہ ایک سرکاری مونو گرام سے آراستہ تھا، جس پر ایک شاہی تاج اور نقرئی سجاوٹ تھی۔

    خوش نما خط نے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ اس نے پہلے یہ جانچا کہ اس کا مخاطب کس حیثیت کا مالک ہے، اور یہ دیکھ کر کہ جس گستاخ نے اس کے ساتھ بات کرنے کی جسارت کی ہے وہ ایک صاف اور خوبصورت لفافہ ہے۔ اس نے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    ”میرے پیارے بچے! مجھ پر لکھے گئے پتے سے آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ میں ایک بہت ہی اہم شخص کے پاس جا رہا ہوں۔ ذرا تصور کریں کہ میرے لیے اس اندھیرے اور بدبو دار تھیلے میں لیٹنا کتنا دشوار ہے، خاص طور پر اس طرح کے لفافوں کے ساتھ جیسا میرا بایاں پڑوسی ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ آپ اس خاکی اور گندے بدصورت لفافے کو نہیں دیکھ سکتے، جسے موم کے بجائے بریڈ کرمب جیسی کسی چیز سے بند کیا گیا ہے اور ڈاک ٹکٹ کے بجائے اس پر فوجی مہر ہے اور اِس پر پتہ کیا ہے؟ …. یہ کہاں جا رہا ہے؟ بڑی بدخط تحریر ہے….ہاں پیٹرزبرگ کی طرف، کچی گلی تک، اور یہاں تک کہ تہ خانے تک، افف… کیسی بے بسی ہے۔ ایسے پڑوسی کے پاس خود کو گندا ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا۔“

    ”یہ میری غلطی نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک ساتھ رکھ دیا ہے۔ “ سپاہی کے خط نے غصیلے لہجے میں جواب دیا۔ ”اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ جیسے شاندار، لیکن خالی اور احمق لفافے کا قرب میرے لیے بیزار کن ہے۔ آپ کا اوپری پیرہن اچھا ہے، لیکن اندر کیا ہے؟ تمام بناوٹی جملے جن میں ایک لفظ بھی سچائی نہیں ہے۔ جس نے آپ کو لکھا، وہ اس شخص کی دل سے عزت نہیں کرتا، جس کے لیے آپ کو لکھا گیا ہے، پھر بھی نیک تمنائیں، دلی مبارکباد اور آخر میں گہرا احترام اور عقیدت۔ حالاں کہ یہ سب بکواس ہے۔ یہاں نہ عزت ہے اور نہ عقیدت، اگر آپ اس عاجز بندے سے کوئی کام کہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس فرض شناسی اور احترام کی خوشبو کیسی ہے۔“

    ”بدتمیز! جاہل! تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی؟ میں حیران ہوں کہ ڈاکیا تم کو اتنا بے غیرت ہونے کی وجہ سے سڑک پر کیوں نہیں پھینک دیتا، ذرا میرے کوٹ آف آرمز کو دیکھو۔ “

    ”کیا ہتھیاروں کا کوٹ؟“ سپاہی کے خط نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔ ”آپ کا کوٹ اچھا ہے، لیکن ہتھیاروں کے کوٹ کے نیچے کیا ہے؟ بے روح اور بناوٹی جملے، سچ کا ایک قطرہ بھی نہیں، سب جھوٹ، نخوت اور تکبر ہے۔“ مہر والا لفافہ غصے سے پھٹنے کے لیے تیار تھا اور شاید وہ پھٹ جاتا۔ اگر اسی لمحے ڈاکیہ اسے تھیلے سے نکال کر ایک عالیشان سنہرے دروازے پر کھڑے دربان کے حوالے نہ کر دیتا۔

    ”خدا کا شکر ہے کہ ایک بیوقوف کم ہوا۔ “ سپاہی کے خط نے بات جاری رکھی۔ ”وہ گاؤدی اور مغرور اس بات پر ناراض ہو رہا ہے کہ وہ میرے ساتھ پڑا ہے… کاش اسے معلوم ہوتا کہ میرے اندر کیا لکھا ہے۔ “

    کولیا کے خط نے جب خود کو اس خاکی لفافے کے ساتھ پایا جس پر فوجی مہر لگی تھی تو تجسس سے پوچھا۔ ”تم میں کیا لکھا ہے؟“

    ”میرے پیارے ملنسار دوست! میں بتاتا ہوں کہ مجھ میں کیا لکھا ہے۔ میں ایک غریب اور خستہ حال بوڑھی عورت کو یہ خبر پہنچانے جارہا ہوں کہ اس کا بیٹا زندہ ہے۔ جب سے وہ فوج میں بھرتی ہوا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ دس سال ہوگئے ہیں۔ وہ زندہ ہے، خیریت سے ہے اور جلد ہی چھٹی پر گھر آئے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں بری سگ ماہی موم سے بند ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس مہر بند موم کو توڑتے ہوئے بوڑھی عورت کا ہاتھ کیسے کانپے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں خراب لکھائی میں تحریر کیا گیا ہوں، لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، مجھے ایک سپاہی نے لکھا ہے جس نے یہ فن خود ایک خراب قلم سے سیکھا اور سب سے گھٹیا خاکی کاغذ استعمال کیا، لیکن اگر آپ دیکھ سکتے کہ اس کی آنکھوں سے کیسے ایک گرم آنسو نکلا اور مجھ پر آگرا۔ ایک شاندار آنسو، میں اسے احتیاط سے اس کی ماں کے پاس لے جا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک پرجوش استقبال میرا منتظر ہے۔ اس مغرور آدمی کی طرح نہیں جو خدا کا شکر ہے کہ چلا گیا ہے۔ وہ بمشکل اسے دیکھتے ہیں، پھر اسے پھاڑ کر پہلے میز کے نیچے اور پھر کچرے کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ اس مکتوب نگار کی ماں میرے ہر ہر لفظ پر گرم آنسو بہائے گی۔ وہ مجھے ہزار بار پڑھے گی، ہزار بار پیار سے اپنے سینے سے لگائے گی، پھر وہ مہربان ماں مجھے اپنے سینے میں چھپالے گی۔ اوہ یہ بے صبرا ڈاکیا! …. مجھے کتنی جلدی لے جارہا ہے۔“

    ”تم کہاں جا رہے ہو اور تم میں کیا لکھا ہے؟“ متجسس کولیا کے خط نے اپنے نئے پڑوسی سیاہ مہر والے خط کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ”میری مہر کے رنگ سے اندازہ کرو۔ “اس نے جواب دیا۔ ”تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک افسوسناک خبر لایا ہوں۔ غریب لڑکا جو ہسپتال میں ہے مجھے پڑھ کر جانے گا کہ اس کا باپ مرگیا ہے۔ میں بھی آنسوؤں میں بھیگا ہوا ہوں، لیکن یہ خوشی کے آنسو نہیں ہیں۔ میں ایک عورت کے کانپتے ہاتھ سے لکھا گیا جس نے اپنے پیارے شوہر کو کھو دیا ہے، ایک ماں کا ہاتھ جو اپنے بیمار بیٹے کو بتا رہا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو کھو دیا ہے۔ بیچارہ وانیا! وہ اس جاں گسل خبر کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ میں تصور کرتا ہوں کہ جب وہ میری منحوس مہر کو دیکھے گا تو کتنا خوفزدہ ہوگا، جب وہ مجھ میں لکھی خوفناک خبر پڑھے گا تو وہ کتنا کانپے گا، کیسے تکیے پر منہ کے بل گرے گا اور آنسو بہائے گا۔ آہ! اس طرح کی خبروں کے ہمراہ جانے سے بہتر ہے کہ میں زمین میں دفن ہوجاؤں۔ “

    کسی تعلیمی ادارے کے قریب رک کر ڈاکیے نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور کالی مہر والا اداس خط نکال لیا۔ کولیا نے اپنے آپ کو ایک نئے پڑوسی کے ساتھ پایا جو بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔

    ”ہاہاہا۔ ۔ ۔ ۔ “ اس نے کولیا کے خط کا قہقہہ لگا کر جواب دیا۔ ”کاش تم کو معلوم ہوتا کہ مجھ میں کیا مزاحیہ باتیں لکھی گئی ہیں؟ میرا مکتوب نگار ایک خوش مزاج آدمی ہے۔ میں جانتا ہوں جو مجھے پڑھے گا وہ ضرور ہنسے گا۔ اگرچہ مجھ میں تمام الم غلم باتیں لکھی ہوئی ہیں، لیکن وہ سب مضحکہ خیز ہیں۔ “

    دوسرے خطوط نے بھی ان کی گفتگو سن کر اس میں فرداً فرداً حصہ لیا۔ ہر کوئی اس بات کا اظہار کرنے کی جلدی میں تھا کہ وہ کیا خبر لے جارہا ہے۔

    ’’میں ایک امیر سوداگر کے لیے خبر لا رہا ہوں کہ اس کا سامان گراں قدر نرخوں پر فروخت ہوا ہے۔ “

    ”میں دوسرے کو بتا رہا ہوں کہ وہ دیوالیہ ہو گیا ہے۔“

    ”میں واسیا کو سرزنش کرنے جا رہا ہوں کہ اس نے اتنے عرصے سے اپنے والدین کو خط کیوں نہیں لکھا۔“

    بہرکیف وہ سب خطوط ڈاکیے کے تھیلے میں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران وہ سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا رہا اور خوشی اور غم، ہنسی اور اداسی، محبت اور غصہ، دوستی اور نفرت، سچ اور جھوٹ، اہم اور احمقانہ خبریں، اور بے روح جملے گھر گھر پہنچاتا رہا۔

    آخر کار کولیا کے خط کی باری بھی آگئی۔ ڈاکیے نے چوکیدار کو، چوکیدار نے نوکرانی کو، نوکرانی نے بوڑھی دادی کو خط دیا، جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھیں اور آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک لگائے جرابیں بن رہی تھیں۔ دادی نے خط کھولا، ایک خالی شیٹ نمودار ہوئی، انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا احمقانہ مذاق کس نے کیا ہے۔

    (روسی ادب سے ترجمہ)

  • ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف روس کا عظیم ڈراما نویس، ناول اور افسانہ نگار تھا جس کی تحریروں سے اپنے وقت کے بڑے بڑے دانش ور اور اہلِ قلم متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ ایسا ادیب تھا جسے اس کی تخلیقات ہی نہیں انسان دوستی اور افکار کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

    ترگنیف کا یہ تذکرہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں، احمد عقیل روبی کے قلم کی نوک سے نکلا ہے۔ وہ ایک باکمال ادیب، شاعر اور بہترین مترجم تھے جن کا غیرملکی ادب کا مطالعہ حیرت انگیز تھا۔ ایوان ترگنیف کی زندگی اور اس کے تخلیقی سفر کے بارے میں احمد عقیل روبی کی یہ تحریر پُرلطف اور دل چسپ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ماں کی ممتا پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بچے کو زندگی دیتی ہے، اسے بولنا، چلنا، زندگی کو ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی ماں بچے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ بچے کو اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتی۔ من مانی پر اتر آتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور آخر کار بچہ بغاوت کر دیتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی ہے۔ ماں غصیلی تھی، چڑ چڑاپن اپنے عروج پر تھا۔ اس پر جب غصے کا بھوت سوار ہوتا تو وہ لارڈ بائرن کے بال نوچتی، اسے بری طرح مارتی، بائرن اس سے ہر پل خائف رہتا تھا۔ جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھی اس سے اکثر پوچھتے تھے:’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن کو اس بات کا بڑا افسوس تھا۔ اسے بچپن میں ماں کا پیار نہ ملا۔ وہ ساری عمر اپنی محبوباؤں میں ماں کا پیار تلاش کرتا رہا۔ فرانسیسی ناول نگار گستاؤ فلابیئر کے ساتھ الٹا حساب ہوا۔ فلابیئر کی ماں نے اسے اتنا پیار دیا، اتنی توجہ دی کہ فلابیئر کی زندگی برباد کر دی اور ساری عمر ماں کی بغل میں سمٹ کر بیٹھا رہا۔ نہ کسی عورت سے شادی کر سکا، نہ کھل کے محبت کر سکا۔ اگر کبھی شادی کے لئے دل نے رضا مندی ظاہر بھی کی تو محبوبہ کو چھوڑ کر ماں کے پاس چلا آیا۔ ماں اس کی کمزوری بن گئی۔ کھانا، پینا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، سب کچھ ماں کے اشارے پر کرتا تھا۔ گاؤں سے کبھی پیرس گیا، اپنی محبوبہ سے ملا۔ ماں یاد آ گئی تو پیرس سے بھاگ کر گاؤں چلا آیا۔ ایک بار اس کی شاعر محبوبہ نے اس سے کہا:’’تمہاری ماں تمہاری ایسے دیکھ بھال کرتی ہے جیسے تم کوئی کنواری لڑکی ہو۔‘‘ یہی حال ترگنیف کا تھا لیکن اس نے اپنی ماں سے کھل کر اختلاف کیا۔

    اس کی ماں بہت بڑی جاگیر کی وارث تھی۔ اس کی جاگیر میں 5000 غلام (Serfs) تھے۔ ان پر وہ دل کھول کر ظلم کرتی تھی۔ ہلکی سی غلطی پر انہیں کوڑوں سے مارتی۔ ترگنیف کو ماں کی اس عادت سے نفرت تھی۔ یہ نفرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔ وہ ماں سے اختلاف کرتا رہا۔ وہ اپنے غلاموں کو انسانی حقوق دینا چاہتا تھا۔ ماں اس پر رضامند نہ تھی۔ وہ اذیت پسند تھی۔ ترگنیف اس کی اس عادت سے بیزار رہتا تھا۔ 1834ء میں ترگنیف کا باپ مر گیا جو روسی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔ ترگنیف کی ماں کے لیے اب کھلا میدان تھا‘ اس نے جی بھر کے غلاموں پر تشدد کیا۔ ترگنیف نے کبھی دبے الفاظ میں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو ماں نے اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ترگنیف کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا‘ وہ خاموشی سے ماں کی بات مانتا رہا مگر ترگنیف نے ماں کے ظالمانہ سلوک کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔

    18ء اکتوبر 1818ء کو (Oral) شہر میں ایک امیر خاندان کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماں Varvara Petr شاعرانہ اور ادبی ذوق رکھنے والی ایک رئیس اور اذیت پسند خاتون تھی۔ترگنیف یورپ اور فرانس کے ادیبوں میں بہت مقبول تھا۔ فلابیئر کے ساتھ اس کے بہت گہرے مراسم تھے۔ ترگنیف اپنا زیادہ وقت فرانس ہی میں گزارتا تھا۔ روس کے ادیب، جن میں ٹالسٹائی بھی شامل تھا، اس کی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ روس کے ادیبوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ ترگنیف کو روس سے کوئی دل چسپی نہیں، وہ ذہنی طور پر ’’یورپ زدہ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ترگنیف کی تحریروں سے واضح ہے کہ اسے روس سے بہت محبت تھی۔ روس کے کسانوں اور دیہات میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار پر اس کا دل لہو روتا۔ روس کے ادیب صرف حسد میں یہ باتیں کرتے تھے کیونکہ یورپ اور دیگر ممالک میں ترگنیف اپنے تمام ہمعصر لکھنے والوں سے زیادہ مقبول تھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ (Fathers and Sons) ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے۔ یہ ناول 1862ء میں چھپا۔ اس ناول کا ہیرو بازووف 1860ء کی نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نوجوان Nihilist تحریک سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب سمیت تمام پرانے عقائد اور اداروں کو رَد کرتی ہے۔ مغربی یورپ میں اسے پہلے روسی ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔

    ترگنیف بحیثیت شاعر تو نا کام رہا لیکن بحیثیت ناول نگار اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اسے ’’ناول نگاروں کا ناول نگار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بازووف ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو مر کر بھی زندہ رہی جس نے اپنے آپ کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا، جس نسل کے خیالات ان کی بزرگ نسل نہ سمجھ سکی۔

    ترگنیف بلاشبہ ایک ایسا ناول نگار تھا جس نے ہمیں بتلایا کہ زندگی کیا ہے۔ انسان کی مختلف پرتیں کیا ہیں۔ وہ کیا ہے جو تاریخ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ بھید کیا ہے جو انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ قاری اگر ترگنیف کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کا ان تمام چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔

    (ادبی اقتباسات)

  • شکاری (عالمی ادب سے انتخاب)

    شکاری (عالمی ادب سے انتخاب)

    مرطوب، حبس آلود دوپہر۔ آسمان پر بادل کی کترن تک نہیں۔ دھوپ میں پکی ہوئی گھاس تھکی ماندی، مایوس دکھائی دے رہی ہے، جیسے اگر بارش ہو بھی جائے تب بھی یہ کبھی سرسبز نہیں ہو سکے گی۔ جنگل خاموش، ساکت کھڑا ہے، جیسے درختوں کے اوپر سے کسی کی راہ تک رہا ہے، یا اسے کسی بات کی امید ہے۔

    میدان کے کنارے پر ایک لمبا تڑنگا، تنگ شانوں والا مرد، جس کی عمر 40 کے قریب ہو گی، اس نے سرخ قمیص اور پیوند لگی پتلون پہن رکھی تھی جو کسی زمانے میں کسی زمیندار کی رہی ہو گی۔ اس کے پاؤں میں لمبے بوٹ تھے اور وہ سست روی سے قدم گھسیٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ دائیں طرف سبزہ تھا، بائیں جانب پکی ہوئی رائی کا سنہرا سمندر جو افق تک پھیل گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا جس سے پسینہ بہہ رہا تھا، اس کے خوبصورت بھورے سر پر سفید ٹوپی ایک ادا سے لہرا رہی تھی، جس پر گھڑ سواروں کی سی کھڑی کلغی تھی اور جو واضح طور پر کسی فراخ دل نوجوان رئیس کا تحفہ لگتی تھی۔

    اس کے کندھوں سے ایک شکاری تھیلا لٹک رہا تھا جس میں ایک سیاہ جنگلی مرغ تھا۔ آدمی نے ہاتھوں میں دو نالی بندوق تھام رکھی تھی۔ اس نے اپنے کتے کی طرف آنکھیں سکیڑیں جو اس سے آگے آگے جھاڑیاں سونگھتا چلا جا رہا تھا۔ ہر طرف سکوت تھا، کہیں کوئی آواز نہیں۔ ہر زندہ چیز گرمی سے ڈر کر چھپی ہوئی تھی۔

    ’یگور ولاسچ!‘ شکاری نے یکایک ایک نرم آواز سنی۔ وہ چونک گیا۔ گھوم کر دیکھا تو اس کی تیوری چڑھ گئی۔ اس کے قریب ہی ایک تیس سالہ سفید رو عورت درانتی ہاتھ میں تھامے کھڑی تھی جیسے یکایک زمین سے اگ آئی ہو۔ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر شرماتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔

    ’اوہ، یہ تم ہو پیلاگیا!‘ شکاری نے رکتے ہوئے اور جان بوجھ کر بندوق کا گھوڑا چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’ہم م م ۔۔۔ تم یہاں کیسے آئیں؟‘

    ’ہمارے گاؤں کی عورتیں یہاں کام کر رہی ہیں، میں انھی کے ساتھ آئی ہوں ۔۔۔ بطور مزدور، یگور ولاسچ۔‘

    ’اوہ ۔۔۔ یگور ولاسچ نے کہا اور آہستگی سے چلنا شروع کر دیا۔

    پیلاگیا اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ وہ بیس قدم خاموشی سے چلتے گئے۔

    ’تمھیں دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا، یگور ولاسچ۔۔۔‘ پیلاگیا نے شکاری کے ہلتے ہوئے شانوں کی طرف ملائمت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’میں نے تمھیں اس وقت سے نہیں دیکھا جب تم ایسٹر کے دن ہماری جھونپڑی میں پانی پینے آئے تھے۔۔۔ تم ایسٹر کے دن ایک لمحے کے لیے آئے اور پھر خدا جانتا ہے کیسے ۔۔۔ نشے میں ۔۔۔ تم نے مجھے ڈانٹا اور مارا پیٹا، اور پھر چل دیے ۔۔۔ میں انتظار کرتی رہی، انتظار کرتی رہی ۔۔۔ میں نے تمھاری راہ تکتے تکتے آنکھیں تھکا لیں۔ آہ، یگور ولاسچ! تم ایک بار تو آ کر دیکھ لیتے!‘

    ’میرے لیے وہاں کیا دھرا ہے؟‘

    ’تمھارے لیے وہاں بالکل کچھ نہیں دھرا ۔۔۔ لیکن پھر بھی ۔۔۔ وہاں ایک جگہ ہے جس کی دیکھ بھال کرنی ہے ۔۔۔ یہ دیکھنا ہے کہ کیا حالات ہیں ۔۔۔ تم مالک ہو ۔۔۔ میں کہتی ہوں، تم نے ایک سیاہ مرغ مارا ہے، یگور ولاسچ! تم بیٹھ کر تھوڑا آرام ہی کر لو۔‘

    یہ کہتے ہوئے پیلاگیا کسی نادان لڑکی کی طرح ہنس دی۔ اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اس نے یگور کی طرف دیکھا۔

    ’بیٹھ جاؤں؟ اگر تم چاہو ۔۔۔‘ یگور نے لاپروایانہ انداز سے کہا، اور فر کے دو درختوں کے نیچے ایک جگہ منتخب کر کے بیٹھ گیا۔ ’تم کیوں کھڑی ہو؟ تم بھی بیٹھ جاؤ۔‘

    پیلاگیا تھوڑا سا ہٹ کر دھوپ میں بیٹھ گئی۔ اپنی خوشی سے شرمسار، اس نے اپنے مسکراتے ہوئے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ دو منٹ خاموشی سے گزر گئے۔

    ’تم ایک بار تو آ سکتے ہو،‘ پیلاگیا نے کہا۔

    ’کس لیے؟‘ یگور نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ٹوپی اتار کر اس نے ہاتھ سے اپنا سرخ ماتھا پونچھا۔ ’میرے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایک دو گھنٹوں کے لیے آنے سے وقت ہی ضائع ہو گا۔ اس سے تم خود بھی پریشان ہو گی، اور گاؤں میں مستقل رہنا میری روح کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گا۔۔۔ تم خود جانتی ہو کہ میں ناز پروردہ ہوں۔۔۔ مجھے سونے کے لیے بستر چاہیے، پینے کے لیے عمدہ چائے، بولنے کے لیے اچھی گفتگو کرنے والے۔۔۔ مجھے یہ ساری نفیس چیزیں چاہییں، جب کہ تم گاؤں میں غربت اور گند میں رہتی ہو۔۔۔ میں اسے ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ فرض کرو ایسا کوئی حکم نامہ جاری ہو جائے کہ مجھے لازماً تمھارے ساتھ ہی رہنا پڑے، تو میں یا تو جھونپڑی کو آگ لگا دوں، یا خود کو کچھ کر بیٹھوں۔ لڑکپن ہی سے مجھے ایسی ہی سہولیات سے پیار تھا، اب اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

    ’تم کہاں رہ رہے ہو؟‘

    ’یہاں کے زمیندار دمتری ایوانِچ کے ساتھ، بطور شکاری۔ میں اس کے کھانے کی میز کے لیے شکار مار کر لاتا ہوں، لیکن اس نے مجھے۔۔۔ کسی اور چیز سے زیادہ مجھے اپنی تفریح کے لیے رکھا ہوا ہے۔‘

    ’تم کوئی اچھا کام نہیں کر رہے، یگور ولاسچ۔۔۔ دوسرے لوگوں کے لیے شکار مشغلہ ہو گا، لیکن تمھارے لیے کام ہے۔۔۔ جیسے مزدوری۔‘

    ’تم نہیں سمجھتیں، بےوقوف،‘ یگور نے آسمان کی طرف مایوسی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’تم کبھی سمجھیں ہی نہیں، اور جب تک تم زندہ ہو، کبھی جان نہیں سکو گی کہ میں کس قسم کا انسان ہوں۔۔۔ تم مجھے احمق سمجھتی ہو، جو برے راستے پر چل نکلا ہے، لیکن جو کوئی بھی مجھے سمجھتا ہے، وہ مجھے پورے ضلعے میں سب سے اچھا انسان مانتا ہے۔ زمیندار بھی یہی مانتے ہیں، اور انھوں نے میرے متعلق ایک رسالے میں بھی ایسی ہی خبریں چھاپ رکھی ہیں۔ بطور شکاری کوئی میری ٹکر کا نہیں۔۔۔ اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں نازپروردہ یا مغرور ہوں یا میں تمھارے گاؤں کی زندگی کو حقارت سے دیکھتا ہوں۔۔۔ تم جانتی ہو کہ بچپن ہی سے مجھے بندوقوں اور کتوں کے علاوہ کسی اور چیز کا شوق نہیں تھا۔ اگر کوئی میری بندوق مجھ سے لے لیتا تو میں مچھلی پکڑنے کا کانٹا لے کر نکل جاتا، اگر وہ کانٹا لے لیتے تو میں اپنے ہاتھوں سے چیزیں پکڑنے لگتا۔ اور میں گھوڑوں کی تجارت کرتا رہا، میرے پاس جب بھی پیسے ہوتے، میں میلوں ٹھیلوں میں چلا جاتا، اور تم جانتی ہو کہ اگر کوئی کسان شکاری یا گھوڑوں کا بیوپاری بن جائے تو پھر ہل کو خداحافظ۔ جب کسی آدمی میں آزادی کی ہوا سما جائے تو تم اسے اس کے اندر سے کبھی بھی نہیں نکال سکتیں۔ اسی طرح اگر کوئی رئیس اداکاری یا اسی طرح کی کوئی چیز شروع کر دے تو پھر وہ کبھی بھی کوئی افسر یا زمیندار نہیں رہ سکتا۔ تم عورت ہو، تم نہیں سمجھ سکتیں، لیکن تمھیں سمجھنا پڑے گا۔‘

    ’میں سمجھتی ہوں، یگور ولاسچ۔‘

    ’اگر تم نے رونا شروع کر دیا ہے تو تم نہیں سمجھیں۔۔۔‘

    ’میں رو نہیں رہی۔۔۔‘ پیلاگیا نے منھ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا۔ ’یہ گناہ ہے یگور ولاسچ! تم مجھ نصیبوں ماری کے ساتھ صرف ایک دن تو گزار سکتے ہو۔ میری تم سے شادی کو بارہ سال ہو گئے ہیں، اور۔۔۔ اور۔۔۔ ہمارے درمیان کبھی بھی محبت نہیں رہی!۔۔۔ میں۔۔۔ میں رو نہیں رہی۔‘

    ’محبت۔۔۔‘ یگور اپنا ہاتھ کھجاتے ہوئے بڑبڑایا۔ ’محبت ہو ہی نہیں سکتی۔ ہم صرف نام کے میاں بیوی ہیں، حقیقت میں نہیں۔ میں تمھاری نظر میں ایک وحشی انسان ہوں، اور میرے نزدیک تم ایک سادہ لوح دیہاتی عورت ہو جسے کسی چیز کی سمجھ نہیں۔ کیا ہمار جوڑ برابر ہے؟ میں ایک آزاد، نازپروردہ، عیاش آدمی ہوں۔ تم مزدور عورت ہو، جو چھال کے جوتے پہن کر چلتی ہے اور جس کی کمر ہمیشہ دہری رہتی ہے۔ میرا اپنے بارے میں خیال یہ ہے کہ میں ہر قسم کے کھیل میں اول نمبر ہوں، اور تم مجھے رحم کی نظروں سے دیکھتی ہو۔۔۔ کیا یہ کوئی جوڑ ہے؟‘

    ’لیکن ہم شادی شدہ ہیں، یگور ولاسچ،‘ پیلاگیا نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔

    ’اپنی مرضی سے شادی شدہ نہیں۔۔۔ تم بھول گئی ہو؟ نواب سرگے پائلووچ اور تم خود اس کے ذمہ دار ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ میرا نشانہ اس سے بہتر تھا، وہ حسد کے مارے مجھے ایک مہینے تک شراب پلاتا رہا، اور جب کوئی شخص نشے میں دھت ہو تو آپ اس کا مذہب تک تبدیل کروا سکتے ہیں، شادی تو معمولی چیز ہے۔ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے اس نے نشے کی حالت میں میری تم سے شادی کروا دی۔۔۔ شکاری کو چرواہی سے ملا دیا! تم نے دیکھ لیا تھا کہ میں نشے میں ہوں، پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟ تم تو اس کی مزارع نہیں تھیں، تم انکار کر سکتی تھیں، تم نہ کر سکتی تھیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ کسی چرواہی کی شکاری سے شادی اس کی خوش قسمتی ہے، لیکن تمھیں اس کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ ٹھیک ہے، اب غموں کی ماری بن جاؤ، روؤ۔ یہ نواب کے لیے مذاق تھا لیکن تمھارے لیے رونے کی بات ہے۔۔۔ اب دیوار سے ٹکریں مارو۔‘

    خاموشی چھا گئی۔ تین جنگلی مرغابیاں میدان کے اوپر سے گزریں۔ یگور نے نگاہوں سے ان کا پیچھا کیا، پھر وہ وہ تین بمشکل نظر آنے والوں نقطے بن کر جنگل کے پیچھے غائب ہو گئیں۔

    ’تمھاری گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟‘ اس نے مرغابیوں سے نظریں ہٹا کر پیلاگیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’میں کام کرتی ہوں۔ سردیوں میں میں فاؤنڈلنگ ہسپتال سے ایک بچہ لے آتی ہوں اور اسے بوتل سے دودھ پلاتی ہوں۔ مجھے اس کا مہینے کا ڈیڑھ روبل مل جاتا ہے۔‘

    ’اوہ۔۔۔‘

    دوبارہ خاموشی۔ گھاس کے کٹے ہوئے قطعے سے ایک سریلے گیت کی آواز بلند ہوئی، پھر جلد ہی دم توڑ گئی۔ گرمی کی شدت گلوکاری کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔

    ’سنا ہے تم نے اکولینا کے لیے نئی جھونپڑی ڈال رکھی ہے،‘ پیلاگیا نے کہا۔

    یگور کچھ نہیں بولا۔

    ’تو وہ تمھیں زیادہ پیاری ہے۔۔۔‘

    ’یہ تمھاری قسمت ہے، یہی نصیب ہے!‘ شکاری نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔ ’تمھیں گزارا کرنا پڑے گا۔ لیکن اب خداحافظ، گپ شپ میں پہلے ہی دیر ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے شام تک بولتوو پہنچنا ہے۔‘

    یگور اٹھا، انگڑائی لی اور بندوق کندھے پر ڈال لی۔ پیلاگیا بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

    ’تم گاؤں کب آؤ گے؟‘ اس نے ملائمت سے کہا۔

    ’وہاں آنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، میں وہاں ہوش کی حالت میں نہیں آؤں گا، اور نشے میں تمھیں مجھ سے کچھ نہیں ملے گا، میں نشے میں بہت کمینہ بن جاتا ہوں۔ خداحافظ!‘

    ’خداحافظ، یگور ولاسچ۔‘

    یگور نے سر پر ٹوپی سیدھی کی اور کتے کو بلا کر اپنی راہ پر چل دیا۔ پیلاگیا کھڑے اسے دیکھتی رہی۔۔۔ اس نے اس کے ہلتے ہوئے کندھے دیکھے، اس کی شوخ ٹوپی، اس کی لاپروایانہ، سست چال، اور اس کی آنکھیں غم اور ملائمت سے بھر گئیں۔۔۔ اس کی نگاہیں اپنے خاوند کے لمبے اور پتلے بدن پر جمی رہیں، اسے سہلاتی، تھپکتی رہیں۔۔۔ اس نے جیسے اس کی نظریں محسوس کر لیں، وہ رکا، مڑ کر دیکھا۔۔۔ منھ سے کچھ نہیں بولا، لیکن اس کے چہرے، اس کے اچکائے ہوئے کندھوں سے پیلاگیا کو احساس ہوا کہ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور متلاشی نظروں سے دیکھا۔

    ’یہ لے لو،‘ وہ مڑا۔

    اس نے ایک روبل کا مڑا تڑا نوٹ اسے تھما دیا اور تیزی سے چل پڑا۔

    ’خدا حافظ یگور ولاسچ،‘ اس نے مشینی انداز میں نوٹ لیتے ہوئے کہا۔

    وہ چمڑے کی تانت کی طرح تنا ہوا چلتا رہا۔ یہ بت کی طرح زرد اور ساکت کھڑی رہی، اس کی نظریں اس کے ہر قدم کا حساب لیتی رہیں۔ پھر اس کی سرخ قمیص گہرے رنگ کی پتلون میں مدغم ہوئی، قدم نظر آنا بند ہو گئے، پھر کتا بھی اس کے جوتوں کے ساتھ مل گیا۔ اب ٹوپی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اور۔۔۔ اچانک یگور تیزی سے میدان کی طرف مڑا اور اس کی ٹوپی سبزے میں غائب ہو گئی۔

    ’خداحافظ یگور ولاسچ،‘ پیلاگیا نے سرگوشی کی، اور اس کی سفید ٹوپی کی ایک اور جھلک دیکھنے کے لیے پنجوں کے بل کھڑی ہو گئی۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی جس کا انگریزی سے ترجمہ ظفر سید نے کیا ہے)

  • معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    چند دن پہلے کی بات ہے، میں نے اپنے بچّوں کی آیا (یولیا واسیلیونا) کو اپنے دفتر میں مدعو کیا تاکہ اس کی تنخواہ کی ادائیگی کی جا سکے۔

    میں نے یولیا واسیلیونا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیٹھو، تمھیں تنخواہ دینے سے پہلے تمھارے سامنے کچھ حساب رکھنا چاہتا ہوں… تمھیں شاید پیسوں کی ضرورت ہے، لیکن دو ماہ کی میرے ذمہ واجب الادا تنخواہ تم خود مانگتے ہوئے شرماتی کیوں ہو، سنو تمھیں یاد ہے نا کہ تمھیں ملازمت دینے سے پہلے ہم نے اتفاق کیا تھا کہ میں تمھیں ماہانہ تیس روبل ادا کروں گا۔

    یولیا واسیلیونا نے منمناتے ہوئے کہا چالیس روبل…

    نہیں، تیس… یہ دیکھو میرے پاس معاہدے کی تمام دستاویزات موجود ہیں جن پر تم نے انگوٹھا ثبت کر رکھا ہے۔ چالیس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، کیونکہ میں نے خادموں کو ہمیشہ بطور ماہانہ اجرت تیس روبل ہی دیے ہیں… ٹھیک ہے، تم نے ہمارے لیے دو مہینے کام کیا ہے… یولیا واسیلیونا نے کمزور سے لہجے میں کہا دو مہینے پانچ دن۔

    نہیں ٹھیک دو مہینے، یہ دیکھو تمھارا حاضری کارڈ۔ میرے پاس ہر چیز ریکارڈ میں موجود ہے، اس طرح طے شدہ تنخواہ کے حساب سے تو تم ساٹھ روبل کی مستحق ہو۔

    ہم اس میں سے نو اتوار کی چھٹیاں کاٹ لیتے ہیں، کیونکہ اتوار کو کولیا میری بیٹی کی چھٹی ہوتی تھی تو تم اس دن اسے لکھانے پڑھانے کی بجائے صرف اس کے ساتھ صبح اور شام کی سیر کے لیے جاتی تھی۔ پھر تم نے ذاتی کام کاج کے لیے تین دن کی چھٹیاں کی تھیں۔

    یولیا واسیلیونا کا چہرہ بے بسی کے مارے زرد ہوچکا تھا، اور وہ اپنی انگلیوں سے قمیص کے کناروں کو لپیٹ رہی تھی، لیکن اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

    نو اتوار کی چھٹیاں اور تمھاری اپنی تین چھٹیاں کاٹ لیں، تو بارہ ایام کے کل بارہ روبل بنتے ہیں… کولیا چار دن سے بیمار تھی اور اس دوران اسے کوئی سبق نہیں پڑھایا گیا… تم نے صرف وریا کو پڑھایا تھا… اور تین دن تمہارے دانتوں میں درد تھا، اس لیے میری بیوی نے تمہیں اجازت دی کہ دوپہر کے کھانے کے بعد پڑھانے کی بجائے آرام کرو۔

    تو بارہ جمع سات… انیس… کو منہا کیا، بقیہ… اکتالیس ۔۔۔ روبل.. ٹھیک ہے؟ یولیا واسیلیوینا کی بائیں آنکھ سرخ ہو گئی اور آنسوؤں سے بھر گئی، اور اس کے چہرے کے عضلات سکڑ گئے۔ وہ اچانک زور سے کھانسی اور الٹے ہاتھ کی پشت سے ناک کو پونچھا، لیکن… اس نے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالا۔

    نئے سال کی شام سے پہلے، تم نے ایک کپ اور ایک پلیٹ توڑ دی۔ اس کے لیے زیادہ نہیں میں صرف دو روبل کاٹ رہا ہوں حالانکہ کپ اس سے کہیں زیادہ مہنگا تھا، یہ وراثت میں ملا تھا، لیکن خیر خدا تمھیں معاف کرے! ہمیں ہر چیز کا معاوضہ تو دینا پڑتا ہے… ہاں، اور تمھاری لاپروائی کی وجہ سے، کولیا درخت پر چڑھ گئی اور اس کی جیکٹ پھٹ گئی۔
    قیمتی جیکٹ کے بدلے دس روبل کاٹ رہا ہوں… تمھاری غفلت کی وجہ سے نوکرانی نے وریا کا ایک جوتا چرا لیا، حالانکہ بچوں کے سامان کی حفاظت کرنا تمھارا فرض ہے جس سے تم نے کوتاہی برتی، اور تم اپنا فرض نبھانے کی ہی تنخواہ لیتی ہو۔

    اور اس طرح میں نے جوتوں کے بھی پانچ روبل کاٹ لیے۔ 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے۔ یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کے انداز میں کمزور سا احتجاج کیا: نہیں میں نے نہیں لیے!- لیکن یہ دیکھو اس تاریخ کو میرے حساب میں لکھا ہوا ہے، تم جانتی ہو حساب کتاب میں، مَیں کتنا اصول پسند ہوں۔

    اچھا ٹھیک ہے، لیے ہوں گے ،اب؟

    اکتالیس میں سے، ستائیس کاٹے تو… باقی چودہ بچ گئے ہیں۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور اس کی لمبی، خوبصورت ناک پر پسینے کے قطروں سے موتیوں کی مالا بن گئی تھی۔

    میں غریب لڑکی ہوں! اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا: میں نے فقط ایک بار ادھار لیا… وہ بھی میں نے آپ کی بیوی سے تین روبل لیے… اس کے علاوہ میں نے اور کچھ نہیں لیا۔

    کیا واقعی؟ دیکھو، مجھے تو ان تین روبل کا علم ہی نہیں تھا، نہ ہی حساب کتاب کے گوشواروں میں ان کا ذکر ہے۔ چودہ میں سے تین کاٹتے ہیں، اور باقی بچتے ہیں گیارہ روبل… یہ رہی تمھاری تنخواہ!

    تین.. تین.. تین.. ایک.. ایک.. آؤ آگے بڑھو، اور انہیں وصول کر کے تصدیقی انگوٹھا ثبت کر دو۔ اور میں نے گیارہ روبل اس کی طرف بڑھائے تو اس نے انہیں لے کر کانپتی انگلیوں سے اپنی جیب میں ڈالا اور سرگوشی کی: شکریہ جناب!

    تو میں اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا، اور غصے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں نے اس سے پوچھا: کس چیز کے لیے تم شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا نے جواب دیا: تنخواہ کی ادائیگی پر…

    لیکن میں نے تمھیں لوٹ لیا، تمھارا حق جو بنتا تھا اس سے میں نے اپنی مرضی سے کٹوتی کر لی! اس واضح ناانصافی پر بھی تم میرا شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا گویا ہوئی: دراصل اس سے پہلے جس کے پاس میں ملازمہ تھی، اس نے تو مجھے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔

    کیا کہا؟ اس نے تمھیں کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی؟ یہ تو عجیب بات نہیں ہے؟

    یولیا واسیلیونا سنو! میں نے تمھارے ساتھ مذاق کیا ہے، میں دراصل تمھیں مشکل سبق سکھانا چاہ رہا تھا۔

    میں تمھیں تمھاری مکمل تنخواہ ادا کروں گا، پورے اسّی روبل! وہ دیکھو تمھارے لیے، تنخواہ کی رقم لفافے میں موجود ہے! لیکن کیا تم اتنی ناانصافی کے بعد بھی اپنا حق مانگنے سے قاصر ہو؟ احتجاج کیوں نہیں کرتی؟ ظلم پر خاموشی کیوں؟ کیا اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے لاتعلق رہے، اور جوابی وار نہ کرے؟ کیا اس حد تک سادہ لوح ہونا ممکن ہے؟

    وہ بے بسی سے مسکرائی اور اس کے چہرے پر واضح لکھا تھا: شاید!

    میں نے اسے سخت سبق سکھانے کے لیے اس سے معذرت کی اور پورے اسّی روبل اس کے حوالے کر دیے۔ اس نے بے یقینی اور حیرت کے ساتھ شرماتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور چلی گئی۔

    اس کو جاتے ہوئے دیکھ کر میں نے سوچا: واقعی، اس دنیا میں کمزوروں کو کچلنا کتنا آسان ہے!

    (مصنّف: انتون چیخوف، عربی سے اردو ترجمہ: توقیر بُھملہ)

  • دو بیٹے

    دو بیٹے

    جنوری 1945ء میں جب ہٹلر کی جنگ اپنے اختتام کے نزدیک آرہی تھی، تھورنگیا میں ایک دہقان کی بیوی نے خواب دیکھا کہ اس کا بیٹا فرنٹ پر اسے پکار رہا ہے۔

    اور نیند کے خمار کی حالت میں صحن میں جانے پر اس نے یوں خیال کیا کہ وہ پمپ پر پانی پینے کھڑا ہے۔ جب اُس نے اس سے بات کی، وہ جان گئی کہ وہ ان نوجوان جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی ہے جو کھیت پر بیگار میں کام کر رہے تھے۔ چند دن بعد اس کے ساتھ ایک عجیب واردات ہوئی۔

    وہ ایک قریب کے جھنڈ میں قیدیوں کے لیے ان کا کھانا لے کر گئی جہاں وہ درختوں کے ٹھنٹھ اکھاڑ رہے تھے۔ لوٹتے وقت اس نے گردن پھیر کر دیکھا تو اُس کی نظر پھر اسی جنگی قیدی پر پڑی (مریض سا جوان لڑکا) جو ایک مایوس کیفیت سے اپنے چہرے کو ایک کھانے کے ڈبے کی طرف موڑے تھا، جسے کوئی اس کے ہاتھ میں دے رہا تھا….. اور یکبارگی اس قیدی کی شکل اس کے بیٹے کی شکل ہو گئی۔ پھر اگلے چند دنوں کے دوران وہ متعدد بار اس نوجوان کے چہرے کو اپنے بیٹے کے چہرے میں بدلنے اور فوراً اپنی اصلی شکل پر آجانے کے تجربے سے دوچار ہوئی۔

    پھر یہ قیدی بیمار پڑگیا اور باڑے میں بغیر دیکھ بھال کے پڑا رہا۔ دہقان کی بیوی کے جی میں خواہش اُبھری کہ وہ بیمار لڑکے کے لیے کچھ قوت بخش غذا لے کر جائے لیکن اسے اس کے بھائی نے روک دیا جو جنگ میں معذور ہوجانے کے بعد کھیت کا انتظام چلاتا تھا۔ اور خاص طور پر اُن دنوں جب کہ ہر ایک چیز ٹوٹ پھوٹ رہی تھی اور گاؤں والے قیدیوں سے خائف ہونے لگے تھے، قیدیوں سے وحشیانہ برتاؤ کررہے تھے، دہقان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے دلائل کے آگے اپنے کان بند نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ ان نیچ انسانوں کی مدد کرنا درست نہیں سمجھتی تھی جن کے بارے میں اس نے خوفناک باتیں سنی تھیں۔

    اسے ہروقت اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ خدا جانے دشمن اس کے بیٹے سے کیا سلوک کریں جو مشرقی فرنٹ پر لڑ رہا تھا۔ اس طرح وہ اس مصیبت زدہ جوان قیدی کی مدد کرنے کے اپنے ڈگمگاتے ارادے کو عملی جامہ پہنا نہ پائی تھی۔

    ایک شام وہ اتفاقاً قیدیوں کی ایک ٹولی کے پاس سے گزری۔ وہ برف سے ڈھکے باغیچے میں سرگرمِ گفتگو میں محو تھے اور اس میں کوئی شک نہ تھاکہ وہ وہاں اسے خفیہ رکھنے کی خاطر سردی میں اکٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان قیدی بھی ان میں بخار سے تھرتھراتا موجود تھا اور اپنی غایت درجہ کمزوری کی حالت کی وجہ سے وہی اس کے اچانک آجانے پر سب سے زیادہ چونکا۔ دہشت سے اس کا چہرہ پھر اسی عجیب تبدیلی کا مظہر ہوگیا اور عورت کو یوں لگا کہ وہ اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھ رہی ہے اور وہ بڑا خوف زدہ ہے۔ اس پر اس کا بڑا اثر ہوا اور گو اُس نے کارِ فرض جان کر اس گفتگو کے ہونے کا حال اپنے بھائی کو جا بتایا، اس نے اپنے دل میں ٹھانی کہ اپنے منصوبے کے مطابق وہ چوری چھپے جوان قیدی کو گوشت کا قتلہ پہنچا آئے گی۔

    ہٹلر کی "تیسری رائش” کے دور میں بہت سے نیک کاموں کی طرح یہ کام بھی انتہائی مشکل اور پُر ظفر ثابت ہوا۔ یہ ایک ایسی دلیری کا کام تھا جس میں اس کا اپنا بھائی اس کا دشمن تھا اور وہ قیدیوں پر بھی اعتبار نہیں کرسکتی تھی۔ بایں ہمہ وہ اس میں کام یاب ہوگئی۔ ہاں، اس سے یہ پتا چل گیا کہ قیدی حقیقتاً فرار ہونے کی فکر میں نہیں، کیونکہ ہر روز سرخ فوجوں کی پیش قدمی سے قیدیوں کا یہ خدشہ بڑھ گیا تھا کہ ان کو مغرب کی سمت کو منتقل کر دیا جائے گا یا ختم کر دیا جائے گا۔

    دہقان کی بیوی ان التجاؤں پر دھیان دیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی جو نوجوان قیدی (جس سے وہ اپنے عجیب تجربے کی وجہ سے بندھی ہوئی تھی) ہاتھ کے اشاروں اور جرمن زبان کے ٹوٹے لفظوں سے اس سے کرتا تھا اور اس طرح وہ آپ ہی آپ قیدیوں کے فرار کے منصوبے میں الجھتی چلی گئی۔ اس نے جوان قیدی کو ایک جیکٹ اور ایک بڑی قینچی مہیا کی۔ عجیب طور سے اس کے بعد سے وہ "تبدیلی” پھر نہ ہوئی۔ وہ اب محض ایک جوان اجنبی کی مدد کررہی تھی۔ سو اس کے لیے یہ اچھا خاصا جھٹکا تھا جب فروری کے آخری دنوں میں ایک صبح کسی نے کھڑکی پر دستک دی اور شیشے میں سے جھٹپٹے میں اس نے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا۔ اور اس دفعہ وہ واقعی اس کا بیٹا تھا۔ وہ وافن ایس ایس کی پھٹی ہوئی وردی پہنے تھا۔ اس کے یونٹ کی تکا بوٹی ہوگئی تھی اور اس نے مضطرب لہجے میں بتایا کہ روسی اب گاؤں سے چند ہی کلو میٹر دور رہ گئے ہیں۔ اس کی گھر واپسی کو سربستہ راز رہنا چاہیے۔

    ایک نوع کی جنگی مشاورت میں، جو اوپر کی کوٹھری کے گوشے میں دہقان کی بیوی، اس کے بھائی اور اس کے بیٹے کے مابین ہوئی، یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے انھیں قیدیوں سے جان چھڑانی چاہیے کیونکہ اس کا امکان تھا کہ انھوں نے ایس ایس والے آدمی (دہقان کی بیوی کے بیٹے) کو دیکھ لیا ہو اور بہرحال وہ اپنی فوج کے سامنے بدسلوکی کا رونا روئیں گے۔ قریب میں ہی ایک کان تھی۔ ایس ایس والا بیٹا بضد ہوا کہ راتوں رات وہ ایک ایک کرکے قیدیوں کو ورغلا کر باڑے سے باہر لے جائے گا اور مار ڈالے گا۔ اس نے کہا کہ لاشوں کو پھر کان میں ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے انھیں الکحل کا کچھ راشن دینا ہوگا۔ بھائی کا خیال تھا کہ یہ بات قیدیوں کو زیادہ عجیب یا خلافِ معمول نہیں لگے گی کیونکہ چند دنوں سے وہ اور کھیت کے دوسرے ملازم روسیوں سے نہایت دوستانہ برتاؤ کرتے رہے تھے تاکہ وہ آخری وقت بھی منسئی سے ان کے دام میں آجائیں اور کوئی گل نہ کھلائیں۔

    جب نوجوان ایس ایس والا بیٹا اپنی تجویز کی وضاحت کررہا تھا، اس نے اچانک اپنی ماں کو کپکپاتے دیکھا۔ مردوں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں اسے پھر باڑے کے قریب نہ جانے دیا جائے۔ اس طرح خوف سے سرد، وہ رات پڑنے کا انتظار کرتی رہی۔ روسیوں نے بظاہر برانڈی کے راشن کو شکریے سے قبول کرلیا اور دہقان کی بیوی نے انھیں بدمستی کے عالم میں اپنے غمناک گیت گاتے سنا۔ لیکن جب رات کو گیارہ بجے کے لگ بھگ اس کا بیٹا باڑے میں گیا تو قیدی جا چکے تھے۔ انھوں نے بدمست ہونے کا مکر کیا تھا۔ کھیت کے لوگوں کے انوکھے، غیر قدرتی مہربانی کے سلوک سے وہ حقیقتِ حال کو بھانپ گئے کہ سرخ فوج بہت قریب آچکی ہوگی۔ روسی رات کے پچھلے پہر کے دوران آپہنچے۔ بیٹا اوپر کی کوٹھری میں نشے میں دھت لیٹا ہوا تھا اور دہقان کی بیوی نے دہشت زدہ ہو کر اس کی ایس ایس والی وردی جلا دینے کی کوشش کی۔ اس کا بھائی بھی غین ہوا پڑا تھا۔ عورت کو ہی روسی سپاہیوں کا استقبال کرنا اور انھیں کھانا کھلانا پڑا۔ اس نے یہ سب کچھ ایک پتھر کے چہرے کے ساتھ کیا۔ روسی صبح سویرے چلے گئے۔

    روسی فوج نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ بیٹے نے، جو بے خوابی سے بد حال ہورہا تھا ، مزید برانڈی مانگی۔ اس نے اپنے پختہ ارادے کا علان کیا کہ وہ لڑتے رہنے کی خاطر پسپا ہوتی جرمن فوج کے یونٹوں تک پہنچنے کے لیے جا رہا ہے۔ دہقان کی بیوی نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ اب لڑتے چلے جانا موت اور مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ بے خوفی سے وہ اس کا رستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور اس نے جسمانی طاقت کو بروئے کار لا کر اسے باز رکھنے کی کوشش کی۔ بیٹے نے اسے پیچھے بھوسے پر دے پٹکا۔ جب وہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا کھنجا آگیا ہے اور اُس نے کھنجے کے بھرپور وار سے جنون زدہ آدمی کو زمین پر گرا دیا۔

    اسی صبح ایک دہقان کی بیوی پڑوس کی بستی میں روسی ہیڈ کوارٹر پر ایک چھکڑا ہنکا کر لائی اور ا س نے اپنے بیٹے کو، جو بیل باندھنے کی رسیوں میں جکڑا تھا، ایک جنگی قیدی کے طور پر روسیوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ (جیسا کہ اس نے ایک ترجمان کو سمجھانے کی کوشش کی) جیتا رہ جائے۔

    (کہانی: برتولت بریخت (جرمنی)، مترجم: محمد خالد اختر)

  • گوگول کا تذکرہ جو احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہا!

    گوگول کا تذکرہ جو احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہا!

    روسی ادب میں گوگول کا مقام یوں سمجھیے کہ دوستوفسکی نے کہا تھا ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

    نکولائی گوگول کا وطن یوکرین ہے جو روسی سلطنت کا حصّہ رہا اور 1991ء میں‌ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہیں 1809ء میں نکولائی گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ سلطنتِ روس کا ایک ممتاز ادیب اور مشہور ناول نگار تھا جس کے زمانے میں سلطنت میں غلامی کا دور دورہ تھا اور عوام کے مختلف طبقات، زمین دار اور ان کے ساتھ کسان اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کے نشانے پر تھے۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھ دیا۔

    وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد وفات پاگئے جو اس زمانے میں‌ تھیٹر سے منسلک تھے اور ایک ڈرامہ نگار تھے۔ اس کے چند اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ سے وابستہ تھے جس کے متاثر ہو کر اسے بھی لکھنے لکھانے اور اداکاری کا شوق پیدا ہوا۔

    اسے حصولِ تعلیم کے لیے ہاسٹل میں داخل کروایا گیا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ آگیا اور سرکاری نوکری کا خواہاں ہوا، لیکن ناکام رہا اور پھر تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لیے گوگولائی نے اپنی گھر سے کچھ رقم چرائی اور جرمنی چلا گیا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور چوں کہ وہ لکھنے لکھانے کا آغاز کرچکا تھا، اس لیے اپنی کہانیوں کو کتابی شکل میں شایع کروانے کا اہتمام کیا۔ اسے یہ یقین تو نہیں تھا کہ یہ کہانیاں بہت زیادہ پسند کی جائیں‌ گی، لیکن کہانیوں کی اشاعت کے بعد اسے ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی۔ یہ تخلیقات 1831ء اور 1832ء میں‌ شایع ہوئیں‌ جو گوگول کے آبائی علاقے یوکرین سے متعلق تھیں۔

    گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ میں پہچان بنانے کے بعد جب
    1835ء میں‌ قزاقوں‌ پر ایک تاریخی ناول تاراس بلبا کی اشاعت کروائی تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور بعد میں اس ناول کو روسی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا۔ اگلے برس اس نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ اس پر وہ معتوب ہوا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا جسے شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔

    اسی عرصے میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار تصور کرنے لگا۔ اس مریضانہ کیفیت میں گوگول نے 1852ء میں‌ اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا اور اسی سال اپنے یوم پیدائش سے دس دن پہلے دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    آج گوگول کا یومِ وفات ہے۔ وہ اٹھارہویں صدی کا ایسا ادیب ہے جس نے اس وقت کی ادبی روایات سے انحراف کرتے ہوئے روزمرّہ زندگی کو اپنے زاویۂ نگارہ سے پیش کیا اور اپنی کہانیوں میں گہرے طنز اور مزاح کی وجہ سے مقبول ہوا۔ اس کی کہانیوں میں جو اثر پذیری ہے، اس کی بڑی وجہ گوگول کی حقیقیت نگاری ہے۔ گوگول کے بعد میں آنے والے اس سے بے حد متاثر ہوئے اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حقیقت نگاری کو اپنایا۔

  • داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    1934ء میں داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ ایسا واقعہ تھا، جس پر کم عمر یا نوجوان ہی کیا بڑے بھی ششدر رہ گئے۔ رسول حمزہ توف کی عمر اس وقت محض 11 برس تھی۔

    یوں‌ تو یہ گاؤں‌ کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ تھا، لیکن ہوائی جہاز کی اس ہنگامی لینڈنگ سے رسول حمزہ توف کے تخیّل کی اُس پرواز کا آغاز ہوا جس نے انھیں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر بنا دیا۔ انھوں‌ نے اس موضوع پر ایک نظم لکھی اور یوں ان کا شعری سفر ہوا۔

    رسول حمزہ توف نے روسی ادب میں‌ بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ وہ ایک عوامی شاعر مشہور ہوئے اور نثر نگار، مترجم کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقوں‌ میں ممتاز رہے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے بھی لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، لیکن ان کی شناخت اور عوامی سطح پر مقبولیت بطور شاعر برقرار رہی۔

    رسول حمزہ توف نے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں 8 ستمبر 1923ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد چرواہے تھے جو اکثر جانور چراتے ہوئے گیت گاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے۔ رسول حمزہ توف یہ سب سنتے رہتے اور بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    ایک زمانے میں داغستان کی سرحد پر جنگ چھڑی، تو رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ انھوں‌ نے رزمیہ اور قومی گیت بھی لکھے، اور اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ جنگ کے بعد 1945ء میں انھوں نے دوبارہ تعلیمی سفر شروع کیا اور ماسکو میں تعلیم حاصل کی، 1950ء میں فارغ التحصیل ہونے کے تک اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کے ساتھ رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فکر و فن کو نکھارا اور تخلیقی سفر جاری رکھا۔ اسی عرصے میں یکے بعد دیگرے ان کے شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ عالم ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ وہ جادو تھا جس نے ہر خاص و عام کو اپنے سحر میں‌ جکڑ لیا اور ان کے گیتوں‌ نے انھیں‌ عوامی سطح پر زبردست مقبولیت اور پذیرائی عطا کی۔

    ان کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے۔ حب الوطنی ان کے شعر کا مستقل رنگ ہے، جس نے انھیں عوام کا محبوب شاعر بنا دیا۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں علم و ادب کے نام وروں‌ کو متاثر کیا اور انہی کے طفیل داغستان کو دنیا نے جانا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی ان کی مقبولیت کا ایک سبب ہے۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر تخلیقات اور تراجم کی متعدد کتب شایع ہوئیں جو انھوں‌ نے عالمی ادب سے اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیں۔ ان کے یہ تراجم مستند اور معیاری ہیں۔

    رسول حمزہ توف کو حکومتِ روس کی جانب سے ”اسٹالن انعام“ ( 1952ء)، ”لینن پیس پرائز“( 1963ء)، ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ (1964ء) سے نوازا گیا اور 2014 ء میں ان کے نام سے منسوب ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    یہ عوامی شاعر زندگی کی 80 بہاریں‌ دیکھنے کے بعد 3 نومبر 2003ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔

  • لاٹری ٹکٹ

    لاٹری ٹکٹ

    ملک کمال صاحب ایک مڈل کلاس طبقہ کے آدمی تھے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک پوش علاقے میں رہتے تھے۔

    اچھی آمدنی تھی، جس پر وہ صابر و شاکر تھے۔ شام کا ہلکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد صوفے پر اخبار پڑھنے بیٹھ گئے۔

    ‘‘میں تو آج صبح اخبار پڑھنا بھول ہی گئی۔ ’’ ان کی بیگم نے میز صاف کرتے ہوئے مخاطب کیا۔

    ‘‘دیکھو کیا قرعہ اندازی کی لسٹ آئی ہے؟’’

    ‘‘او، ہاں، لیکن کیا تمہارے ٹکٹ کا وقت ختم نہیں ہو گیا؟’’

    ‘‘نہیں، میں نے منگل ہی کو نئی لاٹری لی ہے۔’’

    ‘‘نمبر کیا ہے؟’’

    ‘‘لاٹری سیریز 9499 نمبر 26’’

    ‘‘ٹھیک ہے، دیکھتے ہیں۔ ’’

    کمال صاحب لاٹری پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اصولاً وہ لاٹری لسٹ دیکھنے پر راضی بھی نہ ہوتے لیکن اس وقت وہ بالکل فارغ تھے، اور اخبار اُن کی آنکھوں کے سامنے۔ انہوں نے نمبروں کے کالم پر اوپر سے نیچے انگلی پھیری۔ فوراً ہی جیسے ان کے شکوک وشبہات کا تمسخر اڑانے کے لئے اوپر سے دوسری لائین پر ان کی نگاہیں 9499 پر رک گئیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

    اخبار ان کے گھٹنوں پر سے پھسل گیا۔ ٹکٹ کا نمبر دیکھے بغیر، جیسے انہیں کسی نے ٹھنڈے پانی کی پھوار سے نہلا دیا ہو، انہوں نے معدے میں خوشگوار سی ٹھنڈک محسوس کی، انہوں نے اپنی بیگم کو آواز دی۔
    ‘‘کلثوم!9499 تو یہا ں ہے۔’’

    یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بالکل خالی خالی تھی۔ ان کی بیگم نے ان کے حیرت زدہ اور گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور سمجھ گئی کہ وہ مذاق نہیں کررہے۔ زرد پڑتے ہوئے تہ کیا ہوا میز پوش واپس میز پر گراتے ہوئے انہوں نے پوچھا،‘‘9499۔’’

    ‘‘ہاں….ہاں….واقعی….’’

    ‘‘اور ٹکٹ نمبر؟’’

    ‘‘او….ہاں….ٹکٹ کا نمبر بھی لکھا ہے۔ لیکن رکو۔ ذرا انتظار کرو۔ سیریز نمبر تو ہمارا ہی ہے۔ بہرحال….’’

    بیگم کو دیکھتے ہوئے کمال صاحب مسکرائے، اس بچے کی طرح جسے کوئی روشن چمکدار چیز مل گئی ہو۔ ان کی بیگم بھی مسکرا دیں، دونوں ٹکٹ نمبر دیکھے بغیر خوش تھے۔ مستقبل کی خوش بختی کی امید تھی ہی اتنی مزے دار اور سنسنی خیز۔

    کافی دیر خاموش رہنے کے بعد کمال صاحب نے پھر کہا ‘‘سیریز تو ہماری ہی ہے۔ اس لئے امید ہے ہم جیتے ہیں۔ یہ محض امید ہی ہے، پر ہے تو سہی۔ ’’

    ‘‘اچھا دیکھو! ’’

    ‘‘ذرا صبر کرو ۔ ناامید ہونے کے لئے کافی وقت پڑا ہے، اوپر سے دوسری لائن ہے۔ انعام پانچ کروڑ روپے ہے۔ یہ رقم نہیں، طاقت اور سرمایہ ہے۔ ایک منٹ میں لسٹ دیکھوں گا۔ پھر ….26….آہا’’

    ‘‘میں کہتا ہوں اگر ہم واقعی جیت گئے تو….’’

    دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کو خاموشی سے گھورنے لگے۔ جیتنے کی امید نے انہیں حیران و پریشان کر دیا تھا۔

    وہ نہ کہہ سکتے تھے نہ خواب دیکھ سکتے تھے کہ انہیں یہ روپے کس لئے چاہییں؟ وہ کیا خریدیں گے، وہ کہاں جائیں گے۔ وہ صرف 9499 اور پانچ کروڑ روپے کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔

    چشمِ تصوّر سے دیکھ رہے تھے، لیکن اس خوشی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے جو ممکن ہو سکتی تھی۔

    کمال صاحب اخبار ہاتھ میں پکڑے ایک سرے سے دوسرے تک ٹہل رہے تھے۔ اور جب وہ پہلے جھٹکے سے نکلے تو انہوں نے خواب دیکھنے شروع کئے۔

    ‘‘اگر ہم جیت گئے۔ ’’ انہوں نے کہا،‘‘یہ ایک نئی زندگی ہو گی، مکمل کایا پلٹ۔ ٹکٹ تمہارا ہے، اگر یہ میرا ہوتا تو میں سب سے پہلے تین کروڑ کی جائیداد خریدتا۔ ایک کروڑ فوری اخراجات کے لئے، جیسے گھر کی نئی سجاوٹ، سیروتفریح، قرض کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ۔ باقی ایک کروڑ بنک میں رکھ دیتا اور سالانہ منافع لیتا۔ ’’

    ‘‘ہاں….جائیداد، اچھا خیال ہے۔ ’’بیگم نے ہاتھ اپنی گود میں رکھ کر صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

    ‘‘ڈیفنس، گلشن یا سی سائیڈ کسی اچھے علاقے میں کہیں….سب سے پہلی بات ہمیں بنگلہ یا فارم ہاؤس نہیں چاہیے۔ بلکہ آمدنی میں اضافہ کا سوچناچاہیے۔’’

    اس طرح کے خیالات ان کے دماغ پر چھانے لگے۔ ہر ایک پہلے سے زیادہ دلفریب اور شاعرانہ۔

    ‘‘ہاں ،جائیداد خریدنا اچھا رہے گا۔’’ بیگم کلثوم نے کہا۔ وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی۔ ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ اپنے خیالات سے خوش ہے۔
    ملک کمال صاحب نے خزاں کی بارشوں کا تصور کیا۔ سرد شاموں کا اور گرمیوں کی چھٹیوں کا۔

    کمال صاحب رکے اور بیوی کو دیکھنے لگے۔ ‘‘جانتی ہو گرمیوں اور برسات کے موسم میں شمالی علاقہ جات یا بیرونِ ملک گھومنا ہی بہتر رہے گا۔’’

    انہوں نے دوبارہ سوچنا شروع کردیا کہ ایسے موسم میں شمالی علاقہ جات یا ملک سے باہر جانا، مری، گلگت، سوات یا لندن، پیرس کتنا اچھا لگے گا۔
    ‘‘میں بھی یقیناً باہر جاؤں گی۔ ’’ بیگم کلثوم بھی چہک کر بولیں، ‘‘لیکن ٹکٹ کا نمبر تو دوبارہ کنفرم کر لو۔ ’’

    ‘‘صبر، صبر۔’’

    وہ پھر کمرے میں چکر لگانے لگے، اور سوچنے لگے، اگر ان کی بیوی واقعی باہر ملک گئی تو کیا ہو گا؟

    اکیلے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یا پھر ایسی عورت کے ساتھ جو لاپروا سی ہو، حال میں زندہ رہے نہ کہ ایسی جو سارے سفر کے دوران بچوں کے بارے میں بولتی رہے۔ ہر دھیلے کے خرچنے پر آہیں بھرے۔
    کمال صاحب نے بیوی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے سوچا۔

    ‘‘لاٹری ٹکٹ اس کا ہے، لیکن اس کے بیرون ملک جانے کا فائدہ۔ اس نے باہر کیا کرنا ہے۔ وہ ہوٹل میں بند ہو جائے گی۔ مجھے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گی۔’’

    زندگی میں پہلی بار انہوں نے سوچا کہ اب بیوی کی عمر ڈھل رہی ہے۔ وہ عام سی دکھائی دیتی ہے۔ کھانے پکانے کی بو سے بھری رہتی ہے۔ جب کہ وہ خود ابھی تک جوان تروتازہ اور صحت مند ہیں۔ دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔

    ‘‘بے شک یہ بیوقوفانہ سوچ ہے پر وہ ملک سے باہر جائے کیوں؟ اس نے کرنا کیا ہے؟ وہ ضرور میرے رستے میں رکاوٹ رہے گی۔ میں اس کا محتاج رہوں گا۔ مجھے معلوم ہے جونہی رقم ملے گی وہ عام عورتوں کی طرح رقم کو تالے لگا کر رکھے گی۔ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے گی اور مجھے ہمیشہ رقم کے لئے ترسائے گی۔’’

    کمال صاحب نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں کے بارے میں سوچا۔ کمال صاحب نے اپنے رشتہ داروں اور ان کے چہروں کو یاد کیا۔ انہیں اپنی بیوی کا چہرہ بھی قابل نفرت لگا۔ ان کے دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ انہوں نے کینے بھرے دل سے سوچا۔

    اسے رقم کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں پھر کنجوس بھی ہے۔ اگر وہ جیت گئی تو مجھے سو سو روپے پر ٹرخاتی رہے گی۔ اور باقی کہیں تالا لگا کر بند کردے گی۔

    انہوں نے بیوی کی طرف دیکھا مسکراہٹ کے ساتھ نہیں بلکہ نفرت سے۔ بیوی نے بھی انہیں نفرت اور غصے سے دیکھا، اس کے اپنے خیالی پلاؤ اور پروگرام تھے۔

    ‘‘سیریز نمبر 94990 ٹکٹ نمبر چھبیس 26 …. ارے نہیں یہاں تو چھیالیس 46 ہے۔’’

    فوراً نفرت اور امید دونوں غائب ہو گئے۔ کمال صاحب نے غصہ سے اخبار کو صفحہ کو پرزہ پرزہ کر ڈالا۔

    اب دونوں میاں بیوی کو اپنے کمرے تاریک اور چھوٹے لگنے لگے اور شام کا جو کھانا کھایا تھا وہ ان کے معدے پر بوجھ ڈالنے لگا۔ شام لمبی اور تھکا دینے والی محسوس ہونے لگی۔

    ‘‘لعنت ہے،’’ کمال صاحب بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ سے بولے۔ ‘‘جہاں قدم رکھو ہر قدم کے نیچے کاغذ کے پرزے اور کوڑے کے زرّے آتے ہیں، کمروں کو کبھی صاف نہیں کیا جاتا۔ بندہ گھر سے باہر جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ’’ یہ کہتے ہی وہ غصہ سے گھر سے باہر نکل گئے۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی کا اردو ترجمہ جس میں اچانک لاٹری نکلنے کی خبر پر شوہر اور بیوی کی نفسیات دکھائی گئی ہے، مترجم نے اردو قارئین کی دل چسپی کے لیے کرداروں کو مقامی نام دے دیے ہیں)

  • ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    میں شکار کھیلنے کے بعد گھر کے باغ کی روش پر سے گزر رہا تھا۔ میرا وفادار کتّا مجھ سے چند گز کے فاصلے پر دوڑا چلا جارہا تھا۔ یک لخت اس کی رفتار مدھم پڑ گئی۔ اگلے پنجوں کو اس طرح اٹھانے لگا گویا کسی شکار کو سونگھ رہا ہے۔

    جب میں نے روش پر نظر دوڑائی۔ تو مجھے قریب ہی زمین پر چڑیا کا ایک بچّہ دکھائی دیا جس کی چونچ زرد تھی۔ اور بدن پر نرم نرم روئیں اگ رہے تھے۔ یہ غالباً اپنے گھونسلے سے گر پڑا تھا۔ کیوں کہ آج ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور روش کے آس پاس لگے ہوئے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔

    معصوم بچّہ چپ چاپ زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اڑنے کے لیے ننھّے ننھّے پر پھیلاتا، مگر اتنی طاقت نہ تھی کہ پرواز کرسکے۔ بے چارہ پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔

    میرا کتّا اس کی طرف آہستہ آہستہ جارہا تھا کہ دفعتاً قریب کے درخت سے ایک چڑیا اتری اور کتّے اور بچّے کے درمیان زمین پر اس طرح آپڑی جیسے پتّھر گر پڑا ہو۔

    کتّے کے کھلے ہوئے جبڑوں کی طرف دیکھ کر ایک درد ناک اور رحم طلب آواز میں چلائی اور اس کی طرف جھپٹ پڑی۔ وہ اپنے ننھّے بچّے کو میرے کتّے سے بچانا چاہتی تھی۔ اسی غرض کے لیے اس نے اسے اپنے بدن سے ڈھانپ لیا اور چیخ پکار شروع کردی۔ اس کے چھوٹے گلے میں آواز گھٹنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد بے جان ہو کر گری اور مر گئی۔ اور اس طرح اپنے آپ کو قربان کر دیا۔

    وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچّے کو کتّے کا لقمہ بنتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کی نظروں میں میرا کتّا غالباً ایک ہیبت ناک دیو کی مانند تھا۔

    وہ کیا شے تھی۔ جو چڑیا کو شاخِ صنوبر سے کشاں کشاں زمین پر لائی؟

    میرا کتّا حساس تھا۔ چڑیا کو اس طرح قربان ہوتے دیکھ کر ٹھٹھکا اور ایک طرف ہٹ گیا میں نے اسے اپنی طرف اشارہ سے بلا لیا اور آگے بڑھ گئے۔

    یہ واقعہ دیکھ کر مجھے تسکین سی محسوس ہوئی۔ روح سے ایک بوجھ ہلکا ہوتا نظر آیا۔ اس بہادر چڑیا کی غیر معمولی جرأت نے میرے دل میں احترام اور احساسِ فرض کے جذبات موجزن کر دیے۔

    میں نے خیال کیا کہ محبت، موت اور اس کی ہیبت سے کہیں زیادہ ہے اور صرف محبّت ہی ایسی چیز ہے جو زندگی کے نظام کو قائم اور متحرک رکھتی ہے۔

    (عظیم روسی ادیب انتون چیخوف کے قلم سے)

  • لیو ٹالسٹائی: فلسفی اور ادیب جو کسانوں کا مقدّر بدلنا چاہتا تھا

    لیو ٹالسٹائی: فلسفی اور ادیب جو کسانوں کا مقدّر بدلنا چاہتا تھا

    روسی ادیب اور فلسفی لیو ٹالسٹائی نے اپنی فکر انگیز تخلیقات سے روس ہی نہیں‌ بلکہ سرحد پار بسنے والے تخلیق کاروں کو بھی متاثر کیا۔ ٹالسٹائی کو ان کے ناولوں اور ان کی انسان دوستی کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج اس مشہورِ زمانہ ادیب اور فلسفی کا یومِ‌ وفات ہے۔ 20 نومبر 1910ء کو ٹالسٹائی نے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    لیو ٹالسٹائی 28 اگست 1928ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا شمار روس کے معروف ترین ادیبوں اور فلسفیوں میں‌ ہوتا ہے۔ 9 برس کے ٹالسٹائی کی زندگی میں‌ ایک کڑا وقت ان کی یتیمی کی صورت آیا، جس کے بعد انھیں آبائی زمینوں پر کاشت کاری کا کام کرنا پڑا، ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور فوج میں بھی شامل ہوئے، اس ملازمت کے دوران انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سمجھا، اسے اپنے ناول ’’جنگ اور امن‘‘ میں‌ خوب صورتی سے سمو دیا، یہ ٹالسٹائی کا شہرہ آفاق ناول ہے۔

    ٹالسٹائی کو زمانہ طالب علمی میں‌ اساتذہ اور ساتھی طلبا کے منفی رویّوں‌ کا سامنا کرنا پڑا، انھیں‌ اساتذہ نالائق کہتے تھے، جس نے ٹالسٹائی کو بددل کیا اور انھوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا، کئی سال تک ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں گزارنے والے ٹالسٹائی غور و فکر کے عادی تھے، وہ اپنے سماج کا مطالعہ اور لوگوں کی سماجی زندگی کا مشاہدہ کرتے رہے، ساتھ ہی کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے۔ انھوں‌ نے کسانوں‌ کے بچّوں‌ کو تعلیم دینے کے لیے اسکول بھی قائم کیا۔

    ٹالسٹائی نے پہلا ناول 1856ء میں لکھا، لیکن ان کی شہرت کا سفر جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں ان کی کہانیوں سے شروع ہوا۔ وار اینڈ پیس نے انھیں‌ عالمی سطح پر شناخت دی، اور اینا کارینینا کے نام سے ناول کا بھی بہت چرچا ہوا۔

    ٹالسٹائی نے سماجی مفکر کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی اور اپنے نظریات کو کتابی شکل میں‌ پیش کیا، وہ جنگ مخالف، جمہوریت اور مساوات کے قائل اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کرنے والے دانش ور کے طور پر ابھرے، جس نے جبر اور استحصال کی مذمت کی۔

    ٹالسٹائی کے انقلابی نظریات اور ان کی فکر نے روس کے مجبور اور مظلوم طبقے کو ہی نہیں‌ سرحد پار بھی لوگوں‌ کو متاثر کیا۔ بدقسمتی سے خاندان کے لوگ ہی ان کے مخالف ہوگئے اور پھر ٹالسٹائی نے اپنے حصّے کی جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کرکے گھر چھوڑ دیا۔

    ٹالسٹائی نے کس مپرسی کے عالم میں‌ ایک ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر دَم توڑ دیا تھا۔ انھوں‌ نے ناولوں اور کہانیوں‌ سمیت مختلف موضوعات پر اپنی فکر اور نظریات کو تحریری شکل میں‌ پیش کیا جن کا مختلف زبانوں‌ میں‌ ترجمہ کیا گیا ہے۔