Tag: روسی ادب

  • گرگٹ

    گرگٹ

    داروغہ جی نیا اوور کوٹ پہنے، ہاتھ میں ایک بنڈل اٹھائے بازار کے چوک سے خراماں خراماں گزررہے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کا ایک کانسٹیبل ہاتھ میں ایک ٹوکری لیے لپکا چلا آ رہا تھا۔ ٹوکری ضبط کیے گئے پھلوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔
    بازار میں ہر طرف خاموشی تھی۔ ایک چڑیا بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ گھروں اور دکانوں کے کھلے ہوئے دروازے بھوکے لوگوں کی طرح سڑک کو اداسی بھری نگاہوں سے تاک رہے تھے، یہاں تک کہ کوئی گاہک تو کیا ایک بھکاری بھی آس پاس دکھائی نہیں دیتا تھا۔
    اچھا! تو تُو کاٹے گا؟ شیطان کہیں کا۔ داروغہ کے کانوں میں اچانک یہ آواز آئی۔ پکڑو جانے نہ پائے۔ پھر ایک کتے کی چیخنے کی آواز سنائی دی۔ داروغہ نے مڑ کر دیکھا تو اسے نظر آیا کہ لکڑی کی ٹال میں سے ایک کتا تین ٹانگوں سے بھاگتا ہوا چلا آرہا ہے۔
    کلف دار قمیض اور بغیر بٹن کی واسکٹ پہنے، ایک آدمی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس کا سارا جسم آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ وہ کتے کے پیچھے لپکا اور اسے پکڑنے کی کوشش میں گرتے گرتے بھی اس کی پچھلی ٹانگ پکڑ لی۔
    کتا ایک بار پھر چلاّیا اور وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔ ‘‘مارو اسے، جانے نہ پائے۔ قانون کہتا ہے کہ کاٹنے والے کتوں کو فوراً مار دینا چاہیے۔’’
    اونگھتے ہوئے لوگ دکانوں اور گھروں سے باہر گردنیں نکال کر دیکھنے لگے، پھر بچے، بوڑھے، جوان سب ہی باہر نکل آئے اور دیکھتے دیکھتے ایک مجمع ٹال کے پاس جمع ہو گیا، گویا سب لوگ ابھی زمین پھاڑ کر اندر سے نکل آئے ہوں۔
    ‘‘جناب! معلوم پڑتا ہے کہ کچھ جھگڑا فساد ہو رہا ہے۔’’ کانسٹیبل داروغہ سے بولا۔
    داروغہ بائیں جانب مڑا اور مجمع کی طرف چل دیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹال کے پھاٹک پر وہی آدمی کھڑا ہے۔ اس کی واسکٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ وہ اپنا داہنا ہاتھ اوپر اٹھائے، مجمع کو اپنی لہولہان انگلی دکھا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے خمار آلود چہرے پر صاف لکھا ہوا ہو…‘‘اس بدمعاش کتے کو میں اس کا مزہ چکھا کر رہوں گا۔’’ اور اس کی انگلی فتح کا پرچم نظر آرہی تھی۔ داروغہ نے اس شخص کو پہچان لیا۔ یہ سنار تھا۔
    چھوٹی نسل کا سفید رنگ کا کتا، جس کا منہ نکیلا تھا اور پیٹھ پر زرد داغ تھے، مجمع کے بیچوں بیچ اگلی ٹانگیں پھیلائے ملزم بنا بیٹھا اوپر سے نیچے تک کانپ رہا تھا۔ اس کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں میں بے بسی اور خوف کی جھلک تھی اور انداز رحم طلب تھا۔
    ‘‘یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے یہاں؟’’ داروغہ نے کندھوں سے مجمع کو چیرتے ہوئے سوال کیا۔
    ‘‘یہاں کیا کررہے ہو تم سب لوگ۔ اور تم یہ انگلی کیوں اوپر اٹھائے ہو، کون چلا رہا ہے؟’’
    داروغہ جی! میں چپ چاپ اپنی راہ چلا جا رہا تھا۔ سنار نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر، کھانستے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ‘‘بڑھئی سے مجھے لکڑی کے بارے میں کچھ کام تھا۔ یکایک، نجانے کیوں، اس بدمعاش نے میری انگلی پر کاٹ لیا۔’’
    داروغہ جی معاف کیجیے، میں ٹھہرا کام کاج والا آدمی۔ اور پھر ہمارا کام بھی بڑا نازک اور پیچیدہ ہے۔ ایک ہفتے تک تو شاید اس انگلی سے کام تک نہیں لے سکوں گا۔ اس لیے مجھے ہرجانہ دلوا دیجیے۔ اور جناب، قانون میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ ہمیں اس طرح خطرناک جانوروں کو بھی چپ چاپ برداشت کرنا ہوگا۔ اگر ایسے ہی کاٹنے لگیں، تب تو جینا دوبھر ہو جائے گا۔’’
    اچھا۔ داروغہ نے گلا صاف کر کے، بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا۔
    ‘‘ ٹھیک ہے۔ خیر، یہ کتا ہے کس کا؟ میں اس معاملے کو یہیں نہیں چھوڑوں گا، جو لوگ ایسے کتوں کو کُھلا چھوڑ دیتے ہیں، میں ان لوگوں کو سبق سکھاؤں گا۔ جو لوگ قاعدے قانون کے مطابق نہیں چلتے، ان کے ساتھ اب سختی سے پیش آنا پڑے گا۔ میں اچھی طرح سکھا دوں گا کہ کتوں اور ہر طرح کے مویشیوں کو ایسے کھلا چھوڑ دینے کا کیا مطلب ہے۔’’
    پھر کانسٹیبل کو مخاطب کرتے ہوئے انسپکٹر چلایا۔ ‘‘ذرا پتہ لگاؤ کہ یہ کتا ہے کس کا، اور رپورٹ تیار کرو، کتے کو بلاتاخیر ختم کردیا جائے۔ غالباً یہ پاگل ہوگا اور محلے والو میں پوچھتا ہوں کیا تم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کتا آخر ہے کس کا؟’’
    مجمع میں سے کسی نے کہا، ‘‘یہ کتا تو ہمارے جو نئے منسٹر صاحب آئے ہیں ان کا معلوم ہوتا ہے۔’’
    ‘‘منسٹر صاحب کا؟ کانسٹیبل، ذرا میرا کوٹ تو اتارنا۔ اف، بڑا حبس ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ بارش ہو گی۔ اچھا تو، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے تمہیں کاٹا کیسے؟’’ داروغہ اب سنار کی جانب مڑا۔
    ‘‘یہ تمہاری انگلی تک پہنچا کیسے؟ یہ ٹھہرا چھوٹا سا اور تم ہو لحیم شحیم۔ ہو نہ ہو تم نے کسی کیل ویل سے انگلی چھیل لی ہو گی اور سوچا ہو گا کہ کتے کے سَر منڈھ کر ہرجانہ وصول کر لوں۔ میں خوب سمجھتا ہوں، تمہارے جیسے بدمعاشوں کی تو میں رگ رگ سے واقف ہوں۔’’
    ‘‘داروغہ جی! اِس نے یوں ہی مذاق میں اس کتے کے منہ پر جلتی سگریٹ لگا دی تھی، اور یہ کتا بیوقوف تو ہے نہیں، اس لیے اس نے کاٹ لیا۔ یہ شخص بڑا اوٹ پٹانگ ہے، ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی ہنگامہ مچائے رہتا ہے۔’’ مجمع میں سے ایک شخص بولا تو سنار چلا اٹھا۔
    ‘‘او، بھینگے! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ تو نے مجھے یہ سب کچھ کرتے دیکھا ہے کیا؟ اپنی طرف سے گپ کیوں مارتا ہے؟ اور داروغہ جی تو خود سمجھ دار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو عدالت مجھ پر مقدمہ چلائے۔ یہ قانون میں لکھا ہے کہ سب آدمی برابر ہیں۔ میرا بھائی خود پولیس میں ہے، بتائے دیتا ہوں، کیا سمجھے!’’
    ‘‘ بند کرو یہ بکواس۔ نہیں، یہ منسٹر صاحب کا کتا نہیں ہے۔’’ سپاہی نے بڑے وثوق سے کہا۔
    ‘‘منسٹر صاحب کے پاس ایسا کوئی کتا ہے ہی نہیں، ان کے تو سبھی کتے شکاری نسل کے ہیں۔ یہ تو آوارہ لگتا ہے۔
    تمہیں ٹھیک طرح سے معلوم ہے؟’’ داروغہ نے اس کی طرف سوال اچھالا۔
    ‘‘ جی جناب، بالکل۔’’
    ‘‘ہمم ۔۔۔۔۔ویسے تو میں خود بھی جانتا ہوں۔ نئے منسٹر صاحب جانور پالنے کے شوقین ہیں، ان کے سب کتے اچھی نسل کے ہیں، ایک سے ایک قیمتی کتا ہے ان کے پاس اور یہ۔ ذرا دیکھو تو اسے۔ بالکل بدشکل، کھجیلا اور مریل ہے۔ بھلا منسٹر صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔ تم لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہوا۔ کون رکھے گا ایسا کتا؟ اگر ایسا کتا شہر کے پوش علاقوں کی سڑکوں پر دکھائی دیتا تو جانتے ہو کیا ہوتا؟ قانون کی پروا کیے بنا، ایک منٹ میں ان کا صفایا کردیا جاتا۔’’
    اب داروغہ دوبارہ سنار کی جانب مڑا اور بولا، ‘‘دیکھو! تمہیں چوٹ لگی ہے۔ تم مظلوم ہو، تم اس معاملے کو یوں ہی مت چھوڑ دینا۔ ایسے لوگوں کو سبق پڑھا کر رہنا۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔’’
    ‘‘لیکن یہ بھی ممکن ہے، یہ منسٹر صاحب کا ہی ہو۔’’ کانسٹیبل کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑایا۔
    ‘‘ اسے دیکھنے سے تو اندازہ نہیں ہوتا، مگر بالکل ایسا ہی کتا میں نے ایک دن منسٹر صاحب کے بنگلے کے دروازے پر دیکھا تھا اور اس کے گلے میں پٹّا بھی تو دیکھو۔ مطلب یہ پالتو ہے آوارہ نہیں۔’’
    ہاں ہاں، یہ کتا منسٹر صاحب ہی کا تو ہے۔ مجمع میں سے کسی کی آواز آئی۔
    ‘‘ہونہہ… کانسٹیبل، ذرا مجھے کوٹ تو پہنا دو۔ ابھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا، مجھے سردی لگ رہی ہے۔ ایسا کرو، اس کتے کو اٹھاؤ اور منسٹر صاحب کے یہاں دریافت کرو۔ کہہ دینا کہ میں نے اِسے سڑک پر دیکھا تھا اور واپس بھجوایا ہے اور ہاں، دیکھو، یہ بھی کہہ دینا کہ اسے سڑک پر ایسے نہ نکلنے دیا کریں۔ معلوم نہیں، کتنا قیمتی کتا ہے اور اگر اس طرح کا ہر بدمعاش اس کے منہ میں سگریٹ گھسیڑتا رہا تو کتا بہت جلد ہی خراب ہو جائے گا۔’’
    ‘‘اور تُو اپنا ہاتھ نیچے کر، گدھا کہیں کا۔ اپنی گندی انگلی کیوں دکھا رہا ہے؟ سارا قصور تیرا ہی ہے۔ غضب خدا کا، بے زبان جانور پر ظلم۔ اس وقت میں نہ آگیا ہوتا تو تم اسے مارہی ڈالتے۔’’
    اتنے میں کانسٹیبل نے دور سے آتے ایک شخص کو دیکھتے ہوئے کہا۔
    ‘‘وہ دیکھو، منسٹر صاحب کا باورچی آ رہا ہے، اس سے ہی پوچھ لیا جائے۔ اے خانسامے۔ ذرا ادھر تو آنا۔ اس کتے کو دیکھنا، کہیں تمہارے یہاں کا تو نہیں ہے؟’’
    ‘‘ارے میاں! یہ بھی خوب کہی۔ ہمارے یہاں کبھی بھی ایسا کتا نہیں تھا۔’’ باورچی بولا۔
    اتنا سنتے ہی داروغہ فوراً کانسٹیبل سے بولا، “بس اب مزید تفتیش کی ضرورت نہیں۔ بیکار وقت خراب کرنا ہے۔ آوارہ کتا ہے، یہاں کھڑے کھڑے اس کے بارے میں بات کرنا وقت برباد کرنا ہے۔ تم سے کہہ دیا نا کہ آوارہ ہے تو آوارہ ہی سمجھو۔ مار ڈالو اور چھٹی کرو۔’’
    ہمارا تو نہیں ہے۔ باورچی نے بات جاری رکھی۔
    ‘‘ہاں! یہ منسٹر صاحب کے بھائی ہیں جو ان کا ہے، حال ہی میں یہاں آئے ہیں۔ ہمارے منسٹر صاحب کو چھوٹی نسل کے کتوں میں کوئی دل چسپی نہیں ہے، ان کے بھائی صاحب کو یہ نسل پسند ہے۔’’
    ‘‘کیا کہا؟ منسٹر صاحب کے بھائی آئے ہوئے ہیں؟’’ اچنبھے سے داروغہ چہک اٹھا، اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ کیا مزید کچھ دن ٹھہریں گے؟’’
    ‘‘جی ہاں۔ اسے جواب ملا۔’’
    ‘بھئی خوب کہی، میں خود کئی دنوں سے ان کے بھائی سے ملنا چاہتا تھا، ان سے کام بھی تھا مجھے۔ اچھا تو یہ ان کا کتا ہے؟ بہت خوشی کی بات ہے۔ کیسا پیارا ننھا منا سا ہے۔ بس بس، اب کانپنا بند کرو۔’’ داروغہ نے کتے کے سر پر تھپکی دی۔ کتا غرانے لگا۔
    ‘‘شیطان کہیں کا۔ غصے میں ہے اور مزاج کا ذرا گرم لگتا ہے۔ یہی تو علامت ہے اچھی نسل کے کتے کی۔ کتنا پیارا ہے یہ۔’’ اب داروغہ نے سنار کی طرف دیکھا۔
    ‘‘کیوں بے! معلوم نہیں تجھ کو جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے اور وہ بھی منسٹر صاحب کے کتے پر۔ میں اگر چاہوں تو تم کو ابھی اس جرم میں سلاخوں کے اندر ڈال دوں۔ خبردار جو آئندہ ایسی کوئی حرکت ہوئی، تجھے ٹھیک مزہ چکھاؤں گا۔’’ داروغہ نے اسے دھمکایا۔
    اور پھر داروغہ اپنا اوور کوٹ اپنے جسم پر لپیٹتے ہوئے باورچی سے بولا۔
    ‘‘لے بھئی! ذرا اٹھا تو لے اس غریب کو، چل منسٹر صاحب کے یہاں پہنچا دیں۔’’
    باورچی نے کتے کو اٹھایا اور داروغہ اسے ساتھ لے کر منسٹر صاحب کے گھر کی جانب چل پڑا۔
    پیچھے پورا مجمع سنار پر ہنس رہا تھا۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی کا اردو ترجمہ. یہ کہانی اس سماج کی عکاسی کرتی ہے جس میں غریب اور امیر کے لیے قانون اور انصاف کے پیمانے الگ الگ ہوتے ہیں)

  • تین سوال

    تین سوال

    کسی بادشاہ کے دل میں‌ خیال آیا کہ اگر اسے تین باتیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی شکست اور ناکامی نہ ہو اور ہر کام حسب خواہش انجام پائے۔ اس کے ذہن میں‌ آنے والے تین سوال یہ تھے۔
    کسی کام کو شروع کرنے کا کون سا وقت موزوں ہے۔
    کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
    دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کیا ہے۔

    بادشاہ نے منادی کروا دی کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

    پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے پاس یہ تھا کہ کسی بھی کام کا صحیح وقت اپنے معمولات اور نظام الاوقات کو ترتیب دینے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے ہی معلوم ہوگا۔

    بعض‌ نے کہا کہ انسان کے لیے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے۔ بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ عالم اور فاضل لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔
    ایک گروہ کا موقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہییں جو قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

    اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے۔ کچھ کا خیال تھاکہ انتظامیہ سب سے اہم ہے بادشاہ کے لیے۔ کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جب کہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگ جو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔
    بادشاہ کا آخری سوال ‘‘کرنے کے لیے سب سے ضروری کیا چیز ہے؟’’ اس کا جواب تھا کہ سائنسی ترقی جب کہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی۔ بادشاہ نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا۔

    بادشاہ نے فیصلہ کیاکہ وہ ان جوابات کی تلاش میں درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لیے مشہور تھا۔ درویش کا بسیرا جنگل میں تھا اور سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا۔ بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔

    بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا۔ بادشاہ جب پہنچا تو درویش خوش دلی سے اس سے ملا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ کم زور اور ضعیف تھا۔ جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔

    بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں۔ بادشاہ نے اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے۔ درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا۔

    بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں، آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں۔ دو کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے۔ درویش زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔

    بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا۔ ایک گھنٹہ گزرا اور پھر ایک اور۔ سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا۔ بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں۔

    وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے۔ درویش نے کہا۔ آؤ دیکھتے ہیں کون ہے۔ بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ قریب پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔

    بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا۔ بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی۔ جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا۔ بادشاہ اس کے پینے کے لیے تازہ پانی لے آیا۔

    اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوش گوار ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔

    بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی سو گیا۔ وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سو رہا تھا۔ جب وہ بیدار ہوا تو وہ زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔ بادشاہ نے کہا کہ میں‌ تم کو جانتا نہیں اور کس وجہ سے تم معافی مانگ رہے ہو۔

    تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں۔ میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہو گے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کر دوں گا۔ جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تلاش میں‌ نکلا اور تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور زخمی حالت میں وہاں سے بھاگا۔ تم نے کوشش کی اور میں مرنے سے بچ گیا۔ میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی۔ جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا۔ مجھے معاف کر دو۔

    بادشاہ نے اسے معاف کر دیا اور درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو وہ کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے۔ درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں جوابات مل چکے ہیں۔ بادشاہ نے استفسار کیا کیسے؟
    درویش نے کہا کہ تم اگر مجھے کم زور جان کر میرے لیے کیاریاں نہیں کھودتے اور یہاں‌ نہ رکتے تو واپسی پر اس شخص کے ہاتھوں‌ قتل ہو جاتے۔ تمھارے لیے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں بنا رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے سب سے اہم آدمی وہی تھا تمھارے لیے اور تم نے جو اس کے لیے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔

    یاد رکھو، سب سے اہم وقت وہی لمحۂ موجود ہے جس میں ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں۔ سب سے اہم وہی ہے جو لمحے آپ کے ساتھ موجود ہو اور سب سے اہم کام کسی کے ساتھ بھلائی ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے۔
    (روسی ادب سے، لیو ٹالسٹائی کی مشہور کہانی کا ترجمہ)