Tag: روسی ادیب

  • انتون چیخوف: انسانی فطرت کو کہانیوں میں بیان کرنے والا روسی ادیب

    انتون چیخوف: انسانی فطرت کو کہانیوں میں بیان کرنے والا روسی ادیب

    انتون چیخوف کی کہانیاں دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں کئی زبانوں میں اس کے افسانوں کا ترجمہ کیا گیا۔ روس کے ممتاز افسانہ نگار انتون چیخوف نے اپنی کہانیوں میں جس نئے اور نرالے طرز کو متعارف کروایا، وہ دنیا بھر میں اس کی وجہِ شہرت بن گیا۔

    انتون چیخوف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھا جس کی کئی کہانیوں کو شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے اور ناقدین نے چیخوف کی تخلیقی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ اس کے افسانوں کے تراجم دیس دیس میں‌ پڑھے جاتے ہیں۔ 15 جولائی 1904ء کو روس کا یہ عظیم افسانہ نگار چل بسا تھا۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ایسے گھرانے کا فرد تھا جس میں ایک سخت گیر باپ اور ایک بہترین قصّہ گو ماں موجود تھی۔ وہ اپنے سب بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ انتون چیخوف بچپن ہی سے ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا۔ وہ بڑا ہوا تو اسے تھیٹر کا شوق پیدا ہوا۔ اس نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا۔ چیخوف کے قلم سے جو کہانیاں نکلیں وہ قارئین نے بہت پسند کیں اور روس میں اسے شہرت ملنے لگی۔

    مالی مسائل کے باعث اس کے گھرانے نے غربت اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا کیا۔ چیخوف نے بچپن ہی میں کام کرنا شروع کردیا تھا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ وہ پرندے پکڑ کر انھیں‌ بازار میں فروخت کرنے لے جاتا تھا۔ اسی زمانہ میں چیخوف نے اسکیچ بنانا سیکھا اور پھر ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔

    وہ کہانیاں تو بچپن سے سنتا آرہا تھا، لیکن اب اس نے خود بھی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چیخوف کو اس کے مطالعہ کی عادت نے لکھنے کے قابل بنایا۔ تعلیمی اعتبار سے 1879ء میں چیخوف نے میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور فیس دینے کے لیے زیادہ محنت کرنے لگا۔ وہ ہر اس کام کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدن ہوسکتی تھی تاکہ فیس کے ساتھ گھر کے اخراجات بھی پورے کرسکے۔ تعلیم کے ساتھ چیخوف نے تخلیقی کام بھی جاری رکھا اور ایسے اسکیچز بناتا رہا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ اپنی تصاویر میں معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف قارئین کو متوجہ کرتا۔ چیخوف کو ان اسکیچز کی بدولت پہچان ملنے لگی اور وہ وقت آیا جب اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کر دی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے بھی لگا تھا۔ چیخوف نے تھیٹر کے لیے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اس میدان میں‌ بھی کام یابی اس کا مقدر بنی۔ اس کا تحریر کردہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا۔ ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف کی تعلیم مکمل ہوئی اور 1884ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔

    وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کر دیا۔ لیکن بعد کے برسوں میں اس نے علاج معالجہ ترک کر دیا تھا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا تھا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو کتابی شکل میں شایع کروایا تو ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا۔ اسے روس کے مقبول ترین ادیبوں میں شمار کیا گیا۔ انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ اس کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور پھر زندگی کی بازی ہار گیا۔

    روس میں چیخوف کی پذیرائی اور اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کی عکاسی تھا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ محض 44 برس تک زندہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    گوگول کو روسی ادب میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا، اُسے سمجھنے کے لیے مشہور ناول نگار دوستوفسکی کا یہ جملہ کافی ہے، ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

    اوور کوٹ بلاشبہ سلطنتِ روس کے اس عظیم قلم کار کی شاہ کار کہانی ہے۔ اوور کوٹ کی کہانی ایک سرکاری کلرک کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کہانی ایک غریب آدمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور اس کی تذلیل کی کہانی ہے۔ یہ سماج میں اُن لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتا ہے جو خود کو طبقۂ اعلیٰ اور اشرافیہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ گوگول کا کمال یہ ہے اس نے ایک کلرک کی توہین اور بے عزّتی کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ سماج کے تمام انسانوں کی تذلیل اور بے توقیری ہے۔

    نکولائی گوگول کا آبائی وطن یوکرین تھا جو اُس دور میں روسی سلطنت کا حصّہ تھا۔ سرد جنگ کے بعد یوکرین بھی متحدہ روس سے الگ ہوگیا اور خود مختار ملک بنا۔ بادشاہت کے زمانے میں یہاں 1809ء میں نکولائی واسیلیوچ گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ گوگول کے نام سے معروف ہے۔ اج اس ناول نگار کا آبائی وطن روس کی جانب سے جنگ کے بعد تباہی دیکھ رہا ہے۔ گوگول نے اپنی زندگی ہی میں روسی سلطنت میں ممتاز ادیب اور ناول نگار کے طور پر شہرت سمیٹ لی تھی۔ اس نے سماج میں غلامی کا دور دورہ دیکھا اور سلطنت میں عوام کو مختلف طبقات میں‌ بٹا ہوا پایا تھا۔ زمین دار، اُن کے ساتھ کسان اور محنت کش طبقات اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کی زد پر تھے۔ ظلم کی مختلف شکلیں، جبر اور استحصال عام تھا۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھنا شروع کیا۔

    وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہوا۔ وہ اُس زمانے میں‌ بطور ڈرامہ نویس تھیٹر سے منسلک تھے۔ گوگول کے چند دیگر اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے وابستہ تھے۔ نکولائی گوگول نے انہی سے متاثر ہو کر فن و تخلیق کا سفر شروع کیا تھا۔ اسے اداکاری کا شوق بھی تھا۔ نکولائی گوگول کو حصولِ تعلیم کے زمانے میں ہوسٹل میں رہنا پڑا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرکے سینٹ پیٹرس برگ کا رخ کیا۔ اسے سرکاری نوکری کی خواہش تھی جس کے حصول میں وہ ناکام رہا۔ تب اس نے تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گوگول نے اس مقصد کے لیے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر سے کچھ رقم چرا کر نکل پڑا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ اس عرصہ میں وہ کہانیاں لکھنے لگا تھا اور اب خیال آیا کہ انھیں کتابی شکل میں قارئین تک پہنچائے۔ وہ یہ توقع نہیں‌ رکھتا تھا کہ اُسے اس قدر پسند کیا جائے گا اور اس کتاب کی بدولت وہ ملک گیر شہرت حاصل کر لے گا۔ لیکن قسمت اس پر مہربان تھی۔ اس کی کہانیاں 1831ء اور 1832ء میں‌ قارئین کی بڑی تعداد تک پہنچیں اور لوگوں‌ نے اسے بہت سراہا۔

    گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ کو اپنی جانب متوجہ پایا تو 1835ء میں‌ اس ن ے قزاقوں‌ پر اپنا تاریخی ناول تاراس بلبا بھی شایع کروایا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بعد کے برسوں‌ میں اس ناول کا شمار روسی ادب کے شاہ کار ناولوں‌ میں کیا گیا۔ اگلے سال نکولائی گوگول نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ عوام نے تو اسے بہت پسند کیا لیکن اس ناول پر وہ سلطنت میں‌ زیرِ عتاب آیا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا اور یہ ناول بھی روسی ادب میں ایک شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار اور لائقِ‌ ملامت تصوّر کرنے لگا۔ اس کیفیت میں 1852ء میں‌ گوگول نے اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا تھا اور اسی برس 21 فروری کو چل بسا۔

    آج اٹھارہویں صدی کے اس ادیب کا یومِ وفات ہے جس نے روزمرّہ کی زندگی کو اپنے نقطۂ نگار سے دیکھا اور اپنے انداز سے پیش کیا اس کی کہانیوں میں سماج اور افراد پر گہرا طنز اور ایسا مزاح ملتا ہے جس کا اثر آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کہانیوں میں اثر پذیری کی بڑی وجہ گوگول کی وہ حقیقیت نگاری ہے جسے اس وقت روایات سے انحراف اور سماج سے بغاوت تصوّر کیا گیا۔

  • شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    روسی ادب کے عظیم افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی تخلیقات آج بھی دنیا بھر میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    روسی ادب کے اس عظیم افسانہ نگار نے 29 جنوری 1860ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے اسے پالا پوسا۔ وہ اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ تھیٹر کا شوقین اور کہانیوں کا رسیا بن گیا۔ اسے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری کا موقع بھی ملا اور پھر اس نے قلم تھام کر کئی شاہ کار افسانے تخلیق کیے۔

    چیخوف نے ابھی بچپن کی دہلیز پار نہیں کی تھی کہ اس گھرانے کے مالی حالات بگڑ گئے اور اس یوں اسے غربت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انتون چیخوف کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے۔ وہ ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ پرندے پکڑ کر بیچنے لگا اور کسی طرح اسکیچ بنانا سیکھ کر اخبار کے لیے بامعاوضہ یہ کام بھی شروع کردیا۔

    اس زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لے لیا اور تب اسے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے زیادہ محنت اور مختلف کام بھی کرنے پڑے۔ وہ اپنی آمدنی سے گھر کی ضروریات بھی پوری کرتا تھا۔

    چیخوف جو اسکیچز بناتا تھا، وہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ کسی مسئلے کی نشان دہی کرتے تھے۔ اس کے اسکیچز کو بہت پسند کیا جانے لگا تھا اور یوں وہ یومیہ بنیاد پر اخبار کی اشاعت کا حصّہ بننے لگے تھے۔ وہ ان میں اپنے معاشرے کی کوئی نہ کوئی تصویر پیش کرتا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے لگا اور تھیٹر کے لیے بھی ڈرامہ تحریر کیا۔ اس کا ڈرامہ بہت پسند کیا گیا اور عوامی سطح پر پذیرائی کے بعد اس نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کردی۔

    ڈرامہ اور افسانہ نگاری کے ساتھ چیخوف تعلیمی مدارج بھی طے کرتا رہا اور 1884ء میں فزیشن بن گیا۔ وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا۔ تاہم بعد میں‌ مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروایا تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور وہ روس کا مقبول ترین ادیب بن گیا۔

    اس باکمال ادیب کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور اسی بیماری کے سبب ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلکیاں اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

  • گوگول کا تذکرہ جو احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہا!

    گوگول کا تذکرہ جو احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہا!

    روسی ادب میں گوگول کا مقام یوں سمجھیے کہ دوستوفسکی نے کہا تھا ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

    نکولائی گوگول کا وطن یوکرین ہے جو روسی سلطنت کا حصّہ رہا اور 1991ء میں‌ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہیں 1809ء میں نکولائی گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ سلطنتِ روس کا ایک ممتاز ادیب اور مشہور ناول نگار تھا جس کے زمانے میں سلطنت میں غلامی کا دور دورہ تھا اور عوام کے مختلف طبقات، زمین دار اور ان کے ساتھ کسان اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کے نشانے پر تھے۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھ دیا۔

    وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد وفات پاگئے جو اس زمانے میں‌ تھیٹر سے منسلک تھے اور ایک ڈرامہ نگار تھے۔ اس کے چند اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ سے وابستہ تھے جس کے متاثر ہو کر اسے بھی لکھنے لکھانے اور اداکاری کا شوق پیدا ہوا۔

    اسے حصولِ تعلیم کے لیے ہاسٹل میں داخل کروایا گیا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ آگیا اور سرکاری نوکری کا خواہاں ہوا، لیکن ناکام رہا اور پھر تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لیے گوگولائی نے اپنی گھر سے کچھ رقم چرائی اور جرمنی چلا گیا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور چوں کہ وہ لکھنے لکھانے کا آغاز کرچکا تھا، اس لیے اپنی کہانیوں کو کتابی شکل میں شایع کروانے کا اہتمام کیا۔ اسے یہ یقین تو نہیں تھا کہ یہ کہانیاں بہت زیادہ پسند کی جائیں‌ گی، لیکن کہانیوں کی اشاعت کے بعد اسے ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی۔ یہ تخلیقات 1831ء اور 1832ء میں‌ شایع ہوئیں‌ جو گوگول کے آبائی علاقے یوکرین سے متعلق تھیں۔

    گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ میں پہچان بنانے کے بعد جب
    1835ء میں‌ قزاقوں‌ پر ایک تاریخی ناول تاراس بلبا کی اشاعت کروائی تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور بعد میں اس ناول کو روسی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا۔ اگلے برس اس نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ اس پر وہ معتوب ہوا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا جسے شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔

    اسی عرصے میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار تصور کرنے لگا۔ اس مریضانہ کیفیت میں گوگول نے 1852ء میں‌ اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا اور اسی سال اپنے یوم پیدائش سے دس دن پہلے دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    آج گوگول کا یومِ وفات ہے۔ وہ اٹھارہویں صدی کا ایسا ادیب ہے جس نے اس وقت کی ادبی روایات سے انحراف کرتے ہوئے روزمرّہ زندگی کو اپنے زاویۂ نگارہ سے پیش کیا اور اپنی کہانیوں میں گہرے طنز اور مزاح کی وجہ سے مقبول ہوا۔ اس کی کہانیوں میں جو اثر پذیری ہے، اس کی بڑی وجہ گوگول کی حقیقیت نگاری ہے۔ گوگول کے بعد میں آنے والے اس سے بے حد متاثر ہوئے اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حقیقت نگاری کو اپنایا۔

  • یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    نام وَر روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ اس کی تخلیقات کو نہ صرف روسی ادب کے قارئین نے سراہا بلکہ دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کا چرچا ہوا اور چیخوف نے ناقدین سے داد پائی۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ چیخوف کا باپ سخت گیر آدمی تھا جب کہ ماں ایک اچھی قصّہ گو تھی اور بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سناتی تھی۔ اس ماحول میں بچپن گزارنے والے چیخوف کو بعد میں باپ کے مالی حالات بگڑ جانے پر غربت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے اپنی تعلیم کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے جن میں ٹیوشن پڑھانا، پرندے پکڑ کر بیچنا اور اخبارات کے لیے بامعاوضہ اسکیچ بنانا شامل ہے۔

    کام اور تعلیم کے حصول کے زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور زیادہ کام کرکے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کا خرچ بھی چلانے لگا۔ چیخوف نے یومیہ بنیاد پر اسکیچ بنانا شروع کردیا تھا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ روزمرّہ روسی زندگی کی تصویر کشی بھی کرنے لگا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ چیخوف نے جرائد کے لیے بھی لکھنا شروع کردیا اور جب تھیٹر کے لیے ڈرامے تحریر کیے تو گویا اس کی شہرت ساتویں‌ آسمان سے باتیں‌ کرنے لگی۔

    وہ 1884ء میں فزیشن بھی بن گیا، لیکن درد مند اور حسّاس چیخوف نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتا رہا۔ تاہم بعد میں‌ اس نے ادب تخلیق کرنے پر زیادہ توجہ دی۔ اس نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں بھی شایع کروایا۔ اس کے مجموعوں کو زبردست پذیرائی ملی اور چیخوف نے مقبول ترین روسی ادیب کا درجہ حاصل کیا۔

    ایک وقت آیا جب انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا اور وہ لاغر ہوتا چلا گیا، اسی بیماری کے سبب ایک روز اس نے زندگی کی بازی ہار دی۔ وفات کے وقت وہ 44 برس کا تھا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے لوگوں کی حقیقی زندگی کو پیش کیا اور معاشرتی تضاد، منافقت اور سچ جھوٹ کے ساتھ عام زندگی کو قریب سے اور نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا۔

  • تین سوال

    تین سوال

    کسی بادشاہ کے دل میں‌ خیال آیا کہ اگر اسے تین باتیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی شکست اور ناکامی نہ ہو اور ہر کام حسب خواہش انجام پائے۔ اس کے ذہن میں‌ آنے والے تین سوال یہ تھے۔
    کسی کام کو شروع کرنے کا کون سا وقت موزوں ہے۔
    کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
    دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کیا ہے۔

    بادشاہ نے منادی کروا دی کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

    پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے پاس یہ تھا کہ کسی بھی کام کا صحیح وقت اپنے معمولات اور نظام الاوقات کو ترتیب دینے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے ہی معلوم ہوگا۔

    بعض‌ نے کہا کہ انسان کے لیے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے۔ بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ عالم اور فاضل لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔
    ایک گروہ کا موقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہییں جو قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

    اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے۔ کچھ کا خیال تھاکہ انتظامیہ سب سے اہم ہے بادشاہ کے لیے۔ کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جب کہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگ جو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔
    بادشاہ کا آخری سوال ‘‘کرنے کے لیے سب سے ضروری کیا چیز ہے؟’’ اس کا جواب تھا کہ سائنسی ترقی جب کہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی۔ بادشاہ نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا۔

    بادشاہ نے فیصلہ کیاکہ وہ ان جوابات کی تلاش میں درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لیے مشہور تھا۔ درویش کا بسیرا جنگل میں تھا اور سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا۔ بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔

    بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا۔ بادشاہ جب پہنچا تو درویش خوش دلی سے اس سے ملا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ کم زور اور ضعیف تھا۔ جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔

    بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں۔ بادشاہ نے اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے۔ درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا۔

    بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں، آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں۔ دو کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے۔ درویش زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔

    بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا۔ ایک گھنٹہ گزرا اور پھر ایک اور۔ سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا۔ بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں۔

    وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے۔ درویش نے کہا۔ آؤ دیکھتے ہیں کون ہے۔ بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ قریب پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔

    بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا۔ بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی۔ جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا۔ بادشاہ اس کے پینے کے لیے تازہ پانی لے آیا۔

    اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوش گوار ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔

    بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی سو گیا۔ وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سو رہا تھا۔ جب وہ بیدار ہوا تو وہ زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔ بادشاہ نے کہا کہ میں‌ تم کو جانتا نہیں اور کس وجہ سے تم معافی مانگ رہے ہو۔

    تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں۔ میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہو گے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کر دوں گا۔ جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تلاش میں‌ نکلا اور تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور زخمی حالت میں وہاں سے بھاگا۔ تم نے کوشش کی اور میں مرنے سے بچ گیا۔ میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی۔ جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا۔ مجھے معاف کر دو۔

    بادشاہ نے اسے معاف کر دیا اور درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو وہ کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے۔ درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں جوابات مل چکے ہیں۔ بادشاہ نے استفسار کیا کیسے؟
    درویش نے کہا کہ تم اگر مجھے کم زور جان کر میرے لیے کیاریاں نہیں کھودتے اور یہاں‌ نہ رکتے تو واپسی پر اس شخص کے ہاتھوں‌ قتل ہو جاتے۔ تمھارے لیے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں بنا رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے سب سے اہم آدمی وہی تھا تمھارے لیے اور تم نے جو اس کے لیے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔

    یاد رکھو، سب سے اہم وقت وہی لمحۂ موجود ہے جس میں ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں۔ سب سے اہم وہی ہے جو لمحے آپ کے ساتھ موجود ہو اور سب سے اہم کام کسی کے ساتھ بھلائی ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے۔
    (روسی ادب سے، لیو ٹالسٹائی کی مشہور کہانی کا ترجمہ)