Tag: روسی صدر

  • روسی صدر نے یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے شرائط رکھ دیں

    روسی صدر نے یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے شرائط رکھ دیں

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے سخت شرائط رکھی گئی ہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی صدر پیوٹن چاہتے ہیں کہ یوکرین مشرقی سرحدی شہر ڈونباس سے دستبردار ہو جائے اور نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کردے۔

    کریملن ذرائع کے مطابق روسی صدر چاہتے ہیں کہ مشرقی سرحد سے نیٹو افواج کو ہٹا دیا جائے، اس کے عوض روس کچھ علاقوں سے پیچھے ہٹنے پر تیار ہے۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ نکات پیوٹن اور امریکی صدر ٹرمپ کی الاسکا میں تین گھنٹے طویل ملاقات میں زیرِ بحث آئے تھے۔

    ذرائع کے مطابق یوکرین اگر ان شرائط کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو روس جنگ جاری رکھے گا۔

    روس یوکرین جنگ رکوا کر رہوں گا، صدر ٹرمپ

    امریکی صدر کی یوکرینی صدر اور یورپی رہنماؤں سے ملاقات اختتام پذیر ہوگئی، اس دوران ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن سے ٹیلیفونک گفتگو بھی کی، ان کا کہنا تھا کہ روس یوکرین جنگ رکوا کر رہوں گا۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے یورپی رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کے دوران روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو فون بھی کیا، جس کے باعث میٹنگ وقتی طور پر روکنا پڑگئی۔

    عدالت نے ٹرمپ کو خوشخبری سنادی

    خبر رساں اداروں کے مطابق دونوں شخصیات کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو 40 منٹ تک جاری رہی۔

    روسی صدر پیوٹن نے ٹرمپ سے کہا کہ وہ یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ملاقات کے لیے تیار ہیں، ذرائع کے مطابق روس یوکرین صدور کی ملاقات اگست کے آخر تک ہونے کی امید ہے۔

  • روسی صدر اور ٹرمپ کی ٹیلیفونک گفتگو، یوکرین جنگ پر تبادلہ خیال

    روسی صدر اور ٹرمپ کی ٹیلیفونک گفتگو، یوکرین جنگ پر تبادلہ خیال

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر طویل بات چیت کی، مگر یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہ ہو سکی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے گفتگو کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روسی صدر سے معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں کر سکا۔

    دونوں رہنماؤں نے گفتگو کے دوران یوکرین کو اسلحہ کی حالیہ بندش پر بات نہیں کی، امریکا کی جانب سے یوکرین کو کچھ اہم ہتھیاروں کی فراہمی روک دی گئی ہے۔

    اس بندش سے یوکرین کی دفاعی صلاحیت پر اثر پڑا ہے، خاص طور پر پیٹریاٹ میزائل نظام جیسی ٹیکنالوجی کی کمی سے جسے روسی میزائلوں کے خلاف استعمال میں لایا جارہا تھا۔

    ٹرمپ نے اسلحہ کی فراہمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسلحہ دے رہے ہیں اور بہت زیادہ دے چکے ہیں، بائیڈن نے ملک کا سارا اسلحہ خالی کر دیا، اب ہمیں اپنے لیے بھی رکھنا ہے۔

    دوسری جانب یوکرینی صدر نے امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ جمعے کو ٹرمپ سے براہِ راست بات کریں گے تاکہ امریکی اسلحہ کی فراہمی کی بندش پر گفتگو کی جا سکے۔

    رپورٹس کے مطابق واشنگٹن میں قائم یوکرینی سفارت خانے نے اس بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ یوکرین کے دفاع کو کمزور کر سکتی ہے۔

    ایران، امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات آئندہ ہفتے اوسلو میں متوقع

    قبل ازیں کریملن کے مشیر یوری اوشاکوف کا کہنا ہے کہ پیوٹن نے جنگ کے بنیادی اسباب کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا، ان کا اشارہ نیٹو کی توسیع، مغربی ممالک کی یوکرین کی حمایت اور یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کے امکان کی مخالفت کی طرف تھا۔

    کریملن نے یہ بھی واضح کیا کہ ماسکو کسی بھی امن مذاکرات کو صرف روس اور یوکرین کے درمیان دیکھنا چاہتا ہے اور امریکی شمولیت سے گریز کر رہا ہے، جیسا کہ جون میں استنبول میں ایک اجلاس کے دوران امریکی سفارتکاروں کو کمرے سے باہر نکالنے کی اطلاع دی گئی تھی۔

  • روسی صدر نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو بڑا کریڈٹ دے دیا

    روسی صدر نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو بڑا کریڈٹ دے دیا

    ماسکو : روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ امریکا اور روس کے تعلقات میں بہتری کا کریڈٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو جاتا ہے۔

    بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ امریکا اور روس کے درمیان تعلقات مستحکم ہورہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ تعلقات میں بہتری کا کریڈٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جاتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا بہت احترام کرتا ہوں، ان سے ملاقات کی خواہش ہے۔

    ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ صدرٹرمپ سے ملاقات کی انتہائی محتاط انداز سے تیاری کرنا ہوگی، روس اورامریکا کے تعلقات کچھ حد تک بہتر ہونا شروع ہوئے ہیں۔

    روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاملات فی الحال طے نہیں ہوئے، امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات کا پہلا قدم اٹھ چکا ہے اب ہم آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

  • طیاروں پر حملوں کے بعد روسی صدر کی یوکرین کو بڑی دھمکی

    طیاروں پر حملوں کے بعد روسی صدر کی یوکرین کو بڑی دھمکی

    ماسکو : روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس کے جوہری بمبار طیاروں کے بیڑے پر یوکرینی ڈرون حملوں کا جواب دینا ہوگا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بدھ کو روسی صدر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد طویل ٹیلیفونگ گفتگو ہوئی۔

    روسی حکام کے مطابق ٹیلیفونک گفتگو میں یوکرین جنگ، ایران جوہری معاہدے اور پاکستان بھارت تنازع پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

    روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ یوکرین کی غیرقانونی حکومت اب دہشت گرد تنظیم بن رہی ہے، یوکرین کے حملے روس میں دہشت گردی کے مترادف ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بریانسک اور کرسک میں حملے یوکرین نے کیے تھے جس کا بھرپور جواب دینگے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ مغربی حمایت یافتہ کیف حکومت عام شہریوں کو نشانہ بنارہی ہے۔

    صدر پیوٹن نے کہا کہ یوکرینی حکومت کو طاقت، امن اور انسانی جانوں سے زیادہ عزیز ہے، جو دہشت گردی پر یقین رکھتے ہیں ان سے مذاکرات ممکن نہیں، یوکرین میدان جنگ میں شکست کے بعد دہشت گردی پر اتر آیا ہے۔

    واضح رہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روس یوکرین کی جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور ٹرمپ کی جانب سے ماسکو اور کیف دونوں پر کئی ماہ سے دباؤ اور وارننگز کے بعد ان کا کہنا ہے کہ وہ یورپ کی دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی مہلک ترین جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : پیوٹن نے یوکرین کی جنگ بندی تجویز کیوں مسترد کی؟

    یوکرین کی جانب سے روس کے دور دراز شمالی علاقوں اور سائبیریا میں بمبار طیاروں پر حملوں اور پلوں کو نشانہ بنانے کے بعد پیوٹن نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یوکرینی قیادت امن چاہتی ہے۔

  • ایرانی وزیر خارجہ کی روسی صدر سے اہم ملاقات، سپریم لیڈر کا پیغام پہنچایا

    ایرانی وزیر خارجہ کی روسی صدر سے اہم ملاقات، سپریم لیڈر کا پیغام پہنچایا

    ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی روس کے دورے پر ہیں، اس دوران اُن کی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے کریملن میں اہم ملاقات ہوئی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ اور روسی صدر کی ملاقات کے دوران ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات سے متعلق مشاورت اور تبادلہ خیال کیا گیا۔

    اس موقع پر عباس عراقچی نے صدر پوتن کو ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کا پیغام بھی پہنچایا۔

    واضح رہے کہ عباس عراقچی گزشتہ روز ماسکو پہنچے تھے جہاں وہ اعلیٰ روسی حکام سے بات چیت اور مشاورت کریں گے۔

    دوسری جانب سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان اور ان کے ہمراہ وفد سعودی قیادت کی ہدایت پر سرکاری دورے پر ایرانی دارالحکومت تہران پہنچے ہیں جہاں ان کا استقبال ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے کیا۔

    غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایرانی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ شہزادہ خالد بن سلمان نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا پیغام پہنچایا، تاہم اس پیغام کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

    ایرانی میڈیا کے مطابق ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہیں۔

    ایران کے سپریم لیڈر نے ایران کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

    ’ایران پر اسرائیلی حملہ منسوخ نہیں کیا بلکہ…‘ صدر ٹرمپ کا نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ پر ردعمل

    واضح رہے کہ سعودی وزیر دفاع کا دورہ امریکا اور ایران کے درمیان رواں ہفتے روم میں ہونے والے جوہری مذاکرات سے قبل ہوا ہے۔

    ایران اور سعودی عرب کے مابین 2023 میں چین کی ثالثی میں ایک معاہدے کے تحت کئی برسوں کی کشیدگی کے بعد سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، گزشتہ سال سعودی عرب کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف نے بھی ایران کا دورہ کیا تھا۔

  • روسی صدر پیوٹن کا خصوصی جہاز، ایٹم بم بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا؟

    روسی صدر پیوٹن کا خصوصی جہاز، ایٹم بم بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا؟

    روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے پاس ایک ایسا خصوصی ہوائی جہاز بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایٹم بم بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔

    غیر ملکی میڈیا یاہو نیوز کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے پاس ’’ڈومزڈے پلین‘‘ نامی ایک خصوصی جہاز ہے۔ اس جہاز میں دیگر جہازوں کی طرح کوئی کھڑکی نہیں ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس جہاز کا ایٹم بم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اس کو ایٹمی جنگ جیسے بدترین حالات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ جہاز جس کو ‘‘فلائنگ کریملن‘‘ یا ’’میکسڈو‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ روسی صدر اس کا اس وقت استعمال کر سکتے ہیں جب ممکنہ ایٹمی حملے میں بالفرض سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔یہ خصوصی طیارہ ایک ایئر بورن کمانڈ سینٹر کے طور پر کام کرے گا۔

    اس جہاز ایلیوشِن آئی آئی 80- میکسڈوم کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ بدترین حالات میں صدر پوتن اور دیگر روسی حکام کو ممکنہ طور پر محفوظ رکھنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

    اس جہاز میں دیگر جہازوں کی طرح کھڑکیاں نہیں ہیں۔ اس کی وجہ امریکی ایئر فورس کے سابق انٹیلی جنس افسر کرنل سیڈرک لیٹن نے یہ بیان کی ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایٹمی دھماکے کی صورت میں ان کے ٹوٹنے کا امکان تک نہ ہو۔

    اس جہاز کے اوپر ایک خصوصی ڈوم بھی ہے جس کی مدد سے روسی ’ہر طرح کے حالات میں‘ اپنے مواصلاتی روابط کو بحال رکھنے کے قابل ہوں گے۔

    اس جہاز کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے فضا میں ایندھن بھی فراہم کیا جا سکتا ہے، اور اسی خاصیت کی وجہ سے یہ بہت طویل دورانیے تک زمین سے دور رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    تاہم یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ روس دنیا کا واحد ملک نہیں کہ جس کے پاس اس قسم کا جہاز ہے بلکہ اس کے روایتی حریف امریکا کے پاس بھی ایک دو نہیں بلکہ چار ڈومزڈے جہازوں پر مشتمل بیڑا ہے۔

  • ویڈیو: روسی صدر پر قاتلانہ حملہ؟ پیوٹن کے قافلے میں شامل گاڑی میں دھماکا

    ویڈیو: روسی صدر پر قاتلانہ حملہ؟ پیوٹن کے قافلے میں شامل گاڑی میں دھماکا

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قافلے میں شامل ایک لگژری گاڑی میں دھماکا ہوا ویڈیو میں کار سے آگے کے شعلے بلند ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قافلے میں شامل ایک لگژری لیموزین کار میں زور دار دھماکا ہوا جس کے بعد گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی اور بلند شعلوں نے خوف وہراس پھیلا دیا۔

    یہ دھماکا روسی خفیہ ایجنسی ایف ایس بی کے ہیڈ کوارٹر کے قریب ہوا۔ دھماکے بعد سیکیورٹی ادارے الرٹ ہوگئے ہیں۔

    دی سن کی رپورٹ کے مطابق وسطی ماسکو میں ولادیمیر پوتن کے قافلے کی ایک لگژری لیموزین میں دھماکا ہوا۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کسی سازش کا حصہ ہے یا گاڑی میں کسی خرابی کی وجہ سے آگ لگی۔

    لگژری کار لیموزین کو آگ لگنے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں کار سے آگ کے شعلے بلند ہوتے نظر آرہے ہیں۔

     

    بتایا جا رہا ہے کہ یہ گاڑی صدر کے پراپرٹی ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام ہے، جو صدر کی ٹرانسپورٹ کو سنبھالتا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ واقعے کے وقت کار کے اندر کون تھا۔

    کار میں آگ لگنے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں ریسکیو اداروں کے کارکنوں کو آگ بجھانے میں مدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کار کے انجن بے ایریا سے شروع ہوئی اور اس کے اندرونی حصوں تک پھیل گئی۔

    لیموزین کار روسی صدر کی پسندیدہ لگژری کار ہے۔ اسے اکثر ان کو استعمال کرتے دیکھا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے یہ کار اپنے دوستوں کو بھی تحفے میں دی ہے۔

    پیوٹن نے یہ کار شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو بھی تحفے میں دی تھی۔

    واضح رہے کہ یہ دھماکا ایک ایسے وقت میں ہوا جب حال ہی میں روسی صدر کے حریف یوکرینی ہم منصب زیلینسکی نے پیوٹن کی جلد ‘موت کی پیشن گوئی’ کی تھی۔

    یوکرین کے صدر زیلنسکی نے دعویٰ کیا تھا کہ روسی صدر پوتن کی طبیعت خراب ہو رہی ہے اور وہ جلد انتقال کر جائیں گے اور پیوٹن کی موت کے بعد یہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔

    زیلنسکی کے اس بیان کے بعد پیوٹن پر کریملن کے اندر سے ہی حملے کا خطرہ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا چکا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/zelensky-predicts-putin-will-die-soon/

  • روسی صدر سے کیا گفتگو ہوئی؟ ٹرمپ نے بتا دیا

    روسی صدر سے کیا گفتگو ہوئی؟ ٹرمپ نے بتا دیا

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روسی صدر سے یوکرین امن معاہدے پر مثبت گفتگو ہوئی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی، روس اور امریکی صدور کے درمیان ڈھائی گھنٹے طویل گفتگو ہوئی جس میں یوکرین جنگ سمیت دیگر امور پر بات کی گئی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر سے گفتگو کے بعد امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ روسی صدر کے ساتھ یوکرین امن معاہدے  پر گفتگو مثبت رہی، مکمل جنگ بندی کیلئے تیزی سے کام کریں گے۔

    امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں ٹرمپ نے مزید کہا روسی صدر سے یوکرینی امداد پر بات نہیں ہوئی، امریکی مندوب اسٹیو وٹکوف کا کہنا ہے روسی وفد سے اتوار کو جدہ میں بات ہوگی۔

    روس یوکرین جنگ کے خاتمے کیلیے اہم پیشرفت

    دوسری جانب امریکا اور روس کے درمیان یوکرین میں جنگ بندی سے متعلق بات چیت کے بعد یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی امریکی تجویز پر امریکی صدر سے بات کریں گے۔

    یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ٹرمپ سے گفتگو کا مقصد یہ جاننا ہوگا کہ روس نے امریکا کو کیا پیشکش کی ہے، یہ جاننا بھی چاہتے ہیں کہ امریکا نے روس کو کیا پیشکش کی۔

    صدر ولادیمیر زیلنسکی کا مزید کہنا تھا کہ پیوٹن کی شرائط ظاہر کرتی ہیں کہ روس جنگ بندی کے لیے تیار نہیں، روسی صدر کا مقصد یوکرین کو کمزور کرنا ہے۔

  • روسی صدر ولادمیر پیوٹن متنازعہ علاقہ کرسک پہنچ گئے

    روسی صدر ولادمیر پیوٹن متنازعہ علاقہ کرسک پہنچ گئے

    روسی صدر ولادمیر پیوٹن متنازعہ علاقہ کرسک پہنچ گئے، روسی میڈیا نے ان کے دورے کی ویڈیو بھی جاری کردی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روسی صدر ولادمیر پیوٹن فوجی یونیفارم میں کرسک پہنچے ہیں، اس موقع پر انہوں نے فوجی اہلکاروں سے ملاقاتیں بھی کیں۔

    پیوٹن نے متنازعہ علاقے میں یوکرینی فوج کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا، کرسک وہ متنازعہ علاقہ ہے جہاں روسی اور یوکرینی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر نے ایک بار پھر کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ روس لڑائی میں 30 دن کے توقف پر راضی ہو جائے گا اور اب یہ روس پر منحصر ہے۔

    انہوں نے یہ بات اس وقت کی جب امریکی حکام مذاکرات کے لیے ماسکو جا رہے تھے۔

    ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکہ کو حمایت یافتہ جنگ بندی کی تجویز پر ”مثبت پیغامات”ملے ہیں تاہم اس کی کوئی وضاحت نہیں دی۔

    یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ اگر روس لڑائی روکنے پر راضی نہیں ہوتا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم امریکہ کی طرف سے مضبوط اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔

    زیلنسکی نے کیف میں صحافیوں کو بتایا کہ مجھے ابھی تک تفصیلات معلوم نہیں ہیں لیکن ہم پابندیوں اور یوکرین کو مضبوط بنانے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

    امریکا، کینیڈا اور یورپ میں تجارتی جنگ کا باضابطہ آغاز

    انہوں نے مزید کہا کہ ”سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا روس جنگ بندی اور خاموشی چاہتا ہے، یا وہ لوگوں کا قتل جاری رکھنا چاہتا ہے۔”

    ماسکو نے کہا ہے کہ وہ تبصرہ کرنے سے پہلے مجوزہ امریکی جنگ بندی کے بارے میں مزید معلومات کا انتظار کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں امریکی اور روسی حکام کی بات چیت متوقع ہے۔

  • امریکا یوکرین معدنی معاہدہ،  پیوٹن کا ردِ عمل سامنے آگیا

    امریکا یوکرین معدنی معاہدہ، پیوٹن کا ردِ عمل سامنے آگیا

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا امریکا یوکرین معدنی معاہدے پر اہم بیان سامنے آیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو میں روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ امریکا یوکرین معدنی معاہدے سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، معدنی وسائل پر تعاون سے متعلق امریکا کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا موقف روس کے مفاد میں نہیں بلکہ یوکرین کے مفاد میں ہے۔ امریکا کے سرکاری و نجی اداروں کو مشترکہ کام کرنے کی پیشکش کے لیے تیار ہیں۔

    روسی صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ یوکرین سے متعلق مذاکرات میں یورپی یونین کی شرکت میں بظاہرحرج نہیں ہے۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس یوکرین جنگ روکنے کیلئے اہم پیش رفت ہوئی ہے، امید ہے روس یوکرین جنگ کا جلد ہی خاتمہ ہوجائے گا۔

    وائٹ ہاؤس میں فرانسیسی ہم منصب صدر ایمینوئل میکرون کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق ہم معاہدہ کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی، اوول آفس میں ہونے والی ملاقات سے قبل دونوں شخصیات نے میڈیا سے خصوصی بات چیت کی۔

    اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ روس یوکرین جنگ روکنے پر بہت زیادہ پیشرفت ہوئی ہے، ہم اس جنگ کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

    صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم ہفتوں کے مختصر عرصے میں اب تک ایک طویل سفر طے کرچکے ہیں اور ایک معاہدہ کرنے کے بہت قریب پہنچ رہے ہیں۔

    فلسطین اسرائیل تنازع کا ’دو ریاستی ہی واحد حل ہے‘ برطانیہ اور یورپی یونین

    انہوں نے کہا کہ امریکا نے یوکرین پر350ارب ڈالر خرچ کیے، یہ بہت بڑی رقم ہے، یہ جنگ بائیڈن انتظامیہ کی بہت بڑی غلطی تھی، یورپیوں نے یوکرین پر تقریباً 100 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔