Tag: روس امریکا

  • جب تک امریکا ٹوٹ نہیں جاتا، روس پر پابندیاں برقرار رہیں گی: سابق روسی صدر

    جب تک امریکا ٹوٹ نہیں جاتا، روس پر پابندیاں برقرار رہیں گی: سابق روسی صدر

    ماسکو: روس کے سابق صدر دیمتری میدویدیف نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان کے پس منظر میں کہا ہے کہ جب تک امریکا ٹوٹ نہیں جاتا، روس پر امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی۔

    روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق صدر دیمتری میدویدیف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں کوئی بھی کامیابی حاصل کرے، روس پر وسیع پیمانے پر پابندیاں برقرار رہیں گی۔

    ٹیلیگرام پوسٹ میں میدویدیف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تبصرے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ماسکو کے خلاف عائد پابندیوں کو اٹھالیں گے، ایک ’آؤٹ سائیڈر‘ کے طور پر ان کی تمام ظاہری بہادری دکھانے کے باوجود ٹرمپ بہرحال اسٹیبلشمنٹ ہی کا اندرونی فرد ہے۔

    یاد رہے اس ہفتے کے شروع میں ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ وائٹ ہاؤس واپس آتے ہیں تو روس پر پابندیوں کو جتنا ممکن ہو سکے ختم کریں گے۔

    روسی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری میدویدیف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ٹوٹنے تک روس پر پابندیاں برقرار رہیں گی۔

  • روسی گیس پائپ لائن دھماکے کا ماسٹر مائنڈ امریکا، اہم شخصیت نے کہانی قابل قبول قرار دے دی

    روسی گیس پائپ لائن دھماکے کا ماسٹر مائنڈ امریکا، اہم شخصیت نے کہانی قابل قبول قرار دے دی

    نیویارک: روسی گیس پائپ لائن دھماکے کا ماسٹر مائنڈ امریکا ہے، اس کہانی کو ایک اور اہم امریکی شخصیت نے قابل قبول قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی جرمن نارڈ اسٹریم پائپ لائن پر حملے کے حوالے سے امریکی تاریخ دان اور پولیٹیکل سائنٹسٹ آرون گڈ نے کہا ہے کہ صحافی ہرش کی کہانی زیادہ قابل قبول ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی تفتیشی صحافی سیمور ہرش نے نارڈ اسٹریم پائپ لائن دھماکے کا ماسٹر مائنڈ امریکا کو قرار دیا تھا، جب کہ حالیہ دنوں میں نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ یوکرین حامی گروپ نے کیا۔

    امریکی تاریخ دان آرون گڈ نے کہا کہ ہرش کی روسی جرمن نارڈ اسٹریم پائپ لائن پر امریکا کے حملے کی کہانی نے امریکا اور جرمنی کے اتحاد کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

    انھوں نے کہا یہ اتحاد دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکی بالادستی کا ایک اہم ستون ہے اور امریکا کسی بھی صورت اپنی بالا دستی سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا۔

    پولیٹیکل سائنٹسٹ آرون گڈ نے کئی تاریخی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے سابق امریکی صدر کے یہ جملہ بھی دہرایا ’’امریکا کا کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہے، صرف مفادات ہیں۔‘‘

    ان کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے مفادات اور بالادستی کے تحفظ کی خاطر کچھ بھی کر سکتا ہے۔

  • یوکرین کو مزید اسلحہ دینے کا امریکی اعلان، ماسکو نے براہ راست فوجی تصادم کا خدشہ ظاہر کر دیا

    یوکرین کو مزید اسلحہ دینے کا امریکی اعلان، ماسکو نے براہ راست فوجی تصادم کا خدشہ ظاہر کر دیا

    ماسکو: یوکرین کو مزید اسلحہ دینے کے امریکی اعلان پر ماسکو نے براہ راست فوجی تصادم کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ماسکو نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو مزید فوجی امداد بھیجنے کے امریکی فیصلے سے روس اور مغرب کے درمیان ’براہ راست فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘

    امریکا میں روس کے سفیر اناتولی انتونوف نے فوجی امداد کے حوالے سے کہا کہ یہ ماسکو کے لیے براہ راست خطرہ ہے، فوجی امداد امریکا کو یوکرین کے ساتھ روس کے تصادم میں باقاعدہ حصے دار بنا دیتا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا نے یوکرین کے لیے مزید 625 ملین ڈالر (62 کروڑ ڈالر) کی فوجی امداد کا اعلان کیا تھا، جدید امریکی ہتھیاروں نے قابض روسی افواج کے خلاف یوکرین کی مزاحمت کی قوت میں کافی اضافہ کیا ہے۔

    یوکرینی فوج نے خیرسن میں ماسکو کا دفاع توڑ دیا، روس کا اعتراف

    یوکرینی فوجیوں نے حالیہ ہفتوں میں ملک کے شمال مشرق اور جنوب میں نمایاں پیش رفت کی ہے، مجموعی طور پر، 24 فروری کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے یوکرین پر حملے کے بعد سے، واشنگٹن نے کیف کے لیے تقریباً 17 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا وعدہ کیا ہے۔

    اس سلسلے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے زیلنسکی سے بات چیت بھی کی، انھوں نے واضح کیا کہ کسی بھی سطح پر پیوٹن کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

  • ’اثاثے ضبط کیے تو امریکا کے ساتھ تعلقات ختم ہو جائیں‌ گے‘

    ’اثاثے ضبط کیے تو امریکا کے ساتھ تعلقات ختم ہو جائیں‌ گے‘

    ماسکو: روس نے امریکا کو اثاثوں کی ضبطگی کے نقصان دہ نتائج سے خبردار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے روسی اثاثوں کی ممکنہ ضبطگی سے ماسکو کے واشنگٹن کے ساتھ دوطرفہ تعلقات مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔

    روسی وزارت خارجہ کے محکمہ شمالی امریکا کے سربراہ الیگزینڈر ڈارچیو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم امریکیوں کو ایسے اقدامات کے نقصان دہ نتائج سے خبردار کرتے ہیں جو دوطرفہ تعلقات کو مستقل طور پر نقصان پہنچائیں گے۔ انھوں نے کہا یہ نہ تو ان کے اور نہ ہی ہمارے مفاد میں ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ ان کا اشارہ کن اثاثوں کی طرف تھا۔ الیگزینڈر ڈارچیو کا کہنا تھا کہ روس نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دیا گیا تو سفارتی تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے اور ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔

    یوکرین کی صورتحال کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکا کا کیف پر اثر و رسوخ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ اس تنازع میں تیزی سے براہ راست فریق بن رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ روس کے مغرب کے ساتھ تعلقات رواں برس 24 فروری کو ماسکو کے یوکرین پر حملے کے بعد سے شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ روسی حملے کا جواب مغرب کی جانب سے غیر معمولی اقتصادی، مالی اور سفارتی پابندیوں کی صورت میں دیا گیا۔ روس کے تقریباً نصف سونے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی منجمد کر دیا گیا جو 24 فروری سے پہلے 640 ارب ڈالر کے قریب تھے۔

  • دنیا کے لیے روس کے ساتھ کاروبار کو مشکل بنا نے کی کوشش کر رہے ہیں: امریکا

    دنیا کے لیے روس کے ساتھ کاروبار کو مشکل بنا نے کی کوشش کر رہے ہیں: امریکا

    واشنگٹن: امریکا کی جانب سے مسلسل کوششیں جاری ہیں کہ دنیا کے لیے روس کے ساتھ کاروبار کو مشکل بنایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی کرمنل جسٹس کی خصوصی امریکی سفیر بیتھ وان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم دنیا کے لیے روس کے ساتھ کاروبار کو مشکل بنا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    امریکی سفیر نے کہا روسی فوج یوکرین میں جنگی جرائم میں ملوث ہے، یوکرین کی صورت حال جانچنے کے لیے اقوام متحدہ نے کمیشن بنایا ہے، امریکا جنگی جرائم کا جائزہ لینے والے یو این کمیشن کی مدد کے لیے تیار ہے۔

    بیتھ وان کا کہنا تھا کہ امریکا روس پر معاشی پابندیاں عائد کر چکا ہے، اب روسی فوجی اہل کاروں پر بھی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔

    یاد رہے کہ یوکرین پر حملے کی وجہ سے یو این جنرل اسمبلی نے روس کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت معطل کر دی تھی، امریکا نے یوکرین پر حملے کو جواز بنا کر روس کے خلاف قرارداد پیش کی تھی۔

    یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے مغربی ممالک نے ماسکو پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کے توانائی سیکٹر کو پابندیوں کا نشانہ بنایا تاکہ روس کی معیشت کو کمزور کیا جا سکے اور وہ جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو جائے، لیکن حال ہی میں جاری ہونے والی سینٹر فار ریسرچ برائے توانائی کی رپورٹ کے مطابق ان تمام پابندیوں کے باوجود روس تیل اور گیس کی فروخت سے بیش بہا پیسہ کما رہا ہے۔

  • پیوٹن کے قتل کے مطالبے پر روس کا بڑا ردِ عمل

    پیوٹن کے قتل کے مطالبے پر روس کا بڑا ردِ عمل

    ماسکو: ولادیمیر پیوٹن کے قتل کے مطالبے پر روس کا بڑا ردِ عمل سامنے آیا ہے، ماسکو نے واشنگٹن سے ایک امریکی سینیٹر کی جانب سے قتل کی اپیل پر وضاحت طلب کر لی ہے۔

    امریکا میں روسی سفارت خانے نے سینئر سینیٹر لنزی گراہم کے بیان پر وائٹ ہاؤس سے سرکاری وضاحت کا مطالبہ کیا ہے، جنھوں نے سرکاری اہل کاروں سے روسی صدر کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    لنزی گراہم نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کھل کر کہا تھا کہ ‘روس میں کوئی تو ایسا ہو جو پیوٹن کو قتل کر دے’۔ فاکس نیوز ٹی وی سے گفتگو میں لنزی گراہم کا یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ سب اب کیسے ختم ہوگا؟ روس ہی میں کسی کو آگے آنا ہوگا جو اس شخص کو منظر سے ہٹائے۔

    ’کوئی روسی تو ایسا ہو جو پیوٹن کو قتل کر دے‘

    انٹرویو کے بعد گراہم نے ٹوئٹر پر بھی پوسٹس کی ایک سیریز میں واضح اشارے کیے، ان میں امریکی سینیٹر جو سینیٹ کی بجٹ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘کیا روس میں کوئی بروٹس ہے؟’ بروٹس وہ تاریخی کردار ہے جس نے طاقت ور رومی حکمران جولیس سیزر کو قتل کر دیا تھا، اور وہ سیزر کا سب سے قریبی اور بااعتماد ساتھی تھا۔

    گراہم نے ایک اور ٹوئٹ میں‌ لکھا کہ اگر آپ اپنی باقی زندگی اندھیرے میں نہیں رہنا چاہتے، انتہائی غربت میں باقی دنیا سے الگ تھلگ نہیں‌رہنا چاہتے، اور اندھیرے سے نکلنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اس نازک موقع پر اپنا ردِ عمل دکھانا ہوگا۔

    امریکا میں روسی سفارت خانے نے کہا کہ وہ ‘اس امریکی کے مجرمانہ بیانات کی سخت مذمت’ کا مطالبہ کرتا ہے۔

    بیان میں امریکا میں روس کے خلاف انتہائی سطح کی نفرت اور ‘روسوفوبیا’ کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ، یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ جو ملک تمام بنی نوع انسان کے لیے خود کو ‘رہنما ستارہ’ سمجھتا ہے، اور اسی حوالے سے اخلاقی اقدار کی تبلیغ کرتا ہے، اس کا سینیٹر دہشت گردی کی دعوت دے رہا ہے۔

  • یوکرین پر روس کے حملے سے متعلق امریکا کے پاس کیا خفیہ معلومات ہیں؟

    یوکرین پر روس کے حملے سے متعلق امریکا کے پاس کیا خفیہ معلومات ہیں؟

    واشنگٹن: کیا امریکا کے پاس واقعی ایسی خفیہ معلومات موجود ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ روس جلد ہی یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے، امریکا اس بارے کئی بار دعویٰ کر چکا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ روس یوکرین پر آئندہ چند ہفتوں میں حملہ کر سکتا ہے، جس کے لیے اس نے 70 فی صد تیاری بھی مکمل کر لی ہے۔

    امریکی حکام نے اپنے الزامات کے حوالے سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے، تاہم ان کا اصرار ہے کہ یہ معلومات خفیہ اطلاعات کے سبب حاصل ہوئی ہیں، معاملہ حساس ہونے کے سبب وہ میڈیا کو اس ضمن میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے۔

    امریکی حکام کے مطابق یوکرین پر روس حملہ کرنے کے لیے تیار ہے اور وہ جنگی تیاریوں کے لیے فروری کے وسط تک مزید بھاری ہتھیار اور سامان یوکرین کی سرحد تک منتقل کر سکتا ہے۔

    امریکی حکام نے دعویٰ کیا کہ 15 فروری سے مارچ کے اختتام تک کا موسم روس کو بھاری جنگی سازو سامان سرحدوں تک منتقلی کے لیے پیک ٹائم ہو گا۔

    واضح رہے کہ روس نے یوکرین کی سرحد کے نزدیک ایک لاکھ فوجی اہل کار تعینات کر رکھے ہیں تاہم روس نے یوکرین پر حملے کے خدشے کو مسترد کر دیا ہے۔

  • قازقستان میں روسی فوج کی تعیناتی پر امریکا کی بے چینی، روس کا رد عمل سامنے آ گیا

    قازقستان میں روسی فوج کی تعیناتی پر امریکا کی بے چینی، روس کا رد عمل سامنے آ گیا

    ماسکو: قازقستان میں عوامی شورش کو قابو میں کرنے کے لیے روسی فوج کی تعیناتی پر امریکا کی بے چینی کو روس نے مسترد کر دیا۔

    روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے کہا ہے کہ روسی فوج کی قازقستان میں تعیناتی پر امریکا کی بے چینی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

    انھوں نے کہا کچھ امریکی نمائندے سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ قازقستان میں کیا ہو رہا ہے اور اسے واشنگٹن کے سرکاری مؤقف کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

    وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ قازقستان کے حکام کی اس درخواست کی قانونی حیثیت کے بارے میں امریکا کو تحفظات ہیں، جس کے تحت ملک میں اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم (CSTO) کی افواج کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

    روسی زیر قیادت اتحادی فوج کا پہلا دستہ قازقستان پہنچ گیا

    زخارووا نے کہا کہ ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ واشنگٹن کے بعض نمائندے عالمی منظر نامے کے حوالے سے کچھ نہیں جانتے، یہی وجہ ہے کہ قازقستان میں روسی فوجی اتحاد کی افواج کی تعیناتی پر سوال اٹھانا قانون سے نابلد ہونا ہے جس سے گریز کیا جانا چاہیے۔

    واضح رہے کہ قازقستان میں کشیدگی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے روسی فوجی اتحاد کے امن دستے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، اور اس سلسلے میں پہلے دستے کی آمد گزشتہ روز ہوئی۔

    روس کے زیر قیادت فوجی اتحاد کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قازقستان میں 2500 فوجیوں پر مشتمل پہلا دستہ بھیجا گیا ہے، قازقستان میں صورت حال معمول پر آنے تک فوج قازقستان میں رہے گی۔

    یاد رہے کہ قازقستان کی حکومت نے ملک میں جاری بدامنی روکنے کے لیے روس سے فوجی مدد کی درخواست کی تھی۔

  • امریکی پابندیوں پر روس کا ردِ عمل

    امریکی پابندیوں پر روس کا ردِ عمل

    واشنگٹن: امریکا نے روس کے 32 افراد اور کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جب کہ 10 سفارت کاروں کو امریکا سے بے دخل کر دیا گیا ہے، روس نے ان اقدامات کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے روس پر پابندیوں کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کر دیا، بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر روس ہماری جمہوریت میں مداخلت سے نہ رکا تو مزید کارروائی کریں گے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بطور صدر روس کے خلاف کارروائی ان کی ذمہ داری تھی، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے رواں ہفتے روسی صدر کو ملاقات کی پیش کش بھی کی تھی۔

    دوسری طرف روسی وزارت خارجہ نے امریکی اقدامات کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کر دیا ہے، کریملن کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے بعد صدور کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی انتخابات میں مداخلت، ہیکنگ اور کریمیا پر ‏غیر قانونی تسلط کے الزامات پر امریکا نے روس پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں، امریکا نے گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں مداخلت اور وفاقی ایجنسیوں کی ہیکنگ کے لیے کریملن کو ‏جواب دہ اور قصور وار ٹھہرایا ہے۔

  • روس، امریکا ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے

    روس، امریکا ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے

    ماسکو: امریکا اور روس کے درمیان کشیدگی میں پھر اضافہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس اور امریکا ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں، امریکی جنگی بیڑا یو ایس ایس پورٹر یوکرین کے سلسلے میں نیٹو کی حمایت کے لیے بحیرہ اسود میں داخل ہوگیا۔

    عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایک اور امریکی جنگی بیڑا مذکورہ علاقے میں تعینات امریکا کے دو دیگر جنگی بیڑوں میں شامل ہو گیا ہے، دوسری طرف کریمیا جزیرے میں تعینات روسی ایئر ڈیفنس سسٹم فوجی مشقوں کے بہانے سرگرم ہو گیا ہے۔

    امریکی بحریہ نے بحیرہ اسود میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے، یہ 2017 کے بعد بحیرہ اسود میں امریکی نیوی کی بڑی سرگرمی ہے، چند دن قبل ہی صدر بائیڈن نے ماسکو کو متنبہ کیا تھا کہ اگر روس نے خطے میں جارحیت کی تو اس کے خلاف امریکا سخت قدم اٹھائے گا۔

    روس اور نئی امریکی حکومت نے اہم سمجھوتے پر اتفاق کر لیا

    امریکی صدر جو بائیڈن کو اقتدار سنبھالے ابھی چند ہی دن ہوئے ہیں، لیکن ایک طرف روس کے ساتھ اس کی کشیدگی بڑھ گئی ہے، دوسری طرف چین کے ساتھ بھی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر پیوٹن نے ایک اہم جوہری سمجھوتے کی توسیع پر اتفاق کیا تھا، وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن کے منصب سنبھالنے کے بعد دونوں رہنماؤں نے یہ پہلی بار فون پر گفتگو ہوئی، جس کا مرکزی موضوع دونوں ممالک کے درمیان نیو اسٹارٹ معاہدہ تھا جو جوہری ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق ایک سمجھوتا ہے، جو 5 فروری کو اپنی میعاد پوری کر رہا ہے۔

    اس گفتگو میں جو بائیڈن نے روسی ہم منصب سے امریکی انتخابات کے دوران روسی سائبر حملے، روس کے اپوزیشن رہنما کی گرفتاری اور انھیں زہر دینے سمیت یوکرین میں روسی جارحیت پر بات کی اور کہا کہ امریکا روسی جارحیت کے خلاف یوکرین کی حمایت کرتا ہے۔ جو بائیڈن نے واضح کیا کہ اگر روس کی جانب سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو بھرپور طریقے سے اپنا دفاع کیا جائے گا۔