Tag: روس یوکرین جنگ

  • 21 ویں صدی میں کوئی جنگ قابل قبول نہیں، یو این سیکریٹری جنرل کیف پہنچ گئے

    21 ویں صدی میں کوئی جنگ قابل قبول نہیں، یو این سیکریٹری جنرل کیف پہنچ گئے

    کیف: یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس یوکرین کے دارالحکومت کیف پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کیف پہنچ گئے ہیں، انھوں نے یوکرین کے مرکزی شہر کیف کے علاقے بورودینکا اور باکا (Bucha) کا دورہ کیا۔

    انتونیو گوتریس نے بورودینکا کے دورے کے موقع پر جنگ کو برائی اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں صدی میں کوئی جنگ قابل قبول نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ یوکرین کے دارالحکومت کیف کے قریب واقع یہ قصبہ روسی قبضے کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔

    انھوں نے کہا میں ان گھروں میں سے ایک میں اپنے خاندان کا تصور کرتا ہوں جو اب تباہ اور سیاہ ہو چکے ہیں، میں اپنی پوتیوں کو گھبراہٹ میں بھاگتے ہوئے دیکھتا ہوں، 21 ویں صدی میں جنگ ایک مضحکہ خیز چیز ہے، جنگ بری چیز ہے، جنگ قابل قبول نہیں ہے۔

    گوتریس نے بعد ازاں، باکا قصبے کے دورے کے دوران روس پر بھی زور دیا کہ وہ یوکرین پر حملے کے دوران کیے گئے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے ساتھ تعاون کرے۔

    انھوں نے کہا میں آئی سی سی کی مکمل حمایت کرتا ہوں اور میں روسی فیڈریشن سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئی سی سی کے ساتھ تعاون کرے، لیکن جب ہم جنگی جرائم کی بات کرتے ہیں تو ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ بدترین جرم خود جنگ ہے۔

    واضح رہے کہ باکا کیف کے باہر ایک قصبہ ہے جہاں روسی فوجیوں کے انخلا کے بعد سینکڑوں مردہ شہری ملے تھے۔

  • روس نے یوکرین جنگ کے دوسرے مرحلے کا اعلان کر دیا

    روس نے یوکرین جنگ کے دوسرے مرحلے کا اعلان کر دیا

    ماسکو: ایک اعلیٰ روسی کمانڈر نے کہا ہے کہ ماریوپول شہر کو آزاد کرا لیا گیا ہے اور اب فوجی کارروائی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے کو شروع ہوئے اتوار کے روز 2 ماہ مکمل ہو گئے، روسی فورسز نے بہ ظاہر فی الحال دارالحکومت کِیف پر قبضہ کرنے کی کوشش ترک کر دی ہے۔

    ایک اعلیٰ روسی کمانڈر کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی کا دوسرا مرحلہ ابھی شروع ہوا ہے، روسی دستے بظاہر بڑے حملوں کی تیاری میں آگے بڑھ رہے ہیں، اور مشرقی اور جنوبی یوکرین پر حملوں میں شدت لائی جا رہی ہے۔

    دوسری طرف یوکرین، امریکا اور یورپی ممالک کی فوجی امداد حاصل کر کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں شدید مزاحمت کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے۔

    لڑائی ختم، ماریوپول میں زندگی معمول پر آنے لگی

    ادھر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بندرگاہ والے مشرقی شہر ماریوپول میں فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے آزاد کروا لیا گیا ہے۔

    روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر اودیسہ کے باہر ایک فوجی فضائی پٹّی پر اُس کے میزائل حملے نے مغربی ممالک کے فراہم کردہ ہتھیاروں کو تباہ کر دیا ہے۔

    یوکرین کی مدد پر امریکا کا شکریہ: صدر زیلنسکی

    اودیسہ شہر کے ناظم نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ میزائل حملے میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 8 ہو گئی ہے جن میں ایک 3 ماہ کی بچی بھی شامل ہے۔

    یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے زور دے کر کہا ہے کہ وہ روسیوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں، انھوں نے کہا کہ وہ مزید جانی نقصان کا باعث بننے والے اس تنازعے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

  • یوکرین کی مدد پر امریکا کا شکریہ: صدر زیلنسکی

    یوکرین کی مدد پر امریکا کا شکریہ: صدر زیلنسکی

    کیف: امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے یوکرین کا دورہ کیا ہے، جس پر یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے امریکا کا شکریہ ادا کیا ہے۔

    یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اپنے بیان میں کہا کہ انھوں نے اپنے ملک کے دورے پر آئے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات کی، جس میں روس یوکرین جنگ سمیت موجودہ صورت حال پر گفتگو کی گئی۔

    انھوں نے کہا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے دی جانے والی امداد اور روس کے خلاف پابندیوں کو مضبوط بنانے پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔

    زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کا دورہ یوکرین قابل قدر اور اہم ہے، ملاقات میں یوکرین کی مدد پر امریکا کا شکریہ ادا کیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نے بلنکن اور آسٹن کے ساتھ یوکرین کے لیے دفاعی امداد، مالی مدد اور سلامتی کی ضمانتوں اور روس کے خلاف پابندیوں کو مضبوط بنانے پر بات چیت کی ہے۔

  • لڑائی ختم، ماریوپول میں زندگی معمول پر آنے لگی

    لڑائی ختم، ماریوپول میں زندگی معمول پر آنے لگی

    ماسکو: یوکرین کے شہر ماریوپول میں لڑائی ختم ہو گئی، اور زندگی معمول پر آنے لگی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماریوپول کے حکام کا کہنا ہے کہ شہر کے رہائشی علاقوں میں کوئی لڑائی نہیں چل رہی ہے، زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آ رہی ہے، شہر میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہے۔

    شہر کے میئر نے کہا کہ مقامی لوگ اپنے گھروں کی عمارتیں، صحن اور ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کو تبدیل کرنا شروع کر سکتے ہیں، شہر میں پرامن زندگی لوٹ رہی ہے۔

    واضح رہے کہ ڈونیسک ریپبلک کے رہنما ڈینس پوشیلین نے 6 اپریل کو ماریوپول کا نیا میئر مقرر کیا تھا، کونسٹنٹن ایواشینکو کا تعلق یوکرین کی اپوزیشن سے ہے، وہ ماریوپول سٹی کونسل کے سابق ممبر اور انجینئرنگ پلانٹ ازووماش کے سی ای او ہیں۔

    یوکرین کا روس سے مذاکرات ختم کرنے کا انتباہ

    دوسری جانب یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے خواہش ظاہر کی ہے کہ روسی صدر پیوٹن سے براہِ راست ملاقات سے جنگ ختم ہو سکتی ہے۔

    دارالحکومت کیف میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ سفارت کاری سے جنگ ختم کرنے کا واحد راستہ صدر پیوٹن سے بالمشافہ ملاقات ہے۔

    یوکرینی صدر نے کہا کہ روسی صدر سے ملنے سے خوف زدہ نہیں ہوں، اگر ماریوپول میں یوکرینی فوجی مارے گئے تو کیف ماسکو کے ساتھ بات چیت ترک کر دے گا۔

  • روس یوکرین جنگ سے متعلق امریکا کی ایک اور پیش گوئی

    روس یوکرین جنگ سے متعلق امریکا کی ایک اور پیش گوئی

    واشنگٹن: روس یوکرین جنگ سے متعلق امریکا کا نیا مؤقف سامنے آ گیا ہے، امریکی جنرل نے کہا ہے کہ یوکرین میں روسی جنگ برسوں تک چل سکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روسی جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے، ایسے میں یوکرین کی مدد کرنے والے امریکا اور دیگر ممالک بھی اس جنگ میں کچھ عرصے تک شامل رہیں گے۔ خیال رہے کہ روسی حملے سے بہت قبل امریکا بار بار کہہ رہا تھا کہ روسی افواج یوکرین پر بڑا حملہ کرنے والی ہیں۔

    امریکی محکمہ دفاع کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے امریکی کانگریس میں دیے گئے بیان میں مشورہ دیا کہ امریکا کو مشرقی یورپ میں اپنے مستقل اڈے قائم کرنے چاہئیں۔

    ملی نے کہا مجھے یقین ہے کہ ہمارے بہت سے یورپی اتحادی، خاص طور پر وہ جیسا کہ بالٹکس یا پولینڈ یا رومانیہ یا کسی اور جگہ، مستقل اڈے قائم کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ انھیں تعمیر کریں گے، ان کے لیے ادائیگی کریں گے، جہاں ہمارے فوجی ایک سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتے رہیں گے۔

    مارک ملی کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کو مستقل طور پر کسی ایک جگہ تعینات کرنے کی بجائے انھیں ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کرتے رہنا چاہیے۔

    متعدد ریپبلکنز نے ملی اور آسٹن سے پوچھا کہ کیا امریکا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو یوکرین پر حملہ کرنے سے روکنے کی کوششوں میں ناکام رہا ہے؟ ملی نے جواب دیا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پیوٹن کو اس وقت تک روکا جا سکتا تھا جب تک کہ یوکرین میں امریکی افواج کی تعیناتی نہ ہوتی، اور یہ ایک ایسی تجویز ہے میں جس کی مخالفت کرتا۔

  • روس یوکرین جنگ، ترکی کا کردار اہم بن گیا

    روس یوکرین جنگ، ترکی کا کردار اہم بن گیا

    انقرہ: روس اور یوکرین کے درمیان کل منگل کو انقرہ میں مذاکرات شروع ہو رہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے اگر کوئی ملک اس وقت متحرک اور مؤثر کردار ادا کر رہا ہے تو وہ ترکی ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق یوکرین کے ایک سینئر اہل کار نے کہا ہے کہ ترکی ان متعدد ممالک میں شامل ہے، جو یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے روس کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے حصے کے طور پر کیف کو حفاظتی ضمانتیں پیش کر سکتے ہیں۔

    زیلنسکی کے دفتر کے نائب سربراہ ایہور زوکوا نے کہا ترکی ان ممالک میں شامل ہے جو مستقبل میں ہماری سلامتی کے ضامن بن سکتے ہیں۔

    کیف کا کہنا ہے کہ وہ قانونی طور پر ‘پابند حفاظتی ضمانتیں’ چاہتا ہے جو مستقبل میں حملے کی صورت میں یوکرین کو اتحادیوں کے گروپ کی جانب سے تحفظ فراہم کرے گی۔

    خیا رہے کہ ترکی میں کل منگل کو روس یوکرین مذاکرات ہونے جا رہے ہیں، کریملن نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے حکام کے درمیان منگل کو ترکی میں مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔

    پیوٹن اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان نے اتوار کو ایک ٹیلی فون کال میں استنبول میں بات چیت کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا، جس سے انقرہ کو امید ہے کہ جنگ بندی ہو جائے گی۔ ترکی نے تجویز پیش کی تھی کہ بات چیت آج شروع ہو سکتی ہے، لیکن کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ایک کانفرنس کال پر صحافیوں کو بتایا کہ اس کا امکان نہیں ہے، کیوں کہ مذاکرات کار بروقت نہیں پہنچ پائیں گے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ بات چیت آمنے سامنے کی جائے، کیوں کہ اسی وجہ سے بات چیت کے کئی پچھلے ادوار میں اہم پیش رفت نہ ہو سکی۔

    پیوٹن، یوکرینی صدر میں براہ راست بات چیت کا امکان مسترد

    دوسری طرف روس نے صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی کے مابین براہ راست بات چیت کا امکان مسترد کر دیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماسکو نے فی الحال روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے یوکرینی ہم منصب ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔

    روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ خیالات کے تبادلے کے لیے رہنماؤں کے درمیان کوئی بھی فوری ملاقات نتیجہ خیز نہیں ہوگی، انھوں نے مزید کہا کہ بات چیت اس وقت ہونی چاہیے جب یوکرین اور روس اہم معاملات پر اتفاق رائے کر لیں۔

  • پیوٹن، یوکرینی صدر میں براہ راست بات چیت کا امکان مسترد

    پیوٹن، یوکرینی صدر میں براہ راست بات چیت کا امکان مسترد

    ماسکو: روس نے صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی کے مابین براہ راست بات چیت کا امکان مسترد کر دیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماسکو نے فی الحال روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے یوکرینی ہم منصب ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ خیالات کے تبادلے کے لیے رہنماؤں کے درمیان کوئی بھی فوری ملاقات نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ بات چیت اس وقت ہونی چاہیے جب یوکرین اور روس اہم معاملات پر اتفاق رائے کر لیں، واضح رہے کہ زیلنسکی نے جنگ کو ختم کرنے کے لیے متعدد بار پیوٹن سے آمنے سامنے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔

    ادھر کریملن نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے حکام کے درمیان منگل کو ترکی میں مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں، پیوٹن اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان نے اتوار کو ایک ٹیلی فون کال میں استنبول میں بات چیت کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا، جس سے انقرہ کو امید ہے کہ جنگ بندی ہو جائے گی۔

    دوسری طرف یوکرین کے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ روس یوکرین کو دو الگ الگ علاقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ملٹری انٹیلی جنس چیف نے کہا روس یوکرین کے لیے کوریا طرز کی تقسیم پر غور کر رہا ہے، اور دارالحکومت کیف پر قبضہ کرنے اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکامی کے بعد اب چاہتا ہے کہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو جائے۔

  • روس کس ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے؟ یوکرینی صدر کا نیا انکشاف

    روس کس ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے؟ یوکرینی صدر کا نیا انکشاف

    کیف: یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا نیا دعویٰ سامنے آیا ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ روس سویڈن پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرینی صدر نے نیا دعویٰ کر دیا ہے کہ روس سویڈن پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، صدر زیلنسکی نے کہا کہ روس کے ہمسایہ ممالک اب خطرے میں ہیں۔

    انھوں نے سویڈن کی پارلیمنٹ سے ورچوئل خطاب میں کہا کہ روس، یورپ میں آزادی کو تباہ کر دے گا اور اب اپنے پڑوسیوں کا تعاقب کرے گا۔

    یوکرین کے صدر نے اپنے خطاب میں سویڈن کے ارکان پارلیمنٹ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یوکرین اس حملے کے خلاف ٹک نہيں پاتا اور اپنی حفاظت نہیں کر پاتا، تو اس کا مطلب ہوگا کہ اب سبھی پڑوسی خطرے میں ہیں۔

    زیلنسکی نے کہا کہ روس نے یوکرین کے خلاف اس لیے جنگ شروع کی کیوں کہ وہ یورپ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے، وہ یورپ میں آزادی کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔

    صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین حملہ یورپی سیکیورٹی اور دفاعی طریقہ کار کے لیے ایک بنیادی چیلنج ہے، یورپ روس کے خلاف سخت سے سخت پابندیاں عائد کرے، انھوں نے سویڈن کو متنبہ کیا کہ اب روس کی نگاہیں بحیرۂ بالٹک میں موجود اس کے جزیرے گوٹ لینڈ پر ہیں۔

    یوکرینی صدر کا کہا روسی تجزیہ نگار ٹی وی پر بحث کر رہے ہیں کہ روس گوٹ لینڈ پر کیسے قبضہ کرے گا اور وہ اسے عشروں تک کیسے قبضے میں رکھے گا؟

  • روس پر پابندیاں، ترک صدر کا واضح اعلان

    روس پر پابندیاں، ترک صدر کا واضح اعلان

    انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ترکی روس پر پابندیاں لگانے والے ممالک میں شامل نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے صدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ جلد یوکرین اور روس کے صدور سے بات کریں گے، دونوں ممالک کے ساتھ سفارتی سطح پر ان کی بات چیت جاری ہے۔

    ترک صدر کا کہنا تھا روس کے ساتھ ایس 400 میزائل کی ڈیل طے ہو چکی ہے، روس پر پابندیاں لگانے والوں میں شریک نہیں ہوں گے۔

    انھوں نے مزید کہا روس اور یوکرین کے درمیان 6 میں سے 4 اہم امور پر اتفاق رائے ہے، ہم امن کے لیے دونوں ممالک کو آگے بھی سازگار ماحول فراہم کرتے رہیں گے۔

    ترکی کے صدر نے جمعرات کو کہا کہ کیف اور ماسکو امن مذاکرات میں تکنیکی معاملات پر متفق تھے، لیکن فریقین کریمیا جیسے علاقائی معاملات پر اختلافات کا شکار رہے۔

    نیٹو کے سربراہی اجلاس کے بعد برسلز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اردوان نے کہا کہ اتحاد کی طرف سے منظور کی گئی قراردادوں کو روس یا کسی تیسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں سمجھا جانا چاہیے، بلکہ انھیں روک تھام کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

    نیٹو کا رکن ترکی، بحیرہ اسود میں یوکرین اور روس کے ساتھ سمندری سرحد رکھتا ہے، دونوں کے ساتھ ترکی کے اچھے تعلقات ہیں اور اس نے موجودہ تنازعے میں ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ اردوان نے کہا کہ ثالثی کی کوششوں کے حصے کے طور پر ترکی کا بنیادی مقصد یوکرین اور روسی صدور کو مذاکرات کے لیے اکٹھا کرنا ہے۔

  • روسی ٹی وی کی لائیو نشریات کے دوران عجیب واقعہ، ویڈیو وائرل

    روسی ٹی وی کی لائیو نشریات کے دوران عجیب واقعہ، ویڈیو وائرل

    لندن: روسی سرکاری ٹی وی کی لائیو نشریات کے دوران ایک نڈر خاتون نے گھس کر احتجاج کیا، اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس یوکرین جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والی خاتون نے روس کے سرکاری ٹی وی اسٹوڈیو میں گھس کر براہ راست نشریات کے دوران جنگ مخالف نعرے لگائے، اور کہا ’یہ یہاں جھوٹ بول رہے ہیں۔‘

    یہ واقعہ لندن میں پیر کے روز روس کے سرکاری ٹی وی چینل وَن کے اسٹیشن پر پیش آیا، جب کسی سرکاری ٹی وی سے براہ راست احتجاج نشر ہوا، میڈیا رپورٹس کے مطابق لائیو نشریات میں گھس کر احتجاج کرنے والی خاتون خود بھی صحافی ہیں اور اسی ٹی وی چینل پر ایڈیٹر ہیں۔

    خاتون نیوز کاسٹر خبریں پڑھ رہی تھیں جب کہ اچانک ایک اور خاتون صحافی مرینا اووِسیانکووا نے ان کے پیچھے آ کر ایک پوسٹر اٹھائے احتجاج شروع کر دیا، جس سے ٹیلی وژن اسٹیشن میں افراتفری کی صورت حال پیدا ہو گئی، اس ‘حرکت’ پر مرینا کو حراست میں لے لیا گیا۔

    کیف میں کرفیو نافذ

    احتجاج کرنے والی خاتون نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر انگریزی اور روسی زبان میں ’جنگ نہیں‘ کے الفاظ درج تھے، پوسٹر پر یہ بھی لکھا کہ ’جنگ کو روک دو، پروپیگنڈے پر اعتبار مت کرو، یہ یہاں جھوٹ بول رہے ہیں۔‘

    احتجاج کرنے والی خاتون کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے ’جنگ کو روک دو، جنگ سے انکار‘، دل چسپ بات یہ ہے کہ احتجاج کے دوران بھی نیوز کاسٹر نے اپنا کام جاری رکھا اور ٹیلی پرومپٹر پر نظریں جمائے رکھیں۔

    ادھر یوکرین کے صدر زیلنسکی نے رات کو ایک ویڈیو خطاب میں احتجاج کرنے والی خاتون کا شکریہ ادا کیا، اور کہا میں روسیوں کا شکرگزار ہوں جو سچ بول رہے ہیں، اور جو غلط معلومات کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اپنے دوستوں، پیاروں کو حقیقت پہنچا رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ یہ ریاستی ٹی وی لاکھوں روسیوں تک معلومات پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور یوکرین جنگ کے معاملے پر روس کے ہی نقطہ نظر کو اپنائے ہوئے ہے کہ کریملن کو مجبوراً یوکرین پر حملہ کرنا پڑا جب کہ ’نسل کشی‘ کے حوالے سے بھی روسی مؤقف کا دفاع کرتا رہا ہے۔