ماسکو: روس کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف میڈیا وار کے لیے ایک ارب ڈالر کا استعمال ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق روس کے انٹرنیٹ سیکیورٹی کے ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روس کے فوجی آپریشن کے آغاز سے لے کر اب تک ماسکو کے خلاف پروپیگنڈا وار اور جعلی خبریں شائع کرنے کے لیے 1 ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔
یکاترینا میزولینا نے کہا کہ 24 فروری کو جب سے روس نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا، تب سے لے کر اب تک 5.4 ملین جعلی خبریں اور اطلاعات پھیلائی گئی ہیں۔
انھوں نے کہا مغربی حکومتوں نے روس کے خلاف جعلی خبریں شائع کرنے کے لیے روزانہ 21 ملین ڈالر یعنی 2 ارب روبل سے زیادہ خرچ کیا۔
روس کے انٹرنیٹ ادارے کے سربراہ نے کسی خاص ملک کی جانب اشارہ نہیں کیا لیکن روسی حکام نے بارہا مغربی حکام اور میڈیا پر روس کے بارے میں جعلی اور جھوٹی خبریں شائع کرنے الزام عائد کیا ہے۔
کچھ مغربی ذرائع نے یوکرین کے خلاف روس کے فوجی آپریش کے آغاز سے ہی ایک بڑا بجٹ یوکرین کے بارے میں خبریں شائع کرنے سے مخصوص کر دیا ہے، جس میں برطانیہ کے سرکاری چینل بی بی سی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے، کیوں کہ برطانوی حکومت نے بی بی سی کا بجٹ بڑھا دیا ہے۔
واشنگٹن: امریکا کی جانب سے بھارت پر روس یوکرین تنازع کے تناظر میں دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ آن لائن بات چیت کی، جس میں بائیڈن نے روس کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کے لیے مودی پر دباؤ ڈالا۔
امریکی صدر نے بھارتی رہنما پر زور دیا کہ وہ روس کو یوکرین پر حملے کی سزا دینے کی عالمی کوششوں میں مزید حصہ لیں۔
امریکا اور اس کے کئی اتحادیوں نے روسی تیل اور گیس پر انحصار کم کرنے کے اقدامات کیے ہیں، تاہم، بھارت اب بھی روسی توانائی خرید رہا ہے، بائیڈن نے اس حوالے سے کہا کہ یہ تجارت ’بھارت کے مفاد میں نہیں‘ ہے۔
بائیڈن نے، دواؤں اور دیگر اشیا کی فراہمی سمیت، بھارت کی جانب سے یوکرینی باشندوں کی مدد کا خیر مقدم کیا، انھوں نے کہا کہ امریکا اور بھارت، جنگ سے پیدا ہونے والے ’غیر مستحکم کرنے والے اثرات‘ کے مقابلے کے لیے مشاورت جاری رکھیں گے۔
مودی نے بتایا کہ انھوں نے کئی بار روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرینی صدر ولودیمیر زیلینسکی سے فون پر بات کی ہے، اور انھوں نے دونوں رہنماؤں کی براہ راست بات چیت کی تجویز پیش کی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت نے گزشتہ چند ماہ کے دوران روس سے فضائی دفاعی نظام بھی خریدا ہے۔
اسخنوالی: جنوبی اوسیشیا کے الیکشن کمیشن نے ملک کی روس میں شمولیت پر ریفرنڈم کی تیاری شروع کر دی۔
تفصیلات کے مطابق جنوبی اوسیشیا کے مرکزی الیکشن کمیشن کی سیکریٹری کرسٹینا اولوخووا نے بتایا ہے کہ جنوبی اوسیشیا کے سینٹرل الیکشن کمیشن نے ایک ابتدائی گروپ رجسٹر کیا ہے، جس میں 26 عوامی اور سیاسی شخصیات شامل ہیں، تاکہ جنوبی اوسیشیا کی روس میں شمولیت پر ریفرنڈم کرایا جا سکے۔
اولوخووا نے کہا کہ اس ابتدائی گروپ کے نمائندے جمعرات سے ریفرنڈم کی حمایت میں دستخط جمع کرنا شروع کر سکتے ہیں، اور کم از کم ایک ہزار دستخط جمع کیے جانے ہیں۔
سی ای سی کے مطابق ابتدائی گروپ کی جانب سے مرکزی الیکشن کمیٹی کو جمع کرائی گئی درخواست میں ریفرنڈم کے لیے تجویز کردہ جو سوال شامل ہے وہ ہے: کیا آپ جمہوریہ جنوبی اوسیشیا اور روس کے اتحاد کی حمایت کرتے ہیں؟
منگل کو سیکریٹری اولوخووا نے بتایا کہ گروپ کے ارکان میں چار جنوبی اوسیشین صدور ہیں، یعنی موجودہ صدر اناتولی بیبلوف، سابق صدور لیوڈوِگ چیبیروف، ایڈورڈ کوکوئٹی اور لیونیڈ تبیلوف شامل ہیں۔
برلن: جرمنی کی کنزیومر گڈز کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ روس میں اپنا کاروبار جاری رکھے گی، کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ہم تمام قابل اطلاق پابندیوں کو مکمل طور پر لاگو کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جرمن کمپنی کی چیئر پرسن سیمون ٹراہ کا کہنا ہے کہ جرمن کیمیائی اور اشیائے خور و نوش کی بڑی کمپنی ہینکل روس میں کاروبار جاری رکھے گی۔
سیمون ٹراہ نے گروپ کی سالانہ جنرل میٹنگ کے دوران شیئر ہولڈرز کو بتایا کہ یہ کبھی کبھی عوام کی طرف سے بہت تنقیدی طور پر دیکھا جاتا ہے، لہٰذا ہمارے لیے اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ ہم تمام قابل اطلاق پابندیوں کو مکمل طور پر لاگو کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہینکل کی انتظامیہ موجودہ جغرافیائی سیاسی پیش رفت کی بہت قریب سے پیروی کرے گی اور اگر ضرورت پڑی تو مزید اقدامات کرے گی۔
چیئر پرسن کا کہنا تھا کہ ملک میں کمپنی کی سرگرمیاں پابندیوں کے تابع ہیں، ہینکل کا فیصلہ یوکرین میں ماسکو کے فوجی آپریشن سے متعلق مغربی پابندیوں کے درمیان صنعتوں کی ایک وسیع صف سے بڑے بین الاقوامی برانڈز کے روس سے بڑے پیمانے پر اخراج کے درمیان آیا ہے۔
خیال رہے کہ ڈسلڈورف میں قائم یہ کمپنی 3 دہائیوں سے روس میں کام کر رہی ہے، اس کے 12 دفاتر اور 11 فیکٹریاں ہیں جو کاسمیٹکس، گھریلو کیمیکلز اور مرمتی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔
اس کی مصنوعات کی روسی شہروں پرم، اینگلز کے ساتھ ساتھ لینن گراڈ، ماسکو، اسٹاورو پول اور اولیانوسک کے علاقوں میں ترسیل جاری ہیں، پورے روس میں ڈھائی ہزار افراد کمپنی کے ملازم ہیں۔
ماسکو: روس نے پاکستان سمیت 52 ’دوست‘ ممالک کے لیے پروازوں کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق روس نے کرونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں میں نرمی کرتے ہوئے پاکستان سمیت باون دوست ممالک کے ساتھ فضائی آپریشن دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
روس کے وزیر اعظم میخائل مشسٹن نے پیر کو کہا کہ روس نے 9 اپریل کے بعد باون ممالک کی پروازوں پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے، ارجنٹینا، جنوبی افریقہ اور دیگر ’دوست ممالک‘ کے ساتھ پروازیں دوبارہ شروع کریں گے۔
دیگر ممالک میں الجیریا، چین، لبنان، پیرو اور پاکستان بھی شامل ہیں، وزیر اعظم کے بیان کے مطابق دوست ممالک وہ ہیں جو یوکرین پر حملے کے بعد مغربی پابندیوں کی تازہ ترین لہر میں شامل نہیں ہوئے۔
مارچ 2020 میں روس نے کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے سفری پابندیاں عائد کی تھیں۔ مغرب کی جانب سے پابندیوں کے ردعمل میں روس نے یورپی یونین کے 27 ممالک سمیت 36 ملکوں کے لیے فضائی حدود کو بند کر دیا تھا۔
مغربی طاقتوں کی جانب سے روس کے خلاف اقدامات نے یورپی اداروں کو مجبور کیا کہ وہ 500 سے زیادہ طیاروں کے لیے روسی فضائی کمپنی کے ساتھ لیز کے معاہدے ختم کریں۔
ماسکو: یوکرین کے شہر ماریوپول میں لڑائی اختتامی مراحل میں داخل ہو گئی ہے، اور قوم پرست مضافات میں فرار ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق روسی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی جانب سے یوکرین کے محصور شہر ماریوپول میں لڑائی آخری مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، اور روسی فوج نے قوم پرستوں کو شہر کے مضافات میں، صنعتی زون کے قریب دھکیل دیا ہے۔
روسی فوج کے مطابق یوکرینی عسکریت پسندوں کے قبضے میں اب بھی بلند و بالا عمارتیں موجود ہیں، فوج کی جانب ے صحافیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ دیواروں کے پیچھے رہیں، اور باہر کھلی جگہ پر نہ جائیں۔
روسی فوج کا کہنا ہے کہ ماریوپول میں آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی لی جا رہی ہے، گھروں کی تلاشی کے وقت تکنیکی آلات کا استعمال کیا جا رہا ہے، فوجی اندر داخل ہونے سے قبل دھواں چھوڑتے ہیں تاکہ دشمن کو اچانک کارروائی کر کے قابو میں کیا جا سکے۔
روسی فوج کا دعویٰ ہے کہ یوکرینی قوم پرست اس وقت مقامی رہائشی پناہ گاہوں اور تہہ خانوں میں چھپے ہوئے ہیں جہاں انھوں نے معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال بنایا ہوا ہے، ان میں سے ایک میں سو کے قریب لوگ ہیں جن میں زیادہ تر بوڑھے اور بچے ہیں۔
مقامی باشندوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یوکرینی قوم پرست شہریوں میں سے مردوں کو باہر لے جا کر گولی مار دیتے ہیں، جب کہ عورتوں اور بچوں کو زندہ انسانی ڈھال بنایا جا رہا ہے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ روس کا دورہ کرنے سے ایک طاقتور ملک ناراض ہوگیا، بھارت جو ان کا اتحادی ہے وہ روس کی پوری مدد کر رہا ہے۔ آج ایک بیان میں پڑھا، کہا گیا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اسے کچھ نہیں کہہ سکتے، اگر بھارت خود مختار ملک ہے تو ہمیں بتائیں ہمارے ملک کی پالیسی کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے سیکیورٹی ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف کو مبارکباد دیتا ہوں، سیکیورٹی ڈائیلاگ ملک کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کی پالیسی مخلوط نہ ہو تب تک شہری خود کومحفوظ نہیں سمجھتا، ریاست مدینہ کا ماڈل سمجھ جائیں تو وہی ملک کی سیکیورٹی ہے۔ میں جب مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں لوگوں کو سمجھ نہیں آتا، لوگ سمجھتے ہیں میں ریاست مدینہ کی بات ووٹ کے لیے کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایک چھوٹے سے ایلیٹ طبقے نے ملک پر قبضہ کرلیا، ایلیٹ نے تعلیم کے سسٹم پر قبضہ کیا اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔ ملک میں سارا مسئلہ اچھی تعلیم اور صحت کا نہ ہونا ہے۔ مدینہ میں سب سے اہم چیز فلاحی ریاست اور قانون کی حکمرانی تھی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہر سال غریب ملکوں سے 1.6 ٹریلین ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے ترقی یافتہ ملکوں میں چلا جاتا ہے، ملک میں انصاف، تعلیم اور صحت کے فرق کو ختم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ خود داری اور آزاد خارجہ پالیسی ملک کے لیے سب سے اہم ہے، ہمارے ملک کی آزاد خارجہ پالیسی رہی ہی نہیں، جب ملک بنا تو بے شمار مسائل تھے۔ ہمارے ملک کو خود انحصاری نہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا، خود مختار خارجہ پالیسی سے ہی قومیں بنتی ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد جنگ میں شرکت سے ہمارا کیا نقصان ہوا کسی نے توجہ نہیں دی، کسی نے نائن الیون کی جنگ سے ہونے والے فائدے اور نقصان کا موازنہ نہیں کیا، ہم نے کسی اور ملک کے مفادات کے لیے اپنے ملک کو قربان کیا۔
انہوں نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں پوری کوشش کی کہ خارجہ پالیسی آزاد ہو، ساڑھے 3 سال پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جو عزت ملی وہ پہلے کبھی نہیں ملی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ایک طاقتور ملک ناراض ہو گیا کہ روس کا دورہ کیوں کیا، بھارت جو ان کا اتحادی ہے وہ روس کی پوری مدد کر رہا ہے۔ آج ایک بیان میں پڑھا، کہا گیا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اسے کچھ نہیں کہہ سکتے، اگر بھارت خود مختار ملک ہے تو ہمیں بتائیں ہمارے ملک کی پالیسی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیشہ خوددار اور غیرت مند انسان کی عزت ہوتی ہے، کوئی ملک کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا یہ ہماری غلطی ہے۔
ماسکو: روس کی ایک سپر مارکیٹ میں چینی کے حصول کے لیے روسی شہری ایک دوسرے سے لڑ پڑے، جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں روسی خریداروں کو چینی کے لیے سپر مارکیٹ میں ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
روس میں 2015 کے بعد سالانہ مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے ساتھ چینی کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں، یوکرین میں جنگ کے ان معاشی نتائج کی وجہ سے کچھ روسی سپر اسٹورز نے فی گاہک 10 کلوگرام چینی کی حد مقرر کر دی ہے۔
سامنے آنے والی بہت سی ویڈیوز میں، لوگوں کے ہجوم کو شاپنگ کارٹس سے چینی کے تھیلے لینے کے لیے آپس میں لڑتے اور مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ ویڈیوز ٹویٹر پر وائرل ہو گئی ہیں، اور یہ ان مشکلات کو اجاگر کر رہی ہیں، جن کا سامنا عام شہریوں کو روس یوکرین جنگ کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔
ادھر روسی حکومت کے عہدے داروں زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ ملک میں چینی کی کوئی قلت نہیں ہے، اور یہ بحران محض دکانوں میں صارفین کی جانب سے خریداری کے دوران گھبراہٹ کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔
عہدے داروں کے مطابق چینی مینوفیکچررز قیمت بڑھانے کے لیے ذخیرہ اندوزی بھی کر رہے ہیں، تاہم حکومت نے ملک سے چینی کی ایکسپورٹ پر عارضی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ روس میں چینی کی قیمت 31 فی صد تک بڑھ گئی ہے، لیکن مغربی پابندیوں کے باعث کئی دیگر مصنوعات بھی مہنگی ہو رہی ہیں، اور بہت سے مغربی ملکیت والے کاروباروں نے روس چھوڑ دیا ہے، اس وجہ سے غیر ملکی درآمد شدہ سامان کی قلت بھی پیدا ہو گئی ہے۔
اگرچہ روسی حکومت نے کرنسی کنٹرول کا نفاذ متعارف کراتے ہوئے مہنگائی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بے سود ہیں کیوں کہ ملک بھر میں قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں بہت سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
کیا پیوٹن یوکرین پر ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں؟ اس مہلک سوال نے عالمی سطح پر جنگوں کو ناپسند کرنے اور امن کے بارے میں سوچنے والے افراد کے اذہان کو جکڑا ہوا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ یوکرین پر حملے کے فوراً بعد، صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی "ڈیٹرنٹ فورسز” یعنی جوہری ہتھیاروں سے لیس فوج کو تیار رہنے کی ہدایت کی تھی، اسی سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ ماسکو ‘طاقت ور’ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کیا ہیں؟
بی بی سی سیکیورٹی کوریسپانڈنٹ گورڈن کوریرا کے مطابق ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار وہ ہیں جو نسبتاً کم فاصلے پر استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور اس کے استعمال کا مقصد فوری اور مؤثر نتائج کا حصول ہوتا ہے، ان کا استعمال جارحانہ صورت میں بھی ہوتا ہے اور دفاعی صورت میں بھی۔ یہی حیثیت انھیں ‘اسٹریٹیجک’ جوہری ہتھیاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
اس کے باوجود ‘ٹیکٹیکل’ کی اصطلاح میں ہتھیاروں کی بہت سی اقسام شامل ہیں، بشمول چھوٹے بم اور میزائل جو ‘میدان جنگ’ کے ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
روس کے پاس کون سے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار ہیں؟
خیال کیا جاتا ہے کہ روس کے پاس تقریباً 2000 ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ہیں، انھیں مختلف قسم کے میزائلوں پر رکھا جا سکتا ہے، جو عام طور پر روایتی دھماکا خیز مواد پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں میدان جنگ میں توپ خانے کے گولوں کے طور پر بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔
کیلیبر میزائل (SS-N-30)
انھیں ہوائی جہاز اور بحری جہازوں کے لیے بھی تیار کیا گیا ہے، مثال کے طور پر تارپیڈو اور آبدوزوں کو نشانہ بنانے کے لیے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وار ہیڈز روس کی اسٹوریج والی عمارتوں میں رکھے گئے ہیں، یعنی جنگ کے لیے انھیں نکالا نہیں گیا ہے۔ تاہم عالمی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ روس نے اگر فیصلہ کیا تو بڑے اسٹریٹجک میزائلوں کے مقابلے میں چھوٹے ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرے گا۔
ان ہتھیاروں کی طاقت؟
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار سائز اور طاقت میں بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں، سب سے چھوٹا ایک کلوٹن (kiloton) یا اس سے کم ہو سکتا ہے (ایک ہزار ٹن دھماکا خیز TNT کے برابر)، اور بڑا غالباً 100 کلوٹن جتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما میں جس بم نے تقریباً 146,000 افراد کو ہلاک کیا تھا، وہ صرف 15 کلوٹن تھا۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ ہتھیار چلائے گے تو ان کے اثرات کا انحصار وار ہیڈ کے سائز، زمین سے ان کی بلندی اور مقامی ماحول پر منحصر ہوں گے۔ روس کے سب سے بڑے اسٹریٹجک ہتھیار کم از کم 800 کلوٹن بتائے جاتے ہیں۔
پیوٹن کے بیانات
دراصل جوہری ہتھیاروں سے متعلق پیوٹن کے بیانات نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کی، یہ بظاہر خوف کا احساس پیدا کرنے کی کوشش ہے، بی بی سی سیکیورٹی کوریسپانڈنٹ گورڈن کوریرا کے مطابق یہ بیانات دراصل مغرب کے لیے ایک اشارہ ہیں کہ وہ یوکرین میں مزید مداخلت سے باز رہیں، اور امریکی جاسوس اسے جوہری جنگ کی منصوبہ بندی کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔
مختصر فاصلے والے جوہری ہتھیار لے جانے کے لیے روس کے پاس 2 سسٹمز موجود ہیں:
کیلیبر میزائل (SS-N-30) یہ آبدوز اور بحری جہاز سے لانچ ہونے والا کروز میزائل سسٹم ہے۔ اس کا ہدف زمین یا سمندر دونوں مقامات پر ہے اور رینج 15 سو 2 ہزار 500 کلو میٹر تک ہے، میزائل کی لمبائی 6.2 میٹر ہے اور یہ کروز میزائل ہے۔
اسکندر ایم میزائل لانچر (SS-26 ‘Stone’)، یہ موبائل گراؤنڈ بیسڈ میزائل سسٹم ہے جس کی رینج 400 سے 500 کلو میٹر تک ہے، اور زمین سے زمین پر ہدف بناتا ہے، میزائل کی لمبائی 7.3 میٹر ہے، اور یہ سولڈ فیول راکٹ ہے
تاہم دوسری طرف یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگرچہ امکانات کم ہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ روس، بعض حالات میں، یوکرین میں چھوٹے ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرنے پر آمادہ ہو۔ تاہم روس کا اگر نیٹو کے ساتھ تنازع ہو تو اس کا رویہ ہمیشہ جارحانہ ہوتا ہے، وہ نیٹو کو پیچھے دھکیلنے کے لیے اسی طرح کا طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ یہ طرز عمل ڈرامائی اقدامات پر مشتمل ہوتا ہے جیسا کہ میدان جنگ میں ٹیکٹیکل ہتھیار کا استعمال، یا ایسا کرنے کی دھمکی دینا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریق مخالف کو اتنا ڈرایا جائے کہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو۔
اسکندر ایم میزائل لانچر (SS-26 ‘Stone’)
تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر پیوٹن کو محسوس ہوتا ہے کہ یوکرین میں ان کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے، تو وہ تعطل کو توڑنے یا شکست سے بچنے کے لیے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو ‘گیم چینجر’ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ممکنہ طور پر یوکرین میں یا روس میں صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
فی الوقت جوہری ماہرین کا یہی خیال ہے کہ روسی صدر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کر کے لوگوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں، تاہم ایک امکان کے طور پر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ معاملات اپنے قابو میں کرنے کے لیے وہ یوکرین کی زمین پر ایک جوہری ہتھیار چلا سکتے ہیں۔ کنگز کالج لندن کی نیوکلیئر ماہر ڈاکٹر ہیدر ولیمز کہتی ہیں کہ سوال یہ ہے کہ پیوٹن کے لیے یوکرین میں ‘جیت’ کا کیا مطلب ہے؟ یہ ابھی واضح نہیں ہوا، اور آخر روس کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر کیا چیز مجبور کر سکتی ہے؟ خیال رہے کہ یوکرین روس تنازع پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس یوکرین میں حکومت کا تختہ الٹنے سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوں گے۔
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کا استعمال خود کو شکست ہے؟
ایک پریشان کن معاملہ یہ بھی ہے کہ روس بہت قریب ہے، کیا یوکرین میں کسی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کے استعمال کے بھیانک اثرات خود روس کی سرحدوں کو عبور نہیں کر سکتے، جب کہ پیوٹن کا دعویٰ بھی ہے کہ یوکرین روس کا حصہ ہے، پھر اپنی ہی زمین پر جوہری ہتھیار کے استعمال کے کیا معنی؟ بہرحال جوہری ماہرین کے آگے یہ سوال موجود ہے کہ کیا دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد پیوٹن اس ‘ممنوع’ کو کر گزرنے والا پہلا رہنما بننا چاہیں گے؟ کچھ لوگ فکر مند ہیں کیوں کہ انھوں نے وہ کام کر ڈالے ہیں جن کے بارے میں دوسروں کا خیال تھا کہ وہ نہیں کریں گے، جیسا کہ یوکرین پر حملہ یا 2018 میں سیلسبری (برطانوی شہر) میں اعصابی گیس کا (مبینہ) استعمال۔ ڈاکٹر ہیدر ولیمز کا کہنا ہے کہ روس کے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کی ایک اور وجہ بھی ہے، اور وہ ہے چین۔
روس چین کی حمایت کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے، جب کہ چین ‘پہلے استعمال نہ کرنے’ کے جوہری نظریہ پر عمل پیرا ہے، اس لیے ڈاکٹر ہیدر کا خیال ہے کہ اگر پیوٹن نے جوہری ہتھیار چلا دیے، تو چین کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہونا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو جائے گا، اور ممکن ہے وہ چین کو کھو دے۔
کیا ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے؟
کوئی نہیں جانتا کہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا استعمال کہاں تک لے جائے گا، یہ تو واضح ہے کہ پیوٹن سمیت جوہری جنگ کوئی نہیں چاہے گا، تاہم غلط حساب کتاب کی غلطی بھی ہو سکتی ہے، اگر اس کا استعمال مخالف فریق کے ہتھیار ڈالنے کے خیال سے کیا جائے تو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ نیٹو پوری طاقت کے ساتھ یوکرین کے اندر آ کر جواب دینے لگے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ صورت حال پر اس کی گہری نظر ہے، اس کی انٹیلی جنس روسی جوہری سرگرمیوں کو بغور دیکھ رہی ہے، جیسا کہ آیا ٹیکٹیکل ہتھیاروں کو اسٹوریج سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے، یا لانچ کی جگہوں پر صورت حال میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی، تاہم امریکا نے تاحال ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔
گورڈن کوریرا نے لکھا ہے کہ امریکا اور نیٹو کسی بھی جوہری استعمال کا جواب کیسے دیں گے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ صورت حال کو مزید بڑھانا نہ چاہیں جس سے ایٹمی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلانے لگ جائے، تاہم وہ ایک لکیر کھینچنا تو ضرور چاہیں گے، یعنی ایٹمی رد عمل کی بجائے ایک روایتی لیکن سخت رد عمل، اور پھر روس کیا کرے گا؟
برطانوی نیوکلیئر سائنس دان جیمز ایکٹن کا کہنا ہے کہ ایک بار جب آپ جوہری دہلیز عبور کر لیتے ہیں، تو پھر رکنے کا کوئی واضح مقام دکھائی نہیں دیتا۔
بیجنگ: چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم یوکرین کی جنگ کا حصہ نہیں، واشنگٹن اپنے آپ سے پوچھے کہ یوکرین کو کس نے مقابلے کا میدان بنایا؟ واشنگٹن کا رویہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی عکاسی کرتا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم یوکرین کی جنگ کا حصہ نہیں، واشنگٹن کو یوکرین کے بحران کی اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرنا چاہیئے۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ امریکا جو ہتھیاروں کے پیکج کیف بھیج رہا ہے اس سے تنازعہ اور بڑھے گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن اپنے آپ سے پوچھے کہ یوکرین کو کس نے مقابلے کا میدان بنایا؟ واشنگٹن کا رویہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی عکاسی کرتا ہے۔