Tag: روشنی

  • کون سی کشش کیڑوں مکوڑوں کو روشنی کی طرف کھینچتی ہے؟

    کون سی کشش کیڑوں مکوڑوں کو روشنی کی طرف کھینچتی ہے؟

    آپ نے اکثر رات کے اوقات کسی بھی قسم کے کیڑے مکوڑوں کو مصنوعی روشنی کے گرد منڈلاتے دیکھے ہوں گے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کونسی کشش ان کیڑے مکوڑے کو روشنی کی طرف کھینچتی ہیں۔

    تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سمتاتی جبلت کے باعث کیڑے دن کے وقت سطح پر اڑ سکتے ہیں اور اپنی پیٹھ کو سورج کی روشنی کی طرف رکھنے کے قابل ہیں، تاہم نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اندھیرے میں مصنوعی روشنی میں یہ صلاحیت کھو دیتے ہیں۔

    امپیریل کالج لندن اور فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ماہرین حیاتیات نے وضاحت کی کہ کیڑے مصنوعی روشنی کو اندھیرے میں کھلے آسمان سے آنے والی تصور کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق اس روشنی میں وہ اپنے آپ کو اوپر اور نیچے کے محور کے ساتھ رخ کرتے ہیں، اس کے بعد جبلت انہیں روشنی کی طرف واپس جانے کا اشارہ کرتی ہے جو بظاہر بے ترتیب پرواز کے راستے بناتی ہے۔

    سائنسدان پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ بڑھتی ہوئی مصنوعی روشنی کی وجہ سے دنیا بھر میں کیڑے مکوڑوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے، جبکہ کیڑے مار ادویات کا استعمال اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی کیڑوں کی تعداد میں کمی کا باعث بنی ہیں جو کہ فطرت کیلئے انتہائی ہی خطرناک ہے۔

    سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر ہم دنیا سے تمام کیڑے مکوڑے نکال دیں تو ہم بھی مر جائیں گے، ماہرین کہتے ہیں یہ کیڑے مکوڑے خوراک کی پیداوار اور ایکو سسٹم کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے لیبارٹری میں ہائی ریزولوشن موشن کیپچر اور فیلڈ میں اسٹیریو ویڈیوگرافی کو استعمال کیا تاکہ مصنوعی روشنیوں کے ارد گرد کیڑے کی پروازوں کے تھری ڈی کائینیٹکس کو دوبارہ تشکیل دیا جا سکے۔

    ماہرین نے کوسٹا ریکا کی لیب اور جنگلات میں لائٹ بلب کے گرد اڑنے والی مصنوعی روشنیوں کے گرد پرواز کرتی بھنبھیریوں، تتلیوں، پتنگوں کا مشاہدہ کیا۔

  • کیا بلیک ہول کی تصویر ساڑھے 5 کروڑ سال پرانی ہے؟

    کیا بلیک ہول کی تصویر ساڑھے 5 کروڑ سال پرانی ہے؟

    کائنات کے بڑے رازوں میں سے ایک سمجھے جانے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کردی گئی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ تصویر 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانی ہے؟

    10 اپریل 2019 کا دن سائنسی تاریخ کا ایک اہم دن تھا کیونکہ ماہرین فلکیات طویل عرصے سے سحر زدہ کیے رکھنے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوگئے، تاہم یہ تصویر 5 کروڑ 50 سال لاکھ سال پرانی ہے۔ جان کر حیران ہوگئے نا؟

    مزید پڑھیں: بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کردی گئی

    یہ بلیک ہول جسے اب تک دریافت کیے جانے والے بلیک ہولز میں سب سے زیادہ وزنی قرار دیا جارہا ہے، ہم سے 5 کروڑ 50 لاکھ نوری (روشنی کے) سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

    یعنی اس وقت اگر ہم زمین سے آنکھوں کو چکا چوند کردینے والی کوئی ایسی روشنی خارج کرسکیں جو اس بلیک ہول تک پہنچ سکے تو اسے وہاں تک پہنچنے میں 5 کروڑ 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہے، اور یقیناً یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ روشنی ہماری کائنات کی سب سے تیز رفتار شے ہے۔

    تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلیک ہول کے آس پاس کا علاقہ جسے ایونٹ ہورائزن کہا جاتا ہے خاصا روشن ہے، وہ اس لیے کیونکہ مادہ، گیس، پلازمہ یا کوئی بھی دوسری شے بلیک ہول کے اندر داخل ہونے سے قبل اس مقام (ایونٹ ہورائزن) پر نہایت تیز ہو کر بھڑک جاتی ہے اور روشن ہوجاتی ہے، یہ روشنی انہی اشیا کی ہے۔

    یہاں سے یہ روشنی اپنا سفر شروع کرتی ہے، یہ روشنی جب اس مقام تک پہنچتی ہے جہاں سے ہم اسے دوربین کی آنکھ میں قید کرسکیں تو اسے اپنے اصل مقام سے سفر شروع کیے 5 کروڑ 50 لاکھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔

    گویا آج دیکھی جانے والی بلیک ہول کی تصویر بلاشک و شبہ 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب یہ بلیک ہول ایسا نہ ہو جیسا اس تصویر میں دکھائی دے رہا ہے، ہوسکتا ہے اب اس کا حجم بڑا یا چھوٹا ہوگیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بلیک ہول ختم ہوچکا ہو۔

    اسی کلیے کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرض کیا جائے کہ اگر اس بلیک ہول کے مقام پر کھڑے ہو کر، کسی طاقتور دوربین کے ذریعے زمین کی طرف دیکھا جائے تو اس دوربین میں زمین کا 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانا منظر نظر آئے گا۔

    یہ وہ عرصہ ہوگا جب ہماری زمین پر ڈائنو سارز موجود تھے اور انسان کو زمین پر آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ گویا اس وقت جس روشنی نے زمین سے خارج ہو کر اپنا سفر شروع کیا ہوگا اسے اس بلیک ہول تک پہنچنے میں اتنا وقت لگا ہوگا کہ زمین پر سال 2019 شروع ہوچکا ہوگا۔

  • رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    روشنی ہماری دنیا کی تیز رفتار ترین شے ہے جسے قید کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، تاہم 2 تخلیق کاروں نے اپنے کیمرے کے ذریعے یہ کمال کر دکھایا ہے۔

    کم ہینری اور ایرک پیئر نامی دو تخلیق کاروں نے فوٹوگرافی کے شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک ایک فوٹوگرافر ہے جبکہ کم ڈانسر ہے۔ ایرک نے کم کے ساتھ ٹیوب لائٹس کے استعمال سے فوٹوگرافی کا شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے جس میں صحیح منظر ملتا ہے۔ اس ایک سیکنڈ کے لیے مجھے کافی دیر محنت کرنی پڑتی ہے۔

    ایرک کا کہنا تھا کہ وہ کم کے پیچھے کھڑا ہو کر ٹیوب لائٹس کو مستقل گھماتا ہے جس کے بعد ہی صحیح منظر ملتا ہے۔

    مختلف رنگین روشنیوں کے ساتھ کم کے مختلف انداز مل کر ان تصاویر کو نہایت خوبصورت بنا دیتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایران کی جگمگ کرتی مسجد

    ایران کی جگمگ کرتی مسجد

    تہران: دنیا میں کئی ایسی مساجد تعمیر کی گئیں جو فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان مساجد میں تعمیر کروانے والوں کی عقیدت اور تعمیر کرنے والوں کی مہارت و کاریگری نے مل کر ان مساجد کو عبادت کے ساتھ ایک قابل دید مقام میں بدل دیا۔

    ان میں سے کچھ مساجد سیاحوں کے لیے بھی کھلی ہیں اور یہاں مسلمانوں اور غیر مسلم افراد دونوں کو داخلے کی اجازت ہے۔

    ایسی ہی ایک مسجد ایران کے شہر شیراز میں بھی ہے جسے شاہ چراغ کہا جاتا ہے۔ شاہ چراغ یعنی بادشاہ کی روشنی یا چراغ نامی اس مسجد میں ہزاروں شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے جو سورج اور چاند کی روشنی کو منعکس کر کے نہایت حسین سماں باندھ دیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں

    مسجد نصیر الملک ۔ ایران کی ثقافت کی پہچان

    اتحاد بین المسلمین کی مظہر ۔ مسجد عبد الرحمٰن

    دنیا بھر کی خوبصورت و تاریخی مساجد

    اس مسجد کے بارے میں ابتدائی معلومات اندھیرے میں ہیں۔ بعض روایات کے مطابق 900 صدی عیسوی میں ایک سیاح نے کسی مقام سے روشنی آتی دیکھی تھی۔ جب اس نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو وہاں ایک قبر موجود تھی جہاں سے روشنی نکل رہی تھی۔

    یہ قبر بعد ازاں ایک مسلمان سپہ سالار کی ثابت ہوئی جس کے بعد اس کو باقاعدہ مقبرے اور مسجد کی شکل دے دی گئی۔

    مسجد کی خوبصورت تصاویر دیکھیئے۔

    3

    2

    4

    5

    6

    11

    9

    10

    7

  • پولینڈ کے رات میں چمکنے والے راستے

    پولینڈ کے رات میں چمکنے والے راستے

    وارسا: پولینڈ میں رات میں سائیکل چلانے والے افراد کی سہولت کے لیے ایک چمکدار راستہ بنایا گیا ہے جو رات میں دور سے چمکتا دکھائی دیتا ہے۔

    ایک یونیورسٹی کی جانب سے بنایا جانے والا یہ راستہ ابھی تجرباتی مراحل میں ہے۔ ان راستوں کو ’لومینوفور‘ نامی مادے سے بنایا گیا ہے جو دن بھر سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اندھیرا ہوتے ہی جگمگا اٹھتے ہیں۔

    poland-6

    poland-3

    یہ مادہ دن بھر سورج کی روشنی حاصل کرنے کے بعد تقریباً 10 گھنٹے تک روشنی خارج کرسکتا ہے یعنی یہ پوری رات چمکے گا اور اس کے بعد اگلے دن خودبخود سورج کی روشنی کو جذب کر کے چارج ہوجائے گا۔

    poland-5

    poland-4

    پولینڈ میں یہ تجربہ نیدرلینڈز سے متاثر ہو کر کیا گیا ہے جہاں مشہور مصور وان گوگ کی مشہور پینٹنگ ’تاروں بھری رات‘ کی طرز پر راستے بنائے گئے ہیں۔ یہ راستے رات میں چمکتے ہیں اور یہ خصوصی طور پر موٹر سائیکل اور سائیکل سواروں کے لیے بنائے گئے ہیں۔

    poland-1
    نیدر لینڈز کے رات میں چمکنے والے راستے

    واضح رہے کہ پولینڈ ایک ماحول دوست ملک ہے جہاں گاڑیوں سے کاربن کے اخراج کی شرح بے حد کم ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگ سفر کے لیے سائیکل چلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔