Tag: روشن آرا بیگم

  • روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم اپنی سریلی آواز کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کے فن پر مکمل عبور رکھتی تھیں اور اسی لیے انھیں ملکہ موسیقی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پاکستان میں اپنے ہم عصر گائیکوں میں نمایاں تھیں۔

    روشن آراء بیگم 19 جنوری 1917ء کو کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام وحید النساء بیگم تھا۔ روشن آراء بیگم نے موسیقی کی تعلیم شہرۂ آفاق گائیک استاد عبد الکریم خان سے حاصل کی اور فن کی اس دنیا میں ملکۂ موسیقی کا خطاب پایا۔ تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے روشن آراء بیگم لاہور آتی تھیں اور یہاں موسیقی کی یادگار محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ 1948ء میں وہ پاکستان منتقل ہوگئیں۔ یہاں موسیقی کے دلدادہ پولیس افسر احمد خان کے ساتھ ان کی شادی ہوئی اور انھوں نے لالہ موسیٰ میں سکونت اختیار کرلی۔ ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے فلموں کے لیے بھی گیت گائے جن کی دھنیں انیل بسواس، فیروز نظامی، نوشاد اور تصدق حسین جیسے موسیقاروں نے ترتیب دیں۔ روشن آراء بیگم نے فلم پہلی نظر، جگنو، قسمت، روپ متی باز بہادر اور نیلا پربت میں آواز کا جادو جگایا۔

    حکومت پاکستان نے روشن آراء بیگم کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز بھی عطا کیا تھا۔ یہ عظیم گلوکارہ 5 دسمبر 1982ء کو انتقال کر گئی تھیں۔ اپنے فن میں ممتاز اور باکمال گلوکارہ نے اپنے زمانے کے کئی اہم موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ موسیقی کی نجی محافل میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ گلوکارہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا۔

  • روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    مغل شہنشاہ شاہ جہان اور ملکہ ممتاز محل کی صاحب زادی روشن آرا بیگم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دین دار خاتون تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے رفاہِ عامّہ کے کئی کام کروائے جن کا ذکر اب صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے بھائی اور ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی لاڈلی تھیں۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    روشن آرا بیگم 11 ستمبر 1671ء کو وفات پاگئی تھیں۔ 1617ء میں‌ پیدا ہونے والی روشن آرا بیگم کی ماں مغل بادشاہ کی چہیتی بیوی ملکہ ارجمند بانو (ممتاز محل) تھیں۔ روشن آرا کے حقیقی بہن بھائیوں میں دارا شکوہ، اورنگزیب عالم گیر اور جہاں آرا مشہور ہیں۔

    روشن آرا بیگم کی تعلیم و تربیت اسی طرح ہوئی جیسا کہ اس دور کے رواج کے مطابق ایک شاہزادی کے لیے اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جملہ علوم و فنون اور تدبیر و سیاست سیکھی، لیکن اس شہزادی کو فنِ کتابت میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی خداداد صلاحیت اور مشق نے انھیں کتابت میں ایسا باکمال کیا کہ ان کا خط دیکھنے والے داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے تھے۔

    شہزادی روشن آرا کو سب بھائیوں میں اورنگزیب عالم گیر سے زیادہ محبّت تھی۔ وہ اورنگزیب کی خیرخواہ تھیں۔ جب شہزادی کے بھائیوں دارا شکوہ، مراد، شجاع اور اورنگزیب میں تخت نشینی پر تنازع پیدا ہوا تو روشن آرا نے اورنگزیب کا ساتھ دیا۔

    مشہور ہے کہ وہ شہنشاہ کے دربار میں اورنگزیب کے خلاف ہونے والی باتیں بھائی تک پہنچاتی تھیں اور اسے ہر قسم کی سازشوں سے آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔

    ہندوستان میں تاج و تخت سے جڑے واقعات، محلّاتی سازشوں کے تذکروں اور اس دور کے شاہی مؤرخین کے قلم سے لکھی گئی تاریخ میں مبالغہ آرائی ہی نہیں، من گھڑت اور بے بنیاد قصّے کہانیاں اور جھوٹ کی آمیزش سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جاہ و جلال اور اختیار کی خواہش اور ہوسِ زر کے لیے خونی رشتوں کو بھی قربان کردیا گیا۔ اسی شہزادی کے باپ اور بھائیوں کو قید کے ساتھ دردناک موت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا جس میں اورنگزیب کا ہاتھ تھا۔

    اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ روشن آرا بیگم نے تخت نشینی کے معاملے میں اورنگزیب کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی خیر خواہی اور بیدار مغزی نے اورنگزیب کو فائدہ پہنچایا اور وہ تخت و تاج حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کام یابی میں اگرچہ اورنگزیب کی تدبیر و سیاست اور عزم و ہمّت کو سب سے زیادہ دخل تھا، لیکن اس کی بہن شہزادی روشن آرا بیگم نے ہر موقع پر اس کی مدد اور راہ نمائی کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر اپنی بہن اور شہزادی روشن آرا بیگم کو بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ ایک بڑی جاگیر کی مالک تھیں جب کہ شاہی وظیفہ بھی پاتی تھیں۔ مؤرخین کے مطابق شہزادی کی دولت کا پیش تر حصّہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد میں صرف ہوتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم رفاہِ عامہ کے سلسلے میں اپنا حصّہ ڈالتی رہتی تھیًں۔ انھوں نے کئی کام کروائے جن سے رعایا کو فائدہ پہنچا، لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں‌ رہا۔

  • نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    سارنگی وہ ساز ہے جس کی روایتی دھنوں پر عوامی شاعری برصغیر میں مقبول رہی ہے۔ یہ ساز ہندوستان میں کلاسیکی سنگیت کا اہم حصّہ رہا ہے۔ آج اس فن میں اپنے کمال اور مہارت کو منوانے والے استاد نتھو خان کی برسی ہے۔ وہ 7 اپریل 1971ء کو جرمنی میں قیام کے دوران وفات پاگئے تھے۔

    استاد نتھو خان 1924ء میں موضع جنڈیالہ گورو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا موسیقی کے فن سے وابستہ تھا اور والد میاں مولا بخش بھی اپنے عہد کے معروف سارنگی نواز تھے۔ استاد نتھو خان نے اپنے والد ہی سے موسیقی کے ابتدائی رموز سیکھے اور بعد میں اپنے چچا فیروز خان، استاد احمدی خاں اور استاد ظہوری خان کی شاگردی اختیار کی۔

    سارنگی وہ ساز ہے جسے سیکھنے میں محنت بہت لگتی ہے اور جدید آلاتِ موسیقی میں اس کے مقابلے میں وائلن کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ استاد نتھو خان کی خوبی اور کمال یہ تھا کہ وہ کلاسیکی گانا بھی جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں اپنے وقت کے نام ور اور مشہور کلاسیکی گلوکاروں نے سنگت کے لیے منتخب کیا اور ان کے فن کے معترف رہے۔

    روشن آرا بیگم جیسی برصغیر کی عظیم گلوکارہ استاد نتھو خان کی مداح تھیں۔ اپنے وقت کے ایک معروف ساز کے ماہر اور اپنے فن میں یکتا استاد نتھو خان فقط 46 برس کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کا تذکرہ

    ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کا تذکرہ

    ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کی زندگی کا سفر 6 دسمبر 1982ء کو تمام ہوا تھا اور گویا ان کے ساتھ ہی پاکستان میں‌ کلاسیکی گائیکی کا باب بھی بند ہوگیا۔ اپنے فن میں ممتاز اور باکمال گلوکارہ نے فلم پہلی نظر، جگنو، قسمت، نیلا پربت سمیت کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں لازوال گیت ریکارڈ کروائے۔

    روشن آرا بیگم 1917 میں کلکتہ میں پیدا ہوئیں اور تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی جہاں گلوکاری کے میدان میں انھوں نے نام و مقام بنایا۔ کلاسیکی موسیقی کی اس نام ور گلوکارہ نے اس فن کی تربیت اپنے قریبی عزیز اور استاد عبدالکریم خان سے لی تھی۔

    انھوں نے اپنے زمانے کے کئی اہم موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو اپنی آواز دے کر امر کردیا۔ ان میں انیل بسواس، فیروز نظامی اور تصدق حسین کے نام شامل ہیں۔

    پاکستانی فلمی صنعت اور کلاسیکی موسیقی کے دلداہ روشن آرا بیگم کا نام بے حد عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔

    پاکستان بننے سے پہلے بھی وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے لاہور کا سفر کیا کرتی تھیں، جب کہ موسیقی کی نجی محافل میں بھی انھیں فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔

    روشن آرا بیگم کی تان میں اُن کے کیرانا گھرانے کا رنگ جھلکتا ہے۔ کہتے ہیں ‌اُن کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا۔

    آج جہاں‌ کلاسیکی موسیقی کو فراموش کیا جاچکا ہے، بدقسمتی سے اس فن میں نام ور اور باکمال گلوکاروں کو بھی بھلا دیا گیا ہے اور ان میں سے اکثر کا ذکر بھی نہیں‌ کیا جاتا۔

    روشن آرا بیگم نے کلاسیکی موسیقی کے دلدادہ ایک پولیس افسر احمد خان سے شادی کی تھی اور لالہ موسیٰ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔