اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل "میرے ہمسفر” میں حرا خان (رومی) نے گھر سے بھاگ کر نکاح کرلیا۔
ڈرامہ سیریل ’میرے ہمسفر‘میں فرحان سعید (حمزہ)، ہانیہ عامر (ہالا)، صبا حمید (شاہجہاں)، وسیم عباس، زویا ناصر (ثمین)، عمر شہزاد (خرم)، حرا خان (رومی)، ثمینہ احمد (ہالا کی دادی)، علی خان (ہالا کے والد) ودیگر مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔
گزشتہ قسط میں دکھایا گیا کہ رومی کالج جانے کی بجائے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ موٹرسائیکل پر سیر سپاٹوں کو نکل جاتی ہے۔
رومی نے اب اپنے دوست سے گھر والوں سے چھپ کر شادی رچالی۔
بیٹی کی شادی کا ابھی ان کی والدہ (شاہجہاں) کو علم نہیں ہوا جب وہ اپنے دوست سے ملنے گئی تھیں تو شاہجہاں نے انہیں زور دار تھپڑ رسید کیا تھا۔
شادی کرنے کے بعد رومی ڈر بھی رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر کسی کو علم ہوگیا تو کیا ہوگا اس پر ان کے دوست کہتے ہیں اگر کسی کو پتا بھی چل گیا تو بینڈ باجا لیے بارات لے کر پہنچ جائیں گے۔
رومی کی شادی کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد شاہ جہاں کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہ جاننے لیے "میرے ہمسفر” کی اگلی قسط جمعرات رات 8 بجے دیکھیں۔
معروف اداکاراؤں ہانیہ عامر اور حرا خان کی دلچسپ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جسے مداحوں نے بے حد پسند کیا۔
اے آر وائی ڈیجیٹل کے مقبول ڈرامے میرے ہمسفر سے شہرت پانے والی حرا خان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، حال ہی میں انہوں نے ڈرامے کی مرکزی کردار ہالہ ( ہانیہ عامر) کے ساتھ ایک دلچسپ ویڈیو شیئر کی۔
ویڈیو میں پس منظر میں کسی بھارتی فلم کا ڈائیلاگ چل رہا ہے جس پر حرا اور ہانیہ دلچسپ ایکٹنگ کر رہی ہیں۔
ڈائیلاگ میں کہا جاتا ہے کہ میں گھوموں پھروں، ناچوں گاؤں، ہنسوں کھیلوں، باہر جاؤں، آپ کو کیا۔ ڈائیلاگ پر دونوں اداکارؤں نے دلچسپ تاثرات دیے ہیں۔
ویڈیو کو مداحوں کی جانب سے بے حد پسند کیا جارہا ہے، ایک صارف نے کمنٹ کرتے ہوئے ڈرامے کے ایک اور کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تائی جان آرہی ہیں، سنبھل جاؤ۔
خیال رہے کہ اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والا ڈرامہ میرے ہمسفر بے حد پسند کیا جارہا ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال میں بھی اسے دیکھا جارہا ہے۔
اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’میرے ہمسفر‘ کی 29ویں قسط کا سین مداحوں کو بھا گیا۔
ڈرامہ سیریل ’میرے ہمسفر‘ میں فرحان سعید (حمزہ)، ہانیہ عامر (ہالا)، صبا حمید (شاہجہاں)، وسیم عباس، زویا ناصر، عمر شہزاد (خرم)، حرا خان (رومی)، ثمینہ احمد (ہالا کی دادی) ودیگر مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔
گزشتہ 29ویں قسط میں دکھایا گیا کہ ’رومی اپنے دوست کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے ناراض ہوگئیں۔‘
رومی کے دوست کہتے ہیں کہ ’کب سے تمہارا فون ملا رہا ہوں تم فون کاٹ رہی ہو۔‘ اس پر وہ کہتی ہیں کہ ’میری کال اٹھائی تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں باہر تھا اور فون چارج ہورہا تھا۔‘ رومی کہتی ہیں ’جو بھی ہے میں خود کو نظر انداز کیے جانا برداشت نہیں کرسکتی۔‘
برطانیہ میں ایک رومی قبرستان سے 2 ہزار سال قدیم انسانوں کے سر کٹے ڈھانچے برآمد ہوئے ہیں۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے جنوبی انگلینڈ سے ایک رومی قبرستان میں دفن ہوئے 425 ڈھانچے نکالے ہیں، جن میں سے تقریباً 40 کے سر کٹے ہوئے ہیں۔
پچاس کے قریب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ٹیم نے آئلسبری کے قریب ایک جگہ فلیٹ مارسٹن میں کھدائی کےدوران یہ دریافت کی، دریافت ہونے والی لاشوں میں 10 فی صد کے قریب ڈھانچوں کے سر کٹے ہوئے تھے، جن میں سے کئی کے سر ان کی ٹانگوں کے بیچ میں تھے یا ان کے پیروں کے نیچے۔
یاد رہے کہ رومیوں نے برطانیہ پر 43 عیسوی سے 410 عیسوی تک حکومت کی تھی، ماہرین کا خیال ہے کہ جن ڈھانچوں کے سر کٹے ہوئے ہیں وہ مجرم تھے یا معاشرے کے اچھوت تھے، اگرچہ رومی دور کے آخر میں سر کاٹنا عام بات تھی البتہ تدفین بہت کم کی جاتی تھی۔
آئندہ چند برس میں محققین دریافت ہونے والے ان ڈھانچوں کے متعلق مطالعہ کریں گے اور رومی تہذیب کے تاریخ طرزِ زندگی، غذا اور عقائد کے متعلق مزید جاننے کی کوشش کریں گے۔
ایچ ایس ٹو لمیٹڈ میں ہیریٹیج کے سربراہ ہیلن واس کا کہنا تھا کہ دریافت ہونے والی تمام انسانی باقیات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں گے اور دریافتوں کو برادری کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
ٹیم نے اس جگہ سے 1200 سکّے بھی دریافت کیے، سکّوں کے ساتھ لیڈ ویٹ بھی دریافت ہوئے جس سے یہ علم ہوا کہ اس جگہ پر تجارت کی جاتی تھی۔
The skeletons of 40 beheaded bodies were uncovered at a UK gravesite by archeologists. The bodies, which are believed to date back to the era of the Roman Empire, were likely criminals or some other sort of social outcasts given the decapitations. pic.twitter.com/Qoxwm8kez5
آثار قدیمہ سے ملنے والی دیگر اشیا میں چمچ، پن اور بروچ سمیت گھریلو اشیا کے ساتھ ساتھ گیمنگ ڈائس اور گھنٹیاں بھی ملی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ وہاں بھی جوا اور مذہبی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔
ان دریافتوں کے ذریعے آثار قدیمہ کے ماہرین اپنے کھدائی کے کام کے ذریعے تقریباً دو ہزار سال قبل رومن برطانیہ میں زندگی کے بارے میں بھرپور تفصیلات سے پردہ اٹھانے میں کامیاب رہے ہیں۔
انسان کے مراتبِ استعداد بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی استعداد درجۂ حیوانیت سے متجاوز نہیں ہو پاتی اور وہ صرف حیات کی اساسی ضروریات تک ہی محدود رہتے ہیں، یہ انسانی استعداد کا سب سے کم مرتبہ ہے۔
ان سے اونچا طبقہ ان اصحاب کا ہے جو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کے رجحانات اور تقاضوں کی مناسبت سے بعض علوم و فنون سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا شمار تعلیم یافتہ اور اربابِ فن میں ہوتا ہے، یہ استعداد کا درجہ اوسط ہے۔
آخری اور سب سے بلند طبقہ وہ ہے جس پر جامع الکمالات، نابغہ روزگار اور فطین کے القاب صادق آتے ہیں۔
قدرت نے انہیں استعداد کے اُس نقطۂ عروج پر فائز کیا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی استعداد کو بروئے کار لائیں اور ذرا توجہ سے کام لیں تو کائنات کا کوئی علم اور فن ان کے دائرہ گرفت سے باہر نہیں جانے پاتا بلکہ جس موضوع کو ان کے آئینۂ استعداد کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اس پر برجستہ محو گفتگو ہو جاتے ہیں بلکہ اس موضوع پر ایسے عالمانہ، محققانہ اور ناقابلِ تردید عقلی و نقلی دلائل کا ایک دریا بہاتے نظر آتے ہیں اور اپنے جوہرِ استعداد سے ایسی ایسی نادرہ زائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آیت "وحملھا الانسان” میں پوشیدہ حقیقتِ کبرٰی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔
ان کے زیرِ بحث موضوع کا جو صحیح تجزیہ اور حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کے قبول کرنے میں سلیم الطبع، انصاف پسند، معقول اور ذی ہوش سامعین کبھی بھی تاخیر سے کام نہیں لیا کرتے۔
مذکورہ بالا صفاتِ عالیہ، خصائص اور استعداد کے مالک غزالیؒ ، رازیؒ، رومیؒ اور امیر خسروؒ جیسے ذہن کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں اور ایسے حضرات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس خطۂ ارض کو ان کی قیام گاہ کا شرف مل جاتا ہے، وہ قیامت تک نہ صرف یہ کہ اپنے اس اعزاز پر فخر کرتا ہے، بلکہ دنیا اس خطہ کے باشندوں کو بھی اس نابغۂ روزگار سے قربت کے باعث چشمِ احترام سے دیکھتی ہے۔
تیری محبت کے سبب مجھے اس قوم کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور مروت سے پیش آنا پڑا جو میرے دشمن تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ایک آنکھ کی خاطر ہزار آنکھوں کی عزت کرنا پڑتی ہے۔
اے آر وائی ڈیجیٹل کے معروف ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ میں رومی کا کردار ادا کرنے والے چائلڈ اسٹار شیس سجاد گل نے شوٹنگ کے دوران پیش آنے والے دلچسپ تجربات شیئر کردیے۔
میرے پاس تم ہو سے ڈرامہ انڈسٹری میں ڈیبیو کرنے والے چائلڈ اسٹار نے اداکاری کے جوہر دکھا کر پہلے ہی مرحلے میں کامیابی کی بلندی کو چھو لیا اور اُن کا مستقبل مزید روشن نظر آرہا ہے۔
اپنے حالیہ انٹرویو میں شیس سجاد کا کہنا تھا کہ ’ہمایوں سعید اور میرے والد آپس میں دوست ہیں، میری اُن سے ملاقات آڈیشن کے روز ہوئی اور انہوں نے بہت سپورٹ کیا‘۔ سجاد گل نے کارڈ گیم کھیلتے ہوئے شوٹنگ کے دوران پیش آنے والے خوش گوار واقعات بھی سنائے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمایوں انکل میرے لیے کھلونے اور عائزہ خان میرے لیے چاکلیٹس لاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ شوٹنگ کے بعد وہ اسکول جاتے تھے، انہیں ایک آئی پیڈ دیا ہوا تھا جس پر وہ فارغ وقت میں نیٹ فلکس کے ڈرامے دیکھتے اور گیمز کھیلتے تھے۔
شیس نے بتایا کہ ڈائیلاگ یاد کروانے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بہت زیادہ ساتھ دیا، مجھے رومن میں لکھے ڈائیلاگز ملتے تھے جنہیں یاد کرنا آسان رہتا تھا۔
رومی نے بتایا کہ اُن کا بہترین ڈائیلاگ وہ تھا کہ جب مہوش اُن سے ملاقات کے لیے اسکول پہنچیں اور وہ اپنے والد دانش کے ساتھ بورڈنگ اسکول پہنچے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ گھر سے نکلوں تو لوگ پاس آکر تصاویر بنوانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، اسی وجہ سے مجھے ٹوپے والی جرسی پہن کر نکلنا پڑتا ہے تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔
انٹرویو کے دوران اینکر نے متعدد بار ڈرامے کی اگلی قسط اور اختتام کے حوالے سے پوچھنے کی کوشش کی تو رومی نے بتایا کہ انہوں نے اگلی قسطوں کے بارے میں ابھی تک اپنے والدین کو بھی نہیں بتایا اور نہ وہ قسط نشر ہونے سے پہلے کسی کو بتائیں گے۔
سیش سجاد گل ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سجاد گل کے صاحبزادے ہیں جو اس سے قبل کئی کمرشل میں کام کرچکے جبکہ اُن کے یوٹیوب چینل پر 72 ہزار سے زائد فالوورز ہیں اور وہ ابھی تیسری جماعت میں پڑھ رہے ہیں۔
کراچی: 3 روزہ عالمی رومی موسیقی میلے کا انعقاد کراچی میں کیا جائے گا۔ یہ میلہ مارچ کی 10، 11 اور 12 تاریخ کو منعقد ہوگا۔
کراچی کے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس میلے کا مقصد عظیم صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی کی شاعری اور موسیقی کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔
میلے میں دنیا بھر سے مختلف میوزک بینڈ شرکت کریں گے۔ میلے میں موسیقی کے ساتھ آرٹ اور دستکاری کی نمائش اور مختلف مباحثے بھی منعقد ہوں گے۔
رومی کون؟
مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔
بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔
منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔
یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔
شمس تبریزی اور رومی کا ساتھ 2 برس تک رہا۔ اس کے بعد شمس تبریزی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں قتل کردیا گیا تاہم ان کی موت کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا مزار ایران کے شہر خوئے میں ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔
رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔
اس حوالے سے ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ وہ جو فلم بنانے جا رہے ہیں وہ مغربی سنیما میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کردے گی۔ ’رومی ایک ایسا شاعر ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوا۔ ایسے عظیم افراد کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی ضرورت ہے‘۔
فلم میں رومی کا کردار آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو ادا کریں گے جبکہ شمس تبریزی کا کردار رابرٹ ڈاؤننگ جونیئر ادا کریں گے۔ فلم کی کاسٹ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔
کابل: افغانستان نے ایران اور ترکی کی جانب سے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کو اپنا قومی ورثہ قرار دینے کی درخواست پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے افغان ورثہ قرار دینے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق تہران اور انقرہ رومی کی تخلیقات کو مربوط کر رہے ہیں جس کے بعد اسے اقوام متحدہ کے کتابچے ’عالمی یادیں‘ میں اپنے مشترکہ ثقافتی ورثے کی حیثیت سے جمع کروائیں گے۔
اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے 1997 میں اس کتابچے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کتابچے کا مقصد خاص طور پر جنگ زدہ اور شورش زدہ ممالک کے ادبی ورثے کو جمع اور محفوظ کرنا ہے۔
اس سلسلے میں رومی کو ’اپنا‘ ثقافتی ورثہ قرار دینے کی ترک اور ایرانی کوششوں کو افغانستان نے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
رومی بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان ثقافت و نشریات کی وزارت کے مطابق رومی ان کا فخر ہے۔
ترجمان وزارت ہارون حکلیمی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’یونیسکو نے کبھی بھی ہم سے اس بارے میں رائے نہیں مانگی۔ لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اپنا دعویٰ ثابت کردیں گے‘۔
رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقات کو 23 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
بلخ کے گورنر جنرل عطا محمد نور نے اقوام متحدہ میں افغان نمائندے کو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانے اور اس پر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔
ان کا کہنا ہے، ’رومی کو صرف 2 ممالک تک محدود کرنا ناانصافی ہے۔ رومی ایک عالمی مفکر ہے اور دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں‘۔
رومی کی آرام گاہ
مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔
بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔
منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔
یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔
افغانیوں کے مطابق رومی نے جہاں اپنے بچپن کا کچھ حصہ گزارا وہ گھر اب بھی بلخ میں موجود ہے۔
رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔
رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔