Tag: رومی سلطنت

  • باغی سپارٹیکس اور کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ

    باغی سپارٹیکس اور کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ

    دنیا کی تاریخ کا ایک غلام آج ایک باغی سپارٹیکس کے نام سے نہ صرف زندہ ہے بلکہ یہ ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت اور آخری سانس تک لڑائی کا استعارہ بن چکا ہے ہاورڈ فاسٹ نے بھی اپنا شاہ کار ناول بعنوان سپارٹیکس ایک قید خانے میں ہی لکھا تھا وہ بھی اپنے نظریے کی بنیاد پر حقوق کی جنگ لڑنے والا قلم کار تھا

    شہرۂ آفاق باغی سپارٹیکس قبلِ مسیح کا ایک ایسا کردار ہے جس نے رومی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ محققین کے مطابق جب دنیا رومن بادشاہت کا عروج دیکھ رہی تھی، تب سپارٹیکس نے آنکھ کھولی تھی۔ اس دور میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کا رواج تھا اور ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ ظلم و ستم عام تھا اور آقا اپنے ان غلاموں کے ساتھ ہر قسم کا غیر انسانی سلوک کرسکتے تھے اور کرتے تھے۔ معمولی خطا پر ان سے مار پیٹ اور ان کا قتل بھی کر دیا جاتا تھا۔ سپارٹیکس بھی نوعمری میں غلام بن کر سلطنتِ روم کے بادشاہ اور امراء کی بطور گلیڈی ایٹر (انسانوں کی لڑائی) خوشی کا سامان کرنے لگا تھا۔ وہ جسمانی طور پر مضبوط اور بلند قامت غلام تھا۔ گلیڈی ایٹرز کے کھیل میں دو غلام اس وقت تک آپس میں لڑتے تھے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو پچھاڑ کر اس کی گردن نہ مار دے۔ ان کا خون بہتے، انھیں تڑپتے اور درد کی شدت سے چیختے چلاّتے دیکھ کر ان امراء کو راحت ملتی تھی اور یہ سب ان کے لیے محض ایک تماشا تھا۔ سپارٹیکس نے پا بہ زنجیر قید اور ہر طرح کا ظلم برداشت کیا، لیکن وہ خواب دیکھتا تھا، آزادی کا اور انتقام لینے کی خواہش رکھتا تھا۔ اسے یہ موقع مل گیا اور ایک دن وہ اور کئی غلام گلیڈی ایٹرز قید خانے سے سپاہیوں کا خون کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ اس وقت تک سپارٹیکس کی شہرت گلی گلی پھیل چکی تھی اور لوگ اسے دل و جان سے چاہنے لگے تھے۔ انھوں نے گلیوں میں دیوانہ وار اپنے ہیرو سپارٹیکس کا خیرمقدم کیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔ سلطنت کے بڑے شہر میں بادشاہ کی فوج سے لڑائی میں خوب خون بہا، اور ایک دن سپارٹیکس بھی مارا گیا۔ مگر یہ ایسی موت تھی جس نے اُسے امر کردیا۔ اسی سپارٹیکس کی کہانی مشہور ناول نگار فاسٹ نے بھی لکھی ہے۔

    ادیب و شاعر احمد عقیل روبی اپنی ایک کتاب میں ہاورڈ فاسٹ اور ان کے اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں: اسی طرح ہاورڈ فاسٹ (Haward Fast) نے اپنا شاہ کار ناول ’’سپارٹیکس (Spartacus)‘‘ قید خانے میں مکمل کیا۔ ہاورڈ فاسٹ کا تعلق کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین ارکان میں ہوتا تھا۔ اپریل 1946ء کی بات ہے، امریکی فاشزم کا زمانہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹی زیر عتاب تھی۔ ہاورڈ فاسٹ کے پیچھے جاسوس پاگل کتوں کی طرح لگے ہوئے تھے۔ اسے پارٹی کو چندہ دینے والے لوگوں کے ناموں کی فہرست دینے کے لیے کہا گیا۔ اس نے انکار کر دیا چنانچہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اسے سزا دینے کے لیے ووٹنگ ہوئی 62 ممبران نے حق میں 262 نے خلاف ووٹ دیا۔ اسے جیل بھیج دیا گیا۔ ہاورڈ فاسٹ نے کاغذ سامنے رکھے۔ قلم ہاتھ میں پکڑا اور ’’سپارٹیکس‘‘ مکمل کرلیا۔ 1951ء میں ناول مکمل ہوا۔ اس ناول کو چھاپنے کے لیے کوئی پبلشر تیار نہ تھا۔ فاسٹ نے ناول خود چھاپا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی 50 ہزار کاپیاں بک گئیں۔ اس ناول کا دنیا کی 82 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول کو بیسویں صدی کا اہم ترین ناول قرار دیا گیا۔ اُردو میں اس ناول کا 1988ء میں مشہور ادیب شاہ محمد مری نے بہت خوبصورت ترجمہ کیا۔ ہاورڈ فاسٹ 11 نومبر 1914ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں پیدا ہوا۔ ماں (IDA) برطانیہ سے ہجرت کر کے نیویارک گئی تھی اور باپ یوکرائن کا رہنے والا تھا۔ اس کا نام Barney Fastorsky تھا۔ نیویارک میں آیا تو Fastorsky کو مختصر کر کے Fast بنا لیا۔ اسی مناسبت سے ہاورڈ FAST کہلاتا ہے۔ اپنی سوانح عمری Being Red میں ہاورڈ فاسٹ اپنے گھریلو حالات کے بارے میں لکھتا ہے: ’’ہم بہت غریب تھے، مگر میری ماں نے کبھی ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا۔ 14 سال کی عمر ہی میں میرے باپ نے لوہے کی فیکٹری میں مزدوری شروع کر دی تھی، پھر میرے باپ نے نیویارک سٹی میں چلنے والی کیبل کار میں نوکری کر لی، پھر ملبوسات بنانے والی فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔ اسے وہاں 40 ڈالر ہفتہ وار ملتے تھے۔ میری ماں کپڑے سی کر سویٹر بُن کر گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ برتن دھوتی اور مجھے اچھی اچھی کہانیاں سناتی۔ اس کا لہجہ اس قدر دلچسپ، رنگین اور دل پذیر تھا کہ اب بھی جب میں یاد کرتا ہوں تو موت کا خوف میرے دل سے غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ 1923ء میں جب اس کی ماں مری اور باپ کی نوکری چھوٹ گئی، تو حالات نے خطرناک صورت اختیار کر لی اور گھر سے ساری خوش حالی ہوا ہو گئی۔ ہاورڈ فاسٹ نے گلی گلی گھوم کر اخبار بیچنے شروع کر دیے اور نیویارک کی پبلک لائبریری میں نوکری کر لی اور پھر مختلف شہروں میں روزگار تلاش کرنے کے لیے مارا مارا پھرنے لگا۔ ان بُرے حالات نے اس کا دھیان دو چیزوں کی طرف موڑ دیا۔ وہ لکھنے لگا اور سوشلزم کے نظریات اس کے دل میں گھر کرنے لگے۔ اس کا پہلا ناول (Two Valleys)، 1933ء میں چھپا۔ جب وہ 18 سال کا ہوا، تو اس نے اپنا مشہور ناول(Citizen Tom Pain) لکھا۔ The Last Froniter اور Freedom Road جن پر امریکی تاریخ کی چھاپ ہے بعد میں چھپے۔

    1944ء میں ہاورڈ فاسٹ کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بن گیا اور اس کا شمار پارٹی کے اہم افراد میں ہونے لگا۔ کمیونزم کے نظریات اسے اپنے باپ سے ورثے میں ملے تھے، جو روئے زمین پر مزدوروں کی حاکمیت کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ جب ہاورڈ فاسٹ نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو امریکا میں کمیونزم کی سخت مخالفت ہو رہی تھی اور پارٹی کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھی جا رہی تھی۔ کمیونزم کو کچلنے اور ملیامیٹ کرنے پر پوری توجہ دی جا رہی تھی۔ یسوع کے نام پر کمیونسٹ کو مارنا کار ثواب سمجھا گیا اور پارلیمنٹ اس پارٹی کے سر کردہ افراد کو سزائیں دینے پر تلی ہوئی تھی۔ امریکی حکومت کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کو دبایا جا رہا تھا اور کمیونسٹ امور لوگوں کے پیچھے جاسوس لگے ہوئے تھے۔ ہاورڈ فاسٹ اس ضمن میں گرفتار ہوا۔

    ہاورڈ فاسٹ نے اپنے اصل اور فرضی نام سے بہت کچھ لکھا۔ ناول، فلموں کے اسکرین پلے، T.V سیریل لکھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے اخبار Daily Worker میں کام کیا۔ اس کی تحریروں میں کمیونزم نظریات کے پرچار پر اسے 1953ء میں ’’سٹالن امن انعام‘‘ سے نوازا گیا۔ اپنی تخلیقی زندگی کے آخر میں اسے کمیونسٹ انتظامیہ سے اختلاف ہو گیا اور اس نے پارٹی سرگرمیوں سے ہاتھ کھینچ لیا اور سیاسی میدان سے کٹ کر زندگی بسر کرنے لگا۔ آخری عمر میں فاسٹ Old Green wich چلا گیا۔ 12 مارچ 2003ء کو اس کی وفات ہوئی۔

  • وہ عظیم خاتون ریاضی دان، جو سیاسی و مذہبی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئی

    وہ عظیم خاتون ریاضی دان، جو سیاسی و مذہبی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئی

    یہ سنہ 415 عیسوی کا زمانہ ہے، عظیم رومی سلطنت رفتہ رفتہ اپنے زوال کی جانب بڑھ رہی ہے، سلطنت کے رومی صوبے کے شہر اسکندریہ کی گلیوں میں خوف اور بے یقینی کے سائے ہیں۔

    صوبے کے گورنر اور مقامی بشپ (پادری) کے درمیان سیاسی اختلافات عروج پر ہیں، ایک دوسرے پر حساس نوعیت کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، اور اس کا نتیجہ مذہبی فسادات کی صورت میں نکل رہا ہے۔

    اختیارات کے حصول کے لیے نظریاتی اختلاف سے شروع ہونے والا یہ جھگڑا، شہر کی ایک معروف شخصیت پر جادو ٹونے کے الزام پر ختم ہوا اور اس کا بھیانک نتیجہ اس شخصیت کی مشتعل مسلح پادریوں کے ہاتھوں بہیمانہ موت کی صورت میں نکلا۔

    یہ شخصیت اس وقت کی ایک معروف فلسفی، مدبر اور استاد ہائپشیا تھی جو یہ مقام اور حیثیت حاصل کرنے والی اس دور کی واحد عورت تھی۔

    ہائپشیا نے جو کچھ تحریر کیا وہ محفوظ نہ رہ سکا، چنانچہ اس کے شاگردوں اور ہم عصروں نے اس کے بارے میں جو لکھا، اس سے علم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کی ریاضی دان، ماہر نجوم، اسکالر اور فلسفی تھی۔

    اس وقت یہ مقام کسی اور عورت کو حاصل نہ تھا، ہائپشیا نے اس وقت کے معاشرے کے مروجہ روایتی صنفی اصولوں سے بغاوت کر کے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ اس کے نظریات اور سوچ اس وقت سے کہیں آگے کے تھے، اور ستم ظریفی دیکھیئے کہ اپنے نظریات اور علم ہی کی وجہ سے اسے ایسی دردناک موت نصیب ہوئی، کہ اس کے بعد علم و فنون کا مرکز شہر اسکندریہ بنجر ہوگیا۔


    سنہ 355 (سے 360 کے درمیان) اسکندریہ میں، جو اس وقت رومی سلطنت کا اہم شہر اور علم و ادب اور تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز تھا، یونانی ریاضی دان تھیان کے گھر ایک بچی نے آنکھ کھولی۔

    تھیان ایک ریاضی دان اور ماہر نجوم تھا جبکہ اس کی بیوی ایک عام روایتی گھریلو عورت تھی، تاریخ اس کے نام سے بھی واقف نہیں۔

    ہائپشیا تھیان کی اکلوتی اولاد تھی چنانچہ تھیان نے اسے نہایت ناز و نعم سے پالا اور خود اس کی تعلیم و تربیت کی۔ بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہائپشیا ریاضی اور علم نجوم کی مہارت میں اپنے والد کو بھی پیچھے چھوڑ چکی تھی۔

    اس کی ذہانت اور مختلف علوم پر مہارت نے جلد ہی اسے شہر میں مقبول کردیا، اور بالآخر وہ شہر کی سب سے بڑی درسگاہ کی سربراہ بنا دی گئی۔ وہ اس عہدے تک پہنچنے والی واحد عورت تھی۔

    بعد ازاں وہ شہر کی شوریٰ کی رکن بھی رہی۔

    وہ درسگاہ جس نے دنیا کی دانشورانہ تاریخ کا تعین کیا

    اس عظیم درسگاہ میں دوران تدریس ہائپشیا نے نئے انداز سے تعلیم دینا شروع کی۔ اس نے اس وقت استعمال ہونے والے سائنسی آلات و اصولوں میں جدت پیدا کی، ریاضی کی تقسیم مرکب (لانگ ڈویژن) کے لیے مؤثر طریقہ تیار کیا اور جدید اصولوں پر وضع کردہ ریاضی کی کئی کتابیں لکھیں۔

    تاہم مؤرخین کا ماننا ہے کہ علمی و ادبی طور پر ہائپشیا کی سب سے بڑی خدمت اس کا انداز تدریس تھا۔

    وہ فلسفہ جس کی تعلیم ہائپشیا نے دی، ارسطو، افلاطون، پلوٹینس اور فیثاغورث کے فلسفیانہ ورثے سے اخذ شدہ تھا۔ ان نظریات نے باہم ایک مکتبہ فکر تشکیل دیا جس کو نو افلاطونیت یا نیو پلیٹنزم کہا جاتا ہے۔

    اس کے ماننے والے مفکرین کے لیے ریاضی ایک روحانی پہلو کی حامل تھی، جو چار شاخوں میں منقسم تھی، یعنی علم اعداد یا ریاضی، جیومیٹری، فلکیات اور موسیقی۔

    ان مضامین کا مطالعہ صرف اس لیے نہیں کیا جاتا تھا کہ انہیں پڑھا جائے اور ان کا عملی استعمال کیا جائے، بلکہ ان مضامین نے اس عقیدے کی تصدیق کی تھی کہ اعداد دراصل کائنات کی مقدس زبان ہیں۔

    الجبری فارمولوں اور ہندسی اشکال کے نمونوں، سیاروں کے مداروں، اور موسیقی کی آوازوں کے ہم آہنگ وقفوں میں ان مفکرین نے ایک عقلی کائناتی قوت کو روبہ عمل دیکھا۔

    طلبا اس منظم دنیا پہ غور و فکر کرتے اور ایک اعلیٰ وحدانی قوت کے ساتھ جڑنے اور اسے جاننے کی کوشش کرتے۔

    دنیا کے دور دراز حصوں سے یہودی اور عیسائی مذہب کے ماننے والے طلبا، اور وہ بھی جو کسی مذہب کے پیروکار نہیں تھے، اس درسگاہ میں آتے اور یہاں علم کے موتیوں اور ہائپشیا کی دانشورانہ صحبت سے فیض یاب ہوتے۔

    ہائپشیا اس وقت کسی مذہب کی ماننے والی نہیں تھی، اور نہ وہ کسی دیوتا کی عبادت کرتی تھی۔ اس کے خیالات مختلف مذہبی نکتہ نظر کا مجموعہ تھے، چنانچہ کٹر مذہبی افراد اسے ملحد قرار دیتے تھے۔

    اس نے وہاں ایک غیر جانبدار اور مذہبی ہم آہنگی رکھنے والا ماحول پروان چڑھایا تھا جہاں سب ایک دوسرے کے مذہب، نظریات اور خیالات کا احترام کرتے، اور نہایت سکون سے رہتے۔

    دوسری طرف درسگاہ سے باہر شہر میں مذہبی و سیاسی رسہ کشی عروج پر تھی، سلطنت میں حال ہی میں عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا گیا تھا۔

    شہر کے سیاسی حالات

    سنہ 415 عیسوی میں شہر کا مقامی بشپ سرل اپنے عہدے پر براجمان ہوتے ہی اپنے اختیارات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرتا جارہا تھا۔ وہ ایک کٹر مذہبی بشپ تھا چنانچہ اس نے عیسائی پادریوں کی باقاعدہ ملیشیا تیار کرلی اور انہیں یہودی آبادیوں اور ایسے مقامات پر حملے کرنے کا حکم دے دیا جہاں کسی مذہب کے نہ ماننے والے یا معتدل خیالات کے حامل افراد اپنی رسومات انجام دیتے تھے۔

    بشپ سرل کے اپنے اختیارات سے تجاوز کی کوششیں صوبے کے گورنر اوریسٹس کے عہدے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اوریسٹس معتدل خیالات رکھنے والا شخص تھا تاہم سرل مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا تھا اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

    عام لوگ بھی دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتے تھے۔

    ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دونوں جانب سے اب تک کئی انتہا پسندانہ اقدام اٹھائے جا چکے تھے، ایک بار بشپ نے گورنر کے قتل کے ارادے سے ایک راہب کو اس کے پیچھے روانہ کیا، گورنر اس وقت ایک عوامی تقریب میں شرکت کے لیے جارہا تھا۔

    گورنر کے محافظوں اور حامیوں نے اس راہب کا ارادہ جان کر اسے پکڑ لیا جس کے بعد گورنر کی ہدایت پر اسے مجمعے نے تشدد کا نشانہ بنایا، بعد ازاں اس راہب کی موت واقع ہوگئی۔

    سرل نے اس راہب پر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے اپنے بغض میں اس پر تشدد کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ سرل نے اس راہب کو ایک عظیم مقصد اور اپنے نظریات کے لیے جان دینے والا شہید قرار دیا جس کے بعد اس کی آخری آرام گاہ مقدس مقام میں بدل گئی۔

    اس اقدام نے گورنر اور اس کے حامیوں میں مزید بے چینی پیدا کردی۔

    ہائپشیا اس جھگڑے میں کیونکر شامل ہوئی؟

    اس وقت ہائپشیا شہر میں ایک غیر جانبدار، مدبر اور ساتھ ہی با اثر شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھی، اس کے کئی شاگرد اعلیٰ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اب ان میں سے اکثر مختلف حکومتی عہدوں پر براجمان تھے۔

    گورنر ہائپشیا سے ملا اور اس سے مشورہ طلب کیا، ہائپشیا نے اسے صبر اور تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی۔

    بعض مؤرخین کے مطابق ہائپشیا نے گورنر کو اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے رہنے کی ہدایت کی جس سے گورنر کو شہ ملی، ورنہ وہ سرل سے مذکرات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ شہر کی ایک نمایاں شخصیت اور اس کے ذریعے اعلیٰ طبقے کی حمایت کے بعد گورنر نے مصالحت کا ہر ارادہ مؤخر کردیا۔

    اس دوران کئی بار دونوں کے آدمی آپس میں گتھم گتھا بھی ہوئے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

    ایک دن ایسے ہی ایک مسلح ٹکراؤ میں جب پادریوں کی ملیشیا نے گورنر کے قافلے پر حملہ کیا، تو گورنر شدید زخمی ہوگیا، گورنر کے آدمیوں کے تشدد سے ایک اور راہب ہلاک ہوا۔

    چونکہ شہر میں کچھ روز قبل گورنر اور ہائپشیا کی ملاقات کی بازگشت تھی تو اس بار سرل نے ہائپشیا کو بھی اس جھگڑے میں شامل کرلیا۔ سرل نے اسے حالیہ واقعے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ہائپشیا جادو گرنی ہے اور اس نے جادو ٹونے کے ذریعے گورنر کو عیسائیت سے متنفر کردیا ہے۔

    اب شہر میں ہائپشیا کے خلاف بھی نفرت کی آگ بھڑکائی جانے لگی، اور پھر وہ دن آ پہنچا جس دن وحشت و بربریت کی خونی تاریخ رقم ہوئی۔

    سنہ 415 عیسوی میں ایک روز جب ہائپشیا اپنے رتھ پر شہر کے اندر سفر کر رہی تھی، جنونی مسلح پادریوں نے اس کا گھیراؤ کرلیا۔ اسے رتھ سے گھسیٹ کر قریبی چرچ میں لے جایا گیا اور مذہبی جنونیوں نے بہیمانہ تشدد کر کے اسے ہلاک کردیا۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کی بے حرمتی بھی کی گئی جبکہ لاش کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر کے جلا دیا گیا۔

    ہائپشیا کی دردناک اور بہیمانہ موت اسکندریہ کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی، گورنر اوریسٹس نے دلبرداشتہ ہو کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور شہر چھوڑ کر چلا گیا۔

    شہر کی تخلیقی و کشادگی کی فضا پر بے یقینی کے سائے چھانے لگے تو ہائپشیا کی درسگاہ بھی آہستہ آہستہ خالی ہونے لگی، مختلف شہروں سے وہاں آئے ہوئے یونانی و رومی اسکالرز شہر چھوڑ کر جانے لگے اور جلد ہی شہر اسکندریہ جو علم و ادب کا گہوارہ تھا، اپنی حیثیت کھو بیٹھا۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ اقتدار اور سیاست پر مبنی اس جھگڑے میں ہائپشیا جیسی دانشور، فلسفی اور استاد کی موت، اور وہ بھی ایسی بہیمانہ موت عظیم رومی سلطنت کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے، جس نے اس عظیم الشان سلطنت کی تخلیقی اور دانشورانہ تاریخ کو گہنا دیا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    Britannica.com

    Greekreporter.com

    National Geographic / History and Culture

    تصاویر بشکریہ:

    TED-Ed

  • رومی سلطنت کی 22 ہزار سال قدیم کندہ کاری دریافت

    رومی سلطنت کی 22 ہزار سال قدیم کندہ کاری دریافت

    ترکی میں قدیم تاریخی شہر زیوگما میں 22 ہزار سال قدیم کندہ کاری دریافت کرلی گئی۔ قدیم الفاظ اور نقش نگاری پر مشتمل یہ کندہ کاری فرش پر کی گئی تھی۔

    mosaic-2

    mosaic-4

    زیوگما نامی شہر جو موجودہ دور میں ترکی کا حصہ ہے، دوسری صدی قبل مسیح میں قدیم رومی سلطنت کا اہم شہر اور تجارتی مرکز تھا۔ یہاں 80 ہزار افراد رہائش پذیر ہوا کرتے تھے۔

    اس شہر میں چھپے آثار قدیمہ کی دریافت کے لیے یہاں سنہ 2007 سے کھدائی کا آغاز کیا گیا۔ اس سے قبل یہ شہر زیر آب تھا۔

    زیوگما میں کھدائی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس سے قبل بھی یہاں 2 سے 3 ہزار گھروں پر مشتمل علاقہ دریافت کیا جاچکا ہے۔ ان گھروں کے آثار قدیمہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بہت شاندار طریقے سے تعمیر کیا گیا ہوگا۔

    mosaic-5

    حال ہی میں دریافت کی جانے والی رنگین کندہ کاری کو ماہرین نے ایک شاندار دریافت قرار دیا ہے۔ کھدائی میں شامل ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کے علاوہ بھی اس شہر کی مزید چیزیں دریافت کی ہیں۔

    mosaic-3

    ان کے مطابق انہوں نے ایسے گھر بھی دریافت کیے ہیں جو دیو قامت پتھروں یا چٹانوں کے اندر تراشے گئے تھے۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ خوبصورت قدیم تعمیری باقیات ہماری شاندار ثقافت کا حصہ ہیں۔ یہ نہ صرف ہماری ثقافتی تاریخ میں ایک بہترین اضافہ ہیں بلکہ ان سے ہمیں قدیم دور کو مزید بہتر طریقے سے سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔