Tag: روہنگیا مسلمان

  • اقوام متحدہ نے میانمارفوج کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کرلیا

    اقوام متحدہ نے میانمارفوج کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کرلیا

    جنیوا : روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ مقامی فوج کے مظالم کا اقوام متحدہ نے نوٹس لے لیا، اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ملک کی فوج کی جانب سے مبینہ طور پر کیے جانے والے مظالم کی تفتیش کرے گی۔

    یورپی یونین کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد کو اقوام متحدہ میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا تھا جس کے مطابق ’حقائق تلاش کرنے کے لیے ایک آزاد مشن بھیجا جائے جس کے تحت ظلم ڈھانے والوں کا بھرپور احتساب ہوگا اور ان مظالم کا شکار بننے والوں کے ساتھ مکمل انصاف کیا جائے گا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق میانمار حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ قطعی نامنظور ہے کیونکہ میانمار کی حکومت خود اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔

    اس حوالے سے بھارت اورچین نے بھی اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی حمایت نہیں کی ہے۔ دونوں ملکوں نے کہا ہے کہ وہ اس تفتیش سے خود کو الگ کر لیں گے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ چھ ماہ میں 70،000 سے زائد روہنگیا مسلمان ملک چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں بنگلہ دیش بھاگ چکے ہیں اور اقوام متحدہ نے ان افراد سے جنسی استحصال اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے واقعات سنے ہیں۔

    روہنگیا مسلمانوں کے مطابق میانمار کی سرکاری فوج باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بہانے ملک کی رکھائن ریاست میں ان کو نشانہ بنا رہی ہے، فوجی کارروائی پچھلے سال اکتوبر میں شروع ہوئی تھی جب بارڈر پولیس کے نو اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

  • میانمارفوج روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کررہی ہے، رکن اقوام متحدہ

    میانمارفوج روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کررہی ہے، رکن اقوام متحدہ

    لندن : اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار نے میانمار میں مسلمانوں پر مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کو تحقیقات کیلیے باقاعدہ درخواست دینے کا فیصلہ کرلیا، ینگہی لی نے کہا ہے کہ میانمار میں فوج اور پولیس روہنگیا کی مسلمان اقلیت کے خلاف ‘انسانیت سوز جرائم’ کی مرتکب ہو رہی ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق میانمار میں حقوقِ انسانی کی صورتحال پر اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی نے کہا ہے کہ وہ پیر کو اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی انکوائری کمیشن کو تحقیقات کے لیے باضابطہ درخواست بھی دے رہی ہیں۔

    میانمار کی حکمران جماعت کی قائد آنگ سان سوچی نے بی بی سی سے اس حوالے کوئی بات کرنے سے انکار کردیا، ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ میانمار کا داخلی معاملہ ہے اور اس حوالے سے الزامات بڑھا چڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔

    ینگہی لی کا کہنا ہے کہ انہیں ان الزامات کی تفتیش کے لیے میانمار کے شورش زدہ علاقے تک آزادانہ رسائی نہیں دی گئی تاہم بنگلہ دیش میں موجود پناہ گزینوں سے بات کر کے انہیں معلوم ہوا ہے کہ صورت حال ان کی توقعات سے کہیں بدتر ہے۔

    بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میں کہوں گی کہ میانمار کی فوج، سرحدی محافظوں اور پولیس کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم سرزد ہوئے ہیں اور آنگ سان سوچی کی حکومت کو اس کی کچھ ذمہ داری تو لینا ہوگی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں بھی اقوام متحدہ نے روہنگیا اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی بنا پر آنگ سان سوچی کی قیادت میں قائم میانمار حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

  • میانمار فوج روہنگیا مسلمانوں پر بدترین تشدد کررہی ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    میانمار فوج روہنگیا مسلمانوں پر بدترین تشدد کررہی ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    لندن: انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذمہ دار میانمار فوج کو قرار دے دیا اور کہا ہے کہ فوج مسلمانوں کے قتل، خواتین سے زیادتی، لوگوں پر تشدد اور انہیں لوٹنے کے واقعات میں ملوث ہے۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل نے روہنگیا مسلمانوں پر ریاست رخائن میں ہونے والے مظالم پر جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار فوج کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں پر جاری انسانیت سوز تشدد انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے عالمی برادری نوٹس لے۔

    دوسری جانب میانمار کی فوج نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ریاست رخائن میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

    نومبر میں اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ میانمار کی حکومت روہنگیا کی نسل کشی’ کر رہا ہے۔ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ نے سیٹیلائٹ تصاویر بھی جاری کیں جس میں تباہ کیے گئے دیہات دیکھے جا سکتے ہیں۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ ایسے وقت پر شائع ہوئی ہے جب علاقائی رہنما ینگون میں پرتشدد کارروائیوں پر بحث کے لیے جمع ہو رہے ہیں،10 ملکوں پر مبنی علاقائی تنظیم آسیان بہت کم کسی ایک ملک کے معاملات پر بحث کے لیے اجلاس کرتی ہے۔

    عالمی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میانمار یا برما میں روہنگیا اقلیت کی جانب سے سرحدی محافظوں پر حملے میں ملوث افراد کے تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں، حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم حرکہ الیقین سعودی عرب میں قائم ہوئی اور وہیں سے اس تنظیم کو چلایا جارہاہے۔

    رواں سال اکتوبر میں میانمار کے سرحدی محافظوں پر ہونے والے اس حملے میں نو پولیس اہلکار مارے گئے تھے جس کے بعد مسلم اکثریتی ریاست رخائن میں روہنگیا آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوگیا تھا۔

    ریاستی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کریک ڈاؤن میں اب تک 86 افراد مارے گئے جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 27 ہزار افراد جن کی اکثریت روہنگیا اقلیتی آبادی پر مشتمل ہے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں۔

  • میانمارفوج نے تیس روہنگیا مسلمانوں کو فائرنگ کرکے مارڈالا

    میانمارفوج نے تیس روہنگیا مسلمانوں کو فائرنگ کرکے مارڈالا

    رخائن : میانمار فوج کے ہاتھوں 30 روہنگیا مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور فوج نے مسلمانوں کے کئی دیہاتوں کو بھی آگ لگادی۔ میانمار کی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس کی فوج نے ریاست رخائن میں ان دیہات پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی جہاں روہنگیا مسلم اقلیت آباد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میانمار کی مغربی ریاست رخائن کے روہنگیا مسلمان ایک بار پھر نشانے پرہیں، میانمار کی فوج نے ریاست رخائن میں 30 روہنگیا مسلمانوں کو فائرنگ کر کے قتل کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے دیہاتوں میں سرچ آپریشن کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب سوشل میڈیا پر جو تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں اُس میں میانمار فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ سیکڑوں افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔

    اس سے قبل سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ فوجی قافلے پر گھات لگا کر کیے گیے ایک حملے کے بعد ہونے والے تصادم میں دو فوجی اور چھ حملہ آور ہلاک ہو گئے ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نامہ نگار جونا فشر کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر حملے کرنا فوج کا ایک مقبول کام ہے۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برمی آبادی کی طرف سے ناپسند تصور کیا جاتا ہے جو انہیں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے تارکین وطن سمجھتے ہیں۔

    جھڑپوں کا تازہ ترین سلسلہ تقریباً ایک ماہ پہلے تین پولیس چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ حکومت آزاد میڈیا کو رخائن میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والی لڑائی کے ان دعوؤں کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔