Tag: روہڑی

  • چائے لانے میں تاخیر پر جھگڑا: ہوٹل کے عملے کے  تشدد سے نوجوان جاں بحق

    چائے لانے میں تاخیر پر جھگڑا: ہوٹل کے عملے کے تشدد سے نوجوان جاں بحق

    روہڑی: چائے لانے میں تاخیر پر جھگڑے کے دوران ہوٹل کے عملے کے مبینہ تشدد سے نوجوان جاں بحق ہوگیا تاہم پولیس نے ایک ملازم کو گرفتار کرکے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی۔

    تفصیلات کے  مطابق سندھ کے ضلع سکھر کے علاقے روہڑی میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ہوٹل میں چائے کے آرڈر میں تاخیر پر ہونے والے جھگڑے کے دوران ہوٹل کے عملے کے مبینہ تشدد سے ایک نوجوان جاں بحق ہو گیا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ جاں بحق نوجوان کی شناخت نعیم بھٹی کے نام سے ہوئی ہے، جو ہوٹل میں چائے پینے آیا تھا، چائے میں تاخیر ہونے پر اس کی ہوٹل کے ویٹر یار محمد مہیسر سے تلخ کلامی ہوئی، جو دیکھتے ہی دیکھتے جھگڑے میں تبدیل ہو گئی۔

    جھگڑے کے دوران ہاتھا پائی ہوئی اور مبینہ طور پر ویٹر کے تشدد سے نوجوان زمین پر گر پڑا، موقع پر موجود افراد نے نعیم بھٹی کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا، تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔

    واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ہوٹل کے ملازم یار محمد کو گرفتار کر لیا، واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں دیگر ملوث افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی۔

    نعیم بھٹی کی موت پر علاقے میں غم و غصے کی فضا پائی جاتی ہے، جبکہ شہریوں نے واقعے میں ملوث تمام ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

  • سکھر اور روہڑی کے درمیان 300 فٹ بلندی پر واقع تاریخی مزار کس کا ہے؟

    سکھر اور روہڑی کے درمیان 300 فٹ بلندی پر واقع تاریخی مزار کس کا ہے؟

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر اور اس کے جڑواں روہڑی کے درمیان ایک ایسی روحانی وادی موجود ہے جہاں 300 فٹ بلندی پر تاریخی مزار واقع ہے۔

    اے آر وائی نیوز کی نمائندہ سحرش کھوکھر کے مطابق سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے جڑواں شہر روہڑی کے قریب، ایک ایسی روحانی وادی موجود ہے جہاں عقیدت اور سچائی کے چراغ صدیوں سے روشن ہیں۔

    یہ جگہ پیر سید شاہ مقصود علی شاہ کے دربار کے نام سے مشہور ہے، جو ایک 300 فٹ ببلند پہاڑی پر واقع ہے اور مزار تک جانے کے لیے دو راستے ہیں۔

    ایک راستہ قدرے آسان جو سیڑھیوں کے ذریعے جاتا ہے اور زائرین کو مزار تک پہنچنے کے لیے تقریباً 150 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔

    تاہم دوسرا راستہ دشوار گزار اور پتھریلا ہے جس کھائیوںکے درمیان سے گزرتا اور انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔

    یہ درگاہ صرف ایک زیارت گاہ نہیں بلکہ روحانیت، محبت اور عوامی عقیدت کی ایک زندہ علامت ہے۔ ہر روز سینکڑوں زائرین، مشکلات کے حل اور روحانی سکون کے لیے اس درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔

    حضرت پیر شاہ مقصود علی شاہ کو ان کے صوفیانہ مزاج، درویشی اور کرامات کی وجہ سے ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کی بھلائی کے لیے دعاگو رہتے، ان کی مشکلات کا حل نکالتے اور ان کی رہنمائی کرتے۔

    ان کے مزار کے ساتھ عقیدت مندوں کی بے شمار داستانیں جڑی ہوئی ہیں، جہاں بزرگوں اور ملنگوں کے مطابق، انہوں نے بے شمار کرامات ہوتے خود دیکھی اور محسوس کی ہیں۔

    ایک حیران کن منظر تو یہ دیکھنے کو ملا کہ ایک ضعیف العمر خاتون، جو نہایت کٹھن راستے سے گزر کر درگاہ پر پہنچیں، وہاں دعا مانگی اور پھر لکڑی کا سہارا لے کر پہاڑ سے نیچے اتر گئیں۔

    کہا جاتا ہے کہ ان بزرگ کا مقبرہ کسی ہندو دیوان نے تعمیر کرایا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دیکھ بھال کم ہوتی گئی۔

     

    یہ درگاہ نہ صرف ایک روحانی مقام ہے بلکہ یہاں سے سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ کے حسین نظارے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جو سیاحت کے فروغ میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

    اگر اس درگاہ کی مناسب تزئین و آرائش کی جائے، تو نہ صرف عقیدت مندوں بلکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی یہ ایک پرکشش مقام بن سکتا ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ حکام اس تاریخی اور روحانی مقام کی دیکھ بھال کریں تاکہ یہ نہ صرف زائرین کے یے آسانی پیدا کرے بلکہ سیاحتی مقام کے طور پر بھی اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے۔

  • روہڑی سندھ کا پہلا فری وائی فائی زون بن گیا

    روہڑی سندھ کا پہلا فری وائی فائی زون بن گیا

    روہڑی: سندھ کا شہر روہڑی صوبے کا پہلا فری وائی فائی زون بن گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیٹ ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے، یہ ہمیں معلومات تفریح اور مواصلات تک رسائی فراہم کرتا ہے، دور جدید کی اہم ضرورت کو پورا کرتے ہوئے ضلعی کونسل کے چیئرمین سید کمیل حیدر شاہ نے روہڑی میں فری وائی فائی سروس کا آغاز کر دیا ہے۔

    فری وائی فائی سروس سے شہریوں سمیت طلبہ و طالبات کو کتابیں، آن لائن گیمز اور اہم معلومات تک مفت میں رسائی اب جلد ممکن ہوگی۔

    انٹرنیٹ سروس کی افتتاحی تقریب میں چیئرمین ضلع کونسل کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ دور آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، فری انٹرنیٹ سروس سے روہڑی کے عوام مستفید ہوں گے۔

  • پیار کا پہاڑ

    پیار کا پہاڑ

    قدیم دور میں سندھ کا شہر اروڑ یا الور کئی راجاؤں کا پایۂ تخت رہا ہے۔

    اروڑ، سکھر میں‌ روہڑی سے چند میل کی مسافت پر جنوب مشرق میں ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اروڑ پر چندر ونسی راجاؤں کی 450ء سے 642ء تک حکم رانی رہی جن کو تاریخ میں‌ رائے گھرانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ چندر ونسی گھرانے نے 1100 قبلِ مسیح میں اس شہر پر حکومت کی تھی۔ جب سکندر نے اپنی فوجوں کا رخ ہندوستان کی جانب موڑا اس وقت یہاں کا موسیکانوس کی حکومت قائم تھی جب کہ رائے سہاسی کے زمانے میں نمروز ایرانی نے حملہ کیا تھا۔ قدیم دور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت میں‌ دل چسپی رکھنے والے بالخصوص تاریخ کے طالبِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں اروڑ بڑی بندرگاہ بھی رہا ہے۔ اس شہر اور بندرگاہ کا ذکر ہمیں‌ چچ نامہ کے علاوہ تحفتُہ الکرام جیسی اہم اور مسنتد کتب میں‌ بھی ملتا ہے۔

    اسی اروڑ میں‌ ’’پیار کا پہاڑ‘‘ بھی موجود ہے۔ اس قدیم مقام سے ایک پہاڑی سلسلہ تاریخی شہر کوٹ ڈیجی سے ہوتا ہوا نارو کے صحرا تک جا پہنچتا ہے جس میں یہ چھوٹا سا پہاڑ اپنی خوب صورتی کی وجہ سے نمایاں ہے۔ زمین کی سطح سے تین سو فٹ اونچا پیار کا پہاڑ اپنی بنیادوں کے ساتھ دو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کے آمنے سامنے دو دراڑیں ہیں، جنھوں نے پہاڑ کو چار حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان میں سے تین حصّے آج صحیح حالت میں موجود ہیں، لیکن چوتھا حصّہ خاصی حد تک منہدم ہوچکا ہے۔

    اس کی چوٹی پر سفید رنگ کی ایک گنبد نما عمارت ہے، جس کے اطراف چار محرابی دروازے بھی ہیں۔

    اسے ’’پیار کا پہاڑ‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس حوالے سے مقامی لوگوں میں چند باتیں مشہور ہیں جب کہ عاشق مزاج لوگ یہاں‌ اپنی محبّت کی آزمائش اور محبوب سے وعدے نبھانے اور ساتھ دینے کی قسمیں اٹھانے کے لیے اس پہاڑ کی چوٹی پر جاتے ہیں۔ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کراتے ہیں کہ اگر وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائیں‌ تو پھر محبوب کو بھی پاسکتے ہیں، کچھ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اگر وہ نہ ملا تو اسی پہاڑ کی چوٹی سے اپنی جان دے دیں‌ گے۔ چند سال پہلے تک اس پہاڑ پر چڑھ کر متعدد لوگوں‌ نے خودکشی بھی کی ہے۔ مقامی لوگوں‌ میں‌ مشہور ہے کہ یہ پہاڑ عاشقوں کے لیے ایک امتحان اور قربان گاہ ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ 712ء میں اروڑ فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں اسلامی یادگار کے طور پر سفید رنگ کا ایک گنبد تعمیر کروایا تھا، جو کچی اینٹوں اور مٹی سے بنایا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوائوں اور بارشوں کے باعث یہ یادگار تقریباً زبوں حالی کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن مقامی لوگ اسے بچانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کرتے رہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں‌ لیکن بیس سال قبل خمیسو فقیر نامی ایک مقامی شخص نے اس یادگار کی مرمت کروائی تھی۔ اس عمارت میں سیمنٹ اور پتھروں کا استعمال کیا گیا، اور اسی لیے اب یہ قدرتی آفات اور حوادث کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ ہر سال سندھ کی فتح کے دن کی یاد تازہ کرنے کے لیے 10 رمضان المبارک کو اس عمارت میں نہ صرف مقامی لوگ روزہ افطار کرتے ہیں، بلکہ اس دن کو شایانِ شان طریقے سے مناتے ہیں۔

    ’’پیار کا پہاڑ‘‘ گویا ایک قدرتی مینار ہے جس کی چوٹی پر چڑھ کر سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تاریخی مقامات کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے مقامی باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سادہ سی سیڑھیاں بنائی ہیں، جس کی مدد سے اوپر جانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔

    ’’پیار کے پہاڑ‘‘ کے دامن سے ایک خوب صورت ندی بھی گزرتی ہے، جسے ’’کونرڑے جی ندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ندی بارش کے موسم میں پانی سے لبالب بھر جاتی ہے اور دل کش نظارہ پیش کرتی ہے۔

    کچھ روایات میں آیا ہے کہ محمد بن قاسم اور راجا داہر کے درمیان آخری معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں ہوا تھا۔ پہاڑ کے چاروں طرف ان سپہ سالاروں اور بزرگوں‌ کے مزارات ہیں جن کے بارے میں‌ قیاس یہی ہے کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے۔

    یہاں جن بزرگوں کے مزارات ہیں‌ ان میں سید چھتن شاہ، سید نور شاہ جب کہ پہاڑ کے شمال مشرق میں درگاہ عارف فقیر بھٹی بھی ہے جن کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اروڑ کے بہت بڑے صوفی بزرگ اور دینی عالم تھے۔ اسی طرح ’’شاہ اوٹھے پیر‘‘کا مزار بھی پیار کے پہاڑ کے مشرق میں موجود ہے۔ آپ کے مزار کے عقب میں تھوڑی سی اونچائی پر نامور درویش محمد قاسمانی کا مزار بھی واقع ہے۔

    پیار کے پہاڑ کے دامن میں سندھ کے کئی قدیم قبائل آباد ہیں، جن میں خاص طور پر سروہی، بُرڑا، کٹبر، ماڑیچا، بھیل، ہندو، میرانی اور شیخ اکثریت میں ہیں۔

    اس پہاڑ کو دیکھنے کے لیے دور دور سے سیّاح آتے ہیں‌ اور چھٹیوں اور تہواروں پر خصوصاً قریبی اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آکر وقت گزارتے ہیں اور ’’پیار کا پہاڑ‘‘ آباد ہوجاتا ہے۔

  • دریائے سندھ کے کنارے 7 سہیلیوں کا مزار

    دریائے سندھ کے کنارے 7 سہیلیوں کا مزار

    سکھر: دریائے سندھ کے کنارے روہڑی کے قریب 7 سہیلیوں کا مزار تاریخ کے صفحوں میں تو کہیں نہیں ملتا، البتہ یہ ایک تفریحی مقام ضرور بن چکا ہے۔

    صوبہ سندھ میں روہڑی کے قریب واقع اس مزار میں 7 نمایاں قبریں موجود ہیں جن پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہیں۔ بعض روایات میں انہیں 7 بہنوں اور بعض میں 7 سہیلیوں کی قبریں بتایا گیا ہے۔

    روایات کے مطابق یہ سات نیک دامن بیبیاں تھیں جنہوں نے اس وقت کے حکمران یا چند اوباشوں سے محفوظ رہنے کے لیے اس جگہ پناہ لی اور خدا سے اپنی عزت و آبرو کے تحفظ کی دعا مانگی۔

    ان کی یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ ایک چٹان ان پر آ گری اور ساتوں سہیلیاں چل بسیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ زمین میں دفن ہوگئیں۔ اس مقام کے بارے میں کوئی تاریخی دستاویز دستیاب نہیں۔

    اس مقام کو سندھی زبان میں ستین جو آستان یعنی 7 سہیلیوں کا آستانہ کہا جاتا ہے اور ملک بھر سے سیاح اس مقام کو دیکھنے آتے ہیں۔

  • روہڑی ٹرین حادثہ، ابتدائی رپورٹ سامنے آ گئی

    روہڑی ٹرین حادثہ، ابتدائی رپورٹ سامنے آ گئی

    لاہور: کراچی ایکسپریس ٹرین حادثے کی ابتدائی رپورٹ تیار کر لی گئی، ٹریک کی خستہ حالی کے باعث کراچی ایکسپریس کی بوگیاں ڈی ریل ہوئیں تھیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ کے شہر روہڑی کے قریب گزشتہ روز ہونے والے ٹرین حادثے کی ابتدائی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حادثے کے بعد 490 کلو میٹر پر ٹریک کی فش پلیٹ تازہ ٹوٹی پائی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق 490 کلو میٹر پر ڈیڑھ فٹ ٹریک کا ٹکڑا ٹوٹا ہوا پایا گیا، کوچ نمبر 12306 اور 12412 کے درمیان کپلنگ ٹوٹا ہوا تھا، ٹریک کمزور ہونے کے باعث انجینئرنگ رکاوٹ اور اسپیڈ 65 کلو میٹر مقرر تھی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرائیور نے کاشن انڈیکیٹر کا مشاہدہ کیا اور سپیڈ 65 کلو میٹر پر کنٹرول کے لیے بریک لگایا، ٹرین 2402 فٹ گھسیٹی گئی جو ظاہر کرتی ہے کہ اوور سپیڈ تھی۔

    رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انجن ڈیٹا اور ٹریک فرانزک رپورٹ سے ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے گا، حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیر ریلوے کو بھجوا دی گئی۔

    یاد رہے کہ صوبہ سندھ کی تحصیل پنوں عاقل کے قریب مندو ڈیرو ریلوے اسٹیشن پر گزشتہ روز کراچی ایکسپریس کی 10 بوگیاں ٹریک سے اترنے کے بعد الٹ گئی تھیں جس کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق جب کہ 40 افراد زخمی ہوئے۔

    سکھر ٹرین حادثہ: متاثرہ پٹری کو جدید مشینری کے بجائے ہاتھ کی آری سے کاٹے جانے کی ویڈیو منظر عام پر

    روہڑی ٹرین حادثے نے ریلوے کے محکمہ جاتی نظام کی قلعی کھول دی ہے، حادثے کے بعد بھی جدید مشینری کہیں نظر نہ آئی، اپ ٹریک کی بحالی کا کام 17 سے زائد گھنٹے چلتا رہا، لیزر ٹیکنالوجی کے دور میں 2 مزدور آری لیے ٹوٹا ٹریک کاٹتے رہے، اور مینئول ٹرالی گھسیٹتے مزدور سیمنٹ کے پلرز ادھر اُدھر کرتے رہے۔

    حادثے کے بعد سی ای اور ریلویز اور ایف جی آئی آر نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور شواہد اکٹھے کیے، حکام کے بیانات میں واضح تضاد نظر آیا کہ یہ حادثہ تھا یا تخریب کاری، جائے حادثہ پر لوہے کے ٹریک کے ایک برابر کٹے ٹکڑے پائے گئے، جہاں ٹریک ثابت تھا وہاں سے پلرز کیوں غائب تھے۔

    واضح رہے کہ رپورٹ آنے سے قبل ہی کمشنر سکھر نے ٹرین ڈرائیور کو ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔

  • ریلوے پھاٹک نہ ہونے سے ایک اور حادثہ، 5 افراد جاں بحق

    ریلوے پھاٹک نہ ہونے سے ایک اور حادثہ، 5 افراد جاں بحق

    سکھر: روہڑی کے قریب پیارو واہ کے مقام پر ریلوے پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے حادثے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ریلوے پھاٹک نہ ہونے سے ایک اور حادثہ پیش آ گیا، سکھر میں روہڑی کے قریب ریلوے انجن کی زد میں آ کر موٹر سائیکل سوار دو بچوں سمیت 5 افراد کی جانیں چلی گئیں۔

    حادثہ پیارو واہ کے مقام پر پھاٹک کراس کرتے وقت پیش آیا، ریسکیو ذرایع کے مطابق حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں دو مرد ایک خاتون اور دو بچے شامل ہیں، متوفی افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔

    اطلاعات کے مطابق بد قسمت خاندان والے قریبی گاؤں میں ماموں کے گھر جا رہے تھے کہ حادثہ پیش آ گیا، دوسری طرف ذرایع کا کہنا ہے کہ خالی انجن روہڑی سے میرپور ماتھیلو جا رہا تھا،حادثہ روہڑی کے قریب پیارو واہ کے مقام پر 484 کلو میٹر کے مقام پر پیش آیا۔

    سندھ حکومت نے محکمہ ریلوے سے ریلوے پھاٹکوں پر گیٹ لگوانے کا مطالبہ کر دیا

    واضح رہے کہ سندھ میں ریلوے لائنز پر پھاٹک نہ ہونے سے تواتر کے ساتھ حادثات پیش آ رہے ہیں، جن میں قیمتی انسانی جانیں ضایع ہو رہی ہیں، تاہم وزارت ریلوے کی جانب سے تاحال اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔

    گزشتہ ہفتے سندھ حکومت نے محکمہ ریلوے سے صوبے میں ایک بار ریلوے پھاٹکوں پر گیٹ لگوانے کا مطالبہ کیا تھا، صوبائی وزیر زراعت اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ محکمہ ریلوے کی نا اہلی کی وجہ سے پھاٹکوں پر 50 سے زائد حادثات ہو چکے ہیں، پھاٹکوں پر کئی بار گیٹ لگانے کا کہا گیا لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں۔

  • روہڑی میں پولیس کی کارروائی‘ دہشت گرد گرفتار

    روہڑی میں پولیس کی کارروائی‘ دہشت گرد گرفتار

    سکھر: صوبہ سندھ کے شہر روہڑی میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تنظیم کے دہشت گرد کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق روہڑی میں پولیس نے مقابلے کے بعد کالعدم تنظیم بلوچستان رپبلک آرمی کا اہم کارندہ گرفتارکرلیا۔

    ایس ایس پی سکھرعرفان سموں کے مطابق ملزم کی شناخت علی مور بگٹی کے نام سے ہوئی ہے، ملزم سے بھاری تعداد میں بارودی مواد، ڈیٹونیٹرز، بولٹ اورتاربرآمد کیے۔

    ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ ملزم کراچی میں متعدد دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا ہے، ملزم کے چارساتھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرارہوگئے، ملزم کو تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پرمنتقل کردیا گیا ہے۔

    ہنگو میں فورسز کا آپریشن، کالعدم تنظیم کے کمانڈر سمیت 4 دہشت گرد ہلاک

    یاد رہے کہ رواں ماہ جنوری کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں قاضی پمپ کے قریب سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران کالعدم تنظیم کے کمانڈر سمیت چار دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔

    واضح رہے کہ 12 جنوری 2018 کو صوبہ پنجاب میں انسداد دہشت گردی فورس نے دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے کالعدم تنظیم کے دو دہشت گرد گرفتار کرلیے۔

  • کراچی سے لاہور جانے والی شالیمار ایکسپریس میں پولیس گردی‘ سیٹوں پر قبضہ، مسافروں پر تشدد

    کراچی سے لاہور جانے والی شالیمار ایکسپریس میں پولیس گردی‘ سیٹوں پر قبضہ، مسافروں پر تشدد

    کراچی: روہڑی کے مقام پر کراچی سے لاہور جانے والی ٹرین شالیمار ایکسپریس میں  پولیس نے چڑھ کر سیٹوں پر ناجائز قبضہ جماتے ہوئے مسافروں پر تشدد کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے ضلع سکھر کے قصبے روہڑی میں پولیس نے شالیمار ایکسپریس پر دھاوا بولتے ہوئے پولیس گردی شروع کر دی، پولیس اہل کاروں نے بہاول پور جانے والے مسافروں پر تشدد کیا۔

    پولیس اہل کاروں نے شالیمار ایکسپریس کی سیٹ نمبر 64، 65، اور 66 پر زبردستی قبضہ کر کے ڈبے میں ڈیرا جما لیا، جس پر مسافروں نے شدید احتجاج کیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اہل کاروں کی جانب سے مسافروں کو دھمکیاں دی گئیں، اہل کاروں نے مسافروں کو وارننگ دی کہ وہ اگر خاموش نہیں رہے تو انھیں اگلے اسٹیشن پر اتار دیا جائے گا۔

    پولیس کے دھاوا بولنے پر ٹرین مسافروں نے ٹرین کے اندر احتجاج کرتے ہوئے اربابِ اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ شالیمار ایکسپریس میں پولیس گردی کا نوٹس لیا جائے۔

    چیف جسٹس کا پاکستان ریلوے کا مکمل آڈٹ کروانے کا حکم

    مسافروں کا کہنا تھا کہ ٹرین کے ڈبے میں خواتین بھی سوار تھیں لیکن پولیس اہل کاروں نے کسی کا خیال نہیں کیا، مسافروں پر تشدد کرتے ہوئے سیٹوں پر قبضہ جمایا۔

    ٹرین میں احتجاج کے دوران مسافروں کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس عوام کے تحفظ کی بجاے عوام کے لیے مزید زحمت بن چکی ہے۔ دوسری طرف تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تحریکِ انصاف نے اپنی حکومت کے اوّلین اقدامات میں پولیس اصلاحات کو بھی شامل کرلیا ہے۔

  • سکھر،روہڑی،پنوعاقل کےمدارس میں سرچ آپریشن

    سکھر،روہڑی،پنوعاقل کےمدارس میں سرچ آپریشن

    سکھر: اندرون سندھ کئی شہروں میں رینجرز اور پولیس نے مختلف مدارس میں سرچ آپریشن کیا ہے۔

    سکھر میں رینجرز اور پولیس نے مختلف مدارس میں سرچ آپریشن کیا ہے،اس کے علاوہ روہڑی اور پنوعاقل کے مختلف مدارس میں بھی سرچ آپریشن کیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطقبق جامعہ اشرفہ محمدیہ، مدرسہ فیض العلوم اوردیگر کئی مدارس میں کاروائی کی گئی ہے۔

     مدارس میں رینجرز اورپولیس کی کارروائی کے دوران مقامی اورغیرملکی طلبا کی تفصیلات حاصل کی گئی ہیں۔