Tag: رکازیات

  • بھارت: "ڈائنو سار کے انڈوں” کی وائرل تصاویر، حقیقت کیا ہے؟

    بھارت: "ڈائنو سار کے انڈوں” کی وائرل تصاویر، حقیقت کیا ہے؟

    نئی دہلی: بھارت میں سوشل میڈیا پر وائرل "ڈائنو سار کے انڈوں "کی تصاویر اور کہانیوں کی حقیقت سامنے آگئی، ماہرین نے مذکورہ شے کو ایک قدیم آبی جاندار کی رکازیات قرار دے دیا۔

    بھارتی ریاست تامل ناڈو میں دریافت ہونے والی مذکورہ شے کو ڈائنو سار کے انڈے کہا جارہا تھا اور اس کی تصاویر اور اس سے جڑی مختلف کہانیاں سوشل میڈیا پر وائرل تھیں۔

    بیضوی شکل کی یہ شے تامل ناڈو کے ایک قصبے میں زیر زمین ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔ بعد ازاں چند مقامی ماہرین ارضیات اور آثار قدیمہ نے مذکورہ جگہ کا دورہ کیا۔

    ماہرین نے اس بیضوی شے کو ایک قدیم آبی جاندار امونائٹ کی باقیات قرار دے دیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ امونائٹ کی باقیات اکثر جگہوں پر جمع ہوجاتی ہے اور اس کے بننے کی وجہ کسی مقام پر اس کا لاکھوں سال تک موجود رہنا ہے۔

    اسے اکثر ڈائنو سار کے انڈے سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ آبی جانور امونائٹ 41 کروڑ سال قبل ہماری زمین پر موجود ہوا کرتا تھا۔

    اسی مقام سے ماہرین نے ایک قدیم درخت کی رکازیات بھی دریافت کیں، ان رکازیات کی لمبائی 7 فٹ تھی اور ماہرین کے مطابق درخت اپنی اصل حالت میں 20 فٹ تک اونچا رہا ہوگا۔

    اس سے قبل بھی ریاست اتر کھنڈ میں ایک بندر نما جاندار کی 1 کروڑ 30 لاکھ سال قدیم رکازیات دریافت ہوئی تھیں۔

  • ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ماہرین نے ڈائنوسار کے زمانے میں موجود سب سے بڑے پرندے کی رکازیات دریافت کرلیں، یہ پرندہ ایک ہوائی جہاز جتنا ہے۔

    یہ پٹیرو سارس (ڈائنو سار کے زمانے کے وہ رینگنے والے جانوار جو اڑ سکتے تھے) کی نئی قسم ہے جو اب سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی۔

    اس سے قبل ’کوئٹزالکوٹلس‘ کو اب تک کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا پرندہ سمجھا جاتا تھا، تاہم اب اس نئی دریافت نے ماہرین کو حیران کردیا ہے۔

    کرائیو ڈریکن بوریس نامی یہ پرندہ آج کے ہوائی جہاز جتنی جسامت رکھتا ہے، اس کے پروں کا پھیلاؤ 10 میٹر تھا جبکہ اس کا وزن ڈھائی سو کلو تھا۔

    7 کروڑ 70 لاکھ سال قبل فضاؤں میں اڑنے والا یہ پرندہ گوشت خور تھا اور یہ چھپکلیاں، چھوٹے ممالیہ جانور حتیٰ کہ ڈائنو سار کے بچے بھی کھا لیتا تھا۔

    اس پرندے کی دریافت 30 سال قبل البرٹا کینیڈا میں ہوئی تھی تاہم اس وقت اس کی درجہ بندی غلط کی گئی تھی۔ اب اس کی بغور جانچ کے بعد علم ہوسکا ہے کہ یہ قدیم پرندوں کی نئی قسم ہے جو آج سے قبل سامنے نہیں آئی۔

    لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق پرندہ اپنی بڑی جسامت کی وجہ سے اس قابل تھا کہ وہ سمندر پار دور دراز علاقوں میں بھی جاسکتا تھا، تاہم اس نے مخصوص جگہوں کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔

    ماہرین نے اس دریافت کو نہایت خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح کے دوسرے جانوروں کی دریافت بھی سامنے آسکتی ہے۔

  • انسانی قد کے نصف طوطے کی باقیات دریافت

    انسانی قد کے نصف طوطے کی باقیات دریافت

    نیوزی لینڈ میں ایک طویل القامت طوطے کی باقیات دریافت کی گئی ہیں جس کا قد انسانی قد کے نصف ہے، طوطوں میں یہ سب سے طویل القامت طوطا خیال کیا جارہا ہے۔

    بائیولوجی لیٹرز نامی رسالے میں حال ہی میں شائع کیے جانے والے تحقیقی مقالے کے مطابق نو دریافت شدہ طوطے کی قامت کا اندازہ اس کے پنجوں کی ہڈیوں سے لگایا گیا۔ طوطے کا قد تقریباً ایک میٹر یعنی 37 انچ ہے۔

    اس کا وزن 7 کلو گرام یعنی 15.5 پاؤنڈز ہے اور دیگر پرندوں کے برعکس یہ ممکنہ طور پر گوشت خور تھا۔

    کنٹربری میوزیم کے نیچرل ہسٹری شعبے کے سربراہ پال اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ اڑتا بھی ہو مگر ہم فی الحال اس نظریے پر مزید تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ اڑتا نہیں تھا۔

    مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    اس طوطے کی باقیات کو سنہ 2008 میں پہلی بار دریافت کیا گیا تھا تاہم اس وقت اس کے بارے میں زیادہ تحقیقات نہیں کی گئیں۔ پروفیسر اسکو فیلڈ کے مطابق ہمارے خیال میں یہ کسی عقاب کی باقیات ہوسکتی ہیں لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ طوطا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے اس طوطے کی قامت کو دیکھتے ہوئے اس کا نام ہرکولیس ان ایکسپیکٹیٹس رکھا ہے۔

    طوطے کی باقیات نیوزی لینڈ کے جنوبی حصے میں سینٹ باتھنز کے علاقے سے دریافت ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ رکازیات کے حوالے سے خاصا زرخیز ہے اور یہاں سے ملنے والی باقیات لگ بھگ ڈھائی کروڑ سال سے لے کر 50 لاکھ سال تک قدیم ہیں۔

    پروفیسر اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اس علاقے میں گزشتہ 20 سال سے کھدائیاں کر رہے ہیں اور اب تک کافی غیر متوقع دریافتیں کی جاچکی ہیں جبکہ امکان ہے کہ مستقبل میں بھی ایسی ہی انوکھی دریافتیں سامنے آئیں گی۔

    گزشتہ برس اس علاقے سے ایک طویل القامت چمگاڈر کی باقیات بھی دریافت کی گئی تھیں، یہ چمگاڈر جسامت میں جدید چمگاڈر سے 3 گنا بڑی تھی اور اس کا وزن 40 گرام تھا۔