Tag: رہنما پیپلز پارٹی

  • پیپلزپارٹی رہنماؤں کی اکثریت کس جماعت سے  اتحاد کے حق میں ہیں، ن لیگ یا پی ٹی آئی؟

    پیپلزپارٹی رہنماؤں کی اکثریت کس جماعت سے اتحاد کے حق میں ہیں، ن لیگ یا پی ٹی آئی؟

    لاہور : رہنما پیپلز پارٹی ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کارکن اوررہنماؤں کی اکثریت ن لیگ سے اتحاد کےحق میں نہیں ، اکثریت پی ٹی آئی سے ملکرن لیگ کیخلاف کام کرنا چاہتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رہنما پیپلز پارٹی ندیم افضل چن نے اے آر وائی نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ ن لیگ کیساتھ اتحاد پیپلزپارٹی کی مجبوری ہوسکتی ہے ترجیح نہیں، پیپلزپارٹی کارکن اوررہنماؤں کی اکثریت ن لیگ سے اتحاد کے حق میں نہیں۔

    ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ن لیگ کیساتھ بیٹھے تو پیپلزپارٹی کو بڑی قربانی اورقیمت ادا کرنا ہوگی، کسی پر احسان ہوگا اور کسی کو قربانی دینا پڑے گی۔

    رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ درست مینڈیٹ پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی کے آزاد لوگوں کےپاس ہے، پیپلزپارٹی اکثریت چاہتی ہےپی ٹی آئی سےملکرن لیگ کیخلاف کام کرنا چاہیے۔

    ن لیگ کی سیٹوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جوجرات کامظاہرہ سعدرفیق،نثارچیمہ نے کیا باقی کرتے تو ن لیگ کےپاس15سیٹیں ہوتیں۔

    ندیم افضل چن نے بتایا کہ پی ٹی آئی سیاسی ڈائیلاگ کی طرف نہیں جائےگی توپیپلزپارٹی کےپاس کیا آپشن ہے، اسوقت عوام میں ن لیگ کیخلاف نفرت بہت زیادہ ہے، اس لئے جو بھی ن لیگ سے ہاتھ ملائے گا اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اس حوالے سے بلاول بھٹو سے بات ہوئی ہے دیکھتے ہیں سی ای سی میں کیا ہوتا ہے۔

    محسن نقوی کے حوالے سے رہنما پی پی کا کہنا تھا کہ محسن نقوی میرے دوست ہوتے تو آج میں بھی ایم این اے ہوتا۔

    کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ لوگوں نے بانی پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے ہیں ان کے ووٹ کی قدر کرنی چاہیے۔

    ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ مجھے بھی لوگوں نےاسی لیے ووٹ دیئےکہ میں نےسسٹم کیخلاف بات کی اور بلاول بھی مقبول اسی وجہ سے ہوئے کہ انہوں نے ن لیگ پر تنقید کی۔

    الیکشن سے متعلق رہنما پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ میرے مدمقابل کا ماموں پنجاب کا چیف سیکرٹری ہے تو پھرساری مشینری اسی کیلئے تھی، ہمارے پاس ثبوت آگئے ہیں 20 ہزار پرچیوں پرشیرکے ٹھپے لگا کر دیئے گئے، پولیس ان کےساتھ ملی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہار گئے۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ہمارے 50 فارم 45 مسنگ ہیں اب عدالت میں پٹیشن کر رہاہوں، مختارا بڑا پریشان تھا تو میں نے کہا ہم ووٹوں سے نہیں ہارے اس لیے پریشان نہ ہو، مختار یا صبرکر، ظلم آگے ہارنا بہتر نہیں بلکہ کھڑے ہونا بہتر اے۔

  • رہنما پیپلز پارٹی کا بینائی سے محروم کرنے والے  انجیکشن سے متعلق بڑا انکشاف

    رہنما پیپلز پارٹی کا بینائی سے محروم کرنے والے انجیکشن سے متعلق بڑا انکشاف

    لاہور : رہنما پیپلز پارٹی چوہدری منظور نے انکشاف کیا کہ لوگوں کو بینائی سے محروم کرنے والے انجیکشن پر امریکہ اور بھارت میں پابندی عائد ہے تو پاکستان میں یہ انجکشن کس کی اجازت سے آرہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے انجیکشن کے باعث بینائی سے محروم ہونے کے معاملے پر اے آر وائی نیوز کے پروگرام ‘سوال یہ ہے’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شوگر کے مریضوں کو یہ انجیکشن لگایا جاتا ہے تاکہ بینائی متاثر نہ ہو۔

    چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ آنکھوں کے انجیکشن لگنے سے میرے بھائی سمیت6دوست متاثرہوئے، جب ہم اسپتال گئے تو وہاں پہلے ہی متاثرہ افرادکی بڑی تعدادموجودتھی۔

    پی پی رہنما نے انکشاف کیا اس انجیکشن پر 2011 میں امریکا اور 2016 میں بھارت پرپابندی لگی، جب بیرون ملک پابندی ہے تو پاکستان میں انجیکشن کس کی اجازت سے آرہا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ انجکشن سےمتعلق نگران وزیرصحت سے بھی بات کی ، نگران وزیرصحت نے انکوائری کمیٹی قائم کردی ہے اور انجکشن کومارکیٹ سے بھی ہٹوا دیا۔

    چوہدری منظور نے کہا کہ بہتر ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کیاجائے، بھائی کا آپریشن ہوگیا ہے،48گھنٹے بعد پتا چلےگابینائی بحال ہوگی یا نہیں۔

  • گرفتاریوں کا مقصد بجٹ سے توجہ ہٹانا تھا: قمر زمان کائرہ

    گرفتاریوں کا مقصد بجٹ سے توجہ ہٹانا تھا: قمر زمان کائرہ

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کا مقصد بجٹ سے توجہ ہٹانا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ بجٹ سے قبل کچھ گرفتاریاں کی گئیں، کوشش کی گئی کہ بجٹ کی بجائے توجہ گرفتاریوں کی طرف چلی جائے، وزیر اعظم نے خطاب میں سیاسی تلخی بھی پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ بجٹ پر توجہ نہ جائے۔

    [bs-quote quote=”قرضوں کے اعداد و شمار غلط دیے گئے، 24 ہزار ارب قرضے کو 30 ہزار ارب کہا جا رہا ہے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”قمر زمان کائرہ”][/bs-quote]

    پی پی رہنما نے کہا کہ وزیر اعظم ان معاملات سے توجہ نہیں ہٹا سکتے، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے، ملک کا ہر طقبہ چیخ رہا ہے اور حکومت شادیانے بجا رہی ہے، کسان بھی رو رہا ہے، سرکاری ملازمین الگ سے پریشان ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے گرفتاریوں پر کہا اللہ کا فضل ہو گیا، یہ فضل تو پہلے بھی ہو چکا ہے، 1958 میں بھی ہوا، 1977 اور 1999 میں بھی ہوا۔

    قمر زمان نے کہا کہ وزیر اعظم نے تاخیر کر کے رات 12 بجے خطاب کیا، پھر ان کا لہجہ بھی منصب کے مطابق نہیں تھا، کیا وزیر اعظم کو اس لہجے میں بات کرنی چاہیے تھی؟

    پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ ماضی کی حکومتیں صرف قرضے لیتی رہیں اور کیا کچھ نہیں، قرضوں کے اعداد و شمار بھی غلط دیے گئے، 24 ہزار ارب قرضے کو 30 ہزار ارب کہا جا رہا ہے، حالاں کہ وزارتِ خزانہ نے سارا ریکارڈ بیان کر دیا ہے، ہمارے وزیر خزانہ تو آپ کے مشیر خزانہ ہیں ان ہی سے پوچھ لیں۔

    [bs-quote quote=”وزیر اعظم عمران خان نے گرفتاریوں پر کہا اللہ کا فضل ہو گیا، یہ فضل تو پہلے بھی ہو چکا ہے، 1958 میں بھی ہوا، 1977 اور 1999 میں بھی ہوا۔” style=”style-8″ align=”right” author_name=”پی پی رہنما”][/bs-quote]

    قمر زمان کائرہ نے مزید کہا کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ سے قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے، 60 فی صد جی ڈی پی سے زائد قرضے نہیں لیے جا سکتے، 2017-18 میں ن لیگ نے 1950 ارب کا قرضہ واپس کیا، ہمارے دور میں جی ڈی پی کا 4.5 فی صد قرض کی صورت میں واپس ہوا، لیکن یہ حکومت لوگوں کو اتنا پریشان کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی جیب پر ڈاکے سے توجہ ہٹے۔

    رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے نے اپنی سربراہی میں کمیشن بنانے کی بات کی ہے، 4 محکمے تو پہلے ہی آپ کے ماتحت ہیں، کیا اس ارادے سے کمیشن بنایا جا رہا ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، ایسا ہے تو شوق سے کمیشن بنائیں، ہم کارکردگی پر مناظرے کے لیے بھی تیار ہیں، افسوس ہے کہ وزیر اعظم کو غلط معلومات دی جا رہی ہیں۔

    قمر زمان کائرہ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے گرفتار سیاسی رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا، یہ بھی کہا کہ گرفتاریاں ہو چکیں اب عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، انھوں نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ آج پھر سے پاکستان میں قوم پرستی کو ہوا دی جا رہی ہے، سیاسی مسائل کا جواب سیاسی حکومتیں ہی دیتی ہیں۔