Tag: ریاست بھوپال

  • نواب حمید اللہ خان: بھوپال کے فرماں روا کے عہد میں شعر و ادب

    نواب حمید اللہ خان: بھوپال کے فرماں روا کے عہد میں شعر و ادب

    نواب حمید اللہ خاں ریاست بھوپال کے آخری فرماں روا تھے جن کا عہد 1926 سے 1949 تک رہا۔ حمید اللہ خاں روشن خیال حکم راں اور بیدار مغز سیاست دان تھے۔

    ان کے عہد میں بھوپال میں‌ شعر و ادب کی محفلیں سجائی جاتی رہیں اور فن و تخلیق کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ پیشِ‌ نظر تحریر اسی سے متعلق ہے۔

    نواب صاحب، صاحبِ علم اور علم نواز تھے۔ انھوں نے اہلِ دانش و فن کی بہتر طور پر سرپرستی فرمائی۔ علمی و ادبی رجحانات میں جو جدت نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے میں نظر آتی تھی، نواب صاحب کے عہد میں اس کی رفتار میں مزید تیزی آئی۔

    "ادب برائے زندگی” کا نظریہ کلی طور پر تمام تخلیقات میں نظر آتا ہے۔ شعر و شاعری میں بدستور اصلاحی، مقصدی، اخلاقی اور اجتماعی شعور بیدار ہوتا چلا گیا۔ پامال، فرسودہ اور عامیانہ انداز بیان کا تقریباً اختتام ہو گیا۔ اس دور کی شاعری بھرپور کیف و سرور سے معمور سنجیدہ و متین اور پرتاثیر ہے۔ سچے جذبات کی فراوانی نظر آتی ہے، اسلوب بیان میں ندرت اور تازگی پائی جاتی ہے۔ نئی تشبیہات و نئے استعارات اور نئی تلمیحات وضع کی گئیں۔ ان تمام جدید رجحانات کے ساتھ ادب کو زندگی سے قریب لانے کی کوشش کی جا رہی تھیں۔

    ہر سال نواب صاحب کے زیرِ اہتمام جشنِ سال گرہ کے سلسلے میں یہاں آل انڈیا مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ جس میں ملک کے نامور شعراء شرکت کرتے تھے جن میں جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، سیماب اکبرآبادی، حفیظ جالندھری، احسان دانش، نانک لکھنوی، آنند نرائن ملا ، احسن مارہروی ، سراج لکھنوی، شوکت تھانوی، روش صدیقی، ساغر نظامی، آغا حشر کاشمیری، بہزاد لکھنوی، یاس عظیم آبادی خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مشاعرے بھوپال کے مذاقِ شعری پر بڑی حد تک اثر انداز ہوئے۔

    اس دور میں یہاں ترقی پسند ادب کا بھی آغاز ہوا۔ ترقی پسند مصنفین کی باقاعده انجمن بھی قائم ہوئی، اشتراکی نقطۂ نظر اس دور کے نوجوان شعراء و ادباء کی تخلیقات میں داخل ہونا شروع ہوا۔

    نواب حمید اللہ خاں کے عہدِ حکومت میں نظامِ تعلیم میں زبردست تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ الگزینڈر اور جہانگیریہ ہائی اسکول کا الحاق عثمانیہ یونیورسٹی سے کر دیا گیا۔ جس کی بدولت اردو ذریعۂ تعلیم کو فروغ ملا۔ اس کے علاوہ بے شمار علمی و ادبی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ اخبارات اور رسائل کے اجراء کے لئے بھی یہ دور گذشتہ ادوار سے ممتاز ہے۔ جو رسائل اور اخبارات جاری کئے گئے ان میں گوہرِ ادب ، آفتابِ نسواں، افشاں، افکار، ندیم، جاده، معیارِ ادب اور کردار وغیرہ کافی اہم ہیں۔ ان کے علاوہ الگزینڈر ہائی اسکول سے "گہوارۂ ادب” نام کا ایک معیاری رسالہ جاری کیا گیا۔

    نواب صاحب کے ذوق ادب کی بدولت اس عہد میں نشر و اشاعت کا زبردست کام ہوا۔ انھوں نے سلطان جہاں بیگم کی تقاریر کا مجموعہ بھی "خطباتِ سلطانی” کے نام سے طبع کروایا اور اہلِ علم و ہنر کی سرپرستی بھی فرمائی۔ علاّمہ اقبال کو ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں پانچ سو روپے ماہوار کا وظیفہ جاری کیا۔ ریاست کی طرف سے حفیظ جالندھری کو بھی وظیفہ دیا جاتا تھا۔ نواب صاحب کی ان کرم فرمائیوں سے ریاست کا مشاہیر ادب سے گہرا تعلق قائم ہوا۔

    ان کے علاوہ نواب حمید اللہ خاں کے عہد میں ایک بڑی تعداد ایسے اہلِ قلم کی تھی جنہیں شہرت اور مقبولیت حاصل تھی اور جنہوں نے شعری و ادبی سرمایہ میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔

    (از قلم: ارجمند بانو افشاں)

  • بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    برصغیر کی مشہور ریاست بھوپال کی تیسری والی ایک بہترین منتظم ہی نہیں بلکہ ادب و فنون کی دلدادہ اور قابل و باصلاحیت شخصیات کی قدر دان بھی مشہور تھیں۔

    اٹھارہویں صدی میں بھوپال ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی جہاں شاہ جہاں بیگم نے 1838ء میں آنکھ کھولی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان میں قدم جمائے تو بھوپال کو بھی ایک نوابی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ شاہ جہاں بیگم 1901ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئی تھیں۔

    بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والی کئی شخصیات نے علم و ادب کے ساتھ فنون کے مختلف شعبہ جات میں کمال دکھایا اور نام پیدا کیا۔ ریاست کی حکم راں ہونے کے ناتے شاہ جہاں بیگم نے بھی علم و فنون کے فروغ کے علاوہ وہاں اصلاحات اور ریاست کی تعمیر و ترقّی کے لیے قابلِ ذکر اور مثالی اقدامات کیے۔

    سلطان بیگم غیر معمولی ذہانت کی حامل اور ایک بیدار مغز حکم راں تھیں۔ تعلیم کے ساتھ انھوں نے گھڑ سواری اور نشانہ بازی سیکھی اور امورِ ریاست میں‌ بھی گہری دل چسپی لی اور بعد میں‌ انتظامی امور کو نہایت خوبی سے چلایا بھی۔

    بیگم بھوپال نے قلعہ اسلام نگر میں آنکھ کھولی تھی۔ ایک حکم راں خاندان کی چشم و چراغ ہونے کے ناتے بہترین تعلیم و تربیت پائی۔ 1844ء میں ان کے والد نواب جہانگیر محمد خان کا انتقال ہوگیا جس کے بعد ریاست کی حکم راں کے طور پر ان کے نام کا اعلان کیا گیا۔ وہ کم عمر تھیں اور انتظام و انصرام ایک عرصہ ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کے ہاتھ میں رہا۔ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھوپال کو نوابی ریاست کا درجہ دے کر اصل اختیار اور وسائل اپنے ہاتھ میں‌ لے لیے تھے۔ اسی زمانے میں بیگم صاحبہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور تب شاہ جہاں بیگم کی تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔

    شاہ جہاں بیگم کو امورِ سلطنت کی تعلیم اور تربیت دی گئی تھی، اور وہ اپنی ولی عہدی کے زمانے ہی سے ریاستی انتظامات کو دیکھتی آرہی تھیں۔ انھوں نے تخت نشینی کے بعد کئی جدید اصلاحات کیں، جن کا ذکر انھوں نے ’تاجُ الااقبال‘ کے نام سے اپنی کتاب تاریخِ بھوپال میں کیا ہے۔ ان میں وضعِ قوانین کے لیے محکمہ قائم کرنا، عدالتی اختیارات کی تقسیم، امن و امانِ عامّہ سے متعلق وسیع انتظامات اور حفظانِ صحّت سے متعلق امور پر توجہ دیتے ہوئے ہر تحصیل میں طبیب مقرر کیا۔ شہر بھوپال میں ایک بڑا شفا خانہ بنوایا۔

    بیگم بھوپال کے امورِ سلطنت اور کاموں کا تذکرہ کئی صفحات پر پھیل سکتا ہے۔ وہ اپنی رعایا کی بڑی خیر خواہ اور ہم درد تھیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں چیچک کی بیماری پھیلی تو انھوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر عوام کو اس کے ٹیکے لگوانے کی ہدایت کی اور اس معاملے میں شفا خانوں سے ہر قسم کا تعاون کیا۔ آج جس طرح کرونا کی ویکسینیشن سے لوگ گھبرا رہے تھے، اسی طرح چیچک سے متعلق ناقص معلومات اور بہت سی غلط باتیں‌ بھوپال کے لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں جنھیں شاہ جہاں بیگم نے مسترد کرتے ہوئے حفاظتی ٹیکے لگانے کی حوصلہ افزائی کی۔

    انھوں نے نہ صرف باقاعدہ چیچک کے ٹیکے لگانے کے لیے ریاست بھر میں‌ انتظامات کروائے بلکہ عوام کو اس کی ترغیب دینے اور ان کا ٹیکے سے متعلق خوف اور خدشات دور کرنے کے لیے اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کو چیچک کا ٹیکہ لگوایا۔ اس کے علاوہ ریاست میں جن بچّوں کو والدین ٹیکہ لگواتے انھیں انعام دیا جاتا تھا۔

    شاہ جہاں بیگم تعلیم اور صحت کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔ وہ رحم دل اور عوام کی فلاح و بہبود کا ہر دم خیال رکھنے والی خاتون تھیں جن کے دور میں لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بھی عمارتیں تعمیر ہوئیں جب کہ غریب اور معذور افراد کی مالی مدد کی جاتی تھی اور باقاعدہ وظائف مقرر تھے۔

    دینی اور علمی کاموں میں انھوں‌ نے خوب فراخ دلی دکھائی اور ایک محکمہ بنام مطبع شاہجہانی قائم کروایا جس میں قرآن مجید کی طباعت کی جاتی تھی۔ اسی طرح‌ امورِ مذہبی کا ایک جدید محکمہ قائم کیا گیا۔ کئی لاکھ روپے خرچ کر کے شہر کی اکثر مساجد کو پختہ کروایا۔ شاہ جہاں بیگم نے فن تعمیر کو بھی عروج دیا۔ تاجُ المساجد جو بھوپال کی عظیم ترین جامع مسجد ہے، کی بنیاد اُنہی کے حکم پر رکھی گئی تھی۔

    شاہ جہاں بیگم مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی تصانیف میں تہذیبِ نسواں، خزینۃُ اللغات شامل ہیں۔ وہ فارسی زبان میں شاعری بھی کرتی تھیں۔

  • خاتون حکم راں شاہ جہاں بیگم اور چیچک کا حفاظتی ٹیکہ

    خاتون حکم راں شاہ جہاں بیگم اور چیچک کا حفاظتی ٹیکہ

    شاہ جہاں بیگم ریاست بھوپال کی تیسری حکم ران تھیں۔ وہ علم و فنون کی دلدادہ اور قدر دان ہی نہیں‌ ایک بہترین منتظم اور ریاعا کی خیر خواہ بھی تھیں۔

    بھوپال اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی جس نے برطانوی ہند میں نوابی ریاست کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھا۔ اس سرزمین پر جنم لینے والی کئی نے علم و ادب کے ساتھ فنون کے مختلف شعبہ جات میں نام و مقام پیدا کیا اور خود شاہ جہاں بیگم نے علم و فنون کے فروغ اور بھوپال میں اصلاحات اور تعمیر و ترقّی کے لیے بہت کام کیا۔

    وہ 1838ء میں قلعہ اسلام نگر، بھوپال میں پیدا ہوئیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کا زبردست اہتمام کیا گیا۔ امورِ مملکت بھی سکھائے گئے اور گھڑ سواری اور نشانہ بازی کی مشق بھی کرائی گئی۔

    1844ء میں ان کے والد نواب جہانگیر محمد خان کا انتقال ہوا اور ریاست کی حکم راں کے طور پر ان کے نام کا اعلان کردیا گیا۔ وہ کم عمر تھیں اور انتظامِ سلطنت ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کے ہاتھ میں رہا۔ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے طفیل یہ نوابی ریاست بن گئی، اور والدہ کے انتقال کے بعد شاہ جہاں بیگم کی تخت نشینی ہوئی۔

    شاہ جہاں بیگم کو امورِ سلطنت کی تعلیم اور تربیت دی گئی تھی، اور وہ اپنی ولی عہدی کے زمانے ہی سے ریاستی انتظامات کو دیکھتی آرہی تھیں۔ انھوں نے تخت نشینی کے بعد کئی جدید اصلاحات کیں، جن کا ذکر انھوں نے ’تاجُ الااقبال‘ کے نام سے تاریخِ بھوپال میں کیا ہے۔ ان میں وضعِ قوانین کے لیے محکمہ قائم کرنا، عدالتی اختیارات کی تقسیم، امن و امانِ عامّہ سے متعلق وسیع انتظامات اور حفظانِ صحّت سے متعلق امور پر توجہ دیتے ہوئے ہر تحصیل میں طبیب مقرر کیا۔ شہر بھوپال میں ایک بڑا شفا خانہ بنوایا۔

    بیگم بھوپال کے امورِ سلطنت اور کاموں کا تذکرہ تو کئی صفحات پر پھیل سکتا ہے، لیکن ہم یہاں اس دور میں چیچک کی بیماری کے ٹیکے کی بات کریں گے جس میں آج کرونا کی ویکسینیشن کی طرح اس وقت عوام ٹیکے لگوانے سے گھبرا رہے تھے اور اس سے متعلق ناقص معلومات اور بہت سی غلط باتیں‌ ان میں پھیل رہی تھیں۔

    شاہ جہاں بیگم نے باقاعدہ چیچک کے ٹیکے لگانے کے انتظامات کروائے۔ اس موقع پر انھوں نے عوام کو ترغیب دینے اور ان میں‌ ٹیکے سے متعلق پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کے لیے اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کو چیچک کا ٹیکہ لگوایا۔ اس کے علاوہ ریاست میں جن بچّوں کو ٹیکہ لگایا جاتا انھیں انعام بھی دیا جاتا تھا۔

    وہ ایک دور اندیش، بیدار مغز اور تعلیم و صحت کو اہمیت دینے والی حکم ران تھیں جنھوں‌ نے لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بھی عمارتیں تعمیر کراوئیں اور غریب اور معذور لوگوں کی امداد کے لیے وظائف مقرر کیے تھے۔