Tag: ریاض الرحمان ساغر

  • گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    کسی بھی فلم کی کام یابی میں جان دار اسکرپٹ اور بہترین اداکاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لیکن شاعری، موسیقی اور گلوکاری ایک فلم کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ ریاضُ الرّحمان ساغر ایسے ہی شاعر تھے جن کے تحریر کردہ فلمی گیت ہر خاص و عام آج بھی مقبول ہیں۔

    بطور فلمی گیت نگار ساغر کی اوّلین وجہِ شہرت فلم شریکِ حیات اور سماج تھی۔ ان فلموں کے گیتوں کو شائقینِ سنیما نے بہت پسند کیا تھا۔

    معروف شاعر، کئی مقبول گیتوں کے خالق اور صحافی ریاضُ الرّحمان ساغر طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد یکم جون 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ ریاضُ الرّحمان ساغر کا سنہ پیدائش 1941ء ہے، وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے۔ یہاں‌ ساغر نے رہنے بسنے اور روزگار کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کے دوران صحافت کو اپنے لیے موزوں پایا اور اس پیشے میں فلمی شعبہ سے منسلک رہے۔ انھوں نے شوبز رپورٹر اور شوبز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا جو ایک قومی روزنامے میں شایع ہوتا رہا۔

    ایک اندازے کے مطابق معروف شاعر ریاضُ الرّحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے جن میں کئی سدا بہار اور مقبولِ عام نغمات شامل ہیں۔ ساغر کے فلمی گیتوں کو اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا اور شہرت حاصل کی۔ ریاض الرحمان ساغر کی پہلی فلم ہدایت کار اور مصنّف عزیز میرٹھی کی اردو فلم عالیہ (1967) تھی۔ موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں پہلا گیت تھا:

    کہو، وعدہ ہوا، رسمِ وفا ہر دم نبھانے کا۔ یہ ایک دو گانا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا اور یہ اداکار کمال اور شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا۔ ساغر صاحب کا پہلا ہٹ گیت فلم شریکِ حیات (1968) میں شامل تھا جس کے بول تھے، میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے، جو بالکل آپ جیسی ہے… اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا اور اس کی دھن اے حمید نے بنائی تھی۔ فلم انڈسٹری میں ریاضُ الرّحمان ساغر کو بڑے فلم سازوں نے کام دیا اور ان کی شاعری کو سراہا۔

    پاکستانی فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔ ان کا مقبول ترین گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ فلم ’ورثہ‘ کے لیے تھا جسے راحت فتح علی خان نے گایا۔

    معروف شاعر نے پاکستانی گلوکاروں کی فرمائش پر ان کے البموں کے لیے بھی گیت تحریر کیے جن میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘، ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ اور پاکستان کی معروف گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم میں شامل گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    پاکستان کے اس معروف گیت نگار کو سنسر بورڈ کا رکن بھی بنایا گیا تھا۔ ساغر صاحب نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اپنے قلم کو آزمایا ہے۔ ان کی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے جب کہ دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ شائع ہوئے۔ انھیں‌ فلمی دنیا میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

    وفات کے وقت معروف فلمی گیت نگار کی عمر 72 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • سدا بہار گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر کی برسی

    سدا بہار گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر کی برسی

    پاکستان کے معروف شاعر اور کئی مقبول گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر یکم جون 2013ء کو طویل علالت کے بعد وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو ادب اور فلمی دنیا کو خوب صورت شاعری سے مالا مال کیا۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر 1941ء میں بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں‌ زندگی کے لیے جدوجہد شروع کی۔ انھوں نے صحافت کا پیشہ اپنایا اور زیادہ تر فلمی دنیا سے متعلق رہے۔ انھوں نے طویل عرصے تک کالم نگاری بھی کی۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر نے 2 ہزار سے زائد نغمات لکھے جو کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بنے۔ ان کے گیت اپنے وقت کے مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے اور آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔

    فلمی صنعت کے علاوہ ان کے تحریر کردہ مقبول ترین نغموں میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘ شامل ہیں جب کہ آشا بھوسلے اور عدنان سمیع کی آواز میں مشہور یہ گیت ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ بھی ریاضُ الرّحمان ساغر کا لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم کے لیے بھی نغمات تحریر کیے تھے جب کہ ایک مقبول فلمی گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ راحت فتح‌ علی کی آواز میں‌ آج بھی سنا جاتا ہے۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر پاکستان فلم سنسر بورڈ کے رکن بھی رہے تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے مرتب کی جب کہ ان کے دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ فلم کے لیے شاعری پر انھیں‌ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ساغر کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات کے وقت ان کی عمر 72 برس تھی۔