Tag: ریاض شاہد

  • ریاض شاہد: فلمی دنیا کا ایک بڑا نام

    ریاض شاہد: فلمی دنیا کا ایک بڑا نام

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں ریاض شاہد کا ان کی منفرد موضوعات پر شان دار فلموں کی بدولت ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ ایک فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ ریاض شاہد نے عملی زندگی کا آغاز تو صحافت سے کیا تھا۔ لیکن اُن کی وجہِ شہرت فلم سازی اور اُن کی مکالمہ نگاری ہے۔

    ریاض شاہد کا تعلق لاہور کے ایک کشمیری گھرانے سے تھا جہاں انھوں نے 1930ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ ریاض شاہد نے لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل مکمل کرنے کے بعد صحافت کے شعبے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوئے جو بہت مقبول تھا۔ بعد ازاں وہ فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوگئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول بھی تحریر کیا اور بعد میں فلموں کا اسکرپٹ لکھنے لگے۔ فلمی تاریخ میں ریاض شاہد کو ان کی منفرد اور کاٹ دار مکالمہ نگاری کی وجہ سے بہت سراہا جاتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور روشن خیال فن کاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے چند فلمی نغمات بھی تحریر کیے۔

    بطور مصنّف ’بھروسہ‘ ریاض شاہد کی پہلی فلم تھی اور یہی اُن کی وجہِ شہرت بنی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس کے بعد ریاض شاہد کی ایک اور فلم ’شہید‘ کے نام سے ریلیز ہوئی جسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تہلکہ خیز فلم مانا جاتا ہے۔ 1962ء میں ریاض شاہد بطور ہدایت کار سامنے آئے اور اپنی پہلی فلم ’سسرال‘ بنائی۔ یہ اپنے وقت کی ایک یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی اور ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا جب کہ 1967ء میں ایک اور فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی جو انہی کی تحریر کردہ تھی۔ انھوں نے چند تاریخی فلمیں بھی بنائیں جنھیں ملک بھر میں‌ شائقین نے پسند کیا۔ ان شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی تاریخ کے موضوع پر ریاض شاہد کی ایک بہترین کاوش تھی۔ ریاض شاہد نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    ریاض شاہد گیارہ مرتبہ پاکستانی فلمی صنعت کے معتبر نگار ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔ ’’زرقا‘‘ ریاض شاہد کی وہ فلم تھی جسے تین نگار ایوارڈ دیے گئے تھے۔

    یکم اکتوبر 1972ء کو ریاض شاہد انتقال کرگئے۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ انھوں نے اپنے دور کی مقبول اداکارہ نیلو سے شادی کی تھی۔ ان کے بیٹے اداکار شان بھی پاکستانی فلم انڈسٹری میں بطور ہیرو بڑا نام اور شہرت رکھتے ہیں۔

  • ’’زرقا‘‘ ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم

    ’’زرقا‘‘ ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم

    1960 کی دہائی کو بالعموم پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج کا دور کہا جاتا ہے جس میں فلموں کی مجموعی تعداد نے ایک ہزار کا ہندسہ عبور کیا۔ اس وقت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں سنیما گھروں پر شائقین کا رش رہتا تھا۔ ’’زرقا‘‘ اسی دہائی کی ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی جس کا موضوع فلسطین کی جدوجہدِ آزادی تھا۔

    60 کی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ جو نئے چہرے داخل ہوئے تھے ان میں‌ اداکار وحید مراد، ندیم، محمد علی، زیبا، شبنم اور فردوس کے نام شامل ہیں۔ اسی طرح مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا وہ گلوکار تھے جنھیں‌ سنیما کی بدولت ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی زمانے میں‌ فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں بھی کئی بڑے نام شامل تھے۔

    فلمی تاریخ‌ بتاتی ہے کہ 1969ء میں زرقا پاکستانی سینما میں ایک نیا تجربہ تھا۔ مسلم دنیا میں اس وقت فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور عام فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام پر شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے اور دنیا جنگ بندی پر زور دے رہی ہے، لیکن اسرائیل عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی اور غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔

    نصف صدی سے زائد عرصہ بیت گیا جب معروف فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف ریاض شاہد نے زرقا کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا تھا اور اس فلم نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی تھی۔ یہ فلم 17 اکتوبر 1969ء کو پاکستان بھر میں سنیماؤں کی زینت بنی۔ کراچی کے اوڈین سنیما میں اس فلم کو نمائش کے بعد 102 ہفتے پورے ہوئے تھے اور یہ پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم بنی تھی۔

    فلم کی کہانی بیت المقدس کے خلاف ہونے والی ایک سازش سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کو مغرب اور اس دور کی عالمی طاقتوں نے مل کر یہودیوں کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔

    فلم زرقا کے نغمات کی شاعری اس موضوع کو سامنے رکھ کر تحریر کیے گئے تھے۔ فلم کا تھیم سونگ تھا،’’ہمیں یقین ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی یہ شام اے فلسطیں…‘‘ فلم کا ایک اور گیت تھا، اے وطن تیری بربادی پر چپ کیوں کر رہوں، لٹ چکا ہے جو چمن اس کو چمن کیسے کہوں۔ قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے مسلمانانِ‌ عالم کے اتحاد پر زور دیتی اس فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے جنھیں‌ عربی دھنوں پر کمپوزیشن بنانے میں کمال حاصل تھا۔ تاہم وہ فلم کے تین گیت کمپوز کرنے کے بعد وفات پاگئے تھے۔ ان کے بعد وجاہت عطرے نے اس کے گانوں کی دھنیں مرتب کیں۔ جن گلوکاروں نے اس فلم کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں نسیم بیگم، منیر حسین، مہدی حسن شامل ہیں۔

    فلم کا ٹائٹل رول اداکارہ ’’نیلو‘‘ نے نبھایا تھا۔ یہ اداکارہ نیلو کے فلمی کیریئر کا لازوال کردار تھا۔ اداکار اعجاز نے اس فلم میں ہیروئن یعنی اداکارہ نیلو کے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں‌ عرب مجاہد عمار کے روپ میں سامنے آئے تھے۔ اس فلم میں ایک یہودی میجر کی بیوی انجیلا کا کردار اداکارہ ناصرہ نے ادا کیا تھا۔

    سینئر اداکار ساقی نے حریت پسند لیڈر شعبان لطفی کے بچپن کے دوست کا کردار ادا کیا، جو ایک صحرائی چور تھا۔ آخر اس کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور وہ وطن کے لیے شہید ہوجاتا ہے۔ اداکار کمال ایرانی نے حبشی غلام کا کردار عمدگی سے ادا کیا۔ اداکار علاء الدین نے حریت پسند تنظیم کے سربراہ کا کردار کچھ اس انداز سے کیا کہ آج بھی لوگ شعبان لطفی کو نہیں بھلا پائے۔ فضل حق، سیندو، بختی، الیاس کاشمیری، اسلم پرویز اور دیگر بھی اس فلم میں‌ شامل تھے۔

    اس فلم میں نیلو کا ایک ڈریس اس وقت بے حد مقبول ہوا تھا، جب پورے ملک میں فلم کی نمائش جاری تھی۔ اس ڈریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین نے زرقا ڈریس کے نام سے اس ملبوس کی ریکارڈ خریداری ہوئی۔

  • ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد ایک فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جن کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا تھا۔ تاہم اُن کی پہچان منفرد موضوعات پر اُن کی فلمیں اور مکالمہ نگاری ہے۔

    ریاض شاہد 1972ء میں‌ آج ہی کے دن کینسر کے سبب وفات پاگئے تھے۔ لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولنے والے ریاض شاہد کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ انھوں نے لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل مکمل کرنے کے بعد صحافت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوگئے۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول تحریر کیا اور بعد میں فلموں کا اسکرپٹ لکھنے لگے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں ریاض شاہد کو ان منفرد اور کاٹ دار مکالمہ نگاری کی وجہ سے بہت سراہا گیا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور روشن خیال فن کاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے چند فلمی نغمات بھی تحریر کیے تھے۔

    ’بھروسہ‘ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم تھی اور یہی فلم اُن کی وجہِ شہرت بن گئی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد ریاض شاہد کی ایک اور فلم ’شہید‘ کے نام سے ریلیز ہوئی جسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تہلکہ خیز فلم کہا جاتا ہے۔ 1962ء میں ریاض شاہد بطور ہدایت کار سامنے آئے اور اپنی پہلی فلم ’سسرال‘ بنائی۔ یہ اپنے وقت کی ایک یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی اور ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا جب کہ 1967ء میں ایک اور فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی جو انہی کی تحریر کردہ تھی۔

    ریاض شاہد نے تاریخی فلمیں بھی بنائیں جنھیں ملک بھر میں‌ شائقین نے پسند کیا۔ ان شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی تاریخ کے موضوع پر ریاض شاہد کی ایک بہترین کاوش تھی۔ ریاض شاہد نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    ریاض شاہد خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انھیں پاکستانی فلمی صنعت کا معتبر نگار ایوارڈ 11 مرتبہ دیا گیا۔ ’’زرقا‘‘ ریاض شاہد کی وہ فلم تھی جسے تین نگار ایوارڈ دیے گئے تھے۔

    ریاض شاہد نے اپنے زمانے کی مقبول اداکارہ نیلو سے شادی کی تھی۔ شان انہی کی اولاد ہیں جو پاکستان میں فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے اداکار ہیں۔

  • معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف فلم ساز و ہدایت کار ریاض شاہد کا یومِ وفات ہے۔ وہ صحافی اور مصنّف بھی تھے۔ تاہم ان کی اصل پہچان منفرد موضوعات پر بنائی گئی ان کی فلمیں ہیں۔

    ریاض شاہد 1972ء کو آج ہی کے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ ریاض شاہد کو خون کا سرطان لاحق تھا اور اسی بیماری کے سبب انھوں نے وفات پائی۔

    لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریاض شاہد نے صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوئے۔ بعدازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا اور بعد میں انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھنے کا آغاز کیا۔

    شاہد ریاض نے ’بھروسہ‘ فلم کا اسکرپٹ لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ پہلی کاوش ہی ان کی کام یابی اور شہرت کا سبب بنی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    اس کے بعد ان کی فلم ’شہید‘ ریلیز ہوئی جو تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد 1962ء میں انھوں نے خود کو ہدایت کار کے طور پر آزمایا اور اس میدان میں ان کی پہلی فلم ’سسرال‘ تھی جو پاکستانی فلمی صنعت کی یادگار فلموں میں سے ایک ہے۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی، ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا اور 1967ء میں ان کی تحریر کردہ نہایت منفرد فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی۔

    ریاض شاہد کی بنائی ہوئی ناقابلِ فراموش اور شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح تاریخی موضوع پر فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی ریاض شاہد کی کاوش تھی۔

    انھوں نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔

    ریاض شاہد نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور ترین فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک ریاض شاہد کو پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر ترین نگار ایوارڈ سے 11 مرتبہ نوازا گیا جب کہ ان کی فلم’’زرقا‘‘ نے تین نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    انھوں نے اپنے وقت کی نام ور ہیروئن نیلو سے شادی کی، اس جوڑے کے گھر تین بچّوں نے جنم لیا جن میں سے شان نے فلمی صنعت میں قدم رکھا اور صفِ اوّل کے اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔