Tag: ریبیز

  • ’’اب گائے بھی خطرناک‘‘ کاٹنے سے کسان ریبیز کا شکار، پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس رپورٹ

    ’’اب گائے بھی خطرناک‘‘ کاٹنے سے کسان ریبیز کا شکار، پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس رپورٹ

    کراچی (13 جولائی 2025): گائے کے کاٹنے سے کسان کو ریبیز کا مرض لاحق ہونے کا پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس رپورٹ ہوا ہے۔

    کتوں کے کاٹنے کے واقعات اور متاثرہ انسانوں کے ریبیز جیسے جان لیوا بیماری سے متاثر ہونے کے واقعات آپ سب نے پڑھ رکھے ہوں گے۔ تاہم اب گائے کے کاٹنے سے کسان میں ریبیز کی علامت ظاہر ہونے کا اپنی نوعیت کا پہلا کیس پاکستان کے شہر کراچی میں رپورٹ ہوا ہے۔

    یہ واقعہ گوکہ گزشتہ سال کا ہے جو ایک کسان کو اس کی پالتو گائے نے اچانک کاٹ لیا تھا، جس کی وجہ سے اس کو ریبیز کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں اپنی نوعیت کے اس پہلے کیس کو عالمی جریدے میں کیس اسٹڈی کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔

    متاثرہ کسان اس سے قبل کتے کے کاٹے سے متاثر ہو کر انڈس اسپتال کورنگی سے ریبیز ویکسین لگوا چکا تھا۔ اس لیے اس نے دورباہ انڈس اسپتال کا رخ کیا، جہاں کسان کو بروقت ویکسین لگا کر زخمی کی صفائی کی گئی اور اسے ریبیز سے بچا لیا گیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسان کو کاٹنے والی اس کی پالتو گائے کو کسی ایسے کتے نے کاٹا تھا جس کو ریبیز کا مرض لاحق تھا اور اس سے گائے میں منتقل ہوا تھا۔ بعد ازاں گائے نے اپنے مالک کو ہی کاٹ لیا۔

    ڈاکٹروں کے مطابق، کسان کے زخم عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق زمرہ 3 میں آتے تھے، جنہیں فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ڈاکٹروں نے اسے ہدایت کی کہ وہ گائے کے رویے پر نظر رکھے۔ واقعہ کے 3 ہفتے بعد کسان نے ڈاکٹروں کو مطلع کیا کہ گائے غیر معمولی حرکتیں کر رہی ہے اور کچھ ہی دن میں وہ مر گئی۔

     جس کے بعد ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ایک ٹیم نے مذکورہ گائے کا سر تحقیق کے لیے کاٹ کر حاصل کیا اور باقی جسم کو گہرائی میں دفن کر دیا گیا۔

    جب اس کے دماغی ٹشو پر کیے گئے ریورس ٹرانسکرپشن-پولی میریز چین ری ایکشن (آر ٹی-پی سی آر) ٹیسٹ کیے گئے تو اس کا نتیجہ مثبت آیا۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں کتوں کے کاٹنے سے ریبیز کے درجنوں واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بیماری ریبیز کے مرض والے کتوں کے کاٹنے سے انسانوں کو لگتی ہے اور اس کے کاٹنے سے متاثرہ افراد میں یہ جان لیوا بیماری منتقل ہو جاتی ہے۔

    ریبیز ایک جان لیوا وائرل بیماری ہے جو اس بیماری سے متاثرہ جانور کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ ایک بار جب کسی شخص کو ریبیز ہو جائے تو اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاہم ریبیز کی علامات ظاہر ہونے سے قبل ویکسین کے بروقت استعمال سے اس جان لیوا بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔

    ریبیز کی علامات:

    ابتدائی علامات: بخار، تھکن، کاٹے جانے کی جگہ پر جلن یا درد، بے چینی، ذہنی الجھن، پانی یا ہوا سے ڈر لگنا، فالج، جھٹکے لگنا، کومہ کی حالت اور آخر موت۔

    احتیاط:

    کتے سمیت کسی بھی جانور کے کاٹنے کے بعد احتیاطاً ویکسین لگوائیں اور کورس مکمل کریں۔ اپنے پالتو جانوروں کو بھی ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین لگوائیں۔

    آوارہ اور زخمی کتوں اور دیگر جانوروں سے دور رہیں اور بچوں کو بھی زخمی جانوروں کے قریب نہ جانے دیں۔

  • آوارہ کتے نے چند منٹ میں 25 افراد کو کاٹ لیا، ویکسین کم پڑ گئی

    آوارہ کتے نے چند منٹ میں 25 افراد کو کاٹ لیا، ویکسین کم پڑ گئی

    نئی دہلی: بھارتی ریاست اتر پردیش میں آوارہ کتے نے 20 منٹ میں 25 افراد کو کاٹ لیا، 25 میں سے صرف 8 افراد کو ریبیز کی ویکسین مل سکی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست اتر پردیش کے ضلع گوتم بدھ نگر میں ایک آوارہ کتے نے 20 منٹ کے اندر 25 لوگوں کو کاٹ لیا۔

    تمام افراد کو قریبی اسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں صرف 8 افراد کو ریبیز کے انجیکشن لگائے گئے، باقی افراد کو اگلے دن آنے کا کہہ کر واپس بھیج دیا گیا جس پر لوگوں نے خاصا شور شرابہ بھی کیا۔

    مقامی تھانے کے انچارج گیان سنگھ کا کہنا ہے کہ جارچہ کے علاقے سبزی منڈی کے پاس ایک آوارہ کتا کافی عرصے سے دیکھا جارہا تھا، پہلے وہ آتے جاتے راہ گیروں پر بھونکتا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس نے لوگوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔

    عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ واقعے کے روز کتا مسلسل بھونک رہا تھا جس کے بعد لوگوں نے کتے کو مارنا شروع کردیا۔

    وہ لاٹھیاں لے کر اس کے پیچھے بھاگنے لگے، کتا جان بچانے کے لیے بھاگتا رہا اور راہ میں آنے والے لوگوں کو کاٹتا رہا۔

    بعد ازاں تمام افراد کو اسپتال پہنچایا گیا لیکن ریبیز کی ویکسین صرف 8 افراد کو لگائی جاسکی۔ ویکسین کی عدم دستیابی پر لوگوں نے غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔

  • ریبیز کا عالمی دن: کتا کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیئے؟

    ریبیز کا عالمی دن: کتا کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیئے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کتا کاٹ لینے کے فوراً بعد کچھ احتیاطی تدابیر کرلی جائیں تو ریبیز جیسے مہلک مرض سے بچا جاسکتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 56 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز کیا ہے؟

    ریبیز ایک وائرس ہے جو پالتو اور جنگلی جانوروں بالخصوص کتوں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہو کر سینٹرل نروس سسٹم کو تباہ کر دیتا ہے، اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت ہو جاتی ہے۔

    کتے کے علاوہ یہ بندر، بلی، گیدڑ، لومڑی اور چمگادڑ کے کاٹنے سے بھی انسان کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ منتقل ہونے والا مرض ہے اور ریبیز کے متاثرہ مریض سے تعامل کی صورت میں دوسرے انسان کو بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

    علامات

    اس بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار اور جانور کے کاٹنے سے متاثرہ مقام پر سنسناہٹ شامل ہو سکتی ہے اور ان علامات کے بعد پرتشدد سرگرمی، بے قابو اشتعال، پانی کا خوف، جسم کے اعضا کو ہلانے کی ناقابلیت، ذہنی انتشار اور ہوش کھونا جیسی کوئی ایک یا کئی علامات ہوتی ہیں۔

    علامات ظاہر ہونے کے بعد، ریبیز کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے۔ مرض کی منتقلی اور علامات کے آغاز کے درمیان کی مدت عام طور پر ایک سے تین ماہ ہوتی ہے۔ تاہم، وقت کی یہ مدت ایک ہفتے سے کم سے لے کر ایک سال سے زیادہ تک میں بدل سکتی ہے۔

    کتا کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیئے؟

    طبی ماہرین کے مطابق ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کتے کے کاٹنے کی صورت میں کیا کام فوری طور پر کرنے چاہئیں، یہ بنیادی معلومات کسی انسانی جان کے بچاؤ کا سبب بن سکتی ہیں۔

    یاد رکھیں کہ ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا لیکن کتے کے کاٹنے کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی کو کتا کاٹ لے تو فوری طور پر یہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

    زخم کا معائنہ کریں

    فوری طور پر زخم کا معائنہ کیا جائے کہ آیا صرف جلد پر خراشیں ہیں یا کتے کے دانتوں نے گوشت پھاڑ دیا ہے۔ معمولی خراشیں ہوں تو ان کا علاج گھر میں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کتا دانت گاڑنے میں کامیاب ہوگیا ہے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔

    زخم کو دھونا کیوں ضروری ہے؟

    جس جگہ کتے کے کاٹنے کا زخم ہو، اس متاثرہ حصے کو بہت زیادہ صابن اور نیم گرم پانی سے کئی منٹ تک دھوئیں۔ اس عمل سے زخم میں موجود کتے کے منہ سے منتقل ہونے والے جراثیموں کو صاف کرنے میں مدد ملے گی۔

    اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

    خون روکیں

    زخم کسی جانور کے کاٹے کا ہو یا کوئی اور ہر دو صورت میں زخم سے خون کا بہاؤ روکنا بے حد ضروری ہے، بصورت دیگر زیادہ خون بہہ جانے سے بھی بعض اوقات جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

    خون روکنے کے لیے زخم کو کسی صاف تولیے یا کپڑے سے دبائیں اور کچھ دیر دبائے رکھیں، خون کا بہاؤ رک جانے کے بعد اینٹی بائیوٹک مرہم لگا کر بینڈج کریں۔

    اگر خون کا بہاؤ نہیں رک رہا تو ایسی صورت میں کتے کے کاٹنے سے متاثرہ شخص کو فوری طبی امداد کی ضروری ہے جس کے لیے قریبی صحت مرکز یا اسپتال سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

    زخم کا باقاعدگی سے معائنہ

    ابتدائی طبی امداد اور ویکسی نیشن کے بعد زخم بھرنے کے دورانیے میں انفیکشن کی دیگر علامات پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔

    اگر زخم میں انفیکشن کا امکان نظر آئے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں، عام طور پر انفیکشن کی علامات کچھ ایسی ہوسکتی ہیں: درد بڑھ جانا، سوجن، زخم کے ارگرد سرخی یا گرمائش کا احساس، بخار اور مواد خارج ہونا۔

    اینٹی ریبیز ویکسین

    کتے کے کاٹنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو اینٹی ریبیز ویکسین دینا بے حد ضروری ہے، یہ صرف اسی صورت میں نہیں دی جاتی جب متاثرہ شخص کو حتمی طور پر معلوم ہو کہ جس کتے نے اسے کاٹا ہے، اس کی ویکسی نیشن ہوچکی ہے اور بالخصوص اسے اینٹی ریبیز ویکسین لگائی گئی ہے۔

    پاکستان جیسے ممالک میں جہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے وہاں مریض کو اینٹی ریبیز ویکسین نہ لگانے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔

    ویکسین کا پہلا شاٹ جانور کے کاٹنے کے بعد جس قدر جلد ممکن ہو مریض کو لگ جانا چاہیئے، جتنی زیادہ تاخیر کی جائے گی اتنا زیادہ مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    ویکسین کی مقدار اور شاٹس کی تعداد کا تعین ڈاکٹر مریض کی جنس، عمر اوراس کے جسمانی خدو خال جیسا کہ قد اور وزن کو دیکھتے ہوئے طے کرتا ہے، لہٰذا ویکسین کسی مستند ادارے سے ہی لگوانی چاہیئے۔

    یاد رہے کہ ریبیز کی ویکسین مرض کی علامت ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں، یہ وائرس دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، ایک بار اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں ہر سال ریبیز کی وجہ سے 2 سے 5 ہزار اموات ہوتی ہیں، تاحال اس بیماری اور اس سے ہونے والی اموات سے متعلق معلومات کو حکومتی سطح پر جمع نہیں کیا گیا۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

  • امریکی رکن کانگریس اور صحافی کو کاٹنے والی لومڑی میں ریبیز کی تصدیق

    امریکی رکن کانگریس اور صحافی کو کاٹنے والی لومڑی میں ریبیز کی تصدیق

    واشنگٹن: امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک لومڑی میں ریبیز کی تصدیق ہوگئی، اس لومڑی نے رکن کانگریس سمیت 9 افراد کو کاٹا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں کانگریس کی ایک رکن سمیت 9 افراد کو کاٹنے والی لومڑی میں باؤلے پن کے وائرس (ریبیز) کی تصدیق ہوئی ہے۔

    محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ خلیوں کے نمونوں کے لیبارٹری تجزیے میں لومڑی میں ریبیز کی موجودگی ثابت ہوگئی ہے۔

    امریکی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ امریکا میں ہر سال انسانوں کو اس وائرس کے لاحق ہونے کے اوسطاً 1 سے 3 واقعات پیش آتے ہیں۔

    ریبیز وائرس کے منتقل ہونے کی عام وجہ کسی جانور کا اس طرح کاٹنا ہے کہ انسانی جلد میں چھید ہو جائے۔

    سنہ 2009 سے 2019 کے درمیان سامنے آںے والے 25 کیسز میں سے زیادہ تر میں لوگوں کو چمگادڑوں، کتوں اور ریکونز (خرسکوں) سے یہ وائرس منتقل ہوا، تاہم ان واقعات میں لومڑی کا ذکر کہیں نہیں تھا۔

    واشگنٹن میں موجود ڈی سی ہیلتھ کا کہنا ہے کہ ہمارا شعبہ ان سب لوگوں سے رابطہ کر رہا ہے جنہیں لومڑی نے کاٹا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ لومڑی میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق کے لیے نمونے لیے گئے ہیں لیکن اس سے پہلے لومڑی کو انتہائی احتیاط سے بے ہوش کیا گیا۔

    اس لومڑی کے حملے کا نشانہ بننے والوں میں کانگریس کی رکن ایمی بیرا بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی تصویر بھی شیئر کی تھی جس میں لومڑی کے کاٹے کا نشان واضح تھا۔

    لومڑی کے کاٹنے کے بعد ایمی بیرا کو ٹیٹنس اور باؤلے پن سے حفاظت کے لیے ویکسین لینا پڑی، سات دیگر افراد کے علاوہ اس لومڑی نے ایک صحافی کو بھی نشانہ بنایا اور ان کی ایڑھی کو پیچھے سے کاٹا۔

  • پاکستان میں ہر سال ریبیز سے ہزاروں اموات رپورٹ

    پاکستان میں ہر سال ریبیز سے ہزاروں اموات رپورٹ

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات ویکسین کی عدم فراہمی اور حکومتی اداروں کی غفلت ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 56 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ محض کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ بندر، ریچھ یا بلی کے کاٹنے سے بھی ریبیز ہوسکتا ہے تاہم کتے کے کاٹنے سے اس کا تناسب 99 فیصد ہے۔

    ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے مریضوں کو اپنے ہی ہاتھوں تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے
    نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تب تک یہ مرض لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں ہر سال ریبیز کی وجہ سے 2 سے 5 ہزار اموات ہوتی ہیں، تاحال اس بیماری اور اس سے ہونے والی اموات سے متعلق معلومات کو حکومتی سطح پر جمع نہیں کیا گیا۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

    عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات ویکسین کی عدم فراہمی اور حکومتی اداروں کی غفلت کو قرار دیا ہے۔

  • کتے کے کاٹنے سے 22 سالہ نوجوان ریبیز کا شکار

    کتے کے کاٹنے سے 22 سالہ نوجوان ریبیز کا شکار

    کراچی: صوبہ سندھ میں کتے کے کاٹنے سے ہونے والی جان لیوا بیماری ریبیز کا ایک اور کیس رپورٹ ہوا ہے جس کے بعد 22 سالہ مریض کو جناح اسپتال میں داخل کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ نور خان کو 45 دن پہلے کتے نے کاٹا تھا، کتے نے نور خان کے ہاتھ اور کہنی پر کاٹا تھا۔

    ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ نور خان نے اینٹی ریبیز ویکسین نہیں لگوائی، ویکسین نہ لگوانے سے جان لیوا مرض ریبیز ڈویلپ ہوگیا۔

    22 سالہ نور خان کا تعلق سندھ کے علاقے کوٹری سے ہے جسے ریبیز رپورٹ ہونے کے بعد اسپتال میں داخل کرلیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ جناح اسپتال میں اب تک کتے کے کاٹے کے 8 ہزار 650 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں، جناح اسپتال میں جان لیوا مرض ریبیز کا یہ آٹھواں کیس ہے۔

  • سندھ میں آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے 75 کروڑ روپے کا منصوبہ

    سندھ میں آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے 75 کروڑ روپے کا منصوبہ

    کراچی: صوبہ سندھ میں آوارہ کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا، منصوبے میں کتوں کو کنٹرول کرنے اور کاٹنے سے روکنے کے لیے جدید طریقے استعمال کیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں 18 لاکھ آوارہ کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا، منصوبے کے تحت 75 کروڑ روپے سے زائد رقم سے انڈس اسپتال کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔

    جاری کردہ دستاویزات کے مطابق محکمہ بلدیات نے ریبیز کنٹرول پروگرام کا نیا منصوبہ منظور کرلیا ہے، آوارہ کتوں کو ویکسین، چپ اور ٹیگ سمیت دیگر مد میں 75 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔

    دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 18 لاکھ کتوں کی آبادی میں 40 فیصد بچے، 35 فیصد مادہ اور 25 فیصد نر کتے ہیں، آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے 80 ڈاکٹر بھی بھرتی ہوں گے۔

    آوارہ کتوں کو لگائی جانے والی ویکسین کا 3 سال تک اثر ہوگا، منصوبے میں کتوں کو کنٹرول کرنے اور کاٹنے سے روکنے کے لیے جدید طریقے استعمال کیے جائیں گے۔

  • ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ہر سال 59 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے سنہ 2030 تک ریبیز سے ہونے والی اموات کا خاتمہ ممکن بنانا۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ محض کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ بندر، ریچھ یا بلی کے کاٹنے سے بھی ریبیز ہوسکتا ہے تاہم کتے کے کاٹنے سے اس کا تناسب 99 فیصد ہے۔

    ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے مریضوں کو اپنے ہی ہاتھوں تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تب تک یہ مرض لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے اور ہر سال ملک میں ریبیز کی وجہ سے 2 ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

    عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات میں جدید ویکسین کی عدم فراہمی اور سیاسی عوامل کو قرار دیا ہے۔

  • سندھ میں کتے کے کاٹے سے نوجوان لڑکی کی دردناک موت

    سندھ میں کتے کے کاٹے سے نوجوان لڑکی کی دردناک موت

    تھرپارکر: سندھ کے ضلع تھرپارکر کے سرکاری اسپتال میں کتے کے کاٹے سے ایک نوجوان لڑکی نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں رے بیز کے باعث ہونے والی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے، تھرپارکر کے سرکاری اسپتال میں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے پر 15 سالہ لڑکی صائمہ جاں بحق ہو گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے نمایندے کے مطابق صائمہ بنت دین محمد نہڑیو کو تشویش ناک حالت میں سِول اسپتال مٹھی لایا گیا تھا، جہاں ریبیز کا انجیکشن موجود نہ ہونے پر لڑکی نے تڑپ تڑپ کردم توڑ دیا۔

    جاں بحق ہونے والی لڑکی کے لواحقین نے مٹھی کے اسپتال کے احاطے میں لاش رکھ کر انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاگل کتے کے کاٹنے سے نوجوان جاں بحق

    واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں کتے کے کاٹے سے مرنے والوں کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔ تین دن قبل جناح اسپتال کراچی میں ضلع جامشورو کے علاقے نوری آباد میں واقع گاؤں جیوا خان گوٹھ کا ایک رہایشی نوجوان بھی تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہو گیا تھا۔

    سینئر ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ مریض کو جب جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں لایا گیا تو اسے ریبیز کی بیماری لاحق ہو چکی تھی۔ بعد ازاں اس نے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دم توڑا۔

    ادھر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے چند دن قبل میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ ریبیز کے لیے ویکسین موجود ہے، سندھ کے ہر اسپتال میں اینٹی رے بیز ویکسین دستیاب ہے۔

  • کراچی: کتے کے کاٹے سے 11 سال کا ایک اور بچہ انتقال کر گیا

    کراچی: کتے کے کاٹے سے 11 سال کا ایک اور بچہ انتقال کر گیا

    کراچی: سندھ میں کتے کے کاٹے سے ہونے والی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے، آج 11 سال کا ایک اور بچہ کتے کے کاٹے کا شکار ہو کر چل بسا۔

    تفصیلات کے مطابق این آئی سی ایچ کے سربراہ ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ بچے کا تعلق سندھ کے شہر چھاچھرو سے تھا، بچے کو 29 اکتوبر کو اسپتال لایا گیا تھا، جہاں وہ دوران علاج انتقال کر گیا۔

    ڈاکٹر جمال رضا کے مطابق بچے کو 25 روز پہلے کتے نے کاٹا تھا، بچے کو مقامی سطح پر ابتدائی ویکسین بھی لگائی گئی تھی، تاہم وہ جاں بر نہ ہو سکا اور دم توڑ گیا۔

    واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں کتے کے کاٹے سے مرنے والوں کی تعداد 21 ہو گئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کراچی: پاگل کتے کے کاٹنے سے خاتون جاں بحق

    دریں اثنا، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریبیز کے لیے ویکسین موجود ہے، سندھ کے ہر اسپتال میں اینٹی رے بیز ویکسین دستیاب ہے، جہاں تک بات عباسی شہید اسپتال کی ہے تو وہ سندھ حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ہے جو نیو کراچی میں ویکسین کی عدم موجودگی کے حوالے سے انکوائری کر کے وجوہ کا تعین کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موسم سرما میں رے بیز کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔

    کتے مارنے کی مہم پر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتیں کیوں کہ کتا مار مہم چلانا لوکل حکومت کا کام ہے۔