Tag: ریحان خان

  • بھارت کا انکار، پاکستان کا سخت موقف، آئی سی سی مشکل کا شکار؟

    بھارت کا انکار، پاکستان کا سخت موقف، آئی سی سی مشکل کا شکار؟

    بالآخر بھارتی مکر و فریب کی بلی تھیلے سے باہر آہی گئی اور چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد سے صرف 100 دن قبل بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو اپنی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا، گو کہ بھارت کے سابقہ کھیل سے کھلواڑ کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ 100 فیصد متوقع تھا لیکن پی سی بی حکام نے نجانے کیوں ہٹ دھرم بھارت سے پھر امید باندھ لی تھی۔

    بھارت جو بڑا اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا ملک ہونے کا فائدہ اٹھا کر کئی دہائیوں سے کرکٹ پر اپنے تسلط کا خواب دیکھتا آیا ہے۔ اس کے لیے کبھی بگ تھری کا فلاپ فارمولا لاتا ہے، تو کبھی پیسوں کی چمک پر دیگر بورڈز کو اپنے مفادات پر مبنی فیصلے کرنے پر مجبور کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، لیکن پاکستان پر اس کا زور نہیں چلتا تو وہ کرکٹ میں سیاست لا کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ہر دم مصروف رہتا ہے۔ اب تو کچھ دن بعد جب بھارت کے جے شاہ آئی سی سی چیئرمین کی کرسی سنبھال لیں گے تو وہ بھارت کے خود ساختہ کرکٹ سپر پاور بننے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر چاہے اس کے لیے جنٹلمین کا کھیل کہلانے والی ’’کرکٹ‘‘ کا حلیہ کتنا ہی کیوں نہ بگڑ جائے وہ آخری حد تک جائیں گے۔

    چیمپئنز ٹرافی 2025 اردو خبریں

    سری لنکن ٹیم پر 2009 میں لاہور میں ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ پاکستان سے روٹھ گئی تھی۔ حکومت اور پاک فوج کے اقدامات سے دہشتگردی کے خاتمے کے بعد ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ سمیت تمام ٹیمیں پاکستان آکر اور پرسکون ماحول میں کئی بار کرکٹ کھیل کر جا چکی ہیں۔ پاکستان کو آئی سی سی ایونٹ کی 1996 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے 28 سال بعد چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی۔ اس دوران 2011 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کو سری لنکا ٹیم پر حملے کا واقعہ ہڑپ کر گیا۔

    پاکستان آئندہ برس 19 فروری سے 9 مارچ تک کھیلی جانے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا صرف میزبان ہی نہیں بلکہ دفاعی چیمپئن بھی ہے، تاہم چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملنے کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے آئے روز بلیو شرٹس کے پاکستان نہ آنے اور ایشیا کپ کی طرح یہ ایونٹ بھی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کسی دوسرے ملک کھیلنے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا، جو دراصل بھارت کا پرانا مگر اوچھا ہتھکنڈا ہے اور اس کا مقصد پاکستان کے ساتھ آئی سی سی کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔

    ایک جانب بھارت ہے جو میں نہ آؤں کی رٹ لگایا ہوا ہے۔ دوسری جانب دو طرفہ کرکٹ تعلقات منقطع ہونے کے باوجود پاکستان جذبہ خیر سگالی کے طور پر اس مدت میں تین بار پاکستان کا دورہ کرچکا اور انتہا پسند ہندوؤں کی سنگین دھمکیوں کے باوجود وہاں کھیل چکا ہے جب کہ بھارت نے گزشتہ سال ایشیا کپ کو ہائبرڈ ماڈل کے تحت کرا کے ایونٹ کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ اس پر پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی آئی سی سی سے شکایت کی تھی۔ بھارت جس نے سیکیورٹی کا بہانہ بناتے ہوئے ٹیم بھیجنے سے انکار کیا۔ پاکستان پہلے ہی اسے ہر طرح کی ضمانت، تمام میچز لاہور حتیٰ کہ میچ کھیل کر واپس امرتسر جاکر قیام کرنے کے آپشن بھی دے چکا ہے۔ اس صورت میں اس کا یہ رویہ سراسر ہٹ دھرمی ہی کہا جائے گا۔

    بھارتی ہٹ دھرمی کے بعد اب پاکستان بھی چیمپئنز ٹرافی اپنے ہی ملک میں کرانے کے اصولی موقف پر ڈٹ گیا ہے اور حکومت پاکستان کی ہدایت پر آئی سی سی کو خط لکھ کر ہائبرڈ ماڈل کا آپشن یکسر مسترد کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے پاکستان نہ آیا تو پھر پاکستان کہیں بھی اور کسی بھی ٹورنامنٹ میں بھارت سے نہیں کھیلے گا۔ پی سی بی کا یہ جرات مندانہ موقف ہے اور پاکستان یہ موقف اپنانے پر حق بجانب ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ پاکستان چیمپئینز ٹرافی مائنس بھارت کرانے اور اس کی جگہ کسی اور ٹیم (سری لنکا) کو مدعو کرنے کے آپشن پر بھی غور کر رہا ہے۔

    یہ تمام ارادے اور اقدامات خوش کن، مگر جب اس کہے پر من و عن عملدرآمد ہو سکے تو۔ کیونکہ عوام اس معاملے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ان کے ذہنوں سے یہ محو نہیں ہوا کہ جب ایک سال قبل بھی ایشیا کپ کے لیے جب بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کیا، تو ہمارے اس وقت کے بورڈ سربراہ نے بھارت کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ہائبرڈ ماڈل کو بالکل مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کا اعلان تک کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارتی ٹیم تو اپنے کہے کے مطابق پاکستان نہیں آئی لیکن پاکستان اپنے کہے پر قائم نہ رہ سکا۔ ایشیا کپ بھارت کی فرمائش پر ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیل کر ایونٹ کا بیڑا غرق کیا گیا، جس کا سراسر فائدہ صرف بھارت کو ہوا، جب کہ اس کے بعد گرین شرٹس خوشی خوشی ورلڈ کپ کھیلنے بھارت بھی چلے گئے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ وہاں سے خوشی کے بجائے ایک نئی ہزیمت ساتھ لے کر آئے۔

    بھارت بے شک بڑا اور کماؤ پوت بورڈ اور اب، آئی سی سی جس کا جھکاؤ پہلے ہی انڈیا کی طرف ہوتا ہے اس کا سربراہ بھی ایک بھارتی ’’جے شاہ‘‘ بن رہے ہیں، لیکن آئی سی سی کسی ایک ملک کی تنظیم نہیں بلکہ درجن بھر کے قریب کرکٹنگ ممالک کی تنظیم ہے۔ بھارت کا یہ مخاصمانہ رویہ پاکستان کے ساتھ تو شدید ہے، لیکن وہ وقت پڑنے پر کسی کو بھی نہیں بخشتا اور اپنے مفاد کے لیے ہر کرکٹنگ ملک کے مقابلے پر اتر آتا ہے۔ یہ وقت کرکٹ ڈپلومیسی کا ہے کہ پاکستان بھی اپنے تُرپ کے پتّے کھیلے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے ستائے دیگر کرکٹ بورڈز کو اپنے اصولی موقف پر قائل کرکے بھارت کی کرکٹ میں سیاست گردی کے ذریعے داداگیری کے فتنے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے۔

    آئی سی سی کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 1996 اور 2003 کے ون ڈے ورلڈ کپ اور 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کی مثالیں موجود ہیں۔ 1996 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا تھا، تب آئی سی سی نے انکار واک اوور دینے والی ٹیموں کے میچز کے پوائنٹس حریف سری لنکا کو دیے تھے۔ یہی فارمولا 2003 کے ورلڈ کپ میں اس وقت بھی لاگو کیا گیا، جب نیوزی لینڈ، کینیا اور انگلینڈ نے زمبابوے جا کر اپنے میچز کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں زمبابوے کی ٹیم کو انگلینڈ کی جانب سے ویزے دینے سے انکار کے بعد اس کی جگہ اسکاٹ لینڈ کو شامل کیا گیا تھا۔

    پاکستان اگر واقعی اپنے موقف پر ڈٹ جاتا ہے، تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی خاصی تشویش کی بات ہوگی کیونکہ بھارت نے 2024 سے 2031 کے درمیان 4 آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کرنی ہے، جن میں 2025 میں ویمنز کا ورلڈ کپ، 2026 میں ٹی 20 ورلڈ کپ، 2029 میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی اور 2031 میں ون ڈے ورلڈ کپ شامل ہیں۔ آئی سی سی پہلے ہی 2027 تک 3.2 بلین ڈالر کی خطیر مالیت کے نشریاتی حقوق حاصل کرچکا ہے۔ اگر پاکستان آئی سی سی کے ان ٹورنامنٹس سے دستبردار ہو جاتا ہے تو براڈ کاسٹنگ ریونیو رائٹس کی ویلیو کم ہو گی اور آئی سی سی سے تمام بورڈز کو ملنے والی آمدنی پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ اگر پاکستانی حکومت بھی بھارت کو اسی زبان میں جواب دیتے ہوئے اپنی ٹیم کو بھارت کا سفر کرنے کی اجازت نہ دینے کی پالیسی اپنائے تو آئی سی سی کو مالی بحران سے بھی نمٹنا پڑسکتا ہے۔

    پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ یہ آئی سی سی کے خزانے بھرنے والا ملک ہے۔ پاک بھارت ٹاکرا آئی سی سی کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے جس سے اگر پاکستان نکل جاتا ہے تو پھر یہ ٹاکرا آئی سی سی کے خزانے سے ٹکرا کر بھارت اور آئی سی سی کے مفادات کو بھی پاش پاش کر سکتا ہے۔ پاکستان بلا خوف و خطر اور دو ٹوک فیصلہ کرے اور ہر جگہ کھیلنے سے انکار کر دے تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی بڑا خطرہ ہوگا کیونکہ ایک پورا ایونٹ اتنا منافع بخش نہیں ہوتا جتنا، اس ایونٹ کا ایک پاک بھارت میچ جس پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان ہمت کرے اور عملی قدم اٹھائے تو آئی سی سی ضرور مداخلت کر کے بھارت کو مجبور کر سکتا ہے۔

    (یہ بلاگر/ مصنّف کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • نواز شریف اور قاضی فائز عیسٰی کی آمد و رخصت میں مماثلت اتفاقیہ یا۔۔۔۔؟

    نواز شریف اور قاضی فائز عیسٰی کی آمد و رخصت میں مماثلت اتفاقیہ یا۔۔۔۔؟

    نواز شریف وطن آئے اور ایک سال پانچ دن پاکستان میں قیام کے بعد 26 اکتوبر کو پھر لندن چلے گئے۔ اسی روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے اور فیملی کے ہمراہ لندن جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ ن لیگ کے مطابق وہ معمول کے چیک اپ کے لیے لندن گئے ہیں اور کچھ عرصے بعد وطن واپس آ جائیں گے جب کہ قاضی فائز عیسیٰ کو ان کی درس گاہ نے بطور خاص تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہم بھی یہی حسن ظن رکھتے ہیں، لیکن زباں بندی کے اس دور میں سوشل میڈیا کی بے لگام زبان تو سابق وزیراعظم کی آمد کے بعد اب روانگی کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی سے جوڑ رہی ہے۔

    تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے محترم نواز شریف کو 2019 میں ن لیگ کے مطابق انتہائی تشویشناک طبی حالت میں لندن لے جایا گیا تھا۔ اس وقت ان کی صاحبزادی مریم نواز اور پارٹی کی صف اول کی قیادت کے مطابق کئی سنگین بیماریاں لاحق تھیں، لیکن لندن کی فضا انہیں ایسی راس آئی کہ چار ہفتے کی اجازت کے باوجود وہ چار سال وہاں لگا کر آئے اور اس دورانیے میں وہ مکمل ہشاش بشاش دکھائی دیے۔

    لندن میں چار سالہ نادیدہ علاج سے ایسے صحتیاب ہوئے کہ جب گزشتہ سال 21 اکتوبر کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رنجہ فرمایا تو اس کے بعد سے اب تک انہیں کوئی بخار تو کیا تو کیا ایک چھینک بھی شاید نہیں آئی، ورنہ ہمارا میڈیا تو کسی لیڈر کی کھنکھارنے کی آواز کی بھی خبر بنا لیتا ہے اور پارٹی رہنما معمولی بیماری کو ملک کا سب سے بڑا بحران بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔

    خیر بات ہو رہی تھی مماثلت کی۔ نواز شریف جن پر ان کی پارٹی سابق پی ڈی ایم حکومت میں مسلسل وطن واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔ اس وقت حکومت بھی ان کی تھی اور فضا بھی سازگار لیکن نواز شریف کی جہاندیدہ آنکھوں نے شاید افق پر کچھ خطرات کے منڈلاتے بادل دیکھ لیے تھے تب ہی وہ اپنے بھائی کے وزیراعظم ہونے کے باوجود 16 ماہ تک وطن واپس آنے کی ہمت نہ کر سکے لیکن جیسے ہی قاضی فائز عیسی نے 17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اس کے کچھ دن بعد ہی نواز شریف کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ کا نہ صرف اعلان بلکہ انہوں نے تشریف لاکر پاکستان کو خود سے نواز دیا اور اس موقع پر ماضی میں ان کے دست راست محمد زبیر نے ببانگ دہل کہا کہ نواز شریف وطن واپسی کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہے تھے۔

    ن لیگ کے دوستوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کی آمد سے ان کی پارٹی کے تن نیم مردہ میں جان پڑے گی اور وہ پورے اختیار کے ساتھ الیکشن میں جیت کر حکومت بنائیں گے۔ لیکن ایسا لگا کہ نواز شریف کی تمام بیماریاں اور کمزوریاں رخصت ہوکر ن لیگ کے جسم میں سما گئیں اور ان کی آمد بھی ن لیگ کو 8 فروری کے متنازع الیکشن میں من چاہی دو تہائی اکثریت تو کیا سادہ اکثریت بھی نہ دلا سکے بلکہ نواز شریف جو مانسہرہ میں اپنی قومی اسمبلی کی نشست پی ٹی آئی کے ایک غیر معروف رہنما سے ہار گئے وہیں لاہور میں اپنے قلعے کے اندر وہ یاسمین راشد سے کیسے جیت پائے یہ سب پر عیاں ہے، بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ مشکل سے عزت بچ گئی یا پھر بچائی گئی۔

    الیکشن میں ن لیگ نے نعرہ دیا کہ پاکستان کو نواز دو، لیکن ووٹرز نے جس کو نوازا اس کو تو دیوار کے کنارے لگا دیا گیا۔ جیسے تیسے حکومت بنی لیکن نواز شریف کا چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ ن لیگ کہہ رہی ہے کہ نواز شریف نے ازخود وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا تو یہ سیاسی حوالے سے ان کا بڑا فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں وزیراعظم کو ایک کٹھ پتلی کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

    ایک سالہ دورہ پاکستان میں اگر دیکھیں انہوں نے کیا حاصل کیا تو قصہ مختصر اپنے مقدمات ختم کراکے پارٹی کی باضابطہ قیادت سنبھالنے، الیکشن لڑنے اور وزیراعظم بننے کی راہیں ہموار کیں مگر سوائے ن لیگ کے صدر بننے کے ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اگر صدر نہ بھی بنتے تب بھی وہی ن لیگ کے سیاہ سفید کے مالک اور ہر فیصلہ ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ تاہم اپنی بیٹی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا کر انہوں نے مستقبل کی وزیراعظم کی تربیت شروع کی۔

    نواز شریف کی آمد کے بعد ہاں پاکستان کی عوام اتنی باشعور ہوگئی کہ اسے فارم 45 اور 47 کا فرق پتہ چل گیا جب کہ اس سے قبل وہ صرف بیلٹ پیپر کو ہی جانتی تھی جب کہ وہ انگلش میڈیم بچے بھی جو forurty five اور forurty seven سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن مادری زبان میں پینتالیس اور سینتالیس سے نابلد بھی وہ اس سے آشنا ہوگئے۔ ہاں ایک بات البتہ مخالفین نے غلط کی کہ نواز شریف کو 45 کی پیداوار قرار دے دیا جب کہ ان کی پیدائش 49 یعنی 1949 کی ہے۔

    نواز شریف اس دوران چاہتے تو اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غربت کی چکی میں پستی عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کرتے اور اپنا ناراض ووٹ بینک واپس لاتے لیکن اس کے بجائے انہوں نے سارا زور لفظی ریلیف کے بعد مجھے کیوں نکالا، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے، پاناما سے اقامہ تک کی گردان کرنے پر دیا۔ وہ مہنگی بجلی کا ذمے دار پی ٹی آئی اور عمران کو ٹھہراتے رہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ آئی پی پیزسب سے زیادہ کس کے دور حکومت میں لگائی گئیں اور ان کے تانے بانے کہاں کہاں جا کر ملتے ہیں۔

    نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد اتنا فائدہ نہیں اٹھایا، جتنا انہیں سیاسی طور پر نقصان برداشت کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی جو کئی سال سے پارٹی پالیسیوں سے نالاں اور آمادہ بہ تنقید تھے۔ قائد ن لیگ نے وطن واپسی کے بعد بھی ان کے گلے شکوے دور نہ کیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے نواز شریف کی پاکستان موجودگی میں علی الاعلان ن لیگ چھوڑ کر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی پارٹی بنا لی۔ ان کے دست راست اور سابق وزیراعلیٰ کے پی سردار مہتاب عباسی، ان کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر، سینئر رہنما آصف کرمانی نے بھی ن لیگ سے پکی کُٹّی کر لی۔

    اب نواز شریف لندن اور امریکا چلے گئے ہیں تو مخالفین نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور پی ٹی آئی کے منچلوں نے ایک سال سے رُکے احتجاج کا سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ نواز شریف امریکا سے واپسی پر یورپی ممالک بھی جائیں گے جب کہ جلد ہی ان کی صاحبزادی اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی لندن میں ان سے آن ملیں گے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی کا گھیراؤ کرنے کی بھی اطلاعات ہیں، جو یقینی طور پر ایک غلط اور قابل مذمت طرز عمل ہے۔ اس اقدام کے بعد پاکستان میں بھی ان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے حملہ آوروں کا شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ قاضی فائزعیسیٰ اور ہائی کمشنر کی گاڑی پر حملے پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ فوٹیجز کے ذریعے شناخت کرکے پاکستان میں بھی ایف آئی آردرج کرائی جائےگی۔ ہائی کمیشن نے برطانوی حکومت کو حملے کی شکایت کر دی ہے اور حملہ کرنے والے 9 افراد کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی جائے گی۔

    اطلاعات ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنی مادر علمی کی تقریب میں شرکت کے بعد وطن واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کا کہنا ہے کہ نواز شریف بھی چند ہفتوں میں وطن واپس آ جائیں گے لیکن پاکستان کی سیاست میں دھند اتنی چھائی رہتی ہے کہ بعض اوقات کہے پر بھی اس وقت تک یقین نہیں آتا جب تک وہ حقیقت میں ہو نہ جائے۔ پاکستان میں آج کل ڈیل کا شور اٹھ رہا ہے۔ حکومت اور اس کے حامی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی دو بہنوں کی ضمانتوں پر رہائی کو ڈیل قرار دے رہے ہیں جب کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں ڈیل والے لندن جاتے ہیں اور نواز شریف پہلے بھی چار ہفتوں کے لیے لندن گئے تھے چار سال لگا کر واپس آئے تھے جب کہ اب پھر لندن چلے گئے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، چند ہفتوں بعد کھل کر سامنے آ ہی جائے گی۔

    (یہ تحریر بلاگر/ مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • پاکستانی کرکٹ پنڈی میں ’’دفن‘‘ ہو گئی؟

    پاکستانی کرکٹ پنڈی میں ’’دفن‘‘ ہو گئی؟

    پاکستانی کرکٹ جو لگ بھگ ایک سال سے حالتِ نزع میں تھی، اب ہوم گراؤنڈ پر اپنے سے کہیں کمزور تصور کی جانے والی بنگلہ دیش کی ٹیم سے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش ہونے کے بعد شرمندگی کے مارے اپنی موت مَر چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ قوم کا پسندیدہ ترین کھیل پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں دفن ہو گیا ہے۔

    پاکستانی قوم جو آئے روز ملک میں سیاسی بے یقینی، بے روزگاری، مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے ساتھ سہولتوں کے فقدان کا رونا رونے پر مجبور ہے۔ اب بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کی ہاتھوں بھی اسے گہرا زخم لگا ہے جس کے بھرنے میں نجانے کتنے برس بیت جائیں، لیکن ہوم گراؤنڈ پر جو گرین شرٹس پر کلین سوئپ کا داغ لگ گیا ہے وہ کبھی صاف نہیں ہو سکے گا۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں 26 رنز پر 6 وکٹیں لے کر ڈرائیونگ سیٹ پر آنے والی پاکستانی ٹیم نے جس سہل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیتا ہوا میچ بنگلہ دیش کو دیا۔ اس نے شان مسعود کی قیادت کی صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھا دیا ہے اور شائقین کہہ رہے ہیں کہ کپتان کو صرف فرفر انگلش بولنا ہی نہ آتا ہو بلکہ وہ نہ صرف بیٹنگ میں مین فرام دی فرنٹ کا کردار ادا کرے، بلکہ میدان میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور بروقت فیصلوں سے ٹیم کو مشکل صورتحال سے نکالے۔ کہہ سکتے ہیں کہ اب شان مسعود کی کپتانی کی کشتی بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔

    پہلے ٹیسٹ میچ میں شرمناک شکست کے بعد بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ پاکستان کے موجودہ کرکٹ ہیروز مختلف ٹکڑوں میں بکھری قوم کو جوڑ کر رکھنے والے اس کھیل کا وہ حشر کریں گے، کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ پہلے ٹیسٹ میچ پر ہی دنیا بھر کے کرکٹرز نے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر حیرت کا اظہار کیا تھا اور کچھ پڑوسیوں نے تو طنزیہ للکارا بھی تھا، لیکن ہمارے کرکٹرز کو پھر بھی غیرت نہ آئی اور انہوں نے ریڈ کارپٹ کی طرح خود کو مہمان بنگلہ ٹیم کے قدموں تلے بچھا دیا۔ میچ میں وائٹ واش سے بچنے کی واحد امید بارش تھی جس کی آخری دن پیشگوئی تھی لیکن یہ تو خدا کا کہا ہے کہ’’وہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے‘‘ اور یہی پاکستانی کرکٹ ٹیم پر لاگو ہونا تھا۔

    بنگلہ دیش وہ ٹیم ہے جس کو ہماری مرہون منت 23 سال قبل ٹیسٹ کرکٹ ملک کا اسٹیٹس ملا تھا۔ ان 23 سالوں میں وہ کہاں سے کہاں چلے گئے اور ہم کہاں سے کہاں آن گرے، یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ مہمان ٹیم نے دونوں ٹیسٹ میچوں میں ہماری بیٹنگ اور بولنگ کو بری طرح ایکسپوز کیا اور بہترین کرکٹ کھیلتے ہوئے پہلے پاکستان کو پہلی بار ٹیسٹ میچ میں ہرانے کی خوشی پائی اور پھر اسی کی سر زمین پر وائٹ واش کرنے کا تاریخی کارنامہ انجام دے کر ثابت کر دیا کہ صرف نام یا شہرت نہیں بلکہ محنت ہی کامیابی کی اصل کنجی ہے اور اس کارکردگی پر بنگلہ دیش کی ٹیم قابل داد وتحسین ہے۔

    پاکستان نہ پہلی بار ٹیسٹ سیریز ہارا ہے اور نہ ہی پہلی بار وائٹ واش کی خفت سے دوچار ہوا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکستوں کا سلسلہ افغانستان سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست، ورلڈ کپ میں شکست، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکا سے شکست کے بعد اب بنگلہ دیش نے اذیت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ پاکستان کو اپنی سر زمین پر ٹیسٹ سیریز جیتے ڈھائی سال سے زائد عرصہ بیت گیا اور مسلسل 10 ٹیسٹ میچوں سے جیت کا مزا نہیں چکھا جب کہ اس دوران باہمی سیریز سوائے آئرلینڈ کے کسی سے نہیں جیتے۔ آئرلینڈ سے بھی ہارتے ہارتے ہی جیتے تھے۔

    تاہم بنگلہ دیش سے یہ ہار ان معنوں میں بہت اہم اور سبق آموز ہونے کے ساتھ غور و فکر کے کئی در وا کرتی ہے، کہ جو ٹیم آج سے ڈیڑھ، دو سال قبل فتح کی ٹریک پر چل رہی تھی۔ ون ڈے، ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں ٹاپ یا ٹاپ 5 میں شامل تھی۔ کھلاڑیوں کی رینکنگ قابل فخر تھی اور بیک وقت آئی سی سی کے تین تین انفرادی اعزازات ہمارے کھلاڑیوں کے حصے میں آ رہے تھے تو اچانک ایسا کیا ہوا کہ فتوحات نے یوٹرن لیا اور پھر مسلسل شکستیں پاکستان کرکٹ کا مقدر بن گئیں اور یہ وہ ٹیم بن گئی جس کے شاہین نے بلند پروازی چھوڑ دی اور کنگ نے گرج کر مخالفین کو تر نوالہ بنانا ترک کر دیا۔

    بات کچھ پرانی مگر ہے حقیقت، کہ ٹیم میں ایک ہی قائد ہوتا ہے جو ٹیم کو لے کر چلتا ہے، جب تک ٹیم میں ایک قائد رہا تو ٹیم متحد اور فتوحات کے جھنڈے گاڑتی رہی لیکن جیسے ہی گزشتہ سال نجم سیٹھی نے بابر اعظم کی کپتانی پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا۔ آرام دے کر افغانستان کے خلاف شاداب خان کو کپتانی دی، پھر کپتانی کی کھینچا تانی کا جو چیئر گیم شروع اور متحد کھلاڑیوں کو عہدے کے لالچ میں منتشر کیا گیا اس نے ٹیم کو اس نہج پر پہنچایا۔ دیگر ٹیموں میں بھی قیادت تبدیل ہوتی ہے مگر وہاں وقار کے ساتھ یہ عہدہ دیا اور لیا جاتا ہے، لیکن یہاں بابر اعظم، شاہین شاہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، پھر اس دوڑ میں رضوان کا نام لایا گیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا تو نہیں۔ ایسے میں دوستی اگر دشمنی میں تبدیل نہ بھی ہو تو مفادات کے ٹکراؤ میں خلش تو پڑ جاتی ہے جو بعد ازاں دراڑ کی صورت کسی ہلکے سے طوفان میں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے۔

    جب پاکستان کرکٹ بورڈ ہی پورا سیاست اور مفادات کے تحت چلایا جا رہا ہو، تو اس کے ماتحت کھیلے جانے والے کرکٹ میں کیوں مفادات کے در وا نہ ہوں گے اور پی سی بی میں عہدوں کی بندر بانٹ کے لیے سیاست ہو رہی تو پھر کرکٹرز کیسے اس سے اپنا دامن بچا سکتے ہیں۔ یہ آگ ہمیں پہلے بھی جلا چکی ہے لیکن اب اس کی شدت زیادہ ہے۔

    اس شکست سے پاکستان کے ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کی امید بھی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ جس طرح کا کھیل آج کل ہماری قومی ٹیم پیش کر رہی ہے ایسے میں ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار کی جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کی نجکاری کرنے کا مشورہ صائب لگتا ہے کہ بہت سے سرکاری اداروں کو خراب کارکردگی پر پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے تو پھر پی سی بی کی نجکاری بھی اسی امید کے تحت کر دی جائے کہ شاید نجی تحویل میں کارکردگی بہتر ہو جائے۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جس شرمناک طریقے سے پاکستان ٹیم پہلی بار پہلے راؤنڈ سے باہر ہوئی تھی، اگر اسی وقت پی سی بی چیئرمین محسن نقوی کی اعلان کردہ بڑی سرجری کر دی جاتی۔ تو آج شاید کرکٹ شائقین کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ لیکن نہ جانے کس مصلحت کے تحت اس بڑی سرجری کو صرف وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو ہٹانے تک محدود رہی جس سے لگا کہ کرکٹ کی تباہی کے ذمے دار یہی دو افراد تھے۔ اب بنگلہ دیش سے ہونے والی اس شکست کے بعد قوم منتظر ہے کہ زخموں سے چور چور کرکٹ ٹیم کی ایسی سرجری آخر کب ہوگی۔

    آج کا دن پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ یہ تو بنگلہ دیش سے حال ہوا ہے۔ آئندہ ماہ انگلینڈ کی ٹیم تین ٹیسٹ میچز کھیلنے پاکستان آ رہی ہے جب کہ قومی ٹیم ویسٹ انڈیز کی بھی اسی ٹیسٹ چیمپئن شپ سائیکل میں دو ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کرے گی۔ اگر کرکٹ کے سدھار کے لیے ایمرجنسی نافذ نہ کی گئی اور راست اقدام نہ اٹھائے گئے تو نتیجہ آسٹریلیا اور بنگلہ دیش سے ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ جیسا ہی نکلے گا

    لیکن یہ شکست بہت سارے سبق دے گئی ہے، اگر ہم ان نتائج سے عبرت حاصل کر لیں اور سنبھل جائیں تو جان لیں کہ رات کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، اندھیرے کا سینہ چیر کر ہی سورج نکلتا ہے اور پھر پوری آب وتاب سے اپنی روشنی سے دنیا کو منور کرتا ہے۔ قبل اس کے کہ زخموں سے چور چور کرکٹ کے زخم ناسور بن کر لا علاج ہو جائیں، اس کی جلد ایسی سرجری کی جائے کہ جس سے یہ مکمل شفا یاب ہوکر اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات اور تجزیہ پر مبنی ہے، جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • ڈاکو ہمارے عہد کے…

    ڈاکو ہمارے عہد کے…

    ایک زمانہ تھا کہ ڈاکو لوگوں کی نظروں سے دور پہاڑوں‌ اور غاروں میں رہتے تھے۔ لوگوں پر ڈاکوؤں کا ایسا خوف طاری رہتا کہ شام کے وقت گھروں سے باہر نہ نکلتے بلکہ اپنے بچوں کو ان ڈاکوؤں کا نام لے کر ڈرایا کرتے تھے، مگر ہمارے عہد کے ڈاکو نہ صرف اپنے موبائل فون سے اپنی تصویریں اور جدید اسلحے سے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے بے دھڑک اپنی ویڈیو بنواتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اپنے ‘کارنامے’ فخر سے شیئر بھی کرتے ہیں۔ کچے کے ایک ڈاکو نے تو اپنا یو ٹیوب چینل بنا کر اسے لائیک کرنے کی استدعا بھی کر دی ہے جس کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کچھ عرصہ قبل کچے کے ڈاکوؤں اور ان کے بچوں کو آئی ٹی کورس کرانے کی پیشکش بے سود دکھائی دیتی ہے۔

    پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں کا برسوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سندھ اور پنجاب کی سرحد پر کچے کا علاقہ پولیس کے لیے علاقہ غیر جبکہ ڈاکوؤں کی جنت کہلاتا ہے۔ ہر تھوڑے عرصے بعد ڈاکوؤں کے کسی ’’بڑے کارنامے‘‘ کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ کچھ کارروائیاں بھی ہوتی ہیں اور پھر معاملے پر مٹی ڈال کر ڈاکوؤں کے اگلے کسی ’’بڑے کارنامے‘‘ کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پنجاب کے کچے کے علاقے کچھ ماچکہ میں پیش آیا جہاں ڈاکوؤں نے پولیس پر حملہ کیا اور 12 اہل کاروں کو شہید کردیا۔ پنجاب پولیس نے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور الٹا صادق آباد پولیس کو اپنے مغوی اہلکار کی بازیابی کے لیے ڈاکوؤں سے ڈیل کرنا پڑی۔ پولیس نے قتل کے جرم میں سزایافتہ جبار لولائی کو جیل سے رہا کیا تو ڈاکوؤں نے مغوی پولیس اہلکار کو چھوڑا۔

    ڈاکوؤں کی اس بڑی کارروائی پر جب پولیس ان کی سرکوبی کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کر سکی تو ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے تک بڑھا دی لیکن اس فہرست میں شامل نمبر ون ڈاکو شاہد لوند کو ایسا اعتراض ہوا کہ اس نے براہ راست محکمہ داخلہ پنجاب کو فون کھڑکا ڈالا۔ پہلے یہ شکوہ کیا کہ میرا تو پولیس اہلکاروں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تو میرا نام اس فہرست میں کیوں شامل کیا؟ جنہوں نے پولیس اہلکاروں کو شہید کیا ان میں سے کسی کا نام اس فہرست میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ ڈاکو نے محکمہ داخلہ کے فون ریسیو کرنے والے اہلکار کو مفت مشورہ بھی دے دیا۔

    ڈاکو

    ابھی عوام ڈاکو کی اس دیدہ دلیری سے ہی محظوظ ہو رہے تھے کہ کچے کے ایک اور ڈاکو یار محمد لوند بلوچ نے اس سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنا یوٹیوب چینل لانچ کر دیا اور صارفین سے اس کو لائیک اور سبسکرائب کرنے کی جرات مندانہ فرمائش بھی کر دی۔

    اس ویڈیو کو دیکھ کر کچھ سوشل میڈیا صارفین محظوظ ہو رہے ہوں گے تو کئی نے تو توبہ استغفار پڑھتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لیے ہوں گے کہ اب یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ڈاکو سوشل میڈیا پر ‘ایکٹو’ ہوں گے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کیا ہوگا؟

    بات ہو رہی تھی کچے کے ڈاکوؤں کی، تو یہ کوئی سال دو سال پرانا قصہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے، جس میں گزرتے وقت اور سوشل میڈیا کی وجہ سے خاصی ترقی بھی ہوگئی ہے۔ اب تو ڈاکو ہنی ٹریپ کے اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ بزرگوں کو بھی دوسری شادی کا جھانسہ دے کر پھنسا لیتے ہیں۔ ایسے بزرگ یہ کہنا بھول جاتے ہیں کہ ’’کوئی مجھے دھوکا نہیں دے سکتا، میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔‘‘

    میڈیا پر یہ خبریں بھی آئیں کہ کچے کے یہ ڈاکو پکے کے وارداتیے ہیں جو جدید ترین اسلحہ رکھتے ہیں، جب کہ ان کی سرکوبی کے لیے جن پولیس ٹیموں کو بھیجا جاتا ہے، انہوں نے تو یہ جدید ہتھیار صرف ویڈیوز میں دیکھے ہوتے ہیں۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ان کی سرکوبی اس لیے نہیں ہوتی کہ انہیں بااثر افراد کے علاوہ خود پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کی سرپرستی اور بھرپور معاونت حاصل ہوتی ہے۔

    سیاست میں بھی ڈاکو اور چور کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور مخالفین کو لتاڑنے کے لیے اسی لفظ کو استعمال بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے تو تنقید کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ ’’یہ کچے کے ڈاکوؤں کو گولی مارتے ہیں، مگر پکے کے ڈاکوؤں کو کرسیوں پر بٹھاتے ہیں۔‘‘ اب پی ٹی آئی رہنما کا یہ اشارہ کس طرف تھا یہ تو اہل سیاست ہی جانیں ہم تو سیدھے سے کچے کے ڈاکوؤں کی طرف آتے ہیں۔

    1967 میں پاکستان میں محمد خان ڈاکو بہت مشہور ہوا تھا۔ اس پر قتل اور ڈکیتی کے 40 سے زائد مقددمات قائم تھے اور 6 بار سزائے موت سنائی گئی۔ محمد خان کو اس دور میں وادی سون کا ’’رابن ہڈ‘‘ بھی کہا گیا۔ یہ سات برس تک اپنے علاقے میں دہشت اور خوف کی علامت بنا رہا، لیکن مفرور قرار دیے جانے کے باوجود کھلی اور متوازی کچہریاں لگاتا تھا۔ اپنے مخالفین اور مخبروں کو قتل اور ناک و کان کٹوانے جیسی بدترین سزائیں دیتا تھا۔ اب یہی کچھ کچے کے ڈاکو بھی کر رہے ہیں کہ ہنی ٹریپ کے ذریعے نوجوان تو نوجوان، بزرگوں کو بھی دوسری شادی کا جھانسہ دے کر لوٹ لیتے ہیں، کچھ کو گاڑیوں اور جانوروں کی سستی فروخت کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسایا جاتا ہے، اور پھر ان پر تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کرکے یا ان کے رشتے داروں کو بھیج کر بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

    ویسے ڈاکو ہونا کوئی قابل فخر بات یا باعزت ذریعۂ روزگار تو نہیں لیکن پھر کیوں کچے کے ڈاکو بے موسم کی فصل اور خود رو پودوں کی طرح نمودار ہوئے جاتے ہیں اس کی تو ایک وجہ ہی سمجھ آتی ہے اور وہ ہے ہماری فلمیں۔

    اب آپ کہیں گے کہ فلم کیوں ڈاکو بناتی ہے تو جناب فلم ایک ایسا میدان ہے جس کی شہرت چہار گام ہے اور دنیا میں ناموری پانے کے لیے ہر کوئی پردہ سیمیں پر جگمگانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے دیوانے تو ’’ہر قسم کی قربانی‘‘ دینے سے دریغ نہیں کرتے تو پھر ڈکیتی تو ایسا پیشہ ہے جس میں فلم نہ بھی ملے، مگر دھن تو ملنے لگتا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں کئی فلمیں ڈاکوؤں پر بن چکیں جن میں سلطانہ ڈاکو، پھولن دیوی تو حقیقی کردار تھے لیکن فلمی کہانیوں میں ڈاکوؤں کے کردار بھی دکھائے گئے اور ان فلموں نے بھی بڑی شہرت پائی۔

    ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کی پنجابی فلم انڈسٹری پر گویا ڈاکو راج قائم تھا کیونکہ ہر 10 میں سے 7 یا 8 فلمیں ڈاکوؤں پر بنی ہوتی تھیں۔ ہدایتکار کیفی نے پنجابی زبان میں “محمد خان ڈاکو” کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی، جس میں سلطان راہی نے بدنام زمانہ محمد خان ڈاکو کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے مولا جٹ، ڈاکو راج، ملنگی، اچھا گجر، گجر دا کھڑاک، بہرام ڈاکو اور اس جیسی ان گنت فلمی دیکھیں۔ ان فلموں میں ڈاکوؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا اور خوبصورت ہیروئن کھیتوں میں بھاگتی اپنے ڈاکو عاشق کے گرد ناچتی پھرتی تھی۔ جب لوگ خوبصورت پری چہرہ خواتین کو یوں ڈاکوؤں پر مر مٹتے دیکھیں گے تو کس کا دل ہوگا جو ڈاکو بننے پر نہ مچلے۔ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اسی امید پر ڈاکو بنی ہو کہ کبھی تو کسی پروڈیوسر یا ہدایت کار کو جوش آئے اور وہ ان پر بھی ’’کچے کے ڈاکو‘‘ کے نام سے فلم بنا لے اور وہ بھی راتوں رات لوگوں کی نظر میں ڈاکو سے ہیرو بن جائیں۔

    ویسے تو اب کچے کے ڈاکوؤں کا کراچی سمیت کچھ شہری علاقوں میں گروپ بنا کر وارداتیں کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے لیکن اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا صرف کچے کے ڈاکو ہی قصور وار ہیں۔ عوام کو تو چہار جانب سے لوٹا جا رہا ہے لیکن بے چارے عوام ہیں کہ لب سی کر نہ جانے کس آس میں بیٹھے ہوئے ہیں، شاید وہ بھی کسی ایسے ڈاکو نما ہیرو کا انتظار کر رہے ہیں، جو انہیں ظلم سے نجات دلائے اور باقی سارے ڈاکوؤں کی چھٹی کردے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر خواب دیکھتے رہیں کہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔

  • خط بنام نواز شریف!

    خط بنام نواز شریف!

    محترم نواز شریف!

    طویل عرصے بعد گزشتہ دنوں آپ ٹی وی چینل پر ’’قوم سے خطاب‘‘ کے لیے جلوہ افروز ہوئے، ساتھ ہی آپ کی سیاسی وارث صاحبزادی اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی موجود تھیں۔ عوام کو مخاطب کرتے ہوئے، آپ نے جس معصومانہ انداز میں اور جس طرح غریب کے دکھ اور تکالیف کا احاطہ کیا، یقین جانیں وہ ہم سب کو بہت ہی بھایا۔

    جناب نواز شریف، آپ نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے گزشتہ ادوارِ حکومت کی بہترین کارکردگی پر بھرپور روشنی ڈالی۔ پھر یہ ذکر بھی کیا کہ عمران خان کی حکومت میں کس طرح آپ کے کارناموں پر مٹی ڈال کر ان کو ملیا میٹ کر دیا۔ یہ سب میٹھے میٹھے لفظوں‌ میں گوش گزار کرنے کے بعد آپ نے اپنی باتوں کا رُخ ہماری یعنی عوام کی جانب کیا۔ پھر آپ کے منہ سے غریب عوام کی پریشانیوں اور بالخصوص بجلی بلوں کے باعث ہونے والی عوامی مشکلات کا ایسا سیلاب امڈا کہ ہم آپ کی اس عوامی ہمدردی کے سیلاب میں بہہ گئے۔ جب اس کے ازالے کے لیے آپ نے اپنے بھائی کی مرکز اور پھر پنجاب میں اپنی بیٹی کی حکومت کی کوششوں کا ذکر کیا، تو ہمیں ایک امید ہو چلی کہ آج عوام کے لیے حقیقی ریلیف کا اعلان ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوا کہ آپ نے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 14 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت کم کرنے کا اعلان کیا۔ ابھی آپ کی ان نوازشات پر دل پوری طرح جھوما بھی نہ تھا کہ آپ کی یہ بات برسات کے موسم میں کسی آسمانی بجلی کی طرح ہم پر گری کہ اس ریلیف کے حقدار صرف پنجاب کے لوگ ہوں گے۔

    محترم ایک لمحے کو ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ چلو پنجاب بھی پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں کے رہنے والے بھی پاکستانی ہی ہیں، دل کو تسلی دی کہ دائمی نہیں، دو ماہ کے لیے ہی صحیح، ملک کے کسی حصے میں ہم غریبوں کی اشک شوئی تو ہوئی، لیکن دل کے ساتھ دماغ بھی ہمارا بچّہ ہو چکا کہ ایک ساتھ کئی چبھتے سوال نما متضاد خیالات ذہنوں میں کلبلانے لگے اور گستاخی معاف ہم آپ سے یہ سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہے ہیں۔

    آپ ایک بار پنجاب کے وزیراعلیٰ اور تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے، یہ وہ اعزاز ہے جو آج تک پاکستان کے کسی سیاستدان کو نہیں مل سکا۔ محترم آپ کو ایک بار تو وزیر اعلیٰ صرف پنجاب کے عوام کے ووٹوں نے بنایا، مگر تین بار جو آپ وزیراعظم بنے تو یہ پورے ملک کے عوام نے بنایا تھا اور وزیراعظم کا منصب بھی پورے ملک کے لیے ہوتا ہے۔ اب آپ کے پاس وزارت عظمیٰ کا منصب نہیں، لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور اصل معنوں میں وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے کرتا دھرتا تو آپ ہی ہیں جناب۔

    محترم! ملک بھر کے عوام مہنگی سبزی، گوشت، اجناس، گیس، پٹرول اور مختلف جہتوں میں ہونے والی مہنگائی کے ساتھ دنیا کی مہنگی ترین بجلی خرید رہے ہیں لیکن آپ کی نظر کرم صرف پنجاب کے عوام پر ہوئی۔ یہ اعلان اگرچہ ایک حد تک قابل ستائش ہے لیکن صرف پنجاب کی حد تک ریلیف کا اعلان ٹی وی پر آ کر کرنا آپ کے شایان شان نہیں۔ آپ خود کو ملک بھر کے ’’کروڑوں عوام کے دلوں کی دھڑکن اور امید‘‘ قرار دیتے ہیں۔ تین بار کے سابق وزیراعظم اور پارٹی کے صوبائی سطح کے نہیں بلکہ بانی اور کرتا دھرتا ہیں، آپ کی جانب سے صوبائی سطح پر ریلیف کا اعلان سیاسی قد کاٹھ کو گھٹانے کی بات ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ مخالفین جو ہمیشہ موقع ڈھونڈتے ہیں وہ اس حوالے سے ہرزہ سرائی ضرور کریں گے۔ یہ اعلان جو بذات خود ایک بڑا اعلان تھا اگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے ساتھ وزرا کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوکر کرتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ بھی تو اصل میں آپ کا ہی چہرہ ہیں۔

    بات چل رہی تھی پنجاب اور ملک کے غریب عوام کی اور کہاں پہنچ گئی، لیکن مسائل اتنے ان گنت ہیں کہ جس طرح حکومت کی گاڑی اپنے ٹریک پر نہیں آتی، اسی طرح آج ہمارا قلم ایک ٹریک پر نہیں آ رہا، بہرحال قضیے کی طرف چلتے ہیں۔

    جناب منہ پر آ ہی گئی ہے تو کہتے چلیں کہ صرف پنجاب کے عوام ہی غریب نہیں ملک کے 98 فیصد عوام جن کا تعلق پنجاب کے ساتھ سندھ، کے پی، بلوچستان، جی بی، کشمیر سے ہے سب غریب ہیں۔ کشمیر والوں نے تو سڑکوں پر نکل کر مہنگائی سے جان چھڑا لی، لیکن شاید باقی علاقوں کے رہائشی ایسا دل گردہ نہیں رکھتے کہ بغیر کسی سیاسی چھتری تلے صرف اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکل کر اپنا حق لے سکیں اور وہ صرف آپ اور دیگر سیاستدانوں کے خوش نما لفظوں کے ہیر پھیر کے طلسم کا انتظار کرتے ہیں کہ جیسے ہی عوامی ہمدردی کے بیان جاری ہوں، تو وہ اس کے سحر میں کھو جائیں اور اپنا موجودہ حال بھلا کر مست ملنگ بن جائیں۔

    ہم عوام جو پہلے ہی آپ کی صاحبزادی اور حلیف جماعتوں کے سربراہان کی جانب سے رواں سال الیکشن سے قبل تک 300 یونٹ تک مفت بجلی اور آدھی قیمت پر بجلی فراہمی کے پر فریب نعروں کے ڈسے ہوئے ہیں اور آپ کو ووٹ دینے والوں کی اکثریت نے بھی یہی خواب آنکھوں میں سجا کر ووٹ دیا ہوگا کہ کچھ نہیں مفت بجلی تو ملے گی، لیکن آپ کے حلیفوں اور سیاسی وارثوں نے تو وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا، کے مصداق کیا۔ پہلے ہی آپ کے بھائی کی ڈیڑھ پونے دو سالہ حکومت نے ہم غریبوں کا کچومر نکال دیا تھا اور بجلی مفت کرنے کا لالی پاپ دینے کے بعد موجودہ حکومت میں مہنگائی کا گراف جس طرح بڑھا اور جس برق رفتاری سے بجلی کے بل بڑھائے گئے اس سے تو رہا سہا خون بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔

    جناب اعلیٰ! عوام جہاں سیاستدانوں کے عوامی ہمدردی کے بیانات سن سن کر اور حقیقت حال اس کے برعکس دیکھ دیکھ کر پہلے کی اکتائی بیٹھی ہے اور اس پر متضاد آپ ہی کی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے یہ اقوال زریں جیسے بیانات ’’ایک روٹی چار بھائی تقسیم کر کے کھالیں یا قوم چائے کی ایک پیالی پینا کم کر دے‘‘ کے بالکل الٹ اسی حکمراں اور مقتدر اشرافیہ کے اللوں تللوں اور بے جا مراعات دیکھ کر ان کا سیاستدانوں پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ اس صورتحال عارضی یا مخصوص لوگوں کو ریلیف ان میں احساس محرومی کے ساتھ غم وغصے کو بھی بڑھا دے گا اور حالات خدانخواستہ کنٹرول سے باہر ہوئے، تو یہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

    اس وقت حالت یہ ہے کہ پوری قوم کا پیمانۂ صبر چھلک رہا ہے، ملک میں مہنگائی کا طوفان بدتمیزی پوری طرح سے محو رقص ہے۔ شہباز شریف تو صرف کرسی پر براجمان ہیں۔ ان کی صورت میں ہم پر اصل حکومت تو ’’آپ‘‘ ہی کی ہے، تو ہمارے حکمرانوں کو صورتحال کا پورا احساس ہونا چاہیے۔ آپ کے سیاسی منصب اور قامت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے بھی ملک بھر کے عوام کو اسی طرح کا بجلی بلوں میں ریلیف اور مستقل بنیادوں پر دلوائیں۔ جو ریلیف دو ماہ کے لیے ہو سکتا ہے، ہماری اشرافیہ، بیورو کریٹس کی غیر ضروری اور بے تحاشا مراعات ختم کر کے بھی غریب عوام کو مستقبل بنیادوں پر دیا جا سکتا ہے۔ گیند اب بھی آپ کی کورٹ میں ہے۔

    طالبِ توجہ
    غریب عوام