Tag: ریحان خان بلاگ

  • سارے منڈے لگ گئے کام سے میں رہ گیا ‘ٹیکسوارا’

    سارے منڈے لگ گئے کام سے میں رہ گیا ‘ٹیکسوارا’

    1990 کی دہائی میں جب ہر گلوکار کی جانب سے اپنے گیتوں کے البم نکالنے کا ٹرینڈ چل پڑا تھا تو اس وقت کے معروف سنگر علی حیدر کا یہ گیت نوجوانوں میں بڑا مقبول ہوا تھا، جس کے بول تھے ’’سارے منڈے لگ گئے کام سے، ہائے میں رہ گیا کنوارا‘‘۔ اس وقت خیر سے ہم بھی کنوارے تھے، تو دیگر نوجوانوں کی طرح یہ حسرت بھرا گیت دلچسپی سے دوستوں کی محفل میں نہ صرف سنا کرتے تھے بلکہ موقع محل کی مناسبت سے گنگنایا بھی کرتے تھے۔

    جس گلوکار نے یہ گانا گایا، اب وہ بھی ماشا اللہ سے شادی شدہ ہیں اور ہم سمیت دیگر تمام جو یہ گیت سنا کرتے تھے وہ سب بھی کئی دہائی قبل کنوارے سے ’’شادی شدہ‘‘ ہوچکے ہیں۔

    قارئین یہ پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ جس زمانے کا ذکر ہے، اس اعتبار سے تو اب ہم ادھیڑ عمر میں ہوئے تو یہ باتیں کیوں کررہے ہیں۔ تو یہ بتاتے چلیں کہ آج کا بلاگ ہم اپنے کسی حسرت نا تمام کی یاد میں نہیں بلکہ موجودہ اور مستقبل کے نوجوان کنواروں کی مشکلات کو بھانپ کر پیش بندی کر رہے ہیں۔

    نت نئے ٹیکس نافذ کرنا ہماری حکومتوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ ہماری ٹیکس پسند حکومتیں، جو ہر مسئلے کا حل ایک اور نئے ٹیکس کے نفاذ میں ڈھونڈتی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے سوچنے کے بجائے نئے قرضوں کے حصول کی جستجو میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی راہیں ڈھونڈتی رہتی ہے کہ اسی راہوں سے گزرنے کے بعد اس کو قرض مع بھاری بھرکم سود کا پھل ملتا ہے، جو بعد میں ان حکمرانوں نے نہیں بلکہ ہم اور آپ جیسے غریب غربا اور ہماری آنے والی نسلوں نے ہی اتارنا ہوتا ہے۔

    رواں مالی سال 2025 کے آغاز سے قبل بجٹ میں شادی ہال کے ساتھ بیوٹی پارلرز پر نئے ٹیکس لگانے کی افواہیں شروع ہوئی تھیں تو اس سے مَردوں کے کان کھڑے ہوئے تھے کہ شادی ہال تو شاید زندگی میں ایک یا دو بار لیکن بیوٹی پارلر تو آئے روز کا جھجھٹ اور جیب پر بڑا بوجھ ہوتا ہے، کیونکہ خواتین ’’سجنا اور سنورنا تو ہر عورت کا حق ہے‘‘ کے اس مقولے پر من وعن عمل کرتی ہیں۔

    اب اڑتے اڑتے یہ خبر تصدیق شدہ ہو گئی ہے کہ سندھ حکومت نے شادی ہالوں پر 10 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیا ہے۔ گوکہ یہ کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے مگر آجر کے بجائے اجیر پر اس کا نفاذ ضرور نیا ہے۔ جی ہاں ایف بی آر سے کامیاب مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس ود ہولڈنگ ٹیکس سے شادی ہال مالکان کو مکھن سے بال کی طرح باہر نکال کر سارا بوجھ شادی کرنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ یعنی اس ٹیکس کا شادی ہال مالکان سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ شادی ہال کی بکنگ کرانے والوں کو یہ ٹیکس دینا ہوگا۔ جب یہ سنا تب ہمیں ماضی میں ذوق وشوق سے سنا جانے والا یہ گیت یاد آیا، لیکن ماضی میں یہ گیت سنتے وقت کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہماری مستقبل کی حکومت شادی کو کنواروں کی حسرت بنانے پر تل جائے گی۔

    پاکستان میں کئی موسم ہوتے ہیں اور ان میں شادی کا موسم سب سے اہم ہوتا ہے جو سال کے صرف چند مخصوص ماہ چھوڑ کر سارا سال جاری رہتا ہے۔ موسم سرما کی آمد ہوئی ہے لیکن موسمی ٹھنڈ کے بجائے اس نئے شادی ٹیکس کے نفاذ نے ہی ان کے ارمان ٹھنڈے کر دیے ہیں، جو عنقریب یا مستقبل میں شادی کرنے والے ہیں۔ اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ محدود آمدنی اور بجٹ میں کس کام کو پس پشت ڈال کر شادی سے پہلے 10 فیصد جبری ٹیکس کا انتظام کریں، اگر ایسا نہ کیا تو پھر وہ کنوارے رہ سکتے ہیں۔

    ہمارے ہاں شادی امیر کی ہو یا غریب کی، کئی تقریبات پر مشتمل ہوتی ہے۔ امرا تو خیر ابٹن، مہندی، مایوں، برائیڈل شاور، بارات، ولیمہ اور دیگر کئی ناموں سے تقریبات ایجاد کر کے اور ان کے لیے لگژری شادی ہالز بک کر کے اپنی خوشیاں منانے کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ ہمارے امیروں کا بس چلے تو وہ سانس بھی برانڈڈ ہوا میں لے، پھر چاہے اس کے لیے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنے پڑے۔ اس لیے ان کے لیے یہ ٹیکس تو کوئی مسئلہ نہیں یہ مسئلہ تو غریب یا متوسط طبقے کا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے بے قابو جن کی بدولت ایسی چادر اوڑھنے پر مجبور ہے جس میں سر ڈھکو تو پیر کھلتے ہیں اور اور پیر ڈھکو تو سر۔ غریب اور متوسط طبقہ تو صرف بارات یا ولیمہ کی تقریبات ہی شادی ہالز میں کرتا ہے اور وہ بھی بعض اوقات اس کی جیب پر بہت بھاری پڑتی ہیں۔

    شادی ہالوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی گھنٹی شادی کرنے والوں کے گلوں پر باندھے جانے کے بعد وہ غریب باپ کیا کرے گا جس نے اپنی ساری جمع پونجی اپنی بیٹے یا بیٹی کی شادی پر لگا دی ہوگی۔ وہ بھائی کیا کرے گا، جس نے بہن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے اپنے دفتر کا کاروباری مالک سے قرض لیا ہوگا۔ وہ ماں کیا کرے گی جس نے گھر کے اخراجات میں کمی اور خواہشات کو پابند سلاسل کر کے بچت کی اور اس سے کمیٹیاں ڈال کر آج کے دن کے لیے کچھ رقم جوڑی ہوگی۔

    اس صورتحال میں ہمیں وہ وقت بھی یاد آ رہا ہے، جب شادی ہالوں کا کوئی جھنجھٹ نہیں ہوتا تھا۔ گھروں کے باہر شامیانے قناتیں لگتی تھیں اور شادیاں ہو جاتی تھی۔ اس سے بھی پہلے ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ ٹینٹ شامیانے کے بکھیڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ آپس میں لوگوں کا میل ملاپ اور محبت ایسی ہوتی تھی کہ کسی ایک گھر کی خوشی پورے محلے کی خوشی بن جاتی تھی۔ مہمانوں کے لیے ہر گھر کے دروازے کھل جاتے تھے۔ گھروں میں باراتیوں کا بٹھانے اور کھلانے کا انتظام ہوتا تھا اور یوں بغیر کسی دکھاوے گھر بس جایا کرتے تھے۔

    ملکی دگرگوں حالات اور بڑھتی مہنگائی نے پاکستانی عوام کے خوش ہونے کے مواقع ویسے ہی کم کر دیے ہیں۔ امیر تو خوشیوں کے لیے کئی مواقع اور بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن غریب کے لیے تو شادی بیاہ ہی ایسا موقع رہ گیا ہے جہاں وہ کچھ لمحے خوش ہو سکتا ہے۔ لیکن کبھی بے جا رسومات اور کبھی یہ ٹیکس در ٹیکس ان کی خوشیوں کو روکھا پھیکا کر دیتے ہیں۔

    حکمرانوں سے تو کوئی توقع نہیں کہ وہ عوام بالخصوص غریب اور متوسط طبقے کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں اور سہولتوں کے لیے کوئی کام کرے۔ تاہم اگر ہم عوام ہی اپنا قبلہ درست کر لیں۔ دکھاوے سے پرہیز اور بے جا تقریبات سے گریز کریں تو پھر کوئی ود ہولڈنگ ٹیکس کسی کو نہیں ڈرا سکے گا۔ آج عمومی اور بے غرض محبتیں کم ہونے، رہائش کا رجحان کثیر المنزلہ عمارتوں کے چھوٹے فلیٹوں میں ہونے کے باعث اگر گھروں میں شادی کی تقریبات ممکن نہیں اپنے علاقوں میں ٹینٹ لگانے کا رواج دوبارہ کریں کہ اپنی مشکل اور اپنا حل کے تحت پہلا جرات مندانہ قدم بھی خود کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس طرح آپ نہ صرف شادی ہال اور اس کے لیے ٹرانسپورٹ کے انتظام کے اضافی خرچ سے بچ سکتے ہیں بلکہ ایک فرسودہ دکھاوے کے خود ساختہ رواج کا خاتمہ کر کے غریبوں کے لیے امید کی کرن اور زمانے کے لیے قابل تقلید بن سکتے ہیں۔

  • ڈاکو ہمارے عہد کے…

    ڈاکو ہمارے عہد کے…

    ایک زمانہ تھا کہ ڈاکو لوگوں کی نظروں سے دور پہاڑوں‌ اور غاروں میں رہتے تھے۔ لوگوں پر ڈاکوؤں کا ایسا خوف طاری رہتا کہ شام کے وقت گھروں سے باہر نہ نکلتے بلکہ اپنے بچوں کو ان ڈاکوؤں کا نام لے کر ڈرایا کرتے تھے، مگر ہمارے عہد کے ڈاکو نہ صرف اپنے موبائل فون سے اپنی تصویریں اور جدید اسلحے سے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے بے دھڑک اپنی ویڈیو بنواتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اپنے ‘کارنامے’ فخر سے شیئر بھی کرتے ہیں۔ کچے کے ایک ڈاکو نے تو اپنا یو ٹیوب چینل بنا کر اسے لائیک کرنے کی استدعا بھی کر دی ہے جس کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کچھ عرصہ قبل کچے کے ڈاکوؤں اور ان کے بچوں کو آئی ٹی کورس کرانے کی پیشکش بے سود دکھائی دیتی ہے۔

    پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں کا برسوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سندھ اور پنجاب کی سرحد پر کچے کا علاقہ پولیس کے لیے علاقہ غیر جبکہ ڈاکوؤں کی جنت کہلاتا ہے۔ ہر تھوڑے عرصے بعد ڈاکوؤں کے کسی ’’بڑے کارنامے‘‘ کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ کچھ کارروائیاں بھی ہوتی ہیں اور پھر معاملے پر مٹی ڈال کر ڈاکوؤں کے اگلے کسی ’’بڑے کارنامے‘‘ کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پنجاب کے کچے کے علاقے کچھ ماچکہ میں پیش آیا جہاں ڈاکوؤں نے پولیس پر حملہ کیا اور 12 اہل کاروں کو شہید کردیا۔ پنجاب پولیس نے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور الٹا صادق آباد پولیس کو اپنے مغوی اہلکار کی بازیابی کے لیے ڈاکوؤں سے ڈیل کرنا پڑی۔ پولیس نے قتل کے جرم میں سزایافتہ جبار لولائی کو جیل سے رہا کیا تو ڈاکوؤں نے مغوی پولیس اہلکار کو چھوڑا۔

    ڈاکوؤں کی اس بڑی کارروائی پر جب پولیس ان کی سرکوبی کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کر سکی تو ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے تک بڑھا دی لیکن اس فہرست میں شامل نمبر ون ڈاکو شاہد لوند کو ایسا اعتراض ہوا کہ اس نے براہ راست محکمہ داخلہ پنجاب کو فون کھڑکا ڈالا۔ پہلے یہ شکوہ کیا کہ میرا تو پولیس اہلکاروں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تو میرا نام اس فہرست میں کیوں شامل کیا؟ جنہوں نے پولیس اہلکاروں کو شہید کیا ان میں سے کسی کا نام اس فہرست میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ ڈاکو نے محکمہ داخلہ کے فون ریسیو کرنے والے اہلکار کو مفت مشورہ بھی دے دیا۔

    ڈاکو

    ابھی عوام ڈاکو کی اس دیدہ دلیری سے ہی محظوظ ہو رہے تھے کہ کچے کے ایک اور ڈاکو یار محمد لوند بلوچ نے اس سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنا یوٹیوب چینل لانچ کر دیا اور صارفین سے اس کو لائیک اور سبسکرائب کرنے کی جرات مندانہ فرمائش بھی کر دی۔

    اس ویڈیو کو دیکھ کر کچھ سوشل میڈیا صارفین محظوظ ہو رہے ہوں گے تو کئی نے تو توبہ استغفار پڑھتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لیے ہوں گے کہ اب یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ڈاکو سوشل میڈیا پر ‘ایکٹو’ ہوں گے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کیا ہوگا؟

    بات ہو رہی تھی کچے کے ڈاکوؤں کی، تو یہ کوئی سال دو سال پرانا قصہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے، جس میں گزرتے وقت اور سوشل میڈیا کی وجہ سے خاصی ترقی بھی ہوگئی ہے۔ اب تو ڈاکو ہنی ٹریپ کے اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ بزرگوں کو بھی دوسری شادی کا جھانسہ دے کر پھنسا لیتے ہیں۔ ایسے بزرگ یہ کہنا بھول جاتے ہیں کہ ’’کوئی مجھے دھوکا نہیں دے سکتا، میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔‘‘

    میڈیا پر یہ خبریں بھی آئیں کہ کچے کے یہ ڈاکو پکے کے وارداتیے ہیں جو جدید ترین اسلحہ رکھتے ہیں، جب کہ ان کی سرکوبی کے لیے جن پولیس ٹیموں کو بھیجا جاتا ہے، انہوں نے تو یہ جدید ہتھیار صرف ویڈیوز میں دیکھے ہوتے ہیں۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ان کی سرکوبی اس لیے نہیں ہوتی کہ انہیں بااثر افراد کے علاوہ خود پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کی سرپرستی اور بھرپور معاونت حاصل ہوتی ہے۔

    سیاست میں بھی ڈاکو اور چور کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور مخالفین کو لتاڑنے کے لیے اسی لفظ کو استعمال بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے تو تنقید کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ ’’یہ کچے کے ڈاکوؤں کو گولی مارتے ہیں، مگر پکے کے ڈاکوؤں کو کرسیوں پر بٹھاتے ہیں۔‘‘ اب پی ٹی آئی رہنما کا یہ اشارہ کس طرف تھا یہ تو اہل سیاست ہی جانیں ہم تو سیدھے سے کچے کے ڈاکوؤں کی طرف آتے ہیں۔

    1967 میں پاکستان میں محمد خان ڈاکو بہت مشہور ہوا تھا۔ اس پر قتل اور ڈکیتی کے 40 سے زائد مقددمات قائم تھے اور 6 بار سزائے موت سنائی گئی۔ محمد خان کو اس دور میں وادی سون کا ’’رابن ہڈ‘‘ بھی کہا گیا۔ یہ سات برس تک اپنے علاقے میں دہشت اور خوف کی علامت بنا رہا، لیکن مفرور قرار دیے جانے کے باوجود کھلی اور متوازی کچہریاں لگاتا تھا۔ اپنے مخالفین اور مخبروں کو قتل اور ناک و کان کٹوانے جیسی بدترین سزائیں دیتا تھا۔ اب یہی کچھ کچے کے ڈاکو بھی کر رہے ہیں کہ ہنی ٹریپ کے ذریعے نوجوان تو نوجوان، بزرگوں کو بھی دوسری شادی کا جھانسہ دے کر لوٹ لیتے ہیں، کچھ کو گاڑیوں اور جانوروں کی سستی فروخت کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسایا جاتا ہے، اور پھر ان پر تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کرکے یا ان کے رشتے داروں کو بھیج کر بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

    ویسے ڈاکو ہونا کوئی قابل فخر بات یا باعزت ذریعۂ روزگار تو نہیں لیکن پھر کیوں کچے کے ڈاکو بے موسم کی فصل اور خود رو پودوں کی طرح نمودار ہوئے جاتے ہیں اس کی تو ایک وجہ ہی سمجھ آتی ہے اور وہ ہے ہماری فلمیں۔

    اب آپ کہیں گے کہ فلم کیوں ڈاکو بناتی ہے تو جناب فلم ایک ایسا میدان ہے جس کی شہرت چہار گام ہے اور دنیا میں ناموری پانے کے لیے ہر کوئی پردہ سیمیں پر جگمگانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے دیوانے تو ’’ہر قسم کی قربانی‘‘ دینے سے دریغ نہیں کرتے تو پھر ڈکیتی تو ایسا پیشہ ہے جس میں فلم نہ بھی ملے، مگر دھن تو ملنے لگتا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں کئی فلمیں ڈاکوؤں پر بن چکیں جن میں سلطانہ ڈاکو، پھولن دیوی تو حقیقی کردار تھے لیکن فلمی کہانیوں میں ڈاکوؤں کے کردار بھی دکھائے گئے اور ان فلموں نے بھی بڑی شہرت پائی۔

    ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کی پنجابی فلم انڈسٹری پر گویا ڈاکو راج قائم تھا کیونکہ ہر 10 میں سے 7 یا 8 فلمیں ڈاکوؤں پر بنی ہوتی تھیں۔ ہدایتکار کیفی نے پنجابی زبان میں “محمد خان ڈاکو” کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی، جس میں سلطان راہی نے بدنام زمانہ محمد خان ڈاکو کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے مولا جٹ، ڈاکو راج، ملنگی، اچھا گجر، گجر دا کھڑاک، بہرام ڈاکو اور اس جیسی ان گنت فلمی دیکھیں۔ ان فلموں میں ڈاکوؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا اور خوبصورت ہیروئن کھیتوں میں بھاگتی اپنے ڈاکو عاشق کے گرد ناچتی پھرتی تھی۔ جب لوگ خوبصورت پری چہرہ خواتین کو یوں ڈاکوؤں پر مر مٹتے دیکھیں گے تو کس کا دل ہوگا جو ڈاکو بننے پر نہ مچلے۔ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اسی امید پر ڈاکو بنی ہو کہ کبھی تو کسی پروڈیوسر یا ہدایت کار کو جوش آئے اور وہ ان پر بھی ’’کچے کے ڈاکو‘‘ کے نام سے فلم بنا لے اور وہ بھی راتوں رات لوگوں کی نظر میں ڈاکو سے ہیرو بن جائیں۔

    ویسے تو اب کچے کے ڈاکوؤں کا کراچی سمیت کچھ شہری علاقوں میں گروپ بنا کر وارداتیں کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے لیکن اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا صرف کچے کے ڈاکو ہی قصور وار ہیں۔ عوام کو تو چہار جانب سے لوٹا جا رہا ہے لیکن بے چارے عوام ہیں کہ لب سی کر نہ جانے کس آس میں بیٹھے ہوئے ہیں، شاید وہ بھی کسی ایسے ڈاکو نما ہیرو کا انتظار کر رہے ہیں، جو انہیں ظلم سے نجات دلائے اور باقی سارے ڈاکوؤں کی چھٹی کردے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر خواب دیکھتے رہیں کہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔

  • پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    ملک میں پہلے ہی سیاسی خلفشار کم نہیں تھا کہ موجودہ حکومت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا یہ دھماکا خیز اعلان سامنے آگیا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور اس جماعت کے بانی عمران خان سمیت سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ مشورہ نجانے کس نے دیا ہے۔

    شہباز حکومت یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اکثریتی رائے سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے ماقبل فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دی کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت اور حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

    اس فیصلے کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی سیشن عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو باعزت بری کر دیا جب کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ دونوں کی سائفر کیس میں سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے اور سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی سمیت شاہ محمود قریشی کو بری کر چکی ہے۔ عدالت سے مختلف کیسوں میں بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلوں سے حکومت کے پہلے ہی ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے جس کا اظہار حکومتی نمائندے اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں میں کر رہے تھے، لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے عدالتی فیصلے سے حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم اور اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ہر قانون اور بل کو کثرت رائے سے منظور کرانے کی طاقت سے محروم ہوگئی ہے، اس تناظر میں حکومت کا یہ اعلان اہمیت رکھتا ہے۔

    مذکورہ یہی تین بڑے کیسز تھے جن میں عمران خان کو سزائیں ہوئی تھیں اور ان ہی عدالتی فیصلوں کے پیچھے حکومت چھپتی آ رہی تھی۔ اب جب ان تینوں کیسز کے فیصلوں کے ساتھ مخصوص نشستوں پر بھی پی ٹی آئی کو ایسا ریلیف ملا جو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا تو حکومت جو پہلے ہی فارم 45 اور 47 کی پکار، امریکی کانگریس میں انتخابات میں بدعنوانیوں سے متعلق منظور قرارداد اور عالمی سطح پر انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کے باعث پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کا بوکھلاہٹ کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ تاہم عدالتی فیصلوں کے جواب میں اگر حکومت نے یہ سوچ کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور اس کے بانی سمیت دیگر پر آرٹیکل 6 (دوسرے لفظوں میں غداری) کے مقدمات درج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، کہیں وہ اس سے قبل اسی حکومت کے کیے گئے فیصلوں کی طرح ان پر ہی الٹ نہ پڑ جائیں کیونکہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم (ون) حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنے تئیں اب تک پی ٹی آئی اور عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے اس کے نتائج ان کی توقعات اور امیدوں کے برعکس نکلے۔ بجائے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کو نقصان ہونے کے، ان کی عوامی مقبولیت بڑھی جب کہ حکومت بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچا۔

    پی ٹی آئی رہنما کئی ہفتوں سے برملا اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ کہیں نہ کہیں طے شدہ اور بی پلان کے طور پر موجود تھا۔ تاہم عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، عوامی نیشنل پارٹی، انسانی حقوق کونسل نے کھل کر اس حکومتی فیصلے کی مذمت اور اسے خلاف آئین و قانون قرار دیا ہے جب کہ امریکا بھی اس پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔ تاہم اس بحث سے قطع نظر نجانے کس نے حکومت کو یہ ’’دانشمندانہ‘‘ مشورہ دیا، لیکن یہ ایسا نادر مشورہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں تو الگ خود حکومتی جماعت ن لیگ میں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جاوید لطیف، خرم دستگیر سمیت کئی آزادانہ رائے دینے والے پارٹی رہنما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پی پی نے یہ کہہ کر دامن بچا لیا کہ ہمیں اس حوالے سے ن لیگ نے اعتماد میں نہیں لیا جب کہ دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ ودیگر نے چپ سادھ لی یا وہ گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس صورتحال کے بعد یہ اعلان کرنے والے عطا تارڑ تو ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں لیکن ان کی جگہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، خواجہ آصف اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عمل اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

    پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی نئی بات نہیں ہے بلکہ مرکزی دھارے کے علاوہ صوبائی دھارے، قوم پرست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی درجنوں جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

    اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جس طرح ابتدائی عشرے میں جمہوریت نہیں پنپ پائی تھی اور حکومتوں کا آنا جانا لگا تھا اسی طرح سیاست کو بھی پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ اسی دور سے شروع ہوا جب 1954 میں اس وقت ’’سیاسی و جمہوری‘‘ کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی، لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر اس پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا، تاہم یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی۔

    پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971 میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی جو حرف تہجی کی الٹ پلٹ اور ان ہی پرانے سیاسی چہروں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے روپ میں ملک کے سیاسی افق پر موجود اور کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے۔ مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن لڑنا مشکل ہوا تو وہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام سے سامنے آئی جب کہ 2016 میں جب ایم کیو ایم کا زوال آیا تو وہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے کام کرنے لگی۔ آج پابندی کا شکار بننے کو تیار پی ٹی آئی نے اپنے دور میں تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا لیکن کچھ عرصے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

    حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کا اعلان تو کرچکی اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت وفاقی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی بھی ہے، مگر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف کام کرنے والی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اعلان کر کے پندرہ دنوں کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی جس پر حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا۔ تو جب یہ گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں جب جائے گی تو حکومت کو وہ تمام شواہد دینے ہوں گے جو ایک سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دلواتے ہیں اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس میدان میں حکومت کو سبکی ہوگی۔

    اگر ن لیگ اپنے اعلان پر عمل کرتی ہے تو اس سے ایسا سیاسی و آئینی بحران اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوگی جس کی لپیٹ میں خود ن لیگ کی حکومت اور اس کی بچھی کھچی سیاست آ جائے گی۔ ن لیگ اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر وفاق میں کھڑی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ پابندی کی صورت میں جمہوری وفاقی حکومت وہاں کیا گورنر راج لگائے گی؟ اگر پی پی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرتی یا دیگر جماعتیں بھی اقتدار یا کسی ان دیکھے دباؤ کے تحت خاموش رہتی ہیں تو یہ درپردہ حمایت تعبیر کی جائے گی اور اس سے وہ راستے کھلیں گے کہ آنے والے وقت میں کوئی سیاسی جماعت اس سے محفوظ نہیں رہے گی اور ہر جماعت کو آج خاموش حمایت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

    ماضی میں کی جانے والی غلطیاں ایک سبق ہوتی ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں مست صاحب اختیار لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مسند اقتدار پر آنے کے بعد وہ خود کو عقل کُل اور ہر مسئلے کے حل کی کنجی سمجھتے ہوئے اپنے تئیں نئی تاریخ بنانے والے فیصلے کرتے ہیں جو حقیقت میں مستقبل کے مورخ کے لیے ایک اور تاریک باب اور آنے والوں کے لیے نیا سبق دینے کی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔

    ہماری روایت ہے کہ نظریاتی اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اب سیاسی جماعت پر پابندی کے ساتھ سیاستدانوں پر آرٹیکل 6 لگا کر تو ایک قدم آگے بڑھا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں وقت کا پہیہ گھومتے اور ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے کہ اس نے ماضی میں جو گڑھے مخالفین کے لیے کھودے وہ خود ہی اس میں جا گری۔ اگر آج وہ اگر آرٹیکل 6 کا شکنجہ مخالف سیاستدانوں کے گرد کستی ہے تو آئین کی کئی خلاف ورزیاں جان بوجھ کر شہباز شریف کی پہلی وفاقی حکومت، نگراں حکومت کرچکی ہے۔ اس لیے یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے اور دامن سب کے ہی تار تار ہوسکتے ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کے ذاتی خیالات، اس کی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق تمام خدشات، افواہیں اور قیاس آرائیاں دَم توڑ چکی ہیں اور بعض حلقوں کی خواہش کے برخلاف وہ دن آن پہنچا ہے جب پاکستانی قوم آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے سیاسی امیدواروں کو منتخب کرے گی۔ کل (8 فروری) کو قوم کسی امیدوار یا جماعت کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو ووٹ دے گی اور یہی ووٹ پاکستان کی سمت کا تعین کرے گا۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر جب الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تو اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں جاری سیاسی بحران اور دیگر سیاسی وجوہ کی بناء پر خدشات نے بھی سَر اٹھایا کہ شاید اعلان کردہ تاریخ پر الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہو اور ان خدشات کو کئی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے لیے پیش کردہ قراردادوں اور شدید سیاسی انتشار نے ہوا دی، لیکن صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا اور قوم کو ملک کی 12 ویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز اردو کی جانب سے الیکشن کی تمام رپورٹس، خبروں اور تجزیوں کے لئے اس لنک پر کلک کریں! 

    انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا، جو جلد ہی گرما گرم سیاسی مقابلے میں تبدیل ہوگئیں اور حسبِ روایت پاکستان کے سیاسی حلیف اور سابق اتحادی ایک دوسرے کے بدترین حریف کی صورت عوام کے سامنے آئے۔ اس کے بعد الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، تاہم الیکشن کے بعد کیا صورتحال ہوگی، الیکشن کے موقع پر بدترین حریف کے طور پر سامنے آنے والے ملکی مفاد میں کل بہترین حلیف بھی بنیں‌ گے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

    یہ عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن قرار دیے جا رہے ہیں جس کے انتظامات پر اخراجات گزشتہ انتخابات سے کئی گنا زائد بتائے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 593 جنرل نشستوں کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ قومی اور چاروں صوبوں کے مجموعی طور پر 859 حلقوں کیلیے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔

    یہ الیکشن صرف انتظامات اور اخراجات کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سیاسی گہما گہمی کے حوالے سے بھی نئی تاریخ رقم کرے گا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار طیاروں کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنے حلقوں میں پمفلٹ فضا سے گرائے جب کہ کچھ حلقوں میں تو امیدواروں کی جیت پر جوا لگانے کی اطلاعات بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔

    یوں تو کئی سیاسی جماعتیں انتخابات میں شریک ہیں جن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، آئی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ، ق لیگ، جی ڈی اے، اے این پی سمیت صوبائی سطح کی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن انتخابی نشان بلے سے محروم کر چکی، جس کی وجہ سے اس کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت میں اور مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس الیکشن کے لیے جہاں ن لیگ اور پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے آزادانہ اور بھاری رقم خرچ کر کے انتخابی مہم چلائی ہے وہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور اکثر حلقوں میں امیدواروں نے صرف پمفلٹ اور پوسٹرز کے ذریعے ہی کام چلایا جب کہ ان کے کئی امیدواروں‌ کو قید و بند کا سامنا ہے۔ الیکشن سے قبل جس طرح بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس اور پھر بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو نکاح کیس میں سزا سنائی گئی ہے، اس کے بعد بعض غیرجانب دار حلقوں اور سیاسی مبصرین نے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔


    الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم لگ بھگ دو ماہ جاری رہی۔ سیاسی جماعتوں کی ملک گیر انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان سیاسی رہنما اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کراچی تا خیبر سب جگہ سیاسی ماحول کو گرمایا اور بڑے جلسے کیے تاہم ن لیگ جس کی جانب سے بڑے بڑے دعوے سامنے آئے ہیں، ان کے قائد نواز شریف سمیت صف اول کی قیادت نے انتخابی مہم میں بلوچستان اور سندھ کو یکسر نظر انداز کیا اور ایک بھی جلسہ نہیں کر سکے۔ ن لیگ کے اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فوکس طاقت کا مرکز پنجاب ہی رہا ہے تاہم ان کا یوں دو صوبوں کے عوام سے دور رہنا ان کے لیے سیاسی خسارے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، استحکام پاکستان پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان الیکشن سے کئی روز قبل اپنے اپنے سیاسی منشور کا اعلان کر چکی ہیں جس میں عوام کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنے، نئے گھر بنانے، تنخواہوں میں اضافہ، ترقیاتی سمیت کئی عوامی فلاحی منصوبے، غربت اور مہنگائی کا خاتمہ سمیت دیگر منصوبے بھی شامل ہیں لیکن اگر عوام ذہن پر زور ڈالیں تو اس منشور میں کوئی ایسی نئی بات نہیں، جو اس سے قبل نہ کی گئی ہو جب کہ بجلی مفت دینے کے وعدے پر تو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور تقریباً ہر جماعت نے اپنے ووٹرز سے اقتدار میں آ کر انہیں مفت بجلی فراہم کرنے کا دلفریب وعدہ کیا ہے، تاہم کسی جماعت نے اس منشور پر عملدرآمد کا راستہ نہیں بتایا کہ عوام کو جو سبز باغ الیکشن سے قبل دکھائے جا رہے ہیں، تو جب جیتنے کے بعد اس پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو وہ کیسے ان وعدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

    سیاسی جماعتوں نے قوم کے سامنے صرف اپنے اپنے منشور ہی پیش نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ وہ نئے نعروں کے ساتھ میدان میں اتری ہیں، جیسا کہ ن لیگ کا نعرہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘، پیپلز پارٹی کا نعرہ ’’چنو نئی سوچ کو‘‘، پی ٹی آئی کا نعرہ ’’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘‘، متحدہ قومی موومنٹ کا نعرہ ’’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘‘ جیسے نعرے شامل ہیں۔ سب سے اہم بات کہ قومیں اور ملک کا مستقبل نوکریوں، خیراتی پروگراموں، مفت بجلی فراہمی کے پروگراموں سے نہیں بلکہ جدید تعلیم سے بنتا ہے لیکن ہماری کسی سیاسی جماعت میں شاید یہ شعبہ ترجیحاً شامل نہیں جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اگر شامل بھی ہے تو وہ سر فہرست نہیں ہے۔ پاکستان کے روشن مستقبل اور ہماری بقاء کے لیے اس وقت جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ جدید تعلیم اور جدید نظام صحت ہے لیکن ملک کی 75 سالہ تاریخ دیکھیں تو ان دونوں شعبوں کے ساتھ ہر دور میں سوتیلی ماں جیسا ہی سلوک کیا گیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کو اپنے علاج اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جہاں ان کی ضرورت پوری ہوتی ہو اور پھر وہ بیرون ملک کا ہی رخ کرتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی آ گئی ہے اور ووٹ ڈالنے سے قبل قوم کو سوچنے کا وقت ملا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کس کو چُنیں۔ انتخابی میدان میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتیں تنہا یا اتحاد کی صورت میں اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں اور کچھ جماعتیں تو متعدد بار اقتدار کے مزے لے چکی ہیں۔ اب یہ وقت ہے کہ عوام سیاستدانوں سے سوال کرنے کے بجائے خود سے سوال کریں کہ جو وعدے یہ جماعتیں کر رہی ہیں اپنے اپنے دور اقتدار میں انہوں نے کن وعدوں پر عمل کیا۔ جو نعرے آج یہ دے رہی ہیں ان نعروں کی عملی تفسیر کب بنے؟

    عوام ضرور سوچیں۔ ذات، برادری، لسانیت، صوبائیت، شخصیت پرستی سے سے باہر نکلیں۔ صرف وقتی فائدہ نہ دیکھیں بلکہ اپنی آنے والی نسل کا مستقبل دیکھیں۔ انفرادی نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچیں اور پھر جو جواب انہیں خود سے ملے اس کے مطابق کل گھروں سے نکلیں اور ذمے دار پاکستانی کی حیثیت سے اپنے روشن مستقبل کے لیے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کریں، کیونکہ ایک خوشحال جمہوری پاکستان ہی ہم سب کی خوشحالی کا ضامن ہے۔

  • ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ اور کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کی افواہوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اب حقیقت بن چکی ہیں اور صرف ٹیم کا قائد ہی نہیں بلکہ پوری ٹیم منیجمنٹ کی کایا پلٹ دی گئی ہے۔ لیکن جو تبدیلی آئی ہے وہ نئی نہیں بلکہ پرانی کہانی کو نئے چہروں سے سجایا گیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ یہ نئے چہرے کیا ایسا نیا کرتے ہیں کہ جس سے دم توڑتی کرکٹ کو نئی زندگی مل سکے۔

    کچھ عرصہ قبل تک پڑوسی ملک کا ایک ٹی وی سوپ ’’کہانی گھر گھر کی‘‘ کا بہت شہرہ تھا جو سازشوں، کھینچا تانی، بغض، نفرت، حسد اور دُہرے روپ کے چاٹ مسالہ کے ساتھ بالخصوص خواتین کا من پسند تھا، لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بھی کچھ اسی کی مثل ہو چلی ہے جہاں ’’کہانی ہر ورلڈ کپ کی‘‘ کی صورت میں ایسے ہی ‘لوازمات’ سے بھرپور ڈراما اسٹیج کر کے کرکٹ کے کرتا دھرتا چند چہروں کو ادھر سے اُدھر سرکاتے ہیں اور اپنے آرٹیفیشل اقدامات پر واہ واہ سمیٹ کر کرسی کو مضبوط کرتے ہیں۔

    15 نومبر کا دن پاکستانی کرکٹ کا ہنگامہ خیز دن تھا، جب پی سی بی ہیڈ کوارٹر افواہوں اور خبروں کا مرکز رہا کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بابر اعظم تینوں فارمیٹ کی قیادت سے خود دستبردار ہو گئے۔ شان مسعود ٹیسٹ اور شاہین شاہ ٹی 20 کے لیے ٹیم کے کپتان بنا دیے گئے۔ مکی آرتھر جنہیں گزشتہ پی سی بی منیجمنٹ ان کی شرائط پر لائی اور ان کے لیے ٹیم ڈائریکٹر کا عہدہ تخلیق کیا گیا لیکن پی سی بی نے جب ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی پر پورے کوچنگ اسٹاف کو ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو ٹیم ڈائریکٹر کی کرسی پر محمد حفیظ کو براجمان کر دیا گیا یہ وہی حفیظ ہیں جن کی گزارشات کو اسی پی سی بی انتظامیہ نے ورلڈ کپ سے قبل درخور اعتنا نہ سمجھا جس کی وجہ سے وہ ٹیکنیکل کمیٹی چھوڑ گئے تھے۔ بولنگ کوچ مورنی مورکل کا پی سی بی کو قبل از وقت چھوڑ جانا تو پرانی بات ہو چکی ان کی جگہ اب عمر گل کا نام لیا جا رہا ہے۔ پی سی بی نے چند روز قبل توصیف احمد کی قیادت میں بنائی گئی اپنی ہی عبوری سلیکشن کمیٹی کو ختم کر دیا اور جلد نئی سلیکشن کمیٹی بنانے کی نوید بھی سنا دی۔

    یہ سب تبدیلیاں پاکستان کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ کہانی 1996 کے ورلڈ کپ سے شروع ہوئی ہے جو چہروں کی تبدیلی اور اسکرپٹ کے معمولی ردو بدل کے ساتھ مسلسل دہرائی جا رہی ہے لیکن ہر چار سال بعد تبدیلی کتنی سود مند ثابت ہوتی ہے اس کا اندازہ تو اس بات سے ہی ہو جانا چاہیے ہم ہر چار سال بعد پرانی پوزیشن پرکھڑے ہوتے ہیں اور پھر نئی تبدیلیوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

    1996 سے 2023 تک کرکٹ معاملات اور ہر ورلڈ کپ میں شکست کے بعد اکھاڑ پچھاڑ پر نظر ڈالیں تو وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، شاہد آفریدی، مصباح الحق، سرفراز احمد اور اب بابر اعظم کو قیادت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ درجنوں کھلاڑیوں کے کیریئر پر فل اسٹاپ لگ گیا یا لگا دیا گیا جن میں سعید انور بھی شامل ہیں جنہیں 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد جب باہر کیا گیا تو ان کی آخری اننگ روایتی حریف بھارت کے خلاف سنچری سے سجی ہوئی تھی۔ اس دوران کرپشن الزامات پر کمیشن بنے، کچھ کو سزائیں کچھ کو صرف سرزنش کی گئی لیکن جتنے تواتر کے ساتھ کرکٹرز کا احتساب کیا گیا اتنے تواتر کے ساتھ بورڈ عہدیداروں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

    سوال تو یہ ہے کہ گزشتہ 27 سال سے ہر ورلڈ کپ کے بعد مستقبل مزاجی سے دہرائی جانے والی اس کہانی سے اب تک کیا مثبت نتائج ملے ہیں۔ اگر غور کریں تو اس سارے قضیہ میں ہمیشہ بورڈ انتظامیہ معصوم بنی رہتی ہے اور سارا نزلہ میدان میں موجود کھلاڑیوں اور ٹیم منیجمنٹ پر گرایا گیا، جب کہ اس عرصے میں کچھ فتوحات ملیں تو اس کا کریڈٹ پورا پورا بورڈ حکام نے لیا۔

    ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم پینک (خوف و ہراس) بٹن جلد دبا دیتے ہیں اور صورتحال کو اتنا پرخطر بنا کر پیش کرتے ہیں کہ پھر تبدیلیوں کا عوامی شور اٹھتا ہے جس کی گرد میں بعض اوقات اصل ذمے دار چھپ جاتے ہیں۔

    یہ درست کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی جس کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، لیکن اسی ورلڈ کپ کو دیکھیں دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی کارکردگی ہماری ٹیم سے بھی زیادہ خراب تھی تاہم وہاں کسی نے خوف وہراس نہیں پھیلایا۔ 2007 میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت بھی شرمناک انداز میں پہلے ہی راؤنڈ میں بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد ورلڈ کپ سے باہر ہوا لیکن وہاں قیامت نہیں آئی اور نہ ہی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ دھونی پر اعتماد برقرار رکھا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بھارتی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان بن گیا اور بھارت کو ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ون ڈے کا عالمی چیمپئن بھی بنوایا۔ جب 2003 میں جنوبی افریقہ کے پولاک سے قیادت لی گئی تو 22 سالہ گریم اسمتھ کو کپتان بنایا گیا جو مسلسل 11 سال تک کپتان رہے۔ اس دوران جنوبی افریقہ نے دو ون ڈے ورلڈ کپ اور 4 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلے لیکن ایک بھی نہ جیت سکے لیکن کسی نے ٹی وی پر بیٹھ کر اسمتھ یا پوری ٹیم کو باہر کرنے کے مطالبے نہیں کیے۔ ایسی کئی مثالیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسی بڑی کرکٹ ٹیموں سے بھی جڑی ہیں۔

    بات یہ ہے کہ جن ممالک کا ذکر کیا گیا وہاں کرکٹ کو سیاست سے علیحدہ رکھا گیا اور اس کی ترقی کے لیے ایک مستقل اور مربوط پالیسی مرتب کی گئی جس پر ہر دور میں من وعن عمل کیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح کرکٹ میں بھی سیاست پوری طرح متحرک ہے۔ دیگر ممالک خاص طور پر آسٹریلیا اور انگلینڈ کے حکمران بھی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ کرکٹ کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتے جب کہ ہمارے یہاں تو حکومت تبدیل ہوتے ہیں بورڈ میں چہرے تبدیل ہوتے ہیں اور پھر جس طرح ملکی پالیسیوں پر یوٹرن لیا جاتا ہے اسی طرح کرکٹ کے معاملات بھی من مانے انداز میں صرف اس سوچ کے تحت چلائے جاتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو ہماری کرسی مضبوط اور محفوظ رہے اور اس کے لیے کرکٹ کے کھیل سے کھیل کھیلا جاتا ہے۔

    کرکٹ میں سیاسی مداخلت کا شاخسانہ سری لنکا کرکٹ کو بہت مہنگا پڑا ہے اور آئی سی سی نے حال ہی میں لنکا کرکٹ کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک الارمنگ صورتحال بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہمیں ایسے حریف بھارت کا سامنا ہے جو کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کرنے سے باز نہیں آتا، جب کہ آئی سی سی جو بھارتی خوشنودی کے لیے بعض اوقات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے بجائے انڈین کرکٹ کونسل کا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے، ان کا گٹھ جوڑ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کے لیے نئی مشکل لا سکتا ہے۔

    پاکستان کرکٹ کرتا دھرتاؤں کو خواب غفلت اور ذاتی مفادات سے نکل کر ہوش مندی سے صرف اور صرف کی کرکٹ کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ سیاست نہیں ایک کھیل ہے اور اس کو کھلاڑی ہی اچھے طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ ہمیں میرا چیئرمین تیرا چیئرمین کی پالیسی سے نکلنا ہوگا اس لیے کرکٹ میں اصلاح احوال کے لیے بڑوں سے یہی گزارش ہے کہ کرکٹ کو کھیل سمجھیں اس کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں اور جینٹلمین گیم کے لیے جینٹل مین فیصلے کریں کہ اگر روش نہ بدلی تو پھر ’’تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘