Tag: ریحان خان کابلاگ

  • ذکرکچھ  انوکھے لاڈلوں کاجو کھیلن کو مانگیں….!

    ذکرکچھ انوکھے لاڈلوں کاجو کھیلن کو مانگیں….!

    آج ہم ذکر کررہے ہیں کچھ لاڈلوں کا، اور کیوں نہ کریں، جب ملک میں ہر طرف لاڈلوں کا چرچا ہے تو ہم لیکھک اس سے کیسےنظربچا سکتے ہیں۔

    ان دنوں ملک میں الیکشن کا شور اور اس کے ساتھ ‘دھیمے سُروں’ میں ہر طرف لاڈلوں کی باتیں ہو رہی ہیں اور کوئی کسی کو طنزاً لاڈلا کہہ رہا ہے، تو کوئی خود کو لاڈلا کہہ کر مخالف کو چِڑانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس سارے کھیل تماشے میں کہیں ایک طرف کوئی نادیدہ ہستی بھی ضرور ہنسی ٹھٹّا کر رہی ہے۔

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو تو ڈھکے چھپے لفظوں میں کہتے آ رہے ہیں کہ پہلے کوئی اور لاڈلا تھا اور اب دوسرے کو لاڈلہ بنایا جا رہا ہے اور یہ بات پہلی بار نہیں کی جا رہی بلکہ لاڈلوں کا یہ شور کئی سال سے تواتر سے ہورہا ہے۔ ہر پارٹی راہ نما یہ راگ الاپتے رہے ہیں لیکن اس راز سے کوئی پردہ اٹھانے کو تیار نہیں کہ وہ کون ہے جس کے پاس لاڈلا بنانے کی مشین ہے جس میں سے گزر کر باہر آنے والا ایسا ‘صاف ستھرا’ ہو جاتا ہے کہ اس پر بے اختیار پیار آئے اور اسے لاڈلا بنائے بغیر کچھ بن نہیں پاتا۔

    حال ہی میں ن لیگی رہنما احسن اقبال نے یہ کہا کہ نواز شریف ملک کے 24 کروڑ عوام کے لاڈلے ہیں، اگر ان کے اس دعوے کو درست مان لیا جائے تو پھر ملک کے بقیہ ایک کروڑ عوام کا لاڈلا کون ہے؟ کیونکہ حالیہ مردم شماری نتائج کے مطابق ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہو چکی ہے۔ ایسے میں ایک کروڑ عوام کا یوں نواز شریف کو نظر انداز کرنا نیک شگون تو نہیں ہے اور مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ ان ایک کروڑ عوام کی چھانٹی کیسے کی جائے جن کے نواز شریف لاڈلے نہیں ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر احسن اقبال مزید حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اپنے قائد کو ملک کے 25 کروڑ عوام کا ہی لاڈلا بنا دیتے کہ اس جھِک جھک سے جان ہی چھوٹ جاتی۔

    یہ تو سیاست دانوں کی زبانی لاڈلوں کی بات ہو رہی تھی اگر ہم اپنی بات کریں تو ہم بچپن سے ایک ہی قسم کے لاڈلے دیکھتے آئے ہیں جو اپنے اماں ابا کے لاڈلے ہوتے ہیں یا پھر لاڈلوں پر بنی کچھ فلمیں اور ڈرامے دیکھ رکھے ہیں جب کہ ایک مشہور نظم ’’انوکھا لاڈلا‘‘ بھی بلقیس خانم کی زبانی سن رکھی ہے جو کھیلنے کو کھلونے نہیں بلکہ آسمان پر چمکتا چاند مانگا کرتا ہے۔ تو صرف وہ انوکھا لاڈلا نہیں بلکہ ہمارے سیاسی لاڈلے بھی کچھ ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں کہ کھیلن کو ہمیشہ چاند ہی مانگتے ہیں حالانکہ اس کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں ستارے جھلملا رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی نظر انتخاب ہمیشہ چاند پر ہی پڑتی ہے اور شاعر بھی انوکھے لاڈلے کی ضد پر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پاگل من کوئی بات نہ مانے، کیسی انوکھی بات رے۔

    انوکھے لاڈلے پر ہم فلموں ڈراموں تک آ کر کچھ بھٹک گئے قبل اس کے کہ زیادہ بھٹک کر راستہ ہی بھول جائیں واپس آتے ہیں اماں ابا کے لاڈلے کی جانب جو ہوتے تو دونوں کی آنکھوں کا تارا ہیں لیکن تب تک، جب تک وہ ان کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں، جیسے ہی اماں ابا کے حکم یا مرضی کے برخلاف کام کرتے ہیں تو پھر اماں کی جوتی اور ابا کا ڈنڈا اٹھتے اور کمر پر پڑتے دیر نہیں لگتی اور یہ چوٹ ایسی ہوتی ہے کہ چودہ طبق روشن ہونے لگتے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اکثریت کا تجربہ اسی سے ملتا جلتا ہوگا۔

    لیکن لاڈلے تو پھر لاڈلے ہیں جو نافرمانی کی سزا پاتے ہیں پھر توبہ تلّا کر کے دوبارہ لاڈلے بن جاتے ہیں اور اسی لاڈلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سے غلطی کرتے ہیں لیکن وہ بھی کیا کریں کہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا، اگر وہ خطا نہ کرتا تو جنت سے کیوں نکالا جاتا۔ اگر غلطیوں اور نافرمانیوں کے سلسلے کو سیاست دانوں پر رکھ کر دیکھیں تو وہ بھی بالآخر انسان ہے اور بچپن بھی گزارا ہے تو اگر بھول چوک کا یہ سلسلہ بڑے ہو کر بھی قائم و دائم ہے تو اس پر جزبز ہونے کے بجائے ان کی استقامت کی داد دینی چاہیے۔

    اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی رہنما اپنا طرز حکمرانی بہتر سے بہترین اور عوام کے وسیع تر مفاد میں بنا کر ان کے لاڈلے بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ چلن صرف دعوؤں اور لفظوں تک ہے۔ عمل کی راہ سے اس کا دور دور تک گزر نہیں ہوتا۔ ہمارے اکثر سیاستدان تو شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر پر پورے اترتے ہیں کہ

    اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

    آج ایک بار پھر انتخابات کے لیے سیاسی میدان سج چکا ہے جہاں سیاست دان لاڈلا بننے کی کوششوں کے ساتھ حسب روایت اقتدار کی خاطر عوام کو دانہ ڈالنے کے لیے وعدوں کے جال بچھا رہے ہیں جب کہ ماضی میں کئی بار کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں پر اعتبار کرنے والے کروڑوں عوام کچھ اس طرح اپنا حال اور رہنمائی کے دعوے داروں کی فرمائش بیان کر رہے ہیں کہ

    انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند
    کیسی انوکھی بات رے
    تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا
    من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا
    جی کا حال سمجھ نہیں آتا
    کیسی انوکھی بات رے
    انوکھا لاڈلا…..

  • سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    ان دنوں پاکستان کی شہرت کا ڈنکا چہار سُو بج رہا ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا پر پاکستان کی خبریں جگہ پا رہی ہیں اور یہ سب کسی کارنامے اور نیک نامی کی وجہ سے نہیں بلکہ ملک میں شدید سیاسی اور آئینی بحران، معاشی ابتری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کرپشن، ایوان اقتدار میں جاری چوہے بلی کے کھیل اور عوامی کی بدحالی کی خبریں ہیں جس سے پاکستان کا منفی تأثر پختہ ہوتا جا رہا ہے۔

    کچھ عرصے سے ہمارے روایتی حریف پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا پر تو پاکستان کے سیاسی اور معاشی حوالے سے تسلسل کے ساتھ منفی خبروں کا سلسلہ جاری تھا لیکن جب بحران پر قابو پانے والوں نے اس سے صرفِ نظر کیا تو یہ معاملہ اتنا پھیلا کہ اب امریکا، برطانیہ، یورپ، ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ غرض دنیا کا کون سا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان کے سنگین حالات کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو ایشین ٹائیگر، ریاست مدینہ، خود مختار اور خودکفیل ملک بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے آج ان ہی کے اعمال اور افکار کے باعث دنیا پاکستان کے حالات کو ایتھوپیا، یوگنڈا، سری لنکا جیسی صورتحال کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔

    اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے باعث سسکتی اور دم توڑتی انسانیت ہے لیکن کسی سیاستدان کو سن لیں‌ یا کسی ٹی وی چینل پر نظر ڈالیں تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ الیکشن مئی میں ہوں گے یا اکتوبر میں۔ سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہماری سیاست دل کے ساتھ دماغی صلاحیتیں بھی کھوچکی ہے۔ سب کا زور الیکشن پر ہے لیکن جس عوام کے ووٹوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کرنے کی یہ ساری تگ و دو ہے ان کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔

    پاکستان یوں تو بانی پاکستان قائداعظم کی وفات کے بعد سے ہی سیاسی محاذ آرائی اور چپقلشوں کا شکار ہو کر حقیقی جمہوریت کی راہ سے دور ہوتا چلا گیا لیکن موجودہ سیاسی صورتحال تو اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ سنجیدہ طبقے کے لیے سیاست ایک گالی بنتی جا رہی ہے۔ جو لوگ 90 کی دہائی کی سیاسی چپقلش اور دشمنی پر مبنی انتقامی کارروائیاں بھول گئے تھے انہیں اب وہ بھی اچھی طریقے سے یاد آگئی ہے۔

    پی ڈی ایم کی درجن بھر جماعتوں پر مشتمل اس حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے جو اپنے ساتھ عوام کی امیدوں، معاشی استحکام، سیاسی برداشت، مساوات اور نہ جانے کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے اور اب تو ہر طرف جمہوریت اور سیاست کے نام پر مخالفین پر رکیک اور شرمناک الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

    ملک کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے مہنگا اور خونیں رمضان گزارا ہے۔ دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ روزے میں بزرگ مرد و خواتین 10 کلو آٹے کے تھیلے کے لیے ہزاروں کی بھیڑ میں اپنی عزت نفس گنواتے اور جانیں لٹاتے رہے۔ اس سال تو زکوٰۃ کی تقسیم جیسا فریضہ بھی خونریز ثابت ہوا اور کراچی میں ایک مل کے گیٹ پر چند ہزار روپوں کے لیے درجن بھر جانیں قربان ہوگئیں۔

    ایک سال میں عوام کا سکھ چین سب ختم ہوگیا لیکن سیاسی خلفشار، عدم اطمینان، بے چینی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ حکومت بدلی لیکن 75 برسوں سے وعدوں پر ٹرخائی جانے والی عوام کی قسمت پھر بھی نہ بدل سکی اور اس کی جھولی میں سوائے وعدوں اور نام نہاد دعوؤں پر مبنی سکوں کے کچھ نہیں گرا۔

    آج صورتحال یہ ہے کہ مہینوں تک ترلے منتیں کرنے اور سخت شرائط مان کر عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر قرض کا معاہدہ نہیں ہو پا رہا ہے اور روز نت نئی شرائط عائد کر رہا ہے۔ دوست ممالک لگتا ہے کہ دہائیوں سے ایک ہی ڈرامے کا ری پلے بار بار دیکھ کر اتنے تنگ آچکے ہیں اور وہ بھی کوئی خاص مدد کے لیے آگے نہیں آرہے ہیں۔

    اگر ہم اپنے چاروں طرف پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ملکوں پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن قرار دیے جانے والا بھارت اپنے سیٹلائٹ خلا میں بھیج رہا ہے اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا ہی حصہ ہوا کرتا تھا آج وہاں ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری معیشت سے کافی آگے نکل چکا ہے، 20 سال امریکی جنگ سے نبرد آزما افغانستان کی معیشت ایک اعتبار سے ہم سے بہتر ہے۔ ایران مسلسل کئی دہائیوں سے امریکی عتاب کا شکار ہے مگر وہاں خاص سطح پر معاشی استحکام نمایاں ہے جب کہ ہمارا قومی کشکول دراز ہوتا جا رہا ہے۔

    اس وقت ملک کی سوئی الیکشن پر اٹکی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے دوسری بار واضح حکم دیا کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہونے ہیں لیکن جنہوں نے اس پر عملدرآمد کرنا ہے وہ اس کو ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ نئی نئی تاویلیں گھڑ کر لائی جاتی رہی ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ میں ملک میں بیک وقت الیکشن کے حوالے سے درخواستیں زیر سماعت ہیں اور عدالت عظمیٰ بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تجویز دے چکی ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کی تین نشستیں کسی تصفیے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئیں جس پر حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہوئے عدالت نے مزید مہلت طلب کی ہے تاہم سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

    اب گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں ہے لیکن یہاں اناؤں کی بلا اتنی حاوی ہے کہ کوئی جھکنے اور ملک و قوم کی خاطر رویوں میں نرمی لانے پر تیار نہیں ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ عوام پر حکمرانی کریں لیکن عوام کو اس کے بدلے میں دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے دلاسوں کے۔

    ہمارے سیاستدان شاید اپنی اپنی اناؤں کو ملکی وقار، سلامتی معاملات اور عوامی مفاد سے افضل سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے باوجود ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور مذاکرات کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس پی ڈی ایم سے اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے مذاکرات ہو رہے ہیں اس کے سربراہ فضل الرحمان ان مذاکرات کے سخت خلاف اور مذاکراتی عمل سے مکمل طور پر باہر ہیں جب کہ حکومت کو لندن سے کنٹرول کرنے والے نواز شریف بھی ان مذاکرات کے لیے رضامند نہیں ہیں۔

    مذاکرات جو اب تک ناکام ہی نظر آتے ہیں اس میں دونوں فریقین کے مطابق قومی اسمبلی توڑنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ بہرحال فریقین بے شک ان مذاکرات کے بارے میں کچھ بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ خدشات، بے یقینی، بدگمانی کے ساتھ جھوٹی اناؤں کا خول بھی ہے جو تمام معاملات پر حاوی ہے۔

    دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی کسی گمبھیر مسئلے پر بات چیت کی جاتی ہے تو کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے فریقین کے درمیان بدگمانی اور بداعتمادی کی فضا دور کی جاتی ہے اور جو صاحب اختیار اور اقتدار ہوتا ہے اس پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ ماحول پیدا کرے لیکن یہاں تو معاملات ہی الٹے رہے۔

    مذاکرات کے لیے دونوں فریقین نے کمیٹیاں بنائیں لیکن مذاکرات شروع ہوئے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف آپریشن اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہوگیا۔ جب سراج الحق عمران خان سے ملاقات کرکے اور انہیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دے کر آئے تھے تو اس کے فوری بعد پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کو گرفتار کیا گیا اور جب مذاکرات کی بات آگے کمیٹیوں تک پہنچی تو علی امین گنڈاپور کو حراست میں لے کر ملک بھر میں گھمایا گیا لیکن سب سے تشویشناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب رات کی تاریکی میں عدالتی حکم کے برخلاف پی ٹی آئی کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی رہائشگاہ پر چھاپہ بلکہ کئی چھاپے مارے گئے جو صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے مزید بگاڑ کی جانب لے گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو خادم اعلیٰ کے ساتھ شہباز اسپیڈ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس کی وجہ ن لیگ کا حلقہ احباب پنجاب میں تیز رفتار ترقیاتی کام بتاتا ہے، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کی اسپیڈ دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ بنانے اور مخالفین پر مقدمات بنانے میں ہی نظر آتی ہے۔ ان کی 83 رکنی کابینہ نے جہاں دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کا اعزاز پایا ہے اسی طرح سابق وزیراعظم پر چند ماہ میں 122 سے زائد مقدمات کا قائم ہونا بھی اپوزیشن رہنما کے خلاف مقدمات کے اندراج کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کردے کیونکہ پی ٹی آئی رہنما خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ حکومت جلد عمران خان کے خلاف مقدمات کی ڈبل سنچری مکمل کرلے گی۔

    ملک میں جاری اس پُتلی تماشے کو عوام 75 سالوں سے دیکھ کر رہی ہے۔ پپٹ یعنی پتلیاں بدل جاتی ہیں لیکن کھیل معمولی رد وبدل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا کیا جمہوریت میں جمہور کے کچھ حقوق نہیں ہوتے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ملک کا ہر شخص صاحب اختیار و اقتدار کے مستقبل میں ان پر حکمرانی کے سہانے خواب دیکھنے والوں سے پوچھ رہا ہے۔ اگر کسی کو اس جمہور کا خیال ہے تو پھر انا کے خول کس لیے؟ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہ کہہ کر رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کر گئے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے مر جائے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا‘‘ دنیا کے مختلف ممالک کا نظام دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے اس طریقہ حکمرانی کو اغیار نے اپنا لیا لیکن آج ان کے نام لیوا کو کیوں اپنی عوام کی پروا نہیں اور کیوں ان کے ملک میں بھوک، غربت اور بیروزگاری کے باعث خودکشیاں بڑھتی جا رہی ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے جو باضمیر لوگوں کو ضرور کچوکے لگائے گا لیکن صاحب اختیار اور بااختیار میں ایسے کتنے ہیں؟

  • گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ  میں  آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ میں آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    رواں ہفتے حکومتی نمائندے اور اراکینِ پارلیمنٹ آئینِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی گولڈن جوبلی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر پارلیمنٹ میں اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے پُرجوش انداز میں تقاریر بھی کیں جس میں آئین پاکستان کے تحفظ کے وعدے اور دعوے کیے گئے۔ لیکن اسی پارلیمنٹ میں اسی آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی جاری تھا جو ان سیاست دانوں کے دہرے معیار کا ثبوت ہے۔

    یوں تو قیام پاکستان کے 9 سال بعد 1956 میں ملک کو پہلا آئین ملا تھا لیکن اس کی عمر صرف دو سال ہی رہی۔ سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کر دیا اور ملک میں پہلے مارشل لا نے جنم لیا۔ جنرل ایوب خان پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد چار سال تک ملک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔ 1962 میں اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں بنایا مملکت کا دوسرا آئین یکم مارچ 1962 کو نافذ ہوا جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلی منعقد ہوئی۔ 8 جون کو راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لا کو حتمی شکل دی گئی۔ اس آئین کے تحت صدارتی نظام لایا گیا اور تمام اختیارات صدر کو حاصل تھے تاہم یہ صدارتی آئین بھی صرف 7 سال تک ہی چل سکا۔

    ملک بھر میں احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو ان کے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا تو انہوں نے اپنے سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیے۔ 25 مارچ 1969 کو پاکستان ایک بار پھر مارشل لا کے قدموں میں دبوچ لیا گیا۔ آئین سے بار بار روگردانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کردیا اور مشرقی پاکستان ایک نئے ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس صدمے نے پوری قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا جس کو 1973 میں تیسری بار لیکن ایک متفقہ آئین دے کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اپنے قیام کی تیسری دہائی میں دو لخت ہونے کے بعد پاکستان کی بکھری قوم کو 50 سال قبل 10 اپریل 1973 کے دن ملک کا پہلا متفقہ آئین ملا۔ اس آئین کی تشکیل میں تمام جمہوری سیاسی قوتوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن کریڈٹ بہرحال ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بکھری اور اضطراب میں مبتلا قوم کو ایک متفقہ آئین دے کر پھر سے اٹھانے اور دنیا کے نقشے پر ایک باوقار ملک بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔

    اس آئین میں ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ انسانی حقوق کے ساتھ ہی ہر مکتب فکر کے معاشرتی، سماجی اور معاشی حقوق، اداروں کی حدود، پارلیمانی اختیارات سمیت ہر شعبۂ زندگی کا اس میں احاطہ کیا گیا اور ہر طبقہ فکر کی ترجمانی کی گئی۔ آئین نافذ ہوا لیکن نفاذ کے صرف چند سال بعد ضیا الحق نے اس آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمایا جو ان کی موت تک لگ بھگ 11 برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد مشرف دور حکومت کے 9 سال بھی آئین کی پامالی میں گزرے۔

    لیکن اگر آئین سے کھلواڑ کا نوحہ صرف آمرانہ دور حکومت تک محدود ہوتا تو شاید اچنبھے کی بات نہ ہوتی کہ آمروں کے لیے تو آئین ہمیشہ ایک کھلونا ہی رہا ہے، لیکن یہ خلاف ورزی آئین کی تشکیل سے لے کر اب تک ہر جمہوری دور میں کم یا زیادہ کی جاتی رہی ہے اور آئین کی محافظت کے دعوے دار ہی اس کے خلاف اقدامات کرتے رہے ہیں۔ یوں تو ہر جمہوری دور میں حکمرانوں نے آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی سمجھا لیکن ہر طرف یہی آوازیں‌ اٹھ رہی ہیں‌ کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں آئین کی خلاف ورزیاں اور دستور کی شقوں سے جو چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے اس کی مثال سابق جمہوری ادوار میں نہیں ملتی۔

    ملک کو متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن کی خلاف کارروائیاں، مقدمات، جیلیں آئین میں دیے گئے انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزیاں ہی تھیں۔ پھر جب ضیا الحق کی آمریت کے بعد 11 سال جمہوریت کا چراغ ٹمٹاتا رہا اس میں بھی اس وقت کی دو بڑی جماعتیں (پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ) میوزیکل چیئر کی طرح اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں تو انہوں نے بھی اقتدار کے حصول کے ساتھ ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے لیے آئین سے کھلواڑ جاری رکھا۔

    1997 کا وہ دور تو سب کو یاد ہوگا جب نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں 1973 کے آئین میں 15 ویں آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تمام اختیارات اپنی ذات کے اندر سمونے کی کوشش کی۔ اسی دوران سپریم کورٹ پر ن لیگی اراکین پارلیمنٹ کے حملے نے پوری دنیا میں پاکستان کے جمہوری امیج کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔

    آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں اٹھارویں ترمیم لا کر صوبوں کو بااختیار بنایا جو کچھ حلقوں کے نزدیک اب بھی متنازع ہے اور وہ اس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ یہ بحث الگ کہ اس کے کیا فوائد یا کیا نقصانات تھے۔ 1973 میں آئین کے نفاذ سے اب تک صرف دو بار جمہوری حکمرانوں نے آئین کو طاقت دی۔ ایک جب صدر کے اسمبلی توڑنے کے 58 ٹو بی کے اختیارات کو نواز شریف دور حکومت میں ختم کیا گیا کیونکہ اس آٹھویں آئینی ترمیم سے نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں ہی نڈھال تھے اور اقتدار سے محرومی کا زخم کھا چکے تھے۔ دوسرا مرتبہ سابق صدر زرداری نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے آئین کو طاقت ور ثابت کیا، لیکن اس کے بعد دیکھا جائے تو ہمیں 50 سالہ تاریخ میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جو آئین کے احترام اور عملدرآمد کے حوالے سے بہت زیادہ مثالی رہی ہو۔ بلکہ ہوتا یہ آیا ہے کہ ہر جمہوری حکمران نے بھی اپنے مفاد میں قانون اور آئین کو موم کی ناک سمجھا اور جہاں مفاد نظر آیا وہیں اس کو موڑ لیا یا اسی تناظر میں اس کی تشریح کر ڈالی اور کروا لی۔

    2023 شروع ہوا تو 1973 کے آئین پاکستان کی وارث کہلانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پورا سال آئین کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور یہ خوش آئند ہے کہ مہذب قومیں اپنے دستور کی پاسداری سے ہی پہچانی جاتی ہیں لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جاتا۔

    پارلیمنٹ میں دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر خارجہ اور 1973 کے آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے جوش ولولے سے آئین کے تحفظ اور پاسداری کے عزم پر مبنی خوش کن تقاریر کیں لیکن اسی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لیے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل منظور کر لیا جس کو آئینی ماہرین آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے جس کی ایک سماعت شروع ہوچکی ہے اور اگلی سماعت عیدکے بعد مقرر ہے۔ اس پر فیصلہ بھی آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے راہ متعین کرے گا۔

    اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ سیاسی معاشی بحران کے ساتھ عدم برداشت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ 90 کی دہائی سیاسی کھلاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ پاکستان میں واپس لوٹ آئی ہے۔ اس وقت ملک کے دو صوبوں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل ہوئے لگ بھگ تین ماہ ہونے کو ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن ہر حال میں ہونے ہیں اور اس سے کوئی فرار ممکن نہیں لیکن لگتا ہے کہ اس وقت پوری حکومتی مشینری اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ ہے۔

    حکومت اور الیکشن کمیشن نے پہلے معاشی ابتری اور امن و امان کی صورتحال کو وجہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم نہیں کی اور ازخود نوٹس لیتے ہوئے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا جس پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی جب کہ گورنر کے پی تو تاریخ دینے کے کچھ دن بعد ہی مُکر گئے۔ پھر اچانک الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو شیڈول الیکشن منسوخ کرتے ہوئے نئی تاریخ 8 اکتوبر دی۔ پی ٹی آئی کے عدالت سے رجوع کرنے پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم اور حکومت کو فنڈز اور سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کے گولڈن جوبلی سال میں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت اور ان کی اتحادی پی پی پی سر تسلیم خم کرتے اور الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کیے جاتے لیکن اس کے برعکس حکومت نے بہانے بنائے۔ قومی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے فنڈز دینے سے انکار کرتے ہوئے بل مسترد کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت اور اتحادیوں نے سپریم کورٹ کے پَر کاٹنے اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس کا اختیار چھیننے یا اس کی افادیت کم کرنے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرایا اور منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا اور جب وہاں سے اعتراض لگ کر واپس آیا تو بجائے اس کے کہ ان اعتراضات کا قانونی طور پر جائزہ لیا جاتا اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے عجلت میں منظور کرا لیا جو 10 روز بعد ازخود قانون بن جائے گا۔

    بہرحال، وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دے دیا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کرے۔ اگر اس پر بھی سپریم کورٹ کے سابقہ احکامات کی طرح عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں جاری آئینی بحران کہیں زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔