Tag: ریحان خان کا بلاگ

  • بھارت کے شہرت یافتہ ’’مسلمانوں‘‘ کی سب سے بڑی مجبوری

    بھارت کے شہرت یافتہ ’’مسلمانوں‘‘ کی سب سے بڑی مجبوری

    بھارت کے چہرے سے بالخصوص مودی کے 13 سالہ دور میں سیکولر ملک کا نقاب اتر چکا ہے اور ایک ایسی ہندو ریاست کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ جس میں کسی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کو تو کوئی تحفظ اور حقوق حاصل نہیں۔

    بھارت میں عام مسلمانوں کی حالت تو انتہائی ابتر ہے۔ کبھی انہیں گئو رکشا کے نام پر ہندو جنونیت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو کبھی زبردستی ہندوؤں کے مذہبی نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ گو کہ ہندوستان میں مشہور مسلمان شخصیات کی زندگی مشکل تو نہیں، لیکن اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ وہاں کی مشہور مسلمان شخصیات کو بھی چین اور سکون سے رہنے اور حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف بولنا ضروری ہوتا ہے۔

    حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بالی ووڈ مصنف اور نغمہ نگار جاوید اختر نے اپنی روایت دہراتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور کہا کہ ’’اگر مجھے جہنم یا پاکستان جانے کا کہا جائے تو میں جہنم کا انتخاب کروں گا‘‘۔ ان کے اس غیر سنجیدہ بیان پر پاکستانیوں نے ایسا ہی منہ توڑ جواب دیا ہے جیسا کہ مودی سرکار کے نام نہاد آپریشن سندور کا جواب پاک فوج نے آپریشن بنیان مرصوص سے دیا تھا۔

    جاوید اختر کا یہ بیان ہے تو بہت زہریلا اور متعصب، لیکن اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ ان کی مجبوری ہے، جو سب کو پتہ ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان چاہے کتنے ہی با اثر اور مشہور کیوں نہ ہو جائیں، اور اپنے قول وعمل سے خود کو کتنا ہی سیکولر کیوں نہ ثابت کر دیں لیکن انہیں خود کو بھارتی ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا پڑتا ہے۔

    بالی ووڈ مصنف جو کئی بار ادبی میلوں اور تقریبات میں پاکستان آ چکے ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ ان کی بہترین مہمان نوازی کی۔ وہ جب تک پاکستان میں رہتے ہیں پاکستان کی مدح سرائی کرتے ہیں لیکن بھارت جاتے ہی گرگٹ سے بھی زیادہ تیزی رنگ بدلتے ہوئے ہمارا حقِ نمک ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔

    یہ اکیلے جاوید اختر ہی نہیں بلکہ بھارت میں میں جتنے بھی نامور مسلمان ہیں، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں اپنی ہندوستانیت اور حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے یا تو پاکستان کے خلاف زہر اگلنا پڑتا ہے یا پھر خاموش رہنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ خاموشی بھی ہندو انتہا پسندوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ ان کی امن پسند خاموشی پر بھی سیخ پا ہو کر انہیں بھارت چھوڑنے اور پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دیتے ہیں۔

    ایسی مسلم مخالف ذہنیت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حال ہی میں بھارتی فوج کی ترجمان صوفیہ قریشی پر ہندو انتہا پسندی کی زد میں آئیں۔ انہیں بی جے پی رہنما جے شاہ نے دہشتگردوں کی بہن قرار دے کر ہندوتوا ذہنیت آشکار کر دی اور دنیا کو باور کرا دیا کہ ان اور ان جیسی سوچ رکھنے والوں کی نظر میں صرف وہی ہندوستانی ہے جو ہندو ہے۔ بی جے پی رہنما اپنی فوج کی ترجمان پر شرمناک الزام لگاتے ہوئے یہ بھی بھول گئے کہ صوفیہ کی کئی نسلیں اُسی ملک کے لیے قربانیاں دے چکی ہیں۔ اُن کی پر دادی نے کالونیل برصغیر دور میں ملکہ ہند لکشمی بائی عرف جھانسی کی رانی کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف لڑی تھی، لیکن نسل در نسل قربانیوں کے باوجود وہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے آج بھی معتبر نہیں ہیں۔

    بھارتی فلم انڈسٹری میں اب تک دلیپ کمار (یوسف خان) سے بڑا اداکار پیدا نہ ہوسکا جو بلاشبہ 20 ویں صدی کے برصغیر کے سب سے بڑے اداکار قرار پائے۔ انہوں نے زندگی بھر ایک قانون پسند اور محب وطن بھارتی ہو کر زندگی گزاری، لیکن ہندو انتہا پسندوں نے دنیا بھر میں بھارت کی شناخت بننے والے اس دلیپ کمار کو بھی نہ بخشا۔

    1998 میں جب پاکستانی حکومت نے دلیپ کمار کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں نشان امتیاز سے نوازا تو بھارت کے ہندو انتہا پسند طبقے میں آگ لگ گئی۔ حالانکہ دلیپ کمار یہ ایوارڈ لینے کے لیے اس وقت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی کی اجازت سے پاکستان آئے تھے، لیکن شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کو یہ بھی ہضم نہ ہوا اور ان کے خلاف زہر اگلا۔ اسی سے شہ پا کر ہندو انتہا پسندوں نے دلیپ کمار کے گھر کے باہر مظاہرے کیے، حد تو یہ کہ ان پر پاکستان سے جاسوسی تک کا بے سروپا الزام عائد کیا گیا۔

    حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب حکومت پاکستان نے کسی ہندوستانی کو اہم قومی اعزاز سے نوازا ہو۔ اس سے قبل بھارتی سیاستدان مرار جی ڈیسائی جو بعد ازاں ہندوستان کے وزیراعظم بنے انہیں حکومت پاکستان نے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ 1987 میں بھارتی ایئر ہوسٹس نیرجا بھنوت کو ہائی جیکنگ کے واقعے میں بہادری کا مظاہرہ کرنے پر بعد از مرگ تمغہ پاکستان دیا گیا۔ لیکن ان پر بی جے پی یا آر ایس ایس نے غدار وطن یا پاکستان کے جاسوس ہونے کا الزام عائد نہیں کیا، کیونکہ یہ شخصیات مسلمان نہیں تھیں۔

    حالیہ کشیدگی کے علاوہ ماضی میں کئی بار پاک بھارت کشیدگی کے دوران شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان کی فلموں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ انہیں بھارت سے نکال باہر کریں۔ حالیہ جنگ بندی پر امن کی ٹویٹ کرنے پر یہ اتنے سیخ پا ہوئے کہ سلمان خان کو اپنی وہ ٹویٹ ہی ڈیلیٹ کرنی پڑی۔ بالی ووڈ کے فلمی اداکاروں کو تو ممبئی میں گھر تک خریدنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یہی حال کھیل سے وابستہ مسلمان کھلاڑیوں کا ہے۔ اظہر الدین، عرفان پٹھان، محمد شامی، ظہیر خان، محمد سراج سمیت ایسے درجنوں نام ہیں، جو خاموش رہتے ہیں یا پھر ’’مجبوری‘‘ کے تحت پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔

    ایک سابق بھارتی کرکٹر عرفان پٹھان ہیں۔ اتنا تو ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے سابق اور موجودہ کرکٹرز پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرتے جتنا وہ زہر اگلتے ہیں اور ان کا یہ طرز عمل ان کی مجبوری اور فرسٹریشن دونوں ظاہر کرتا ہے۔ حالانکہ یہ وہی عرفان پٹھان ہیں، کہ جب 2006 میں بھارتی ٹیم کے ہمراہ پاکستان آئے تھے تو ان ہی پاکستانیوں نے اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔

    2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان سے بھارت کی شکست کے ذمہ دار تنہا محمد شامی نہیں تھے۔ ویرات کوہلی، شیکھر دھون، روہت شرما سب ناکام ہوئے تھے لیکن گھر پر حملہ صرف محمد شامی کے کیا گیا اور انہیں غدار وطن تک کے خطاب سے نواز دیا گیا۔ ہندو انتہا پسندی کے خوف نے 2023 کے ورلڈ کپ میں شامی کو گراؤنڈ پر سجدہ شکر ادا کرنے سے روک دیا۔ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم جب بھی پاکستان سے ہارتی تھی تو بھارتی سب سے زیادہ لعن طعن مسلمان کپتان اظہر الدین پر کرتے تھے۔

    ایک جانب ہندوتوا کی حامی ریاست بھارت ہے جہاں مسلمانوں کے لیے سانس لینا بھی اجیرن اور پاکستان یا اس سے منسلک کسی نام کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ کہیں وہ کراچی بیکری پر حملہ آور ہوتے ہیں تو کہیں انتہا پسندی کی انتہا کرتے ہوئے قدیمی مٹھائیوں سے پاک نام ہٹا شری لگاتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان ہے، جہاں اقلیتوں کو ان کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ بھارت کتنی ہی شر انگیزی کرے، لیکن یہاں کا کوئی مسلم شہری کسی ہندو شہری کی حب الوطنی پر شک نہیں کرتا۔ اس کو ہراساں کیا جاتا ہے اور نہ ہی پاکستان چھوڑنے کے لیے دھمکایا جاتا ہے۔ یہاں بمبئی بیکری ہو یا دہلی بریانی آج بھی ہماری ثقافت کا حصہ اور شان سمجھی جاتی ہے۔ یہ فرق ہے دونوں طرف کی ذہنیت، سوچ اور اقدار کا۔

    مسلمانوں سے نفرت کرنے والے بھارت اور ہندو انتہا پسندوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس ایٹم بم کے بل بوتے پر وہ اتراتے ہیں، وہ ایک مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام ہی کی کاوش تھا۔ جو ترنگا وہ لہراتے ہیں اس کے ڈیزائن کی حتمی منظوری ایک مسلم طالبہ نے دی تھی۔ تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار سمیت سیاحوں کو راغب کرنے والے تاریخی مقامات مسلمان مغل حکمرانوں کی یادگار ہیں۔

  • نحیف و نزار ’’پاکستان کرکٹ‘‘ سے خصوصی انٹرویو!

    نحیف و نزار ’’پاکستان کرکٹ‘‘ سے خصوصی انٹرویو!

    سڑک سے گزر رہا تھا کہ کنارے پر ایک بوڑھے جھریوں زدہ وجود کو سکڑے سمٹے دیکھا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوتی، اگر اس کمزور وجود نے اپنے ایک ہاتھ میں گیند، بلا اور دوسرے ہاتھ میں پاکستانی پرچم نہ تھاما ہوتا۔ اس حلیہ نے تجسس کو بھڑکایا اور صحافتی رگ پھڑکی تو ہم اس نحیف و نزار وجود کے پاس جا پہنچے اور علیک سلیک کر کے کچھ بات کرنے کی کوشش کی۔

    چہرے کے نقوش بتا رہے تھے کہ یہ عمارت کبھی پرشکوہ بھی رہی ہوگی۔ تاہم زمانے کی چیرہ دستیوں اور حالات کے جبر نے خوبصورتی کو گہنا دیا ہے۔ قریب کھڑے ہو کر مزید جاننے کی کوشش کی تو ایسا لگا کہ یہ وجود جو بہت ستم رسیدہ دکھائی دے رہا تھا کوئی تازہ غم اس کے اندر نوحہ کناں تھا اور یہ غم اس کی آنکھوں کے ساتھ پورے ہی وجود سے جھلک رہا تھا۔ آنکھیں جھکی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں کسی سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں۔ یہ حالت دیکھ کر میں اس وجود کو زبردستی قریبی چائے کے ہوٹل پر لے گیا، تاکہ سکون کے ماحول میں اس کے کچھ اوسان بحال کیے جائیں اور حال احوال دریافت کیا جائے۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد اس نے ایک کونے میں سر چھپا کر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ کئی بار بات کا ارادہ کیا لیکن سامنے گہری خاموشی دیکھ کر خاموش رہا۔ بالآخر صبر نے جواب دیا تو سکوت توڑ کر تعارف حاصل کرنا چاہا اور پہلا سوال یہ پوچھا کہ آپ کون ہیں اور یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟

    پہلے تو وہ وجود اپنا تعارف کرانے سے ایسے جھجھکا، جیسے وہ اپنا تعارف کرانے پر شرمسار ہو لیکن ہمارے بے حد اصرار پر بالآخر بول پڑا کہ میں ’’پاکستان کرکٹ‘‘ ہوں۔ یہ سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ مگر جلد ہی خود کو سنبھال کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کرکٹ سے منفرد انٹرویو کرنے کی ٹھانی۔

    میں نے بطور صحافی تعارف کراتے ہوئے انتہائی کمزور وجود کے ساتھ بیٹھی پاکستان کرکٹ سے انٹرویو کی خواہش ظاہر کی۔ تھوڑے سے اعتراض کے بعد وہ راضی ہوئی، اور ساتھ ہی احسان جتایا کہ مجھ سے اپنا نام بڑا بنانے والے آج پیسوں پر انٹرویو دے رہے ہیں، مگر تم بھی کیا یاد کرو گے کہ میں تمہیں صرف چائے کی ایک پیالی پر ہی انٹرویو دے رہی ہوں۔

    انٹرویو کی نشست شروع ہوتے ہی میں نے پہلا پرتجسس سوال داغا کہ آپ جو آج بہت کمزور اور دکھی دکھائی دے رہی ہیں کیا ہمیشہ سے یہی حال ہے؟
    نہیں بیٹا میرا ماضی تو بہت خوبصورت اور روشن تھا۔ خوشیوں کا چمن تھا جس میں کئی پھول کھلے اور دنیا کو اپنی خوشبو سے مہکایا، لیکن آنے والے نا اہل مالیوں اور امر بیل فطرت رکھنے والوں نے میرے اس گلستان کو اب کسی اجڑے چمن کی صورت کر دیا ہے۔ جہاں قومی ٹیم نے بڑی فتوحات سے اقوام عالم میں میرا سر فخر سے بلند بھی کیا اور کچھ کرکٹرز نے اپنی حرکتوں سے دنیا کے سامنے مجھے شرمسار بھی کیا۔

    آپ کی عمر کیا ہے، کچھ اپنے ماضی کے بارے میں بتائیں؟
    میری عمر اس وطن عزیز سے چند سال ہی چھوٹی ہے۔ پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی کالونی ہونے کی وجہ سے وراثت میں کرکٹ ملی تھی۔ اس لیے صرف 5 سال بعد ہی 1952 میں مجھے باقاعدہ ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ مل گیا۔

    ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلے کس ملک کا دورہ کیا؟
    ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلا دورہ بھی کپتان عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں روایتی حریف بھارت کا کیا اور اکتوبر 1952 میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔

    آپ کو مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے؟
    ہاں بالکل درست ہے۔ مجھے قومی پرچم اور جرسی کی مناسبت سے گرین شرٹس بھی کہا جاتا ہے، مین ان گرین بھی پکارا جاتا ہے۔ میں شاہین بھی ہوں لیکن حالیہ کارکردگی نے مجھے کرگس بنا دیا ہے جب کہ لوگ مجھے طنزیہ انداز میں دنیا کی واحد نا قابل بھروسہ ٹیم بھی کہتے ہیں۔

    میرا سینہ اگر آج زخموں سے چور ہے لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ میرے دامن میں آنے والوں نے میرے ذریعے مال و دولت کمایا لیکن کچھ ایسے بھی نکلے جنہوں نے پیسہ کی خاطر میری عزت اور وقار کا سودا کر دیا۔

    آپ کی اب تک کی کارکردگی کیا رہی ہے؟
    ٹیسٹ نیشن کا درجہ ملنے کے بعد سے اب تک میں 10 ممالک کے خلاف مجموعی طور پر 465 ٹیسٹ میچز کھیل چکی ہوں اور ان میں سے 151 جیتے۔ 148 ہارے۔ 166 ڈرا ہوئے۔
    جب ایک روزہ کرکٹ آئی تو اولین دن سے اس کا حصہ بنی اور اب تک 19 ممالک سے پنچہ آزمائی کرتے ہوئے 987 میچز کھیل کر 520 میچوں میں کامیابی سمیٹی اور 437 میں ناکامی ملی۔

    دو دہائی قبل جب ٹی 20 کرکٹ کا دور شروع ہوا تب سے اب تک ورلڈ الیون اور 19 ملکوں کی ٹیموں سے 258 میچز کھیل کر 145 جیتے اور 102 ہارے۔

    13 ون ڈے ورلڈ کپ میں 1992 کا ٹائٹل جیتا۔ دو فائنل اور چار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پایا۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ کے ریکارڈ پانچ سیمی فائنل اور دو فائنل کھیلے 2009 میں چیمپئن بنا۔ 2016 میں ٹیسٹ کرکٹ کی نمبر ون ٹیم کا اعزاز پایا۔ 2017 میں پہلی بار سرفراز کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی بھی اٹھائی۔

    گزشتہ کئی سالوں سے پے در پے شکستوں کے باوجود آج بھی میری جیت کا تناسب شکستوں سے زیادہ ہے، جو اس بات کا گواہ ہے کہ میرا ماضی خوشیوں سے بھرا اور بہت روشن تھا۔

    پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی خوشی کون سی ہے؟
    اس میں کوئی شک نہیں کہ 1992 میں جب پاکستان پہلی بار ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تو وہی سب سے بڑی خوشی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں اس وقت کے کپتان عمران خان نے جس طرح ٹوٹی، بکھری اور شکستوں کے بھنور میں پھنسی ٹیم کو عرش سے اٹھا کر فرش پر پہنچایا اور جس طرح میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں خوبصورت کرسٹل ٹرافی اٹھائی۔ وہ منظر 33 سال گزرنے کے باوجود دل ودماغ سے محو نہیں ہوتا۔

    اس کے علاوہ پاکستان نے شارجہ میں 1986 کے آسٹریلیشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو فائنل میں ہرا کر پاکستان کو پہلی بار کثیر الملکی ٹورنامنٹ میں ٹرافی جتوائی۔ میانداد کا چیتن شرما کی آخری گیند پر مارا گیا چھکا آج بھی بھارتیوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ کئی سال کے ٹرافی کے قحط کے بعد پاکستان ٹیم ایک بار لارڈز کے میدان میں سرخرو ہوئی اور 2009 میں یونس خان کی قیادت میں ٹی 20 ورلڈ کپ جیت کر دہشتگردی سے خوفزدہ پاکستانی عوام کے چہرے پر خوشیاں بکھیریں۔ پھر 2016 میں ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز اور ایک سال بعد ہی سرفراز احمد نے وہ کر دکھایا جو کسی اور کپتان نے نہیں کیا تھا۔ روایتی حریف بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پچھاڑ کر پاکستان کو پہلی بار یہ اعزاز بھی دلایا اور اس کے ساتھ آئی سی سی کے تمام فارمیٹس کی فتوحات پاکستان کے نام ہوئیں۔

    آپ کے لیے سب سے مشکل وقت کون سا تھا؟
    بیٹا دکھ سکھ تو ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ کبھی سکھ کی چھاؤں آتی ہے تو کبھی دکھ کی تمازت پورے جسم اور روح کو جلا دیتی ہے۔ لیکن میرے لیے جہاں خوشیوں کے بہت سارے در کھلے وہیں دکھ کے موسم بھی بہت اور طویل رہے۔ دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے ہر بار عارضی مرہم پٹی کر کے سدھار کی کوشش کی گئی لیکن مستقل مزاجی نہ ہونے کے باعث لگتا ہے کہ یہ زخم ناسور بن چکا ہے۔

    پاکستان کرکٹ میں دھڑے بندی کب شروع ہوئی؟
    ٹیم میں کپتانی کی دوڑ تو 80 کی دہائی سے شروع ہو چکی تھی لیکن 90 کی دہائی میں اس نے تقویت پائی اور دھڑے بندی بھی ہوئی لیکن بات کرو دکھ کی تو جس نے روح تک کو مسل ڈالا وہ 1999 کا ورلڈ کپ تھا۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم ناقابل شکست رہتے ہوئے بڑی بڑی ٹیموں کو پچھاڑ گئی لیکن حیران کن طور پر نو آموز بنگلہ دیش سے ہار گئی۔ اس وقت کے کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ ہم اپنے بھائی سے ہارے لیکن اس کے جواب میں بنگلہ دیش کی متعصب وزیراعظم حسینہ واجد نے جلتی پر تیلی کا کام کرتے ہوئے اس کو 1971 (سقوط ڈھاکا) کا بدلہ قرار دیا۔ پھر اس کے فائنل میں جس بری طرح شکست ہوئی وہ 26 سال گزرنے کے باوجود اب تک لوگوں کے ذہنوں کے پردے پر محفوظ ہے۔

    اس سے قبل 1994 میں پہلی بار پاکستان ٹیم پر میچ فکسنگ کا الزام لگا تھا۔ اس کی تحقیقات ہوئیں اور جب جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ آئی تو اس نے تہلکہ بھی مچایا۔ لیکن ملبہ صرف دو کھلاڑیوں سلیم ملک اور عطا الرحمان پر ڈال کر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ وسیم اکرم کو فوری کپتانی سے ہٹانے کی سفارش کی گئی اس کے ساتھ کچھ کھلاڑیوں کو اہم عہدوں پر تعینات نہ کرنے کی بھی سفارش کی گئی مگر بعد میں ان میں سے ہی کچھ کپتان اور ریٹائرمنٹ کے بعد پی سی بی کے عہدوں پر فائز ہوئے۔

    2006 میں دورہ انگلینڈ میں آخری ٹیسٹ میچ کو فورفیٹ کر کے انگلش ٹیم کو ایوارڈ کرنا بھی کرکٹ کا انوکھا واقعہ رہا اور اس میں بھی پاکستان ہی شریک تھا۔ وہ تو بعد میں پی سی بی کی کوششوں سے آئی سی سی نے اس میچ کو ڈرا قرار دیا۔

    2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پہلے ہی راؤنڈ میں ٹورنامنٹ سے اخراج سے زیادہ تکلیف دہ اس وقت کے ٹیم کوچ باب وولمر کی پراسرار موت تھی۔ اس معاملے میں پاکستانی ٹیم پر شک اور تفتیش نے دنیا میں میرا امیج خراب کیا۔

    2010 میں دورہ انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ ایسا کیس ہے جس نے میرے شکستہ وجود کو مزید کمزور کیا اور ایسا لگا کہ میرے چہرے پر کالک مل دی گئی ہو۔ اس جرم کی پاداش میں پہلی بار پاکستانی کرکٹرز کو جیل کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ اس وقت کے کپتان اور سارے تماشے کے کرتا دھرتا سلمان بٹ اور محمد آصف کو تاحیات پابندی جب کہ نوجوان محمد عامر کو سات سال پابندی کی سزا ملی۔ اس واقعہ نے پاکستان کو ایک بڑے فاسٹ بولر سے محروم کر دیا گوکہ محمد عامر کی واپسی ہوئی لیکن وہ پہلے کی طرح اپنا جادو نہ جگا سکا۔

    سوال: پاکستان ٹیم نے کیوں برسوں تک اپنے میچز نیوٹرل مقامات پر کھیلے؟
    بیٹا یہ بھی دہشتگردی کا شاخسانہ تھا۔ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی کہ لاہور میں مہمان ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ رک گئی۔ غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا اور پاکستان نے اسی وجہ سے اپنے میچز کئی سال تک نیوٹرل مقامات پر کھیلے۔ یہ بہت شرمناک اور اذیت ناک دور تھا۔ اسی کی آڑ لے کر پاکستان سے خائف بھارت نے 2011 میں ون ڈے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی بھی مجھ سے چھین لی۔

    2015 میں سیکیورٹی اداروں کی کوششوں اور امن قائم ہونے کے بعد غیر ملکی ٹیموں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور اب سوائے بھارت کے تمام ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔ پاکستان نے 29 سال بعد رواں برس آئی سی سی کے کسی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی کا کامیاب انعقاد بھی کیا۔ پاکستان سپر لیگ نے بھی میرا مثبت امیج دنیا کو دیا اور آج دنیا کے کئی ممالک کے نامور کرکٹرز پی ایس ایل کھیلتے ہیں۔

    جب آپ کو اتنی خوشیاں ملیں تو پھر اتنا زود رنج کیوں ہو رہی ہیں؟
    بیٹا تم ہی بتاؤ کہ وہ ٹیم جس نے آئی سی سی کے تمام ٹورنامنٹس (ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی) جیتنے کے ساتھ ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز بھی پا رکھا ہو۔ دو بار ایشین چیمپئن کا تاج بھی سر پر سجایا ہو۔ اس ٹیم کی آج حالت یہ ہوچکی ہو کہ وہ ڈیڑھ سال کے دوران ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور اپنی میزبانی میں کھیلی گئی چیمپئنز ٹرافی میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوچکی ہو۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم بھی مجھے میرے گھر میں وائٹ واش کر کے چلی جائے تو اس پر خوشی کے بھنگڑے ڈالوں یا ماتم کناں ہوں۔

    آپ کی نظر میں اس کارکردگی کی وجہ کیا ہے؟
    بیٹا میں نے آج تک یہی دیکھا ہے کہ مستحکم کامیابی مستقل مزاجی سے ملتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے کسی ادارے میں مستقل مزاجی نہیں تو کرکٹ میں کیسے ہو سکتی ہے۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں چھیڑ چھاڑ، نئی پالیسیاں، نئے چہرے اور ترجیحات سے معاملات بگڑتے ہیں۔

    میں زیادہ پرانی بات نہیں کرتی۔ صرف اس سوا ڈیڑھ سال کے عرصہ کو دیکھ لو۔ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی سربراہ، عہدیدار، ٹیم منیجمنٹ حتیٰ کہ کئی بار کپتان تبدیل ہوگئے۔ ہر تبدیلی پر بڑے دعوے اور میجر آپریشن کی بات کی گئی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیم کو عارضی کامیابیاں تو ملتی ہیں مگر مستقل مزاجی نہیں آتی۔

    آپ کو 73 سال کا تجربہ ہے تو آپ کی نظر میں اس کا حل کیا ہے؟
    بیٹا میں کیا اور میری رائے کیا؟ ہونا تو وہی ہے جو اس ملک کے بڑے اور کرکٹ کے کرتا دھرتا چاہیں گے، مگر جب زبان پر آئی ہے تو کہہ چلوں کہ پاکستان کرکٹ کی ترقی کے لیے حق اور راست گوئی کی راہ اپناتے ہوئے بے رحمانہ احتساب کیا جائے لیکن اس میں صرف کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ اس میں فیصلہ سازوں کو بھی شامل کیا جائے۔ پرچی کلچر ختم کر کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لایا جائے، ساتھ ہی مستقل مزاجی سے ٹیم اور منیجمنٹ منتخب کر کے اس کو وقت دیا جائے تو یہی ٹیم پھر سے قوم کی امنگوں پر پوری اترے گی اور میری عمر رسیدگی کا بھرم قائم رکھے گی۔

    آپ کی خواہش کیا ہے؟
    کرکٹ واحد کھیل ہے جو لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم میں بٹے لوگوں کو ایک قوم میں بدلتی ہے خاص طور پر جب پاک بھارت میچ ہو تو قومی جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ قوم کا اتحاد اسی کھیل کی ترقی سے بھی جڑا ہے۔ میں ایک بار پھر اپنی ٹیم میں محمد برادران، حفیظ کاردار، عمران خان، جاوید میانداد، یونس خان، شاہد آفریدی، سرفراز احمد جیسے بڑے نام دیکھنا چاہتی ہوں جن کا مطمح نظر پیسہ نہیں بلکہ پاکستان اور سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی ہوتا تھا۔
    یہ پاکستان کرکٹ کے وہ درخشاں ستارے ہیں جن کے بغیر پاکستان کرکٹ کی تابناک تاریخ ادھوری رہے گی۔ انہوں نے پاکستان کو بڑا ٹائٹل جتوایا لیکن خود پر کبھی کرپشن کا ایک داغ نہیں لگنے دیا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ خود کو منوانے اور کامیابی کے لیے جذبے کےساتھ ایمانداری بھی ضروری ہے۔

  • ’’اغوا اور زیادتی کے بعد سفاکانہ قتل‘‘ کیا کمسن صارم کو انصاف مل سکے گا؟

    ’’اغوا اور زیادتی کے بعد سفاکانہ قتل‘‘ کیا کمسن صارم کو انصاف مل سکے گا؟

    ایک اور کمسن پھول کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا۔ انسانی لبادے میں وحشی درندے نے حیوانیت کی انتہا کرتے ہوئے 7 سالہ صارم پر جو وحشیانہ تشدد کیا، اس نے سب کو لرزا کر رکھ دیا ہے اور اب اس کے غمزدہ والدین انصاف کے منتظر ہیں۔

    اس درد ناک کہانی کا آغاز 7 جنوری کو نارتھ کراچی کے علاقے میں واقع بیوت الانعم اپارٹمنٹ میں ہوا۔ منگل 7 جنوری کا سورج ننھے صارم کے گھر والوں کے لیے ایک اذیت ناک دن لے کر طلوع ہوا۔ اس دن صارم گھر سے مدرسے کے لیے بھائی کے ہمراہ نکلا ضرور لیکن پھر کبھی واپس نہ آ سکا۔ شام مدرسے سے واپسی پر جب بڑا بھائی صارم کے بغیر گھر پہنچا تو اس کی ڈھونڈ مچی۔ اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں پتہ کیا گیا، لیکن کسی کو بچے کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔
    تھک ہار کر والدین تھانے پہنچے اور صارم کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ بلال ٹاؤن پولیس حرکت میں آئی۔ بچے کی تلاش میں فلیٹوں کی تلاشی لینے کے ساتھ ساتھ پانی کے زیر زمین ٹینکوں، سیوریج لائنوں، چھت سمیت دیگر مقامات کی مکمل تلاشی لی گئی جبکہ شک کی بنیاد پر متعدد مقامات پر چھاپے بھی مارے لیکن ننھے بچے کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ مدرسے کی چھٹی کے وقت لائٹ گئی ہوئی تھی، اس لیے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نہ مل سکی۔

    اسی دوران گمشدہ صارم کے والد کو کچھ مشتبہ میسجز اور مس کالز آئیں جن میں تاوان کے لیے آن لائن پیسوں کا تقاضہ کیا گیا تاہم جب ان نمبروں کی تفتیش کی گئی تو یہ میسجز اور کالز پنجاب اور بلوچستان سے آئیں اور پولیس نے اس کو غیر متعلقہ قرار دے دیا۔

    صارم کے والدین اور اہلخانہ کی بچے کے مل جانے کی امید اس کے لاپتہ ہونے کے 11 دن بعد اس وقت دم توڑ گئی جب 18 جنوری کو عمارت کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے ہی اس کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی۔ لاش کے ساتھ اس کی مدرسہ کی ٹوپی اور گیند بھی ملی۔

    عباسی شہید اسپتال میں بچے کے پوسٹمارٹم میں اس سے زیادتی کی تصدیق تو ہوئی، ساتھ ہی صارم کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد کس بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یہ پتہ بھی اسی پوسٹمارٹم رپورٹ سے چلا جس نے سب کے دل دہلا دیے۔ اس رپورٹ کے مطابق صارم کی لاش چار دن پرانی تھی۔ معصوم بچے کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور اس کا گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔ جسم پر ایک دو نہیں بلکہ زخموں کے 13 نشانات پائے گئے۔ جلد مختلف مقامات سے چھلی ہوئی تھی۔ اس کے پھیپھڑے بھی سکڑ گئے تھے جب کہ پیشانی کے علاوہ تمام زخم مرنے سے پہلے کے تھے۔

    لاش ملنے کے بعد پولیس کی سست رفتار تحقیق میں پھرتیاں آ گئیں۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے سراغ رساں کتوں کی مدد لی گئی اور راتوں رات آپریشن کر کے فلیٹ سے دو مشکوک افراد گرفتار کیے گئے۔ پولیس نے شک کی بنا پر قریبی عزیز، مدرسے کے معلم، والو مین سمیت کئی افراد کو حراست میں لیا۔ بچے کے اعضا کے ساتھ گرفتار ملزمان کے خون کے نمونے اور کئی دیگر اہم شواہد بھی لے کر ڈی این اے کے لیے لیبارٹری بھیج دیے گئے جن کی رپورٹس اب تک موصول نہیں ہوچکی ہیں جب کہ اسی دوران اس کیس کی تحقیقات والی ٹیم نے یہ بھی امکان ظاہر کیا کہ صارم گمشدگی کے بعد سے موت تک اپارٹمنٹ سے باہر نہیں لے جایا گیا۔

    اس واقعہ کی تحقیقات چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا کہنا تھا کہ وقوعہ کے روز جب پولیس وہاں پہنچی تو کرائم سین کافی حد تک خراب ہو چکا تھا۔ اسلیے ڈی ایس پی فرید احمد خان کی سربراہی میں خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم نے ایک بار پھر جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور کرائم سین ری ایکٹ کر کے واقعہ کے سراغ تک پہنچنے کی کوشش کی۔

    تاہم اس سے اگلے روز ہی 25 جنوری کو تحقیقاتی ٹیم نے صارم کی ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ پر غیر تسلی بخش ہونے کا شبہ ظاہر کیا جس کی وجہ اس کیس کے واقعاتی شواہد اور ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ میں بہت کم مماثلت بتائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحقیقاتی ٹیم نے میڈیکولیگل آفیسر کو سوالنامہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو ڈی این اے، کیمیکل ایگزامن رپورٹ آنے کے بعد بھیجا جائے گا جب کہ تحقیقاتی ٹیم نے اس کیس میں اعلیٰ حکام کو ڈاکٹروں کا خصوصی میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ یوں اس معصوم صارم کے قاتل کا سراغ لگانے کے لیے پوری تفتیش کا دار و مدار اب صرف ڈی این اے اور فارنزک رپورٹ پر ہے۔

    صارم 7 جنوری کو لاپتہ ہوا اور 18 کو اس کی چار دن پرانی لاش ملی۔ تحقیقات کے مطابق وہ 7 سے 13 تاریخ تک اسی اپارٹمنٹ کے کمپلیکس میں رہا، تو اس کو بروقت کیوں تلاش نہ کیا جا سکا؟ جو سراغرساں کتے بچے کی لاش ملنے کے بعد لائے گئے وہ لاش ملنے سے قبل کیوں نہ لائے گئے؟ ہر تھانے میں ویمن اینڈ چائلڈ ہراسمنٹ سیل بنا ہوا ہے، وہ سیل کیا اس موقع پر سو رہا تھا؟ اس کے علاوہ ہمارے پاس باڈی سینسر کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس کے ذریعے ان جگہوں کو بھی چیک کیا جا سکتا ہے، جہاں انسانی آنکھ کام نہیں کرسکتی تو پھر اس کی مدد کیوں حاصل نہیں کی گئی؟ یہ اور ایسے کئی سوالات ہیں جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں اور وہ اس کا جواب بھی چاہتے ہیں۔

    صارم کی گمشدگی کے دوران 11 روز تک والدین بچے کی بازیابی دہائیاں دیتے رہے، مگر پولیس نے ابتدا میں روایتی ٹال مٹول والی تحقیقات کیں اور جب لاش ملی تو بھاگ دوڑ شروع ہوئی، لیکن اب یہ بھاگ دوڑ کیا غمزدہ والدین کو ان کا صارم واپس دلا سکے گی؟

    آپ سب کو یاد ہوگا کہ جب 2018 میں قصور میں سات سالہ زینب کا اسی نوعیت کا زیادتی کے بعد قتل کا واقعہ ہوا تھا، جس کے مجرم کو پھانسی دے کر کیفر کردار تک بھی پہنچا دیا گیا تھا۔ ملک بھر کو ہلا دینے والے اس واقعہ کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس کی دوسری برسی پر زینب الرٹ بل پاس کیا تھا۔ اس بل کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی کم سے کم سزا 10 سال سے بڑھا کر 14 سال قید کر دی گئی تھی جب کہ اسی بل میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ ایسے افسر کو بھی سزا دی جائے گی جو بچے کے خلاف جرم پر دو گھنٹے کے اندر ایکشن نہیں لے گا۔

    یہ واحد کیس نہیں بلکہ گزشتہ سال کی خبروں میں تلاش کریں تو ہمیں ایسے کئی صارم، زینب اور دیگر معصوم بچے مل جائیں گے، جو ان وحشیانہ جرائم کے عادی افراد کی غلیظ سوچ کی نذر ہوگئے، لیکن ان میں کتنی زینب تھیں جن کو انصاف مل سکا اور کیا صارم کو بھی انصاف مل سکے گا؟ کیا آئندہ ایسے قبیح جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی موثر اقدامات کیے جائیں۔ اگر ہم نہ کہیں تو درست ہوگا کیونکہ صارم کے اغوا اور قتل کیس کے بعد سے ہی ملک کے اعداد وشمار تو کیا صرف کراچی میں کئی بچوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے دو کو بازیاب کرا لیا گیا لیکن گارڈن سے اغوا دو بچوں کو دیکھنے کے لیے ان کے والدین اب تک ترس رہے ہیں۔

    معاشرے میں جرم کا ارتکاب ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی، لیکن قانون بننے اور نفاذ کے باوجود تواتر سے بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے واقعات ہونا اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنگل سے بدتر اور انسان جانور کے مرتبے سے بھی گر چکا ہے، کیونکہ جانور بھی اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے بچے اور بڑے میں فرق کر لیتے ہیں۔ ہر سال اس نوعیت کے ہزاروں کیسز کا رپورٹ ہونا ہمارے نظام قانون پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے کہ ہمارے قانون میں کچھ سقم ہے، یا پھر متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اس مجرمانہ عمل کی روک تھام نہیں ہوسکی ہے۔

    صارم واقعہ کے بعد کراچی پولیس اور غیر سرکاری سماجی تنظیم کا بچوں کے تحفظ کا بیڑا اٹھاتے ہوئے شہری سطح پر عوامی شعور اجاگر کرنے کی مہم چلانے کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے، لیکن یہ واقعات والدین کے لیے بھی الارمنگ ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو حتی الامکان تنہا نہ چھوڑیں اور ان کی ایسی تربیت کریں کہ کوئی انہیں ورغلا اور نقصان نہ پہنچا سکے۔ ایسے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر رشتے دار، پڑوسی یا جاننے والے بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے والدین اپنے بچوں کو چچا، ماموں اور دور کے رشتے داروں کے درمیان فرق سے آگاہ کریں اور انہیں بتائیں کہ کس رشتے دار کے ساتھ کتنے فرق سے ملنا ہے۔ انہیں یہ بھی بتائیں کہ صرف انکل کہنے سے کوئی سگا رشتہ نہیں بن جاتا تو کوئی دور کا رشتہ دار یا پڑوسی کی ان سے چھیڑ چھاڑ کی کوئی غیر معمولی حرکت ہو تو فوری والدین کو آگاہ کریں۔ اور ساتھ ہی انہیں ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بولنا اور آواز اٹھانا سکھائیں، جیسا کہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک بچی نے شور مچا کر اپنے اغوا کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

  • ’’اووو۔۔۔۔۔، اوووو‘‘ ملک اور قوم کی ترقی کا زینہ!

    ’’اووو۔۔۔۔۔، اوووو‘‘ ملک اور قوم کی ترقی کا زینہ!

    وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں نئے سال کے آغاز پر اڑان پاکستان لانچنگ پروگرام میں قوم کو اُڑنے کا نیا گُر سکھاتے ہوئے ’’اوووو، اوووو‘‘ کی آواز میں احتجاج کرنے کا پیغام دیا اور یہ پیغام اب اتنا پھیل رہا ہے کہ پوری قوم ہی اووو، اووو کر کے اس کو قومی بیانیہ بنانے میں مصروف ہو چکی ہے۔

    شہباز شریف جنہوں نے خوش قسمتی سے دوسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ وہ اس سے قبل تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بلاشبہ اپنے صوبے کے عوام کی ’’اتنی خدمت‘‘ کی، کہ خود ہی خود کو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ اب جب سے یہ خیر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں، تو انہوں نے خادم اعلیٰ کے ساتھ شاید خود کو ’’استاد قوم‘‘ سمجھنا شروع کر دیا ہے اور آئے دن پاکستانی قوم کو ترقی کرنے کے ایسے ایسے گُر سکھاتے ہیں، جس سے یہ بے چاری قوم پہلے نابلد تھی۔

    وزیراعظم نے اڑان پاکستان پروگرام کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے قوم کو ترقی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ ’’وہ جب جاپان گئے تو انہوں نے اووو، اووو کی آوازیں سنیں اور جب انہوں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ فیکٹری کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں، وہ کام نہیں روک رہے کیونکہ یہ ملک و قوم کا نقصان ہے، اس لیے وہ کام جاری رکھتے ہوئے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومیں ایسے ہی ترقی کرتی ہیں جب کہ ہمارے ہاں احتجاج کے نام اسلام آباد پر لشکر کشی کی جاتی ہے۔

    شہباز شریف کا یہ بیان بظاہر ایک سیاسی بیانیہ لیے ہوئے تھا جنہوں نے اپنی بات کو دوسرے پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا یہ مشورہ سننے کے بعد تقریب میں بیٹھے لوگوں کے لیے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوگیا۔
    خادم پاکستان کے سونے کے ترازو میں تولے جانے والے اس بیش قیمت لیکن مفت مشورے پر تو سمجھو قوم نے اسی دن سے عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاجروں نے تو کراچی میں گزشتہ روز اس کا ڈیمو بھی پیش کر دیا۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے غیر قانونی چالان پر احتجاج کرتے ہوئے اووو، اووو کیا، بچے بڑے سب ہی اووو، اووو کر رہے ہیں، لیکن ترقی کا عمل کب شروع ہوتا ہے، یہ ہنوز سوالیہ نشان ہے؟

    شہباز شریف جنہیں قوم کا درد، رات میں سکون کی نیند سونے نہیں دیتا۔ وہ علی الصبح اٹھ جاتے ہیں اور دن کے 24 میں سے ’’25‘‘ گھنٹے قوم کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اگر قوم کو کامیابی کا گُر اور دنیا میں ترقی کرنے کا راز بتا دیا ہے تو اس میں ایسی کیا مضحکہ خیز بات ہوگئی کہ یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کا مذاق اڑانا اور میمز بنانا شروع کر دیں۔ سوشل میڈیا پر اگر میمز بن رہی ہیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ دشمنوں (پی ٹی آئی) کی سازش ہے۔ مگر یہ ہمارے جید صحافیوں حامد میر، نصرت جاوید، جاوید چوہدری، سابق قومی کپتان محمد حفیظ اور مختلف سیاسی شخصیات کو کیا ہو گیا کہ وہ بھی اس پر ہنسی ٹھٹا اڑانے لگے، آخر کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔

    یہ تو مخالف سیاستدان ہیں یا عوام اور صحافی، جن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں گلہ تو ن لیگیوں سے ہے کہ وہ کیوں اس پر ہانسا نکال کر لوگوں کو ہنسنے کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ تو آن اسکرین اس بیان سے جڑے سوال پر ہنستے ہیں جب کہ اندرون خانہ ن لیگ کی بیٹھکوں میں تو اس پر کان پھاڑ قہقہے تک لگائے جانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ اس بیان سے شہباز شریف کو ملکی نہیں بین الاقوامی ایک اور شہرت مل گئی ہے اور بیرونی دنیا سے بھی اس پر میمز بن رہی ہیں۔

    سوچیں پارلیمنٹ میں حکومتی تقریر کے دوران اچانک اووو، اووو کی آوازیں آنے لگیں تو ’’منتخب عوامی نمائندوں‘‘ کا یہ ایوان ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے جیسا منظر پیش کرنے لگے۔ ویسے ناچیز کی جانب سے ایک تجویز ہے کہ جس طرح اس ایوان سے تھوک کے بھاؤ سے بل پاس کرائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے یہ بھی پاس کرا دیا جائے کہ آئندہ احتجاج کے لیے کوئی اور نعرہ نہیں لگے گا، سب صرف ’’اووو، اووو‘‘ ہی کریں گے۔ اگر اپوزیشن رخنہ ڈالے تو ایوان صدر کس کام آئے گا، وہاں سے بزور آرڈیننس ملک و قوم کو ترقی کے اوج ثریا پر پہنچانے والے اس فارمولے کو قانون بنایا جا سکتا ہے، بلکہ اس پر 100 فیصد عملدرآمد کے لیے حکومت کی جانب سے خلاف ورزی پر بھاری سزا یا جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

    دنیا بھر میں تقریروں میں سیاستدانوں کی زبان پھسلتی رہتی ہے لیکن وہ اس کا فوری تدارک کر لیتے ہیں لیکن شہباز شریف وہ شعلہ بیان سیاستدان ہیں، جن کی زبان اتنی طویل اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت پھسلتی ہے کہ پھر چکنا گھڑا بن جاتی ہے اور اتنی زبان زد عام ہو جاتی ہے جیسا کہ ماضی میں ’’میں بھیک مانگنے نہیں آیا مگر پھر بھی‘‘ والا ایک تقریب میں کیا گیا خطاب اب تک قوم کیا، دنیا کو نہیں بھولا ہے۔

    ذرا تصور کریں کہ نواز شریف اچانک ٹی وی اسکرین پر آئیں اور دوران گفتگو حسب سابق ماضی میں پہنچ کر اپنے خلاف روا رکھے گئے رویے پر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کہہ کر احتجاج کرنے کے بجائے صرف ’’اووو، اوووو، اووو‘‘ کریں تو کیسا لگے گا۔ یا پھر اتحادی جماعتیں ن لیگ، پی پی پی، ایم کیو ایم اختلاف رائے ہونے پر میٹنگ میں صرف اووو، اووو کریں اور اٹھ جائیں تو اس بیٹھک کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

    وزیراعظم نے تو قوم کو ترقی کا راز بتا دیا۔ اب اگر اس پر بھی قوم ترقی نہ کرے تو قصور ہمارے پیارے وزیراعظم کا نہیں بلکہ نا اہل قوم کا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ جس سُر تال اور لے کے ساتھ جاپانی قوم اووو کرتے ہوں پاکستانی وہ انداز نہ اپنا سکیں اور یوں ترقی کی راہ میں رکاوٹیں آئیں۔ اس لیے ہمارا بھی ایک مفت مشورہ ہے کہ ملک میں ایسے تربیتی مراکز قائم کیے جائیں جہاں قوم کو صحیح طریقے سے اووو کی آواز نکالنے کی تربیت کی جائے، تاکہ ملک وقوم کی ترقی کا 77 سالہ خواب جلد از جلد شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

  • بھارت کا انکار، پاکستان کا سخت موقف، آئی سی سی مشکل کا شکار؟

    بھارت کا انکار، پاکستان کا سخت موقف، آئی سی سی مشکل کا شکار؟

    بالآخر بھارتی مکر و فریب کی بلی تھیلے سے باہر آہی گئی اور چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد سے صرف 100 دن قبل بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو اپنی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا، گو کہ بھارت کے سابقہ کھیل سے کھلواڑ کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ 100 فیصد متوقع تھا لیکن پی سی بی حکام نے نجانے کیوں ہٹ دھرم بھارت سے پھر امید باندھ لی تھی۔

    بھارت جو بڑا اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا ملک ہونے کا فائدہ اٹھا کر کئی دہائیوں سے کرکٹ پر اپنے تسلط کا خواب دیکھتا آیا ہے۔ اس کے لیے کبھی بگ تھری کا فلاپ فارمولا لاتا ہے، تو کبھی پیسوں کی چمک پر دیگر بورڈز کو اپنے مفادات پر مبنی فیصلے کرنے پر مجبور کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، لیکن پاکستان پر اس کا زور نہیں چلتا تو وہ کرکٹ میں سیاست لا کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ہر دم مصروف رہتا ہے۔ اب تو کچھ دن بعد جب بھارت کے جے شاہ آئی سی سی چیئرمین کی کرسی سنبھال لیں گے تو وہ بھارت کے خود ساختہ کرکٹ سپر پاور بننے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر چاہے اس کے لیے جنٹلمین کا کھیل کہلانے والی ’’کرکٹ‘‘ کا حلیہ کتنا ہی کیوں نہ بگڑ جائے وہ آخری حد تک جائیں گے۔

    چیمپئنز ٹرافی 2025 اردو خبریں

    سری لنکن ٹیم پر 2009 میں لاہور میں ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ پاکستان سے روٹھ گئی تھی۔ حکومت اور پاک فوج کے اقدامات سے دہشتگردی کے خاتمے کے بعد ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ سمیت تمام ٹیمیں پاکستان آکر اور پرسکون ماحول میں کئی بار کرکٹ کھیل کر جا چکی ہیں۔ پاکستان کو آئی سی سی ایونٹ کی 1996 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے 28 سال بعد چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی۔ اس دوران 2011 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کو سری لنکا ٹیم پر حملے کا واقعہ ہڑپ کر گیا۔

    پاکستان آئندہ برس 19 فروری سے 9 مارچ تک کھیلی جانے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا صرف میزبان ہی نہیں بلکہ دفاعی چیمپئن بھی ہے، تاہم چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملنے کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے آئے روز بلیو شرٹس کے پاکستان نہ آنے اور ایشیا کپ کی طرح یہ ایونٹ بھی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کسی دوسرے ملک کھیلنے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا، جو دراصل بھارت کا پرانا مگر اوچھا ہتھکنڈا ہے اور اس کا مقصد پاکستان کے ساتھ آئی سی سی کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔

    ایک جانب بھارت ہے جو میں نہ آؤں کی رٹ لگایا ہوا ہے۔ دوسری جانب دو طرفہ کرکٹ تعلقات منقطع ہونے کے باوجود پاکستان جذبہ خیر سگالی کے طور پر اس مدت میں تین بار پاکستان کا دورہ کرچکا اور انتہا پسند ہندوؤں کی سنگین دھمکیوں کے باوجود وہاں کھیل چکا ہے جب کہ بھارت نے گزشتہ سال ایشیا کپ کو ہائبرڈ ماڈل کے تحت کرا کے ایونٹ کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ اس پر پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی آئی سی سی سے شکایت کی تھی۔ بھارت جس نے سیکیورٹی کا بہانہ بناتے ہوئے ٹیم بھیجنے سے انکار کیا۔ پاکستان پہلے ہی اسے ہر طرح کی ضمانت، تمام میچز لاہور حتیٰ کہ میچ کھیل کر واپس امرتسر جاکر قیام کرنے کے آپشن بھی دے چکا ہے۔ اس صورت میں اس کا یہ رویہ سراسر ہٹ دھرمی ہی کہا جائے گا۔

    بھارتی ہٹ دھرمی کے بعد اب پاکستان بھی چیمپئنز ٹرافی اپنے ہی ملک میں کرانے کے اصولی موقف پر ڈٹ گیا ہے اور حکومت پاکستان کی ہدایت پر آئی سی سی کو خط لکھ کر ہائبرڈ ماڈل کا آپشن یکسر مسترد کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے پاکستان نہ آیا تو پھر پاکستان کہیں بھی اور کسی بھی ٹورنامنٹ میں بھارت سے نہیں کھیلے گا۔ پی سی بی کا یہ جرات مندانہ موقف ہے اور پاکستان یہ موقف اپنانے پر حق بجانب ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ پاکستان چیمپئینز ٹرافی مائنس بھارت کرانے اور اس کی جگہ کسی اور ٹیم (سری لنکا) کو مدعو کرنے کے آپشن پر بھی غور کر رہا ہے۔

    یہ تمام ارادے اور اقدامات خوش کن، مگر جب اس کہے پر من و عن عملدرآمد ہو سکے تو۔ کیونکہ عوام اس معاملے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ان کے ذہنوں سے یہ محو نہیں ہوا کہ جب ایک سال قبل بھی ایشیا کپ کے لیے جب بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کیا، تو ہمارے اس وقت کے بورڈ سربراہ نے بھارت کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ہائبرڈ ماڈل کو بالکل مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کا اعلان تک کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارتی ٹیم تو اپنے کہے کے مطابق پاکستان نہیں آئی لیکن پاکستان اپنے کہے پر قائم نہ رہ سکا۔ ایشیا کپ بھارت کی فرمائش پر ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیل کر ایونٹ کا بیڑا غرق کیا گیا، جس کا سراسر فائدہ صرف بھارت کو ہوا، جب کہ اس کے بعد گرین شرٹس خوشی خوشی ورلڈ کپ کھیلنے بھارت بھی چلے گئے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ وہاں سے خوشی کے بجائے ایک نئی ہزیمت ساتھ لے کر آئے۔

    بھارت بے شک بڑا اور کماؤ پوت بورڈ اور اب، آئی سی سی جس کا جھکاؤ پہلے ہی انڈیا کی طرف ہوتا ہے اس کا سربراہ بھی ایک بھارتی ’’جے شاہ‘‘ بن رہے ہیں، لیکن آئی سی سی کسی ایک ملک کی تنظیم نہیں بلکہ درجن بھر کے قریب کرکٹنگ ممالک کی تنظیم ہے۔ بھارت کا یہ مخاصمانہ رویہ پاکستان کے ساتھ تو شدید ہے، لیکن وہ وقت پڑنے پر کسی کو بھی نہیں بخشتا اور اپنے مفاد کے لیے ہر کرکٹنگ ملک کے مقابلے پر اتر آتا ہے۔ یہ وقت کرکٹ ڈپلومیسی کا ہے کہ پاکستان بھی اپنے تُرپ کے پتّے کھیلے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے ستائے دیگر کرکٹ بورڈز کو اپنے اصولی موقف پر قائل کرکے بھارت کی کرکٹ میں سیاست گردی کے ذریعے داداگیری کے فتنے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے۔

    آئی سی سی کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 1996 اور 2003 کے ون ڈے ورلڈ کپ اور 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کی مثالیں موجود ہیں۔ 1996 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا تھا، تب آئی سی سی نے انکار واک اوور دینے والی ٹیموں کے میچز کے پوائنٹس حریف سری لنکا کو دیے تھے۔ یہی فارمولا 2003 کے ورلڈ کپ میں اس وقت بھی لاگو کیا گیا، جب نیوزی لینڈ، کینیا اور انگلینڈ نے زمبابوے جا کر اپنے میچز کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں زمبابوے کی ٹیم کو انگلینڈ کی جانب سے ویزے دینے سے انکار کے بعد اس کی جگہ اسکاٹ لینڈ کو شامل کیا گیا تھا۔

    پاکستان اگر واقعی اپنے موقف پر ڈٹ جاتا ہے، تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی خاصی تشویش کی بات ہوگی کیونکہ بھارت نے 2024 سے 2031 کے درمیان 4 آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کرنی ہے، جن میں 2025 میں ویمنز کا ورلڈ کپ، 2026 میں ٹی 20 ورلڈ کپ، 2029 میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی اور 2031 میں ون ڈے ورلڈ کپ شامل ہیں۔ آئی سی سی پہلے ہی 2027 تک 3.2 بلین ڈالر کی خطیر مالیت کے نشریاتی حقوق حاصل کرچکا ہے۔ اگر پاکستان آئی سی سی کے ان ٹورنامنٹس سے دستبردار ہو جاتا ہے تو براڈ کاسٹنگ ریونیو رائٹس کی ویلیو کم ہو گی اور آئی سی سی سے تمام بورڈز کو ملنے والی آمدنی پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ اگر پاکستانی حکومت بھی بھارت کو اسی زبان میں جواب دیتے ہوئے اپنی ٹیم کو بھارت کا سفر کرنے کی اجازت نہ دینے کی پالیسی اپنائے تو آئی سی سی کو مالی بحران سے بھی نمٹنا پڑسکتا ہے۔

    پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ یہ آئی سی سی کے خزانے بھرنے والا ملک ہے۔ پاک بھارت ٹاکرا آئی سی سی کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے جس سے اگر پاکستان نکل جاتا ہے تو پھر یہ ٹاکرا آئی سی سی کے خزانے سے ٹکرا کر بھارت اور آئی سی سی کے مفادات کو بھی پاش پاش کر سکتا ہے۔ پاکستان بلا خوف و خطر اور دو ٹوک فیصلہ کرے اور ہر جگہ کھیلنے سے انکار کر دے تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی بڑا خطرہ ہوگا کیونکہ ایک پورا ایونٹ اتنا منافع بخش نہیں ہوتا جتنا، اس ایونٹ کا ایک پاک بھارت میچ جس پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان ہمت کرے اور عملی قدم اٹھائے تو آئی سی سی ضرور مداخلت کر کے بھارت کو مجبور کر سکتا ہے۔

    (یہ بلاگر/ مصنّف کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • ’’ٹرمپ کی کامیابی اور پاکستان‘‘، بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

    ’’ٹرمپ کی کامیابی اور پاکستان‘‘، بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

    ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے دوسری بار صدر منتخب ہوگئے، لیکن اس کے بعد پاکستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہ سمجھ سے باہر ہے۔ ایک جانب لوگ بھنگڑے ڈالنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں، تو دوسری جانب ناصر کاظمی کے شعر ’’ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر، اداسی بال کھولے سو رہی ہے‘‘ جیسی صورتحال دکھائی دیتی ہے، کم از کم دونوں اطراف کے بیانات سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے۔

    امریکا دہائیوں سے دنیا کی واحد سپر پاور اور سب سے طاقتور ملک ہے اور اس کے صدارتی انتخاب پر دنیا کی نظریں لگی ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر ہمارے وزیراعظم شہباز شریف سمیت دنیا بھر کے سربراہان مملکت نے اپنے اپنے انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نام تہنیتی پیغام بھیجے، لیکن وہاں کے عوام کا عمومی رویہ معمول کے مطابق رہا۔ دوسری جانب پاکستان میں، جہاں پہلے ہی یہ مفروضہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ٹرمپ آئے گا تو عمران خان رہا ہو جائے گا یا موجودہ حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گی، اس مفروضے پر مزید تبصرے اور تجزیے شروع ہو گئے ہیں۔

    اگر یہ بات صرف چائے کے ہوٹلوں، ڈرائنگ روم کی نجی محفلوں یا کارکنوں تک رہتی تب بھی بہتر تھا، لیکن صرف سیاست سے نابلد اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عوام ہی نہیں، بلکہ معقول سیاسی حلقوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ٹرمپ کی کامیابی کو پی ٹی آئی کی صورتحال سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے امریکی الیکشن کو پاکستان کی موجودہ سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر خود کو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں تیرا چیف اور میرا چیف، تیرا جج اور میرا جج کے نعرے لگتے تھے اور اب صورتحال اتنی مضحکہ خیز ہو گئی ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی، تو کچھ بعید نہیں کہ جلد ہی ہم تیرا امریکی صدر اور میرا امریکی صدر کی گردان بھی سن اور دیکھ لیں۔

    حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی خود کو آزاد ملک کا آزاد شہری کہتے ہیں اور اس حقیقت میں ذرہ برابر بھی شک نہیں۔ لیکن جس طرح امریکی الیکشن اور ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بچکانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں، وہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے اپنا سیاسی قبلہ امریکا کو ہی بنایا ہوا ہے یا دوسرے معنوں میں امریکا ہی مائی باپ ہے۔

    ایک جانب پی ٹی آئی والے (رہنما اور کارکنان دونوں) ہیں، جو مبارکباد کے ساتھ ٹرمپ کو عمران خان کا اچھا دوست قرار دے رہے ہیں اور آس لگا رہے ہیں کہ ٹرمپ ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرے گا۔ ہمدردی کی لہر کے ساتھ پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی اس خیال کی رو میں بہہ رہی ہے جب کہ سابق صدر پاکستان اور پی ٹی آئی رہنما عارف علوی نے تو ٹرمپ کو مبارکباد دینے کے ساتھ ایک خط بھی لکھ ڈالا جس میں عارف علوی نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آپ کی جیت نے موجودہ اور آنے والے آمروں پر کپکپی طاری کر دی ہے۔ آپ پاکستان کے اچھے دوست رہے ہیں اور جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔‘‘ (یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنی اتنخابی مہم میں کبھی بھی اور کہیں بھی عمران خان کی رہائی سے متعلق بات یا وعدہ نہیں کیا)۔ ویسے ہمارا ذاتی خیال ہے کہ خط میں لکھے گئے ان کے یہ الفاظ عارف علوی کے سابق منصب سے مطابقت نہیں رکھتے اور پاکستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں یہ سابق صدر مملکت سے زیادہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن کے الفاظ جیسا وزن رکھتے ہیں۔ عارف علوی کو اس کا خیال رکھنا چاہیے تھا، کہ بڑا منصب لفظوں کے بھرم اور انتخاب کا متقاضی ہوتا ہے۔

    دوسری جانب حکومت کے ارسطو دماغ ہیں، جو بلاوجہ ٹرمپ اور عمران خان کی رہائی کا شوشا چھوڑ کر جلتی پر تیل ڈال کر اپنے لیے ہی سیاسی مشکلات بڑھانے میں مصروف ہیں، کیونکہ اس قسم کے بیانات سے عمران بے شک رہا ہو یا نہ ہو، لیکن عوام میں ن لیگ اور حکومت کی گرتی مقبولیت کو مزید عوامی نفرت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ویسے تو کوئی وزیر پیچھے نہیں، لیکن رانا ثنا اللہ نے تو حد ہی کردی اور کہا کہ امریکا چاہے تو عافیہ صدیقی کے بدلے عمران خان کو لے سکتا ہے۔ یہ بچکانہ بیان صورتحال تو تبدیل نہیں، لیکن امریکا میں قید عافیہ صدیقی کے اہلخانہ کے زخموں پر نمک کا کام ضرور کر سکتا ہے۔ جس طرح بڑا طاقتور جانور جنگل میں آجائے، تو وہاں شور بپا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی دوبارہ وائٹ ہاؤس آمد پر سوشل میڈیا پر بھی شورمچ گیا ہے کہ بالخصوص عمران خان کے چاہنے والے ایسے ایسے کمنٹس کر رہے ہیں کہ جیسے آنے والے دنوں میں عمران خان اور ٹرمپ ہاتھوں میں ہاتھ لے کر یہ گانا گاتے نظر آئیں گے کہ ’’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے، توڑیں گے دم اگر ساتھ تیرا نہ چھوڑیں گے۔‘‘ دوسری جانب مخالف سوچ والے یہ کہہ کر پی ٹی آئی والوں سے استہزا کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کامیاب ہو گئے اب وہ پاکستان آکر عمران کا اڈیالہ جیل سے آزادی دلائیں گے اور پھر عمران خان پاکستان کو امریکا سے آزادی دلائے گا، یا پھر امریکا نے اقتدار سے نکالا تھا اور اب کیا امریکا ہی جیل سے نکالے گا۔ خیر اس بات میں تو وزن ہے، اگر پی ٹی آئی والے عمران خان کی رہائی کے لیے ٹرمپ کی طرف دیکھ رہے ہیں تو پھر ان کا حقیقی آزادی کا نعرہ کہاں گیا؟ بہتر یہ ہے کہ دونوں جانب سے ٹرمپ کا نام لے کر خود کو متنازع بنانے کے بجائے عمران خان کے حوالے سے اپنی عدالتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

    اسی تناظر میں سینیٹر مشاہد حسین سید کا کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں انہیں عمران خان کی رہائی کے تناظر میں کہا تھا کہ اگر 5 نومبر کو ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے اور پھر وہاں سے کال آئے تو اس کال سے قبل ہی پاکستانی حکومت اپنا فیصلہ کر لے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کے کرتا دھرتاؤں نے ان کی اس بات کو سنجیدگی سے لیا اور 5 نومبر سے قبل ہی سروسز چیفس کی مدت (آرمی چیف کی مدت ملازمت) تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر لی جس کو مخالفین حکومت کے اپنے پانچ سال پکے کرنے کا بندوبست قرار دے رہے ہیں جب کہ اس کے ساتھ ہی جسٹس امین الدین کی آئینی بنچ کے سربراہ کی طور پر تقرری کرکے اور قانون منظور کرانے کے بعد ججز کی تعداد بڑھا کر پیشگی بندوبست کر لیا ہے۔
    امیدیں لگانے والوں کے لیے عرض ہے کہ پاکستانیوں کے لیے نہ ٹرمپ ناآشنا ہے اور نہ ہی پاکستان ٹرمپ کے لیے اجنبی ہے۔ وہ پہلی بار نہیں بلکہ دوسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں اور ان کا پہلا دور مختلف تنازعات کے باعث خبروں میں رہا ہے اور ایسے تنازعات جس کی نہ صرف ان کے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں تنقید کی گئی اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد جن امور کو انجام دیں گے ان میں عمران خان کی رہائی کا دور، دور تک ذکر نہیں ہوگا۔

    ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں امریکا فرسٹ کا نعرہ دیا، جو بطور سربراہ مملکت غلط نہیں اور اسی نے ان کے متنازع ہونے کی بنیاد رکھی، کیونکہ وہ صرف امریکا نہیں بلکہ سپر پاور ملک کے صدر ہیں۔ جس کی طے کردہ پالیسیوں سے دنیا کے سیاسی ومعاشی رنگ بدلتے ہیں۔ اس لیے اب انہیں اپنی دوسری اننگ سوچ سمجھ کر کھیلنی ہوگی۔ اس وقت دنیا کے کئی خطوں بالخصوص امریکا کے لے پالک اسرائیل کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ مظلوم فلسطینی تو کئی دہائیوں سے یہ مظالم سہہ رہے ہیں، جب کہ لبنان میں بھی جنگ کا محاذ کھلا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایران اور اسرائیل میں بھی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ یہ دنیا کو تباہ کرنے والی چنگاریاں ہیں، جس پر پھونکیں مارنے کے بجائے بجھانے کی ضرورت ہے ورنہ اگر یہ آگ بھڑکی تو تیسری جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کرہ ارض کو تباہ کر دے گی اور شاید یہ دنیا کی آخری جنگ ہوگی۔

    ٹرمپ کا اپنی وکٹری اسپیچ میں نئی جنگ نہ چھیڑنے اور جاری جنگوں کو ختم کرانے کی بات کرنا خوش آئند ہے، لیکن اس کو عملی جامہ کب پہنایا جاتا ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ امریکا کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ صرف سیاسی بیان لگتا ہے، کیونکہ اگر ٹرمپ اپنے اس بیان کو عملی جامہ پہنانے نکلے تو اس کے لیے امریکا کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں جو انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن دکھائی دیتی ہیں۔ کیونکہ امریکا کی پرو اسرائیل پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دنیائے اسلام تو اسرائیل کو امریکا کی ناجائز اولاد کہتی ہے گی اور اپنے لے پالک اسرائیل کو لگام دینا ہوگی کیونکہ دنیا میں جنگ کے فساد کی سب سے بڑی وجہ بھی وہی ہے۔

  • نواز شریف اور قاضی فائز عیسٰی کی آمد و رخصت میں مماثلت اتفاقیہ یا۔۔۔۔؟

    نواز شریف اور قاضی فائز عیسٰی کی آمد و رخصت میں مماثلت اتفاقیہ یا۔۔۔۔؟

    نواز شریف وطن آئے اور ایک سال پانچ دن پاکستان میں قیام کے بعد 26 اکتوبر کو پھر لندن چلے گئے۔ اسی روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے اور فیملی کے ہمراہ لندن جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ ن لیگ کے مطابق وہ معمول کے چیک اپ کے لیے لندن گئے ہیں اور کچھ عرصے بعد وطن واپس آ جائیں گے جب کہ قاضی فائز عیسیٰ کو ان کی درس گاہ نے بطور خاص تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہم بھی یہی حسن ظن رکھتے ہیں، لیکن زباں بندی کے اس دور میں سوشل میڈیا کی بے لگام زبان تو سابق وزیراعظم کی آمد کے بعد اب روانگی کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی سے جوڑ رہی ہے۔

    تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے محترم نواز شریف کو 2019 میں ن لیگ کے مطابق انتہائی تشویشناک طبی حالت میں لندن لے جایا گیا تھا۔ اس وقت ان کی صاحبزادی مریم نواز اور پارٹی کی صف اول کی قیادت کے مطابق کئی سنگین بیماریاں لاحق تھیں، لیکن لندن کی فضا انہیں ایسی راس آئی کہ چار ہفتے کی اجازت کے باوجود وہ چار سال وہاں لگا کر آئے اور اس دورانیے میں وہ مکمل ہشاش بشاش دکھائی دیے۔

    لندن میں چار سالہ نادیدہ علاج سے ایسے صحتیاب ہوئے کہ جب گزشتہ سال 21 اکتوبر کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رنجہ فرمایا تو اس کے بعد سے اب تک انہیں کوئی بخار تو کیا تو کیا ایک چھینک بھی شاید نہیں آئی، ورنہ ہمارا میڈیا تو کسی لیڈر کی کھنکھارنے کی آواز کی بھی خبر بنا لیتا ہے اور پارٹی رہنما معمولی بیماری کو ملک کا سب سے بڑا بحران بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔

    خیر بات ہو رہی تھی مماثلت کی۔ نواز شریف جن پر ان کی پارٹی سابق پی ڈی ایم حکومت میں مسلسل وطن واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔ اس وقت حکومت بھی ان کی تھی اور فضا بھی سازگار لیکن نواز شریف کی جہاندیدہ آنکھوں نے شاید افق پر کچھ خطرات کے منڈلاتے بادل دیکھ لیے تھے تب ہی وہ اپنے بھائی کے وزیراعظم ہونے کے باوجود 16 ماہ تک وطن واپس آنے کی ہمت نہ کر سکے لیکن جیسے ہی قاضی فائز عیسی نے 17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اس کے کچھ دن بعد ہی نواز شریف کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ کا نہ صرف اعلان بلکہ انہوں نے تشریف لاکر پاکستان کو خود سے نواز دیا اور اس موقع پر ماضی میں ان کے دست راست محمد زبیر نے ببانگ دہل کہا کہ نواز شریف وطن واپسی کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہے تھے۔

    ن لیگ کے دوستوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کی آمد سے ان کی پارٹی کے تن نیم مردہ میں جان پڑے گی اور وہ پورے اختیار کے ساتھ الیکشن میں جیت کر حکومت بنائیں گے۔ لیکن ایسا لگا کہ نواز شریف کی تمام بیماریاں اور کمزوریاں رخصت ہوکر ن لیگ کے جسم میں سما گئیں اور ان کی آمد بھی ن لیگ کو 8 فروری کے متنازع الیکشن میں من چاہی دو تہائی اکثریت تو کیا سادہ اکثریت بھی نہ دلا سکے بلکہ نواز شریف جو مانسہرہ میں اپنی قومی اسمبلی کی نشست پی ٹی آئی کے ایک غیر معروف رہنما سے ہار گئے وہیں لاہور میں اپنے قلعے کے اندر وہ یاسمین راشد سے کیسے جیت پائے یہ سب پر عیاں ہے، بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ مشکل سے عزت بچ گئی یا پھر بچائی گئی۔

    الیکشن میں ن لیگ نے نعرہ دیا کہ پاکستان کو نواز دو، لیکن ووٹرز نے جس کو نوازا اس کو تو دیوار کے کنارے لگا دیا گیا۔ جیسے تیسے حکومت بنی لیکن نواز شریف کا چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ ن لیگ کہہ رہی ہے کہ نواز شریف نے ازخود وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا تو یہ سیاسی حوالے سے ان کا بڑا فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں وزیراعظم کو ایک کٹھ پتلی کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

    ایک سالہ دورہ پاکستان میں اگر دیکھیں انہوں نے کیا حاصل کیا تو قصہ مختصر اپنے مقدمات ختم کراکے پارٹی کی باضابطہ قیادت سنبھالنے، الیکشن لڑنے اور وزیراعظم بننے کی راہیں ہموار کیں مگر سوائے ن لیگ کے صدر بننے کے ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اگر صدر نہ بھی بنتے تب بھی وہی ن لیگ کے سیاہ سفید کے مالک اور ہر فیصلہ ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ تاہم اپنی بیٹی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا کر انہوں نے مستقبل کی وزیراعظم کی تربیت شروع کی۔

    نواز شریف کی آمد کے بعد ہاں پاکستان کی عوام اتنی باشعور ہوگئی کہ اسے فارم 45 اور 47 کا فرق پتہ چل گیا جب کہ اس سے قبل وہ صرف بیلٹ پیپر کو ہی جانتی تھی جب کہ وہ انگلش میڈیم بچے بھی جو forurty five اور forurty seven سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن مادری زبان میں پینتالیس اور سینتالیس سے نابلد بھی وہ اس سے آشنا ہوگئے۔ ہاں ایک بات البتہ مخالفین نے غلط کی کہ نواز شریف کو 45 کی پیداوار قرار دے دیا جب کہ ان کی پیدائش 49 یعنی 1949 کی ہے۔

    نواز شریف اس دوران چاہتے تو اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غربت کی چکی میں پستی عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کرتے اور اپنا ناراض ووٹ بینک واپس لاتے لیکن اس کے بجائے انہوں نے سارا زور لفظی ریلیف کے بعد مجھے کیوں نکالا، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے، پاناما سے اقامہ تک کی گردان کرنے پر دیا۔ وہ مہنگی بجلی کا ذمے دار پی ٹی آئی اور عمران کو ٹھہراتے رہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ آئی پی پیزسب سے زیادہ کس کے دور حکومت میں لگائی گئیں اور ان کے تانے بانے کہاں کہاں جا کر ملتے ہیں۔

    نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد اتنا فائدہ نہیں اٹھایا، جتنا انہیں سیاسی طور پر نقصان برداشت کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی جو کئی سال سے پارٹی پالیسیوں سے نالاں اور آمادہ بہ تنقید تھے۔ قائد ن لیگ نے وطن واپسی کے بعد بھی ان کے گلے شکوے دور نہ کیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے نواز شریف کی پاکستان موجودگی میں علی الاعلان ن لیگ چھوڑ کر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی پارٹی بنا لی۔ ان کے دست راست اور سابق وزیراعلیٰ کے پی سردار مہتاب عباسی، ان کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر، سینئر رہنما آصف کرمانی نے بھی ن لیگ سے پکی کُٹّی کر لی۔

    اب نواز شریف لندن اور امریکا چلے گئے ہیں تو مخالفین نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور پی ٹی آئی کے منچلوں نے ایک سال سے رُکے احتجاج کا سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ نواز شریف امریکا سے واپسی پر یورپی ممالک بھی جائیں گے جب کہ جلد ہی ان کی صاحبزادی اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی لندن میں ان سے آن ملیں گے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی کا گھیراؤ کرنے کی بھی اطلاعات ہیں، جو یقینی طور پر ایک غلط اور قابل مذمت طرز عمل ہے۔ اس اقدام کے بعد پاکستان میں بھی ان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے حملہ آوروں کا شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ قاضی فائزعیسیٰ اور ہائی کمشنر کی گاڑی پر حملے پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ فوٹیجز کے ذریعے شناخت کرکے پاکستان میں بھی ایف آئی آردرج کرائی جائےگی۔ ہائی کمیشن نے برطانوی حکومت کو حملے کی شکایت کر دی ہے اور حملہ کرنے والے 9 افراد کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی جائے گی۔

    اطلاعات ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنی مادر علمی کی تقریب میں شرکت کے بعد وطن واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کا کہنا ہے کہ نواز شریف بھی چند ہفتوں میں وطن واپس آ جائیں گے لیکن پاکستان کی سیاست میں دھند اتنی چھائی رہتی ہے کہ بعض اوقات کہے پر بھی اس وقت تک یقین نہیں آتا جب تک وہ حقیقت میں ہو نہ جائے۔ پاکستان میں آج کل ڈیل کا شور اٹھ رہا ہے۔ حکومت اور اس کے حامی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی دو بہنوں کی ضمانتوں پر رہائی کو ڈیل قرار دے رہے ہیں جب کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں ڈیل والے لندن جاتے ہیں اور نواز شریف پہلے بھی چار ہفتوں کے لیے لندن گئے تھے چار سال لگا کر واپس آئے تھے جب کہ اب پھر لندن چلے گئے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، چند ہفتوں بعد کھل کر سامنے آ ہی جائے گی۔

    (یہ تحریر بلاگر/ مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • پاکستان کرکٹ کے تنِ مردہ میں نئی جان، کیا سرجری کامیاب ہوگئی؟

    پاکستان کرکٹ کے تنِ مردہ میں نئی جان، کیا سرجری کامیاب ہوگئی؟

    بہت خوب ٹیم پاکستان، کمال کر دکھایا کچھ تبدیلیوں نے، ٹیم کی فضا ایسی بدلی کہ شکستوں کے بادل چھٹ گئے اور ٹیم فتح کی ٹریک پر گامزن ہوئی۔

    انگلینڈ کو تیسرے ٹیسٹ میں صرف ڈھائی دن میں ہی پسپا کر کے لگ بھگ ساڑھے تین سال بعد اپنی سر زمین پر ٹیسٹ سیریز جیتی اور یہ جیت اس لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ جیت کنگ اور شاہین کے بغیر ملی۔

    پاکستان ٹیم نے اس جیت کے ساتھ ہی ایک بار خود کو ایسی ٹیم ثابت کردیا جس کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا محال ہے کیونکہ ایک سال سے پے در پے شکستوں جس میں بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش، پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے والی امریکا سے انہونی شکست کے بعد ورلڈ کپ سے شرمناک اخراج، افغانستان اور آئرلینڈ سے شکستوں کے بعد پوری ٹیم ناقدین کی تنقیدوں کے تیروں کی زد میں تھی اور انگلینڈ کے ہاتھ پہلا ٹیسٹ میچ پہلی اننگ میں 500 رنز بنانے کے باوجود اننگ کی شکست سے ہارنے کے بعد سب کو ایک بار پھر پاکستان ٹیم کے وائٹ واش شکست کا یقین ہو چلا تھا۔

    اس شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیئرمین محسن نقوی جنہوں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد ٹیم کی بڑی سرجری کا اعلان کیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس سرجری کو ایک دو چہرے ہٹانے کے بعد پس پشت ڈال دیا تھا لیکن انگلینڈ کے خلاف اس بدترین شکست نے شاید پی سی بی کی بند آنکھیں بھی کھول ڈالیں اور چیئرمین نے اس سرجری کا عملی طور پر آغاز کر دیا، جس کا تین ماہ پہلے اعلان کیا گیا تھا۔

    آئی سی یو میں موجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے نیم مردہ وجود کے آپریشن کے لیے سب سے پہلے چیئرمین پی سی بی نے سرجنز کی نئی ٹیم لائے۔ ان میں عاقب جاوید، اظہر علی اور علیم ڈار جیسے کرکٹ کو سمجھنے والے دماغ تھے جنہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو آپریشن تھیٹر میں لے جا کر اس کا آپریشن شروع کیا اور سب سے پہلے آؤٹ آف فارم ہونے کے باوجود برسوں سے ٹیم کے لیے ناگزیر بنے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا، اور پھر ان کی جگہ برسوں سے ڈومیسٹک میں اپنی کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے دروازہ کھٹکٹانے والے کامران غلام پر ٹیم کا دروازہ وا کیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی سال سے نظر انداز ساجد خان اور نعمان علی کو ٹیم میں واپس لایا گیا اور پھر ایسا جادو چلا کہ انگلینڈ کی تمام بتیاں ہی گل ہوگئیں۔

    جس ٹیم میں حالیہ کچھ عرصے سے اسپننگ ٹیلنٹ کے حوالے سے شکوک وشبہات ملکی اور عالمی سطح پر اٹھائے جا رہے تھے۔ اسپنرز نے ہی موقع ملنے پر دو ٹیسٹ میچ کی چاروں اننگز میں انگلینڈ کے تمام 40 بلے بازوں کو ڈھیر کر کے سب کے شکوک وشبہات کو دفن کر دیا۔ ساجد اور نعمان کی جوڑی کی گھومتی گیندوں سے انگلش بلے باز ایسا چکرائے کہ 39 تو ان کے بچھائے جال میں پھنسے جب کہ ایک وکٹ زاہد محمود کو ملی۔ اس کارکردگی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ’’زرا نم تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی‘‘۔

    چیئرمین پی سی بی کے جرات مندانہ فیصلے کے بعد ان کی بھرپور سپورٹ سے نئی سلیکشن کمیٹی نے وہ بولڈ فیصلے کیے جن کا ماضی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پاکستان کرکٹ منیجمنٹ نے ڈیڈ پچز کے بجائے اسپن ٹریک بنا کر اسپنرز کے ذریعے حریف ٹیم کو قابو کیا۔ لیکن اب ٹیم کا اگلا مشن آسٹریلیا اور پھر زمبابوے ہے جہاں بالخصوص آسٹریلیا میں پاکستان ٹیم کو فاسٹ ٹریک ملے گا اور قومی ٹیم کو بھی اب خود کو نئے روپ میں ڈھالنا ہوگا۔

    پی سی بی نے گزشتہ روز محمد رضوان کو ون ڈے اور ٹی 20 کا کپتان مقرر اور سلمان علی آغا کو ان کا نائب مقرر کر کے، کئی روز سے جاری اس میوزیکل چیئر گیم کا خاتمہ کیا۔ اس اہم تقرری سے کچھ دیر قبل پی سی بی نے 28 کھلاڑیوں پر مشتمل 15، 15 رکنی چار مختلف اسکواڈ دورہ آسٹریلیا اور زمبابوے کے لیے اعلان کیے۔ یہ بھی پی سی بی کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کہ زمبابوے جیسی قدرے کمزور ٹیم میں بابر اعظم، شاہین شاہ، نسیم شاہ کو آرام دے کر ڈومیسٹک پرفامرز کو موقع دے کر انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں اتارا جا رہا ہے۔ اعلان کردہ اسکواڈ میں کسی بھی کھلاڑی کو چاروں اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا۔ محمد رضوان تین اسکواڈ میں شامل، جب کہ زمبابوے کے خلاف انہیں ڈراپ کر کے نائب کپتان بنائے گئے سلمان علی آغا کو کپتانی کا موقع فراہم کرنا مستقبل کے لیے بہترین حکمت عملی ہے۔

    پاکستان نے آئندہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے، اور اس میگا ایونٹ کا وہ میزبان ہونے کے ساتھ ٹورنامنٹ کا دفاعی چیمپئن بھی ہے۔ گرین شرٹس کے پاس نئے کپتان کے ساتھ چیمپئنز ٹرافی کی تیاری کے لیے کم از کم گیارہ ون ڈے میچز ہیں۔ ان میں آسٹریلیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف تین، تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کی سیریز اور اگلے سال چیمپئنز ٹرافی سے قبل اپنی سر زمین پر نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے ہمراہ سہ ملکی ون ڈے سیریز ہوگی۔ ان گیارہ میچز میں ہی محمد رضوان کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے وننگ کمبی نیشن بنانا ہوگا۔ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو بھی کوشش کرنی ہوگی، کہ ٹیم کی یکجہتی کے لیے ،کوششیں کی جائیں، نہ کہ کوئی ایسا شوشا چھوڑا جائے جیسا کہ ان کے پیشرو ذکا اشرف نے دوران ون ڈے ورلڈ کپ اور نجم سیٹھی نے گزشتہ سال جیت کی راہ پر گامزن گرین شرٹس میں کپتان کی تبدیلی کا شوشا چھوڑ کر ٹیم میں کپتانی کے خواہشمندوں کی قطار لگا کر اس کے اتحاد کو مشکل میں ڈال دیا تھا، جس کا نتیجہ پھر ہم نے کئی ناقابل یقین شکستوں کی صورت میں دیکھ بھی لیا۔

    انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی جیت سے ثابت ہوگیا کہ کھلاڑی نہیں بلکہ ہمیشہ کھیل اہم ہوتا ہے۔ جب کھلاڑی کھیل سے ہی کھلواڑ کریں تو پھر ایسے ہی نتائج ملتے ہیں جیسا کہ ہمیں گزشتہ ایک، ڈیڑھ سال سے مل رہے تھے۔ کرکٹ ٹیم گیم ہے کبھی کبھار تن تنہا پرفارمنس میچ جتواتی ہے لیکن اکثر فتوحات ٹیم کی مشترکہ کوششوں سے ملتی ہیں۔ ٹیم کے 11 کھلاڑیوں کو یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ وہ خوش نصیب کہ 25 کروڑ میں سے ان 11 کا قومی ٹیم کی نمائندگی کے لیے انتخاب کیا گیا اور اب وہ 25 کروڑ عوام کی امیدوں کا محور ومرکز ہیں۔

    پی سی بی کو بھی اپنے صرف موجودہ اقدام پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح کامران غلام کئی سال تک پرفارمنس کے باوجود ٹیم سے باہر رہا۔ ایسے کئی کامران غلام، ساجد خان اور نعمان ڈومیسٹک میں پرفارمنس دکھا رے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ شارٹ ٹرم پالیسی کے بجائے طویل مدتی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرے اور ایک پوزیشن کے لیے ایک سے زائد کھلاڑی بیک اپ میں ہوں تاکہ جہاں اس سے ٹیم میں مسابقت کی دوڑ ہوگی اور اچھے نتائج ملیں گے، وہیں کھلاڑیوں کو اپنی شہرت کے بل بوتے پر من مانی کرنے اور شہرت کے نشے میں آپے سے باہر ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔ جب کہ ٹیم منیجمنٹ بھی آؤٹ آف فارم نامور کھلاڑی کا بیک اپ نہ ہونے پر اسے مسلسل کھلا کر ہار کا مارجن بڑھانے اور کھلاڑی کا اعتماد متزلزل کرنے کے بجائے نئے چہروں کو موقع دینے کی پوزیشن میں ہوگی، جیسا کہ آسٹریلیا کی ٹیم کرتی ہے اور اس کے دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کا ڈومیسٹک کرکٹ کلچر بہت مضبوط اور کھلاڑیوں کو میچور ہونے کے بعد قومی ٹیم کی نمائندگی دی جاتی ہے۔ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی یہ کہہ کر بابر اعظم سے بھرپور سپورٹ کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ بابر اعظم بے شک اس وقت اپنے کیریئر کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، لیکن اس بات سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا کہ وہ موجودہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سب سے با صلاحیت کرکٹر ہیں۔ فارم آنی جانی لیکن کلاس مستقل ہوتی ہے۔ تو چند بُری پرفارمنس پر بابر اعظم کا پوسٹ مارٹم کر کے ناقدین ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ہمت افزائی کریں۔ اب تو قیادت کا بوجھ بھی انہوں نے خود سر سے اتار دیا ہے۔ امید ہے کہ اب وہ پوری طرح اپنی بیٹنگ پر فوکس کریں گے اور ٹیم کی جیت میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔

    یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کبھی بھی کوئی ٹیم نہ مستقل جیتتی ہے اور نہ ہی ہارتی ہے۔ لیکن ہار میں بھی وقار ہو اور کھلاڑی یک جان ہو کر فتح کے لیے لڑتے دکھائی دیں، تو پھر قوم ہارنے کے باوجود بھی ٹیم کو سپورٹ کرتی ہے۔ تاہم اگر بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال دیے جائیں تو یہ بزدلانہ طریقہ قوم کے لیے ناقابل قبول ہوتا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان ٹیم جو جیت کے ٹریک پر آئی ہے، پھر نہ پھسلے گی اور جیت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف بحرانوں میں گھرے عوام کے چہروں پر خوشیوں کے پھول کھلاتی رہے گی۔

  • کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیپمپئن شپ 25-2023 میں ٹاپ رینکنگ سے آغاز، ون ڈے اور ٹی 20 کی ٹاپ ٹیم، کرکٹرز رینکنگ میں بلے باز اور بولرز سر فہرست، ہر بڑا آئی سی سی ایوارڈ پاکستانی کرکٹرز کی جھولی میں۔ یہ ہے ماضی قریب کی پاکستان کرکٹ ٹیم لیکن آج سب کہہ رہے ہیں کہ ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘

    پاکستان کرکٹ میں سب کچھ اچھا جا رہا تھا اور یہ سب اچھا تھا 2023 کے ابتدائی 6 ماہ تک۔ اس کے بعد بازی ایسی پلٹی کہ ہر کوئی انگشت بدنداں رہ گیا کہ یہ ہوا کیا ہے پاکستان ٹیم صرف بڑی ٹیموں سے نہیں بلکہ اپنے سے کہیں کمزور ٹیموں سے اپنے ہی میدانوں میں آسانی سے زیر ہو رہی ہے اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ موسم کی طرح بدلتی پی سی بی انتظامیہ نے اپنی خواہشات کی پیروی میں کپتانی کی خواہش کو ایسے بڑھایا کہ بیک وقت ٹیم میں چار پانچ کپتانی کے امیدوار پیدا کر دیے۔ تو جس طرح ایک نیام میں کئی تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ٹیم میں کئی کپتان کیسے یکجا رہ سکتے ہیں۔

    ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ میں عبرت ناک شکستیں تو پرانی ہوچکیں اور اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں گزشتہ ماہ اپنی سر زمین پر وائٹ واش شکست کے زخم ابھی مندمل بھی نہ ہوئے تھے، کہ انگلینڈ نے اپنے ریگولر اور ورلڈ کلاس آل راؤنڈر کپتان بین اسٹوکس کے بغیر میدان میں اتر کر پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہ درگت بنائی اور ایسی تاریخی فتح سمیٹی کہ جس کے زخم مندمل ہونے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔

    ملتان ٹیسٹ ریکارڈ ساز رہا لیکن صرف انگلینڈ کے لیے، پاکستان کے نام تو صرف بدنامی ہی آئی اور وہ اس میچ کے ساتھ ہی ایک ایسی پاتال میں جا گری، جس میں ٹیسٹ کرکٹ کی لگ بھگ ڈیڑھ صدی قدیم تاریخ میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی ٹیم بھی نہ گری ہوگی۔ پاکستان وہ واحد ٹیم بنی جس نے پہلی اننگ میں 550 سے زائد رنز اسکور کیے اور پھر اننگ کی شکست کھا بیٹھی۔ اس میچ سے پاکستان ٹیم نے یہ بات پھر ثابت کر دی کہ وہ جیتا ہوا میچ ہارنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ جس طرح گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں مہمان ٹیم کی 26 رنز پر 6 وکٹیں گرانے کے بعد کسی نے تصور نہ کیا ہوگا کہ اس میچ میں بدترین ناکامی ملے گی لیکن ایسا ہوگیا۔ اسی طرح اب بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ٹیم بن جائے گی لیکن ٹیم نے اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ سے یہ ناممکن بھی کر دکھایا۔ جس بیٹنگ پچ پر پاکستانی بولر 800 سے زائد رنز کھانے کے باوجود پوری انگلینڈ ٹیم کو ڈھیر نہ کر سکے اسی پچ پر ہمارے بیٹنگ کے شیر 220 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔

    پاکستان جو بنگلہ دیش سے حالیہ سیریز میں شکست کے بعد پہلے ہی اپنے ملک میں ابتدائی 10 ٹیسٹ اقوام میں شامل تمام ٹیموں سے سیریز ہارنے والا دوسرا ملک بن چکا تھا اور ٹیسٹ کرکٹ کی بدترین ٹیم بن گیا۔ انگلینڈ کے خلاف اس شرمناک شکست کے بعد پی سی بی نے جو فوری اقدامات کیے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ جس بڑی سرجری کا اعلان کئی ماہ قبل کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ قومی ٹیم کی سلیکشن کمیٹی تبدیل کرنے کے ساتھ بابر اعظم، شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے بڑے نام اگلے دو ٹیسٹ سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ شان مسعود کا ستارا بھی گردش میں ہے اور وہ مسلسل 6 تیسٹ میچ جیت کر ناکام ترین کپتان کا اعزاز پہلے ہی پاچکے ہیں۔ اگر اگلے دو ٹیسٹ میچ میں حسب منشا نتائج نہ ملے تو یقینی طور پر اگلا قربانی کا بکرا وہی ہوں گے۔

    اس صورتحال میں بابر اعظم کے ساتھ شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے کھلاڑیوں کو ایک ساتھ ہی ٹیم سے ڈراپ کرنے سے لگتا ہے کہ پی سی بی میں پینک بٹن دب چکا ہے اور اس صورتحال میں کیے گئے اکثر فیصلے بعض اوقات بیک باؤنس ہو کر خود اپنے ہی گلے پڑ جاتے ہیں۔ اگر ان کو باہر کرنے کے بعد بھی اگلے دو ٹیسٹ میچز میں حسب منشا نتائج نہ مل سکے تو پھر بورڈ کیا کرے گا، کیا وہ پوری ٹیم کو آرام کے نام پر ڈراپ کر کے نئی ٹیم تشکیل دے گا؟

    مذکورہ تینوں کھلاڑیوں کی فارم گو کہ کچھ عرصہ سے بہتر نہیں بابر اعظم کا بلا اگر ایک سال سے رنز نہیں اگل رہا تو دوسری جانب انجریز سے نجات کے بعد دونوں بولر بھی پرانی شان رفتار سے بولنگ نہیں کر پا رہے لیکن یہ نہ بھولیں کہ تینوں میچ ونر اور تن تنہا ٹیم کو میچ جتوانے والے کھلاڑی ہیں اور کئی بار اس کو ثابت کر چکے ہیں۔ اس لیے اگر ان کو ڈراپ کر کے سخت پیغام دینا ہے تو اس سوچ سے گریز کیا جائے اور ان بڑے کھلاڑیوں کو مکمل سپورٹ کیا جائے کیونکہ اگلے کچھ سالوں تک یہی پاکستانی ٹیم کو کئی میچ حتیٰ کہ ٹرافی تک جتوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

    پاکستان کی حالیہ ایک سال میں اس نا قابل یقین بدترین کاکردگی پر ہمارے سابق قومی کرکٹرز اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ سمیت روایتی حریف بھارت میں بھی شائقین اور سابق وموجودہ کرکٹرز حیران ہیں۔ کچھ ٹیم پر طنز کر رہے ہیں تو اکثر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے گرین شرٹس کی موجودہ صورتحال پر افسوس بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کو اس حال تک لانے میں کون ذمے دار ہے تو یقینی طور پر بورڈ کی غلط پالیسیوں کے ساتھ کرکٹرز بھی اس میں برابر کے ذمے دار ہیں۔

    پاکستان کرکٹرز کی نفسیات کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی کرکٹ سے کسی نہ کسی طور منسلک سابق کھلاڑیوں کی رائے جان لیجیے۔ ان میں ایک پاکستان کے سابق کوچ مکی آرتھر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ تشہیر کھلاڑیوں کو حقیقت سے دور کر رہی ہے۔ کھلاڑی خود کو زیادہ بڑا سمجھتے ہیں جب کہ میڈیا پر منفی باتیں اور ایجنڈے بھی ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

    کیون پیٹرسن جو پی ایس ایل کھیل کر پاکستانی کرکٹرز کی نفسیات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کا ناقابل یقین ٹیلنٹ موجود ہے تاہم اس کے ساتھ ہی وہ اس جانب بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں اور وہ صحیح ٹریننگ نہیں کرتے۔ سسٹم میں خامیوں کی موجودگی تک پاکستان ٹیم ایک یونٹ کی طرح نہیں کھیل سکتی، ناقص ٹریننگ اور زیادہ جذباتی ہونے جیسے رویوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ کلچر تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان ٹیم بھی کبھی بہتر نہیں ہو سکے گی۔

    ماہرین کی اسی رائے کی روشنی میں اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو کرکٹرز کو اس حال تک پہنچانے میں ہم شائقین کرکٹ کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا کہ خود بورڈ کی ناقص پالیسیوں یا کرکٹرز کی لاپرائیوں کو۔ کیونکہ ہم خود جلدباز ہیں اسی لیے کسی ایک ہی اننگ یا بولر کے اچھے اسپیل پر انہیں سر پر چڑھاتے اور پھر ایک بری کارکردگی پر خود ہی نیچے گرا دیتے ہیں۔ یہ شائقین اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے ماہرین ہی ہیں جو صرف ایک سنچری یا پانچ وکٹوں پر کرکٹرز کا موازنہ سر ڈان بریڈ مین، جاوید میانداد، ٹنڈولکر، لارا، عمران خان، رچرڈ ہیڈلی ودیگر ماضی کے بڑے لیجنڈ کرکٹرز سے کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک جانب جہاں شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھونے لگتیں ہیں وہیں لیجنڈز ہم پلہ قرار دیے جانے پر نوجوان کرکٹرز کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ پھر اس چکاچوند میں وہ اپنی اصل منزل کھونے لگتے ہیں۔

    کبھی کبھی ٹیموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کوئی ایک کھلاڑی نہیں بلکہ پوری ٹیم ہی آؤٹ آف فارم لگتی ہے جیسا کہ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا وہ ہر میچ ہار رہی تھی اور اب اسی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ قومی ٹیم میں اس وقت سوائے محمد رضوان کے کسی بیٹر کی جانب سے مسلسل رنز سامنے نہیں آ رہے۔ کچھ عرصے میں ہوم گراؤنڈ پر سب سے بدترین ریکارڈ ہمارے پیسرز کا ہے، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ انجریز سے نجات کے بعد سابقہ فارم میں واپس نہیں آ سکے، نوجوان پیسرز میں کوئی ایسا نہیں جسے میچ ونر کہہ سکیں، اسپنرز تو ہمارے ملک میں ایسے نایاب ہو گئے جیسے گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس ہوتی ہے۔ قابل بھروسہ آل راؤنڈر کا شعبہ برسوں سے خالی ہے۔

    بابر اعظم سے فارم کیا روٹھی لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے فتح ہی روٹھ گئی ہے۔ یہ الارم ہے کہ کرکٹ ٹیم فرد واحد نہیں بلکہ 11 کھلاڑیوں کا مجموعہ ہے اور جیت میں سب کو ہی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے مستقبل کا تعین کرتے ہوئے ٹیم میں ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرنا چاہیے اور کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی مشکل صورتحال میں خود کو نکال سکیں۔ کیونکہ ہماری ٹیم کی نفسیات بن گئی ہے کہ اگر ایک دو وکٹیں اوپر تلے گر جائیں تو پھر وکٹوں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور تو چل میں آیا جیسی صورتحال ہو جاتی ہے جو کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی پر سوالیہ نشان ڈالتی ہے۔

    لگتا ہے کہ ٹیم کو صرف فزیکل ٹرینر اور فزیو کی ہی نہیں ایک سائیکاٹرسٹ کی بھی ضرورت ہے جو انہیں مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کر سکے اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں بڑے بڑے بورڈ اپنی ٹیم کے لیے ماہرین نفسیات کا تقرر کرتی ہیں۔ اس وقت شارٹ ٹرم منصوبہ بندی اور تنقید سے بچنے کے لیے عارضی فیصلوں سے بہتر ہے کہ ٹیم کے مفاد میں ایسے فیصلے کیے جائیں، جس سے ٹیم اپنا عروج دوبارہ حاصل کر سکے ورنہ جس طرح ماضی میں کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز ٹیم اب صرف ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کی عملی تفسیر بن گئی ہے ہمارا حشر بھی کہیں ایسا نہ ہو جائے۔

    (یہ تحریر مصنف / بلاگر کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)
  • پاکستان کے ’’غریب عوام‘‘ کہاں جائیں؟

    پاکستان کے ’’غریب عوام‘‘ کہاں جائیں؟

    دنیا ’اے آئی‘ کے ذریعے روز نت نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے مگر پاکستانی قوم اسی فکر میں مبتلا ہے کہ وہ فائلر ہے یا نان فائلر۔ حکومت کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں سے فائلر اور نان فائلر کا باجا اس زور سے بجایا گیا ہے کہ ہر جانب اسی کی گونج ہے۔ گھر ہو یا دفتر، شادی کی محفل ہو یا میت کا مجمع، سب اسی فکر میں ہلکان ہو رہے ہیں کہ ان کا شمار کس خانے میں ہوتا ہے۔

    ایف بی آر کو محصولات میں کمی کے بعد جہاں منی بجٹ کی گھنٹی بجنے لگی، وہیں محصولات بڑھانے اور غریبوں کو شکنجے میں کسنے کے لیے حکومت نے 50 ہزار تنخواہ پانے والے ملازم کو فائلر قرار دیتے ہوئے اس بات کا بھی پابند کر دیا ہے کہ اب وہ اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے، بصورت دیگر اسے کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان پابندیوں میں بینک اکاؤنٹ اور موبائل فون کی سِم کی بندش سے لے کر بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی منقطع اور گھر، گاڑی کی خریداری اور بیرون ملک سفر جیسی سہولتوں کے حصول سے روکنے کا انتباہ بھی شامل ہے۔ ایف بی آر کے مطابق بینک اکاؤنٹ اور سم کی بندش کے فیصلے پر عمدرآمد یکم اکتوبر سے شروع کر دیا جائے گا اور اس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوں گے جن کی تنخواہوں سے براہ راست انکم ٹیکس کی کٹوتی ہو جاتی ہے، لیکن وہ کیونکہ گوشوارے نہیں بھرتے تو نان فائلر کے زمرے میں شمار ہوں گے۔ اب اس دھمکی پر کس حد تک عمل ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن حکومتی اقدامات نے ملک کے غریب عوام کا ناطقہ بند کر دیا ہے اور وہ یہ سوچ رہا ہے کہ پابندیوں کے پیچ در پیچ پھندے سے بچنے کے لیے آخر وہ کیا کرے اور کہاں جائے؟

    اگر دیکھا جائے تو ملک کی 100 فیصد آبادی علاوہ (حکمراں اور اشرافیہ طبقہ) ٹیکس دہندہ ہے۔ کوئی بچہ 10 روپے کا بسکٹ، چاکلیٹ، ٹافی بھی لینے جاتا ہے تو وہ بلواسطہ ٹیکس دیتا ہے۔ شیر خوار بچے کا دودھ بغیر ٹیکس کے نہیں مل سکتا۔ سینئر ریٹائرڈ سٹیزن، جن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، ان کی دوا بغیر ٹیکس کے نہیں مل سکتی۔ گھروں میں امور خانہ داری اور کوئی ذرائع آمدن نہ رکھنے والی خواتین کچھ بھی بلواسطہ ٹیکس دیے بغیر کچھ خریدنے کی جرات نہیں کر سکتیں، تو پھر فائلر اور نان فائلر کا جھگڑا کہاں سے آگیا؟ بقول سابق چیئرمین ایف بی آر کہ دنیا میں کہیں بھی فائلر اور نان فائلر کی کٹیگری نہیں ہوتی، پاکستان میں یہ غیر منطقی ہے۔ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ فائلر اور نان فائلر شریف برادران کے پسندیدہ الفاظ ہیں۔ بہرحال اگر فائلر اور نان فائلر، اتنا ہی ضروری ہے تو جو براہ راست اپنی تںخواہ سے ٹیکس دے رہا ہے وہ اگر حکومتی ریکارڈ میں نان فائلر ہے تو یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی نا اہلی کچھ اندرون خانہ معاملات کہے جا سکتے ہیں کہ جب ٹیکس دینے کے باوجود اگر وہ ریکارڈ پر نہیں آتا تو اس کو کیا کہیں گے؟ ویسے بھی ہمارے سرکاری ادارے تو کرپشن کرنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔

    وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے سوال ہے کہ جس 50 ہزار آمدن والے غریب شخص سے، جس کی تنخواہ سے پہلے ہی ٹیکس کٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ باقی ماندہ تنخواہ جو گھر لے جاتا ہے، اس سے بھی ہر چیز کی خریداری پر ایڈوانس ٹیکس کے وصول کیا جاتا ہے۔ اس پر اب ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کی شرط قابل عمل ہے؟ کیا اس کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ ہر ماہ ٹیکس کٹوتی کے ساتھ دنوں کے حساب سے بڑھتی مہنگائی کا بھی مقابلہ کرے اور پھر سال میں ایک بار ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کر کے اضافی رقم بھی خرچ کرے؟

    محترم وزیر اس کے ساتھ ہی زیادہ نہیں چار افراد کے گھرانے کا 50 ہزار میں بجٹ بنا کر دکھا دیں اور دیکھیں کہ اس بجٹ میں گھر کا کرایہ، خوراک، تعلیم، علاج، بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کے بعد کچھ بچتا بھی ہے یا نہیں۔ غریب تنخواہ دار کی تو حالت یہ ہے کہ تنخواہ ہاتھ میں آتے ہی اس کے لبوں سے اس مشہور زمانہ نغمے کا مصرع کچھ تحریف کے ساتھ اس طرح جاری ہونے لگتا ہے کہ ’’آئی ہو ابھی، بیٹھو تو سہی، جانے کی باتیں جانے دو۔‘‘ اور حسب حال ہے بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ تنخواہ جس کا کوئی تنخواہ دار ملازم اور اس کے اہل خانہ مہینہ بھر انتظار کرتے ہیں وہ صرف چند دن کی مہمان ہوتی ہے اور پھر اخراجات کے لیے قرض کا کاسہ پھیلانا پڑتا ہے، ایسے میں وہ فائلر بننے کے لیے اضافی خرچ کہاں سے لائے گا اور کس کے آگے کاسہ گدائی پھیلائے گا؟

    جہاں تک بات پابندیوں کی ہے کہ تو حکومت سے کوئی ارسطو بتائے گا کہ 50 ہزار ماہانہ آمدن کمانے والا آج گھر کا ماہانہ بجٹ نہیں بنا سکتا تو وہ گھر یا گاڑی خریدنے کا جاگتی آنکھوں کبھی نہ پورا ہونے والا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ رہی بات اکاؤنٹ اور سِم بند کرنے کی تو ان ہی بینک اکاؤنٹ میں آنے والی سیلری سے حکومت کو براہ راست ٹیکس جاتا ہے اگر یہ بند کر دیا تو اس شخص سے زیادہ یہ حکومت کا ہی نقصان ہوگا۔ ہاں اگر پابندیوں پر عمل ہوا تو اس سے غریب کی یہ ملک کی ایلیٹ حکمراں طبقے میں شمولیت کی خواہش ضرور پوری ہو سکتی ہے کیونکہ بیرون ملک جانے پر پابندی کا مطلب نام ای سی ایل میں آنا ہے اور اس فہرست میں اب تک تو صرف حکمرانوں اور بیورو کریٹس اشرافیہ کے نام ہی آتے رہے ہیں۔

    جس طرح سے فائلر اور نان فائلر کی گردان اور انہیں حاصل سہولتوں اور پابندیوں کی میٹھے لہجے میں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لوگوں کو تو اب یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں فائلر اور نان فائلر کے قبرستان الگ الگ نہ کر دیے جائیں۔ یا ان کے شادی کرنے پر ہی پابندی عائد نہ کر دی جائے، اگر ایسا ہوگیا تو یہ بھی ملک کے مفاد میں ہوگا کہ پاکستان کی آبادی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جو 2.5 کے تناسب سے تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کی روک تھام میں مدد مل سکے گی۔

    آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے تین سالہ قرض پروگرام منظور ہونے اور پہلی قسط ملنے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور فخر سے بتایا جا رہا ہے کہ قرض کی پہلی قسط ملتے ہی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گیا ہے، لیکن اس کے عوض کڑی شرائط کے ساتھ ہونے والی مہنگائی سے غریب عوام کی جیب جو خالی ہو رہی ہے، کیا اس کی کسی کو فکر ہے۔ اس قرض پروگرام کی جو حکومت پاکستان کی جانب سے منظور کی گئی کڑی شرائط سامنے آئی ہے اس پر عملدرآمد سے تو عوام کا مزید کچومر نکل جائے گا۔ ان شرائط میں یہ بھی ہے کہ بجلی قیمتوں میں ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ حکومت غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین تک نہیں کر سکے گی۔ ضمنی گرانٹس بھی جاری نہیں کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی اسٹرکچر میں نظر ثانی کی بھی تاکید ہے لیکن کبھی تو آئی ایم ایف واضح طور پر کہہ دے کہ حکمراں اور مقتدر طبقے، اشرافیہ، بیورو کریٹس جن کی تنخواہیں لاکھوں میں اور مراعات اس سے کئی گنا زائد ہیں وہ مفت میں ہزاروں یونٹس بجلی، گھر، پٹرول، گاڑی، علاج، تعلیم کی سہولتیں لے رہے ہیں اس کو بھی مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

    یہ بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ غریب عوام (جو پہلے ہی ایسی چادر پہنی ہے جو سر پر اوڑھتی ہے تو پیر کھلتے ہیں اور پیر ڈھکتی ہے تو سر ننگا ہوتا ہے) کو کفایت شعاری کا درس اور فوائد بتاتی ہے لیکن جب عوام ان سیاسی مبلغین کا طرز رہائش دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ کفایت شعاری ان کے قریب سے نہیں گزرتی۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کبھی شادی کی تقریبات میں کھانے پر پابندی لگاتا ہے لیکن اپنی تقریبات میں انواع و اقسام کے کھانے سجاتا ہے۔ غریبوں سے ان کی آمدنی سے زیادہ بجلی اور گیس کے بل اور ٹیکسز وصول کرتا ہے لیکن لاکھوں کی آمدنی کے باوجود یہ سب مراعات مفت پاتا ہے۔

    حکومت کی جانب سے بھی عوام پر قدغن لگانے والے حکومتی اقدامات تو مسلسل سامنے آتے ہیں، لیکن اب تک مبہم اعلان کے علاوہ کبھی اس پر عملدرآمد نہیں ہوا جس میں حکمراں، اشرافیہ، مقتدر طبقے اور بیورو کریٹ س کی مفت بجلی، پٹرول، گھر، نوکر چاکر، علاج، بیرون ملک سفری سہولتیں اور پرتعیش قیام و طعام کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا گیا ہو۔ کیونکہ اس سے خود حکمرانوں اور ان ہی کے قبیل کے لوگوں کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

    وقت آگیا ہے کہ جب آئی ایم ایف ہی کی منظوری سے ملک کے بجٹ بن رہے ہیں تو یہ عالمی مالیاتی ادارہ جس طرح غریب عوام پر سبسڈی حرام قرار دیتا ہے، اسی طرح بیک جنبش قلم حکمراں اور ایلیٹ کلاس کی تمام مراعات اور مفت سہولتوں پر بھی نشان تنسیخ کھینچ دے کہ اب شاید واحد یہی چیز رہتی ہے جو ملک کے غریب عوام کو کچھ سکون کا سانس فراہم کر سکتی ہے۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)