Tag: ریحان خان کا بلاگ

  • آئینی ترامیم کا مسودہ اور ایک ’’ہاں‘‘!

    آئینی ترامیم کا مسودہ اور ایک ’’ہاں‘‘!

    ملک کے سیاسی افق پر اس وقت جو سب سے اہم معاملہ چھایا ہوا ہے، وہ مجوزہ آئینی ترامیم کا ہے۔ آئینی ترامیم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر موجودہ وقت یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس وقت حکومت سمیت ’’سب‘‘ کی جان مولانا فضل الرحمان کے پاس موجود طوطے (ہاں) میں ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جب ملک میں آئینی ترامیم کا زور اپنے پورے شور کے ساتھ اٹھا، تو حکومت کی جانب سے اس آئینی ترامیم کے مسودے کو اس طرح چھپایا گیا کہ جیسے یہ کوئی قانون سازی کا مسودہ نہیں بلکہ ایک نامحرم دوشیزہ ہو جس کا دیدار اپوزیشن پر تو حرام، لیکن خود حکومتی وزرا بھی اس کی جھلک دینے سے محروم رہے۔ اس آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے، جہاں حکومت اور اس کے حمایتیوں نے اپنا ہر حربہ استعمال کیا۔ وہیں اپوزیشن جماعت بالخصوص تحریک انصاف نے بھی اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کا یقین کی حد تک گمان یہ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے پی ٹی آئی کا راستہ روکا جائے گا اور بانی پی ٹی آئی عمران خان جنہیں سول عدالتوں سے ہر مقدمے میں بریت یا ضمانت مل رہی ہے، انہیں فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔

    آئینی ترامیم کے پہلے راؤنڈ میں تو بظاہر پی ٹی آئی کی جیت ہوئی اور فضل الرحمان کے آئینی ترامیم کا مسودہ مسترد کرنے اور منظوری کی حمایت سے دو ٹوک انکار کے بعد کچھ دن یہ معاملہ دب گیا۔ اسی دوران صدر مملکت کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری دے دی جو حیران کن طور پر اسی قانون سازی کی نفی ہے، جس کی موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ سال پی ٹی ایم کی حکومت میں منظوری دی تھی جب کہ قومی اسمبلی سمیت وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے حکومتوں کے زیر سایہ صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز نے الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر عملدرآمد کا خط لکھ کر ایک اور لڑائی کا میدان کھول دیا ہے بلکہ حقیقت میں تو مولانا فضل الرحمان کی ویٹو کی پوزیشن ختم کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے سے جہاں حکومت کی دو تہائی اکثریت ختم ہوگئی تھی اور مولانا کی 8 نشستوں کی قدر وقیمت بڑھ گئی تھی۔ اب ان خطوط پر عملدرآمد کی صورت میں جہاں حکومت کو واپس دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے وہیں مولانا کے نہ ماننے کی صورت میں ان سے کنارا بھی کیا جا سکتا ہے، جب کہ پی ٹی آئی کا ایوان سے صفایا ہوسکتا ہے۔

    مولانا فضل الرحمان کا سیاست میں کردار کچھ جماعتوں کے نزدیک متنازع رہا ہے اور ماضی میں وہ اکثر ہر حکومت کے پشتی بان کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی لیے وہ بالخصوص اپنے اپنے وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ تاہم پہلے حکومت کا حصہ نہ بن کر انہوں نے اپنے ناقدین خاص طور پر پی ٹی آئی کو حیران کیا اور اب آئینی ترامیم پر تمام تر پرکشش حکومتی پیشکشوں کے باوجود اب تک ہاں کی اقرار نہ کرنے سے ان کا سیاسی قد جو پہلے ہی بلند ہے، مخالفین کی نظر میں بھی بلند ہوگیا ہے اور وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کی مولانا کے بارے میں ماضی میں جو رائے تھی، وہ غلط تھی۔ اس معاملے کے ذریعے پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں جو دوریاں ہوچکی تھیں وہ بھی قربت میں تبدیل ہو رہی ہیں، جو ملکی سیاست کے لیے اچھا شگون کہا جا سکتا ہے۔

    اس آئینی ترامیم میں ایسا کیا ہے کہ جس کی منظوری کے لیے حکومت اور اس کے حمایتی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں، تو پی ٹی آئی اس کی شدید مخالفت کر رہی ہے۔ میڈیا پر اس حوالے سے جو بھی مسودے گردش کر رہے ہیں ان کے بارے میں حکومتی وزرا خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اصل نہیں۔ اصل کیا ہے شاید یہ حکومت کو بھی علم نہیں، یا پھر کچھ خاص کو ہی علم ہے لیکن ایک بات جو اب سیاسی رہنماؤں بالخصوص بلاول بھٹو اور پی پی رہنماؤں نے کہنا شروع کر دی ہے، کہ وہ آئینی عدالت قائم کر کے رہیں گے کیونکہ ملک میں عوام انصاف کے لیے رُل رہے ہیں لیکن عدالتوں کو سیاسی مقدمات نمٹانے سے فرصت نہیں۔

    بات اس حد تک تو درست ہے، لیکن باقی میڈیا میں زیر گردش مصدقہ وغیر مصدقہ مسودے کے مطابق اگر آئینی عدالت میں چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کرے اور وہ چیف جسٹس آف پاکستان کہلائے۔ سپریم کورٹ کو اس کا ماتحت کر دیا جائے اور اس کا چیف صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کہلائے جب کہ اس کی تقرری بھی آئینی عدالت کا چیف جسٹس کرے۔ ہائی کورٹ کے ججز کا کہیں بھی تبادلہ کر دیا جائے اور جہاں ان کا تبادلہ ہو وہاں وہ چیف جسٹس نہیں بن سکتے، سمیت ایسے کئی مجوزہ اقدامات بتاتے ہیں کہ اگر کام ٹھیک بھی ہے تو کرنے کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور کسی بھی عمل کی صداقت کا پیمانہ تو نیت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری کے شور میں چند روز یہ معاملہ دبا رہنے کے بعد اب دوبارہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں اطراف سے فضل الرحمان کی جانب سے ان کے موقف کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے جب کہ فضل الرحمان کی حال ہی میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو نے بھی کچھ ابہام پیدا کر دیا ہے تاہم جے یو آئی رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت اس معاملے پر کسی کے ساتھ نہیں اور جو بھی ملک وقوم کے لیے بہتر ہوگا وہی فیصلہ کریں گے لیکن ایک بات اب ابھی دہرائی گئی ہے کہ جے یو آئی کو آئینی ترامیم کا مسودہ اب تک نہیں ملا جب کہ چالیس ترامیم میں سے صرف ایک ترمیم کے بارے میں فضل الرحمان کو آگاہ کیا گیا ہے۔

    ماہر قانون عابد زبیری نے تو انکشاف کیا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے مطابق سپریم کورٹ کے جو احکامات ہیں سب اس کو ماننے کے پابند ہوں گے۔ وہاں سے حکومت نے سپریم کورٹ کا لفظ ہی نکال دیا ہے اور اس کی جگہ وفاقی آئینی عدالت لکھ دیا گیا ہے یعنی سپریم کورٹ اس ترمیم کی منظوری کے بعد ایک ماتحت عدالت گی اور آئینی عدالت کے فیصلوں کو سپریم کورٹ کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کی حیثیت ایک سول کورٹ جیسی رہ جائے گی، جس کے چیف کی حیثیت بھی سول کورٹ کے جج جتنی ہوگی۔ وفاقی آئینی عدالت کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں صرف چھوٹے موٹے دیوانی فوجداری جیسے مقدمات نمٹائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے پاور اور اختیارات کو بھی ختم کردیا گیا ہے، ترمیمی مسودے کے مطابق ہائی کورٹس نیشنل سیکیورٹی کے مسائل بھی نہیں حل کرسکے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق آئینی ترامیم میں وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عمر 68 سال ہوگی اور سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز میں سے کسی کا بھی تقرر چیف جسٹس کیا جا سکے گا۔

    کچھ قانونی ماہرین آئینی عدالت کو انتہائی ضروری بھی قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے 50 سے زائد ترقی یافتہ ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں، لیکن جہاں ہر معاملے پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگے تو پھر ہر تبدیلی پر شکوک اور انگلیاں تو اٹھتی ہیں۔

    26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوتی ہے یا نہیں، یہ تو ابھی زیر بحث ہے۔ لیکن توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف اس وقت عالمی سطح پر 130 ویں نمبر پر ہے اور وہ نچلے چند نمبروں سے ہی اوپر ہے۔ ایسے میں انصاف کو سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان پنڈولم بنا دینے سے پاکستان کے حصے میں مزید جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر انا اور سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر یکجا ہوں اور آئینی ترامیم کا ایسا پیکیج لائیں جس سے کا کوئی فریق نشانہ بھی نہ ہو اور عوام کو بروقت انصاف بھی مل سکے، لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول میں کیا ایسا ممکن ہو سکے گا۔

    نوٹ: (یہ مصنف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)

  • حکومت کی آمدنی بڑھانے کے چند مفید نسخے

    حکومت کی آمدنی بڑھانے کے چند مفید نسخے

    ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہ ہونے پر ایک بار پھر منی بجٹ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اور غالب امکان یہی ہے کہ منی بجٹ کی صورت مہنگائی کا ایک اور بم پاکستان کے غریب عوام پر گرا ہی جاتا ہے۔

    وہ ملک اور ہوتے ہیں جہاں بجٹ عوام کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر بجٹ عوام کے نام پر بنایا جاتا ہے، لیکن اس میں صرف اعلان اور نام کی حد تک عوام کا مفاد ہوتا ہے۔ ان بجٹوں میں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا دکھا کر عوام کو ہی پیس دیا جاتا ہے۔ ہمارا سالانہ بجٹ ہو یا وقفے وقفے سے آنے والے منی بجٹ، حقیقت میں نئے ٹیکسز عائد کرنے کے پروانے ہوتے ہیں۔

    اطلاعات کے مطابق حکومت کو ابھی سے مالی سال کے اختتام پر ٹیکس ہدف پورا نہ ہونے کا خوف سوار ہے، جس کا اشارہ ستمبر میں 150 ارب روپے کے شارٹ فال سے مل رہا ہے۔ حکومت نے اسی خطرے کے پیش نظر ایک کھرب روپے کا منی بجٹ لانے کی تیاری شروع کر دی ہے، جس میں سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم اور ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔

    ہمیشہ کی طرح امید نہیں بلکہ 100 فیصد یقین ہے کہ اس بار بھی ٹیکس کا نزلہ پاکستان اس غریب اور تنخواہ دار طبقے پر ہی گرے گا، جس کی حالت پہلے ہی سالانہ بجٹ اور حکومتی اقدامات نے ’’آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ‘‘ کے مترادف کر دی ہے، اور اس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی پیدائشی لگ بھگ تین لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔ دوسری جانب امیر تو پہلے ہی ٹیکس کیا قرضے تک ڈکار جاتے ہیں۔ امرا اور اشرافیہ اول تو ٹیکس دیتے نہیں، اگر دیتے بھی ہیں تو وہ ان کی دولت کے مقابلے میں ایسا ہی ہے جیسے کہ آٹے میں نمک، بلکہ شاید اس سے بھی کم۔

    اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ریاستیں عوام کے ٹیکس سے ہی چلتی ہیں، مگر ان ٹیکسز سے اس ملک کے عوام کو ہی فائدہ پہنچایا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے۔ عوام 40 کے قریب مختلف ٹیکس در ٹیکس دے کر بھی اپنی جان و مال کی حفاظت، تعلیم، صحت، صفائی کا بندوبست خود کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی بیچ کوئی اور رہا ہے، لیکن سیلز اور انکم ٹیکس عوام سے وصول کیا جا رہا ہے اور یہ مہذب دنیا میں عوام سے کیا جانے والا شاید سب سے سنگین اور رنگین مذاق ہے۔ لیکن کیا کریں کہ ہماری قوم بھی بوجھ تلے دب، دب کر اب اس کی عادی ہو گئی ہے اور حکمرانوں کو بھی احساس ہوچکا ہے کہ نام کی زندہ دل قوم، اندر سے اتنی سکت بھی نہیں رکھتی کہ خود اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ جب کہ وہ لوگ جو ٹیکس دینے میں بخیل ہیں وہ لاکھوں تنخواہ کے ساتھ مذکورہ مراعات مفت میں حاصل کرتے ہیں اور یہی اس ملک کا المیہ ہے۔

    درجن بھر ظاہر اور مخفی ٹیکسوں سے لبالب بجلی بلوں پر شاید اب ایک یہی ٹیکس باقی رہ گیا ہے کہ جو پرندے آزادانہ اس کے تاروں پر بیٹھنے کی جرات کرتے ہیں اس کا کرایہ بھی وصول کیا جائے، کہ جب زمین پر بے زبان انسانوں کو کوئی چھوٹ نہیں تو پھر آسمان پر اڑتے بے زبان کیوں اس رعایت سے مستفید ہوں۔ بس طے یہ کرنا ہوگا کہ یہ کرایہ کس طور وصول کیا جائے۔ آیا کہ جس گھر کے تار کے آگے پرندے بیٹھیں گے، اس کا کرایہ اسی صارف سے وصول کیا جائے یا جس طرح بجلی چوری اور شارٹ فال کا لوڈ صارفین پر مشترکہ ڈالا جاتا ہے، اسی ترکیب کو بروئے کار لایا جائے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ قوم اس ٹیکس کو بھی بہ رضا و رغبت قبول کر لے گی اور کچھ نہیں کہے گی، کیونکہ جب وہ بغیر پی ٹی وی دیکھے، ریڈیو سنے اور اپنے خرچ پر گھر اور محلے کی صفائی کرانے کے باوجود یہ تمام ٹیکسز دے سکتی ہے تو پرندوں کے تار پر بیٹھنے کا ٹیکس تو خدمتِ بے زباں کے جذبے سے سرشار ہو کر ہنستے کھیلتے دے دے گی۔

    دوبارہ آئیں منی بجٹ کی نعمت مترقبہ کی جانب، تو اب تک حکومت کے معاشی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے کہ اب کون سے ایسے گوشے رہ گئے ہیں جہاں نئے ٹیکس لگائے جائیں جو جونکوں کی مانند عوام کا خون مزید چوس سکیں۔ اس کے لیے ہم حکومت کی مدد کر دیتے ہیں، امید ہے کہ حکومت کے زرخیز ذہن اس پر توجہ مبذول کرتے ہوئے قابل عمل بنانے کی راہ ڈھونڈ لیں گے، کیونکہ جہاں ان کا فائدہ اور عوام کی عار کا معاملہ ہو تو سب مل جل کر راہ نکال ہی لی جاتی ہے۔

    اب آجاتے ہیں اصل بات کی طرف کہ حکومت کی آمدنی کیسے بڑھائی جائے۔ قدرت نے ایسے بیش بہا خزانوں سے پاکستان کو مالا مال کیا ہے اور عوام اب تک مفت میں ان خزانوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ ان نعمتوں میں چند ایک یہ ہیں، جن پر ٹیکس لگا کر عوام کو لگام اور حکومتی خزانے کو بھرا جا سکتا ہے۔ عوام پر سال کے 10 ماہ چمکتے دمکتے سورج سے مستفید ہونے اور سولر چلانے، فرفر چلتی ہوا سے لطف اندوز ہونے اور سانس لے کر زندہ رہنے پر ٹیکس عائد کر دیا جائے۔ سردی میں دھوپ سینکنے، گرمی میں بارش سے پانی سے نہانے، چاند کی چاندنی سے محظوظ ہونے، لوڈشیڈنگ کے دوران اچانک بجلی اور گیس آ جانے پر حاصل ہونے والی خوشی پر بھی ٹیکس لگایا دیا جائے۔

    بجلی لوڈشیڈنگ کے دوران جب لوگ گرمی سے بچنے کے لیے خودکار دستی پنکھے جھلتے ہیں تو وہ مفت میں ورزش کرتے ہیں۔ جب حکومت مفت کی کوئی بھی سہولت غریب عوام پر حرام بنانے پر تُل گئی تو پھر اس بے مول ورزش پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ ٹیکسز اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبنے کے باوجود ڈھیٹ عوام زندہ کس طرح ہے، اس کی زندگی پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے کہ لاہور میں مرنے کے بعد قبروں پر ٹیکس تو پہلے ہی لگ چکا ہے۔
    ٹیکس تو مزید کئی دیگر معاملات پر بھی لگائے جا سکتے ہیں، لیکن حکومت نے اس منی بجٹ کے بعد اگلا منی بجٹ بھی کچھ ماہ بعد پیش کرنا ہوگا تو کچھ مشورے اگلے مرحلے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یقین ہے کہ جس طرح قانونی موشگافیاں کرتے ہوئے ہمارا حکمراں طبقہ ہر مسئلے کا حل نکال لیتا ہے اور مرضی کی قانون سازی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ ان ٹیکسوں کو نافذ کرنے میں کوئی بھی تُک بندی کر کے کامیاب ہوسکتا ہے، بس اس کے لیے صرف تھوڑا سا مزید بے حس اور آنکھوں سے شرم ختم کرنا ہوگی۔

  • میثاق جمہوریت سے میثاق پارلیمنٹ تک

    میثاق جمہوریت سے میثاق پارلیمنٹ تک

    سیاسی اختلافات کی بھڑکتی آگ اور حبس زدہ کیفیت میں قومی اسمبلی سے میثاق پارلیمنٹ کی آواز اٹھنا کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند اور انتہائی خوش آئند ہے، لیکن ملک میں سیاسی جماعتوں کے ہونے والے گزشتہ اعلان میثاق اور سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے ماضی میں کردار کو دیکھ کر اس پر سوالیہ نشان خود بخود لگ جاتا ہے۔

    اس وقت ملک میں سیاسی اختلاف کی آگ ایسی بھڑکی ہوئی ہے جو بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور نہ ہی کسی جانب سے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی مؤثر کوششیں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ایسا ہی کچھ گزشتہ ہفتے اس وقت ہوا جب ایک درجن کے قریب پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کو پارلیمنٹ ہاؤس سے رات کے اندھیرے میں گرفتار کر لیا گیا۔ بظاہر یہ اقدام اسلام آباد پولیس کا تھا لیکن اس وجہ سے جمہوری روایات اور رویے کو نقصان پہنچا اور حکومت کو بیک فٹ پر جانا پڑا، کیونکہ اس اقدام کی صرف پی ٹی آئی یا اپوزیشن اتحاد ہی نہیں بلکہ پی پی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں نے بھی مذمت کی اور دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔
    اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی میں بہت ساری تقاریر ہوئیں۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو لتاڑا گیا تو حکومتی بینچوں کی جانب سے موجودہ اپوزیشن کو اس کے دور حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن (ن لیگ) کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات کی یاد دہانی کرائی گئی، لیکن اگر حکومت وقت کے مطابق ماضی میں پی ٹی آئی کا اپوزیشن سے رویہ درست اور جمہوری نہ تھا تو آج کیسے موجودہ اقدامات کو جمہوری اور مثبت قدم کی سند دی جا سکتی ہے۔

    اسی ہلڑ بازی کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمنٹ کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے اراکین کو چارٹر آف پارلیمنٹ بنانے کی تجویز دی اور اس کے رولز طے کرنے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل 18 رکنی کمیٹی جس میں حکومتی اتحاد سے اسحاق ڈار، خواجہ آصف، نوید قمر، خورشید شاہ، خالد مقبول صدیقی، سید امین الحق، علیم خان اور اپوزیشن اتحاد سے اختر مینگل، اعجاز الحق، خالد حسین مگسی، صاحبزادہ حامد رضا، بیرسٹر گوہر علی، محمود خان اچکزئی، حمید حسین، شاہدہ بیگم شامل کیا گیا، لیکن یہ کمیٹی پارلیمنٹ کو جمہوری اور با اخلاق انداز میں چلانے کے رولز کیا طے کرتی کہ اس کا پہلا اجلاس ہی اختلاف کا شکار ہوگیا اور ایوان کا ماحول بہتر بنانے کے لیے ہونے والی پہلی بیٹھک ہی ایسے گرما گرم ماحول کے ساتھ منتج ہوئی جس میں حسب روایت ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔

    گزشتہ سال قومی اسمبلی اور سینٹ سے توہین پارلیمنٹ قانون منظور کیا گیا تھا۔ اس بل کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح کرنے والے یا توہین کرنے والے شخص کو کم از کم 6 ماہ قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس سزا کا فیصلہ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کر سکتی ہے۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کو شامل کیا جائے گا۔ کمیٹی کو سول عدالت کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ کمیٹی توہین پارلیمنٹ کے کسی بھی ملزم کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس کمیٹی کے سامنے جھوٹ بولنا بھی توہین پارلیمنٹ کے زمرے میں آئے گا۔ کمیٹی کے فیصلوں پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعہ عملدرآمد ہو گا۔ اس کمیٹی کے فیصلوں کیخلاف اپیل بھی اسپیکر یا چیئرمین سینٹ سنے گا۔ تاہم پی ٹی آئی ارکان کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد اسپیکر کی جانب سے اس قانون کی مدد نہ لینا ایک نئی بحث کو جنم دیتا ہے۔

    سیانے کہتے ہیں کہ ایک دانہ دیکھ کر پوری دیگ کا احوال معلوم ہو سکتا ہے اور دال میں کالا کی مثل بھی بہت مشہور ہے تو صرف اسی ایک اجلاس اور حکومتی رویے سے پوری دیگ کا احوال بھی پتہ چل جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ سیاسی کھچڑی کی دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے اور یہاں آشیرباد کے بغیر کسی کی دال گلنے والی نہیں ہے۔

    جن لوگوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے میثاق پارلیمنٹ کی تجویز سے امیدیں لگائی تھیں، وہ ذرا ماضی میں جھانک لیں کہ پاکستانی سیاست میں اب تک ایسے جتنے میثاق (معاہدے) ہوئے، ان میں ما سوائے ذاتی مفاد کے کسی بھی میثاق پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔

    پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں جو میثاق سب سے مشہور ہوا وہ 18 سال قبل 14 مئی 2006 کو لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت تھا جس پر سہرا پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے۔ اس میثاق نے 90 کی دہائی کی ایک دوسرے کے لیے بدترین دشمن کا کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اکٹھا کیا اور پاکستانیوں نے وہ خوش کن منظر بھی دیکھا کہ ماضی میں ایک دوسرے کو غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دینے والے بینظیر بھٹو اور نواز شریف ایک ہی اسٹیج پر ایک ساتھ بیٹھے نظر آئے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ کچھ عرصہ بعد ہی بینظیر بھٹو اور اس وقت کے آرمی چیف وصدر پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے معاہدے نے اس میثاق کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔

    لندن میثاق جمہوریت کے اہم نکات میں یہ بھی شامل تھا کہ کوئی سیاسی جماعت کسی آمر سے کوئی رابطہ نہیں کرے گی، جب کہ دوسری سیاسی جماعت کو گرانے کے لیے کسی خفیہ منصوبے کا حصہ، خفیہ ملاقاتیں اور غیر سیاسی اقدام نہیں کرے گی، لیکن اس میثاق کی موت تو اسی وقت ہو گئی جب بینظیر بھٹو نے اس وقت کے آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور اپنی وطن واپسی کی راہ ہموار کی۔ اس کے لیے ایک قومی مفاہمتی آرڈیننس لایا گیا، جو این آر او کے نام سے مشہور ہوا۔ گو کہ اس این آر او کا فائدہ صرف پیپلز پارٹی کو ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی جلاوطن قیادت کو بھی ہوا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، تاہم اس کے بعد بینظیر بھٹو کے27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ میں قتل نے پاکستانی سیاست کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا۔

    بینظیر قتل کے بعد پی پی نے ن لیگ کو ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بنائی جو چند ماہ بھی نہ چل سکی جب کہ شہباز شریف کی پنجاب حکومت پر گورنر راج لگا کر ’’میثاق جمہوریت‘‘ کو اپنی موت مارنے کی کوشش کی گئی۔ اسی دور میں جب میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا تو شریف برادران نے بھی سو سنار کی ایک لوہار کی مثل کو عملی جامہ پہنانے کا خواب دیکھتے ہوئے بھرپور جواب دینے کی ٹھانی اور اور کالا کوٹ پہن کر اس خواہش میں سپریم کورٹ جا پہنچے کہ ابھی پی پی حکومت کا خاتمہ اور اس وقت کے صدر زرداری کو سزا ہو لیکن یہ خواہش نا تمام رہی۔ اسی دوران میڈیا میں ن لیگی قیادت کی رات کی تاریکی میں خفیہ طاقتوں سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم حکومت میں میثاق معیشت کی گونج سنائی دی لیکن اس معاملے پر کسی پیش رفت کے بجائے اس حکومت نے مہنگائی کو وہ بام عروج دیا کہ حکومت سب کچھ بھول کر اپنے ہی بوجھ تلے دبنے لگی۔

    تاہم ایسا نہیں کہ سارے معاہدے (میثاق) بدعہدی کا شکار ہوئے۔ جو سیاسی جماعتیں عوامی جمہوری روایتوں کی پاسداری والے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد میں ناکام رہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے مخفی اور غیر دستخطی معاہدوں کی پاسداری دل وجان سے کی اور مخالف بینچوں میں ہوتے ہوئے ایسے کئی بل اتفاق رائے سے منظور کرائے جو ان سب کے مشترکہ مفادات ہوتے تھے۔

    کسی بھی ملک کی ترقی اس کی معیشت سے جڑی ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی حالت یہ ہے کہ پوری معیشت آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے۔ ہمارے دوستوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور دیرینہ دوست بھی اب التفات برتنے میں ہچکچانے لگے ہیں۔ ہم قدرت کی لاتعداد نعمتیں اور زمینوں میں پوشیدہ خزانے رکھنے کے باوجود معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو پا رہے ہیں، کیونکہ معیشت کی ترقی کا دارومدار استحکام پر منحصر ہوتا ہے، پھر خواہ وہ سیاسی ہو یا انتظامی۔ لیکن پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں، ان میں سیاسی استحکام کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی، بلکہ سیاسی اختلافات جس کو دشمنی کا روپ دے دیا گیا ہے وہ اس قدر پھیل چکی ہے کہ اگر اس کو فوری طور پر بجھانے کی کوشش نہ کی گئی، تو نہ جانے کیا کچھ اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ملک کی خاطر سب کو سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر صرف اس جذبے ’’پاکستان ہیں تو ہم ہیں‘‘ کے ساتھ کام کرنا ہوگا ورنہ ہماری موجودہ روش ہمیں نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)
  • وہ سانحہ جس کے بعد پاکستان نظریاتی بنیاد سے دور ہوتا چلا گیا!

    وہ سانحہ جس کے بعد پاکستان نظریاتی بنیاد سے دور ہوتا چلا گیا!

    11 ستمبر کو امریکا میں ٹوئن ٹاور پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد دنیا یکسر بدل گئی اور یہ تبدیلی سیاسی ہی نہیں تھی بلکہ اس نے مختلف اقوام اور معاشروں کو سماجی اور ثقافتی سطح‌ پر بھی متاثر کیا۔ نائن الیون کے نام سے مشہور اس واقعے کے بعد امریکی اقدامات سے دنیا میں تشدد اور دہشت گردی کی جو لہر آئی، اس میں پاکستان کو جو نقصان اٹھانا پڑا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہےاور ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔لیکن آج سے 76 سال قبل بھی قوم پر ایک سانحہ گزرا تھا جس نے ایک نئی مملکت کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستان اپنی بنیاد سے ہٹ گیا۔

    ہم بات کر رہے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے سانحۂ ارتحال کی۔ آج قائداعظم کو 14 اگست کے بعد 25 دسمبر کو ان کے یوم ولادت اور 11 ستمبر کو یاد کیا جاتا ہے، ان کے مزار پر حاضری دی جاتی ہے۔ حکم راں اور قوم ان ایام میں قائداعظم کے افکار و کردار کو اپنے لیے مثالی قرار دے کر قیام پاکستان کے لیے ان کی جہدوجہد کی یاد تازہ کرتی ہے۔ سرکاری اور عوامی سطح‌ پر منعقدہ تقاریب اور جلسوں‌ میں‌ ان کے طے کردہ اصولوں پر چلنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد قائداعظم کی تصویر والے نوٹ ضرور ہمارے پاس ہوتے ہیں مگر ان کی ہدایات کو طاق نسیاں میں رکھ دیا جاتا ہے۔

    قائد اعظم کی سربراہی میں اکابرین تحریک پاکستان کی مسلسل جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے جب یہ وطن 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا تو مالی، انتظامی حوالے سے حالت انتہائی خستہ تھی اور اس کے مستقبل کے بارے میں دنیا شکوک و شبہات کا شکار تھی لیکن قائداعظم کی قیادت میں آزاد مملکت نے اپنی ترقی کا سفر شروع کیا جس کو صرف ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 میں ایک زبرست دھچکا لگا اور پھر پاکستان کا جمہوری، نظریاتی بنیادوں پر ترقی معکوس کا سفر شروع ہوا اور آج 76 سال بعد قوم کئی نازک موڑ دیکھتے ہوئے ایسے چوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے منزل کا نام ونشان نہیں مل رہا اور وہ مایوسی کے گہرے بادلوں میں ان راستوں کو دیکھ رہی ہے جن پر لسانیت، فرقہ واریت، دہشتگردی، عدم اعتماد اور کئی دیگر مسائل زہریلے ناگوں کی طرح پھن پھیلائے کھڑے ہیں اور آگے نہ جانے مزید کتنے نازک موڑ آنے ہیں اور یہ سب کسی اور کا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی قوم ہمارا ہی کیا دھرا ہے جو اب سامنے آ رہا ہے۔

    قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو آزاد مسلم ریاست کا تحفہ دے کر اس کے قیام کے صرف ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو ابدی نیند سو گئے۔ ان کی موت کی وجہ تپ دق (ٹی بی) بتایا جاتا ہے، جو اس دور میں ایک موذی مرض سمجھا جاتا تھا۔ تاہم جن حالات میں بانی پاکستان کی موت ہوئی اس سے جڑے سوالات آج بھی ذہنوں میں کلبلاتے ہیں اور پراسرار ہیں۔

    ملک کا سربراہ جو اس نوزائیدہ مملکت کا بانی بھی ہو اور جس کو بالآتفاق بابائے قوم (یعنی قوم کا باپ) کا خطاب بھی دیا جا چکا ہو۔ اس کے آخری وقت میں جو کچھ ہوا وہ اب تک کئی بار مختلف مضامین میں ضبط تحریر میں لایا جا چکا ہے۔ کیسے انہوں نے جب اپنی زندگی کے آخری 60 ایام بلوچستان کے تفریحی مقام زیارت میں گزارنے کے بعد کراچی واپسی کا ارادہ کیا تو ان کا طیارہ تو کوئٹہ سے کراچی ماڑی پور ہوائی اڈے پر دو گھنٹے میں پہنچ گیا لیکن انہیں کراچی سے اپنی رہائشگاہ پہنچنے میں دو گھنٹے لگے۔

    گورنر جنرل ہاؤس ماڑی پور سے 9 میل دور تھا۔ اس جاں بہ لب سربراہ مملکت جس کے پھیپھڑوں نے آخری درجے کی ٹی بی کے باعث کام کرنا چھوڑ دیا تھا اس کو لینے کے لیے ایسی کھٹارا ایمبولینس بھیجی گئی جو چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہو گئی اور بتایا گیا کہ اس کا انجن خراب ہوگیا ہے اور یہ قافلہ ایک مرتے ہوئے انسان جو کوئی عام شخص نہیں بلکہ بانی پاکستان تھا کے ساتھ ایک گھنٹے سے زائد ماڑی پور کے جنگل میں بے بسی کے عالم میں کھڑا رہا۔ خدا خدا کر کے ایک دوسری ایمبولینس آئی تو یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ قائد اعظم کا قافلہ جس میں ان کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح، ان کے ذاتی معالج اور عملہ شامل تھا گورنر جنرل ہاؤس پہنچا تو بانی پاکستان گہری نیند میں تھے لیکن ان کی طبیعت مسلسل بگڑ رہی تھی اور کچھ دیر میں ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

    ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے لکھا ہے کہ جناح کے آخری الفاظ ’اللہ۔۔۔ پاکستان‘ تھے جبکہ فاطمہ جناح’مائی برادر‘ میں لکھتی ہیں: ’جناح نے دو گھنٹے کی پرسکون اور بے خلل نیند کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں، سر اور آنکھوں سے مجھے اپنے قریب بلایا اور میرے ساتھ بات کرنے کی آخری کوشش کی۔ ان کے لبوں سے سرگوشی کے عالم میں نکلا: فاطی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ لاالٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ۔‘ پھر ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

    بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ چوہدری محمد حسین چٹھہ نے اپنے ایک انٹرویو میں ضمیر احمد منیر کو بتایا تھا کہ جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کو بتایا کہ انھیں تب دق کا مرض لاحق ہے تو جناح نے جواب دیا: ’ڈاکٹر، یہ تو میں 12 برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہندو میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔‘

    برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک ہالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔‘

    یہ وہ حقیقت ہے جس سے تقریباً ہر وہ پاکستانی جس نے تاریخ پاکستان اور قائداعظم کے آخری ایام کے حوالے سے معتبر کتب اور مضامین پڑھ رکھے ہیں، اچھی طرح واقف ہے، تاہم آج یہاں اس سب کو بیان کرنے کا مقصد نئی نسل کو باور کرانا ہے کہ قائداعظم ہمارے لیے خدا کا تحفہ تھے جن کی ایسی بے قدری کی کہ ان کا انتقال اس حال میں ہوا کہ جو کسی سربراہ مملکت بالخصوص کسی ملک کے بانی کے شایان شان قطعی نہیں تھا۔ شخصیت بھی وہ جنہوں نے اپنے جان لیوا مرض کی پروا نہ کرتے ہوئے کروڑوں مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہ وطن کی جدوجہد جاری رکھی۔ اگر وہ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق اپنی مصروفیات ترک کر کے صحت پر توجہ دیتے تو اس صورت تحریک پاکستان کو زک پہنچنے کا امکان تھا اور یہ انہیں کسی صورت قبول نہ تھا۔ اس کو دوسرے معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے نئے وطن کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دی اور اس بیماری کو دشمنوں سمیت دوست نما دشمنوں سے بھی چھپایا تاکہ ان کا مشن ناکام نہ ہوسکے۔ 1948 کے اس سانحہ نے پاکستان کو ہی پورا بدل دیا۔

    قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان ایک فلاحی، جمہوری ریاست ہو گی، جہاں پارلیمنٹ بالادست اور عوام کی حکمرانی ہوگی۔ جہاں ہر شخص کو بلاتفریق رنگ ونسل اور مذہب اس کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اظہار رائے کی آزادی ہوگی اور صرف ادارے نہیں بلکہ ہر فرد قابل عزت ہوگا۔ اگر وہ اس طرح‌ رخصت نہ ہوتے تو ملک کے آج حالات یہ نہ ہوتے۔ جس طرح نعمت خداوندی پر انعام ربانی بڑھتا ہے، اسی طرح اس کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری پر اس کا حساب بھی اس قوم کو دینا پڑتا ہے۔ قائداعظم کے پاکستان اور ان کے فرمودات سے روگردانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم 25 سال سے بھی کم عرصہ میں قائداعظم کا آدھا پاکستان گنوا بیٹھے اور جو باقی ماندہ پاکستان ہے وہاں کا جو حال ہے وہ آج سب کے سامنے ہے کہ جس کو عالم اسلام کی ترجمانی کرنی تھی، اس کے حکمران آج کاسہ گدائی اٹھائے پورے پروٹوکول اور شاہانہ انداز کے ساتھ نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ ملک ملک پھر رہے ہیں۔ انا، مفادات، حرص و لالچ نے سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے جس کو قائد کے پاکستان کی بے بس عوام نظر ہی نہیں آ رہی ہے۔

  • پاکستانی کرکٹ پنڈی میں ’’دفن‘‘ ہو گئی؟

    پاکستانی کرکٹ پنڈی میں ’’دفن‘‘ ہو گئی؟

    پاکستانی کرکٹ جو لگ بھگ ایک سال سے حالتِ نزع میں تھی، اب ہوم گراؤنڈ پر اپنے سے کہیں کمزور تصور کی جانے والی بنگلہ دیش کی ٹیم سے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش ہونے کے بعد شرمندگی کے مارے اپنی موت مَر چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ قوم کا پسندیدہ ترین کھیل پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں دفن ہو گیا ہے۔

    پاکستانی قوم جو آئے روز ملک میں سیاسی بے یقینی، بے روزگاری، مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے ساتھ سہولتوں کے فقدان کا رونا رونے پر مجبور ہے۔ اب بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کی ہاتھوں بھی اسے گہرا زخم لگا ہے جس کے بھرنے میں نجانے کتنے برس بیت جائیں، لیکن ہوم گراؤنڈ پر جو گرین شرٹس پر کلین سوئپ کا داغ لگ گیا ہے وہ کبھی صاف نہیں ہو سکے گا۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں 26 رنز پر 6 وکٹیں لے کر ڈرائیونگ سیٹ پر آنے والی پاکستانی ٹیم نے جس سہل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیتا ہوا میچ بنگلہ دیش کو دیا۔ اس نے شان مسعود کی قیادت کی صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھا دیا ہے اور شائقین کہہ رہے ہیں کہ کپتان کو صرف فرفر انگلش بولنا ہی نہ آتا ہو بلکہ وہ نہ صرف بیٹنگ میں مین فرام دی فرنٹ کا کردار ادا کرے، بلکہ میدان میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور بروقت فیصلوں سے ٹیم کو مشکل صورتحال سے نکالے۔ کہہ سکتے ہیں کہ اب شان مسعود کی کپتانی کی کشتی بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔

    پہلے ٹیسٹ میچ میں شرمناک شکست کے بعد بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ پاکستان کے موجودہ کرکٹ ہیروز مختلف ٹکڑوں میں بکھری قوم کو جوڑ کر رکھنے والے اس کھیل کا وہ حشر کریں گے، کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ پہلے ٹیسٹ میچ پر ہی دنیا بھر کے کرکٹرز نے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر حیرت کا اظہار کیا تھا اور کچھ پڑوسیوں نے تو طنزیہ للکارا بھی تھا، لیکن ہمارے کرکٹرز کو پھر بھی غیرت نہ آئی اور انہوں نے ریڈ کارپٹ کی طرح خود کو مہمان بنگلہ ٹیم کے قدموں تلے بچھا دیا۔ میچ میں وائٹ واش سے بچنے کی واحد امید بارش تھی جس کی آخری دن پیشگوئی تھی لیکن یہ تو خدا کا کہا ہے کہ’’وہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے‘‘ اور یہی پاکستانی کرکٹ ٹیم پر لاگو ہونا تھا۔

    بنگلہ دیش وہ ٹیم ہے جس کو ہماری مرہون منت 23 سال قبل ٹیسٹ کرکٹ ملک کا اسٹیٹس ملا تھا۔ ان 23 سالوں میں وہ کہاں سے کہاں چلے گئے اور ہم کہاں سے کہاں آن گرے، یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ مہمان ٹیم نے دونوں ٹیسٹ میچوں میں ہماری بیٹنگ اور بولنگ کو بری طرح ایکسپوز کیا اور بہترین کرکٹ کھیلتے ہوئے پہلے پاکستان کو پہلی بار ٹیسٹ میچ میں ہرانے کی خوشی پائی اور پھر اسی کی سر زمین پر وائٹ واش کرنے کا تاریخی کارنامہ انجام دے کر ثابت کر دیا کہ صرف نام یا شہرت نہیں بلکہ محنت ہی کامیابی کی اصل کنجی ہے اور اس کارکردگی پر بنگلہ دیش کی ٹیم قابل داد وتحسین ہے۔

    پاکستان نہ پہلی بار ٹیسٹ سیریز ہارا ہے اور نہ ہی پہلی بار وائٹ واش کی خفت سے دوچار ہوا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکستوں کا سلسلہ افغانستان سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست، ورلڈ کپ میں شکست، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکا سے شکست کے بعد اب بنگلہ دیش نے اذیت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ پاکستان کو اپنی سر زمین پر ٹیسٹ سیریز جیتے ڈھائی سال سے زائد عرصہ بیت گیا اور مسلسل 10 ٹیسٹ میچوں سے جیت کا مزا نہیں چکھا جب کہ اس دوران باہمی سیریز سوائے آئرلینڈ کے کسی سے نہیں جیتے۔ آئرلینڈ سے بھی ہارتے ہارتے ہی جیتے تھے۔

    تاہم بنگلہ دیش سے یہ ہار ان معنوں میں بہت اہم اور سبق آموز ہونے کے ساتھ غور و فکر کے کئی در وا کرتی ہے، کہ جو ٹیم آج سے ڈیڑھ، دو سال قبل فتح کی ٹریک پر چل رہی تھی۔ ون ڈے، ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں ٹاپ یا ٹاپ 5 میں شامل تھی۔ کھلاڑیوں کی رینکنگ قابل فخر تھی اور بیک وقت آئی سی سی کے تین تین انفرادی اعزازات ہمارے کھلاڑیوں کے حصے میں آ رہے تھے تو اچانک ایسا کیا ہوا کہ فتوحات نے یوٹرن لیا اور پھر مسلسل شکستیں پاکستان کرکٹ کا مقدر بن گئیں اور یہ وہ ٹیم بن گئی جس کے شاہین نے بلند پروازی چھوڑ دی اور کنگ نے گرج کر مخالفین کو تر نوالہ بنانا ترک کر دیا۔

    بات کچھ پرانی مگر ہے حقیقت، کہ ٹیم میں ایک ہی قائد ہوتا ہے جو ٹیم کو لے کر چلتا ہے، جب تک ٹیم میں ایک قائد رہا تو ٹیم متحد اور فتوحات کے جھنڈے گاڑتی رہی لیکن جیسے ہی گزشتہ سال نجم سیٹھی نے بابر اعظم کی کپتانی پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا۔ آرام دے کر افغانستان کے خلاف شاداب خان کو کپتانی دی، پھر کپتانی کی کھینچا تانی کا جو چیئر گیم شروع اور متحد کھلاڑیوں کو عہدے کے لالچ میں منتشر کیا گیا اس نے ٹیم کو اس نہج پر پہنچایا۔ دیگر ٹیموں میں بھی قیادت تبدیل ہوتی ہے مگر وہاں وقار کے ساتھ یہ عہدہ دیا اور لیا جاتا ہے، لیکن یہاں بابر اعظم، شاہین شاہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، پھر اس دوڑ میں رضوان کا نام لایا گیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا تو نہیں۔ ایسے میں دوستی اگر دشمنی میں تبدیل نہ بھی ہو تو مفادات کے ٹکراؤ میں خلش تو پڑ جاتی ہے جو بعد ازاں دراڑ کی صورت کسی ہلکے سے طوفان میں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے۔

    جب پاکستان کرکٹ بورڈ ہی پورا سیاست اور مفادات کے تحت چلایا جا رہا ہو، تو اس کے ماتحت کھیلے جانے والے کرکٹ میں کیوں مفادات کے در وا نہ ہوں گے اور پی سی بی میں عہدوں کی بندر بانٹ کے لیے سیاست ہو رہی تو پھر کرکٹرز کیسے اس سے اپنا دامن بچا سکتے ہیں۔ یہ آگ ہمیں پہلے بھی جلا چکی ہے لیکن اب اس کی شدت زیادہ ہے۔

    اس شکست سے پاکستان کے ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کی امید بھی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ جس طرح کا کھیل آج کل ہماری قومی ٹیم پیش کر رہی ہے ایسے میں ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار کی جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کی نجکاری کرنے کا مشورہ صائب لگتا ہے کہ بہت سے سرکاری اداروں کو خراب کارکردگی پر پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے تو پھر پی سی بی کی نجکاری بھی اسی امید کے تحت کر دی جائے کہ شاید نجی تحویل میں کارکردگی بہتر ہو جائے۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جس شرمناک طریقے سے پاکستان ٹیم پہلی بار پہلے راؤنڈ سے باہر ہوئی تھی، اگر اسی وقت پی سی بی چیئرمین محسن نقوی کی اعلان کردہ بڑی سرجری کر دی جاتی۔ تو آج شاید کرکٹ شائقین کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ لیکن نہ جانے کس مصلحت کے تحت اس بڑی سرجری کو صرف وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو ہٹانے تک محدود رہی جس سے لگا کہ کرکٹ کی تباہی کے ذمے دار یہی دو افراد تھے۔ اب بنگلہ دیش سے ہونے والی اس شکست کے بعد قوم منتظر ہے کہ زخموں سے چور چور کرکٹ ٹیم کی ایسی سرجری آخر کب ہوگی۔

    آج کا دن پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ یہ تو بنگلہ دیش سے حال ہوا ہے۔ آئندہ ماہ انگلینڈ کی ٹیم تین ٹیسٹ میچز کھیلنے پاکستان آ رہی ہے جب کہ قومی ٹیم ویسٹ انڈیز کی بھی اسی ٹیسٹ چیمپئن شپ سائیکل میں دو ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کرے گی۔ اگر کرکٹ کے سدھار کے لیے ایمرجنسی نافذ نہ کی گئی اور راست اقدام نہ اٹھائے گئے تو نتیجہ آسٹریلیا اور بنگلہ دیش سے ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ جیسا ہی نکلے گا

    لیکن یہ شکست بہت سارے سبق دے گئی ہے، اگر ہم ان نتائج سے عبرت حاصل کر لیں اور سنبھل جائیں تو جان لیں کہ رات کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، اندھیرے کا سینہ چیر کر ہی سورج نکلتا ہے اور پھر پوری آب وتاب سے اپنی روشنی سے دنیا کو منور کرتا ہے۔ قبل اس کے کہ زخموں سے چور چور کرکٹ کے زخم ناسور بن کر لا علاج ہو جائیں، اس کی جلد ایسی سرجری کی جائے کہ جس سے یہ مکمل شفا یاب ہوکر اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات اور تجزیہ پر مبنی ہے، جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • پاکستان کرکٹ کی تباہی‘‘، یہ وژن کس کا ہے؟

    پاکستان کرکٹ کی تباہی‘‘، یہ وژن کس کا ہے؟

    پاکستان کرکٹ ٹیم نے گزشتہ روز بنگلہ دیش سے پہلی بار ٹیسٹ میچ میں شکست کھائی۔ یہ قومی ٹیم کی ایک سال میں ’’پہلی بار‘‘ کی ڈبل ہیٹ ٹرک ہے۔ اپنے سے کمزور ٹیم کے خلاف ’’کنگ اور شاہین‘‘ جیسے ’’سپر اسٹارز‘‘ سے سجی ٹیم نے پنڈی اسٹیڈیم میں جو کارکردگی دکھائی، اس کو دیکھ کر اب تو شاید بدترین اور شرمناک جیسے الفاظ بھی شرما رہے اور اس کو اپنی بے عزتی تصور کر رہے ہوں۔ چند دن قبل تک ارشد ندیم کی کامیابی کو اپنا وژن بتانے والے اب اس ہولناک شکست کو کس کا وژن قرار دیں گے؟

    کھیل کے میدان میں جب بھی دو ٹیمیں اترتی ہیں تو ایک کی جیت اور ایک کی ہار ہوتی ہے، اور ہارنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن اگر اس ’’ہار‘‘ میں ’’وقار‘‘ ہو تو۔ لیکن اگر یہ ہار مستقل ہی گلے کا ہار بن جائے، تو پھر باعث تشویش ہے اور اب ایسا ہی کچھ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے، جس کی جیت پر جانے والی ٹرین نے اچانک ایسا ٹریک بدلا کہ پھر فتح کی ٹریک پر نہیں آ سکی ہے اور اس دوران کئی ہزیمت اور خفت کی داستانیں رقم ہوئی ہیں۔

    بنگلہ دیش کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہے اور اس سیریز میں پاکستان کا مہمان ٹیم کو وائٹ واش کرنا قومی ٹیم کو پوائنٹ ٹیبل پر چھٹے سے تیسرے نمبر پر پہنچا دیتا، جس سے اس کے آئندہ برس آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کی راہ ہموار ہوتی، اور جب بنگلہ دیش کی ٹیم پاکستان آ رہی تھی تو سابق ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ ناممکن نہیں لگ رہا تھا، لیکن ہماری ٹیم مہمان کو کیا وائٹ واش کرتی، اس نے تو اچھے میزبان کا کردار ادا کرتے ہوئے غلطیوں پر غلطیاں کر کے ٹیسٹ میچ خود تشت میں سجا کر انہیں اس طرح پیش کیا کہ وائٹ واش کا خواب دیکھنے والی پاکستانی ٹیم کے سر پر خود کلین سوئپ ہونے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے، جب کہ پہلے میچ کے نتیجے کے ساتھ ہی قومی ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں چھٹے سے آٹھویں نمبر پر چلی گئی ہے۔

    پاکستان کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کو علم ہوگا کہ گزشتہ سال کے وسط تک قومی ٹیم اپنی درست سمت میں جا رہی اور فتوحات سمیت رہی تھی، لیکن پھر بورڈ میں تبدیلیوں کے ساتھ پسند اور نا پسند اور کپتانی کی بلا جواز دوڑ شروع کرانے نے ٹیم کو شکستوں کی پاتال میں جا پھینکا ہے۔ جو حالات چل رہے ہیں لگتا ہے کہ ٹیم میں ایک نہیں بلکہ بیک وقت ایک سے زائد کپتان ہیں جس پر تو اب اڑوس پڑوس کے ممالک بھی طنز کر رہے ہیں۔

    دنیا بھر میں ٹیمیں ہوم ایڈوانٹیج کا فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو پچ ریڈ کرنا ہی کسی کو نہیں آتا. پنڈی ٹیسٹ‌ سے قبل کہا گیا کہ پچ فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار ہے اور اسی کو جواز بناتے ہوئے کوئی ریگولر اسپنر شامل نہیں کیا گیا، مگر بنگال ٹائیگرز کے اسپنرز نہ جانے کیسے اسی فاسٹ بولر فرینڈلی پچ پر کمال دکھاتے ہوئے آخری دن سات وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کو چت کر دیتے ہیں۔ شاید وہ بنگال کا جادو ساتھ لے کر آئے ہیں، جو پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں سر چڑھ کر بولا تب ہی تو شان مسعود نے دو روز تک وکٹ کا مزاج دیکھنے کے باوجود پہلی اننگ 448 رنز پر ڈکلیئر کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارا اور بنگلہ دیش کو 500 رنز بنانے کا موقع دے کر محمد رضوان اور سعود شکیل کی محنت کر پانی پھیر ڈالا۔ ناقص حکمت عملی، خراب شاٹ سلیکشن، ڈراپ کیچز سب نے ہی اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ اس تاریخی شکست میں ڈالا۔

    بنگلہ دیش کے لیے یہ جیت تو اس لیے بھی تاریخی ہے کہ اس نے اپنی 23 سالہ ٹیسٹ کرکٹ تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو اس فارمیٹ میں شکست دی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ جیت اس لیے بھی قابل قدر ہے کہ بنگلہ دیشی کرکٹرز جن حالات میں اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان سیریز کھیلنے آئے کہ وہاں پورا ملک سیاسی افراتفری کے باعث جل رہا ہے۔ انارکی کی فضا میں وہ اپنے ملک میں ٹیسٹ سیریز کے لیے پریکٹس تک نہ کر سکے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ سروس سست ہونے کے باعث انہیں اپنے اہل خانہ سے رابطوں میں بھی مشکلات تھیں، جو ان کے ملک کے دگرگوں حالات میں ان کے لیے پریشانی کا باعث تھا، جب کہ دوسری اننگ میں پاکستان کی بیٹنگ کو تباہ کرنے والے شکیب الحسن پر ایک روز قبل ہی ان کے ملک میں قتل کا مقدمہ بنا تھا۔ ان سب کے باوجود بنگلہ دیشی کرکٹرز نے پاکستانی کرکٹرز کی نسبت زیادہ حوصلہ مندی اور ذہنی مضبوطی کا مظاہرہ کیا اور پورا فوکس کرکٹ پر رکھا جس کا نتیجہ ان کی فتح کی صورت میں نکلا اور وہ حقیقی طور پر اس جیت کے حقدار ہیں۔

    ادھر پاکستان کرکٹ کا یہ حال ہے کہ اسے اپنی سر زمین پر ٹیسٹ میچ جیتنے کا مزا چکھے ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں جب کہ کارکردگی کا یہ حال ہے کہ میدانوں میں فتوحات سمیٹنے اور مثبت ریکارڈ بنانے کے بجائے وہ ایک سال میں ’’اپ سیٹ شکستوں یا پہلی بار‘‘ کی ڈبل ہیٹ ٹرک کر چکی ہے۔

    گزشتہ سال جب بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان نے افغانستان سے شکست کھائی تو یہ کرکٹ بے بی سے پہلی بار ہار تھی۔ پھر اسی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس نے پانچ میچز ہارے اور ایسا ون ڈے ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پاکستان نے میگا ایونٹ میں پانچ میچز ہارے ہوں۔

    ورلڈ کپ کے بعد پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز کھیلنے گئی تو پانچ میچوں کی سیریز چار صفر سے ہاری اور کیویز کے خلاف ایسا بھی پہلی بار ہی ہوا۔

    حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جب ہم پہلا انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کھیلنے والی ٹیم امریکا کے خلاف سر فخر سے بلند کرتے ہوئے میدان میں اترے اور پھر ہار کے بعد سر جھکائے میدان سے باہر آئے تو یہ بھی پہلی بار ہی تھا، جب کہ ریکارڈ پانچ بار مختصر دورانیے کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلنے والی ٹیم اس بار پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوئی، تو ایسا بھی پہلی بار ہی ہوا۔

    جہاں کرکٹ کی تباہی میں کرکٹرز کی ناقص کارکردگی کارفرما ہے، وہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کی غیر مستقل مزاجی اور شارٹ ٹرم فیصلے بھی ہیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے کا اصول دنیا بھر میں کارفرما ہے، لیکن پاکستان میں ہمیشہ اس کا الٹ ہوتا ہے اور کئی ادارے اور شعبے اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ہمارے ہاں کسی بھی ادارے کی سربراہی اور فیصلہ کن عہدہ اس شخصیت کو سیاسی اثر ورسوخ اور پسند نا پسند کی ایما پر دیا جاتا ہے جو اس فیلڈ کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہوتا اور یہ کھیل مستقل مزاجی کے ساتھ ہمیشہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔

    جب رمیز راجا کے بطور چیئرمین پی سی بی رخصت ہونے کے بعد ن لیگ کی سابق ڈیڑھ سالہ حکومت نے نجم سیٹھی کو دوبارہ اس منصب پر بٹھایا، جنہوں نے کامیاب چلتی ٹرین کے ڈرائیور کی تبدیلی کا شوشا چھوڑ کر ساکت پانی میں ہلچل مچانے کے لیے پتھر ڈالا۔ چند ماہ بعد حکومتی اتحادی جماعت پی پی کی خواہش پر اس منصب پر ذکا اشرف کو دوبارہ لایا گیا، تو انہوں نے ورلڈ کپ کے دوران متنازع انٹرویوز اور ٹیم کی اندرونی باتیں افشا کر کے ایک نیا پنڈورا باکس کھولا اور ورلڈ کپ کی ناکامی کا ملبہ ڈالتے ہوئے بابر اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور اور شاہین شاہ کو ٹی ٹوئنٹی کا نیا کپتان بنایا، لیکن موجودہ چیئرمین محسن نقوی نے آتے ہی شاہین شاہ کو اس عہدے پر اپنی اہلیت ثابت کرنے کا موقع دیے بغیر پھر اپنی پسند سے بابر اعظم کو کپتان مقرر کیا لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تاریخ کی شرمناک ترین شکست نے جب سارا پول کھول دیا تو پھر ٹیم میں جس طرح اختلافات کی خبریں زینت بنیں اس نے نوے کی دہائی کی کرکٹ کی یادیں تازہ کر دیں جب اسی طرح ٹیم میں بیک وقت چار پانچ کپتان کھیل رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح آج بھی ٹیم میں بیک وقت قیادت کے چار پانچ خواہشمند پیدا کیے گئے اور اس کا نتیجہ آج ہم بنگلہ دیش سے شکست کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

    کرکٹ پاکستان کے نوجوانوں کا خواب اور کرکٹرز ہیرو ہیں۔ انہیں اس خواب کی بھیانک تعبیر نہ دی جائے اور نہ ہی ہیروز کو ہیرو سے ولن بنایا جائے۔ یہ ملک کو جوڑنے والا واحد کھیل ہے کہ جب کسی میدان میں پاکستانی ٹیم کھیل رہی ہوتی ہے تو اس وقت اسٹیڈیم میں پنجابی ہوتا ہے اور نہ ہی پٹھان، سندھی، بلوچی، مہاجر بھی نہیں ہوتا بلکہ صرف پاکستانی ہوتا ہے۔ تو قوم کو یکجا کرنے والے اس کھیل کو تباہی سے بچایا جائے۔

    پی سی بی میں جو آتا ہے وہ ایک نیا فیصلہ کرتا ہے، جس سے یہ ادارہ ایک تجربہ گاہ اور کرکٹ، وہ مردہ تن بن کر رہ گیا ہے جس کو تجربات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ یہاں فیصلے ملک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہی قوم کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے کھیل کرکٹ کی تباہی کا سبب ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ یہ گھناؤنا کھیل بند کیا جائے۔ پی سی بی کو اگر سیاسی من پسند کی بنیاد پر ہی چلانا ہے تو کم از کم کرکٹ کی بہتری کے لیے عملی طور پر کرکٹ بورڈ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے جس میں ایک انتظامی حصہ بنا کر اسے حکومت وقت کی خواہشات کی تسکین کا باعث بنایا جائے جب کہ دوسرا حصہ کرکٹنگ سے متعلق معاملات پر ہو، جس میں شفاف ماضی رکھنے والے اور اعلیٰ معیار کے کرکٹ کیریئر رکھنے والے سابق کھلاڑیوں کو آگے لایا جائے اور ایسے نابغہ روزگار کرکٹرز ہمارے پاس کمی نہیں۔ تنقید کی پروا نہ کریں کہ مثبت تنقید ہی تعمیر کے راستے پر ڈالتی ہے اور کامیابی کے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں۔

  • خط بنام نواز شریف!

    خط بنام نواز شریف!

    محترم نواز شریف!

    طویل عرصے بعد گزشتہ دنوں آپ ٹی وی چینل پر ’’قوم سے خطاب‘‘ کے لیے جلوہ افروز ہوئے، ساتھ ہی آپ کی سیاسی وارث صاحبزادی اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی موجود تھیں۔ عوام کو مخاطب کرتے ہوئے، آپ نے جس معصومانہ انداز میں اور جس طرح غریب کے دکھ اور تکالیف کا احاطہ کیا، یقین جانیں وہ ہم سب کو بہت ہی بھایا۔

    جناب نواز شریف، آپ نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے گزشتہ ادوارِ حکومت کی بہترین کارکردگی پر بھرپور روشنی ڈالی۔ پھر یہ ذکر بھی کیا کہ عمران خان کی حکومت میں کس طرح آپ کے کارناموں پر مٹی ڈال کر ان کو ملیا میٹ کر دیا۔ یہ سب میٹھے میٹھے لفظوں‌ میں گوش گزار کرنے کے بعد آپ نے اپنی باتوں کا رُخ ہماری یعنی عوام کی جانب کیا۔ پھر آپ کے منہ سے غریب عوام کی پریشانیوں اور بالخصوص بجلی بلوں کے باعث ہونے والی عوامی مشکلات کا ایسا سیلاب امڈا کہ ہم آپ کی اس عوامی ہمدردی کے سیلاب میں بہہ گئے۔ جب اس کے ازالے کے لیے آپ نے اپنے بھائی کی مرکز اور پھر پنجاب میں اپنی بیٹی کی حکومت کی کوششوں کا ذکر کیا، تو ہمیں ایک امید ہو چلی کہ آج عوام کے لیے حقیقی ریلیف کا اعلان ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوا کہ آپ نے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 14 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت کم کرنے کا اعلان کیا۔ ابھی آپ کی ان نوازشات پر دل پوری طرح جھوما بھی نہ تھا کہ آپ کی یہ بات برسات کے موسم میں کسی آسمانی بجلی کی طرح ہم پر گری کہ اس ریلیف کے حقدار صرف پنجاب کے لوگ ہوں گے۔

    محترم ایک لمحے کو ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ چلو پنجاب بھی پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں کے رہنے والے بھی پاکستانی ہی ہیں، دل کو تسلی دی کہ دائمی نہیں، دو ماہ کے لیے ہی صحیح، ملک کے کسی حصے میں ہم غریبوں کی اشک شوئی تو ہوئی، لیکن دل کے ساتھ دماغ بھی ہمارا بچّہ ہو چکا کہ ایک ساتھ کئی چبھتے سوال نما متضاد خیالات ذہنوں میں کلبلانے لگے اور گستاخی معاف ہم آپ سے یہ سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہے ہیں۔

    آپ ایک بار پنجاب کے وزیراعلیٰ اور تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے، یہ وہ اعزاز ہے جو آج تک پاکستان کے کسی سیاستدان کو نہیں مل سکا۔ محترم آپ کو ایک بار تو وزیر اعلیٰ صرف پنجاب کے عوام کے ووٹوں نے بنایا، مگر تین بار جو آپ وزیراعظم بنے تو یہ پورے ملک کے عوام نے بنایا تھا اور وزیراعظم کا منصب بھی پورے ملک کے لیے ہوتا ہے۔ اب آپ کے پاس وزارت عظمیٰ کا منصب نہیں، لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور اصل معنوں میں وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے کرتا دھرتا تو آپ ہی ہیں جناب۔

    محترم! ملک بھر کے عوام مہنگی سبزی، گوشت، اجناس، گیس، پٹرول اور مختلف جہتوں میں ہونے والی مہنگائی کے ساتھ دنیا کی مہنگی ترین بجلی خرید رہے ہیں لیکن آپ کی نظر کرم صرف پنجاب کے عوام پر ہوئی۔ یہ اعلان اگرچہ ایک حد تک قابل ستائش ہے لیکن صرف پنجاب کی حد تک ریلیف کا اعلان ٹی وی پر آ کر کرنا آپ کے شایان شان نہیں۔ آپ خود کو ملک بھر کے ’’کروڑوں عوام کے دلوں کی دھڑکن اور امید‘‘ قرار دیتے ہیں۔ تین بار کے سابق وزیراعظم اور پارٹی کے صوبائی سطح کے نہیں بلکہ بانی اور کرتا دھرتا ہیں، آپ کی جانب سے صوبائی سطح پر ریلیف کا اعلان سیاسی قد کاٹھ کو گھٹانے کی بات ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ مخالفین جو ہمیشہ موقع ڈھونڈتے ہیں وہ اس حوالے سے ہرزہ سرائی ضرور کریں گے۔ یہ اعلان جو بذات خود ایک بڑا اعلان تھا اگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے ساتھ وزرا کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوکر کرتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ بھی تو اصل میں آپ کا ہی چہرہ ہیں۔

    بات چل رہی تھی پنجاب اور ملک کے غریب عوام کی اور کہاں پہنچ گئی، لیکن مسائل اتنے ان گنت ہیں کہ جس طرح حکومت کی گاڑی اپنے ٹریک پر نہیں آتی، اسی طرح آج ہمارا قلم ایک ٹریک پر نہیں آ رہا، بہرحال قضیے کی طرف چلتے ہیں۔

    جناب منہ پر آ ہی گئی ہے تو کہتے چلیں کہ صرف پنجاب کے عوام ہی غریب نہیں ملک کے 98 فیصد عوام جن کا تعلق پنجاب کے ساتھ سندھ، کے پی، بلوچستان، جی بی، کشمیر سے ہے سب غریب ہیں۔ کشمیر والوں نے تو سڑکوں پر نکل کر مہنگائی سے جان چھڑا لی، لیکن شاید باقی علاقوں کے رہائشی ایسا دل گردہ نہیں رکھتے کہ بغیر کسی سیاسی چھتری تلے صرف اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکل کر اپنا حق لے سکیں اور وہ صرف آپ اور دیگر سیاستدانوں کے خوش نما لفظوں کے ہیر پھیر کے طلسم کا انتظار کرتے ہیں کہ جیسے ہی عوامی ہمدردی کے بیان جاری ہوں، تو وہ اس کے سحر میں کھو جائیں اور اپنا موجودہ حال بھلا کر مست ملنگ بن جائیں۔

    ہم عوام جو پہلے ہی آپ کی صاحبزادی اور حلیف جماعتوں کے سربراہان کی جانب سے رواں سال الیکشن سے قبل تک 300 یونٹ تک مفت بجلی اور آدھی قیمت پر بجلی فراہمی کے پر فریب نعروں کے ڈسے ہوئے ہیں اور آپ کو ووٹ دینے والوں کی اکثریت نے بھی یہی خواب آنکھوں میں سجا کر ووٹ دیا ہوگا کہ کچھ نہیں مفت بجلی تو ملے گی، لیکن آپ کے حلیفوں اور سیاسی وارثوں نے تو وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا، کے مصداق کیا۔ پہلے ہی آپ کے بھائی کی ڈیڑھ پونے دو سالہ حکومت نے ہم غریبوں کا کچومر نکال دیا تھا اور بجلی مفت کرنے کا لالی پاپ دینے کے بعد موجودہ حکومت میں مہنگائی کا گراف جس طرح بڑھا اور جس برق رفتاری سے بجلی کے بل بڑھائے گئے اس سے تو رہا سہا خون بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔

    جناب اعلیٰ! عوام جہاں سیاستدانوں کے عوامی ہمدردی کے بیانات سن سن کر اور حقیقت حال اس کے برعکس دیکھ دیکھ کر پہلے کی اکتائی بیٹھی ہے اور اس پر متضاد آپ ہی کی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے یہ اقوال زریں جیسے بیانات ’’ایک روٹی چار بھائی تقسیم کر کے کھالیں یا قوم چائے کی ایک پیالی پینا کم کر دے‘‘ کے بالکل الٹ اسی حکمراں اور مقتدر اشرافیہ کے اللوں تللوں اور بے جا مراعات دیکھ کر ان کا سیاستدانوں پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ اس صورتحال عارضی یا مخصوص لوگوں کو ریلیف ان میں احساس محرومی کے ساتھ غم وغصے کو بھی بڑھا دے گا اور حالات خدانخواستہ کنٹرول سے باہر ہوئے، تو یہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

    اس وقت حالت یہ ہے کہ پوری قوم کا پیمانۂ صبر چھلک رہا ہے، ملک میں مہنگائی کا طوفان بدتمیزی پوری طرح سے محو رقص ہے۔ شہباز شریف تو صرف کرسی پر براجمان ہیں۔ ان کی صورت میں ہم پر اصل حکومت تو ’’آپ‘‘ ہی کی ہے، تو ہمارے حکمرانوں کو صورتحال کا پورا احساس ہونا چاہیے۔ آپ کے سیاسی منصب اور قامت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے بھی ملک بھر کے عوام کو اسی طرح کا بجلی بلوں میں ریلیف اور مستقل بنیادوں پر دلوائیں۔ جو ریلیف دو ماہ کے لیے ہو سکتا ہے، ہماری اشرافیہ، بیورو کریٹس کی غیر ضروری اور بے تحاشا مراعات ختم کر کے بھی غریب عوام کو مستقبل بنیادوں پر دیا جا سکتا ہے۔ گیند اب بھی آپ کی کورٹ میں ہے۔

    طالبِ توجہ
    غریب عوام

  • کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    14 اگست 2024 آن پہنچا ہے اور ہر سال کی طرح قوم پاکستان کا 77 واں جشن آزادی منا رہی ہے۔ اپنی آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کی نشانی ہے اور اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے وطن کے نونہالوں کو قوم کی تاریخ اور وطن کے لیے جدوجہد اور ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کے معماران وطن تیار کیے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کی روایت کچھ انوکھی ہے۔

    بچّے تو بچّے ہوتے ہیں باجے بجائیں تو برداشت ہو جاتی ہے لیکن آج رات اور کل سارا دن منچلے سڑکوں پر آزادی کا جشن منانے نکلیں گے تو ہاتھ میں گز گز بھر لمبے بھونپو نما باجے لے کر پوں پاں سے آسمان سر پر اٹھائیں گے۔ دوسری طرف اکثریت ون ویلنگ کر کے اپنی اور دیگر کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے جو یہ نہیں کریں گے وہ بغیر سائلنسر موٹر سائیکلیں جیٹ جہاز کی طرح اڑاتے اور آواز کرتے ہوئے چلا کر اپنا فرض عین سمجھیں گے۔ یہ سب عجیب وغریب آزادانہ حرکات کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہوگی کہ ان کے دن و رات باجا بجانے سے کسی مریض کو تکلیف ہوتی ہے، مساجد میں لوگوں کی عبادات میں خلل پڑتا ہے۔ گھروں میں سوئے ہوئے افراد کی نیند خراب ہوتی ہے۔ ان پر حب الوطنی کا یہ انوکھا جوش صرف ایک دن کے لیے چڑھتا ہے جس کا جشن منا کر پھر 364 دن غفلت کی نیند سوئے رہتے اور ملک کی ابتر حالت پر خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے باقی وقت حکومت اور دوسروں کو برا بھلا کہنے میں وقت گزارتے ہیں۔

    یوم آزادی یعنی 14 اگست کے روز بھی سرکاری، نیم سرکاری، نجی، سیاسی وسماجی سطح پر پرچم کشائی کی تقریبات ہوں گی جس میں حکمرانوں سمیت سب کی جانب سے پاکستان کو قائداعظم کا حقیقی پاکستان بنانے کی دل خوش کن تقاریر کی جائیں گی لیکن ان تقاریر کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے اگلے دن ہی ان سب تقاریر کو بھلا کر اپنے پرانے معمولات پر واپس آ جائیں گے اور برسوں سے جشن آزادی منانے کا ہمارا وطیرہ یہی رہا ہے۔

    پاکستان کوئی طشت میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ یہ لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا اور اس کو بنانے سنوارنے میں لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں صرف کر دیں۔

    بانی پاکستان نے اپنے رفقا کے ساتھ طویل جدوجہد کرتے ہوئے چومکھی لڑائی لڑی جس کے ایک فریق قابض انگریز تھے تو دوسری جانب شاطر ہندو جب کہ ان کے درمیان اپنی ہی صفوں میں بیٹھے ہوئے کچھ غدار بھی لیکن عزم مسلسل سے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ افسوس وہ آزاد وطن کی فضا میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور صرف ایک سال بعد ہی وفات پا گئے جس کے بعد پاکستان کی کشتی کنارے نہیں لگ سکی۔ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے فرمودات سے ہو جاتا ہے۔

    آئیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے کچھ فرمودات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔

    ’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘ (آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب، 15 نومبر1942ء)

    ایک اور جگہ انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر پر شاہد ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکی۔ جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

    میرا یقین ہے کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانون دان پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف ہمارے لیے مقرر کردہ سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔ ہماری نجات کا راستہ صرف اور صرف اسوہ حسنہ ہے۔

    ’آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمدﷺ کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ ﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب،25جنوری 1948ء)

    اگر انہی فرموداشت کی روشنی میں دیکھا جائے تو قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل ہی ملک میں نظام حکومت کے لیے جمہوریت کو منتخب کیا تھا لیکن مغربی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق۔ لیکن کیا آج کا پاکستان ان ارشادات پر پورا اترتا ہے؟ پاکستان میں 33 سال تک تو بلاشرکت غیرے فوجی حکمرانوں کی حکومت رہی ہے باقی جتنا عرصہ بچا اس میں بھی جمہوریت پنپ نہ سکی جس میں زیادہ قصور سیاستدانوں کا ہی ہے۔ دوسرا قائد اعظم کا ارشاد ملک میں قرآن کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا قیام اور اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنانا طے کیا تھا، لیکن ہم نے پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ لگا کر اور آئین میں شریعت کو اپنا قانون اور نظام بنانے پر اکتفا کر کے اور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرکے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ معراج پا لی لیکن آج حقیقی معنوں میں نہ ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم ہے اور نہ ہی اسوہ حسنہ ﷺ کو مشعل راہ بنایا گیا ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد حضرت قائد اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا۔ لیکن یہ ہمارے مقصد کی ابتداء ہے، ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حصول پاکستان کے مقابلے میں، اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنی ہے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔

    ’چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اسلام اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔‘(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2نومبر 1940ء)

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں بسنے والے اقلیتی عوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کیا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے؟

    بانی پاکستان کے یہ تمام ارشادات ہم پر حکومت کرنے والوں کو روڈ میپ فراہم کرتے ہیں لیکن حکمرانوں نے اپنے راستے ہی قائد کے فرمان سے بالکل جدا کر لیے۔ آج وزرا صرف نام کے خادم ہیں جب کہ اپنے عمل اور کردار سے وہ خود کو ملک وقوم کا مالک سمجھتے ہیں۔ ان کی توجہ عوام کی فلاح وبہبود کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی فلاح وبہبود پر مرکوز ہو گئی ہے اور ذمے داریوں کی ادائیگی کے بجائے عزت وناموس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔

    وہ تعلیم کو تلوار سے زیادہ طاقتور سمجھتے تھے اور نوجوانوں کے لیے پیغام تھا کہ ’’آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دور حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں۔ یاد رکھیں ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
    ہمارے ملک کے بانی نے جس کو قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ بتایا تھا وہ اول تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جس کا اندازہ ہر سال بجٹ میں تعلیم کے لیے رکھے جانے والے بجٹ سے ہوتا ہے۔ سرکاری سطح پر ہماری خواندگی کی شرح 60 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اس میں وہ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں جب کہ معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان کی جامعہ نہیں ہے۔

    سرکاری سطح پر تو تعلیم کی حالت انتہائی دگرگوں ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم کو مذاق بلکہ کاروبار بنا رکھا ہے اور اس کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ اب غریب کے بس میں بھی بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلانا خواب بن گیا ہے۔
    قائد اعظم کے ارشادات صرف حکمران یا بالادست طبقے کے لیے نہیں تھے بلکہ انہوں نے قوم کو بھی اتحاد تنظیم اور یقین محکم کی تلقین، کام، کام اور بس کام، لوگوں کو اصولوں پر ڈٹ جانے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا درس دیا تھا، لیکن افسوس ان پیغامات کو پوری قوم بھلا بیٹھی ہے۔ بدقسمتی سے آج قوم خود کو مسلمان اور پاکستانی کہلانے کے بجائے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، پختون، مہاجر کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے اور ہمارے سیاستدان اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے جان بوجھ کر لسانیت کو فروغ دیتے اور مستقبل میں ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو اس آگ میں جھونک دیتے ہیں۔

    بانی پاکستان نے کفایت شعاری کو قومی دولت اور ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنے کا درس دیا تھا۔ ان ارشادات کی روشنی میں اگر ہم ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    آج کا دن بحیثیت قوم ہمیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں دیکھنا ہوگا کہ ہم جو لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل اس آزاد وطن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو کیا اس کا حق ادا کر رہے ہیں کیا ہم نے اسے اقبال کے خواب اور قائداعظم کی خواہش کے مطابق پنپنے دیا ہے۔

    حرف آخر قوم جشن آزادی منائے اور بھرپور جوش وجذبے کے ساتھ منائے۔ پرچم کشائیاں کریں، حب الوطنی پر تقاریر بھی کریں، ملی نغمے بھی گائیں لیکن اس کو صرف ایک دن تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے قول کو افعال میں تبدیل کریں تاکہ ملک کا پرچم سر بلند کرسکیں۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے)

  • حسینہ واجد: مطلق العنان طرز ہائے حکمرانی کے لیے ایک سبق

    حسینہ واجد: مطلق العنان طرز ہائے حکمرانی کے لیے ایک سبق

    شدید عوامی احتجاج اور فوج کے دباؤ کے بعد بنگلا دیش میں‌ عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد کے مسلسل 16 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ انہیں مستعفی ہونے کا حکم آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے دیا جو رشتے میں ان کے بہنوئی بھی لگتے ہیں، جب کہ حسینہ واجد کے ملک چھوڑنے کے بعد صدر شہاب الدین نے طلبہ کے مطالبے پر نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ خالدہ ضیا سمیت تمام مخالف سیاسی رہنماؤں کو بھی رہا کر دیا گیا ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تین ماہ میں نئے الیکشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    43 سال قبل بنگلا دیش ہمارا ہی ایک حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، لیکن 1971 میں بھارت کی مداخلت سے سقوط ڈھاکا کے بعد جب دنیا کے نقشے پر بنگلا دیش کے نام سے ابھرا تو کئی مسائل سے نبرد آزما تھا۔ تاہم 2009 میں عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد نے جب دوسری بار عنان اقتدار سنبھالا تو بنگلا دیش کو معاشی ترقی کی ایسی ڈگر پر ڈالا کہ وہ خطے کے کئی ممالک سے آگے نکل گیا اور خوشحالی کا پیمانہ یہاں تک پہنچا کہ اس کے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک سے زیادہ اور کرنسی (ٹکا) کی قدر پاکستانی روپے سے کئی گنا تک بڑھ گئی۔

    بنگلا دیش کو ڈیڑھ دہائی میں تیز رفتار ترقی دینے والی حسینہ واجد کے اقتدار کا ایسا انجام کہ انہیں یوں ملک سے فرار ہونا پڑا، خود انہوں نے تو کیا شاید ان کے بدترین مخالفین نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ لیکن کہتے ہیں کہ جب کامیابی غرور کی شکل اختیار کر لے اور حد سے بڑھ جائے تو کچھ لوگ خود کو ہی عقل کل سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر اس زعم میں وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔

    خطے میں تیزی سے معاشی ترقی کرتے بنگلا دیش کا سیاسی زوال تو حسینہ واجد کے دور اقتدار میں ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے آہستہ آہستہ شروع ہوگیا تھا لیکن جب 2009 میں وہ دوسری بار اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھیں تو سارے جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے حریفوں سے بات چیت کے دروازے بند کر دیے اور بھارت نواز پالیسی اپناتے ہوئے ہندو انتہا پسند مودی کو اپنا دیرینہ دوست جب کہ پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔ اپنے ملک میں سیاسی و نظریاتی مخالفین کا جینا حرام کر دیا۔

    حسینہ واجد نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی عوامی مقبولیت کے زعم میں عوام کے ہی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائی صرف مخالفین کو دبانے اور انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے پر لگا دی۔ انہوں نے ملک بھر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی۔ اس کے معمر رہنماؤں پر ظلم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے سن رسیدگی کے باوجود پھانسی کی سزا دی اور اس کو اپنا بڑا کارنامہ گردانا۔ انہوں ںے ماضی کی تلخیوں کو دوبارہ تازہ کرتے ہوئے البدر، الشمس اور پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے رضاکاروں کو پھانسیاں دی لیکن یہی رضاکار کا لفظ ان کے اس بھیانک انجام کا باعث بنا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فسطائیت کی اس انتہا پر جا پہنچیں کہ پڑوسی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے بجائے ان پر اپنے ملک کی سرحدیں ہی بند کر دیں۔

    اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے رواں سال جنوری میں ہونے والے الیکشن میں ’’بنگلا دیش میں ایک پارٹی‘‘ پالیسی کی تکمیل کے لیے اپنے تمام سیاسی حریفوں جن میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا سمیت درجنوں سیاسی رہنما شامل ہیں، انہیں پابند سلاسل کیا، مخالف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ کارکنان پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ایسے انوکھے انتخابات کرائے کہ اقتدار میں موجود رہ کر مسلسل چوتھی اور مجموعی طور پر پانچویں بار کامیابی کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے پر فائز ہوئیں اور بنگلا دیش کی تاریخ میں طویل مدت تک حکمرانی کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔

    ایسے میں جب 30 لاکھ بنگلا دیشی نوجوان بیروزگار ہیں، تو یہ کوٹہ سسٹم ایک عفریت کی طرح عوام پر مسلط تھا جس کے تحت بنگلا حکومت کی 54 فی صد ملازمتیں مخصوص طبقات میں تقسیم کی جاتی ہیں اور صرف 46 فی صد میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ گزشتہ ماہ جولائی میں جب طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو چند طلبہ رہنماؤں کی آواز میں ملک بھر کے عوام نے آواز ملائی لیکن حسینہ واجد جو اقتدار کو شاید اپنا پیدائشی اور دائمی حق سمجھ رہی تھیں۔ انہوں نے مظاہرین کو ’’رضا کار‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جس کو بنگالی میں غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے، جس نے اس احتجاج کو ایک نیا رخ دیا اور گالی نما اس لفظ کی صورت میں بنگلہ دیشی عوام کی غیرت پر ایسا حملہ ہوا کہ لاکھوں عوام بغیر کسی سیاسی چھتری کے سڑکوں پر نکل آئی جو پہلے سول نافرمانی اور پھر حسینہ واجد ہٹاؤ تحریک میں تبدیل ہوگئی۔

    لیکن مثل مشہور ہے نا کہ ہاتھی کی موت کمزور سی چیونٹی کے سبب ہو جاتی ہے۔ جس طاقتور حسینہ واجد کو ان کے بڑے سیاسی حریف پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کر سکے، اسی طاقتور وزیراعظم کو بنگلا دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف یونیورسٹی سے شروع ہونے والی ایک تحریک، جس کا سرخیل تین طلبہ تھے جنہوں نے حکومتی جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور بہادری کی ایسی داستان رقم کی جس نے بنگلا دیش کی طاقتور ترین وزیراعظم کو یوں پسپائی پر مجبور کیا کہ وہ پھر 45 منٹ کے نوٹس پر نہ اپنا سارا کروفر چھوڑ کر چند سوٹ کیسوں کے ساتھ بہن کے ہمراہ بھارت فرار ہوگئیں۔ مگر عوامی لیگ کی حکومت نے آواز خلق کو نقارۂ خدا نہ سمجھا اور اپنی پسپا ہوتی طاقت کے زعم میں مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ڈھاکا سمیت ملک کے کئی شہروں کی سڑکیں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہوگئیں اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس شورش میں 400 سے زائد بنگلا دیشی شہری جان سے گئے۔ اس موقع پر جب بنگلا دیشی فوج نے بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو یہ حسینہ واجد کے لیے گرین سگنل تھا اور پھر وہی ہوا جو دنیا کی طویل تاریخ میں طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کا ہوتا ہے، جس کے حکم پر پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ جاتی تھی اس کی یہ حالت ہوگئی کہ اسے آخری بار اپنی قوم سے خطاب کی اجازت بھی نہ دی گئی اور محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے فوجی ہیلی کاپٹر میں رخصت کیا گیا اور انہیں وقت رخصت وزیراعظم ہاؤس پر حسرت بھری نظر ڈالنا شاید زندگی بھر یاد رہے گا۔

    کل تک کروفر سے دنیا کے ہر ملک گھومنے والی حسینہ واجد پر آج ہر ملک اپنا دروازہ بند کر رہا ہے۔ خود ان کا دیرینہ دوست ملک بھارت انہیں طویل مدت تک سیاسی پناہ دینے سے گریزاں ہے جب کہ برطانیہ نے بھی ان کی طویل سیاسی پناہ کی درخواست پر کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا ہے جب کہ امریکا نے تو ان کا ویزا ہی منسوخ کر ڈالا ہے۔

    شیخ حسینہ کی انتظامیہ پر حزب اختلاف کی آوازوں اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے نے جمہوری عمل اور اداروں کو کمزور کردیا۔ ان کے دور میں انتخابات دھاندلی اور تشدد کے الزامات میں گھرے رہے۔ سرکاری ایجنسیوں نے ان کی ہدایت پر سازش کی اور اپوزیشن لیڈروں کو جیلوں میں ڈالتی رہیں یا ان کے خلاف مقدمات کا انبار لگا دیا گیا۔ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں نے اپوزیشن رہنماؤں کو پھنسانے کے لیے کام زیادہ کیا۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات نے بھی ان کے سیاسی کیریئر کو داغ دار کیا۔ حسینہ کی حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں نے ان زیادتیوں کو دستاویزی شکل دی ہے، جس کے نتیجے میں مغربی ممالک نے ان خلاف ورزیوں سے منسلک کچھ سیکیورٹی فورسز کے خلاف پابندیاں بھی عائد کیں۔ حسینہ واجد کے دور میں ان حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو اکثر ہراساں کیے جانے، قانونی کارروائی یا بندش کا سامنا کرنا پڑا۔

    حسینہ واجد کے جابرانہ اقتدار کے خاتمے کے بعد جہاں بنگلا دیش میں عوام خوشیاں اور جشن منا رہے ہیں وہیں ملکی سیاست اور خارجہ امور میں بھارت کی مداخلت کے خلاف بھی غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور ملک میں بھارت کے خلاف بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی مفرور سربراہ کو بھارت کی سپورٹ سے بنگلہ دیش کی اگلی حکومت کے اپنے پڑوسی ملک سے حالات کشیدہ رہیں‌ گے۔

    حسینہ واجد جمہوریت کے لبادے میں مطلق العنانی کی واحد مثال نہیں ہیں بلکہ دنیا میں‌ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن ان سب کے لیے بنگلہ دیش کی طاقتور ترین حکمران اور سیاسی رہنما کا یہ انجام ایک سبق ہے اور انہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ کی طاقت کے بعد دنیا میں سب سے بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ عوام کا سمندر اگر بے قابو ہو جائے تو زمین کے اندر گہری جڑیں رکھنے والے تناور درخت بھی اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ پھر نہ پابندیاں کام آتی ہیں اور نہ ہی حکومتی جبر، مگر طاقت اور اختیار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا جابر اور مطلق العنان حکمران حسینہ واجد کے انجام سے سبق سیکھے۔

  • پرانے پاکستان میں خوش آمدید، حکمرانوں کے وعدے پورے ہوئے!

    پرانے پاکستان میں خوش آمدید، حکمرانوں کے وعدے پورے ہوئے!

    پاکستانی قوم کی اکثریت کو سب سے بڑا شکوہ یہی رہا ہے کہ کوئی حکومت ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتی، لیکن مبارک ہو کہ موجودہ حکومت نے عوام سے کیا گیا ایک وعدہ صرف دو ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں ہی پورا کر دکھایا ہے اور عوام کو واقعی پرانے پاکستان میں بھیج دیا ہے اور اشرافیہ کو چھوڑ کر اکثریتی عوام کو اس پرانا پاکستان میں ویلکم کہتے ہیں۔

    زیادہ پرانی بات نہیں لگ بھگ سال قبل جب اپریل 2022 میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کے اتحادی پی پی چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے فلور پر مسکراتے ہوئے ببانگ دہل ’’ویلکم ٹو پرانا پاکستان‘‘ کہا تھا، لیکن پاکستان کے عوام جو اس سے قبل روٹی کپڑا اور مکان، اسلامی نظام حکومت، نظام مصطفیٰ کا نفاذ، پاکستان کو ایشین ٹائیگر اور پھر ریاست مدینہ بنانے جیسے کانوں کو بھلے لگنے والے پُر فریب وعدے سن چکے تھے لیکن کوئی ایک بھی وعدہ وفا نہ ہوسکا تو اس بار بھی قوم اس کو ایک ایسا ہی کبھی نہ پورا ہونے والا وعدہ ہی سمجھ رہی تھی، لیکن ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارے موجودہ حکمران اتنے ’’سچے اور دھن کے پکے‘‘ ہیں کہ ترقی معکوس کا سفر برق رفتاری سے طے کراتے ہوئے دہائیوں کا سفر صرف دو سال میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور یوں 21 ویں صدی میں جیتے پاکستانی 20 ویں صدی کے وسط کے پاکستان میں پہنچ گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد کی ابتدائی تاریخ قدرے روشن ہے کہ کچھ سال پاکستان نے ترقی اور عروج کا سفر طے کیا، لیکن پاکستان قوم بجلی، گیس، صاف پانی جیسی ترقی یافتہ ممالک کی سہولتوں سے محروم تھی جو بتدریج انہیں فراہم کر کے زندگی کو سہل بنا دیا گیا۔ تاہم آہستہ آہستہ لوڈشیڈنگ کے نام پر پہلے بجلی کے ذریعے تاریکیاں پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوا جس کو بعد ازاں لوڈ منیجمنٹ کا نام دے دیا گیا اور پھر چند سال سے گیس کی لوڈشیڈنگ شروع کر دی گئی تھی۔ سب کچھ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تھا مگر تھا تو صحیح، لوگ بھی عادی ہوکر صبر وشکر سے گزارا کرنے لگے تھے، لیکن پھر پی ڈی ایم ون کی حکومت، اس کے بعد نگراں اور اب پھر پی ڈی ایم کا سیکوئل حکومت (کچھ تبدیلیوں کے ساتھ) نے ایسا کیا کہ لوگ باگ اس کم دستیاب چیز سے بھی پناہ مانگنے لگے۔

    پی ٹی آئی دور حکومت میں بجلی کا یونٹ 16 سے 17 روپے تھا اور ایک متوسط گھر کا گیس کا بل 500 سے 800 کے درمیان آتا تھا، لیکن ڈھائی سال کی مدت میں مذکورہ تین حکومتوں کے دوران جہاں توانائی کا بحران بڑھا اور اب قومی اور مذہبی تہواروں پر بجلی کے ساتھ گیس کی بندش بھی معمول بننے لگی، وہیں بجلی کا فی یونٹ بل نصف سنچری کراس کرنے کے بعد تیزی سے سنچری کی جانب گامزن ہے اور 500 روپے گیس کا بل بھرنے والے غریب بھی اب 5 سے 6 ہزار کے بل دے رہے ہیں۔ مہنگائی کی عفریت بڑھنے کے ساتھ آمدنی جوں کی توں رہنے سے عوام کی اکثریت اب بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر ہوچکی ہے۔ جو لوگ سولر کی استعداد رکھتے ہیں، وہ تو سولر لگوا رہے ہیں لیکن اکثریت جو روز کما کر کھانے والی ہے وہ اب دوبارہ لکڑیوں پر کھانا پکانے اور لالٹینوں اور چراغوں سے اپنے گھروں کو روشن کرنے پر مجبور ہونے لگی ہے۔

    حکومت کے اس اقدام اور عوام کے پرانا پاکستان میں جانے سے جہاں ہمارے ان بزرگوں کی دلی خواہش پوری ہوئی ہے، جو اپنے دور کو آج سے بہترین دور کہتے تھے، تو وہیں کئی دیگر فوائد بھی قوم کو حاصل ہوئے ہیں۔ جب گھنٹوں بجلی یا گیس جاتی ہے تو قوم صبر کے گھونٹ پیتی ہے اور پھر چند لمحوں کے لیے جھلک دکھاتی ہے تو منہ سے شکر کا لفظ نکلتا ہے یوں صبر اور شکر پر جو اجر و ثواب ہوتا ہے وہ حکومت اور بجلی اداروں کی پالیسیوں کی بدولت ہی ملتا ہے۔ اسی طرح سخت گرمی میں رات گئے اچانک بجلی چلی جائے اور پسینوں میں شرابور آپ کی آنکھ کھل جائے تو بجائے بجلی محکمے کو کوسنے کے، آپ اس کو اپنے لیے نعمت مترقبہ سمجھیں اور وضو کر کے تہجد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ یوں زحمت کو رحمت میں بدل لیں گے اور دنیاوی گرمی کے بدلے جنت کی ٹھنڈی ہوائیں حاصل کرلیں گے، اگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کی سہولت ہم جیسے گہنگاروں کو دستیاب تو ہے۔

    ایسے ہی جب آگ برساتی گرمی میں دن کے اوقات میں بجلی جاتی ہے تو خوف آخرت جاگ سکتا ہے اور انسان نیکی کی جانب مائل ہوسکتا ہے۔ گیس دستیاب نہ ہو اور لکڑی خریدنے کی سکت بھی نہ ہو تو نفلی روزہ رکھ کر اس کی برکتیں سمیٹ سکتے ہیں۔ جہاں کچھ دنیاوی تکالیف کے ساتھ حکومت اخروی فوائد کے حصول میں معاون ومددگار بن رہی ہے۔

    آخر میں بات کر چلیں مشرف دور میں ہونے والے سانحہ نائن الیون کی کہ کہا جاتا ہے، امریکا نے اس وقت افغانستان کے خلاف جنگ میں ساتھ نہ دینے پر پاکستان کو پتھروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ اب یہ امریکا سرکار کا کہنا تھا جو وہ اگر پورا نہ کر سکا تو ہمارے حکمراں آخر کس کام آئیں گے وہ عوام کو پرانے پاکستان میں لے جانے کے بعد اب اپنے ’’دیرینہ دوست‘‘ کے حکم کی بجا آوری میں پاکستان کو پتھروں کے زمانے میں لے جانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، اگر یقین نہ آئے تو پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھ لیں اور موجودہ پاکستان کے حالات دیکھ لیں۔

    پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھی جائے تو وہاں صرف بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہی نہیں تھا، بلکہ وہاں کوئی قانون، اصول یا حکومت نہیں ہوتی تھی۔ پتھروں کے دور میں طاقت ہی قانون، اصول اور حکومت ہوتی تھی۔ طاقتور ہر کمزور کو دبانے کا اپنے طور حق رکھتا تھا اور کوئی اس پر چوں تک نہیں کر پاتا تھا۔ آج پاکستان دیکھیں تو ہمیں یہ صورتحال پتھر کے دور سے ملتی جلتی ہی دکھائی دے رہی ہے یہاں بھی قانون، آئین کو طاقتوروں نے گھر کی لونڈی بنا دیا ہے اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے مصداق طاقت کا قانون ہر جگہ نافذ ہے۔ امیر ہے تو سب نعمتیں اس کے لیے دستیاب ہیں اور اگر غریب و بے بس ہے تو اس کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہے۔

    دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے جب کہ آخرت ہماری ابدی زندگی ہے۔ عوام کو ایسی ہمدرد حکومت کہاں ملے گی جو عوام کی عارضی زندگی کے بجائے ہمیشگی کی زندگی سدھارنے کے لیے دن رات کوشاں رہے، تو پھر عوام کیوں اس بے چاری حکومت اور اس کے اداروں سے نالاں رہتی ہے۔ شاید پاکستانی عوام یہ سوچ کر حیران ہیں کہ حکمراں طبقہ جو غریب قوم کی فکر آخرت میں گھلا جا رہا ہے وہ کیوں اپنی آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی فکر نہیں کرتا اور عارضی دنیا کی ہر سہولت اپنے لیے سمیٹنے میں مصروف ہے، تو جناب اس کا جواب تو حکمراں یا مقتدر طبقہ خود ہی دے سکتا ہے۔ آگے ہماری زبان بند اور قلم بے بس ہے۔

    (یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)