Tag: ریحان خان کا بلاگ

  • بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا ’’موقع‘‘ مل گیا ہے!

    بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا ’’موقع‘‘ مل گیا ہے!

    پاکستان اور بھارت میں یوں تو متعدد جنگیں اور کئی محاذوں پر گولہ بارود کا استعمال ہوتا رہا ہے لیکن ایک محاذ ایسا ہے جہاں آئے روز جنگ کا ماحول نظر آتا ہے، لیکن یہاں لڑی جانے والی جنگ کسی ہتھیار سے نہیں بلکہ گیند اور بلّے سے لڑی جاتی ہے۔ تاہم بھارت ہمیشہ اس میں بھی سیاست کو گھسیٹ لاتا ہے لیکن موقع، موقع کا راگ الاپنے والے بھارتیوں کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت شاید اب آ چکا ہے۔

    بھارت کے کھیلوں کے میدان میں بھی سیاست کو کھینچ لانے کی وجہ سے دونوں ممالک ڈیڑھ دہائی سے باہمی سیریز بھی نہیں کھیل رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کی سطح پر مقابلے ہوتے رہتے ہیں لیکن دیگر ٹیموں کی نسبت ایک دوسرے کے مدمقابل کم آنے اور روایتی چپقلش کے باعث کھیل کے یہ مقابلے بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان سیریز ہوئے ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ بیت گیا۔ بھارت 16 سال سے پاکستان نہیں آیا جب کہ اس دوران پاکستان نے کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا اور گرین شرٹس ہندو انتہا پسندوں کی خطرناک دھمکیوں کے باوجود تین بار ہندوستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ 2011 اور 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے علاوہ 2014 میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے قومی ٹیم بھارت گئی تھی جب کہ دوسری جانب بھارت کا یہ حال ہے کہ وہ باہمی سیریز تو کھیلنے سے مکمل انکاری ہے، مگر اب ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ایونٹ میں بھی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے۔

    پڑوسی ملک ہونے کے باوجود بھارتی اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور اوچھے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے گزشتہ سال پاکستان کی میزبانی میں کھیلے گئے ایشیا کپ کا بیڑہ غرق کرچکا ہے۔ بھارت کی پاکستان نہ آنے کی بے جا ضد کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ ہائبرڈ ماڈل کے تحت سری لنکا کے ساتھ مل کر کھیلا گیا۔ پاکستان کو میزبان ہونے کے باوجود صرف چار میچز کی میزبانی ملی جب کہ اے سی سی کی سربراہی بھارت کے پاس ہونے کی وجہ سے بلیو شرٹس کو اس کا ناجائز فائدہ دیتے ہوئے ان کے میچز ایک ہی گراؤنڈ میں رکھے، جب کہ دیگر ٹیموں کو ایک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر کے لیے شٹل کاک بنا دیا گیا۔

    اب پاکستان کو آئندہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے، مگر انڈین کرکٹ بورڈ کے وہی انداز ہیں جو سب سے امیر بورڈ ہونے کی وجہ سے آئی سی سی کا لاڈلہ بھی کہلاتا ہے، ایک بار پھر پاکستان میں ہونے والے اس ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ایسے میں جب تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کھیل کر جا چکیں اور آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ ودیگر ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے پر رضامند ہیں ایسے میں بھارتی بورڈ نے حسب روایت اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کو حکومتی رضامندی سے مشروط کر دیا ہے، جب کہ انڈین میڈیا وصحافی بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ جانے اور ہائبرڈ ماڈل کے تحت نیوٹرل وینیو (یو اے ای یا سری لنکا) کھیلنے کے دعوے کر رہے ہیں۔

    دوسری جانب بعض سابق بھارتی کرکٹرز جن میں ہربھجن سنگھ کا نام سر فہرست رکھا جا سکتا ہے، جو ویسے تو پاکستانی کرکٹرز سے دوستیاں گانٹھنے میں عار نہیں سمجھتے لیکن جب بلیو شرٹس کے کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان آنے کی بات آتی ہے تو انہیں پاکستان غیر محفوظ ملک لگنے لگتا ہے اور وہ اس سے متعلق زہر اگلتے رہتے ہیں حالانکہ اپنے دور کرکٹ میں وہ کئی بار پاکستان کا محفوظ دورہ اور محبتیں سمیٹ کر جا چکے ہیں۔

    جب بھارت بھی مسلسل پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنے اور پی سی بی کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے اور اس کے لیے عالمی اور خطے کے فورمز (آئی سی سی اور اے سی سی) کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور بلیک میل کرنے سے گریز نہیں کرتا تو ہمیں بھی اپنی یکطرفہ محبت کی چادر کو سمیٹتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے اور بھارتی جو موقع موقع کی گردان کرتے رہتے ہیں انہیں بتا دینا چاہیے کہ پاکستان کو موقع ملے تو وہ بھارت کی کرکٹ کا مزا بھی کرکرا کر سکتا ہے۔

    اور ایسا موقع اب پاکستان کے ہاتھ آ چکا ہے۔ بھارت میں آئندہ برس ٹی 20 فارمیٹ میں ایشیا کپ اور ویمنز ورلڈ کپ منعقد ہونے ہیں جب کہ 2026 میں اس کو آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کی بھی میزبانی کرنا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کثیر الملکی کرکٹ ٹورنامنٹ میں اگر روایتی حریف پاکستان اور بھارت یا ان میں سے کوئی ایک نہ ہو تو وہ ایونٹ نہ تو کرکٹ تنظیموں کے لیے سونے کی کان ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی شائقین کرکٹ کو لبھا سکتا ہے۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ یوں تو گزشتہ سال بھی ایشیا کپ کے لیے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے پر اپنی ٹیم ہندوستان نہ بھیجنے کی دھمکی دے چکا تھا لیکن بھارت کی من مانی کے باوجود پی سی بی اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دی گئی دھمکی کو قابل عمل نہ بنا سکا، لیکن یہ یکطرفہ اصول اور محبت کب تک چلے گی� اب یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان اپنی رِٹ منوانے کے لیے ٖفیصلہ کن اعلان کرے کہ اگر بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آئی تو پھر ہم بھی آئندہ سال ایشیا کپ، ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2026 میں مینز ٹی 20 ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھارت نہیں جائیں۔

    ویسے اطلاعات تو یہ ہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھی پاکستان کی جانب سے دو بدو جواب کا خطرہ ڈرانے لگا ہے اور بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اگر بلیو شرٹس آئندہ سال چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ گئے تو جوابی طور پر وہاں سے بھی بائیکاٹ ہوسکتا ہے اور اسی لیے انہوں نے بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے کا امکان ظاہر کیا ہے لیکن ساتھ ہی حکومتی پخ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے لیے حکومت سے رابطے میں ہیں، اجازت نہ ملی تو آئی سی سی کو ہمارے میچز نیوٹرل وینیو پر منتقل کرنا ہوں گے۔

    بھارتی بورڈ کو یہ بھی خطرہ ہے کہ چند ماہ بعد جب ایشین کرکٹ کونسل کی ذمہ داری پاکستان اور محسن نقوی کے سپرد ہوگی اس لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان ٹیم بھی ہائبرڈ ماڈل کی ضد
    چھیڑ دے اور یوں بھارت کا ایشیا کپ کی میزبانی خواب چکنا چور ہوجائے گا۔

    پاکستان کے پاس چند ماہ بعد ایشین کرکٹ کونسل کی صدارت آنے والی ہے اور ممکنہ طور پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی ہی اے سی سی کے نئے صدر ہوں گے جب کہ آئی سی سی سربراہ کی مدت بھی اسی سال ختم ہو رہی ہے جس کے لیے اب بھارت پر تول رہا ہے، لیکن اس کے لیے اسے مطلوبہ تعداد میں ممبر بورڈ کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی، تو پاکستان بارگننگ پوزیشن میں آ چکا ہے۔

    اگر پاکستان کرکٹ بورڈ بھی بی سی سی آئی کی طرح پاکستانی ٹیم کی بھارت بھیجنے کو حکومت سے مشروط کر دے اور ہماری حکومت بھی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ بھارتی حکومت جیسا رویہ اپنائے تو نہ صرف آئی سی سی اور اے سی سی بلکہ بھارتی حکومت اور کرکٹ بورڈ بھی پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ایونٹ میں پاک بھارت میچز جتنا ان کے خزانے بھرتے ہیں اتنا شاید پورا ایونٹ بھی نہیں بھرتا اور پیسوں کی یہ چمک اچھے اچھوں کو سیدھا کر دیتی ہے۔

    (یہ بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی تحریر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں‌ ہے)

  • آئی ایم ایف کا نیا پروگرام، غریب تو ’’وڑ‘‘ گیا!

    آئی ایم ایف کا نیا پروگرام، غریب تو ’’وڑ‘‘ گیا!

    سال 25-2024 کا بجٹ، جس کا نفاذ یکم جولائی سے ہوچکا ہے۔ غربت سے سسکتی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث ماہرین معاشیات اسے بجٹ کے بجائے غریبوں کے لیے موت کا پروانہ قرار دے رہے ہیں کہ جس میں حکمرانوں نے امرا اور اشرافیہ کو مراعات دیتے ہوئے ایک بار پھر کسمپرسی میں زندگی گزارتے غریب عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اس بجٹ کے نفاذ کے 20 دن کے دوران عوام کو بیسیوں بجٹ آفٹر شاکس کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس غریب مٹاؤ بجٹ کا صلہ حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب 7 ارب کے نئے قرض پروگرام پر معاہدے کی صورت میں ملا ہے۔

    یوں تو ہر سال بجٹ غریبوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لاتا، لیکن یہ بجٹ تو غریب کے جسم میں بچا کھچا خون بھی نچوڑ لے گا۔ اس بجٹ میں ٹیکس در ٹیکس دیتے تنخواہ دار طبقے کو مزید دبا دیا گیا، جب کہ حکمراں اشرافیہ اور مقتدر و مالدار طبقات کو وہ چھوٹ دی گئی کہ قسمت بھی اپنی قسمت پر نازاں ہوگی کہ وہ کس کی قسمت بنی ہے، لیکن یہ طرز عمل ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ظاہر کرتا ہے۔ یہ بجٹ عوام پر کتنا بھاری ہے اس کا ادراک حکومت کو بھی ہے اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی، لیکن جہاں بے حسی غالب ہو وہاں انسانی ہمدردی مفقود ہو جاتی ہے۔

    اس ملک سے متوسط طبقہ تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس کر ختم ہوچکا ہے اور صرف دو طبقے بچے ہیں جن میں ایک غریب اور دوسرا امیر اور ان دونوں طبقوں کا ایک دوسرے کی مخالف سمتوں میں سفر جاری ہے۔ اس بجٹ کے نتیجے میں یہ سفر اتنی تیز رفتاری پکڑے گا کہ معاشی ماہرین کے مطابق مزید ڈیڑھ کروڑ عوام خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔

    اس بجٹ میں کیا چیز مہنگی نہیں ہوئی۔ بجٹ کے نفاذ سے قبل ہی بجلی، گیس مہنگی کر دی گئی تھی لیکن جیسا کہ ہمارے وزیراعظم کہہ چکے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے، تو آئی ایم ایف نے بجٹ کی منظوری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا ڈومور مطالبہ دہرایا، جس پر یکم جولائی سے قبل عمل درآمد بھی کر دیا گیا اور اس کے بعد بعد بھی مختلف ناموں سے اس پر مہنگائی کی پرت در پرت چڑھائی جا رہی ہے۔ پٹرول دو بار مہنگا ہوچکا اور یہ مہنگائی کا وہ استعارہ ہے جس کے بلند ہوتے ہی سب چیزوں کی قیمتوں کی پرواز بلند ہوجاتی ہے۔

    آٹا، دالیں، چاول، گوشت، سبزی مہنگے ہونے، ڈبل روٹی، شیرمال پر ٹیکس لگا کر لوگوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تو چھیننے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی شیر خوار بچوں کے ڈبہ بند دودھ سمیت عام پیکٹ پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ کر کے بچوں کی خوراک پر بھی سرکاری ڈاکا مارا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ غریب سے جینے کا حق چھینتے ہوئے ادویات پر بھی 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا اور اسٹیشنری پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا جس سے غریب کے لیے تعلیم کا حصول نا ممکن ہو جائے گا اور ہم جو شرح خواندگی نے نچلے نمبروں پر ہیں مزید پستی میں چلے جائیں گے۔

    بات پرانی ہوگئی، لیکن ہمیشہ کی طرح وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ پیش کرتے ہوئے غریب عوام کو ملک کی بہتری کے لیے مہنگائی کا کڑوا گھونٹ پینے کا درس دیا۔ عوام کو کئی دہائیوں سے یہ گھونٹ پی رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بیرون ملک سے پاکستان کی معیشت اور تقدیر سنبھالنے کا مشن لے کر آنے والے وزیر خزانہ امرا اور اشرافیہ پر بھی کچھ بوجھ ڈال دیتے۔ بجائے بوجھ ڈالنے کے انہیں الٹا نوازا گیا جہاں عوام کے لیے سانس لینا مشکل کر دیا گیا وہیں حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ بھی کر دیا گیا۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات بڑھ گئے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کم از کم ماہانہ اجرت 32 سے بڑھا کر 37 ہزار کر دی، لیکن ملک کا بجٹ بنانے والے آج کی مہگائی میں 37 ہزار روپے میں چار افراد کی فیملی تو کیا، صرف تنہا غریب آدمی کا ماہانہ بجٹ بنا دیں تو بڑا احسان ہوگا۔

    یہ بجٹ پیش کرنے والے وہی سیاستدان ہیں جو حکومت میں آنے سے قبل عوام کے سچے ہمدرد بننے کے دعوے دار مہنگائی مارچ کرتے تھے۔ پنجاب کی موجودہ وزیراعلیٰ اس وقت کہتی تھیں کہ جب پٹرول اور بجلی مہنگی ہوتی ہے تو اس ملک کا وزیراعظم چور ہوتا ہے تو آج ان کی بجلی اور پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمتوں پر بھی یہی رائے ہے یا بدل چکی ہے؟ یہ ایسا بجٹ ہے کہ جس کو سوائے حکمراں اور اس سے مستفید ہونے والے ایلیٹ اور مقتدر طبقوں کے علاوہ تاجر، صنعتکار، ایکسپورٹرز، سب ہی مسترد کر چکے اور مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن غریبوں کا درد رکھنے والے حکمرانوں کی آنکھیں، کان بند اور لب سل چکے ہیں۔

    وفاقی حکومت کی بڑی اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بجٹ اجلاس میں کھل کر تنقید کی اور اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیا لیکن جب منظوری کا وقت آیا تو نہ جانے کیوں اچھے اور فرماں بردار بچوں کی طرح بجٹ کی منظوری دے دی اور عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگا کر ہمیشہ اقتدار میں آنے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بجٹ دستاویز کے نام پر غریب عوام کے موت کے پروانے پر دستخط کر کے مہر تصدیق ثبت کی۔

    بجٹ پیش کرنے سے قبل یہ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ ٹیکس صرف ان پر لگے گا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے، لیکن بد قسمتی سے تنخواہ دار اسی طبقے پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے سے ہی سب سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کر رہا ہے۔ یعنی ملازمت پیشہ افراد کی کمر پر اپنی عیاشیوں کا مزید بوجھ ڈال دیا کیونکہ حکومت، مقتدر حلقوں، پارلیمنٹرینز کے علاوہ بیورو کریٹس، جن کی تنخواہیں اور مراعات پہلے ہی لاکھوں میں اور تقریباً سب کچھ مفت ہے لیکن شاید یہ سب کچھ ان کے لیے کم تھا اس لیے اراکین پارلیمنٹ کا سفری الاؤنس 10 روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر 25 روپے کر دیا۔ سالانہ فضائی ٹکٹس بھی 25 سے بڑھا کر 30 کر دیے اور یہ سہولت بھی دے دی کہ جو ٹکٹس بچ جائیں گے وہ منسوخ ہونے کے بجائے آئندہ سال قابل استعمال ہوں گے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین بنیادی تنخواہ کا %100 پارلیمنٹ ہاوس الاؤنس اور %65 فیول سبسڈی الاؤنس بڑھا دیا گیا اور کمال کی بات ہے کہ اس سے خزانے پہ کوئی بوجھ پڑا اور نہ IMF کو کوئی اعتراض ہوا۔

    ملک کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ غریب کے گھر بجلی آئے یا نہ آئے، گیس سے چولہا جلے یا نہیں، نلکوں سے پانی کے بجائے صرف ہوا آئے یا پھر گندا پانی لیکن انہیں ہر چیز کا بل دینا ہے اور صرف اپنا نہیں بلکہ اشرافیہ کا بھی جنہیں بجلی، پانی، گیس کے ساتھ بیرون ملک علاج، سفر، بچوں کی تعلیم تک مفت یا اسپانسرڈ ہوتی ہے۔ ہم وزیر خزانہ کی کیا بات کریں، جو غیر ملکی شہریت چھوڑ کر پاکستان کی تقدیر سنوارنے آئے، یہاں تو ایسے وزیراعظم بھی آئے کہ جب اس عہدے کے لیے نامزد ہوئے تو ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں تھا، وہ ملک کو کون سا خوشحال کر گئے جو اب ہم کوئی سنہرے خواب دیکھیں۔

    آج حالت یہ ہے کہ غریب کے آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں۔ کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں‌ کہ کنبے کے سربراہ نے بیوی بچوں سمیت زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ عوام کو جو اس اجتماعی خودکشی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟ حکمران کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم عوام کو جینے اور سانس لینے کے قابل تو چھوڑیں۔

  • متنازع ٹی 20 ورلڈ کپ اور بھارت کی فتح

    متنازع ٹی 20 ورلڈ کپ اور بھارت کی فتح

    کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی ایونٹ نے امریکا کا سفر کیا اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں ٹی 20 ورلڈ کپ منعقد ہوا، جس میں بھارت کو فتح حاصل ہوئی، لیکن لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والا یہ ٹورنامنٹ ٹی 20 عالمی کپ کی 17 سالہ تاریخ کا متنازع ترین ورلڈ کپ ثابت ہوا۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل، اس میں پہلی بار 20 ٹیموں کی شمولیت، ویسٹ انڈیز کے ساتھ امریکا میں انعقاد کو خوش آئند اور شائقین کرکٹ اس کے سنسنی خیز ہونے کی توقع کر رہے تھے لیکن یہ ایونٹ اپنے آغاز سے پہلے ہی کئی تنازعات کا ایسا شکار ہوا کہ پھر پورے ایونٹ میں یہ سر اٹھاتے رہے اور لوگوں کو بھی انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کرتے رہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ کرکٹ کے کئی سابق بڑے ناموں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے بھارت کو آئی سی سی کا ’’لاڈلا‘‘ تک قرار دے ڈالا گوکہ آئی سی سی پر یہ الزام نیا نہیں بلکہ ماضی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے اسی رویے پر آئی سی سی کو انڈین کرکٹ کونسل تک کہا گیا لیکن اس بار تو جانبداری اور مبینہ فائدہ پہنچانے کی تمام حدوں کو ہی پار کر لیا گیا۔

    یہ میگا ایونٹ کو مایوس کن پچز، ناقص سفری سہولیات، موسم کی مداخلت، پاکستان ٹیم کی بدترین کارکردگی، حیران کن طور پر سابق عالمی چیمپئنز پاکستان، سری لنکا سمیت نیوزی لینڈ کے پہلے مرحلے میں ہی ورلڈ کپ سے باہر ہو جانے کے علاوہ آئی سی سی کی جانب سے بھارت کی بے جا طرفداری اور دیگر ٹیموں پر ترجیح اور فیور دینے کے حوالے سے شائقین کرکٹ کے دلوں میں چبھتی ہوئی ایک تلخ یاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور یہی بات اس ورلڈ کپ کو ٹی 20 ورلڈ کپ کی 17 سالہ تاریخ کا متنازع ترین ٹورنامنٹ بھی بناتی ہے۔

    پاکستان، نیوزی لینڈ اور سری لنکا پہلے راؤنڈ میں باہر ہوئے تو ہوئے، لیکن میزبان ویسٹ انڈیز باہر ہوا تو مقامی افراد کے لیے یہ ورلڈ کپ تو بیگانی شادی بن گیا۔ بات کریں انتطامات کی تو ٹیموں کو ایئرپورٹ پر انتظار کرنا پڑا۔ ناقص سفری سہولیات کے باعث ہوائی اڈے ہی سری لنکا، آئرلینڈ اور جنوبی افریقہ کے لیے ہوٹل بن گئے۔

    اس ورلڈ کپ میں مجموعی طور پر 55 میچز کھیلے گئے، جن میں سے کئی بارش سے متاثر جب کہ ایک میچ بے نتیجہ اور تین میچز میں تو ٹاس تک نہ ہوسکا۔ جس نے ٹورنامنٹ پر بھی اثر ڈالا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ پاکستان کی کارکردگی اس میگا ایونٹ میں انتہائی بدترین رہی لیکن امریکا اور آئرلینڈ کا میچ میچ بارش کی نذر ہونے کے باعث بھی گرین شرٹس سپر ایٹ میں پہنچنے کا موقع گنوا بیٹھے، پاکستان سمیت نیوزی لینڈ، سری لنکا جیسی ٹیمیں پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر اور چھوٹی ٹیمیں سپر ایٹ میں پہنچیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیمی فائنل اور فائنل میچ میں شائقین کرکٹ کی دلچسپی ختم ہوگئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں سیمی فائنلز سمیت فائنل میچ کے ٹکٹ بھی 100 فیصد فروخت نہ ہوسکے اور شاید یہ میگا ایونٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ناک آؤٹ مرحلے میں اسٹیڈیم مکمل طور پر بھرے ہوئے نہ تھے۔

    امریکا میں ورلڈ کپ کا تجربہ ناکام رہا۔ دنیا کے ایک سپر پاور ملک میں پاور فل کرکٹ نہ ہو سکی بلکہ نیویارک کی پچز تو بلے بازوں کا قبرستان ثابت ہوئیں جہاں کوئی بھی ٹیم 150 کے اسکور کے ہندسے تک نہ پہنچ سکی جب کہ دوسری اننگ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کے لیے تو137، 120 اور 113 جیسے کمترین ہدف کا تعاقب کرنا ناممکن ہوگیا اور ایسا شائقین کرکٹ نے بھارت اور پاکستان کے میچ بھی دیکھا۔ آئی سی سی اور مقامی منتظمین نے بھی میچز شیڈول کرتے ہوئے موسمی صورتحال کو مدنظر نہ رکھا جس کا نتیجہ ورلڈ کپ میں نظر آیا اور فلوریڈا میں بارش نے ٹیموں کی امیدوں پر پانی پھیرا۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ بنیادی طور پر چوکوں، چھکوں کا کھیل ہے۔ شائقین کرکٹ جارحانہ بلے بازی دیکھنے کے لیے آتے ہیں لیکن اس ورلڈ کپ میں سب کچھ الٹ ہوا۔ اس میگا ایونٹ میں بولرز کی کارکردگی اور ریکارڈز ہی نمایاں رہے جیسا کہ آسٹریلیا کے پیٹ کمنز نے کسی بھی میگا ایونٹ میں بیک ٹو بیک ہیٹ ٹرک کرنے والے پہلے بولر بنے جب کہ اسی ورلڈ کپ میں ایک ہی روز میں دو ہیٹ ٹرک بننے کا ریکارڈ بھی قائم ہوا۔ جس روز پیٹ کمنز نے افغانستان کے خلاف ہیٹ ٹرک کی، اسی روز ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں انگلینڈ کے کرس جارڈن نے امریکا کے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا اور یوں ایک ہی ٹورنامنٹ میں تین ہیٹ ٹرکس بنیں۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار کسی بولر نے اپنے کوٹے کے چاروں اوورز میڈن کرائے۔ نیوزی لینڈ کے لوکی فرگوسن نے پاپوا نیوگنی کے خلاف 24 کی 24 ڈاٹ بالز کرائیں اور ایک بھی رن نہ دینے کے ساتھ تین بلے بازوں کو بھی آؤٹ کیا۔

    تاہم ہم جب بیٹنگ کے شعبے کی جانب دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سب سے لو اسکورنگ میچز اور یکطرفہ میچز بھی اسی ٹورنامنٹ میں ہوئے۔ 55 میچز میں سے تین میچز تو مکمل طور پر بارش کی نذر ہوئے ایک میچ ادھورا رہا جب کہ کئی فیصلے ڈی ایل ایس قانون کے تحت ہوئے۔

    نواں ورلڈ کپ آئی سی سی کے لیے ایسا درد سر بنا کہ کئی منفی ریکارڈز ہی ریکارڈ بک کی زینت بن گئے جس میں ورلڈ کپ کی تاریخ کے مختصر ترین راؤنڈ میچ اور مختصر ترین سیمی فائنل بھی شامل ہوگئے۔

    ٹورنامنٹ میں کھیلے جانے والے مجموعی 52 میچز میں 100 سے زائد اننگز کھیلی گئیں لیکن ایک بھی بلے باز سنچری نہ بنا سکا اورکئی سالوں بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بغیر انفرادی سنچری کے اختتام پذیر ہوا۔ ٹورنامنٹ میں سب سے بڑا انفرادی اسکور 98 رہا جو میزبان ویسٹ انڈیز کے نکولس پورن نے افغانستان کے خلاف بنایا، جب کہ بلے باز ٹورنامنٹ کے میچز کی مجموعی تعداد کے برابر بھی نصف سنچریاں اسکور نہ کر سکے، صرف 45 نصف سنچریاں ہی بن سکیں۔ ورلڈ کپ کے 55 میچز میں سے صرف 4 میچز میں ہی 200 پلس اسکور بن سکا۔ 9 میچز میں ٹیمیں 100 کا ہندسہ بھی پار نہ کر سکیں جب کہ سوائے چند میچز کے بیشتر میچز یکطرفہ ثابت ہوئے جس نے ٹی ٹوئنٹی کی روایتی مقبولیت کو گہنایا۔

    اس میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ چھکوں کا ریکارڈ تو بن گیا اور پہلی بار کسی میگا ایونٹ میں مجموعی طور پر 500 سے زائد (517) چھکے لگائے گئے تاہم اس میں بلے بازوں کی جارحانہ بیٹنگ سے زیادہ میچز کی تعداد کثیر ہونے کی وجہ سے یہ سنگ میل عبور ہوا کیونکہ آج تک کسی میگا ایونٹ میں 55 میچز نہیں کھیلے گئے۔

    جس طرح کے آئی سی سی نے ٹیموں کے لیے انتظامات کیے اس سے شروع میں ہی اس پر جانبداری برتنے کے الزامات لگے اور کرکٹ سے وابستہ ماہرین سمیت شائقین کرکٹ کو بھی یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ بھارت آئی سی سی کا لاڈلہ ہے جس کو ورلڈ کپ چیمپئن بنوانے کے لیے شروع سے ہی ماحول تیار کیا گیا۔ بھارت کو زیادہ سے زیادہ میچز ایک ہی گراؤنڈ میں دیے گئے تاکہ سفر کی تکان سے بچ سکیں، ہوٹلز اسٹیڈیم کے قریب دیے گئے جب کہ سری لنکا اور دیگر ٹیمیں اس حوالے سے شکایات ہی کرتی رہیں کہ ان کے ہوٹلز اسٹیڈیم سے کافی دور رکھے گئے ہیں۔ میچز کے اوقات کار بھی بھارت کی سہولت کے مطابق رکھے گئے۔ نیویارک میں ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ پاک بھارت ٹاکرا ہوا۔ جہاں دونوں ٹیمیں پہلی بار کھیل رہی تھیں اور پچز ایڈیلیڈ آسٹریلیا سے درآمد کی گئی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی سی سی اس بڑے مقابلے سے قبل دونوں روایتی حریف ٹیموں کو پچ جاننے اور ہم آہنگ ہونے کے لیے ایک ایک میچ کھیلنے کا موقع فراہم کرتا تاہم اس کے برعکس بھارت کو تو پاکستان سے مقابلے سے قبل آئرلینڈ کے ساتھ میچ دے دیا گیا جب کہ گرین شرٹس کو پہلی بار انڈیا کے خلاف ہی میدان میں اترنا پڑا۔
    آئی سی سی کی جانب سے ٹیم انڈیا کو سپورٹ کیے جانے کے لیے حد سے گزر جانے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل ہی بلیو شرٹس کو معلوم تھا کہ اگر وہ سیمی فائنل میں پہنچے تو وہ کس میدان میں اتریں گے۔ گروپ میں ٹاپ ہونے کی وجہ سے بھارت کے سیمی فائنل کے لیے ریزرو ڈے بھی نہ رکھا گیا تاکہ اگر بارش سے میچ واش آؤٹ ہو تو ’’لاڈلہ‘‘ بغیر کھیلے فائنل میں پہنچ جائے۔

    بھارت کو آؤٹ آف وے جا کر سہولتیں دینے اور دیگر ٹیموں پر ترجیح دینے کی باتیں جہاں سابق انگلش کپتان مائیکل وان، انضمام الحق سمیت دیگر نے کیں وہیں سابق بھارتی کھلاڑی سنجے منجریکر بھی خاموش نہ رہے اور آئی سی سی کی جانبداری پر بول اٹھے، لیکن بھارت چونکہ سب سے امیر اور کماؤ پوت بورڈ ہے اس لیے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کہاوت مشہور ہے کہ دودھ دینے والی گائے کی لات بھی برداشت کرنی پڑی ہے اور یہ لات ہر ٹورنامنٹ میں دیگر ٹیموں کو نقصان پہنچاتی آ رہی ہے۔

    (یہ مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی بلاگ/ تحریر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں‌)

  • ورلڈ کپ: نام کے ان شاہینوں سے قوم امید لگاتی ہی کیوں ہے؟

    ورلڈ کپ: نام کے ان شاہینوں سے قوم امید لگاتی ہی کیوں ہے؟

    وہی ہوا جس کا ڈر نہیں بلکہ یقین تھا اور جس خطرے کا تجزیہ کار عرصے سے شور کر رہے تھے، وہ پاکستان ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلے ہی راؤنڈ کے تمام ہونے پر بھیانک تعبیر کی صورت سامنے آ گیا۔ یوں بڑے دعوؤں کے ساتھ امریکا جانے والی گرین شرٹس کی امریکا یاترا صرف 10 دن میں ہی ختم ہوگئی جس کے بعد ہمارے ’’سپر اسٹار‘‘ خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا شروع ہوگئے ہیں جب کہ کپتان سمیت چند کھلاڑیوں نے اپنا قیام امریکا میں طویل کر دیا ہے۔

    جس چیز کا آغاز اچھا نہ ہو اس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا اور یہی ہوا ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ، پاکستان ٹیم جس کو شاہین اور گرین شرٹس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یوں تو شکست کی دلدل میں گزشتہ 7 ماہ سے پھنسی ہوئی ہے لیکن جو حال آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس کا ہوا۔ ہمارے شاہین بڑے دعوؤں کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شریک ہوئے تھے لیکن صرف نام کے شاہین ثابت ہوئے اور ان کی کارکردگی دیکھنے کے بعد قوم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان کی مثال اس کرگس جیسی ہے جس کا جہاں ہی اور ہے اور جو ہمیشہ دوسروں کے شکار اور مردار پر نظریں رکھتا ہے۔

    ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال جن کے اشعار میں ہمّتِ مرداں، مددِ خدا کا پیغام پنہاں ہوتا ہے اور انہوں نے ہمیں ہمت، جذبے اور اونچی اڑان کی ترغیب دینے کے لیے اپنے اکثر اشعار میں شاہین کی صفات کو اجاگر کیا ہے۔ اسی حوالے سے شاعر مشرق کا ایک شعر بہت مشہور ہے:

    پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
    کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

    افسوس ہماری ٹیم جس کو شاہین ہونا چاہیے تھا، اب قوم کی نظر میں ایک کرگس کی طرح ہے۔ کرگس کو عام زبان میں گدھ کہا جاتا ہے اور شاہین و گدھ اپنی صفات میں ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہیں۔ شاہین اپنے زور بازو پر یقین کرتا، ہمیشہ بلند پرواز رکھتا اور اپنا شکار خود کرتا ہے جب کہ کرگس (گِدھ) کی فطرت ہمیشہ دوسرے کے چھوڑے ہوئے شکار اور مُردار پر ہوتی ہے اور ہماری آج کی کرکٹ ٹیم کی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ یہ اس لیے کہا جارہا ہے کہ ہماری ٹیم ہر بڑے ایونٹ میں آگے بڑھنے کے دیگر ٹیموں پر انحصار کرتی ہے اور کرکٹ کی محبت میں ہمیشہ بے وقوف بننے والے شائقین کرکٹ بھی یہ جیت جائے، وہ ہار جائے، بارش ہو جائے، بارش نہ ہو جیسی دعاؤں اور فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔

    یوں تو پاکستان کرکٹ ٹیم ون ڈے کی عالمی چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فاتح اور چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی ہوئی ہے اور اس کا شمار آج بھی دنیائے کرکٹ کی بڑی ٹیموں میں کیا جاتا ہے، لیکن جس شرمناک طریقے سے یہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہوئی ایسا اس میگا ایونٹ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ 2009 کی عالمی چیمپئن، تین بار فائنل اور چھ بار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پانے والی اس ٹیم کی حالت یہ ہوگئی کہ رواں ورلڈ کپ میں امریکا جیسی نو آموز ٹیم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، بھارت سے جیتا ہوا میچ اس کو فتح کی طشتری میں سجا کر پیش کر دیا یوں وہ پہلی بار ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ میں ہی میگا ایونٹ سے باہر ہوئی لیکن آخری میچ جو آئرلینڈ سے ساکھ بچانے کے لیے کھیلنا تھا وہ بھی بڑی مشکل سے گرتے پڑتے جیتا۔

    ٹیم میں اندرون خانہ کیا کچھڑی پک رہی ہے یہ تو شائقین کرکٹ کو ورلڈ کپ سے کئی ماہ قبل ہی معلوم ہوگیا تھا جب ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی خراب پرفارمنس کے بعد پس پردہ دباؤ میں آکر بابر اعظم نے قیادت سے استعفیٰ دیا تو شاہین شاہ کو جھٹ پٹ ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنا دیا گیا اور مدت ورلڈ کپ تک رکھی گئی لیکن پھر اچانک صرف ایک دورہ نیوزی لینڈ میں ناکامی کو جواز بناتے ہوئے قیادت ان سے چھین کر دوبارہ بابر اعظم کے سپرد کر دی گئی جب کہ اس دوران محمد رضوان کا نام بھی کپتانی کے لیے گردش کرتا رہا۔ یوں گزشتہ سال جس ٹیم میں بابر اعظم کو آرام دے کر شاداب خان کو افغانستان کے خلاف سیریز کے لیے قیادت سونپی گئی تھی اور پھر ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے ’’سوچنا بھی مت‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بابر اعظم سے اظہار یکجہتی کی گئی تھی۔ اس ٹیم پر ایسا زوال آیا کہ ایک دوسرے سے دوستی کا دم بھرنے والے ٹورنامنٹ میں ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار بھی نہ رہے اور جب ٹیم میں ایک ساتھ تین چار کپتان آجائیں تو انا کا وارد ہوجانا فطری امر ہے۔

    ٹیم میں گروپ بندی کا سابق چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف بھی اپنے دور میں واضح طور پر اظہار اور ٹیم کو گروہ بندی ختم کرنے کا سخت حکم دے چکے تھے۔ نجم سیٹھی نے بھی ورلڈ کپ سے قبل اس بارے لب کشائی کی اور کہا کہ ٹیم میں اس وقت تین گروپ موجود ہیں، اس کے بعد سابق کپتان شاہد آفریدی سمیت کئی دیگر کھلاڑیوں کی جانب سے بھی ٹیم میں گروپ بندی کی باتیں سامنے آتی رہیں اور یہاں تک بات کی گئی کہ ٹیم اس وقت تین ٹکڑوں میں تقسیم ہے جو ایک دوسرے سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور اس کا مظاہرہ میچ کے دوران گراؤنڈ میں بھی اس وقت نظر آیا جب گروپ اسٹیج کے میچ میں کپتان بابر اعظم نے دو بار کاٹ بی ہائینڈ کی اپیل کے لیے وکٹ کیپر رضوان سے پوچھنا چاہا لیکن رضوان نے کوئی جواب دینے کی زحمت نہ کی اور یوں وقت گزر گیا جس پر کمنٹری باکس میں موجود کمنٹیٹر نے یہ تک کہہ دیا کہ یہ کیسی ٹیم ہے جس کے کھلاڑیوں میں ہی رابطے کا فقدان ہے اور یہ ٹورنامنٹ جیتنے آئی ہے؟

    ٹیم میں گروپ بندی کا اثر اجتماعی ہی نہیں کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی پر بھی پڑا اور ابتدائی راؤنڈ کے ٹاپ فائیو بیٹر اور بولرز میں ایک بھی پاکستانی کھلاڑی کا نام موجود نہیں تھا جب کہ کپتان ہونے کے ناطے سب سے زیادہ تنقید کی زد میں بابر اعظم ہی رہے جو چار میچوں میں ایک نصف سنچری تک نہ بنا سکے۔ انہوں نے مجموعی طور پر 119 رنز بنائے اور زیادہ سے زیادہ اسکور امریکا کے خلاف 44 رنز رہا۔ محمد رضوان واحد بلے باز تھے پاکستان کی جانب سے جنہوں نے کینیڈا کے خلاف نصف سنچری بنائی اور چار میچوں میں مجموعی طور پر 110 رنز بنائے۔ بابر اعظم کا اسٹرائیک ریٹ پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں ٹی ٹوئنٹی کے پاور پاور پلے میں 200 سے زائد بالیں کھیلیں مگر ایک چھکا بھی نہ لگا سکے۔ فخر زمان ناکام ترین ثابت ہوئے جو چار میچوں میں 33 رنز ہی بنا سکے۔ افتخار احمد، صائم ایوب، اعظم خان، شاداب خان کوئی بھی امیدوں پر پورا نہ اتر سکا کہ جب بیک وقت چار چار اوپنرز کو ایک ساتھ ٹیم میں کھلایا جائے اور من پسند نمبروں پر کھیلنے کے لیے بلے بازوں کے نمبر اوپر نیچے کیے جائیں تو پھر ایسے بدترین نتائج کے لیے تو تیار رہنا ہی چاہیے۔

    ورلڈ کپ کے لیے تجربہ کار عماد وسیم اور محمد عامر کو ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن وہ ٹیم کا بوجھ اٹھانے کے بجائے خود بوجھ بنے رہے۔ عماد وسیم جو خود کو بہترین آل راؤنڈر کہتے ہیں ان کا بلا بھی پورے ایونٹ میں خاموش رہا جب کہ بولنگ میں بھی کوئی کمال نہ دکھا سکے۔ محمد عامر نے گوکہ چار میچز میں سات وکٹیں لیں لیکن ٹیم کے کسی کام نہ آسکیں۔ شاہین شاہ 6 اور نسیم شاہ تین میچوں میں پانچ وکٹیں لے سکے۔ حارث رؤف بھی میدان سے زیادہ میدان سے باہر سرگرمیوں کی وجہ سے خبروں میں رہے۔

    ورلڈ کپ میں اگر بابر اعظم پر شاداب خان کی سپورٹ کا الزام ہے تو کچھ یہی الزام وہاب ریاض کے حوالے سے چیئرمین پی سی بی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جب سے محسن نقوی اقتدار کے دائرے میں داخل ہوئے، تب سے وہاب کی لاٹری کھل گئی حالانکہ ان کے ریکارڈ پر 2015 کے ورلڈ کپ میں شین واٹس کو پریشان کرنے والے اوور اور 2011 کے سیمی فائنل میں 5 وکٹوں کے علاوہ کوئی اور کارکردگی نہیں ہے، لیکن دونوں میچ ہی پاکستان نہیں جیت سکا تھا۔

    ورلڈ کپ میں تاریخ کی بدترین ناکامی کے بعد ایک بار پھر ٹیم میں بڑے آپریشن، اکھاڑ پچھاڑ کی باتیں، کپتان کو ہٹانے اور نئے کو لائے جانے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف آئندہ ماہ دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ کو آرام دینے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست کہ ٹیم کی اس وقت جو حالت ہے وہ فوری طور پر توجہ طلب ہے اور ہنگامی بنیادوں پر موثر اور بولڈ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاہم پی سی بی حکام کو یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان نے آئندہ سال فروری میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے جس کے انعقاد میں اب صرف آدھا سال ہی باقی رہ گیا ہے اور پاکستان اس ایونٹ میں میزبان ہونے کے ساتھ دفاعی چیمپئن بھی ہے۔

    پاکستان ٹیم پی سی بی کی ناقص پالیسیوں، سیاسی مداخلت اور ہر چند ماہ بعد انتظامی تبدیلیوں اور فیصلوں کے ردوبدل نے قومی ٹیم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ صرف 8 ماہ کے اندر ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بدترین ناکامی کے ساتھ نیوزی لینڈ سے اس کی سر زمین پر ٹی ٹوئنٹی سیریز چار ایک سے ہارنے، ہوم سیریز میں نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کو بھی زیر نہ کر پانے اور آئرلینڈ جیسی ٹیم گرتے پڑے سیریز جیتنے جیسے نتائج پی سی بی کے کرتا دھرتاؤں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہییں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ایک بہتر ٹیم کے روپ میں سامنے آئے تو ذاتی مفاد، پسند نا پسند اور انا سے بالاتر ہوکر قومی ٹیم کے مفاد میں عارضی نہیں مستقل بنیادوں پر فیصلے کریں تاکہ پاکستان ٹیم شکستوں کی دلدل سے نکل سکے۔

  • کیا یہی ورلڈ کپ جیتنے کی تیاری ہے؟

    کیا یہی ورلڈ کپ جیتنے کی تیاری ہے؟

    پاکستان کرکٹ ٹیم جس کو دنیائے کرکٹ میں شاہینوں کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ حال ہی میں اپنے کئی شکار ہاتھ سے جانے کے بعد آئرلینڈ اور انگلینڈ کو شکار کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں بابر اعظم کی قیادت میں آئرلینڈ کی سر زمین پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں وہ تین میچوں کی سیریز کے بعد انگلینڈ کا رخ کرے گی۔ برطانیہ میں 4 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے بعد پھر شاہینز امریکا اور ویسٹ انڈیز کی طرف اڑان بھریں گے، جہاں وہ 20 ممالک کی ٹیموں سے سجے آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت کریں گے۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کا آغاز سر پر آن پہنچا ہے اور صرف تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ یکم جون سے ویسٹ انڈیز کے ساتھ پہلی بار کرکٹ کے آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والے ملک امریکا میں اس میگا ایونٹ کا آغاز ہوگا۔ ٹورنامنٹ میں پہلی بار ریکارڈ 20 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ ان میں سے دفاعی چیمپئن انگلینڈ سمیت بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ، افغانستان سمیت 15 ممالک اپنے اسکواڈز کا اعلان کر چکے ہیں، مگر پاکستان کا ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان تو دور کی بات، ابھی تک یہ ہی طے نہیں ہوسکا ہے کہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے کون سے کھلاڑی جائیں گے اور کون گھر میں ٹی وی اسکرینز پر یہ میچز دیکھیں گے۔

    کھیل کوئی بھی ہو، ورلڈ کپ سب سے بڑا ایونٹ ہوتا ہے جس میں شرکت کا خواب ہر کھلاڑی دیکھتا ہے، ٹورنامنٹ کو جیتنے اور ٹرافی اٹھانے کی خواہش ہر ٹیم میں ہوتی ہے، جس کے لیے وہ سالوں پہلے سے تیاریاں شروع کر دیتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ اس کا الٹ ہوتا ہے۔ ہر میگا ایونٹ میں ناکامی کے بعد ہمارے کھیلوں کے کرتا دھرتا، اس کو اپنے لیے ایک سبق قرار دیتے ہوئے اگلے ورلڈ کپ کی تیاریوں کے عزم کا اظہار کرتے ہیں اور جب چار سال گزرتے ہیں تو قوم کھیلوں کے اداروں اور ٹیموں کو وہیں کھڑا دیکھتی ہے جہاں وہ چار سال قبل کھڑی ہوتی ہیں اور منیر نیازی کی مشہور نظم کے اس مصرع کی عملی تفسیر پیش کرتی نظر آتی ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘‘۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم جس نے پہلی اور آخری بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا ایڈیشن 2009 میں جیتا تھا۔ اس کے بعد گرین شرٹس 5 بار تو سیمی فائنل میں پہنچے لیکن ٹرافی اٹھانے کی جانب پیش قدمی تو درکنار ٹیم فائنل میں بھی نہ پہنچ سکی۔ گزشتہ میگا ایونٹ میں بھی قومی ٹیم کا بابر اعظم کی قیادت میں سفر سیمی فائنل پر ہی تمام ہو گیا تھا۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ جس پر ملکی سیاست ہمیشہ سے سایہ فگن رہی ہے۔ اسی لیے جس طرح ہماری سیاست اور اس کی پالیسیوں میں استحکام نہیں ہے، اسی کا عکس پی سی بی اور اس کے فیصلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ملک میں جہاں سیاسی ہلچل عروج پر پہنچتی ہے تو پی سی بی حکام کو اپنی کرسیاں خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے، اب ایسے میں وہ کرکٹ کی ترقی پر فوکس کرنے کے بجائے اپنی کرسیاں بچانے کے لیے لابنگ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کا سراسر نقصان کرکٹ کے کھیل کو ہی ہوتا ہے۔

    اس تماشے کو دیکھنے کی عادی قوم گزشتہ ڈیڑھ برس سے پی سی بی کی میوزیکل چیئر بنی کرسی اور اس کے نتیجے میں پاکستان ٹیم کی گرتی کارکردگی کو مسلسل دیکھ رہی ہے۔ ملک میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی کی انتظامی تبدیلی جڑی ہے تو حکومت کے ساتھ یہ تبدیلی بھی ہو کر رہی اور 15 ماہ میں چیئرمین پی سی بی پر چوتھی شخصیت کو تعینات کیا گیا۔ جب ادارے کا سربراہ تبدیل ہو جائے تو پھر منیجمنٹ اور کپتان بھی اسی کی پسند کا ہوتا ہے اور پاکستان ٹیم کی قیادت عرصہ دراز سے اسی کھینچا تانی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے اور اس خرابی بسیار کھیل میں ہمارے سابق بڑے بڑے لیجنڈ کرکٹرز کے نام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ اسی روایت کے تحت ٹیم میں ایک بار پھر گروپنگ کی خبروں نے زور پکڑا جس کو ممہیز نیوزی لینڈ کی سی ٹیم جو 10 بڑے ناموں سے محروم تھی سے سیریز برابر کرنے پر مزید پھیلی۔

    بابر اعظم جنہیں گزشتہ سال بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد قیادت سے ہٹنا پڑا تھا اور ان کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو ٹی 20 کی قیادت سونپی گئی تھی مگر اسٹار فاسٹ بولر کی قائدانہ صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے پی سی بی حکام نے صرف نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی سر زمین پر کھیلی گئی سیریز اور پی ایس ایل 9 میں لاہور قلندرز کی ناکامی کو پیمانہ قرار دیا اور کپتانی کا تاج ایک بار پھر بابر اعظم کے سر پر سجا دیا یہ سوچے بغیر کہ شاہین شاہ مسلسل دو سال تک لاہور قلندرز کو پی ایس ایل چیمپئن بنوا چکے ہیں۔

    پاکستان ٹیم ڈھائی سال سے اپنی سر زمین پر کوئی بھی سیریز جیتنے میں ناکام رہی ہے۔ جب نو آموز نیوزی لینڈ ٹیم آئی تو شائقین کو وائٹ واش کے ساتھ امید تھی کہ گرین شرٹس اپنی سر زمین پر ڈھائی سال بعد کوئی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگی، مگر ہمارے سپر اسٹار کھلاڑیوں سے سجی ٹیم کو کیویز کی سی کلاس ٹیم کے بچوں نے ناکوں چنے چبوا دیے اور گرین شرٹس پہنے نامور کھلاڑیوں کی ڈفر پرفارمنس نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔ پاکستان ٹیم ڈھائی سال میں دو بار نیوزی لینڈ کی سی کلاس ٹیم سے بھی سیریز نہ جیت سکی۔ انگلش ٹیم شکست کی دھول چٹا کر گئی۔ کینگروز نے بھی شاہینوں کے پر کاٹ دیے۔

    نیوزی لینڈ سیریز کو ورلڈ کپ کی تیاریوں کا آغاز کہا جا رہا تھا لیکن جس بری طرح سے یہ آغاز ہوا ہے، آگے کی کہانی واضح نظر آتی ہے۔ بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ میں کئی خامیاں سامنے آئیں۔ پانچ میں سے چار میچز کھیلے گئے اور صرف دو نصف سنچریاں ایک بابر اعظم اور ایک فخر زمان نے بنائیں۔ محمد عامر چار سال بعد اپنی ٹیم میں واپسی کو یادگار نہ بنا سکے اور تین میچز میں صرف تین وکٹیں ہی لے پائے۔ اس کارکردگی کے بعد اب پی سی بی انتظامیہ نے اپنا راگ بدلتے ہوئے آئرلینڈ اور انگلینڈ دوروں کو ورلڈ کپ کی تیاری سے نتھی کر دیا ہے جس پر کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے صرف طنزیہ مسکرا ہی سکتے ہیں کیونکہ میگا ایونٹ سے 10 یا 15 دن قبل کیسی تیاری اور کمبینیشن بنایا جا سکتا ہے۔

    سب سے بڑی خامی جو سامنے آئی ہے وہ قومی ٹیم کا کمزور ترین مڈل آرڈر ہے۔ دنیا کی 10 بڑی کرکٹ ٹیموں میں ہمارا مڈل آرڈر نویں نمبر پر اور صرف افغانستان سے اوپر ہے۔ قومی ٹیم کا مڈل آرڈر ٹی 20 کرکٹ میں 7 سے 15 اوورز کے درمیان محض 7.30 رنز سے اسکور کررہا ہے جو آئرلینڈ اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے بھی کم ہے اور صرف افغانستان سے بہتر ہے اور یہ اعداد وشمار لمحہ فکریہ اور پی سی بی حکام کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔

    نیوزی لینڈ سے سیریز برابر ہونے کے بعد سلیکشن کمیٹی نے دورہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے لیے ٹیم کا اعلان کیا جس میں گزشتہ ورلڈ کپ میں اوسط درجے سے بھی کم کارکردگی دکھانے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رہنے کے باوجود سینیئر فاسٹ بولر حسن علی کی واپسی نے ان کی سلیکشن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ ٹیم کی سلیکشن میں ایک بار پھر دوستی یاری کو ترجیح دی گئی ہے جس کا خمیازہ ہم ون ڈے ورلڈ کپ 2023 میں پہلے ہی راؤنڈر میں باہر ہو کر بھگت چکے ہیں۔

    پی سی بی سلیکشن کمیٹی نے آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دوروں کے لیے ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی ورلڈ کپ کے لیے اسکواڈ کا اعلان کرنے کے لیے 22 مئی تاریخ دی اور ساتھ ہی یہ لطیفہ بھی سنا ڈالا کہ ’’پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ ٹیم کے اعلان میں مشکل پیش آ رہی ہے۔‘‘ اگر اس ٹیلنٹ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے پلڑے میں قومی ٹیم کی حالیہ کچھ ماہ کی کارکردگی رکھی جائے تو حقیقت سب پر عیاں ہو جائے گی۔

    اب ٹیم آئرلینڈ پہنچ چکی ہے لیکن گرین شرٹس یاد رکھیں کہ آئرش ٹیم اپ سیٹ کرنے میں ماہر ہے۔ پاکستان کے پاس ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے صرف 7 میچز ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے شاہین اس میں کیا تیر مارتے ہیں۔ ٹیم کی حالت دیکھ کر ہم تو قوم کو یہی مشورہ دیں گے کہ حسب سابق سہانے خواب دیکھے مگر جاگتی آنکھوں کے ساتھ مصلّٰی و تسبیح بھی ساتھ رکھے کہ ٹیم کو اگلے ماہ پھر قوم کی دعاؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ہم تو ہر میگا ایونٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی گاڑی کو دعاؤں سے ہی آگے دھکیلنے کی کوشش کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں۔

  • پی ایس ایل پاکستان کرکٹ ٹیم کے ’’مستقبل‘‘ کا تعین کرے گی؟

    پی ایس ایل پاکستان کرکٹ ٹیم کے ’’مستقبل‘‘ کا تعین کرے گی؟

    پاکستان سپر لیگ جو دنیا کی مقبول ترین کرکٹ لیگز میں شامل ہے جس میں دنیائے کرکٹ کے نامور کھلاڑی شریک ہوتے ہیں۔ پی ایس ایل کا 9 واں ایڈیشن اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ لگ بھگ ایک ماہ تک کرکٹ شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھنے کے بعد اسلام آباد کے چیمپئن بننے کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔ ماہ رمضان المبارک کے تقدس میں روایتی رنگا رنگ اختتامی تقریب تو نہ ہو سکی مگر اسلام آباد نے ریکارڈ تیسری بار پی ایس ایل کی حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجایا۔

    پی ایس ایل کے اس نتیجے کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ ٹیم میں کپتانی کی بحث نے ایک بار پھر جنم لے لیا ہے۔ میڈیا اور کرکٹ حلقوں میں شاہین شاہ آفریدی کی قائدانہ صلاحیتوں، حالیہ ناکامیوں اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل قیادت کسی اور کھلاڑی کو سونپنے کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔

    پی ایس ایل ختم ہونے کے بعد اب پاکستان کرکٹ ٹیم کی نان اسٹاپ انٹرنیشنل مصروفیات شروع ہو رہی ہیں۔ آئندہ ماہ نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی ہوم سیریز کھیلنی ہے، اسکے بعد انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز ہیں جس کے بعد ٹیم کا اصل امتحان جون میں ویسٹ انڈیز اور امریکا کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والا آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ ہے لیکن یہاں حال یہ ہے کہ قومی ٹیم ہیڈ کوچ کے بغیر ہے، کپتان کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے اور ٹیم کا ورلڈ کپ کمبینیشن اب تک نہیں بن سکا ہے تو ٹیم سے اس میگا ایونٹ میں کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔

    گزشتہ سال ایشیا کپ اور پھر ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص پرفارمنس کے بعد کپتان بابر اعظم نے استعفیٰ دے دیا تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہین شاہ آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں قیادت کے لیے منتخب کیا اور ان کی وجہ انتخاب پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کو اپنی قیادت میں مسلسل دوسری بار چیمپئن بنوانا تھا تاہم کپتان بنتے ہی ایسا لگا کہ شاہین شاہ آفریدی کے بُرے دن شروع ہوگئے۔ پہلا امتحان نیوزی لینڈ میں پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز تھی جس میں پاکستان پہلی بار کیویز سے وائٹ واش ہونے سے بال بال بچی اور آخری میچ میں گرتے پڑتے فتح حاصل کی یوں نیوزی لینڈ نے یہ سیریز چار ایک سے اپنے نام کی۔

    دورۂ نیوزی لینڈ کے فوری بعد پی ایس ایل شروع ہو گیا اور یہاں بھی لاہور قلندر کے کپتان کے طور وہ اس سیزن میں مکمل ناکام نظر آئے۔ نہ صرف بطور قائد ان کے کئی فیصلوں پر تنقید ہوئی بلکہ ان کی انفرادی کارکردگی بھی ماضی جیسی نہ تھی جس نے ان پر دباؤ بڑھایا اور اس پر طرہ یہ کہ لاہور کو ورلڈ کلاس افغان اسپنر راشد خان کا ساتھ میسر نہ تھا یوں لاہور قلندرز ایونٹ کے دس میچز میں سے صرف ایک میچ ہی جیت پائی اور خالی ہاتھ گھر واپس آئی۔

    دورہ نیوزی لینڈ کی ناکامی کے بعد پی ایس ایل میں شاہین کی ناکامی نے ان کے ناقدین کے ساتھ عام کرکٹ مبصرین کو بھی اس ناکامی کی وجوہات تلاش کرنے پر مجبور کر دیا اور اب لوگ کھل کر اس حوالے سے رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور یہاں دو متضاد رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ شاہین شاہ آفریدی کو قیادت کے لیے ابھی صرف ایک انٹرنیشنل سیریز ملی ہے انہیں وقت دینا چاہیے اور یہ بات معقول بھی لگتی ہے کہ کسی کی قائدانہ صلاحیتوں کا موازنہ صرف ایک سیریز سے نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سونے کو کندن بننے میں اور ہیرے کو تراشنے میں وقت تو لگتا ہے۔ لیکن دوسری جانب شاہین شاہ کو قیادت سے ہٹا کر ٹی ٹوئنٹی کی قیادت محمد رضوان کو دینے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے مضبوط حوالہ رضوان کی قیادت میں ملتان سلطانز کا مسلسل چوتھی بار پی ایس ایل فائنل کھیلنا، ایک بار چیمپئن بننا اور تسلسل سے انفرادی کارکردگی بھی دکھانے کو جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جب کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے چیمپئن بننے کے بعد شاداب خان کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ اس وقت دو مخمصوں کا شکار ہے ایک جانب اسے ٹیم کے لیے ہیڈ کوچ کی تلاش ہے جس کے لیے پی سی بی چیئرمین محسن نقوی غیر ملکی ہیڈ کوچ چاہتے ہیں چاہے اس کا سپورٹنگ اسٹاف ملکی ہو۔ اس کے لیے شین واٹسن، ڈیرن سیمی، اسلام آباد یونائیٹیڈ کو پی ایس ایل کا چیمپئن بنوانے والے مائیک ہیسن سمیت دیگر کئی غیر ملکی سابق کرکٹرز اور موجودہ کوچز سے بات ہوئی مگر تاحال کسی بڑے نام سے قومی ٹیم کو کوچنگ کے لیے گرین سگنل نہیں دیا ہے۔ دوسری جانب پی سی بی پے در پے شکست کی پٹری پر چلتی قومی ٹیم کی گاڑی کو جیت کی ٹریک پر ڈالنے کی خواہاں ہے جس کے لیے چند ماہ قبل کپتان اور منیجمنٹ بھی بدل لی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات رہا۔

    پی سی بی نے یوں تو شاہین شاہ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک کے لیے قیادت کی ذمے داری سونپی تھی لیکن یہاں عموماً حالیہ نتائج سابقہ فیصلوں کو تبدیل کرا دیتے ہیں۔ پاکستان ٹی ٹوئنٹی کی ایک مضبوط ٹیم ہے جو کسی بھی ٹیم کو کہیں بھی ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن جب تک ٹیم کو مضبوط اور مستقبل کپتان کا ساتھ میسر نہیں ہوگا ٹیم یونہی افراتفری کا شکار رہے گی اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی شاید ون ڈے ورلڈ کپ کی کہانی دہرائی جائے گی۔

    اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ ابہام ختم کرے۔ ہیڈ کوچ کے جلد تقرر کے ساتھ پی سی بی یا تو واضح طور پر شاہین شاہ کو گرین سگنل دے کہ وہ ورلڈ کپ تک قیادت کریں گے تاکہ نیوزی لینڈ اور پی ایس ایل میں ان کی ٹیم کی حالیہ کارکردگی سے جو ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے وہ واپس آئے یا اگر بورڈ کپتان کی تبدیلی سے متعلق سنجیدگی سے سوچ رہا ہے تو کئی سابق کرکٹرز کا یہی مشورہ ہے کہ وہ پھر ورلڈ کپ کا انتظار نہ کرے اور بولڈ فیصلہ کرتے ہوئے قیادت کو تبدیل کرے کیونکہ ورلڈ کپ میں اب بمشکل تین ساڑھے تین ماہ رہ گئے ہیں۔ اگر درست فیصلے بروقت نہ ہوں تو وہ نتائج بھی درست نہیں لاتے۔

    پی ایس ایل کی بات ہو رہی تھی تو چلتے چلتے پی ایس ایل 9 اور گزشتہ سال کھیلے گئے ورلڈ کپ 2023 کی حیران کن مماثلت پر بھی بات کرتے چلیں کہ جس کے آغاز سے اختتام تک کہیں کہیں تو یوں گمان ہوا کہ کہیں پی ایس ایل 9، ورلڈ کپ 2023 کو سیکوئل تو نہیں۔

    ورلڈ کپ 2023 میں کرکٹ کے بانی کہلانے والا ملک انگلینڈ ٹائٹل جیتنے کی فیورٹ ٹیموں میں شامل تھا اور دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے ورلڈ کپ میں شرکت کی، لیکن دفاعی چیمپئن کو اس میگا ایونٹ میں ٹرافی کا دفاع تو دور اگلے برس چیمپئنز ٹرافی میں رسائی تک کے لالے پڑ گئے تھے۔ اسی طرح لاہور قلندرز بھی پی ایس ایل 9 میں فیورٹ اور دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے شریک تھی لیکن انگلینڈ کی طرح لاہور قلندرز کی کامیابیوں کو بھی ایسا ریورس گیئر لگا کہ پھر ٹریک پر نہ آسکی۔

    ورلڈ کپ میں اگر انگلینڈ نے ٹورنامنٹ کا آغاز ناکامی سے کیا اور صرف آخری میچ ہی جیت سکی تو پی ایس ایل 9 میں بھی لاہور قلندر نے ایونٹ کا آغاز اسلام آباد یونائیٹڈ سے شکست کے ساتھ کیا اور پھر پے در پے شکستیں اس کا مقدر بنی رہیں اور انگلینڈ کی طرح صرف آخری میچ میں ہی فتح نصیب ہو سکی یوں یہ بھی انگلش ٹیم کی طرح بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے کے مترادف خالی ہاتھ واپس لوٹ گئی۔

    دوسری مماثلت ورلڈ کپ سے یہ رہی کہ بھارت پورے ورلڈ کپ میں ناقابل شکست اور پوائنٹس ٹیبل پر سر فہرست رہا لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے شکست دے دی۔ پی ایس ایل 9 میں اگرچہ ملتان سلطانز ناقابل شکست نہیں رہی مگر پوائنٹس ٹیبل پر سر فہرست رہی لیکن فائنل میں آکر غبارے سے ایسے ہی ہوا نکل گئی جیسے بھارت کی نکلی تھی۔

    تیسری مماثلت یہ رہی کہ ورلڈ کپ 2023 جیتنے والی ٹیم آسٹریلیا نے ٹورنامنٹ کا آغاز دو شکستوں سے کیا اور راؤنڈ میچ میں فائنلسٹ بھارت سے شکست ہوئی تھی لیکن پھر سب کو پچھاڑتی ہوئی آخر میں میزبان کو شکار کر کے آسٹریلیا نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں ریکارڈ چھٹی بار ٹرافی اٹھائی۔ پی ایس ایل 9 کو دیکھیں تو چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ نے اگرچہ ٹورنامنٹ کا آغاز لاہور قلندرز کو زیر کر کے کیا لیکن پھر پے در پے دو شکستوں سے مورال ڈاؤن ہوا معاملات اوپر نیچے ہونے کے بعد ٹیم نے آسٹریلیا کی طرح دوبارہ دم پکڑا اور اایلیمنیٹرز میں پہلے کوئٹہ اور پھر پشاور کو دھول چٹا کر فائنل میں پہنچی اور حتمی مقابلے میں ملتان سے راؤنڈ میچ کی شکست کا بدلہ ایسا چکایا کہ پھر شاداب خان نے ٹرافی اٹھائی اور یوں پی ایس ایل کی تاریخ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کو تیسری بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
    صرف میچز کے نتائج ہی نہیں بلکہ ٹورنامنٹ کے بہترین بولر میں بھی یکسانیت رہی۔ ورلڈ کپ میں بہترین بولر فائنل ہارنے والی ٹیم بھارت کے بولر محمد شامی تھے جن کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 24 تھی جب کہ پی ایس ایل 9 کے بہترین بولر بھی فائنل کی رنر اپ ٹیم ملتان سلطانز کے اسامہ میر رہے اور ان کی وکٹوں کی تعداد بھی 24 ہی رہی۔

  • وزیراعظم صاحب! یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں

    وزیراعظم صاحب! یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں

    8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے صرف پاکستان اور اداروں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو حیران کیا . جس طرح بے نشان سیاسی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے ماہر کھلاڑیوں کی طرح بغیر بلے کے ہی سنچری بنا ئی اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ادھر گومگوں کی کیفیت کا شکار حلقوں کی جانب سے حسب منشا نتائج کے لیے سر توڑ کوششوں اور کئی ہفتوں کی محنت شاقہ کے بعد مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا بھان متی کا کنبہ ایک بار پھر ’’پی ڈی ایم 2‘‘ کی صورت میں اقتدار کی کشتی میں سوار ہو گیا ہے۔

    جمہوری اصولوں کے مطابق تو حکومت سازی کے لیے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا پہلا حق ہوتا ہے، لیکن اس ملک میں اس سے قبل پہلے کس کو ان کے حقوق ملے ہیں جو ہم اس جمہوری حق کی بات کریں۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف جمہوریت کے نام پر ہمیشہ ایک ہائبرڈ نظام لانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے اور حسب روایت اس بار بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔

    پولنگ کے اگلے دن ہی جب تمام آزاد ذرائع اور پاکستانی میڈیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سب سے بڑا کامیاب امیدواروں گروپ بتا رہا تھا، ایسے میں پاکستانی عوام کی تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے۔ 6 جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، آئی پی پی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ایک ساتھ بٹھا کر بحران کا شکار پاکستان کی نیا کو پار لگانے کے لیے جیسے تیسے کر کے ایک بار پھر اقتدار کی کشتی میں سوار کرا ہی دیا۔

    پاکستان میں عام انتخابات جیسے بھی ہوئے، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کو کیا پذیرائی ملی، دھاندلی کا کتنا شور اٹھا، غیر جانبدار حلقوں اور ممالک نے کن تشویشات کا اظہار کیا۔ فارم 45 سے 47 تک کیا بحث چلی، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جو قومی اسمبلی میں عددی اکثریت میں سب سے بڑا گروپ بن کر سامنے آئے اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل کی چھتری کا بھی سہارا لیا مگر پی ٹی آئی سے مخصوص نشستوں پر باریک بینی سے گیم کھیل کر اسے اس حق سے نہ صرف محروم بلکہ پہلے سے دوسرے نمبر پر بھی کر دیا گیا، لیکن یہ سب باتیں پرانی اور بے سود ہو گئیں کیونکہ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں اس ادھوری سدھوری جمہوریت کے ثمرات نئی حکومتوں کے قیام کی صورت میں مکمل ہو گئے۔

    وفاق میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے سر پر ایک بار پھر حکمرانی کا تاج سج گیا تو نواز شریف جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی حسرت پوری نہ کر سکے لیکن اپنی سیاسی وراثت کو اگلی نسل میں منتقل کرتے ہوئے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں کامیاب رہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے کے پی میں جھاڑو پھیر کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ سندھ میں حسب روایت پی پی کا سکہ چل رہا ہے تو بلوچستان میں پی پی کی سربراہی میں مخلوط حکومت ہے۔

    عمران خان کی حکومت کے خلاف اپریل 2022 میں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم کی تھی جس نے اپنے اقدامات سے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ پاکستان کے عوام پہلے ہی پی ڈی ایم پارٹ ون کی حکومت کے ذریعے ڈسے ہوئے تھے اور حالیہ الیکشن میں اس کا بدلہ بھی اپنے ووٹ سے لیا لیکن کیا کریں پاکستان کے عوام کی قسمت میں ایک بار پھر اسی بھان متی کے سیاسی کنبے کے حوالے کر دی گئی ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی قائم ہونے والی حکومت بھی ان کی پرانی حکومت کا سیکوئل یعنی ’’پی ڈی ایم پارٹ 2‘‘ ہے مگر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ۔

    شہباز شریف بخوشی یا با امر مجبوری وزارت عظمیٰ کا تاج دوبارہ سر پر سجا کر جس کانٹوں بھری کرسی پر براجمان ہوئے ہیں اس کا ان سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو احساس تھا اسی لیے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے تباہ حال پاکستان کی اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کو کوئی دل سے تیار نہیں تھا۔ یوں حکومتی ٹرین کی فرنٹ سیٹ ن لیگ کو دوبارہ دی گئی، لیکن اس کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں لانے والی پیپلز پارٹی حکومتی وزارتوں سے دور رہے گی۔ جس کو سیاسی حلقے ایک زیرک سیاسی چال قرار دے رہے ہیں، کیونکہ شہباز شریف کے لیے صرف معاشی نہیں بلکہ کئی سیاسی بحران بھی سامنے موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو بھاری قرضوں کی واپسی اور ان کی واپسی سمیت ملکی امور چلانے کے لیے مزید قرضوں کا حصول جس کے لیے آئی ایم ایف کو پی ڈی ایم ون کے ذریعے پہلے ہی پاکستانی عوام پر کئی شکنجے کس چکا ہے مزید نئی اور سخت ترین شرائط کے ساتھ سامنے آئے گا جب کہ اتحادی حکومت کی وجہ سے اتحادیوں کے جائز اور ناجائز مطالبات بھی اس حکومت کے لیے ایک درد سر ہی بنے رہیں گے۔ ایسی صورتحال میں پی پی کا یہ فیصلہ ن لیگ کی بحران زدہ سیاسی کشتی کو ڈبونے کے لیے اس کا سوراخ مزید بڑا کرنے کے مترادف ہی کہا جا سکتا ہے اور بہت سے حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی پی نے جس مفاہمت کا نام لے کر ن لیگ کو سہارا دیا ہے وہ دراصل ن لیگ کو گہرے گڑھے میں دھکیلنے اور اگلی ٹرم میں اپی جگہ پکی کرنے کی ایک سیاسی چال ہے۔

    بہرحال شہباز شریف حکومت سنبھال چکے ہیں اور سابق صدر آصف زرداری جو ممکنہ طور پر جلد ہی موجودہ صدر بھی ہو جائیں گے نے شہباز شریف کو آئنسٹائن سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ جس طرح آئن اسٹائن مشکل چیلنجز سے نہیں ڈرا اسی طرح شہباز شریف بھی نہیں ڈریں گے اور اہم ان کے پیچھے کھڑے رہیں گے۔ تاہم سیاست بھی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور کی طرح ہے کہ یہاں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر عمل مشکل سے ہی کیا جاتا ہے، تو شہباز شریف جنہیں جہاں معاشی مسائل، بیروزگاری، بدامنی، مہنگائی جیسے بے قابو جنات کو بوتل میں بند کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے وہیں انہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ اب ان کے سامنے راجا ریاض کی صورت فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے جو حکومت کی ہر جائز وناجائز بات ہر سر تسلیم خم کرے گی۔ پی ٹی آئی اراکین تو حکومت کی نیندیں اڑائیں گے ہی، لیکن کسی بھی غلط شاٹ (فیصلے) پر پی پی بھی اس کو نہیں بخشے گی۔ ساتھ ہی ماضی میں نواز شریف کے ہم قدم رہنے والے شعلہ بیان بزرگ سیاستدان محمود خان اچکزئی اور پی ڈی ایم ون حکومت کے پشتی بان مولانا فضل الرحمان کا اختلاف دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے اس لیے اب زرا سنبھل کر کہ ان کے ساتھ اب ن لیگ کی ساکھ اور سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

    دوسری جانب تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جو چوتھی بار وزیراعظم پاکستان کا تاج پہننے کی خواہش لیے ’’چار سالہ طویل علاج‘‘ کے بعد اس وطن عزیز میں قدم رنجہ ہوئے تھے تاہم من پسند نتائج اور سادہ اکثریت نہ ملنے کی بنا پر چار وناچار اپنی خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا تو دیا ہے لیکن اب ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا کیا وہ بغیر حکمرانی کے اسی ملک میں مزید قیام کرنا پسند کریں گے یا پھر ’’کسی خاص وجہ‘‘ کی بنیاد پر واپس بیٹوں کے پاس ان کے دیس چلے جائیں گے یہ بھی جلد عوام کے سامنےآ جائے گا۔

  • پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ اور اقتدار کی غلام گردشوں کی کہانی

    پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ اور اقتدار کی غلام گردشوں کی کہانی

    8 فروری کو عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے 13 ویں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ انتخابی مراحل کا آغاز ہو چکا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال جاری ہے۔ اب تک نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مریم نواز سمیت چوٹی کے سیاستدانوں سمیت دیگر کو بھی الیکشن لڑنے کی کلین چٹ مل چکی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی سمیت اہم رہنماؤں کے فارم مسترد کیے جا چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے لیے سیاسی جوڑ توڑ میں بھی تیزی آ گئی ہے۔

    اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا لیکن یہاں پارلیمانی طریقۂ انتخاب یعنی عوام کو حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے لگ بھگ 23 سال کا عرصہ لگا۔ گو کہ قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور حکومت میں بنیادی جمہوریت ( بی ڈی الیکشن) کے نام پر بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کا تجربہ کیا گیا لیکن نہ تو پارلیمانی الیکشن تھے اور نہ ہی اس میں براہ راست عوام کی شرکت ہوئی جو کہ جمہوریت کی بنیادی شرط ہے۔

    ملکی سطح پر پہلی بار عام انتخابات 1970 میں متحدہ پاکستان میں منعقد ہوئے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرائے گئے، جس کے بعد سے اب تک 12 بار عام انتخابات کا میدان سجایا گیا ہے۔ 11 بار جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے جب کہ ایک بار غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے۔ اسی دوران دو بار صدارتی ریفرنڈم بھی ہوئے جس کے ذریعے ایک بار جنرل ضیا الحق اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دیا۔

    ملک میں عام انتخابات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو 1970 میں ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے نتائج میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں عوامی لیگ جب کہ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم یہاں سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد عملی طور پر جمہوری حکومت کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1973 کے آئین کی تشکیل کے بعد پہلی جمہوری حکومت 1970 کے انتخابی نتائج کے تحت 1973 میں پی پی پی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں قائم کی گئی۔

    وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مقبولیت کے زعم میں ایک سال قبل ہی 1977 میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا اور اس کا جو نتیجہ آیا اس نے اسے ملک کی اب تک کی تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن بنا دیا۔ نتائج میں پیپلز پارٹی نے پورے ملک سے لگ بھگ کلین سوئپ کیا، پی پی کے اکثر امیدوار بلا مقابلہ ہی منتخب ہوئے۔ یہ نتائج منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں وہ سیاسی طوفان اور احتجاج اٹھا کہ جو پھر بھٹو کی معزولی سے تختہ دار تک اور مارشل کے قیام پر ہی منتج ہوا۔

    جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بعد ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدر بھی بن گئے اور انہوں نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ملک بھر میں عام انتخابات کرائے جس کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا اور یوں سندھ کے علاقے سندھڑی سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو ملک کے نئے وزیراعظم بن گئے اور انہوں نے ہی ضیا الحق کو مارشل ہٹانے پر آمادہ کیا تھا۔ تاہم یہاں صدر کے ہاتھ 58 ٹو بی آئینی ترمیم کے نام سے ایک ایسا اختیار دے دیا گیا جس کی مدد سے صدر جب چاہے منتخب حکومت کو گھر بھیج سکتا تھا اور یہیں سے حکومتوں کو قبل از وقت برطرف کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک دہائی سے زائد وقت تک جاری رہا اور پانچ منتخب حکومتیں اس کا شکار بنیں۔

    مئی 1988 میں اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر کے نومبر میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا اعلان کیا تاہم اگست میں ان کی حادثے میں موت کے بعد الیکشن تو اپنے اعلان کردہ وقت پر ہوئے مگر غیر جماعتی کے بجائے جماعتی بنیادوں پر ہوئے جن میں کسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت تو نہ ملی لیکن پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

    پی پی نے سندھ کے شہری علاقوں سے کلین سوئپ کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) جو اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے اپنا وجود رکھتی تھی، سے اتحاد کیا اور وفاق میں حکومت قائم کی۔ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم یہ اتحادی حکومت صرف 18 ماہ کی مہمان ثابت ہوئی اور 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے 58 ٹو بی کے ڈنڈے کا استعمال کرتے ہوئے بینظیر حکومت کو چلتا کیا اور اسی سال اکتوبر میں پھر عام انتخابات ہوئے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم ہوئی اور نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔

    صدر غلام اسحاق خان کی نواز شریف سے بھی نہ بنی اور 2 سال بعد ہی دونوں کے درمیان اختلافات منظر عام پر آنے لگے جس کا نتیجہ نواز شریف کی برطرفی کی صورت نکلا لیکن عدالت نے نواز شریف کو عہدے پر بحال کر دیا جس کو اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو نے چمک قرار دیا تاہم سیاسی بحران اس قدر بڑھا کہ پھر وزیراعظم اور صدر دونوں کو ہی گھر جانا پڑا۔

    1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم ان کا دوسرا دور سندھ کے شہری بالخصوص کراچی میں فوجی آپریشن جس کا نشانہ واضح طور پر ایم کیو ایم (جس نے اس الیکشن میں قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا) اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا انکی رہائشگاہ کے باہر مبینہ پولیس مقابلے میں قتل جیسے واقعات رہے۔

    گزشتہ دور حکومت میں 58 ٹو بی کے وار سے ڈسی ہوئی بینظیر بھٹو نے اس بار اپنے تئیں محفوظ قدم اٹھایا اور اپنی ہی پارٹی کے فاروق لغاری جنہیں وہ فاروق بھائی کہتی تھیں کو صدر بنایا تاکہ ان کی حکومت ماضی کی طرح مشکلات کا شکار نہ ہوا۔ تاہم یہ ان کی خوش فہمی رہی اور انہیں اپنے ہی بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی چارج شیٹ کے ساتھ پانچ سالہ مدت سے قبل ہی گھر بھیج دیا گیا۔

    فاروق لغاری کے دور صدارت میں ہی 1996 کے انتخابات منعقد ہوئے اور نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر آئے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی اور اب تک آخری بار کسی سیاستدان کو انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملی تھی لیکن یہ اکثریت بھی ان کی حکومت کو قبل از وقت خاتمے کے انجام سے نہ بچا سکی۔

    نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں جمہوری صورت میں مطلق العنان بننے کی کوشش کی اور خود کو ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی کوشش کی، جس کو پی پی اور دیگر جماعتوں نے ن لیگی قائد کی امیر المومنین بننے کی کوشش قرار دیا اور اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلاتے ہوئے اسے ناکام بنایا۔ اسی مدت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صدر لغاری اور اس وقت کے چیف جسٹس سے تنازعات ہوئے، سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا۔ بالآخر آرمی چیف پرویز مشرف کی برطرفی کا فیصلہ نہ صرف ان کی حکومت کا اختتام ثابت ہوا بلکہ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے جیل تک کا سفر بھی کرایا جس کے ایک سال بعد انہیں 10 سال کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ اسے اس وقت ایک ڈیل یا معاہدہ کہا گیا جب کہ نواز شریف پہلے اس معاہدے سے انکار کرتے رہے لیکن بالآخر قبول کر ہی لیا کہ وہ دس سال نہیں بلکہ پانچ سال کے جبری معاہدے پر بیرون ملک گئے تھے۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کا بڑا حصہ مطمئن انداز میں گزارا کیونکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک سے باہر تھے۔ ان میں نواز شریف معاہدے کے تحت جلا وطن جب کہ بینظیر بھٹو نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ہوئی تھی۔ 2006 ملکی سیاست کے لیے خوشگوار سال ثابت ہوا کہ 90 کی دہائی کے دو بدترین سیاسی حریف نواز شریف اور بینظیر بھٹو اکٹھے ہوئے اور لندن میں میثاق جمہوریت کے نام سے تاریخی معاہدہ وجود میں آیا لیکن افسوس یہ معاہدہ کرنے والی جماعتوں نے بعد ازاں خود ہی اس معاہدے کے چیتھڑے اڑا دیے۔

    پرویز مشرف نے 2002 میں پارلیمانی انتخابات اپنے پیشرو صدر جنرل ضیا الحق کے برعکس جماعتی بنیادوں پر کرائے جن میں نواز شریف، بینظیر بھٹو سمیت دونوں جماعتوں کے کئی اہم رہنما بذات خود حصہ نہیں لے پائے لیکن انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے بطن سے مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بطن سے پی پی پی پیٹریاٹ کا جنم ہوا۔ جن کے اشتراک اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے خصوصی تعاون کی بدولت نئی وفاقی حکومت تشکیل دی گئی جس کی سربراہی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اللہ جمالی کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سر پر سجا کر کی گئی۔

    یہ ملک کی تاریخ کی پہلی اسمبلی تھی جس نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی لیکن اس مدت کے دوران وزارت عظمیٰ کا منصب بدلتا رہا۔ میر ظفر اللہ جمالی صرف ڈیڑھ برس تک وزیراعظم ہاؤس میں متمکن رہے جس کے بعد مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو عبوری وزیراعظم بنایا گیا جب کہ شوکت عزیز کو معین قریشی کی طرح بیرون ملک سے درآمد کرکے وزارت عظمیٰ کا تاج حتمی طور پر ان کے سر پر سجایا گیا جو پھر اسمبلی کے اختتام تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک اسمبلی کے برقرار رہتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کے مکین میں تبدیلی کی یہ روایت ایسی چلی کہ جو اب تک چلی آ رہی ہے اور اگلی حکومتوں میں بھی چار و ناچار یہی فارمولا آزمایا گیا۔ اس دور میں ہی بزرگ بلوچ رہنما اکبر بگٹی کا قتل اور سانحہ لال مسجد جیسے واقعات پیش آئے۔ اسی اسمبلی نے ایل ایف او پاس کر کے مشرف کے تمام اقدامات کی منظوری دی۔

    جنرل مشرف کی اقتدار پر گرفت مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کرنے کے فیصلے بعد کمزور ہونا شروع ہوئی کیونکہ نہ صرف ملک بھر کے وکلا سڑکوں پر نکل آئے بلکہ سیاسی جماعتوں کے پشت پناہی نے اس تحریک کو قوت بخشی۔ اسی دوران بینظیر بھٹو جو خود ساختہ جلا وطن تھیں اپنی جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں جس کو مشرف سے ہوئی ڈیل کا نتیجہ بھی کہا جاتا ہے جب کہ نواز شریف جو مشرف حکومت سے معاہدے کے تحت قید سے نکل کر سعودی عرب گئے تھے ان کی بھی واپسی ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں سے ایل ایف او کی منظوری کی ڈیل پوری ہونے پر وردی اتار دی اور نئے الیکشن کے لیے 8 جنوری 2008 کی تاریخ دی لیکن اس سے قبل نومبر 2007 میں ایمرجنسی نے حالات کو ایک نیا موڑ دیا۔ بینظیر بھٹو کے 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل نے ملک کو ایک نئے بھونچال میں مبتلا کر دیا۔ الیکشن کو ایک ماہ آگے بڑھا کر 8 فروری کو پولنگ کرائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں اکثریت حاصل کی جس کو ناقدین بینظیر بھٹو کے قتل میں پڑنے والا ہمدردی کا ووٹ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔

    بہرحال 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نےمرکز اور سندھ میں حکومت بنائی اور پی پی شریک چیئرمین آصف علی زرداری جو بعد ازاں اسی سال اگست میں صدر مملکت بھی بن گئے انہوں نے سیاسی افق پر مفاہمت کا جھنڈا لہرایا جس کے تحت مرکز میں ن لیگ، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کو ملا کر حکومت بنائی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ پنجاب میں ن لیگ کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا لیکن صوبائی حکومت میں شامل رہی، سندھ میں پی پی نے اقتدار اپنے پاس ہی رکھا لیکن ایم کیو ایم کو شریک کار کیا۔

    پی پی اور ن لیگ کا اشتراک صرف چند ماہ ہی قائم رہا اور جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے وعدے سے منحرف ہونے پر ن لیگ وفاقی حکومت سے نکل گئی تاہم پی پی نے پنجاب حکومت سے رہنے کا فیصلہ برقرار رکھا، اسی دوران پنجاب میں کچھ عرصے کے لیے گورنر راج کے قیام نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آنے پر شریف برادران یعنی نواز شریف اور شہباز شریف بدلے کی سوچ میں کالے کوٹ پہن کر عدالت جا پہنچے۔ سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو اپنی پارٹی کے سربراہ اور صدر مملکت کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر جب برطرف اور نا اہل کیا تو راجا پرویز اشرف کو نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔

    سال 2013 کے الیکشن میں ن لیگ کی وفاق کے ساتھ پنجاب، بلوچستان میں حکومت قائم ہوئی جب کہ کے پی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں حسب سابق پی پی پی کی حکومت بنی۔ نواز شریف ریکارڈ تیسری بار وزیراعظم بنے لیکن انہیں اقتدار کے آغاز سے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا سامنا رہا۔ اقتدار حاصل کرنے کے چند ماہ بعد ہی نواز شریف حکومت کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان لانگ مارچ لاہور سے لے کر اسلام آباد پہنچ گئے اور 100 سے زائد دن تک دھرنا دیا۔ اسی دوران 16 دسمبر کا سانحہ آرمی پبلک اسکول ہوا جس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج ختم کر دیا تاہم چار حلقوں کے نتائج پر شروع ہونے والا احتجاج جاری رہا۔ اسی دوران پاناما کیس سامنے آیا اور نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ نے کیس شروع کیا لیکن اقامہ کیس میں انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف اور تاحیات سیاست کے لیے نا اہل کرنے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا بھی سنائی۔ اس فیصلے کے بعد ن لیگ نے حکومت سے نکلنے کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کرایا اور اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی۔

    سال 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اکثریت حاصل کی اور پارٹی چیئرمین عمران خان وزیراعظم پاکستان بنے۔ ان کا دور تنازعات سے بھرا ہے اور پی ٹی آئی دور حکومت میں بھی سابقہ حکومتوں کی روایات پر عمل کرتے ہوئے بالخصوص اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف الزامات کی سیاست اور مقدمات کی طویل فہرست مرتب کی گئی۔ ان کے دور حکومت میں ہی جیل میں قید نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ایسا بیانیہ بنایا گیا کہ لگا ان کی صحت اتنی خراب ہے کہ اگر فوری طور پر بیرون ملک نہ بھیجا گیا تو خدانخواستہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی انہیں فوری طور پر علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجنے کی سفارش کی اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے 50 روپے مالیت کے اسٹامپ پیپر پر انہیں عدالت عظمیٰ نے 6 ہفتوں کے لیے لندن جانے کی اجازت دی لیکن یہ عرصہ چھ ہفتوں سے طوالت اختیار کر کے لگ بھگ چار سال بن گیا اور حیرت انگیز طور پر وہ نواز شریف جن سے پاکستان میں چلنا پھرنا بھی محال ہوگیا تھا اور ایئرایمبولینس کے ذریعے انہیں لندن لے جایا گیا۔ لندن کی ہوا ایسی راس آئی کہ اس سر زمین پر اترتے ہی وہ اپنے پیروں سے چلتے ہوئے ایون فیلڈ اپنے بیٹوں کی رہائشگاہ پہنچے اور اس کے بعد جب تک وہ وہاں رہے ان کے علاج کے حوالے سے خبریں کم بلکہ ان کے یورپی ممالک سمیت دیگر مقامات پر سیر سپاٹوں اور سیاسی سرگرمیوں کی خبریں میڈیا کی زینت زیادہ بنیں۔

    عمران خان کی حکومت کو کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مارچ 2022 میں ختم کیا گیا اور پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی۔ شہباز شریف وزیراعظم بنے جن کے دور حکومت میں ملک کو کچھ اور تو نہیں لیکن ریکارڈ مہنگائی کا تحفہ ضرور ملا۔ اس دور حکومت میں پی ٹی آئی چیئرمین نے احتجاجی تحریک جاری رکھی جس کے دوران ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں وہ خوش قسمتی سے بچ گئے۔ لیکن 9 مئی 2023 کو ہونے والی ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج بالخصوص فوجی تنصیبات اور یادگار شہدا کو نقصان پہنچانے والے واقعات ایسا سیاہ دھبہ ہیں جو بانی چیئرمین کے سیاسی کیریئر پر گہرا داغ چھوڑ گئے۔ عمران خان سیاسی طور پر زیر عتاب نظر آتے ہیں‌ اور اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ دیکھتے ہیں آنے والے انتخابات میں کون کس کو پچھاڑتا ہے، کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی مات، مگر موجودہ حالات تو ان کہی داستان بیان کر رہے ہیں۔

  • 2023 :  قومی کرکٹ ٹیم تنزلی اور ترقی کے درمیان جھولتی رہی

    2023 : قومی کرکٹ ٹیم تنزلی اور ترقی کے درمیان جھولتی رہی

    ہماری زندگی کا ایک اور سال 2023 کی صورت اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اس سال سے جڑی کئی اچھی بری یادیں اور واقعات ذہن کے پردے پر نقش ہو گئے ہیں۔ کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اور یہ سال کرکٹ کے حوالے سے پنڈولم کی طرح جھولتا ثابت ہوا۔ خاص طور پر ٹیم رینکنگ کے حوالے سے قومی ٹیم نے تنزلی سے ترقی اور پھر تنزلی کا سفر اتنی تیزی سے طے کیا کہ نمبر ون اور نمبر ٹو کی گردان کرتی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔

    ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستانی ٹیم کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے جو کبھی بھی اور کہیں بھی بڑی سے بڑی ٹیم کو ہرا سکتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی ٹیم سے شکست کھا سکتی ہے اور کئی مواقع پر کرکٹ پنڈتوں کی یہ رائے درست ثابت ہوئی ہے۔ یہاں ہم بات کر رہے ہیں پورے سال میں پاکستان کرکٹ کو درپیش حالات کی جس نے بعض اوقات تو ایسی تیزی سے رنگ بدلے کہ گرگٹ بھی پریشان ہو گیا ہو گا۔

    یہ سال ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی بدترین بلکہ شرمناک کارکردگی، میگا ایونٹ کے دوران کرپشن اسکینڈل، کرکٹ بورڈ اور منیجمنٹ میں کئی بار توڑ پھوڑ کے حوالے سے ذہنوں میں محفوظ رہے گا۔ اس سال پاکستانی کرکٹرز اپنی کارکردگی سے زیادہ اپنی شادیوں کے حوالے سے موضوع بحث رہے اور آدھی ٹیم کنواروں سے شادی شدہ کھلاڑیوں میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی نے پاکستان کا نام روشن کیا لیکن بطور ٹیم یونٹ ایسی کارکردگی سامنے نہ آسکی جو پاکستان کرکٹ کے لیے یادگار ثابت ہوتی۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم نے 2023 کا آغاز نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ کی ہوم سیریز ڈرا اور ون ڈے سیریز ہارنے سے کیا تو آسٹریلیا میں سال کا اختتام بھی شکست کے ساتھ ہی کیا یوں ٹیم نے سال کے آغاز اور انجام تفریق کو روا نہ رکھا بلکہ ہار کی یکسانیت کو برقرار رکھا۔ قومی ٹیم کو میدان میں تین ماہ سے پے در پے اتنی شکستیں ہو چکی ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ گلے کا ہار بن گئی ہیں یا پھر جونک کی طرح چمٹ گئی ہیں کہ کھلاڑی کوششوں کے باوجود ٹیم کو شکستوں کے بھنور سے نکال نہیں پا رہے ہیں۔

    بابر اعظم کے ہاتھ سے تو کپتانی ورلڈ کپ میں ٹیم کی شرمناک کارکردگی کے بعد گئی لیکن کپتانی کی آنکھ مچولی کا یہ کھیل تو سال کے آغاز پر ہی ہوگیا تھا جب نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی ہوم سیریز ڈرا ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد ہی قومی ٹیم میں کپتانی کے تنازع نے سر اٹھایا اور حسب روایت افواہوں کا زور چل گیا تھا۔ پی سی بی نے افغانستان کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی ہوم سیریز کے لیے بابر اعظم کی جگہ شاداب خان کے کاندھوں پر قیادت کی ذمے داری ڈالی وہ تو اپنے پہلے اسائنمنٹ میں بری طرح ناکام رہے اور افغانستان نے پہلی بار گرین شرٹس کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز جیت کر تاریخ رقم کر کے پاکستان کرکٹ پر شرمناک شکست کا داغ لگا دیا، اگر نیتجہ اس کے الٹ ہوتا تو شاید بابر کو کپتانی کا بوجھ سال کے آخر تک نہ اٹھانا پڑتا۔

    پاکستان نے اس سال نیوزی لینڈ کو پانچ ون ڈے میچوں کی ہوم سیریز میں چار صفر سے شکست دے کر جہاں 12 سال بعد سیریز جیتنے میں کامیابی حاصل کی وہیں سری لنکا کو ٹیسٹ سیریز اور افغانستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش کیا لیکن ان کامیابیوں کے بعد ناکامی کی ایسی ہوا چلی کہ پھر ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں تاریخ کی شرمناک کارکردگی سامنے آئی جس نے پہلے کی کامیابیوں کو گہنا کر رکھ دیا۔

    سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز جیت کر پاکستان جہاں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ 2025 کے سائیکل کے پوائنٹس ٹیبل میں ٹاپ ٹیم بنی وہیں ون ڈے کی بھی آئی سی سی نمبر ایک ٹیم بنی لیکن یہی پوزیشن پاکستان کرکٹ کے لیے سارا سال مذاق بنی رہی کیونکہ یہ پوزیشن مستحکم رہنے کے بجائے پنڈولم کی طرح جھولتی رہی اور ہر چند دن بعد پوزیشن بدلتی رہی۔

    نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی رینکنگ پنڈولم کی طرح جھولتی رہی اگر اس کو روٹھی محبوبہ سے تعبیر کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ یہ بالکل محبوبہ کی طرح کبھی روٹھتی اور کبھی مانتی رہی۔ سیریز کے آغاز سے قبل گرین شرٹس آئی سی سی ٹیم رینکنگ میں تیسرے نمبر پر تھی۔ مسلسل چوتھا میچ جیت کر ون ڈے کی نمبر ایک ٹیم بنی۔ آخری میچ جیت نہ قومی ٹیم نہ صرف نیوزی لینڈ کی بی ٹیم کے خلاف کلین سوئپ کر سکتی تھی بلکہ نمبر ون پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکتی تھی تاہم یہ موقع آخری میچ ہار کر گنوا دیا گیا اور آسٹریلیا ایک بار پھر نمبر ون ٹیم بن گیا۔

    اگلے ماہ پاکستان نے سری لنکا میں افغانستان کو تین ایک روزہ میچوں میں وائٹ واش کر کے آئی سی سی رینکنگ میں پھر نمبر ون پوزیشن حاصل کی لیکن یہ اعزاز صرف دو ہفتے کا مہمان ثابت ہوا کیونکہ آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو مسلسل دو ون ڈے میچز ہرا کر اپنی پہلی پوزیشن دوبارہ چھین لی لیکن قسمت ایک بار پھر مہربان ہوئی کہ جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو ون ڈے سیریز کے آخری میچ میں شکست دے دی۔ یوں پاکستان ٹیم جو اپنی ناقص کارکردگی کے باعث تیسرے نمبر پر آ چکی تھی وہ چند روز بعد دوبارہ نمبر ون بن گئی لیکن ورلڈ کپ سے قبل نمبر ون پوزیشن کی یہ محبوبہ پاکستان کے دیرینہ رقیب بھارت کے پاس چلی گئی اور ہم نے اس سال کا اختتام چوتھی محبوبہ مطلب چوتھی پوزیشن پر کیا ہے۔

    ٹیم کی مجموعی کارکردگی کے برعکس کھلاڑیوں نے کئی انفرادی ریکارڈز اپنے نام کیے۔ سابق کپتان بابر اعظم نے کئی قومی اور بین الاقوامی ریکارڈ بنائے۔ آئی سی سی رینکنگ میں مسلسل ڈیڑھ سال سے زائد عرصے تک نمبر ون بیٹر رہنے کے بعد نومبر میں تنزلی کا شکار ہوکر دوسرے نمبر پر پہنچ گئے تھے تاہم سال جاتے جاتے انہیں واپس نمبر ایک پوزیشن واپس دلا کر جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شاہین شاہ نے ٹیسٹ میں 100 وکٹوں کا سنگ میل عبور کیا۔ نوجوان بیٹر سعود شکیل نے ڈبل سنچری اسکور کر کے سری لنکن سر زمین پر ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی کرکٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کلین سوئپ کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکن سر زمین پر سب سے کامیاب ٹیم بھی بنی گئی جس نے اب تک پانچ ٹیسٹ سیریز آئی لینڈرز کی سر زمین پر جیت لی ہیں جب کہ دنیا کی دیگر بڑی ٹیمیں اس حوالے سے قومی ٹیم کے پیچھے ہیں جس میں آسٹریلیا اور انگلینڈ چار چار، بھارت تین جب کہ جنوبی افریقہ دو سیریز جیتا ہے۔ پاکستان نے اسی سال 500 ون ڈے میچز جیتنے والی دنیا کی تیسری ٹیم بننے کا اعزاز بھی پایا۔

    ایشیا کپ کا میزبان پاکستان تھا لیکن بھارت نے کیا گُل کھلائے اور سازشوں سے کس طرح اس ایونٹ کو ہائی جیک کیا یہ بات پرانی ہو چکی اب تو بھارت کی نظریں 2025 میں پاکستان کو ملنے والی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی سے محروم کرنے پر ہیں اور اس کے لیے بی سی سی آئی نے درپردہ سازشیں شروع بھی کر دی ہیں جب کہ انڈین میڈیا اس کو ہوا دے رہا ہے۔ اگر پی سی بی نے پہلے کی طرح روایتی تساہل پسندی کا مظاہرہ کیا تو یہ پاکستان کرکٹ کے حق میں برا فال ثابت ہو سکتی ہے۔

    پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں تبدیلی روایت بن چکی ہے۔ 2023 شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی پی سی بی میں رمیز راجا کی جگہ نجم سیٹھی لے چکے تھے لیکن چند ماہ بعد اس کرسی پر ذکا اشرف آ گئے لیکن ان کی پوزیشن بھی مستحکم نہیں ہے فروری میں الیکشن کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کے قیام کے بعد ان کی تبدلی کی افواہیں ابھی سے گونج رہی ہیں۔ دوسری جانب وطن ورلڈ کپ کے بعد قیادت سمیت پوری ٹیم منیجمنٹ ہی تبدیل ہو چکی ہے اب نتائج کیا تبدیل ہوتے ہیں اس کا انتظار ہے۔

    سال 2023 میں کئی کرکٹرز نے کرکٹ کے میدانوں کو بطور کھلاڑی خیرباد کہہ دیا فاسٹ بولرز سہیل تنویر، وہاب ریاض، سہیل خان، آل راؤنڈر عماد وسیم، بیٹر اسد شفیق نے مستعفی ہوکر انٹرنیشنل کرکٹ سے رخصتی لے لی۔ ان میں وہاب ریاض جو پنجاب کی نگراں حکومت میں مشیر کھیل بھی ہیں کو چیف سلیکٹر کا عہدہ مل چکا ہے۔ سہیل تنویر کو جونیئر کرکٹ میں ذمے داریاں مل گئیں اوراسد شفیق کو بھی ٹیم منیجمنٹ میں اہم عہدے کی پیشکش کی گئی ہے جب کہ عماد وسیم نے بورڈ کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ قومی ویمن کرکٹر ناہیدہ وسیم نے بھی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔

    اگر اس سال کرکٹ کے میدانوں سے کوئی حقیقی خوشی آئی تو وہ خواتین کرکٹرز کی مرہون منت رہی۔ دنیائے کرکٹ میں پاکستان مینز ٹیم تو معروف اور خطرناک سمجھی جاتی ہے لیکن ویمنز ٹیم اپنی سابقہ کارکردگی کی بدولت وہ مقام نہیں پا سکی جو مینز ٹیم کا ہے لیکن سال 2023 اس لیے یادگار رہا کہ پاکستانی خواتین نے اپنے سے دو بڑی ٹیموں کے خلاف سیریز جیت کر تاریخ رقم کی۔

    ویمنز ٹیم نے پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کلین سوئٹ کر کے تاریخ رقم کی تاہم ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم کو پروٹیز کے خلاف دو ایک سے شکست ہوئی۔ سال کے آخر میں پاکستان ویمنز ٹیم نے نیوزی لینڈ جا کر کیویز کو ان کے ہی دیس میں ہرایا اور پہلی بار بیرون ملک کوئی سیریز جیتی۔ پاکستان ویمنز ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دو ایک سے کامیابی حاصل کی جب کہ تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلی ہے۔ قومی خواتین ٹیم گو کہ کیویز سے ون ڈے سیریز دو ایک سے ہار گئیں لیکن مقابلے کانٹے کے ہوئے۔

  • بلاول بھٹو کی سیاسی انکلز سے فرمائش، ہدف کون ہے؟

    بلاول بھٹو کی سیاسی انکلز سے فرمائش، ہدف کون ہے؟

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی سیاست کا ایک متحرک اور نوجوان چہرہ ہیں جن کی شعلہ بیانی نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے. پچھلے دنوں انہوں نے اپنے’سیاسی انکلز ‘ کو مخاطب کرکے میدانِ سیاست خالی کرنے کی فرمائش کردی جس کے بعد چہار جانب،بالخصوص ن لیگ اور پی پی کے درمیان شکوہ جواب شکوہ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔

    بلاول بھٹو نے گزشتہ دنوں چترال میں پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب میں جو مطالبہ کیا اس کی توقع شایدکسی کو نہیں تھی۔ اس مطالبے سے ایسا لگا کہ ملکی سیاست میں ایک طوفان آ گیا ہو۔ 35 سالہ نوجوان سیاست دان نے کہا کہ بزرگ پرانی سیاست کر رہے ہیں بلکہ سیاست کے بجائے ذاتی دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اس سیاست نے ملک تباہ کر دیا ہے۔ آج میں مطالبہ کر رہا ہوں کہ پرانے سیاست دان (انکلز) سیاست چھوڑ دیں اور یہ میرا ہی نہیں بلکہ ملک کے نوجوانوں کا مطالبہ ہے، جو پورے پاکستان کی آبادی کا 70 فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سیاسی انکلز کو مشورہ دیا کہ وہ گھر بیٹھیں یا مدرسے میں بیٹھیں اور ہمیں کام کرنے دیں۔

    بلاول بھٹو کا اپنے سینئر سیاست دانوں کو انکل کہہ کر مخاطب کرنا کوئی نئی بات نہیں. جب انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا تو سب سے پہلے بانی متحدہ اور بانی پی ٹی آئی کو چچا اور انکل کے لقب سے مخٌاطب کیا تھا. لیکن اب اپنے سینئر اور بزرگ سیاست دانوں کو یوں مخاطب کرنا اور سیاسی میدان چھوڑ دینے کا مطالبہ بلاول کے سیاسی سفر کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش نظر آ رہا ہے۔ پی پی کے نوجوان چیئرمین کے اس مطالبہ کو کئی روز گزر چکے ہیں لیکن یہ اتنی بار دہرایا جاچکا ہے کہ اس کی دھول اب تک نہیں بیٹھی ہے. ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں ایک دنگل نوجوان اور بزرگ سیاست دانوں کے درمیان بھی ہوسکتاہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ بلاول اس فرمائش کے بعد فرحت اللہ بابر نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا. تاہم بلاول نے جس راستے پر نظریں جمائی ہیں، وہاں ہنوز خاموشی ہے.

    یوں تو پی پی چیئرمین کے سیاسی انکلز کی تعداد خاصی ہے لیکن اس وقت تو سیاسی میدان میں تو صرف دو تین ہی نظر آ رہے ہیں۔ ایک سیاسی انکل بانی متحدہ تو کئی سالوں کی پابندی کی وجہ سے ملکی سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں جب کہ بلاول کے ایک سیاسی چچا بانی پی ٹی آئی بھی اس وقت جیل میں ہیں۔ ان کی تصویر، حتیٰ کہ نام لکھنے اور لینے پر بھی پابندی ہے اور جس طرح کے حالات چل رہے ہیں تو لگتا ہے کہ کچھ دیدہ و نادیدہ قوتیں انہیں سیاست سے ہمیشہ کے لیے آؤٹ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی میدان میں صرف سیاسی طور پر فعال صرف تین انکلز ہی رہ جاتے ہیں جن میں ایک نواز شریف، دوسرے ان کے بھائی شہباز شریف اور پھر پی ڈی ایم سربراہ فضل الرحمان اور ہاں ایک اور انتہائی زیرک سیاستدان آصف زرداری ہیں لیکن نشانہ کون ہوا یہ کوئی بہت مشکل سوال نہیں ہے۔

    بلاول نے پی ڈی ایم حکومت میں شہباز شریف کے زیر سایہ وزارت خارجہ کی ذمے داریاں نبھانے کے بعد جس طرح حکومت ختم ہوتے ہی یو ٹرن لیا اور ن لیگ کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نشانہ ن لیگ بالخصوص نواز شریف ہیں جن پر وہ تواتر کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیاں استعمال کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے جوش دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ووٹ کو عزت دلائیں بے عزتی نہ کریں اور اسٹبلشمنٹ و انتظامیہ کے سہارے تلاشنے کے بجائے اپنے منشور پر الیکشن لڑیں لیکن چیئرمین پی پی پی کو یہ بھی ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ جتنی ان کی پوری عمر ہے اس سے کہیں زیادہ نواز شریف کا سیاسی تجربہ ہے۔

    ان کی اس فرمائش پر سب سے پہلے تو مولانا فضل الرحمان ہی بول پڑے اور کہہ دیا کہ بلاول نے یہ بیان اپنے والد کے لیے دیا ہے۔ گو کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اس فرمائش پر براہ راست تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ن لیگ کی سیکنڈ لائن قیادت نے ترکی بہ ترکی اس کا جواب دے ڈالا جس کے بعد پی پی کی جانب سے یہ بیان آنا کہ ’آصف زرداری موجودہ سینیئر سیاستدانوں میں سب سے کم عمر ہیں‘ تو پتہ چلا کہ عمر کا مقابلہ صرف خواتین نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں مرد حضرات کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔بلاول کی اس فرمائش پر نوجوان ان کے ہم خیال ہو سکتے ہیں اور مخالف سیاسی جماعتوں کے سیاستدان اس کے مخالف ہو سکتے ہیں لیکن اب پی پی چیئرمین کیا کریں گے کہ سب سے بڑی مخالفت تو خود ان کے گھر سے ہی اٹھی ہے۔

    ایک مشہور شعرہے کہ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی…. کچھ ایسا ہی بلاول بھٹو کے ساتھ ہو ا۔ باہر سے مخالفت ہوئی سو ہوئی اور اس کا جواب بھی پارٹی کے دوسرے بابوں نے دے دیا، لیکن جب خود ان کے والد ہی بیٹے کی سیاسی سوچ کے مخالف ہو گئے، تو پھر کس جیالے رہنما کی ہمت تھی کہ بلاول کی حمایت میں کچھ بولتا۔

    بلاول کے بیان کےبعد آصف زرداری نے اپنے بیٹے کو نا تجربہ کار کہتے ہوئے کہا کہ بلاول کا بزرگوں کو گھر بیٹھ کر آرام کرنے کا مشورہ بالکل غلط ہے، انہوں نے روایتی والد کی طرح کہا کہ آج کی نسل سمجھتی ہے والدین کو کچھ نہیں آتا بلکہ سب کچھ ان کو ہی آتا ہے۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ بلاول سیاست کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ان کی تربیت جاری ہے۔ اگر آصف زرداری کی اس بات سے اتفاق کر لیا جائے تو پھر یہ سوال تو اٹھانا واجب ہو جاتا ہے کہ جب بلاول نا تجربہ کار ہے اور سیاست کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہوئے تو پھر پیپلز پارٹی نے انہیں اگلے وزیراعظم کے لیے کیوں نامزد کیا ہے اور پہلے سے مختلف مسائل میں گھرے ملک کو کیوں ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

    دوسری جانب زرداری کے اس بیان کے بعد پی پی میں اختلافات اور باپ بیٹوں کی سوچ اور رائے میں تضاد کی خبریں گرم ہونے لگیں پھر جتنے منہ اتنی ہی باتیں بھی کی جانے لگیں کسی نے دونوں کے اچانک دبئی جانے کو اسی اختلافات کو ختم کرانے کا بہانہ قرار دیا اور کہا کہ زرداری نے بختاور بھٹو کو دونوں میں صلح کرانے کے لیے بیچ میں ڈالا ہے، خیر اب تو وہ واپس بھی آچکے ہیں اور شاید ایک پیج پر بھی آ گئے ہیں لیکن اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے کیا بلاول اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹتے ہیں یا زرداری اپنے اکلوتے صاحبزادے کی سوچ کے قائل ہو جاتے ہیں۔

    ایک بات اور اگر بزرگ سیاستدان اپنے سیاسی بھتیجے کی فرمائش پر سیاسی میدان چھوڑ دیتے ہیں تو پھر فارغ وقت میں وہ کیا کریں گے۔ اس کا گرچہ بلاول بھٹو نے اپنے فرمائشی بیان کے ساتھ ہی حل بھی بتا دیا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھیں یا پھر مدرسے میں۔ اب مدرسے میں ایک سیاسی انکل تو بیٹھ سکتے ہیں باقی گھر بیٹھ کر مشورہ ڈاٹ کام پر کوئی کنسلٹنٹسی کمپنی بنا لیں کہ نوجوان بھلے کتنے ہی آگے بڑھ جائیں انہیں ہر میدان میں بزرگوں کے مشوروں کی ضرورت رہتی ہے. وہ کہتے ہیں نا کہ سو سنار کی اور ایک لوہار کی تو بزرگ لوہار کی ضرب کا کردار ادا کر کے باہر بیٹھ کر نوجوانوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔