Tag: ریحان خان کا بلاگ

  • کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان المبارک کے دوران غریب عوام میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے اور بظاہر یہ منصوبہ خوش آئند ہے لیکن اسے صرف دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود رکھا گیا ہے جس نے حکومت کے اس غریب پرور منصوبے کو مشکوک بنا دیا ہے۔

    گزشتہ دنوں اجلاس میں وزیراعظم نے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں رمضان پیکیج کے تحت غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں میں مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے ایک لاکھ 85 ہزار مستحق خاندان بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے اور اس اسکیم میں خیبرپختونخوا کے عوام کو بھی شامل کیا گیا۔

    یہ اسکیم صرف دو صوبوں کے لیے ہے جب کہ سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان کے عوام کو مہنگا آٹا ہی خریدنا پڑے گا۔ ہماری نظر میں وفاقی حکومت کی یہ ‘غریب پروری’ ناقابل فہم ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ شہباز شریف پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا کے؟ اس کے ساتھ ہی اس فیصلے میں‌ پوشیدہ سیاسی مفاد بھی اس سارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔

    یوں تو ملک میں غربت اتنی ہے کہ بلا تفریق سب کو ہی مفت آٹے کی یہ سہولت ملنی چاہیے، لیکن سب سے پہلے کون اس کا حق دار ہوتا ہے، اس کے لیے منصوبہ بندی کمیشن کی پاکستان میں غربت سے متعلق یہ رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں جو پورے پاکستان میں غربت کی مجموعی شرح تو 38.8 فیصد بتاتی ہے لیکن اس میں ملک کے صوبوں میں علیحدہ علیحدہ غربت کی شرح بھی بتائی گئی ہے، اس کے مطابق پاکستان کا سب سے غریب صوبہ بلوچستان ہے جہاں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے، خیبرپختونخوا میں یہ تناسب 49.2 فیصد، گلگت بلتستان 43.2، سندھ 43.1 فیصد جب کہ پنجاب میں یہ شرح 31.4 فیصد ہے۔

    غربت کسی بھی صوبے میں ہو غریب پاکستانی ہی ہے، لیکن یہ رپورٹ چشم کشا ہی نہیں یہ بھی بتا رہی ہے کہ اگر غربت کی بنیاد پر کوئی کام کرنا ہے تو کون سا صوبہ سب سے پہلے مفت آٹے کا حق دار ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ اس طرح کے فیصلے صوبوں اور ان کے عوام کے درمیان احساس محرومی بھی پیدا کرتے ہیں اور ایسے اقدامات سے زخم خوردہ عوام کی اشک شوئی نہیں ہوتی بلکہ ان کے زخم رسنے لگتے ہیں۔
    اس وقت پاکستان میں سب سے مہنگا آٹا کراچی کے شہری خرید رہے ہیں اور یہ کوئی سنی سنائی اور بے پَر کی بات نہیں بلکہ شہباز حکومت کے ماتحت وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر قائد کے باسی اس وقت 155 روپے کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں کے بعد بلوچستان کے شہری مہنگا ترین آٹا خرید رہے ہیں لیکن افسوس ان دو صوبوں کے عوام ہی مفت آٹے کی سہولت سے محروم رہ گئے جب کہ اسی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سوائے چند ایک شہر چھوڑ کر باقی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آٹا 60 سے 70 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔

    ملکی اداروں کی ان رپورٹوں نے تو سب کی آنکھیں کھول دی ہیں لیکن شاید حکومت کی آنکھیں بند ہیں یا وہ حقائق سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ روز نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گویا متوسط طبقہ تو ختم ہی کردیا ہے۔ اب اس ملک میں دو ہی طبقے رہ گئے ہیں، ایک وہ جو امیر ترین ہے اور اسے تمام سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں جب کہ دوسرا غریب جو بنیادی ضروریات، بھوک مٹانے کے لیے دو وقت کی روٹی، بیماری میں مناسب علاج سے بھی محروم ہے۔

    سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے بجائے اگر حقیقت کا سامنا کریں تو آج ہر طرف بھوک اور افلاس برہنہ رقص کرتی نظر آئے گی اور اس کے سائے میں کہیں والدین اپنے بچّوں کو بیچتے نظر آئیں گے تو کہیں بنتِ حوا کی چادر میلی کرنے کی کوششں نظر آئے گی۔ اور کہیں تو حالات کا جبر اتنا ہے کہ ماں باپ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کے حوالے کر کے خود بھی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ایسی دل سوختہ خبریں ہم آئے دن مختلف اخبارات اور نیوز چینلوں پر دیکھ رہے ہیں۔

    چلیں، دو صوبوں کے عوام کی خاطر باقی صوبوں کے عوام صبر کر بھی لیں تو حکومت مفت آٹا تقسیم کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی تو بنائے۔ پنجاب میں مفت آٹے کی تقسیم کے ابتدائی تین روز کے دوران بدنظمی اس قدر ہوئی ہے کہ آٹا لینے کے لیے آنے والے زخم لے کر خالی ہاتھ گھروں کو واپس گئے جب کہ تین ضعیف افراد مفت آٹے کی خاطر موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت مفت آٹا اسکیم کو ختم ہی کر رہی ہے۔

    ابھی مفت آٹے کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے غریب عوام کو پٹرول 50 سے 100 روپے لیٹر سستا فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کردیا لیکن اس پر کب سے عمل کیا جائے گا اس کا ہنوز اعلان نہیں کیا ہے۔ لگتا ہے کہ دو صوبوں میں جو الیکشن ہونا تھے، اس سے قبل یہ سب عوام کو رجھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

    ویسے حکومت نے سستا پٹرول اسکیم کے جو خدوخال بتائے ہیں اس سے یہ ریلیف کم اور مذاق زیادہ لگتا ہے۔ وزیر پٹرولیم مصدق ملک کے مطابق موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے فی لیٹر 50 روپے ریلیف دینے کی تجویز ہے جس کے مطابق موٹر سائیکل سوار ماہانہ 21 لیٹر اور رکشا یا چھوٹی گاڑیاں 30 لیٹر تک پٹرول رعایتی قیمت پر حاصل کرسکیں گی۔ اگر اس کو ریلیف دینا کہتے ہیں تو اس کی مثال تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی ہوگی کیونکہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف موٹر سائیکل سوار کا روزمرہ کام کاج نمٹانے میں دو ڈھائی لیٹر پٹرول کم از کم خرچ ہوتا ہے جب کہ رکشا تو ایسی عوامی سواری ہے جس میں شاید یومیہ 30 لیٹر پٹرول کھپتا ہو۔ تو کیا اس کو ریلیف دینا کہا جائے گا یا مذاق؟

    اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ ملک کی لگ بھگ 50 فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو بڑی پبلک ٹرانسپورٹ بسوں، منی بسوں اور کوچز میں سفر کرتی ہے۔ حکومت کے مجوزہ ریلیف پیکیج میں اس ٹرانسپورٹ کو شامل ہی نہیں کیا گیا تو اسے کیسے مکمل عوامی ریلیف قرار دیا جا سکتا ہے۔

    حکومت سے یہی استدعا ہے کہ اگر وہ عوام سے مخلص اور ان کی ہمدرد ہونے کے دعوؤں میں سچی ہے تو ریلیف کے نام پر لیپا پوتی کرکے وقت گزارنے کے بجائے حقیقی معنوں میں ان کی امداد کرے اور ایسا ریلیف دے کہ غربت کے مارے عوام کی داد رسی ہوسکے۔ یہ خود موجودہ حکومت کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ جلد یا بدیر الیکشن تو ہونے ہیں اور یہ معرکہ وہی جیت سکتا ہے جو خود کو عملی طور پر عوام کا ہمدرد اور غم گسار ثابت کرے گا۔

  • توشہ  خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    توشہ خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    ملکی سیاست میں توشہ خانہ کی بازگشت ایک سال سے سنائی دے رہی ہے. اس کے ساتھ ہم ‘گھڑی چور’ کا شور بھی سن رہے تھے، مگر کیا ان شور مچانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں؟ جی نہیں۔

    توشہ خانے کا22 سالہ ریکارڈ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ یہ ریکارڈ پبلک ہوا تو عوام نے جانا کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ توشہ خانہ وہ جگہ ہے جہاں سرکاری شخصیات کو ملنے والے تحائف جمع کرائے جاتے ہیں۔ سربراہانِ وقت، اعلیٰ عہدے داروں اور سرکاری شخصیات کو بیرون ملک یا پاکستان میں جو تحائف دیے جاتے ہیں، وہ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ سرکاری حیثیت میں دیے جاتے ہیں، اس لیے انہیں‌ سرکار کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور توشہ خانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔ اس توشہ خانے کے کچھ اصول، ضابطے اور قوانین ہیں جن کے مطابق کسی بھی تحفے کی اصل مالیت کا کچھ فیصد دے کر تحفہ وصول کرنے والی شخصیت اس کی مالک بن سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس تحفے کو نیلام کرکے اس سے حاصل کردہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان میں توشہ خانے سے تحائف کو نیلام کرنے کی نوبت کم ہی آئی ہے۔ زیادہ تر تحائف کو برسر اقتدار اور بااختیار افراد، جن میں بیورو کریٹس، عوامی نمائندے اور سیاسی شخصیات شامل ہیں ،انھوں نے اپنی ملکیت بنایا، اور اس کے لیے اصل قیمت کا کچھ فیصد ادا کرنے کے قانون کا سہارا لیا. ان میں سے اکثر تو تحائف کو مفت ہی میں اپنے گھر لے گئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کسی بھی تحفے کی اصل قیمت کا تعین کیبنٹ ڈویژن مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں ذاتی فائدے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی اصول اور قاعدے پر مفاد کو ترجیح دی جاتی ہو یہ سب مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی طے پاتا ہے؟ عوام کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال برسرِ اقتدار آنے والی نئی حکومت نے حسبِ روایت سابق حکم رانوں پر کئی الزامات لگائے جن میں‌ شہباز شریف اور اتحادیوں نے زیادہ زور توشہ خانہ پر لگایا اور سب سے زیادہ شور ’’گھڑی چور‘‘ کا مچایا۔ اس معاملے نے اس حد تک طول پکڑا کہ گزشتہ سال ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے نااہل بھی قرار دے دیا جس کو حکومتی اتحاد نے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ جب کہ اسی حوالے سے ایک کیس اسلام آباد کی عدالت میں بھی زیرسماعت ہے اور اسی پس منظر کے ساتھ گزشتہ کئی روز سے لاہور کی فضاؤں میں ہنگامہ برپا ہے۔

    پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی زیرقیادت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے ہی وہ تنقید کی زد میں ہے۔ تاہم اس حکومت نے توشہ خانے کا ریکارڈ پبلک کرنے کا وہ کارنامہ انجام دیا جو اس سے قبل کوئی حکومت انجام نہ دے سکی۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے اور بعض رپورٹوں کے مطابق بھی اس ریکارڈ میں بعض باتیں مخفی اور کچھ مبہم ہیں تاہم اس کا کریڈٹ شہباز حکومت کو ضرور دینا چاہیے۔

    یوں تو گاہے گاہے توشہ خانہ عام کرنے کی آواز مختلف ادوار میں اٹھائی جاتی رہی ہے مگر اس پر شد و مد کے ساتھ آواز گزشتہ سال شہید صحافی ارشد شریف نے اٹھائی تھی. اس کے بعد نوجوان وکیل ابو ذر نیازی ایڈووکیٹ یہ معاملہ عدالت میں لے گئے اور عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کی تفصیلات عام کرنے کاحکم جاری ہوا تو حکومت نے گزشتہ 2 دہائیوں کے تحائف اور ان سے متعلق تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں۔ توشہ خانے کا یہ ریکارڈ 2002 سے 2023 تک کا ہے جو 466 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ریکارڈ کے بعدتو ملکی سیاست میں ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کی گردان ختم سمجھیے کیونکہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔

    اس رپورٹ کے مطابق سابق اور موجودہ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، اراکین پارلیمنٹ، وزرائے اعلیٰ، بیورو کریٹس، حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسران سمیت کون نہیں ہے جو اس سے مستفید نہیں ہوا۔ وہ بھی جو خود کو صادق و امین کہتے نہیں تھکتے اور وہ بھی جو گھڑی چور گھڑی چور کی رٹ لگائے ہوئے ہیں بلکہ گھڑی چور کا شور مچانے والوں نے تو توشہ خانے سے کئی اور بعض نے درجنوں کے حساب سے گھڑیاں حاصل کیں۔

    توشہ خانے کی رپورٹ پر نظر ڈالیں‌ تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے 2022 کے دوران سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف، آصف علی زرداری، ممنون حسین، موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، میر ظفر اللہ جمالی کے علاوہ اسحاق ڈار، خواجہ آصف، شیخ رشید، چوہدری پرویز الہٰی سمیت کئی نام ہیں جنہوں نے سرکاری تحائف کو معمولی رقم کے عوض یا مفت میں ذاتی ملکیت بنایا۔

    ایسے میں سینیٹ اراکین نے توشہ خانہ کے تحائف کی مزید تفصیلات مانگ لی ہیں اور 1988 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت یہ ہمّت کر لیتی ہے تو مزید نام سامنے آجائیں گے۔

    حالیہ فہرست میں کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے ان تحائف سے نہ صرف اپنے گھر بھرے بلکہ اپنی اولادوں کو نوازنے کے ساتھ دریا دلی دکھاتے ہوئے اپنے مہمانوں کو بھی قیمتی تحائف معمولی رقم کی ادائیگی پر دلوائے۔ ایسے نام بھی سامنے آئے جنہوں نے آج تک کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں کیا لیکن وہ بھی ‘مالِ غنیمت’ کے حق دار ٹھہرے۔ ذاتی ملازمین، ذاتی معالج، وزیراعظم کے آفس کے ملازمین کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

    توشہ خانہ سے فیض اٹھانے والوں کے ناموں کی فہرست کے ساتھ اس ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتہائی مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں، قیمتی گھڑیاں، ہیرے جواہرات، طلائی زیورات، انمول اور شاہکار تو ایک طرف توشہ خانہ کو ذاتی خانہ بنانے والوں نے گلدان، سیاہی، پین، بیڈ شیٹ، ڈنر سیٹ، اسکارف، کارپٹ، گلاس سیٹ، گلدان، پینٹنگ، مجسمے، پرس، ہینڈ بیگز، تسبیح، کف لنکس، صراحی، پیالے، خنجر، چاکلیٹ، خشک میوہ جات کے پیکٹ، انناس کے باکس، شہد، خالی جار، کافی اور قہوہ دان، کپڑے، پرفیومز، دسترخوان، بھینس اور اس کے بچّے کو بھی نہیں چھوڑا۔

    توشہ خانہ قوانین کے سیکشن 11 کے مطابق تحفے میں والے نوادر اور شاہکار اشیا یا گاڑی کو کوئی بھی اپنے پاس رکھنے یا لینے کا مجاز نہیں ہے۔ انٹیک آئٹم میوزیم یا سرکاری عمارات میں رکھے جائیں گے اور گاڑیوں کو کیبنٹ ڈویژن کے کار پول میں رکھا جائے گا لیکن ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے دو انتہائی قیمتی گاڑیاں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تین بلٹ پروف مہنگی ترین گاڑیاں اصل قیمت سے کہیں کم قیمت دے کر اپنی ملکیت بنا لیں جب کہ نادر و نایاب فن پاروں کی اکثریت کسی میوزیم یا سرکاری عمارت کے بجائے بڑی شخصیات کے گھروں پر سجائی گئیں۔

    ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ گھڑیوں کے سب ہی شوقین نکلے۔ چند ماہ سے جن شخصیات نے سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کا شور ڈالا ہوا تھا وہی ایک نہیں کئی کئی بلکہ بعض تو درجنوں کے حساب سے توشہ خانہ سے گھڑیاں لینے والے نکلے۔ اب یہ گھڑیاں ان کے پاس ہیں۔ فروخت کیں یا کسی اور کو دے دیں۔مستقبل میں اس حوالے سے سوالات ضرورکھڑے ہوسکتے ہیں.

    گھڑی چور، گھڑی چور کا شور مچانے والوں میں سے جن لوگوں نے خود گھڑیاں حاصل کیں ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور ان کا خاندان، آصف زرداری، مریم اورنگزیب اور ان کی والدہ سابق ایم این اے طاہرہ اورنگزیب، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، موجودہ چیئرمین نیب، خواجہ آصف، کئی دیگر ن لیگی اور پی پی پی راہ نما شامل ہیں جب کہ طویل فہرست میں چند صحافیوں کے نام بھی موجود ہیں۔

    توشہ خانہ کی فہرست جاری ہونے کے بعد تنقید شروع ہوئی تو اس کا زور توڑنے کے لیے وفاقی حکومت نے توشہ خانہ پالیسی 2023 جاری کرکے اس کا فوری نفاذ بھی کر دیا جس کے تحت اب توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی ہوگی اور صدر، وزیراعظم، کابینہ اراکین اور دیگر حکومتی نمائندے سب اس کے پابند ہیں۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف ریاست کی ملکیت ہوں گے اور نیلامِ عام کے ذریعے عوام بھی اسے خرید سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ملکی و غیر ملکی شخصیات سے نقد رقم بطور تحفہ لینے پر بھی پابندی ہو گی۔ اگر تحفے کی صورت میں مجبوراً نقد رقم وصول کرنا پڑے تو یہ فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سونے اور چاندی کے سکّے اسٹیٹ بینک کے حوالے کیے جائیں گے۔ توشہ خانہ پالیسی کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

    یہ پالیسی اعلان خوش کن ہے جس کے مطابق اب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں، زیورات، گھڑیاں و دیگر قیمتی تحائف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے لیکن اس پالیسی میں سوائے 300 ڈالر مالیت کی حد بندی کے علاوہ نیا کیا ہے؟ جو پہلے سے توشہ خانہ قوانین میں موجود نہیں تھا۔ یہاں مسئلہ قانون یا پالیسی بنانے کا نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں قانون تو بنتے رہتے ہیں لیکن اس کا اطلاق برسر اقتدار شخصیات اور بااختیار افراد پر نہیں ہوتا یا کم ہی ہوتا ہے۔ اگر توشہ خانہ کے قوانین پر عملدرآمد ہو رہا ہوتا تو قیمتی بلٹ پروف گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف اپنی ملکیت میں نہ لیتے کیونکہ اس حوالے سے توشہ خانہ قانون کا سیکشن 11 بہت واضح ہے۔ رہی بات توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی تو گاڑیاں لے کر سابق صدر اور سابق وزیراعظم پہلے ہی اس قانون کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں اور کیا موجودہ شہباز حکومت ان کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کرنے کی ہمّت کرے گی۔

    جو لوگ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق مفت یا کم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف ذاتی ملکیت بناتے رہے اور اس پر قوانین کا حوالہ دیتے رہے ہیں ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے مفتیانِ کرام کا جاری کردہ فتویٰ کافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مطابق توشہ خانہ سے کم قیمت پر اشیا خریدنا جائز نہیں کیوں کہ یہ تحائف ملک اور قوم کی امانت ہیں، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ حکومتی ذمے داروں کا ان تحائف کو مفت یا کچھ رقم دے کر اپنی ملکیت میں لینا جائز نہیں۔ علما نے فتویٰ جاری کرنے کے ساتھ حل اور ایک تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگر سربراہان اور عہدے داران ان تحائف کو اپنی ملکیت میں لانا چاہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کی پوری قیمت ادا کی جائے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ ان تحائف کو نیلام کیا جائے اور نیلامی میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہو، اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کروایا جائے کیوں کہ یہ تحائف ریاست کی ملکیت ہیں۔

    آخر میں ہم سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ نقل کررہے ہیں، جو زندگی کا نوحہ ہے، اُس زندگی کا جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جارہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں. اُس زندگی کا نوحہ جسے پاکستان کے کروڑوں بدن دریدہ عوام گھیسٹے چلے جارہے ہیں ۔ اور یہ نوحہ مفادپرستی اور من مانی کی روشنائی کے ساتھ طاقت و اختیار ، شاہانہ کرّوفر اور امارت کے قلم سے لکھا گیا ہے!

    اس پوسٹ کے الفاظ ہیں: ’’کاش ملک کے غریبوں کے لیے بھی کوئی ایسا توشہ خانہ ہوتا جہاں‌ سے وہ 150 روپے کلو والا آٹا 15 روپے کلو، 200 روپے کلو والی پیاز 20 روپے کلو اور 1000 روپے کلو والا گوشت 100 روپے میں خرید سکتا۔‘‘

    اس پوسٹ پر کچھ لوگوں کا تبصرہ تھا کہ یہ الفاظ اربابِ اختیار کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ واقعی، ہم میں سے اکثر لوگ اچھے خاصے خوش گمان ہیں۔ البتہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غالب نے یہ شعر اس بے حس معاشرے کی بے ضمیر اشرافیہ کے لیے ہی کہا تھا،

    کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

  • الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی صفوں میں اضطراب اور پیمرا کی پھرتیاں

    الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی صفوں میں اضطراب اور پیمرا کی پھرتیاں

    پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں الیکشن کرانے کے عدالتی حکم کے بعد لگتا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی ہلچل میں کچھ کمی آئے گی، لیکن اس فیصلے سے جہاں حکومتی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا وہیں حکومتی ایما پر پیمرا کی پھرتیوں کے نتیجے میں پہلے عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی اور پھر اچانک اے آر وائی نیوز کی ‘زباں بندی’ نے حکومت کی بوکھلاہٹ کو عیاں کر دیا ہے۔ گزشتہ سال بھی پیمرا کی جانب سے دو مرتبہ اے آر وائی نیوز کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

    ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود نگراں حکومت کی جانب سے الیکشن شیڈول جاری نہ کرنے اور اس سے متعلق حکومتی حلقوں کے بیانات کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں ایک قسم کی بے چینی نظر آرہی تھی۔ سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور لارجر بینچ بنا کر سماعت کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دیا جس کے بعد الیکشن کمیشن بھی حرکت میں آیا اور صدر مملکت کو مجوزہ تاریخوں پر مبنی خط لکھ ڈالا۔ صدر علوی نے بھی دیر نہ لگائی اور پنجاب میں الیکشن کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دے دی۔

    ان سارے واقعات کے دوران ایوان اقتدار میں براجمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی صفوں میں تھرتھلی مچی رہی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پی ڈی ایم کے بڑوں کی بیٹھک میں پیپلز پارٹی تو نئے الیکشن پر تیار نظر آئی لیکن حسب سابق ن لیگ اور جے یو آئی (ف) ملک کی اس آئینی ضرورت سے ہنوز بھاگنے پر متفق دکھائی دیے۔ یوں کہا جائے کہ پی ڈی ایم میں الیکشن پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کی وجہ بھی سامنے ہے اور وہ ہے پی ڈی ایم کی انتہا کو چھوتی عدم مقبولیت۔ اگر کوئی اسے غیر منطقی بات سمجھتا ہے تو موجودہ حکومت کے بعد ہونے والے 37 قومی اور صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لے جن میں 30 نشستیں پاکستان تحریک انصاف نے 11 جماعتوں کا تن تنہا مقابلہ کرتے ہوئے جیتی ہیں جب کہ ایک کے ضمنی الیکشن پر اس نے بائیکاٹ کیا تھا۔ 

    اُدھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو صرف چند گھنٹوں میں ڈالر راکٹ کی رفتار کی تیزی سے بڑھتی قیمت نے بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا کیونکہ اپوزیشن سمیت کئی حلقوں سے یہ آوازیں مسلسل اٹھ رہی ہیں کہ موجودہ حکومت الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ معاشی ابتری کو جواز بنا کر ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ اور اسی بنیاد پر الیکشن کو مؤخر کرنا چاہتی ہے۔ ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں کچھ کہا تو نہیں جاسکتا لیکن صرف چند گھنٹوں کے اندر 18 روپے سے بڑھتے ہوئے ڈالر کا 285 روپے سے تجاوز کر جانے پر بعض حلقوں نے تعجب کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی آوازیں سنائی دیں کہ الیکشن کا التوا چاہنے والے خفیہ ہاتھ سرگرم ہوگئے ہیں۔

    دوسری جانب صدر سے تاریخ کی منظوری کے بعد ابھی الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کرنا ہی تھا کہ قدرے پُرسکون ہوتے سیاست کے سمندر میں عمران خان کی گرفتاری کا شوشہ چھوڑ کر ایک تلاطم برپا کر دیا گیا۔ اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے لیے زمان پارک لاہور آئی اور یہ معاملہ کئی گھنٹے تک ملکی سیاست کا محور رہا۔ اس دوران آن گراؤنڈ پولیس اور اس کے اعلیٰ حکام کے متضاد بیانات نے بھی عوام کو الجھائے رکھا۔ بعد ازاں سخت عوامی ردعمل کے خدشات کے پیش نظر پولیس سابق وزیراعظم کو گرفتار تو نہ کرسکی تاہم اسی شام پیمرا نے پہلے عمران خان کی تقاریر اور بیانات میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کی اور اس کے کچھ دیر بعد ہی ملک کے سب سے مقبول چینل اے آر وائی نیوز کا لائسنس ایک بار پھر معطل کر دیا گیا اور صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس فیصلے سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ سچ کو سامنے لانے اور عوام کو حقائق بتانے پر دوسروں کے ساتھ بھی یہی ہوسکتا ہے۔

    پیمرا کے اس اقدام کو پاکستان میں جمہوری اور عوام کے سنجیدہ و باشعور حلقوں نے ناپسند کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

    اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آزاد میڈیا ہمارے کسی بھی حکمراں کو کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور ہمارے حکمراں سچ سننے، دیکھنے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہے ہیں۔ جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے صحافت کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟

    یوں تو اس حوالے سے تمام حکمراں ہی اپنا اپنا ماضی رکھتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے کئی فیصلے اور اقدامات ایسے ہیں جن کو سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور باشعور عوام ایک قسم کی انتقامی کارروائی اور اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ 

    اس وقت ملک میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہے۔ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن بار  اقتدار میں آتے ہی انتقامی کارروائی کی روایت دہرانے لگی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت میں میڈیا گروپس اور انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جو کل شب ہوا ہے وہ 11 ماہ کے مختصر عرصے میں مختلف انداز سے کئی بار ہوچکا ہے۔ بالخصوص اے آر وائی نیوز سے ن لیگ کی ناراضی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مریم نواز ایک پریس کانفرنس میں اے آر وائی نیوز کا مائیک ہٹا کر اپنے غیر جمہوری رویے کا اظہار کرچکی ہیں اور ن لیگ کے کئی رہنماؤں کی جانب سے متعدد مواقع پر اے آر وائی نیوز کے رپورٹر نامناسب رویہ کا سامنا کرچکے ہیں۔ اس سے قبل بھی میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں اے آر وائی کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب کہ موجودہ حکومت نے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کے انتہائی اقدام سے اے آر وائی سے وابستہ 4 ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں۔

    حکومت کے اس من مانے اقدام کی صرف ملکی صحافتی اداروں نے ہی نہیں بین الاقوامی صحافتی تنظیموں، ملکی سیاسی جماعتوں، حکومت کے اتحادیوں اور مختلف مکتبِ فکر کے افراد نے بھی مذمت کی ہے۔

    برسر اقتدار آنے کے بعد اتحادی حکومت نے شاید ہی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہو مگر عوام پر مہنگائی کے بم ضرور گرائے ہیں۔ ایک جانب مریم نواز اور ن لیگ کے لیڈران یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے مقبول جماعت اور ہر شخص ن لیگ کے ٹکٹ کا خواہشمند ہے، دوسری طرف مختلف تاویلات گھڑ کر الیکشن سے فرار کی راہیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔

    پاکستان میں ضیا کا دور اقتدار ہو یا مشرف دور صحافت کو پابندیوں اور صحافیوں کو جبر اور جیلوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا اور ن لیگ کی اتحادی حکومت بھی اپنے اقدامات کی وجہ سے صحافتی اداروں اور صحافیوں کو ان کے اظہار رائے کے حق اور آزادی سے محروم کررہی ہے، مگر حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ایسے اقدامات کرنے والے حکمراں تو ایوان اقتدار سے رخصت ہوگئے لیکن وہ ادارے قائم رہے اور ان حکمرانوں کا ہر ایسا فیصلہ تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر رقم ہوا۔ 

  • منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    صدرِ مملکت نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں پر مشتمل منی بجٹ (فنانس سپلیمنٹری بل 2013) کی منظوری دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی پہلے سے مہنگائی کی چکّی میں پستے ہوئے عوام مزید بوجھ تلےدب گئےہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کا بچت پروگرام بھی پیش کیا ہے جس میں وفاقی کابینہ کے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے سمیت کئی خوش کن اعلانات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اعلانات منی بجٹ کے عوام پر پڑنے والے اثرات کو کم کرسکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔

    وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو 4 سال بیمار رہنے کے بعد بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اچانک صحت یاب ہو کر وطن واپس آئے تھے، یہاں ان کے اقدامات سے عوام کی نبض ڈوبنے لگی ہے۔ وزیر خزانہ کبھی کبھی ٹی وی پر آتے ہیں اور جب بھی آتے ہیں عوام کے لیے ان کی تقریر اور کوئی اعلان بھیانک خواب ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ہی گزشتہ ہفتے بھی ہوا۔ انہوں نے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 المعروف منی بجٹ پیش کیا جس کے ذریعے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا راستہ نکالا گیا ہے۔

    غریب اور منہگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے اس بار نئے بوجھ تلے عوام کو یوں دبایا ہے کہ ان میں درد سے کراہنے کی سکت بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس منی بجٹ پر صدر مملکت کے منظوری نے گویا عوام کے زندہ درگور کیے جانے کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔

    دوسری طرف منی بجٹ پیش ہوتے ہی اپوزیشن اور عوامی سطح پر کیا خود حکومتی حلقوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور ن لیگ کے اندر اپنے ہی وزیر خزانہ کو ہٹانے کے مطالبات کی گونج سنائی دینے لگی۔ اسی دوران ملکی اور سوشل میڈیا پر حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور مراعات پر بھی انگلی اٹھائی جانے لگی۔ یہ اس کا اثر تھا یا کچھ اور کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کی بچت کا پروگرام پیش کیا، لیکن کیا اس پر واقعی عمل بھی کیا جائے گا؟ ماضی میں‌ بھی حکومتیں ایسے اعلانات کرتی رہی ہیں، مگر ان کے ایوانِ اقتدار سے جانے کے بعد عوام کے سامنے آیا کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی اور تمام اعلانات دھوکا اور فریب تھے۔

    گزشتہ ادوار کے ان اعلانات سے قطع نظر شہباز شریف کی حالیہ پریس کانفرنس میں جو بظاہر امید افزا باتیں‌ کی گئی ہیں، ان کے مطابق وفاقی وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے۔ جب کہ بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ کابینہ اراکین سے لگژری گاڑیاں واپس لینے اور انہیں نیلام کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزرا کے معاون عملے کو بیرون ملک ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام ممنوع جب کہ اندرون ملک سفر اکانومی کلاس میں کیا جائے گا۔ ناگزیر ہو تو سرکاری افسران بیرون ملک دوروں میں‌ شامل ہوں گے۔ تمام وزارتوں، محکموں اور ذیلی اداروں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی۔ جون 2024 تک تمام پرتعیش اشیا، ہر قسم کی نئی گاڑیوں کی خریداری اور کابینہ اراکین پر لگژری گاڑی استعمال کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین یا حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں ہوگا، دو سال تک کوئی نیا شعبہ نہیں بنایا جائے گا، سرکاری تقریبات میں سنگل ڈش پر اکتفا کیا جائے گا، تاہم غیر ملکی مہمانوں کی شرکت کی صورت میں یہ پابندی نہیں ہوگی۔

    وزیراعظم نے گرمیوں میں بجلی اور گیس کی بچت کیلیے سرکاری دفاتر صبح ساڑھے 7 بجے کھولنے کا فیصلہ، مارکیٹیں رات ساڑھے 8 بجے تک بند نہ کرنے پر ان کی بجلی منقطع کرنے، بینظر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافے سمیت کئی دیگر اعلانات بھی کیے۔ یہ سب اعلانات قابلِ ذکر ہیں‌ مگر کیا 170 ارب روپے کے بجٹ کی صورت گرائے گئے مہنگائی کے ایٹم بم کے اثرات سے غریب عوام بچ سکیں‌ گے اور انہیں کوئی ریلیف ملے گا؟ اس کا رد تو خود وزیراعظم کے اپنی پریس کانفرنس میں ادا کردہ ان جملوں سے ہورہا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ’’غربت میں یقیناً اضافہ ہوا ہے جب کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے پر یقیناً مہنگائی ہوگی کیونکہ جو شرائط طے کی ہیں ان کو بھی پورا کرنا ہے۔ غریب عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیکسز بڑی کمپنیوں پر لگائے گئے ہیں۔‘‘

    حکومت کا یہی کہنا ہے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا گیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جی ایس ٹی جو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے کیا وہ غریب ادا نہیں کرتا؟ وزیراعظم کے غریب پر بوجھ نہ ڈالنے والی بات کے غبارے سے ہوا تو ایف بی آر کی وہ دستاویز ہی نکال دیتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون کون سی اشیاء ہیں جو مہنگی ہوں گی، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس فہرست میں ایسی کیا چیز رہ گئی جو مہنگی نہیں ہوگی۔ ٹیکس کی کوئی بھی شکل ہو اور وہ کسی بھی نام سے ہو اور کسی بھی پر عائد کیا جائے، اس کا بوجھ ہمیشہ عوام ہی پر پڑتا ہے۔

    دستاویز کے مطابق اس منی بجٹ کی منظوری اور اطلاق کے بعد کولڈ ڈرنکس، مشروبات، ڈبہ پیک فروٹ جوسز، شوگر فری جوسز، ڈبہ پیک دیگر اشیا میں خوردنی تیل، بسکٹ، جام، جیلی، نوڈلز، بچوں کے کھلونے، سگریٹ، چاکلیٹ، ٹافیاں، خواتین کے میک اَپ کا سامان، شیمپو، کریم، لوشن، صابن، ٹوتھ پیسٹ، ہیئر کلر، ہیئر جیل، شیونگ فوم، شیونگ جیل، شیونگ کریم اور شیونگ بلیڈز تک کے دام بڑھ جائیں‌ گے۔ کیا یہ سب اشیا ملک کے غریب عوام استعمال نہیں کرتے یا یہ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی ہی ضرورت ہے؟

    شادی ہالز اور ہوٹلوں پر ایڈوانس ٹیکس لگا ہے۔ اس کی وصولی شادی ہال مالکان صارفین سے ہی کریں گے اور ان میں اکثریت متوسط طبقے کی ہو گی۔ موبائل فونز پر ٹیکس بڑھنے سے بھی غریب ہی متاثر ہوں گے۔ اسٹیل کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کے بعد ملک میں تعمیراتی صنعت جو پہلے ہی برے حال میں تھی، اس پر مزید برا اثر پڑے گا۔ سیمنٹ پر فی کلو ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے دعوے کو لمحہ بھر کے لیے درست مانا جائے تو سوال تو اٹھے گا کہ ملک میں کیا صرف امرا کے بنگلے اور کوٹھیاں بنتے ہیں؟ کیا غریب ایک دو کمرے کے گھر اور فلیٹ نہیں بناتے؟

    اس منی بجٹ کے ساتھ ہی گیس کی قیمتوں میں 16 سے 113 فیصد اضافے تک کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا ہے جب کہ بجلی کی قیمتیں بھی مرحلہ وار بڑھائی جائیں گی۔ یہ تو گرانی کے وہ منفی اثرات ہیں جو عوام مستقل برداشت کریں گے جب کہ آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہر سطح پر ہونے والی مہنگائی، بجلی کے بلوں میں ہر ماہ کبھی فیول تو کبھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھاری وصولی کا سلسلہ تو جاری ہی رہتا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق حکومتی نااہلی اور کوتاہیوں کا بوجھ عوام برداشت کریں‌ گے۔

    اکثر ماہرینِ معیشت یہ کہتے نظر آرہے ہیں‌ کہ پاکستان اس وقت ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور اگر وفاقی وزیر دفاع کے بیان پر یقین کیا جائے جو انہوں نے سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران دیا تو ’’پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔‘‘ اس بیان کی وضاحت وزیر خارجہ کو بیرون ملک یہ کہہ کر کرنی پڑی کہ پاکستان کے دیوالیہ کرجانے کا وزیر دفاع کا بیان سیاسی بیان ہے۔ بہرحال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ جانے والا پاکستان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ رکھتا ہے جب کہ معاشی طور پر خوشحال اور ہم سے کہیں بڑی آبادی والے ممالک کی کابینہ اراکین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔

    اس وقت ملک میں 87 رکنی وفاقی کابینہ ہے جب کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزار سے زائد اراکین ہیں۔ ان عوامی نمائندوں پر غریب عوام کی جیب سے کتنا خرچ ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس عوام کو 5 کروڑ روپے کا پڑتا ہے۔ اجلاس جاری رہنے پر ہر رکن کو روزانہ کنوینس الاؤنس 2000، ڈیلی الاؤنس کی مد میں 4800، ہاؤسنگ الاؤنس کے 2 ہزار جو یومیہ 8800 بنتے ہیں۔ فری ٹریول اس کے علاوہ ہے۔

    ایک رکن قومی اسمبلی عوام کو ماہانہ 2 لاکھ 70 ہزار میں پڑتا ہے جس میں ان ممبران کو بنیادی تنخواہ کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے، اعزازیہ 12700، سنچوری الاؤنس 5000 ، آفس مینٹیننس 8000 روپے، ٹیلیفون الاؤنس 10، ایڈہاک ریلیف کی صورت 15 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فری ٹریول ہے۔ مفت سفر کے مد تین لاکھ کے سفری واؤچر یا 90 ہزار روپے کیش بھی سالانہ دیا جاتا ہے۔ بزنس کلاس کے ہر سال ریٹرن 25 ٹکٹ بھی ان کے حلقہ انتخاب سے قریبی ایئرپورٹ سے اسلام آباد تک دیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں رہائش، 1300 کار، 300 لیٹر پٹرول ان تمام مراعات کے علاوہ، تخفیف یا والی چیزیں یہ تھیں کیونکہ پارلیمنٹ میں جو لوگ موجود ہیں وہ سب یہ افورڈ کرسکتے ہیں۔

    جب یہ اراکین پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہتے تب بھی گریڈ 22 کے سرکاری افسر کے مساوی میڈیکل سہولیات، خود اور اہلیہ کے لیے بلو پاسپورٹ بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ملک کے غریب عوام 503 ارب روپے سالانہ اشرافیہ کی پنشن کی مد میں بھی ادا کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم کے تمام خوش رنگ اور امید افزا اعلانات سر آنکھوں پر لیکن اشرافیہ کی مراعات میں‌ تخفیف یا پابندی کے لیے انہوں نے حکومت کی جانب سے کوئی پلان نہیں دیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی وہ شرائط جو غریب کا گلا گھونٹنے کے لیے ہوتی ہیں ہر دور حکومت میں انہیں‌ فوری طور پر اور من وعن تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن یہی آئی ایم ایف جب بیوروکریٹس کے اثاثہ جات پبلک کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ جس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ ہمارے ساست داں اور حکومتیں عوام کی خیر خواہ ہونے کا لاکھ دعویٰ کریں لیکن ان کی ساری ہمدردیاں اور مفادات اس ملک کی اشرافیہ کے ساتھ ہوتی ہیں، مگر یہ سسلسلہ آخر کب تک چلے گا؟

  • حکومتی اتحاد انتشاراور ن لیگ اختلافات کا شکار

    حکومتی اتحاد انتشاراور ن لیگ اختلافات کا شکار

    پاکستان کی سیاست میں‌ وقت بدلتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنا ایک روایت بن چکا ہے۔ آج ایک جانب مسلم لیگ ن میں دراڑیں گہری ہو رہی ہیں تو دوسری جانب حکومتی اتحاد پی ڈی ایم میں بھی اتحاد کا فقدان آشکار ہو چکا ہے جو مستقبل قریب میں‌ بڑی سیاسی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔

    پاکستان کی موجودہ سیاست میں ایک جانب تنہا لیکن بھرپور اپوزیشن جماعت عمران خان کی ہے تو دوسری جانب 12 جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ہے اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی صورت میں ان کی حکم رانی ہے۔ لیکن جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے تب سے بڑھتی مہنگائی اور سہولیات کی فراہمی میں ناکامی، ذاتی مفاد میں فیصلے اور ریلیف کے حصول کے لیے اقدامات سے اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے جس کا ثبوت بعض غیر جانب دار سروے رپورٹس اور ایک سال کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔

    یوں تو اس وقت پوری پی ڈی ایم ہی عمومی طور پر عوام کی ناراضی کا شکار ہے لیکن سیاسی طور پر اس وقت سب سے نازک صورتحال مسلم لیگ ن کی ہے۔ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود تمام فیصلوں کو بوجھ تنہا ن لیگ ہی اٹھا رہی ہے اور اس کا خمیازہ اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں بڑھتی غیر مقبولیت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

    گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب پی ڈی ایم حکومت بنی تو اس کی بڑی اتحادی جماعتوں نے وہ عہدے اور وزارتیں حاصل کیں جن کا عوامی معاملات بالخصوص روزمرہ کے مسائل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پی پی نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ وزات خارجہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور دیگر عہدے اور وزارتیں حاصل کیں، جب کہ جے یو آئی نے بھی وزارت مواصلات اور دیگر وزارتوں پر ہاتھ صاف کیا جب کہ ن لیگ خزانہ، داخلہ، ترقی و منصوبہ بندی، تجارت جیسی وزارتیں لے کر سب سے خسارے میں یوں رہی کہ مہنگائی ہو یا دہشتگردی یہ سب ن لیگ کے کھاتے میں جا رہا ہے۔

    حکومت پہلے ہی اپنے ہر اقدام سے ملنے والے بیک باؤنس سے پریشان تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مشکل صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ اسی پریشان کُن صورتحال میں اب ن لیگ میں اندرونی اختلافات نے اس کی قیادت کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ مسلم لیگ ن میں اب مریم نواز کی قیادت کو چیلنج اور ہوئے ان کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کیا جانے لگا ہے۔

    سیاسی حلقوں میں تو پہلے ہی یہ بازگشت ہے کہ شریف خاندان میں دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں جس کا گاہے گاہے اظہار مریم نواز بھی کرتی رہتی ہیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو سیاسی منظر سے غائب کر دیا گیا ہے اور اب یہ اطلاعات ہیں کہ ن لیگ میں تین سوچیں پنپنے لگی ہیں ایک وہ جو نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ہیں۔ دوسرے وہ جو شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کے حامی اور اس وقت حکومت میں موجود ہیں اور تیسرا پارٹی میں موجود سینیئر رہنماؤں کا وہ طبقہ جو مریم نواز کی قیادت کا بھرپور مخالف ہے۔

    مریم نواز کو جب سے مسلم لیگ ن کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنایا گیا ہے یہ اختلافات ڈرائنگ روم سے نکل کر عوام کے سامنے آچکے ہیں۔ سب سے پہلے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو نواز شریف کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں نے مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنائے جانے پر پارٹی کے سینیئر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد متعدد مواقع پر اس بات کا میڈیا میں برملا اظہار کیا کہ انہیں مریم نواز کی قیادت میں کام کرنا منظور نہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر شاہد خاقان عباسی نے مستقبل میں مریم کو ن لیگ کا صدر بنانے پر پارٹی چھوڑنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔

    صرف شاہد خاقان عباسی ہی نہیں ہیں جو مریم نواز کو پارٹی میں قائدانہ پوزیشن ملنے پر ناراض ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ سینیئر رہنماؤں کی بڑی تعداد ان کی ہم خیال ہے جو وقت آنے پر کھل کر اس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ شاہد خاقان کے بعد سینیئر رہنما اور صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر سردار مہتاب عباسی بھی خاموش نہیں رہ سکے اور اقرار کر لیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانا اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنانا بڑی غلطی تھی۔ کے پی میں ن لیگ کے خلاف سازش ہوئی۔ سردار مہتاب عباسی نے کہا کہ ن لیگ چند لوگوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ پہلے پارٹی فیصلے کرتی تھی اب صرف چند لوگ کرتے ہیں۔ مریم نواز پارٹی کی قائد کی بیٹی ہیں لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر اور جماعت کو ساتھ لے کر فیصلے کیے جائیں تو پارٹی کیلئے بھی اچھا ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ سوال بھی اٹھا دیا کہ جس پارٹی میں شخصیات کی بنیاد پر معاملات چلائیں گے وہ ملک کیسے چلائے گی؟

    مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا میں بھی اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے ترجمان اور سابق رکن اسمبلی اختیار ولی نے ن لیگ کے وزرا کو مغرور قرار دیا ہے اور کہا کہ وفاقی وزرا مسلم لیگ ن کو پنجاب کے چند اضلاع تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔

    نظریاتی اختلافات اب صرف پارٹی کے اندر اور خاندان سے باہر ہی نہیں رہے بلکہ خاندان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مریم کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر بھی پارٹی فیصلوں پر اپنی قیادت پر برس پڑے ہیں ۔ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ن لیگ کے غیر جمہوری رویوں اور پارٹی میں گروہ بندی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جس کے بعد اطلاعات ہیں کہ مریم نواز نے اپنے شوہر سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے ان پر پارٹی پالیسی سے متعلق بیانات دینے پر پابندی لگا دی ہے۔

    چدہدری نثار جو نواز شریف کے کئی دہائیوں تک دست راست رہے انہوں نے بھی مریم نواز کو پارٹی میں سینیئر لیڈر شپ سے زیادہ اہمیت دینے پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور کئی سال سے سیاسی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ حال ہی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اپنے خاندانی عزیز اسحاق ڈار کو منصب دینے کے لیے وزارت سے ہٹا کر پارٹی سے بھی سائیڈ لائن کیا گیا وہ پارٹی رہنماؤں میں پیدا ہونے والی بے چینی کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔

    مریم نواز گو کہ شاہد خاقان عباسی کو اپنا بڑا بھائی اور ان کے اختلافات دور کرنے کے لیے بات چیت کرنے کا عندیہ دے چکی ہیں تاہم یہ صرف بیانات اور کارکنوں کو مطمئن کرنے کی زبانی کوشش کہا جا سکتا ہے کیونکہ شاہد خاقان پہلے ہی مریم نواز کی قیادت کو تسلیم نہ کرنے کا واضح اعلان کرچکے ہیں تو ان سے اب کیا بات ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب اس ساری صورتحال میں پارٹی کے اصل قائد نواز شریف کی پراسرار خاموشی اور خاقان سے کوئی رابطہ نہ کرنا بھی عیاں کر رہا ہے کہ شاہد خاقان اور پارٹی قیادت کی سوچ الگ الگ ہوچکی ہے۔

    ادھر وفاقی حکومت میں موجود 12 جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) بھی انتشار کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد پہلے مرحلے میں 16 مارچ کو ملک بھر کے 33 حلقوں میں ضمنی الیکشن کے اعلان پر پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اس میں حصہ نہ لینے کا دوٹوک اعلان کیا تھا۔ تاہم اس اعلان کو ان کے اتحادیوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔

    پہلے ایم کیو ایم نے کراچی سے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ پھر پیپلز پارٹی نے یہ کہتے ہوئے کہ پی پی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے، مولانا فضل الرحمان کے اعلان سے انحراف کر گئی۔ حد تو یہ کہ کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تو ن لیگ کی جانب سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے گئے ہیں۔

    اس تمام صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں بننے والے اتحاد پی ڈی ایم میں سیاسی اتفاق نہیں ہے اور آئندہ عام انتخابات اب چاہے وہ قبل از وقت ہوں، مقررہ وقت پر یا پھر کچھ تاخیر سے جب بھی نئے الیکشن کا بگل بجے گا پی ڈی ایم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جائے گا اور آج ہم نوالہ و ہم پیالہ کل ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ عوام کو پھر ’’پیٹ پھاڑنے، لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے، ڈیزل پرمٹ کی آوازیں، کرپشن کے بادشاہوں کی کہانیاں‘‘ سننے کو ملنے لگیں کہ پاکستانی سیاست میں کچھ ناممکن نہیں ہے۔

  • دہشتگردی کا عفریت، مہنگائی، سیاسی دھینگا مشتی اور عوام

    دہشتگردی کا عفریت، مہنگائی، سیاسی دھینگا مشتی اور عوام

    گزشتہ دنوں پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ پولیس لائنز کی مسجد میں دوران ادائیگی نماز خودکش دھماکے میں 80 سے زائد افراد جان سے گئے جب کہ کئی زخمی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ چند سال کے دوران بھی دہشتگردی کےبڑےواقعات ہوئے لیکن پچھلے تین ماہ میں ایک بار پھر اس عفریت نے سر اٹھایا ہے اور جہاں ملک میں سیکیورٹی اداروں‌ کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں وہیں مہنگائی کے بے قابو جن اور سیاستدانوں کی دھینگا مشتی نے بھی غریب عوام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔

    پاکستان جو پہلے ہی اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ہر طرف یہ باتیں ہورہی ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے بلکہ چند معاشی ماہرین نے تو دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک تیکنیکی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے حکمراں جہاں سخت شرائط پر قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایم ایف کی منت سماجت میں لگے ہوئے ہیں، وہیں کاسہ گدائی بھی دنیا کے سامنے پھیلایا ہوا ہے جس سے قوم کا وقار ملیا میٹ ہو رہا ہے۔ ایسے میں دہشتگردی کے پھیلتے سائے نے صورتحال مزید سنگین کردی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان ملک دشمنوں کے مقابلے کے لیے یک جان ہوتے مگر روایتی مذمت کے ساتھ حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے بے سر و پا بیانات اور اقدامات نے صورتحال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔

    اپوزیشن نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے ماتحت وزارت خزانہ کی جاری کردہ ماہانہ آؤٹ لک رپورٹ میں پاکستان کا مالی خسارہ بڑھنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ظاہر کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے اور اس کے حکومتی عہدیداروں سے مذاکرات بھی شروع ہوچکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے سخت ترین مذاکرات ہیں جس کے بعد عوام پر مہنگائی شکنجہ مزید کس دیا جائے گا۔ حکومتی وزرا ایک جانب غریب عوام کو ریلیف دینے اور دوسری جانب معاشی حالات میں بہتری کے لیے عوام سے مزید مشکلات برداشت کرنے کے متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

    عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات شروع ہونے سے ایک روز قبل حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اچانک اضافے کی سلامی آئی ایم ایف کو دے چکی ہے جب کہ آنے والے دنوں میں مزید اضافے کی بازگشت عوام کے کانوں سے ٹکرا رہی ہے اور حکومتی و غیرحکومتی حلقوں کی جانب سے انہیں ایک نئے امتحان کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ لگتا ہے کہ عوام کے تن پر جو چیتھڑے رہ گئے ہیں، حکومت اب عوام سے اس کی قربانی بھی چاہتی ہے۔ کیونکہ سیاست کے حمام میں تو سب پہلے ہی ننگے ہیں۔

    یہ وہ ملک ہے جس کے حکمرانوں، سیاستدانوں، با اختیار افراد کے بیانات سن کر لگتا ہے کہ 75 سال سے ملک کسی نازک موڑ پر کھڑا ہے اور اب تک اس موڑ سے نکلنے کی اسے راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایک جانب آئی ایم ایف کے سامنے سخت شرائط پر قرض کے لیے جھولی پھیلی ہے تو دوسری جانب حکومت کا کشکول بھی دنیا بھر میں حرکت میں ہے۔ چین، سعودی عرب، یو اے ای جیسے دوست ممالک گاہے بگاہے ہمیں سہارا دیتے رہے ہیں لیکن مستقل پھیلا کشکول دوست تو کیا بھائی کو بھی برا لگتا ہے اور یہ بات ہمارے ارسطو دماغوں کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔

    پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے ملک میں ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے پھر چاہے کچھ عرصے بعد پٹرول کی قیمت کچھ کم ہوجائے لیکن مہنگائی کم نہیں ہوتی۔ ایسے میں حکومتی زعما کا رٹا رٹایا یہ بیان کہ اس کا بوجھ غریب عوام پر نہیں پڑے گا سن کر اب تو ہنسی آنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں طبقہ خود کو ہی ملک کی غریب عوام سمجھتا ہے کیونکہ اسے پٹرول، بجلی، گھر کا کرایہ، کھانا، سفر، علاج سب کچھ تو مفت ملتا ہے تو پھر اس کا بوجھ ان پر کیسے پڑ سکتا ہے۔ قسمت کے مارے تو عوام ہیں کہ وہ آٹا لائیں تو دال کی فکر ستانے لگتی ہے۔ بچے کو دوا دلا دیں تو اسکول کی فیس کا مسئلہ اس کے سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔

    ایک جانب عوام کو بنیادی ضروریات کھانے کو آٹا، پینے کو پانی، علاج کے لیے دوا میسر نہیں ہے۔ باقی ضروریات زندگی تو نہ جانے کب کی ان کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عملاً عوام سے مزید قربانی مانگنے کے بجائے حکومت خود اپنی شاہ خرچیاں ختم کرتی اور سادگی اختیار کرتی، لیکن یہ ہمارے حکمراں طبقے کی بے حسی کہہ لیں کہ عوام پر جیسے جیسے عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے حکمرانوں کی عیاشیوں کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ ایک مذاق ہی ہے کہ دنیا کے مقروض اور ڈیفالٹ کے قریب کھڑے ملک کی کابینہ سب سے بڑی ہے جس کی وزرا، مشیروں کی تعداد 75 سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ان تمام کی مراعات بھی ایسی ہیں کہ جو دیگر امیر ممالک کی اشرافیہ کی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ اس پر کمال یہ کہ جب یہ حکمراں قرض لینے یا امداد کی امید لیے کسی ملک کا دورہ بھی کرتے ہیں تو شاہی لاؤ لشکر کے ساتھ جایا کرتے ہیں جہاں ان کا قیام وطعام بھی شاہانہ ہوتا ہے اور ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی تصاویر جب قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر نشر یا پرنٹ ہوتی ہیں تو وہ عوام کے ادھڑے زخموں پر مزید نمک پاشی کرتی ہیں۔

    زیادہ دور نہ جائیں صرف موجودہ حکومت کے ابتدائی 9 ماہ ہی دیکھ لیں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ کیا وزیراعظم، کیا وزیر خارجہ، کیا اسپیکر قومی اسمبلی اور کیا دیگر وزرا کے علاوہ وزرا کی فوج ظفر موج سے باہر حکومت کے اتحادی سیاسی رہنما، سب ہی ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ چاہے عمرے کی ادائیگی جیسا قطعی ذاتی مذہبی معاملہ ہو یا پھر قطر، یو اے ای، امریکا، جنیوا امداد کے لیے دورے ہوں حکومتی لاؤ لشکر لازمی ہوتا ہے۔

    ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی کینیڈا جاتے ہیں تو قوم کے خرچے پر درجن بھر سے زائد وزرا کو فیملی کے ہمراہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں قیام وطعام ہوتا ہے، نیاگرا فال کی سیر و تفریح ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ جن کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں وہ سرکاری خرچ پر یعنی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ترکی کا کئی روزہ دورہ کرتے ہیں اور شاہانہ فیری میں سیر وتفریح کرتے ہیں۔ بے حس سیاسی رہنماؤں کی یہ تصاویر گزشتہ سال قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں اور یہ تو صرف چند بڑی مثالیں ہیں ورنہ تفصیل میں گئے تو بات کہیں کی کہیں نکل جائے گی۔ رہی بات ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی تو وہ شاید وزیر بنے ہی عوامی خرچ پر بیرون ملک دوروں کے لیے ہیں کہ 9 ماہ کی حکومت میں شاید وہ 9 ہفتے بھی ملک میں نہیں رہے ہوں گے۔

    بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان کے دو درجن سے زائد بیرونی دوروں پر غریب عوام کی خطیر رقم خرچ ہوچکی ہے لیکن قوم خوش ہوجائے کہ ان بیرونی ممالک کے دوروں کا فائدہ عوام کو ہی ہوتا ہے یہ ہم نہیں ہمارے وزیر خارجہ خود کہتے ہیں، جنہوں نے ڈیڑھ دو ماہ قبل اپنے گزشتہ دورہ امریکا میں کہا تھا کہ اگر حکومت میرے بیرون ملک دوروں کا خرچ اٹھاتی ہے تو یہ میرا حق ہے میں وزیر خارجہ ہوں اور میرے دوروں سے ملک کے عوام کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔ موصوف اب خیر سے پھر امریکا کے دورے پر ہیں اور آئندہ دو ماہ کے دوران مزید دو بار امریکا جائیں گے۔

    ملک میں سیاسی افراتفری اور سیاسی دھینگا مشتی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایک جانب اپوزیشن ہے جس نے عام انتخابات کے لیے تمام حربے استعمال کر ڈالے اور شہر شہر سڑکوں پر بھرپور احتجاج کے باوجود آرزو بر نہ آنے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں تک ختم کر دیں تو دوسری جانب حکومت اور اس کے اتحادی ہیں جو نئے الیکشن سے مسلسل بھاگ رہے ہیں۔ کبھی معاشی حالات کا بہانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی بڑھتی دہشتگردی کا بیانیہ سامنے لے آتے ہیں۔ پہلے مطالبات پر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے استعفے منظور نہیں ہوتے تھے پھر جب نئے الیکشن کی راہ ہموار کرنے اور نگراں وفاقی حکومت پر مشاورت کے لیے عمران خان نے اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا تو صرف چند دن میں ہی تحریک انصاف کے باقی 113 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے گئے جن میں سے 33 عام حلقوں پر الیکشن کمیشن 16 مارچ کو ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کرچکا ہے۔

    قومی اسمبلیوں کے 33 حلقوں پر ضمنی الیکشن کے شیڈول پر قوم کے ذہن میں یہ سوال بھی کُلبلا رہا ہے کہ جب پی ٹی آئی کے ملک بھر میں عام انتخابات کرانے کے مطالبے سے بچنے کیلیے حکومتی اتحادی اور ادارے بڑھتی دہشتگردی کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد اب تک ان صوبوں میں بھی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوسکا ہے اور دہشتگردی کو جواز بنا کر ان انتخابات کے التوا کی بھی باتیں سامنے آ رہی ہیں تو کیا دہشتگردی کا خطرہ قومی اسمبلی کے 33 حلقوں میں آئندہ ماہ شیڈول ضمنی الیکشن پر نہیں پڑے گا؟

    پھر ملک کے بدترین معاشی حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے تمام 33 حلقوں پر عمران خان کے الیکشن لڑنے کے اعلان نے ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے۔ عمران خان جو بلاشبہ ملک میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں اور گزشتہ سال اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد قومی اسمبلی کے 6 ضمنی انتخابات تنہا جیت کر اس کو ثابت بھی کردیا۔ مگر ان 6 میں سے انہوں نے ایک ہی حلقہ اپنے پاس رکھنا ہے۔ اگر چند لمحوں کے لیے یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ عمران خان ان تمام 33 حلقوں پر اپوزیشن کو ناک آؤٹ کرتے ہوئے فتح یاب ہوں گے تو وہ تمام حلقے تو اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔ انہیں ایک ہی رکھنا ہوگا اور 33 پھر خالی ہوں گے تو کچھ سوچا ہے کہ ڈیفالٹ کی بازگشت میں ملک و قوم کے ساتھ یہ سیاسی مذاق کیا رنگ لائے گا۔

    حالات کا تقاضہ ہے کہ سیاسی اختلافات رکھتے ہوئے ملک اور قوم کی بہتری اور معاشی استحکام کے لیے حکومت، اپوزیشن قومی مفاد میں تمام نہیں تو چند متفقہ نکات پر ایک پیج پر آئے جو مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کہ حکومتیں تو بنتی رہیں گی، اور اس کے لیے عوام کی خوشحالی اور پاکستان کی بقا ناگزیر ہے۔

  • پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ، کیا حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ؟

    پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ، کیا حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ؟

    ملک کے متزلزل سیاسی منظر نامے میں پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے ساتھ زبردست ہلچل پیدا ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ کر مستقبل کی پیش بندی شروع کر دی ہے۔

    گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی پاکستان تحریک انصاف کے تمام اراکین قومی اسمبلی نے 11 اپریل کو اسمبلی فورم پر ہی اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اپنے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال بھی کردیے تھے لیکن ان استعفوں کو منظور کرنے میں مسلسل لیت ولعل سے کام لیا جا رہا تھا۔ بعد ازاں جولائی میں منتخب 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے تھے جن میں 9 جنرل اور دو مخصوص نشستوں کے اراکین تھے۔ ان میں سے 7 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں سے 6 پر پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کامیابی حاصل کر کے ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا تھا۔

    پاکستان تحریک انصاف اس دوران اپنے تمام اراکین کے استعفوں کی منظوری کے لیے متعدد بار آواز بھی اٹھاتی رہی۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکٹایا گیا لیکن حکومت سمیت تمام اداروں نے پی ٹی آئی اراکین کو واپس اسمبلی میں آنے کا ہی مشورہ دیا۔ اسی دوران استعفوں کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے دباؤ بڑھانے پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ استعفے منظوری کے لیے آئین اور قانون کا طے شدہ راستہ اپنایا جائے گا۔ جب تک پی ٹی آئی اراکین انفرادی طور پر پیش ہو کر استعفوں کی تصدیق نہیں کرتے اور استعفے ہاتھ سے لکھے نہیں ہوتے تب تک استعفے منظور نہیں کیے جائیں گے۔

    گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے وفد نے اسپیکر چیمبر میں راجا پرویز اشرف سے استعفوں کی منظوری کے لیے ملاقات کی تھی تاہم اس وقت بھی اسپیکر اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے اور پی ٹی آئی کو نامراد لوٹنا پڑا تھا۔ اس تمام صورتحال میں ایسا اچانک کیا ہوا کہ برسات کی تیزی کے مثل پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کیے جانے لگے اور صرف دو روز کے وقفے سے 70 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے جن میں سے 64 جنرل نشستوں پر منتخب اراکین اور 6 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔

    اب تک جن اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں علاوہ عمران خان پی ٹی آئی کی تمام صف اوّل کی قیادت شامل ہے جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، مراد سعید، عمر ایوب، اسد قیصر، پرویز خٹک، شہریار آفریدی، علی امین گنڈاپور، نورالحق قادری، عامر محمود کیانی، مخدوم خسرو بختیار، ملیکہ بخاری، عندلیب عباس کے علاوہ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے ساتھ استقامت سے کھڑے سینیئر سیاستدان شیخ رشید بھی شامل ہیں۔ عمران خان کو اس لیے قومی اسمبلی سے باہر نہیں کیا جاسکتا کہ جس نشست پر انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اس پر تو الیکشن کمیشن نااہل قرار دے چکا جب کہ ضمنی الیکشن میں حاصل نشستوں پر استعفوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس تیزی سے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے دو روز کے دوران منظور کیے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنے کا قومی امکان ہے تو کیا استعفوں کی منظوری کے لیے اسپیکر کے بتائی گئی شرائط مکمل ہوگئیں؟ کیا تمام اراکین نے انفرادی طور پر اسپیکر کے سامنے پیش ہوکر اپنے استعفوں کی تصدیق کر دی؟ کیا جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے انہوں نے اپنے استعفے آئین اور قانون کے مطابق ہاتھ سے لکھ کر دے دیے؟ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر حکومت نے استعفوں کی منظوری پر یوٹرن کیوں لیا؟

    یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ عمران خان جب سے اقتدار سے باہر ہوئے ہیں تب سے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک فوری شفاف عام انتخابات کرائے جائیں اور عوام جس کو بھی منتخب کریں وہ حکومت سنبھالے۔ پی ڈی ایم کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں تو شاید پی ڈی ایم میں بھی اس حوالے سے سوچ واضح تھی۔ کچھ ضروری قانون سازی کرکے الیکشن کرا دیے جائیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ ایک شکست کے خوف میں تبدیل ہوکر کہیں ہوا ہوچکی ہے۔

    دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی، عوامی مسائل سے دور پی ڈی ایم حکومت کی اپنی کیسز ختم کرانے کیلیے صرف احتساب قوانین کے خاتمے میں دلچسپی اور پھر بڑے کرپشن کیسز میں ریلیف ملنا، شدید معاشی بحران اور ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ جانے کے باوجود جہازی سائز کابینہ میں مسلسل اضافہ، وزیراعظم اور وزرا کے شاہانہ غیر ملکی دورے نے جہاں پی ڈی ایم کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ وہیں عمران خان کا غیر ملکی مداخلت سے ان کی حکومت ختم کرنے کا بیانیہ عوام میں مقبولیت اختیار کرگیا جس کو حکومت کے ہی بعض اقدامات نے مزید تقویت دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 13 جماعتی اتحاد مقبولیت کے بجائے غیرمقبولیت کی انتہا کی طرف بڑھ گیا جب کہ عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

    گزرے سال کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سے خالی ہونے والی 20 صوبائی نشستوں میں سے 16 پر پی ٹی آئی کامیابی اور پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری سے قومی اسمبلی خالی 7 نشستوں میں 6 پر عمران خان کی تنہا کامیابی نے حکومتی اتحاد کی مقبولیت میں سمجھو آخری کیل ٹھونک دی۔ پی ٹی آئی نے یہ کامیابیاں پنجاب میں ن لیگ کا گڑھ کہلائے جانے والے لاہور اور ایم کیو ایم کے گڑھ کراچی میں اس صورتحال میں حاصل کیں کہ ایک جماعت کے مقابلے میں 13 جماعتوں کا ایک مشترکہ امیدوار میدان میں تھا۔

    اس تمام عرصے کے دوران پی ٹی آئی نے سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے بھی حکمران اتحاد کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔ انتخابات کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں جس کے بعد تو ملک میں عام انتخابات کا ماحول بننے لگا اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں سمیت بااختیار حلقوں میں بھی باقاعدہ نئے انتخابات کے حوالے سے غور و خوض اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور سیاسی حلقوں میں قبل از وقت اپریل میں عام انتخابات کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔

    ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی اور عام انتخابات کی افواہوں اور چہ می گوئیوں کے ماحول میں مہینوں سے استعفوں کی منظوری کے لیے زور دینے اور موجودہ اسمبلی میں واپس نہ آنے کا واضح موقف رکھنے والے پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اچانک گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا اور کہا کہ وہ سوچ رہے ہیں اسمبلیوں میں واپس جائیں تاکہ عام انتخابات کے اعلان سے قبل نگراں حکومت کا قیام پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی سے منحرف ہوکر موجودہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے پاس نہ رہے اور وہ اکثریتی اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے اس مشاورت کا حصہ بنیں۔

    عمران خان کے اس اعلان نے ہچکولے کھاتی پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے اور حکومتی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم کے اس بیان کے صرف چند گھنٹے بعد ہی پی ٹی آئی کے 35 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے اور اگلے روز الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ حکومت نے پھرتی دکھاتے ہوئے ایک روز کے وقفے کے بعد ہی پھر دوبارہ 35 اراکین کے استعفے منظور کرکے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے۔

    ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں پی ٹی آئی کی بڑھتی مقبولیت اور اپنی سیاسی ناکامیوں کا شکار پی ڈی ایم حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے کہ عام انتخابات ناگزیر ہوچکے ہیں اور سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ حکومت کی استعفوں پر یوٹرن اور پھرتیاں بھی اسی لیے ہیں کہ وہ نگراں سیٹ اپ میں پی ٹی آئی قیادت بالخصوص عمران خان سے کوئی مشاورت نہیں کرنا چاہتی ہے۔

    اس سیاسی تماشے کے دوسری جانب غربت کے پہاڑ تلے دبی وہ عوام ہے جو آٹا خریدنے کے بدلے میں موت پا رہی ہے۔ آٹا، چینی، دال، سبزی، گوشت سب اس کی دسترس سے دور ہوچکا ہے۔ دو وقت تو دور اکثریت کو ایک وقت کی روٹی بھی سکون سے دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں جب وہ سیاسی دنگل دیکھتی ہے۔ اپنے پیسے پر پرتعیش ہوٹلوں میں وزرا کا قیام و طعام، ترکی میں فیری اور نیاگرا فال کی تفریح کرتی تصاویر اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کے پاس سوائے اپنے آنسو پینے اور سرد آہ بھرنے کے کچھ نہیں ہوتا۔

    آخر میں‌ اقتدار کی لڑائی لڑنے والے سیاست دانوں کے گوش گزار یہ کرنا ہے کہ حکومت کسی زمین کے خالی ٹکڑے پر حکمرانی کرنے کا نام نہیں ہے۔ اصل حکمرانی عوام کے دلوں پر حکمرانی ہوتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے ان کو ہی دل کے تخت پر بٹھایا ہے جنہوں نے ان کے حقوق کا پاس کیا ہے۔ آج بھوک اور افلاس سے بلکتی عوام منتظر ہے کہ اقتدار کی لڑائی سے ہٹ کر کوئی ان کی جانب بھی نظر کرم کرے۔ ایسے میں سیاستدان نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈر پر لازم ہے کہ ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ملک اور مصیبت کی ماری عوام کو بچانے کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں فیصلے کریں تاکہ تاریخ میں ان کا بھی اچھے الفاظ میں ذکر ہوسکے۔

  • 2022: ملکی سیاست میں یوٹرن اور بدتہذیبی  کا سال!

    2022: ملکی سیاست میں یوٹرن اور بدتہذیبی کا سال!

    پاکستان کی سیاست میں یہ سال انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔اسے سیاسی افق پر انہونیوں، یوٹرنز اور اخلاقی قدروں کے زوال کا سال کہا جاسکتا ہے۔

    2022 کا سورج طلوع ہوا تو عمران خان وزیراعظم اور شہباز شریف اپوزیشن لیڈر تھے اور اب جب یہ سال ختم ہو رہا ہے تو شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور پی ٹی آئی ایوان سے باہر، لیکن عمران خان عملاً اپوزیشن لیڈر بن گئے ہیں۔

    2022 میں ملک میں سیاسی افراتفری اور جو ہیجان انگیزی دیکھی گئی، موجودہ نسل نے شاید اس سے قبل نہ دیکھی ہو۔ یہ سال سیاسی افراط و تفریط کا شکار تو رہا لیکن اس دوران ایسے ایسے اسکینڈلز، اقدامات سامنے آئے کہ الامان الحفیظ۔ مسلسل آڈیو اور ویڈیو اسکینڈلز سے ایسا لگنے لگا کہ شرافت نے کوچۂ سیاست کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اور بدتہذیبی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ رواں برس سیاستدان ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟‘‘ پر دل و جان سے عمل پیرا نظر آئے اور ایک دوسرے پر شرمناک الزامات لگانے میں‌ بہت آگے نکل گئے۔ اس برس تحریک عدم اعتماد، توشہ خانہ ریفرنس، آڈیو ٹیپس، سیاستدانوں کی گرفتاریاں، نیب ترامیم کے بعد پی ڈی ایم رہنماؤں کو ریلیف، مقدمات کا خاتمہ، عمران خان کی مقبولیت اور عسکری قیادت کی تبدیلی کا معاملہ سیاسی منظر نامے میں نمایاں رہا۔

    ملک میں جہاں سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی کشمش جاری رہی وہیں عوام اس بات کے منتظر رہے کہ ہر وقت عوام کی فکر میں‌ ہلکان ہونے والے سیاستدان ان کے لیے بھی سوچیں گے لیکن عوام کا یہ خواب ہنوز خواب ہی ہے۔ رواں سال مہنگائی اور بیروزگاری نے ان پر عرصۂ حیات مزید تنگ کر دیا ہے۔

    اس سال کے آغاز پر سیاسی افق پر بے یقینی کے بادل چھانے لگے تھے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے عمران خان کو بھی اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کا اقتدار ڈانوا ڈول ہو رہا ہے جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں کرتے رہے۔ پھر ماضی کی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے فضل الرحمٰن کی قیادت میں گٹھ جوڑ اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان نے تمام خدشات کو درست ثابت کر دیا۔

    سال کا آغاز پی ڈی ایم رہنماؤں کے مہنگائی مکاؤ مارچ اور احتجاج سے ہوا۔ ن لیگ تو سرگرم تھی ہی، بلاول بھٹو مہنگائی مارچ لے کر کراچی سے اسلام آباد کے لیے عازم سفر ہوئے اور جب لانگ مارچ لے کر 8 مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوئے اور اسی روز متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرا دی۔ لیکن یہ کسی مذاق سے کم نہیں کہ آج جب سال اپنے اختتام پر ہے اور 13 جماعتی پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت ہے تو مہنگائی سال کے آغاز سے کئی گنا بڑھ چکی ہے اور اس کی پرواز مسلسل جاری ہے لیکن پی ڈی ایم یا ان کے سپورٹرز اس پر سیاسی بیانات تک محدودہیں جب کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کے خاتمے کے لیے کوئی موثر عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ عمران خان کو مخالفین نے مسٹر یوٹرن کا نام دیا ہے لیکن سیاسی اقدامات میں یوٹرن لینے میں پی ڈی ایم جماعتوں کے رہنما بھی پیچھے نہیں ہیں۔

    پی ڈی ایم کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد ملک بالخصوص شہر اقتدار اسلام آباد میں ہر دن سیاسی درجہ حرارت بڑھتا رہا۔ اسی ہنگامہ خیزی میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا اور یہ محض اتفاق کہ جس دن وہ روس پہنچے اسی روز روس نے یوکرین پر چڑھائی کر دی تھی، یوں غیر معمولی صورتحال میں عمران خان کا دورہ روس دنیا بھر میں موضوع بحث بھی بنا۔

    قصہ مختصر عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن جماعتوں پر امریکی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا اور اعلان کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ایک ماہ تک سیاسی جوڑ توڑ اور بیرونی دباؤ کے بعد ان کی اپنی پارٹی کے 20 اراکین منحرف ہو گئے جب کہ عمران خان کے حلیف بھی پل بھر میں حریف بن گئے اور ساڑھے تین سال تک حکومت اور وزارتوں کا مزا لینے والی ایم کیو ایم اور بی اے پی راتوں رات قبلہ تبدیل کر کے پی ڈی ایم میں شامل ہوگئیں، جس کے بعد سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔

    اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے تمام راستے بند ہوتے دیکھ کر عدم اعتماد روکنے کے لیے قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس صدر عارف علوی کو بھیجی۔ صدر مملکت نے بھی اس ایڈوائس پر عمل کرنے میں دیر نہ لگائی جس کے خلاف متحدہ اپوزیشن عدالت پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے رات گئے کھل کر اور الیکشن کمیشن نے آئندہ چند ماہ تک الیکشن کرانے سے معذوری ظاہر کر کے سابق وزیراعظم کی تمام تدابیر پر پانی پھیر دیا یوں انہیں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ناکامی کے بعد اقتدار سے محروم ہوئے تاہم جاتے جاتے وہ اسمبلیوں سے استعفے دے گئے جو سوائے 11 کے اب تک قبول نہیں ہوسکے ہیں۔

    ایسا ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرکے نیا وزیراعظم لایا گیا۔ اس سے قبل سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف تحاریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔

    اقتدار سے محرومی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور عوام میں ان کا اینٹی امریکا اور بیرونی مداخلت بیانیہ یوں سر چڑھ کر بولا اور مقبول ہوا کہ وہ ملک کے سب سے مقبول سیاسی لیڈر گردانے گئے۔ جس کا ثبوت پنجاب اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جہاں ایک طرف پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن میں 16 پر کامیابی حاصل کی وہیں کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے استعفوں سے خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن میں عمران خان نے بیک وقت 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنا ہی 5 نشستوں پر کامیابی کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ان ضمنی الیکشن میں کئی حلقے ایسے بھی تھے جو موروثی سیاست کی داعی جماعتوں کے گڑھ کہلاتے تھے وہاں بھی تحریک انصاف نے 13 جماعتی اتحاد کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔

    وفاق میں تبدیلی کیساتھ ہی تحریک انصاف کو پنجاب حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے پر حمزہ شہباز نئے وزیر اعلی ٰ پنجاب بن گئے۔ باپ کے وزیراعظم اور بیٹے کے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بننے کو سیاسی حلقوں سمیت عوامی حلقوں میں اچھے انداز میں نہیں دیکھا گیا تاہم حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ چند ماہ ہی چل سکی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ کا تاج چوہدری پرویز الٰہی کے سر سج گیا۔

    سیاسی داؤ پیچ کے جاری اس طویل میچ کے دوران عمران خان خود بھی سڑکوں پر سرگرم رہے اور عوام کو بھی متحرک رکھا۔ 25 مئی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان پورا نہ ہوسکا لیکن اکتوبر کے آخر میں حقیقی آزادی مارچ کے نام سے لانگ مارچ نکالا جو لاہور سے وزیر آباد تک پہنچا تھا کہ وہاں سابق وزیراعظم کے قافلے پر فائرنگ کی گئی جس میں خوش قسمتی سے ان کی جان محفوظ رہی تاہم وہ اور ان کے کئی ساتھی زخمی ہوئے جب کہ ایک کارکن جاں بحق ہوا۔ مرکزی ملزم گرفتار کرلیا گیا تاہم اس حوالے سے اب تک تحقیقات کے ساتھ مخالفین کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

    تین ہفتے کے وقفے کے بعد عمران خان پھر متحرک ہوئے اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی لانگ مارچ راولپنڈی پہنچا تو عمران خان نے اپنے خطاب میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا جو کہ تاحال نہیں ہوسکی ہیں۔ اس دوران پنجاب میں ایک بار پھر حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور گورنر نے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کردیا لیکن عدالت سے وزیراعلیٰ کو چند گھنٹوں میں ہی ریلیف مل گیا اور وہ اپنے عہدے پر بحال کردیے گئے۔

    شہباز شریف کی حکومت بنتے ہی ایسا لگا کہ مہنگائی اور عوام کا درد دکھاوا تھا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی 9 ماہ کی حکومت کے دوران مہنگائی کی کوکھ سے مزید کئی مہنگائیاں جنم لے چکی ہیں۔ سال بھر عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پستے رہے۔ سیلاب بھی غریبوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا لیکن سیاستدان اقتدار، اقتدار کی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ حکومتی اقدامات اور پھرتیوں سے تو عمران خان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکمراں اپنے کیسز ختم کرانے آئے تھے کیونکہ موجودہ حکومت کے کریڈٹ پر اگر کوئی نمایاں کام نظر آتا ہے تو وہ نیب قوانین میں ترامیم ہیں جس کے بعد پی ڈی ایم قیادت بالخصوص، وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، سلیمان شہباز، صفدر اعوان، اسحاق ڈٓار سمیت ایک طویل فہرست ہے جو اس سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے کیسز سے جان چھڑا چکی ہے جب کہ مریم نواز تو ریلیف ملتے ہی لندن کوچ بھی کرچکی ہیں۔

    اس سال ملک کے لیے کوئی اچھی خبر رہی ہے تو وہ پاکستان کا فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی موجودہ حکومت خود لے رہی ہے اور وزیر خارجہ تو گزشتہ دنوں امریکا میں ببانگ دہل پاکستان کے فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو اپنی انتھک محنت کا ثمر قرار دے رہے ہیں، لیکن پی ڈی ایم حکومت کو شاید یاد نہیں کہ پاکستان فٹیف کی گرے لسٹ میں ن لیگ کے دور حکومت میں گیا تھا اور فٹیف نے اس درجے سے نکالنے کے لیے جو سخت شرائط عائد کی تھیں وہ 90 فیصد سے زائد پی ٹی آئی حکومت نے پوری کیں۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ عمران دور حکومت میں فٹیف سے متعلق ایک اجلاس میں موجودہ وزیر خارجہ سمیت حکمراں جماعتوں کے رہنما بائیکاٹ کر گئے تھے۔

    سال ختم ہو رہا ہے تو صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے نئے الیکشن کے مطالبے کے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا فی الوقت قبل از وقت الیکشن کے اعلان کا کوئی موڈ نظر نہیں آتا۔ سال بھر میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد حکومت میں شامل تمام جماعتیں خود بھی فوری الیکشن سے فرار چاہتی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال کے باعث مشکل فیصلے کرنے کے لیے ملک میں طویل مدت کے لیے ٹیکنو کریٹ کی حکومت کی باتوں کی گردش سنائی دے رہی ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے؟

    حکومت کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو آج ہر طرف پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا دیوالیہ کے قریب ہونے کی صدائیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔ معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کی سرگوشیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ گیس ناپید ہوتی جا رہی ہے تو بجلی بھی رُلا رہی ہے۔ بینک ایل سیز نہیں کھول رہے، کروڑوں ڈالر کی شپمنٹس پورٹ پر پڑی سڑ رہی ہیں۔ کئی بین الاقوامی کمپنیاں کاروبار وقتی اور مستقل بند کر رہی ہیں یا سوچ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ترجیح اقتدار سے چمٹے رہنا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، گھڑی کیوں بیچی، گھڑی میری مرضی میری، فلاں کی آڈیو اور ویڈیو کی ریلیز، اسمبلیوں کی تحلیل، استعفے اور بڑھکیں مارنا رہ گیا ہے۔ حکومت آرٹیفیشل اقدامات کے طور پر کبھی توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے کاروبار جلد بند کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے لیکن کیا یہ آرٹیفیشل اقدامات غربت کے سمندر میں غرق ہونے والے عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں گے کہ جن کی دسترس سے آب آٹا بھی دور ہوگیا ہے۔

    زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر، ترسیلات زر کا انتہائی حد تک گرجانا اور افراط زر کا بڑھ جانا ملک کے سنجیدہ طبقے کو فکرمند کر رہا ہے جب کہ سال کے اختتام پر ملک میں بڑھتی دہشتگردی نے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ہم کئی خدشات اور سر پر لٹکتی خطرات کی کئی تلواروں کے ساتھ 2022 کو الوداع اور 2023 کو خوش آمدید کہیں گے۔ دعا ہے کہ ہمارا ملک اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رہے۔

  • سموسہ ہماری صحت کے لیے ایٹم بم؟ دل چسپ بحث اور قدیم تاریخ

    سموسہ ہماری صحت کے لیے ایٹم بم؟ دل چسپ بحث اور قدیم تاریخ

    سموسہ برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول ہے۔ زبان کے چٹخارے اور ذائقے کے لیے تلی ہوئی غذاؤں میں سموسہ وہ نمکین پکوان ہے جسے ہلکی پھلکی بھوک مٹانے اور اکثر چائے کے ساتھ شوق سے کھایا جاتا ہے۔

    تکونی شکل کا یہ خوش ذائقہ سموسہ کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا بوڑھا کیا جوان سب ہی کے من کو بھاتا ہے۔ اس نمکین ڈش کو مہمانوں کی آمد پر بھی چائے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب کو مرغوب سموسے کو جب سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان نے صحت کیلیے خطرہ اور ایٹم بم قرار دیا تو ایک بحث شروع ہو گئی۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عفان کی جو ‘تحقیق’ سامنے آئی، اس پر جہاں ان کی تائید کرنے والے تعداد میں کم نہ تھے، وہاں سموسے کے ایسے عاشقوں کی بھی کمی نہیں تھی جنہوں نے میمز کی بھرمار کر دی۔ کئی دل جلوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اگر سموسہ کھائے بغیر بھی مرنا ہے تو بہتر ہے کہ کھا کر مرا جائے۔ اب سموسے سے ایسے لازوال عشق کی کوئی اور مثال ملے گی؟

    ’’سموسہ‘‘ دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں تو یہ ہر چھوٹے بڑے کی پسند ہے۔ شادی کی تقریب ہو یا سالگرہ، افطار ہو یا اچانک آنے والے مہمانوں کی تواضع مقصود ہو، سموسہ ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تکون شکل کا وہ سموسہ عام ہے جسے آلو بھر کر تلا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ 90 کی دہائی کی بالی ووڈ فلم کا ایک گیت بھی سموسے پر تھا۔ آلو کے علاوہ سبزی کا آمیزہ، قیمہ اور چکن والا سموسہ بھی بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ انواع و اقسام کی چٹنیاں اس کے ذائقے کو گویا ‘تڑکا’ لگا دیتی ہیں۔

    آج ہم آپ کو اس من پسند سموسے کی صدیوں پرانی دلچسپ تاریخ سے آگاہ کریں گے۔
    پاکستان اور بھارت میں لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ سموسہ اسی خطے کی ایجاد ہے اور اس نمکین ڈش کو مقامی لوگوں نے تیار کیا اور اسے رواج دیا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان کی وجہ سے چھڑنے والی بحث نے ایک دل چسپ تکرار کو بھی جنم دیا۔ سموسے کے دیوانے پاکستانی اور بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد اس دوران خود کو ‘فادر آف سموسہ’ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن سموسہ متحدہ ہندوستان یا بٹوارے کے بعد کسی ملک کے باورچیوں کی اختراع نہیں ہے۔اس کی تاریخ ہزار سال سے بھی پرانی اور دل چسپ ہے۔

    اس پکوان نے دسویں یا گیارھویں صدی عیسوی میں وسط ایشیائی ریاستوں میں کوئی شکل پائی تھی۔ ہزار ہا برس کے تمدن اور ثقافت سے متعلق معلومات اکٹھا کرتے ہوئے محققین نے جانا کہ سموسہ وہ ڈش ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ دسویں اور تیرہویں صدی کے درمیان عرب باورچیوں کی کتابوں میں پیسٹریوں کو ‘سنبوساک’ کہا گیا ہے، جو فارسی زبان کے لفظ ‘سانبوسگ’ سے آیا ہے۔

    تاریخ پڑھیں تو سموسے کا ذکر سب سے پہلے ہندوستان سے ہزاروں میل دور قدیم سلطنتوں میں ملتا ہے۔ سب سے پہلا تذکرہ فارسی مؤرخ ابوالفصل بیہقی نے اپنی کتاب تاریخ بیہقی میں کیا۔ انھوں نے غزنوی سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا جاتا تھا۔ اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔

    وہاں سے یہ سنبوساک سفر طے کرتا برصغیر آیا اور نجانے کتنے نام اپنانے اور شکلیں بدلنے کے بعد سموسہ کہلایا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ دہلی میں مسلم سلطنت میں سموسے کو جنوبی ایشیا میں متعارف کروانے والے مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے باورچی تھے جو یہاں سلطان کے لیے کام کرنے آئے تھے۔

    مشہور سیاح ابن بطوطہ بھی سموسے کی لذت سے آشنا ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں محمد بن تغلق کے دستر خوان پر چنے گئے کھانوں اور لوازمات میں شامل سموسے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اسے قیمے اور مٹر سے بھری ہوئی پتلی پرت والی پیسٹری لکھا ہے۔
    بات کی جائے دیگر ممالک میں سموسے کی تو پاک وہند میں سموسے کو تیل میں تلا جاتا ہے تاہم وسط ایشیائی ترک بولنے والے ممالک میں اسے تیل میں تلنے کے بجائے پکایا جاتا ہے۔ جسے چھوٹی بھیڑ کے گوشت، پیاز، پنیر، کدو سے بھرا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی سموسہ تیار کیا جاتا ہے لیکن وہ ہمارے روایتی سموسوں کی طرح نہیں ہوتا اور تلنے کے بجائے بیک کیا جاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت میں نمکین ہی نہیں میٹھا سموسہ بھی کھایا جاتا ہے اور اس کا یہ ذائقہ بھی سب کو پسند ہے جسے عرف عام میں ’’گجیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کو سبزیوں کی جگہ شکر، دودھ کا ماوہ اور خشک میوہ جات سے بھرا جاتا ہے اور پھر اصلی گھی میں تل کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ڈش خوشی کی تقریبات میں خاص طور پر بنوائی جاتی ہے۔

    یہ ہندوستان میں روایتی مٹھائی کی دکانوں اور عام بیکریوں پر تیّار اور فروخت کیا جاتا ہے۔ سموسہ جو کبھی خوانچہ فروشوں اور حلوے مانڈے کی چھوٹی دکانوں پر ملتا تھا اب بالخصوص شام کے اوقات میں فاسٹ فوڈ کے مشہور مراکز پر بھی فروخت ہورہا ہے۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی اعلیٰ درجے کی بیکریاں اور نامی گرامی سوئیٹ شاپس پر بھی سموسے بڑے اہتمام سے تیّار کیے جارہے ہیں۔

    سموسہ برصغیر اسی راستے سے پہنچا جس سے 2 ہزار برس پہلے آریائی نسل کے لوگ ہندوستان پہنچے تھے۔ یہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے سے یہاں متعارف ہوا۔ سموسے کے اس طویل سفر کی کہانی کو بھارتی پروفیسر پنت نے ’سم دھرمی ڈش‘ کہہ کر سمیٹ لیا ہے، جس کا مطلب ہے تمام ثقافتوں کے سنگم والا پکوان۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج برطانیہ کے لوگ بھی سموسہ خوب شوق سے کھاتے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوا جو برصغیر سے سہانے مستقبل کا خواب سجائے برطانیہ گئے تھے۔ اس طرح ایران کے اس شاہی پکوان کا آج دنیا کے کئی ممالک میں لطف اٹھایا جا رہا ہے۔

    ہم نے سموسے کے ہر دل کی پسند ہونے کا ذاتی مشاہدہ بھی کیا جو آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ کچھ اس طرح‌ ہے کہ کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں 25 سال قبل کھانے پینے کی ایک دکان ہوتی تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں صرف تین اشیا ہوتی تھیں اور دور دور سے لوگ یہاں کھانے کے لیے آتے تھے۔ کھانے پینے کی تین چیزوں کی یہ تکون سموسہ، لسّی اور امرتی پر مشتمل تھی۔ اس ٹرائیکا کے بارے میں جان کر جہاں ہماری نئی نسل کو حیرت ہو گی، وہیں کئی قارئین ایسے بھی ہوں گے جو اس ذائقے سے آشنا ہوں گے۔

    معلوم نہیں آج یہ دکان قائم ہے یا نہیں لیکن ایک بار جب ہمارے منہ کو یہ ذائقہ لگا تو کھانے پینے کی اس بے جوڑ تکون والی دکان پر دوسرے شوقین افراد کی طرح ہم بھی کئی بار گئے تھے۔

    اب اگر بات کی جائے ڈاکٹر عفان کی جو ماہرِ امراض جگر ہیں تو ان کی بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سموسے میں کتنی کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ نقصان دہ ہے یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر زیادتی کسی بھی چیز کی ہو بری ہوتی ہے۔

    ہمارا مشورہ ہے کہ سموسے کھانا بے شک نہ چھوڑیں مگر اس میں توازن اور اعتدال ضروری ہے کہ لذّتِ کام و دہن کا سلسلہ بھی چلتا رہے اور صحت بھی برقرار رہے۔

  • غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ سیاست میں اخلاقی گراوٹ تو پہلے بھی تھی، لیکن اب یہ معاملہ ناشائستہ زبان اور نامناسب بیانات تک محدود نہیں‌ رہا بلکہ بات نازیبا اشاروں تک جا پہنچی ہے۔

    سیاسی قیادت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے لیکن آج ہماری سیاست میں جو لب و لہجہ اختیار کیا جارہا ہے اور ہمارے سیاست دان جس قسم کی سطحی زبان استعمال کرنے لگے ہیں اس کی مذمت میں‌ شرم ناک کا لفظ برتنا بھی کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تندوتیز لہجہ اختیار کرنے کے ساتھ بدزبانی اور بداخلاقی کو بھی سیاست میں نام بنانے اور توجہ حاصل کا ذریعہ تصور کیا جانے لگا ہے۔

    آج تمام مخالف جماعتیں عمران خان کو سیاست میں اخلاقی گراوٹ کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں اور ان کا اشارہ چند سال قبل دھرنے میں کنٹینر سے بلند ہونے والے "اوئے” کی جانب ہوتا ہے، لیکن کیا ملک کی سیاسی اخلاقیات کی بربادی صرف اسی ایک لفظ "اوئے” سے شروع ہوتی ہے؟ اس کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔

    قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایک موقع پر ہنگامہ آرائی بڑھی اور کرسیاں چل گئیں۔ ڈپٹی اسپیکر زخمی ہوئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی ایک دو مثالوں سے قطع نظر اسمبلیوں میں طویل تقریروں، سرکاری دعوؤں، اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں، محرومیوں اور ناانصا فیوں کی شکایتوں کی بازگشت تو ضرور معمول تھی مگر گالم گلوچ کا اس کوچے سے گزر نہیں ہوتا تھا۔

    لیکن پھر 1965 کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہر سچے اور دردمند پاکستانی کو رلا دیا۔ اس صدارتی انتخاب میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مدمقابل آئیں تو سرکاری مشینری نے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جا چکا تھا، سو مادر ملت بھی غدار قرار پائیں۔ ایوب خان نے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ بھی لیا۔

    ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔

    اسی حوالے سے ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ‘فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان’ اور اس وقت کے اخبارات کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ‘نسوانیت اور ممتا سے عاری’ خاتون قرار دیا تھا۔ یہ شاید وہ لمحہ تھا جب پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکلا لیکن پھر اس وقت ایوب کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی کیا۔ ایوب خان کی صدارتی مہم کے دوران مادر ملت سے متعلق نامناسب الفاظ کہنے کے علاوہ پاکستان کے بڑے سیاسی لیڈروں اور اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے میں پیش پیش رہے۔ یوں سیاست میں اخلاقی گراوٹ بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو لگتا ہے کہ شعلہ بیاں ہونے کے ساتھ ساتھ بداخلاقی بھی ایک سیاست دان کی خوبی گنی جاتی ہے جس پر ملک کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ گومگو کی کیفیت میں ہے کہ جو لوگ ملک اور قوم کی ترجمانی کے دعوے دار ہیں کیا وہ اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کرسکتے ہیں؟

    اس وقت کے اخبارات کا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو نے مخالف لیڈروں کو مضحکہ خیز نام دیے۔ انہوں‌ نے کسی کو ’اِچھرہ کا پوپ‘ کہا تو کسی کو ’چوہا‘ اور’ڈبل بیرل خان‘۔ 1977 کی پیپلز پارٹی اور پی این اے کی انتخابی مہم اخلاقی گراوٹ کی طرف ایک اور قدم ثابت ہوئی۔ کراچی میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو جب کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو ’آلو‘ قرار دیا گیا۔ پی این اے نے ’گنجے کے سر پر ہَل چلے گا‘ کا نعرہ لگایا۔ واضح رہے کہ اس وقت "ہل” پی این اے کا انتخابی نشان تھا۔ لیکن یہ یکطرفہ نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی مخالفین کی جانب سے بھی بھٹو اور ان کی فیملی کیلیے نامناسب زبان اور غیر اخلاقی نعرے بلند کیے گئے۔

    سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ اس وقت بھی نکلا جب ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد لگ بھگ 10 سال تک پی پی پی اور ن لیگ میں اقتدار کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ جب بینظیر بھٹو پہلی بار 1988 میں ملک کی وزیراعظم بنیں اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حکمراں ہونے کا اعزاز حاصل کیا تو ان کی اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کی تصاویر میں جعلسازی کے ذریعے اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک سمیت کیا کیا نام نہیں دیے گئے جس نے قوم کو ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہونے والی مہم کی یاد دلا دی۔

    شیخ رشید جو آج عمران خان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں 90 کی دہائی میں یہ نواز شریف کے قریب ترین رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے اس دور میں اسمبلی فلور پر بینظیر بھٹو کے بارے میں انتہائی عامیانہ الفاظ کہہ کر ان کی کردار کشی کی کوشش کی۔ آج یہی شیخ رشید بی بی شہید کے صاحبزادے بلاول بھٹو کو مضحکہ خیز نام سے پکارتے ہوئے جملے بازی کے ساتھ اپنے سابق قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی کچھ کہنے سے نہیں چوکتے۔

    90 کی دہائی میں مولانا فضل الرحمٰن نے بینظیر بھٹو کے عورت ہونے کو جواز بناکر ان کے اقتدار کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور جب انہیں بینظیر کے اگلے دور میں اقتدار میں شریک کیا گیا تو ان کی مخالف ن لیگ کی صفوں سے انہیں ڈیزل کہا جانے لگا۔

    1999 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے اور دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی میدان سے باہر ہونے پر ان دونوں جماعتوں کو کچھ عقل آئی اور سیاسی اختلافات بھلا کر 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تاہم اقتدار کی ہوس میں اس میثاق کی ساری شقوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور اس میثاق کے کچھ عرصے بعد سے گزشتہ سال تک دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان ایسی ٹھنی کہ الامان الحفیظ، ملک کا سب سے بڑا ڈاکو، زرداری سب سے بڑی بیماری، لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا، پیٹ پھاڑ کر لوٹی رقم نکالیں گے، جیسے اعلانات سرعام کیے گئے۔

    جب مشرف دور میں نجی ٹی وی چینلز کا دور آیا اور ٹاک شوز کا عروج ہوا تو پھر تو گویا سیاست نہیں خرافات رہ گئیں یاد ہوگا کہ ایک نجی ٹی وی کے مقبول ٹاک شو کے دوران اس وقت ق لیگ کابینہ کی وزیر کشمالہ طارق اور پی پی میں نئی نئی شامل فردوس عاشق اعوان کا ٹاکرا ہوا تو بات نیوز روم سے نکل کر بیڈروم تک جاپہنچی۔

    عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور شیخ رشید کی توہین یہ کہہ کر کی کہ میں تو اسے اپنا چپڑاسی بھی نہ بناؤں۔ فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کے لیے مسلسل ’راجکماری‘ اور ن لیگ کے خواتین کے لیے’ کنیزیں ‘کے القاب ایسے مختص کیے کہ آج پی ٹی آئی کے دیگر رہنما اس کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔

    اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے نواز شریف کو بھگوڑا، حمزہ شہباز کے لیے کُکڑی، شہباز شریف کو شوباز شریف اور مریم نواز کیلیے جھوٹوں کی نانی و دیگر نام اور القاب دیے گئے ہیں‌ تو خاموش ن لیگ بھی نہیں رہی اور وہاں سے عمران خان کے لیے فتنہ خان، یوٹرن خان سمیت دیگر تضحیک آمیز نام سامنے آئے۔ فضل الرحمٰن نے یہودیوں کا ایجنٹ کہہ ڈالا بعد میں ان کی اپنی پارٹی کے منحرف رہنما نے بتایا کہ مولانا نے کہا تھا کہ ان کا یہ بیان سیاسی تھا۔

    یہ تو سیاسی میدان میں سوقیانہ پن اور زبان و بیان کے برتنے میں پستی اور بداخلاقی کی چند مثالیں ہیں اگر اس قسم کی غیر اخلاقی زبان اور تضحیک آمیز بیانات کی تفصیل میں‌ جائیں‌ تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ الغرض ہمارے بعض غیر ذمے دار سیاستدانوں نے اپنی قابلِ اعتراض زبان سے معاشرے میں سیاسی کلچر کو جو پراگندہ کیا ہے اس کے برے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس سے معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص نئی نسل متاثر ہورہی ہے جس کا اندازہ آج مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سپورٹرز کے مابین ہونے والی چپقلش سے کیا جاسکتا ہے۔

    نجی چینلوں کے بعد اب سیاسی اخلاقیات کے زوال کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے جس میں سیاستدانوں کے بارے میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثر بڑی جماعتوں نے خود اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے زوال کے اس رجحان کے آگے بند کس طرح سے باندھا جائے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی مل کر اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو نہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

    یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ” ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بلکہ انسان کے کردار سے بنتی ہیں۔” افلاطون کے اس قول کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق و کردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

    ریاستیں جمہوریت سے مضبوط ہوتی ہیں اور جمہوریت میں سیاسی اختلافات ہوتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن غیرذمہ داری اور بداخلاقی اس حسن کو گہنا دیتی ہے۔ قوم سیاستدانوں کی زبان سے عرصہ دراز سے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت سنتی آرہی ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ اب سیاسی جماعتیں ملک کے سیاسی ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے بچانے کیلیے غیر مشروط طور پر آگے آئیں اور اخلاص کے ساتھ آپس میں ایک "میثاق اخلاقیات” پر دستخط کریں۔ سب سے پہلے پارٹی سربراہ خود کو اس کا پابند کرے اور پھر جو بھی اس کے خلاف جائے تو اس کی درپردہ پشت پناہی کے بجائے ایسے اقدام کیے جائیں جس سے ہمارے بارے میں ایک باوقار جمہوری ملک اور قوم کا تاثر دنیا کو جائے۔

    escort
    ataşehir escort
    kadıköy escort
    göztepe escort
    şerifali escort
    göztepe escort
    kartal escort
    maltepe escort
    pendik eskort
    anadolu yakası escort