Tag: ریحان خان کا بلاگ

  • 75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 واں جشنِ آزادی منانے کے لیے پاکستانی قوم جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ گھروں، سڑکوں، گلیوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آگئی ہے اور یہ اہتمام کیوں نہ ہو کہ آزادی کا جشن منانا کسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔

    آزادی کسی قوم کا وہ سرمایۂ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تاب ناک مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، جب کہ غلامی ایک مرض اور غیروں پر بھروسا کرنا وہ عادت ہے جو دلوں کو جوش و جذبے سے محروم اور جذبہ و امنگ سے یکسر خالی کردیتی ہے۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اسی غلامی کو آزادی میں بدلنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا تھا:

    دلِ مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
    کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ

    14 اگست 1947 اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کا نام ابھرا۔ آزادی کی یہ نعمت ہمیں قائداعظم کی قیادت اور ان کے رفقا کی شبانہ روز جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے طفیل نصیب ہوئی تھی۔ دو قومی نظریے اور ایک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا وطن جب معرضِ وجود میں آیا تو اس کے پاس مسائل زیادہ اور وسائل انتہائی کم تھے۔ لیکن مخلص قیادت نے اس وقت کے ایک ناتواں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا اور چند سال میں اسے دنیا کے ایک ایسے ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا جہاں تیزی سے صنعتی ترقی ہورہی تھی۔

    دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، اسٹیل مل، معروف فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان کا شہر کراچی بھی کبھی دنیا میں اپنی مصروف بندرگاہ کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستانی قیادت اگر امریکا جاتی تو وہاں کے حکم راں اور اعلیٰ عہدے دار خود ان کا استقبال کرتے تھے۔ یہ بات شاید کئی قارئین کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہو کہ پاکستان جرمنی سمیت متعدد ملکوں کو قرضے دیتا تھا، لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پاکستان نے ابتدائی دو عشروں میں جو ترقی کی تھی وہ اس طرح ترقیٔ معکوس ثابت ہوئی کہ قرض دینے والا یہ ملک آج خود قرضوں کے جال میں جکڑ چکا ہے اور ہمارے حکم راں کاسۂ گدائی پھیلائے ہوئے ہیں۔ ہم سے کئی برس بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک آج صنعت و حرفت میں ہم سے آگے ہیں اور اپنی معیشت کا عروج دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا میں مشہور ہونے والی اسٹیل مل معیار اور صنعت گری کے اعتبار سے ختم ہوچکی ہے۔ پی آئی اے تباہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ سب سے بڑے نہری نظام اور دنیا کے سب سے بڑے ڈیم والا ملک پانی کی قلت کے مسئلے کا سامنا کررہا ہے اور زرعی زمینیں بھی پانی سے محروم ہیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کو پہلے دہشت گردی کے عفریت نے تاریکیوں میں دھکیلا اور اب حکم رانوں کی ریشہ دوانیوں اور غفلت نے عروسُ البلاد کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند سال کے بعد جو بھی حکم راں رہے ہیں ان میں سے چند کو چھوڑ کر یا تو سب کوتاہ نظر رہے یا پھر ان کی ترجیح ملک سے زیادہ ذاتی مفاد رہا ہے۔ ہمارے اکثر حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلیے کبھی مذہب تو کبھی لسانیت اور صوبائیت کا سہارا لیا۔ ہماری خارجہ پالیسی یہ رہی کہ جس کسی کے پاس اقتدار رہا وہ سات سمندر پار امریکا سے دوستی میں تو ہر حد تک گیا لیکن ہمسایہ ممالک (ماسوائے چین) کے ساتھ تعلقات کو کوئی اہمیت نہ دی۔

    حکومتوں نے ملکی وسائل اور افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے زراعت و صنعت کو فروغ دینے کے بجائے بیرونی قرضوں کا طوق اس قوم کے گلے میں ڈالا۔ قومی صنعت کو فروغ دینے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا اور ہر موقع پر بااختیار و برسر اقتدار طبقے نے اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھا دیا۔ جاگیردار طبقے نے جان بوجھ کر تعلیم کو نظر انداز کیا تاکہ عام آدمی باشعور ہو کر ان کے اقتدار کیلیے خطرہ نہ بن سکے۔ یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی آبیاری کرنے کے بجائے تعلیم کو کمرشلائز کر کے طبقاتی تقسیم کو عروج دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو وراثت میں ڈھال کر جمہوریت کے نام پر خاندانی ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی اور اسی سیاست کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔

    ایک کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر بار بار خون میں نہلایا گیا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی صرف دو مواقع پر ایک قوم نظر آتے ہیں، ایک 14 اگست اور دوسرا کرکٹ میچ۔ وہ بھی بالخصوص بھارت سے مقابلے میں ورنہ اس کے علاوہ کہیں سندھی ہے تو کوئی پنجابی، کہیں پختون ہے، کوئی بلوچی، مہاجر اور کوئی سرائیکی ہے، اگر نہیں ہے تو پاکستانی نہیں ہے۔

    75 برس کے اس سفر میں ہم اپنا ایک بازو گنوا چکے جو اب دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے جب کہ باقی ماندہ پاکستان ہماری اپنی کوتاہیوں، ریشہ دوانیوں، رنجشوں، لسانی نفرت اور مذہبی بنیاد پر تفریق سے نڈھال اور ناتواں ہو چکا ہے جس کی ذمے داری یوں تو من حیث القوم سب پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک پر حکومت اور قوم کی قیادت کی لیکن ہمیں ایک ایسا پاکستان نہیں دے سکے جو دنیا میں ایک باوقار، حقیقی معنوں میں خود مختار اور معاشی طور پر مستحکم ہوتا۔

    یوں تو ہم کہنے کو آزاد قوم ہیں لیکن نہ ہماری معیشت آزاد ہے اور نہ ہی ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل۔ اب ہماری معاشی پالیسی ہمارے قرض خواہ ادارے ہمیں بنا کر دیتے ہیں جن پر من و عن عمل کرنا حکمران وقت کی مجبوری ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی صنعت و حرفت، تعلیم و صحت، فن و ثقافت کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کی کارکردگی کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔

    کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
    ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
    دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی

    پچھتر سال کا وطن عزیز سوال کررہا ہے کہ جس مقصد کیلیے کرہ ارض پر یہ زمین کا ٹکڑا پاکستان کے نام سے حاصل کیا گیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوگیا۔ اس بار قوم یہ جشن آزادی عدم اعتماد کی فضا میں پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کے نعروں کی بازگشت میں منا رہی ہے۔ ملی نغموں کی گونج اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار تو ہر طرف ہے، لیکن کیا صرف سال میں ایک ہی دن جھنڈے لہرانے، جھنڈیاں لگانے، قومی اور ملی نغمے گانے، ریلیاں نکالنے اور حب الوطنی پر مبنی تقاریر کرنا ہی ایک زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے؟

    وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ رک کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوگا اور قیام پاکستان سے اب تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ 75 سال کے آزادی کے اس سفر میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں باوقار انداز سے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اپنے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی قرضوں سے کس طرح نجات ممکن ہے؟ کس طرح چھوٹی چھوٹی اکائیوں کی تقسیم کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر قوم بناسکتے ہیں؟

    آج ملک کے مقتدر اور بااختیار افراد سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بحیثیت قوم سب کو سوچنا ہوگا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ ارضی حاصل کیا تھا۔

    صرف آزادی کا جشن منا لینے سے وطن کی محبّت کا حق ادا نہیں ہوتا، ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ یہ مُلک جتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد نصیب ہوا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور اس سے محبّت کریں۔ قوم، بالخصوص نوجوان نسل میں جبّ الوطنی کو فروغ دینے کے لیے حکومت وقت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور جس کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر انہیں درست سمت اور سازگار ماحول دیا جائے تو وہ اسے مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ قومیتوں، فرقوں کی تقسیم سے نکال کر ایک قوم کی لڑی میں پرویا جائے تو یہ قوت بن کر اغیار کے سامنے سرنگوں مملکت کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتے ہیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پر حقیقی معنوں میں سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایک خودمختار ملک کے طور پر جگمگا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف اور صرف اخلاص کے ساتھ جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔

    احمد ندیم قاسمی کے ایک دعائیہ کلام کے ساتھ اپنے اس بلاگ کا اختتام کرتا ہوں:

    خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
    وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
    یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
    یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
    یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
    اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
    گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
    کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
    خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
    اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
    ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
    کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
    خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
    حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

  • کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    پاکستان مسلم لیگ (ن) نے صوبۂ پنجاب اور اپنے سیاسی گڑھ لاہور میں ضمنی الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کیا اور پھر تختِ پنجاب بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں‌ تو وفاق میں بھی حکم رانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

    انتخابی نتائج اور شکست کے بعد مسلم لیگ ن کی صفوں‌ میں اختلافات اور انتشار واضح ہوتا جارہا ہے۔ سربراہ عوامی لیگ شیخ رشید کے دعوؤں کے مطابق تو ن لیگ میں سے شین اور میم نہیں‌ نکل سکیں، لیکن ایسے ہی حالات رہے تو کہیں مسلم لیگ ن بھی لندن اور پاکستان کے نام سے دو گروہوں‌ میں نہ تقسیم ہوجائے جس طرح متحدہ قومی موومنٹ کو آج ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے۔

    ن لیگ جو ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے اور مخلتف ادوار میں وفاق اور صوبۂ پنجاب کی حکم راں رہی ہے، آج سیاسی میدان میں اس حال کو کیسے پہنچی؟ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں بعض سیاسی کمزریوں اور تنظیمی معاملات میں کوتاہیوں کے علاوہ لالچ اور بے صبری جیسے عناصر کو بھی نظرانداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ بعض سنجیدہ اور باشعور حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری نے ن لیگ کو حکومت کا لالچ دے کر وہاں پہنچا دیا ہے جہاں اسے صرف اور صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    شکار کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ سیاست وہ میدان ہے جس میں شکار ایک لیکن شکاری بہت سے ہوتے ہیں، لیکن یہاں وہی کام یاب ہوتا ہے جو انتہائی زیرک ہو اور اسے شکار کو پھنسانے کے لیے بہترین چارہ استعمال کرنا بخوبی آتا ہو۔

    پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ‌ کے منصب کے لیے سیاسی کھینچا تانی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اب ملک میں سیاسی ماحول خاصا گرم ہوچکا ہے اور تلخی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت ساڑھے تین ماہ میں ہی اس دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔ دورِ عمران سے شریف تک پہنچنے میں ملک میں کیا کچھ ہوا یہ سب نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ تحریک عدم اعتماد عمران خان حکومت کے خاتمے کی بڑی وجہ بنی اور سیاسی مبصرین کے مطابق اس تحریک کی سرخیل ایک ہی جماعت پیپلز پارٹی تھی اور اس کے پیچھے صرف سابق صدر آصف علی زرداری کی ذہانت کار فرما تھی۔

    ایک وقت تھا جب آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے اور بینظیر بھٹو شہید کے شوہر کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں اترے تھے، لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد "ایک زرداری سب پر بھاری” کے مقبول نعرے نے ان کا یہ منفی تأثر زائل کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے سیاسی رابطوں‌ اور فیصلوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں مفاہمت کے بادشاہ مشہور ہوئے اور ان کی یہ شہرت تاحال برقرار ہے۔

    صوبۂ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسی لیے اسے سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد کا 50 فیصد سے زائد صوبہ پنجاب سے منتخب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہاں سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت وفاق میں اقتدار میں آئی ہے۔ یوں مرکز میں‌ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کا پنجاب میں‌ انتخابی فتح حاصل کرنا لازمی ہے۔

    ماضی میں پنجاب سے پیپلز پارٹی بھی اکثریت حاصل کرتی رہی ہے۔ یہیں پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور 1972، 1988، 1993 کے انتخابات میں پنجاب کا میدان مارنے پر ہی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔ لیکن پھر اس جماعت کی سیاست نظریات سے نکل کر مفادات کے گرد طواف کرنے لگی اور جب نظریاتی کارکن بددل ہوکر پارٹی سے دور ہوگئے تو پیپلز پارٹی کی پنجاب پر گرفت بھی کمزور ہوگئی۔ سیاسی میدان میں اس کا بڑا فائدہ ن لیگ نے اٹھایا اور پھر گزشتہ انتخابات کے نتائج دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پی پی پی کے خلا کو بالخصوص جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی نے پُر کیا ہے۔

    1972، 1988، 1993 اور 2008 میں وفاق پر حکومت کرنے والی جماعت کا حال یہ ہوا ہے کہ 1996 کے انتخابات میں پی پی پی ملک بھر میں قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں ہی حاصل کرسکی تھی۔ اس میں پی پی پی کو پنجاب سے ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست پر فتح نہیں ملی تھی۔ 2002 کے الیکشن میں اس کے حصے میں 16 نشستیں آئی تھیں۔ 2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی لیکن یہ الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد ہوئے تھے اور عمومی رائے یہ ہے کہ اس وقت پی پی پی کو ہمدردی کا ووٹ پڑا تھا۔ 2013 کے الیکشن میں پی پی پی پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے صرف 3 پر ہی کام یابی حاصل کر پائی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی یہاں سے بھٹو کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد صرف 6 رہی۔

    اب اگر ان نتائج پر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ مقتدر حلقوں کے آشیر باد کے بغیر کوئی اقتدار میں نہیں آتا اور پی پی پی کو جان بوجھ کر ان الیکشن میں کمزور کیا گیا تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کے غیر جانب دار حلقے 1970 کے الیکشن کے علاوہ تمام الیکشن کو کم یا زیادہ جھرلو ہی کہتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا اعداد وشمار جھرلو الیکشن کا نتیجہ ہیں تو جن ادوار میں پی پی پی اقتدار میں رہی وہ اقتدار بھی تو انہی جھرلو انتخابات کی مرہون منت ہیں۔

    پیپلز پارٹی صدر مملکت، وزارت عظمیٰ سے لے کر اقتدار اعلیٰ کے تمام عہدوں کا لطف اٹھا چکی ہے۔ مگر اقتدار نشہ ایسا ہے کہ جس کے منہ کو لگ جائے، وہ اس کے سرور میں رہنا پسند کرتا ہے۔ بات وہیں آجاتی ہے کہ اقتدار کی مسند تک پہنچنا ہے تو پنجاب کو فتح کرنا ہے، لیکن پنجاب پر اس وقت پی ٹی آئی اور ن لیگ کا غلبہ ہے۔ یہاں فی الحال پی پی پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی، لیکن آصف علی زرداری نے اپنے سیاسی تدبّر اور قیاس آرائیوں کے مطابق "آشیر باد” سے ایک ایسا "کھیل رچایا” جس میں ان کی کام یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے تھے۔

    پیپلز پارٹی کو اس کے لیے بیک وقت دو محاذ سر کرنے تھے۔ یعنی پنجاب سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا صفایا۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے ہٹانا اور پھر ن لیگ کو وقتی طور پر اقتدار میں لانا اسی کھیل کا حصہ تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ صرف پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ پی پی پی کی منزل نہیں تھی کیونکہ اس کا متبادل پنجاب میں ن لیگ اور اس کا ووٹ بینک تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں‌ ہو گا کہ پی پی پی کی قیادت کی خواہش رہی کہ اس بھاری ووٹ بینک کو اگر ختم نہیں تو اس حد تک کم کردیا جائے کہ پی پی پی کا راستہ صاف ہوسکے۔ دوسری طرف گزشتہ حکومت کو درپیش سخت معاشی چیلنجز کا سامنا تھا جب کہ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بیروزگاری عوام کو مارے ڈال رہی تھی۔ یہ وہ حالات تھے جس میں حکومت کی تبدیلی آسان تو تھی لیکن متبادل حکومت کے لیے ملک چلانا آسان ہرگز نہ تھا۔ آصف علی زرداری جانتے تھے کہ ان حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آکر حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا، بلکہ بدترین معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی سے اس کی سیاسی مقبولیت ختم نہیں‌ تو اس کا گراف تیزی سے نیچے ضرور جاسکتا ہے۔ یہ وقت سیاسی چال چلنے کے لیے انتہائی مناسب تھا۔

    واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پہلے ن لیگ کی مدد سے عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پھر اسمبلی کی باقی مدت کی تکمیل تک پی پی پی نے اتحادی رہتےہوئے اقتدار نواز لیگ کے حوالے کر دیا تاکہ ڈیڑھ سال میں عوام پہلے سے زیادہ مصیبت جھیل کر ن لیگ سے بھی متنفر ہوجائیں جس کے بعد اگلے عام انتخابات میں پی پی پی کو میدان صاف ملے۔

    وزارت عظمیٰ کی کرسی ہر سیاست دان کی معراج ہوتی ہے اور جب یہ یوں تھال میں رکھ کر پیش کی جائے تو کون اس پر براجمان ہونے سے انکار کرے۔ اب ن لیگ اسے نومبر میں کسی اہم تعیناتی کا خوف کہیں یا کچھ اور بہرحال اس معاشی بحران میں حکومتی ڈھول انہوں نے اپنی بھرپور رضامندی سے گلے میں ڈالا ہے اور ایک طرف جب ن لیگ کو مہنگائی اور مسائل پر عوام کے شدید غم و غصے کا سامنا ہے، وہاں مخالف سیاسی جماعتوں کے کیمپ میں شادیانے بج رہے ہیں۔

    اقتدار میں آنے کے بعد کئی بار ن لیگ کی صفوں‌ میں سے ہی فوری انتخابات کرانے کی آوازیں اٹھیں بلکہ لندن سے بھی جلد از جلد نئے الیکشن کی طرف جانے کا پیغام آیا۔ شہباز حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ شاید ن لیگ کے لیے زیادہ نقصان دہ نہیں ثابت ہوتا لیکن حکومت کو مدت پوری کرنے پر قائل کرلیا گیا جس کا نتیجہ آج ساڑھے تین ماہ میں ہی سب کے سامنے ہے۔

    آج مسلم لیگ ن کے جو حالات ہیں ان میں‌ بظاہر پی پی پی کا راستہ صاف ہوتا نظر آتا ہے، لیکن اس کھیل میں سب کچھ ن لیگ کی مخالف جماعت کی مرضی کے مطابق نہ ہوسکا۔ اس صورت حال میں پی پی پی کی قیادت کو تشویش بھی ہوگی۔ جب عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا تو پی پی پی کی قیادت کیا خود عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ گمان نہیں ہوگا کہ وہ ملک کی سیاسی تاریخ میں اقتدار کھونے کے بعد مقبولیت کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔

    اقتدار کے ایوانوں کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ پی پی پی کی قیادت چاہتی تھی کہ ن لیگ کی مشکلات بڑھنے کے بعد اگلے الیکشن میں ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنے اقتدار کو یقینی بنایا جائے اور بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرایا جائے۔ لیکن سیاست میں‌ جہاں‌ بروقت فیصلے کام یابی کے امکانات روشن کرتے ہیں‌، وہیں یہ قسمت کا بھی کھیل ہے۔

    عمران خان اس معاملے میں قسمت کے دھنی نکلے ہیں اور ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے سیاست کے میدان میں‌ فتح کے کسی بھی منصوبے کو فی الحال تو دفن کر دیا ہے۔ اگر ان حالات میں الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کے بیانیے کی جیت کے امکانات روشن ہیں اور مخالفین کا ہر خواب چکنا چور ہوتا نظر آتا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے اور سیاست میں‌ بالخصوص پاکستانی سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔

  • سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے اتوار 22 جولائی کو کراچی، حیدر آباد اور ٹھٹھہ میں پولنگ جب کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست 245 پر ضمنی انتخاب بھی 26 جولائی کو ہونا تھا جو اچانک ملتوی کر دیا گیا۔

    بلدیاتی الیکشن سے صرف تین روز قبل جب تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، رات گئے اچانک میڈیا پر بلدیاتی اور ضمنی الیکشن ملتوی کیے جانے کی خبر نشر ہوئی اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ شیڈول کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ اس نئے شیڈول کے مطابق اب این اے 245 پر ضمنی الیکشن 21 اگست جب کہ بلدیاتی الیکشن 28 اگست کو ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابات کے اچانک التوا کی وجہ متوقع بارشیں بتائی ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر دو بڑی جماعتوں پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی نے اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک التوا کی وجہ خراب موسم ہے یا پھر کچھ اور؟

    اگر متوقع بارشیں ہی اس کی اہم اور واحد وجہ ہیں تو محکمہ موسمیات سمیت دیگر ادارے تو رواں سال کے آغاز سے ہی کئی بار یاد دہانی کراچکے کہ اس سال ملک بھر بالخصوص زیریں سندھ میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ تو جب یہ پیشگوئی کئی ماہ پہلے ہی ہوچکی تھی تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ مون سون کے اس موسم میں انتخابات شیڈول کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پہلے الیکشن شیڈول کا اعلان کر کے کروڑوں روپے انتظامات پر خرچ کیے گئے اور اب صرف 3 روز قبل یہ کہہ کر ملتوی کر دیے گئے کہ بارشوں کا طوفانی اسپیل آ رہا ہے اس لیے الیکشن ممکن نہیں ہوسکیں گے۔ اس اچانک التوا سے ہی ایک رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا اور دوبارہ الیکشن کے انتظامات کے لیے الیکشن کمیشن کو تقریباً 20 کروڑ روپے اضافی خرچ کرنا پڑیں گے۔ اس موقع پر سوال تو یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ درست ہے؟

    متنازع ماحول میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن (متنازع اس لیے کہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایم کیو ایم کا ایک کیس سپریم کورٹ میں ہے اور اس کا موقف ہے کہ حلقہ بندیاں درست کیے بغیر بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جائیں، تاہم اس درخواست کے باوجود ایم کیو ایم انتخابی میدان میں موجود ہے) ان حالات میں ہو رہے تھے کہ جب شہر قائد حالیہ برساتوں کے بعد تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بارشوں کے ایک ہی اسپیل نے عروس البلاد کہلانے والے شہر کی رونقیں ایسی اجاڑیں کہ سڑکیں جو پہلے ہی خستہ حال تھیں اب کھنڈر کا نمونہ پیش کررہی ہیں۔ نکاسی آب کے ناقص نظام نے اس برسات میں قیمتی جانوں سمیت شہریوں کی قیمتی املاک بھی تباہ کیں۔

    جب ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی بدترین حالات سے گزرے بلکہ گزر رہے ہوں۔ سڑکیں کھنڈر، گلیوں شاہراہوں پر کھڑا پانی لیکن نلکے خالی، صفائی کا ایسا نظام کہ جہاں جاؤ خوشبو کے جھونکے پاؤ۔ ان حالات میں "سندھ ہمارا ہے” کی دعوے دار پی پی پی جس کے پاس بلاشرکت غیرے 14 سال سے سندھ کی حکمرانی ہے اور "کراچی ہمارا ہے” کی دعوے دار ایم کیو ایم جن کے وسیم اختر گزشتہ میئر کراچی تھے کیسے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے کہ نہ سندھ ہمارا ہے کہ دعویداروں نے کبھی اس شہر کے حالات سدھارنے پر اخلاص سے توجہ دی اور نہ ہی شہر پر اپنا حق جتانے والی جماعت ایم کیو ایم اصل معنوں میں اس شہر کے باسیوں کی پُرسان حال بنی۔

    اب اگر کوئی یہ کہے کہ گزشتہ میئر کراچی ایم کیو ایم کا تھا لیکن بااختیار نہ بلدیاتی نظام تھا اور نہ ہی میئر تو یہ بات تو 100 فیصد درست ہے۔ حقیقت ہے کہ اس معاملے پر چند ماہ قبل تک ایم کیو ایم بڑی شدومد کے ساتھ احتجاج بھی کرتی رہی اور سندھ حکومت پر الزامات بھی عائد کرتی رہی، لیکن پھر اچانک اسی سندھ حکومت کی اتحادی بن گئی جس نے اس کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا کہ جو جماعت چند روز تک جس کے خلاف احتجاج پر تھی وہ اچانک ہم نوالہ اور ہم پیالہ کیسے ہوگئی؟ یہ مفادات کا ہی کھیل تھا کہ چند ماہ قبل باہم دست و گریباں سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے گلے مل گئیں۔

    یہ تو تھی سندھ اور کراچی پر حق جتانے والی دو بڑی جماعتوں کی کارکردگی لیکن الیکشن ملتوی ہونے کی اصل وجہ صرف یہ نہیں تھی بلکہ حال ہی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کی عبرت ناک شکست اور سب کی مشترکہ حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف کی شاندار فتح بھی اور کرتا دھرتاؤں کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ جھاڑو یہاں سندھ میں بھی نہ پھر جائے۔ اس خدشے کا سب سے بڑا سبب گزشتہ ماہ کراچی کے حلقے این اے 240 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ بھی ہے جو موجودہ سیاسی صورتحال کو زیادہ واضح کرتا ہے۔ وہاں گو کہ ایم کیو ایم کے امیدوار نے فتح حاصل کی لیکن یہ فتح انتہائی کم مارجن کے ساتھ تھی اور ایم کیو ایم کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس کے قطعی شایان شان نہیں تھی۔ یہاں دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت تحریک لبیک کا امیدوار ایم کیو ایم کے فاتح امیدوار سے 60 سے 65 ووٹوں سے ہی پیچھے رہا۔ یہ فرق بھی دیکھ لیں کہ یہاں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی میدان میں نہیں تھی اور یہاں ووٹرز ٹرن آؤٹ 15 فیصد کے لگ بھگ تھا جب کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے مساوی 50 فیصد کے قریب رہا۔

    انتخابات ملتوی ہونے کے بعد جہاں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں الیکشن کمیشن کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہیں تو وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہے وہ سب کے سامنے کچھ بھی کہیں لیکن دونوں اس التوا پر خوش ہیں۔

    اب محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارشیں اس شدت سے برستی بھی ہیں یا نہیں لیکن الیکشن تو ملتوی کردیے گئے ہیں۔ کراچی میں سالوں بعد جو انتخابی ماحول گرم ہوا تھا، وہ ٹھنڈا ہونے کے بعد شہر کی سیاسی فضا میں گھٹن اور حبس بڑھ گیا ہے۔ ملک کو 65 فیصد سے زائد ٹیکس دینے والے شہر کراچی اور اس کے شہری اب حقیقی مسیحائی چاہتے ہیں اب تک اس شہر کو کئی میئر اور مقامی نمائندے مل چکے ہیں جو اس شہر کے بیٹے ہونے کے دعویدار تو تھے، لیکن تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں وہ اس شہر اور یہاں کے باسیوں کو کچھ نہیں دے سکے۔

  • ن لیگ کو ہوم گراؤنڈ پر "تاریخی شکست”، کیا شریف خاندان کے "بچے” ناکام ہوگئے؟

    ن لیگ کو ہوم گراؤنڈ پر "تاریخی شکست”، کیا شریف خاندان کے "بچے” ناکام ہوگئے؟

    بالآخر وہ معرکہ انجام پایا جس کا پورے ملک میں شور تھا، یعنی 17 جولائی کو پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوگئے۔

    اس ضمنی الیکشن سے قبل ملک بھر میں گھر ہو یا دفتر، دوستوں کی محفل ہو یا کاروباری ملاقات اور بات چیت، شادی کی تقریب ہو یا جنازے کا اجتماع ہر جگہ صرف ایک ہی بحث ہورہی تھی کہ 17 جولائی کو کیا ہوگا؟ عوام نے تو اب اپنا فیصلہ سنا دیا لیکن جو فیصلہ عوام کی جانب سے سنایا گیا ہے وہ حکومت اور اس کی 12 اتحادی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اور کسی کو بھی معمولی سا گمان نہیں تھا کہ ن لیگ اپنے صوبے میں اس عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگی۔ 2 روز قبل ہونے والی اس شکست پر 48 گھنٹوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ہر شخص نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ہم اس بلاگ میں ن لیگ کی اس حیران کن اور تاریخی شکست کی وجوہات پر لب کشائی سے قبل نوجوان نسل کو بتا دیں کہ ن لیگ کا حال ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ملک میں صرف ن لیگ ہی ن لیگ تھی۔

    یہ 1996 کی بات ہے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سیاست میں تاریخ رقم کرتے ہوئے ملک بھر سے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ دوسری بار اسلام آباد میں اپنی حکومت بنائی اور نواز شریف نے دوسری بار وزیراعظم کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس دو تہائی اکثریت پر مختلف سوالات اٹھائے گئے لیکن سیاست میں کامیابی بڑی ہو یا چھوٹی سوالات اٹھائے جانے کا رواج رہا ہے۔ لہذا ان سوالات سے صرف نظر یہ ن لیگ کی سب سے بڑی کامیابی تھی جب وہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر حکومت میں آئی تاہم وہ اس دو تہائی اکثریت کا بوجھ زیادہ عرصہ نہیں اٹھاسکی اور خود اپنے ہی من مانے فیصلوں کے بوجھ تلے دب گئی۔ لیکن 1996 میں پاکستان کی سیاست میں ایک یہی تاریخ رقم نہیں ہوئی بلکہ لگ بھگ اسی سال ملک کے سیاسی نقشے پر ایک نئی جماعت "تحریک انصاف” کے نام سے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی قیادت میں قائم ہوئی۔ لیکن صرف 26 سال کے مختصر عرصے میں، مختصر اس لیے کہ انفرادی زندگی میں یہ عرصہ ایک طویل عرصہ گردانا جاتا ہے لیکن سیاست اور قوموں کی تاریخ میں 26 سال کا عرصہ مختصر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ صرف 26 سال قبل قائم ہونے والی سیاسی جماعت نے ایسا کیا کیا کہ اس نے اپنی سیاسی پیدائش کے وقت کی سب سے مقبول عام جماعت کو اس انجام سے دوچار کردیا۔

    پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق 15 نشستیں پی ٹی آئی نے حاصل کیں۔ 4 ن لیگ اور ایک آزاد امیدوار کے حصے میں آئی جس میں ن لیگ کی پی پی 7 پنڈی کی ایک نشست پر ابھی سوالیہ نشان ہے کہ اس کو پی ٹی آئی کے امیدوار نے چیلنج کیا ہوا ہے اور اس پر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رکھی ہے جس پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس سیٹ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اس وقت نمبر گیم میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی ق لیگ کے پاس 188 ووٹوں کے ساتھ اپنا وزیراعلیٰ یعنی چوہدری پرویز الہٰی کو لانے کے لیے نمبر گیم پورا ہے۔ جب کہ ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس 179 نمبرز ہیں۔ بہرحال ضمنی الیکشن کا نتیجہ مسلم لیگ ن جیسی جماعت جس کو لیگی رہنما ملک کی سب سے بڑی جماعت گردانتے ہیں اس کے ہرگز ہرگز شایان شان نہیں اور وہ بھی اس صورتحال میں کہ جب یہ الیکشن پی ٹی آئی بمقابلہ 13 اتحادی جماعتوں کے درمیان ہو۔ حکومت بھی اپنی ہو، انتظامیہ بھی ماتحت اور پی ٹی آئی الزامات کے مطابق الیکشن کمیشن بھی پارٹی بنا ہوا ہو۔

    نتائج کا غیر سرکاری اعلان ہونے کے بعد جتنے منہ اتنی ہی باتیں اکثر اسے عمران خان کے سازشی تھیوری اور رجیم چینج بیانیے کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پنجاب کے نتائج پر عمران خان کا یہ بیانیہ بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اسے صدق دل سے قبول بھی کیا لیکن کیا یہی ایک وجہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فتح اور شکست کا پیش خیمہ ہر دو فریق کی فہم وفراست اور نااہلی اور کوتاہی ہوتی ہے۔ اگر ہم یہاں صرف عمران خان کے بیانیے کو فتح گر جانیں تو یہ حقیقت کے منافی ہوگا۔

    اگر ہم یہاں شکست خوردہ مسلم لیگ ن کی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں تو ایک طویل فہرست نظر آتی ہے مختصراً یہ کہ ن لیگ جو سابق وزیراعظم نواز شریف کی برطرفی اور سزا کے بعد اینٹی اسٹبلشمنٹ اور ووٹ کو عزت دو کے ساتھ عمران خان کو "سلیکٹڈ” کے طعنے کا بیانیہ لے کر چلی تھی اور عوام بھی اس کی ہمنوا ہو رہی تھی بالخصوص پنجاب کی جس کا نمایاں اثر عمران دور حکومت میں اس بڑے صوبے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی سامنے آیا جب ن لیگ نے تواتر سے پی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن پھر رواں سال اپنے اسی بیانیے سے یوٹرن لیا اور اینٹی اسٹبلشمنٹ جماعت کے طور پر عوام میں اپنا امیج بنانے والی جماعت اسٹبلشمنٹ کے گن گانے لگی۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس وقت ہی دفن کردیا جب اس نے وفاق میں اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ہوس اقتدار میں پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے ووٹوں کو عزت دینے کے بجائے لالچ کے ترازو میں تولنا شروع کیا۔ ن لیگ نے یوں سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت قائم کر لی جو اب ان نتائج کے مطابق صرف دو دن کی مہمان لگتی ہے۔ رہا سلیکٹڈ کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس کو تار تار یوں کیا کہ مخالف کو سلیکٹڈ بولنے والی خود سلیکٹڈ بن گئی۔

    اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو شاید نتیجہ یکسر مختلف نہ ہوتا تو کچھ بہتر ضرور ہوتا مگر نہ جانے کیا سوجھا کہ ن لیگ نے اپنی پرانی اس مقامی قیادت کو جو سالوں تک ان حلقوں سے الیکشن لڑ کر ایوانوں میں مسلم لیگ ن کا علم بلند کرتے رہے اور اپنے دیرینہ ووٹرز، سپورٹرز کو نظر انداز کرکے 20 میں سے 18 نشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف جنہیں اب ملک کے طول وعرض میں لوٹوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے انہیں ٹکٹ دیا۔ جس نے پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکنوں میں مایوسی کو جنم دیا اور یوں ن لیگ کے اپنے سیاسی یوٹرن اسے ہی لے ڈوبے جس کا اعتراف کئی ن لیگی رہنما کرچکے کہ عوام نے ن لیگ کو نہیں لوٹوں کو مسترد کیا ہے۔

    دوسری اہم وجہ ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کا عمران حکومت کے دوران ہونے والی مہنگائی اور بدانتظامی پر شور مچانا تھا۔ جب یہ حکومت میں آئے تو عوام کی ان سے توقعات بجا تھیں کہ جن باتوں پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں شور ڈالتی تھیں اب خود اقتدار میں اس کا تدارک کرتے ہوئے عوام کو کچھ ریلیف دیں گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ ریلیف کیا ملنا تھا الٹا عوام کو دن میں تارے دکھا دیے مہنگائی کی صورت میں۔

    ن لیگ کے قائد نواز شریف "علاج” کے لیے لندن میں ہونے اور پارٹی صدر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہونے کے باعث انتخابی مہم کے لیے دستیاب نہ تھے اس لیے پنجاب ضمنی الیکشن کے لیے مہم چلانے کا تاج ایک بار پھر ن لیگ نے مریم نواز کے سر سجایا۔ یہ تیسری باری تھا جب انہیں یہ اہم ذمے داری ملی لیکن جس طرح انہوں نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر الیکشن میں جلسے اچھے کیے لیکن ن لیگ کو ناکامی ملی اسی طرح پنجاب ضمنی الیکشن میں یہ تیسرا اسائنمنٹ بھی مریم نواز نے بری طرح سے ہار کر ثابت کردیا کہ وہ بڑا عوامی مجمع تو اکٹھا کرسکتی ہیں لیکن پولنگ کے دن ووٹر کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک لانے کی صلاحیت ابھی ان میں کم ہے۔ ایک وجہ ان کا بیانیہ بھی رہا جو بدل کر انہوں نے "خدمت کو ووٹ دو” اسی دوران حمزہ شہباز بھی سرگرم رہے گوکہ وہ وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے علی الاعلان تو انتخابی مہم کا حصہ نہ بنے لیکن وقتاً فوقتاً عوامی ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے مریم نواز کا ہاتھ بٹانے کی ضرور کوشش کی صرف یہی نہیں بلکہ ایاز صادق، اویس لغاری سمیت کئی وزرا کو انتخابی مہم چلانے کے لیے مستعفی کرایا لیکن الٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ استعفوں نے کام کیا کے مترادف نتائج حسب توقع نہ آسکے۔ ن لیگ نے جس طرح ان ڈھائی تین ماہ میں عوام کی خدمت کی تو عوام نے بھی ادھار نہ رکھا اور اس کا بھرپور جواب انہیں دے دیا۔

    کیونکہ پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن کی ذمے داری شریف خاندان کے ان ہی "بچوں” کے سر پر تھی تو ناکامی کے ذمے دار بھی یہ "بچے” ہی گردانے جائیں گے۔ اب ملک کی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا تاہم بلاگ تحریر کیے جانے تک 13 جماعتی حکومتی اتحاد نے یہ تو طے کرلیا تھا کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی۔

    سیاسی تجزیہ کار پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی کو 2018 کے عام انتخابات کی کامیابی سے بڑا مان رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ 2018 کے نتائج پر مخالفین کو اعتماد نہیں تھا لیکن یہ نتائج تو پی ٹی آئی کی تمام مخالف جماعتیں تسلیم کر رہی ہیں اسی کے ساتھ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حکومت کے پاس نئے الیکشن میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ عمران خان کے پاس ملک کا سب سے بڑا صوبہ آچکا ہے اور وہ جو پہلے ہی مزاحمت کی سیاست بھرپور انداز میں چلا رہے ہیں اب حکومت پر اپنا دباؤ مزید بڑھائیں گے۔

  • کراچی ہوا پانی پانی، سب نے سنائی اپنی کہانی

    کراچی ہوا پانی پانی، سب نے سنائی اپنی کہانی

    اس بار مون سون کا آغاز ہی کراچی جیسے بڑے شہر میں‌ بڑی بربادی اور نقصانات کا سبب بن گیا ہے اور اب محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ سندھ کے مشرقی علاقے سے ایک اور سسٹم داخل ہوچکا ہے جو کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی اور جنوبی علاقوں میں تیز بارش کا سبب بن سکتا ہے۔

    ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو ایک بار پھر کراچی پر رحمتِ خداوندی برس رہی ہو، جو متعلقہ اداروں کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے زحمت بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ یعنی اب سب ہی برسات کے "مزے” اور آفٹر شاکس اور آفٹر شاکس کا مزا چکھنے والے ہیں آفٹر شاکس اس لیے کہا کہ ہمارے ہاں بارش جو تباہی لاتی ہے اس کے آفٹر شاکس کئی روز بعد تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ ویسے محکمہ موسمیات کی موسم کی پیشگوئی اور شیخ رشید کی سیاسی پیشگوئی کا ایک ہی حال ہے کہ پوری ہوگئی تو ہم نے کہا تھا نا، نہ ہوئی تو پھر ” جو اللہ کو منظور، میں کی کراں یا سانوں کی” کی صورتحال ہوتی ہے۔ بہرحال یہاں بات ہو رہی تھی بارش کے ایک اور طوفانی سسٹم کے کراچی میں آنے کی تو یہاں ایک ہی سسٹم نے پہلے ہی کراچی والوں کی سانسیں اوپر چڑھا دی ہیں بلکہ کئی علاقوں میں تو عوام کو چھتوں پر چڑھا دیا کہ نیچے تو ہر طرف پانی ہی پانی کا راج تھا بلکہ کئی علاقوں میں اب تک اس کا راج باقی ہے یہ الگ بات ہے کہ متعلقہ اداروں کی غفلت سے یہ رحمت کروڑوں شہریوں کے لیے زحمت بن گئی اور اب اس زحمت سے سخت تعفن بھی اٹھنے لگا ہے اور روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر کراچی کے باسیوں کی حالت اس وقت اس شعر میں ڈھلی نظر آرہی ہے۔

    آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
    میں نے سب تیاریاں کرلی ہیں مرنے کے لیے

    اس بار کراچی میں عیدالاضحیٰ کا چاند نظر آتے ہی برسات نے بھی ٹھانی کہ میں بھی عید کراچی میں ہی مناؤں گی نہ جانے اس کو کس نے کہہ دیا تھا کہ کراچی والے بڑے دریا دل ہیں اور عید کو بڑے اچھے انداز میں مناتے ہیں اس لیے شاید اس نے اس بار عید کو کراچی میں گزارنے کے ساتھ کراچی کو حقیقی معنوں میں دریا بنانے فیصلہ کیا اور اس حوالے سے اپنی دریا دلی دکھا ہی دی۔ ویسے کچھ سالوں سے عید کے موقع پر رم جھم ہوتی رہتی ہے لیکن اس بار برسات پوری تیاری سے عید منانے کراچی آئی اتنی تیاری کہ اس سے نمٹنے کیلیے حکومت سندھ اور متعلقہ اداروں کی اعلان کردہ یا خود ساختہ تیاریاں کم پڑگئیں۔

    شہر قائد کے گلی محلوں میں جیسے جیسے گائے اور بکروں کی تعداد بڑھتی گئی اسی رفتار سے بارش بھی بڑھتی چلی گئی، یوں تو محکمہ موسمیات نے یکم جولائی سے ہی شہر میں تیز بارشوں کی پیشگوئی کر رکھی تھی لیکن ابتدائی تین چار روز تک شہری بارشوں کا انتظار کرتے رہے۔ شاید بارش کی اس شہر میں عید منانے کیلیے آنے کے لیے تیاریوں میں کچھ کمی تھی اس وجہ سے چار دن کی تاخیر ہوگئی جس کی وجہ سے لوگ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کو "شیر آیا، شیر آیا” والی کہانی سمجھنے لگے، تاہم پھر جب شیر آیا (معذرت کے ساتھ یہ سیاسی شیر نہیں) تو پھر اس کی دست بُرد سے شہر کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں رہا۔

    شہر قائد کے پوش علاقے ڈیفنس، کلفٹن، ڈی ایچ اے ہوں یا متوسط علاقے صدر، نارتھ کراچی، گلشن اقبال، گلستان جوہر، طارق روڈ، شاہراہ فیصل یا پھر غریب علاقے بارش نے حکمرانوں کی طرح نوازنے میں امیر اور غریب نہیں کیا اور بغیر کسی تفریق کے سب کو فیض یاب کیا اور ایسا فیض یاب کیا کہ سمندر کنارے آباد بستیوں کے مکینوں کو تو یہ فرق کرنا مشکل ہوگیا کہ کہاں ساحل ختم ہورہا ہے اور کہاں سمندر شروع ہورہا ہے اور ہمیں علامہ اقبال یاد آگئے اپنے اس شعر کی صورت میں کہ

    ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
    نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

    کیماڑی، سولجر بازار، ناظم آباد، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، سائٹ ایریا، انڈسٹریل ایریا، سعدی ٹاؤن سمیت شہر کی ہر سڑک دریا بن گئی جہاں کشتی کے بجائے لوگوں کی گاڑیاں تیرتی نظر آرہی تھیں۔ بارش خیر سے آگئی لیکن خیر سے گئی نہیں بلکہ تباہی اور بربادی کی کئی داستانیں رقم کرگئی لیکن اس میں بارش کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اس کا کام تو برسنا ہے۔ قصور تو ان کا ہے جو ذمے دار ہیں یعنی حکومت اور اس کے ماتحت بارش سے نمٹنے والے بلدیاتی ادارے، لیکن کیا انہوں نے اپنی ذمے داری پوری کی؟

    اس ملین ڈالر سوال کا جواب تو یکسر نفی میں ہی ہے۔ بھئی وجہ صاف ہے کہ بقرعید تھی اور عید تو اپنوں کے ساتھ اچھی لگتی ہے تو کراچی میں حکمرانوں یا متعلقہ اداروں کے افسران کا کون اپنا تھا جو وہ یہاں رہ کر عید مناتے اسی لیے تو وہ عید منانے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں اپنے پیاروں کے پاس چلے گئے اور ان کے پاس ایک عذر بھی تھا کہ بارشیں تو ابھی بہت ہونی ہیں تو اس سے نمٹتے رہیں گے لیکن اگر بقرعید پیاروں کے بغیر گزر گئی تو پھر ایک سال بعد ہی آئے گی اور ایک سال کس نے دیکھا ہے شاید ہم اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، یا پھر اپنے اپنے عہدوں پر براجمان ہوں یا نہ ہوں تو سیاسی پروٹوکول کے ساتھ عید کی جتنی خوشیاں منانی ہیں منا لی جائیں۔

    تو جناب عید سے قبل شروع ہونے والی بارش دھواں دھار انداز میں عید کے ابتدائی دو ایام میں اس طرح برسی کہ کراچی ڈوبتا رہا اور اہل نظر تماشا دیکھتے رہے وہ بھی دور بیٹھ کر اپنوں میں تکے کباب کھاتے اور کھلاتے ہوئے یہ الگ کہ کراچی والوں کی اکثریت نے تکے کباب کھانے کے بجائے متعلقہ اداروں کی بے حسی پر خون کے گھونٹ پیتے ہوئے گزارا (قربانی کے جانوروں کا خون نہیں) اور جب یہ بھی ختم ہوگیا تو پھر صبر کے گھونٹ پی لیے اور سوچا کہ جو برسات کے باعث قربانی نہ کرنے کا ثواب نہیں لے سکے تو کیا ہوا صبر کا بھی تو بڑا ثواب ہے۔ جب کہ ان حالات میں ہمارے حکمراں تو اپنوں میں تکے بوٹیاں کھانے کے بعد لسی شسی یا پھر ستو پی کر سو رہے تھے چائے اس لیے نہیں پی کہ ایک ارسطو وزیر اس کے کم پینے کے نادر فوائد پہلے ہی بتاچکے تھے۔

    اس موقع پر حکمراں اور متعلقہ ادارے کے حکام تو غائب رہے لیکن برستی بارش کے شور میں ایک مدھم سا شور حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم نے ضرور اٹھایا اور حکومت کو لتاڑا اور ساری ذمے داری حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ جیسے کہ ہمارے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے اپنے پارٹی سربراہ کی تقلید کرتے ہوئے فرمایا کہ جب بارشیں ہوتی ہیں تو سڑکوں پر پانی بھی آتا ہے۔ تو جناب یہ کوئی انکشاف نہیں سب کو پتہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو سڑکوں پر پانی آتا ہے اور جن کو پتہ بھی نہ تھا ان کو آپ کے قائد محترم بلاول بھٹو واضح طور پر باور کراچکے تھے کہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ لیکن پانی زیادہ آئے یا بہت زیادہ اس کو سڑکوں اور آبادی سے نکالنا حکومت وقت اور اس کے ماتحت ذمے دار اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے وہ کہاں گیا؟ لیکن یہاں تو صورتحال یہ کہ وزیراعلیٰ سندھ دوسرے دن ٹی وی اسکرینز پر جلوہ افروز ہوئے کچھ اپنی کہی بلکہ صرف اپنی ہی کہی اور پھر نکلے شہر کے دورے پر جس کے بارے میں کئی لوگوں نے آرا دی کہ وزرا اور ایڈمنسٹریٹر صرف ان علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں پانی اتر جاتا ہے۔ بات شرجیل انعام میمن کی ہورہی تھی جنہوں نے کراچی ڈوبنے کی وجہ بادل پھٹنا قرار دیا اور محکمہ موسمیات کی ذمے داری نبھاتے ہوئے اعداد و شمار بھی گنوائے ساتھ ہی کہا کہ کراچی میں برسات کے دوران ہونے والی قیمتی جانوں کے ضیاع کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے۔ لیکن پولیس ریکارڈ کے مطابق کراچی میں بارشوں کے دوران 20 افراد جان کی بازی ہارے ان میں سے 13 اموات کرنٹ لگنے سے ہوئیں تو بقیہ سات زندگیوں کو موت کا تحفہ کس کا انعام ہے؟

    بارشیں رکے دو دن ہوگئے اور یہ ابر رحمت اب پھر دستک دے رہی ہے لیکن شہر قائد کا حال یہ ہے کہ امجد اسلام امجد نے کہا ہے کہ

    محبت ایسا دریا ہے
    کہ بارش روٹھ بھی جائے
    تو پانی کم نہیں ہوتا

    تو یہی حال کچھ اس وقت عروس البلاد کہلانے والے شہر کراچی کا ہے لیکن اس کا یہ حال اس سے "محبت” کے دعویداروں نے کیا ہے یقین نہ آئے تو گھر سے نکلیں اور دیکھ لیں پھر چاہے صدر ہو یا گرومندر، کورنگی ہو یا انڈسٹریل ایریا، اورنگی سائٹ ہو یا مضافاتی علاقے کئی علاقے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے نظر آئیں گے۔

    قصہ مختصر بارشیں، پھر بارشیں اور پھر بارشیں، لہذا عوام حکومت کے آسرے پر نہ رہے جو کہ پہلے بھی کم ہی رہتی ہے اور ہمارا مشورہ ہے کہ اپنے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدامات کر لے اب چاہے تو چھت پر ہی تمبو وغیر باندھ لے یا پھر جو اس کی سمجھ میں آئے کرلے کہ جن کا کام ہے ان سے تو کچھ ہو نہیں رہا ہے ہمارا تو یہ حال ہے کہ زہرہ نگاہ کے ایک شعر میں معمولی تبدیلی کے بعد یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ

    نہیں نہیں، ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
    تجھے بھی بھول گئے ہم اپنی خوشی کیلیے

  • پاکستان قوم کےلیے "دھرتی ماں” تو مسلم لیگ ن "نانی اماں”؟

    پاکستان قوم کےلیے "دھرتی ماں” تو مسلم لیگ ن "نانی اماں”؟

    یہ عنوان پڑھ کر قارئین اپنا رخ کہیں اور نہ کریں کیونکہ یہ رشتہ ہم نے نہیں بلکہ جانے انجانے میں مسلم لیگ (ن) کے ہی ایک رہنما احسن اقبال جنہیں ان کے ایسے ہی نادر افکار اور خیالات کی بنا پر قوم ارسطو مان چکی ہے، نے جوڑا ہے۔

    وفاقی وزیر احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی ماں ہے۔ یہ شاید ان کا اُسی طرح کا سیاسی رنگ لیے فلسفیانہ بیان ہے جب انہوں نے قوم کو چائے کم پینے کا نادر مشورہ دیا تھا۔ بہرحال احسن اقبال کے اس انکشاف نے قوم کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ پوری قوم تو اب تک یہی سمجھتی رہی کہ پاکستان بنانے والی جماعت بغیر کسی ن، م، ش، ض، ق کے صرف مسلم لیگ ہی تھی جس کی مخلص لیڈر شپ کی دن اور رات کی کاوشوں کی بدولت 1947 میں دنیا کے نقشے پر ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان’ ابھرا۔

    وفاقی وزیر نے اپنے بیان کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے کہا کہ "ن لیگ پاکستان کی ماں ہے اور ماں کبھی بھی اپنے بچے کو قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتی اسی لیے ن لیگ نے سیاسی ساکھ داؤ پر لگا کر پاکستان بچانے کی سیاست کی ہے۔” ان کے اس "انکشاف” نے قوم کو تو حیرت میں ڈالا ہی لیکن تاریخ کا دھارا موڑنے کی بھی ایک "بے ضرر” سی کوشش کی ہے۔ پاکستانی چاہے وہ بڑھاپے میں ہو یا جوان یا پھر بچے سب ہی قائداعظم محمد علی جناح والی مسلم لیگ کو پاکستان کی بانی جماعت اور قائداعظم کے ساتھ ان کے رفقائے کار کو بانیان پاکستان مانتے آئے ہیں لیکن اس تازہ ترین "انکشاف” پر ہماری تاریخ بھی انگشت بدنداں رہ گئی ہے۔

    جب احسن اقبال نے قوم کے کانوں میں یہ رس گھولنے کی سعی کی ہے تو ہم بھی قوم بالخصوص نونہالان وطن کو جو قیام پاکستان اور مسلم لیگ کی تاریخ سے زیادہ واقف نہیں ہیں، مسلم لیگ کی تاریخ کا مختصر احوال بتاتے ہیں‌ کہ مسلم لیگ کیا تھی، کیا ہے؟ اور کیا ملک میں اس وقت موجود نصف درجن مسلم لیگوں میں کوئی اصل مسلم لیگ بھی ہے؟ جو ملک اور قوم سے مخلص ہو۔

    مسلم لیگ 1906 میں قائم ہوئی جس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ تھا۔ 1937 کے انتخابات میں کانگرس کو فتح ہوئی اس نے ہندوستان کے تمام صوبوں میں حکومتیں قائم کرلیں۔ ہندوؤں کا مسلمانوں کیخلاف عملی تعصب کھل کر سامنے آگیا تو مسلمان اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں۔ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ کامیابی سے لڑا۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ 1945-46 کے انتخابات میں مسلمانوں نے علیحدہ اور آزاد وطن (پاکستان) کے حق میں ووٹ دیے اور مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ 14اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ پاکستان سے مخلص دونوں رہنما جلد قوم کو داغ مفارقت دے گئے جس کا خمیازہ پاکستان اور اس کی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
    یہ تھی اصل مسلم لیگ جس کی قیادت اپنی ذات یا خاندان سے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان اور قوم سے مخلص تھی لیکن جب یہ دونوں بڑے لیڈر دنیا سے رخصت ہوئے تو مسلم لیگ کی حیثیت اس تڑپتی اور سسکتی روح کی طرح ہوگئی جس کے گرد گدھ منڈلانے لگے کہ کب یہ ختم ہو اور وہ اس کے حصے بخرے کریں مسلم لیگ کی روح تو ختم ہوگئی لیکن گدھوں نے اس کے اتنے حصے بخرے کیے کہ بانیان پاکستان کی روحیں بھی اپنی مسلم لیگ کا یہ حال دیکھ کر تڑپ اٹھی ہوں گی۔

    قیام پاکستان کے بعد تو صورتحال یہ ہوئی جو آیا وہ اپنی مسلم لیگ بناتا اور اس کے آگے ن، ق، ض، ف و دیگر حرف تہجی لگاتا گیا۔ اتنی برق رفتاری سے مسلم لیگیں بنیں کہ قوم کو یہ خدشہ ہونے لگا کہ اگر مسلم لیگوں کی پیدائش اسی رفتار سے جاری رہی تو شاید اردو کے سارے حرف تہجی ختم ہوجائیں گے لیکن ساتھ یہ فکر بھی کہ اگر پھر نئی مسلم لیگ وجود میں آئی تو وہ کس حرف کا لاحقہ لگائے گی۔

    اب تاریخ پاکستان مسلم لیگ کے بارے میں کیا کہتی ہے اس کے بارے بھی جان لیں۔ 1962 میں پاکستان کی بانی اصل مسلم لیگ کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے نام سے جنم لیا جو اس وقت کے سربراہ مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان کے صدر بننے کے بعد تشکیل دی گئی۔ اسی دوران کچھ سال کے وقفے سے کونسل مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی لیگ وجود میں آئی۔ اس کے کرتا دھرتا اس وقت کے صدر ایوب خان کے مخالف سیاسی رہنما تھے۔ صدر ایوب کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد یہ کونسل مسلم لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور قوم ایک نئی جماعت پاکستان مسلم لیگ قیوم سے آشنا ہوئی جو خان عبدالقیوم خان کی تشکیل کردہ جماعت تھی اور 1970 کے عام انتخابات سے قبل یہ معرض وجود میں آئی۔ 1973 میں مسلم لیگ کنونشن اور مسلم کونسل کا انضمام ہوا تو پھر ایک نئی مسلم لیگ وجود میں آئی اور پیر پگارا کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مسلم لیگ زیادہ پنپ نہ سکی لیکن ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر مملکت ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کے مقابل ایک نئی جماعت کھڑی کرکے اس کا راستہ روکنے کیلیے مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کرکے اس کٹھ پتلی جماعت کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھ لیں۔

    ضیاالحق کے اقتدار میں آتے ہی ادھر اُدھر ٹکڑوں میں بکھری تمام مسلم لیگوں کو متحد کیا گیا اور محمد خان جونیجو کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا جس کے بعد پیر پگارا نے 1985 میں مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے ایک نئی مسلم لیگ تشکیل دی جو مشرف دور میں مسلم لیگ میں ضم ہوئی لیکن یہ انضمام زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور پیر پگارا کی مسلم لیگ پاکستان کے سیاسی میدان میں ایک بار پھر مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے فنکشنل ہوگئی۔

    1984 کے ریفرنڈم کے بعد ضیا الحق ملک کے صدر بن گئے تھے جس کے بعد ریفرنڈم میں حمایت کرنے والی جماعت کو 1985 کے عام انتخابات کے دوران ایک نئی مسلم لیگ کے روپ میں میدان میں اتارا گیا گوکہ وہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے لیکن موجودہ مسلم لیگ ن اور اس کے بطن سے نکلنے والی دیگر جماعتوں کی بنیاد وہی 1985 کے الیکشن ہیں جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ۔

    بھٹو کے شدید مخالف ہونے کے باعث نواز شریف جلد ہی ضیاالحق کے چہیتوں میں شامل ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مرحوم صدر انہیں اپنا منہ بولا بیٹا اور نواز شریف انہیں سیاسی باپ کہتے بھی نہ کتراتے اور جب کوئی سیاہ سفید کے مالک حکمراں کا منہ بولا بیٹا بن جائے تو پھر وہ کہاں رکتا ہے۔ لہذا نواز شریف نے 1988 میں اس محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کو خدا حافظ کیا اور فدا محمد خان کی تشکیل کردہ ایک نئی مسلم لیگ میں جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا لیکن پھر اس مسلم لیگ کی سربراہی لے کر اس کو مسلم لیگ ن کا نام دیا۔ مسلم لیگ ن نے اسی نام سے الیکشن لڑا اور جیت کر تین بار اقتدار حاصل کرچکی اور چوتھی بار بغیر جیتے اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔

    یہ درست ہے کہ موجودہ دور میں عوامی مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کے سیاسی افق پر مسلم لیگ ن ہی سر فہرست ہے لیکن اب بھی پاکستان میں مسلم لیگ کے کئی دھڑے ہیں جس میں سے کچھ سیاسی میدان میں سرگرم تو کچھ صرف تانگا پارٹی بنے ہوئے ہیں۔

    جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان کی سابقہ سیاسی روایات کے مطابق سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ہوئی اور 2001 میں مسلم لیگ ن کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا اور 2002 کے الیکشن جیت کر 5 سال اقتدار کے مزے لیے لیکن جنرل مشرف کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی اس سیاسی جماعت کا حجم بھی انتہائی تیزی سے سکڑ گیا۔ یہ جماعت آج بھی چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پاکستان کی سیاست میں فعال تو ہے لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ گھر کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوٹنے والی ہے کیونکہ چوہدری برادران میں اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں۔

    ان کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ض) جو سابق صدر ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کی مسلم لیگ ہے اور اس کی حیثیت سیاسی زبان میں تانگا پارٹی سے زیادہ نہیں اور خود اعجاز الحق بھی صرف وقتی سیاسی بیانات کی حد تک سیاست میں فعال ہیں تاہم ایک اور ون مین شو جماعت عوامی مسلم لیگ ہے جس کے سربراہ ہمارے شیخ رشید صاحب ہیں لیکن یہ تانگا پارٹی کے سربراہ ہونے کے باوجود اپنی مخصوص سیاسی صلاحیتوں کے باعث ” ہر جگہ ” قابل قبول ہوتے ہیں۔

    تو قارئین گرامی یہ تھا مسلم لیگوں کا حال اب اگر ارسطو کا خطاب پانے والے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے بیان کو حسن ظن رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آج پاکستان میں کئی مسلم لیگ ہیں۔ اگر انہوں نے بھی ایسا ہی دعویٰ کردیا تو قوم سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ دھرتی ماں تو صرف ایک "پاکستان” ہے لیکن نانی اماؤں کا شمار ہی نہیں۔ اس لیے ہمارا ارسطو وزیر کو ایک ادنیٰ مشورہ ہے کہ وہ بیان دیتے وقت زبان کے ساتھ تاریخ کا بھی خیال کیا کریں کہ تاریخ زبان کی لغزش کو کبھی معاف نہیں کرتی۔

  • کیاموجودہ  حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی  ہے ؟

    کیاموجودہ حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی ہے ؟

    ڈھائی ماہ قبل اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بڑے کروفر کے ساتھ 11 جماعتوں کا اتحاد حکومت میں آیا اور وزارت عظمیٰ کا تاج مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا یوں معاشی اور سیاسی طور پر ہچکولے کھاتے پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ مسلم لیگ ن کو دے دی گئی اور پھر حصہ بقدر جثہ کے مطابق وزارتوں کی تقسیم ہوگئی۔ لیکن ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے خاص طور پر سیاسی اور اقتدار کی سانجھے کی ہانڈی پھوٹنے کا دھماکا تو زیادہ تیز اور اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ سیاسی ساجھے داری میں نہ کوئی اصول ہوتے ہیں نہ ضوابط بلکہ صرف مفادات کو دیکھا جاتا اور اقتدار کے حصول کو ہی فوقیت دی جاتی ہے کہ یہی ہماری سیاسی تاریخ رہی ہے۔

    لگ بھگ کرکٹ ٹیم کے اراکین کے مساوی سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے بنائی گئی حکومت کی کھچڑی جب بنی تھی تو وزیراعظم شہباز شریف کے سابقہ انتظامی تجربے کو دیکھتے ہوئے قوم کو امید تھی کہ وہ اپنے اس تجربے کو بروئے کار لاکر پاکستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت شہباز شریف نے اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں بھی دکھائیں اور اتنی دکھائیں کہ ان کے اپنے ہی لوگوں نے اسے شہباز اسپیڈ کا نام بھی دیا۔ انہوں نے اپنے ابتدائی ایک ماہ کے اقتدار میں نصف درجن غیر ملکی دورے بھی کرلیے تھے جو بعد ازاں غالباً عوامی سطح پر تنقید کے باعث روک دیے گئے۔ اسی دوران انہوں نے کئی خوش کن اور دلربا قسم کے اعلانات بھی کیے لیکن جلد ہی ان سے اس طرح یوٹرن لیا کہ پوری قوم ان کی جانب سے خطاب دیے جانے والے "یوٹرن خان” کو بھولنے لگی، ویسے عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا۔

    موجودہ حکومت کی مشکلات تو شہباز شریف کے وزرات عظمیٰ کی مسند پر بیٹھتے ہی شروع ہوگئی تھیں کہ ہچکولے کھاتی ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلیے جو فیصلے کیے گئے اس سے پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی تو چیخیں ہی بلند ہوگئیں، دو ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں لگ بھگ دُگنا کے قریب اضافہ، بجلی، گیس، سی این جی کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کی بے پناہ لوڈشیڈنگ، آئی ایم ایف کی ایما پر تیار کیا گیا ظالمانہ بجٹ اور پھر منی بجٹ اور اس کے نتیجے میں شہباز کی اسپیڈ کی زیادہ تیزی سے بڑھنے والی مہنگائی نے عوام کو تو بے حال کیا لیکن حکومتی کیمپ میں بھی بے چینی بڑھی کیونکہ ملک میں متحرک اپوزیشن پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ عوام کے الزامات اور غصے کا تمام تر رخ حکومت کی جانب ہوگیا لیکن اس صورتحال میں جب کہ یہ گیارہ جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے سارا عوامی ردعمل ن لیگ کے حصے میں آیا جب کہ دیگر جماعتیں جن میں بالخصوص پی پی پی اور جے یو آئی (ف) شامل ہیں تاحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ ان مشکل معاشی فیصلوں پر شہباز شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں سوائے ایک آدھ بیان دینے کے کچھ نہیں کیا بلکہ ہنوز ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہوئے ن لیگ کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔

    بات صرف عوامی ردعمل اور اپوزیشن کے احتجاج تک ہوتی تو شاید شہباز حکومت کیلیے اتنی فکر کی بات نہ ہوتی لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بظاہر حکومت مخالف عدالتی فیصلوں کے ساتھ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے جس طرح سے شہباز حکومت کو آنکھیں دکھانی شروع کی ہیں اور کھلم کھلا اتحاد سے علیحدگی کی دھمکیاں بھی دے ڈالی ہیں اس سے حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان سا لگتا محسوس ہوتا ہے۔

    یہ تو سب کو پتہ ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان حکومت کے اتحادیوں ایم کیو ایم، بی اے پی اور آزاد اراکین کو اپنا ہمنوا کرکے بنائی گئی تھی اور اس کے لیے انہیں سبز باغ بھی دکھائے گئے تھے لیکن ان سبز باغوں کا اب تک وہی ہوا ہے جو اس سے قبل دکھائے گئے سبز باغوں کا ہوتا رہا ہے اور وہ جنہوں نے بڑی خوشی اور دعوؤں کے ساتھ اپنی سابقہ حلیف جماعت پی ٹی آئی پر وعدے پورے نہ کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے سابقہ حکومت سے علیحدگی نئی حکومت سے وعدوں کے بندھن میں بندھ کر اپنا ایک اور نیا سیاسی سفر شروع کیا تھا اب وہی موجودہ حکومت کی وعدہ خلافیوں سے نالاں ہوکر اپنے پرانے آشناؤں کے دور کو اچھے لفظوں میں یاد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سے بہتر تو عمران خان کی حکومت تھی اس میں انہیں فنڈز بھی ملتے تھے اور ان کی بات بھی سنی جاتی تھی۔

    اس سارے تماشے میں بات کریں ایم کیو ایم کی تو وہ اپنے بند دفاتر کی حوالگی اور دوبارہ کھولنے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مکمل بااختیار بلدیاتی نظام کے مطالبے پر موجودہ حکومت کا حصہ بنی تھی، ابتدائی دو مطالبات شاید کسی سیاسی حکومت کے لیے پورا کرنا ممکن نہ ہوں لیکن تیسرا اور اہم ترین مطالبہ بااختیار بلدیاتی نظام پر پی پی پی نے اب تک ایم کیو ایم کو لالی پاپ ہی دیا ہے اور ایم کیو ایم یہ لالی پاپ کھا کھا کر اتنا تنگ آچکی ہے کہ اس نے مزید یہ لالی پاپ کھانے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے ایم کیو ایم کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور رواں ماہ دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اگر پی پی کی یہی روش رہی تو ایم کیو ایم کو خطرہ ہے کہ دونوں بڑے شہروں کی میئر شپ سے اسے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے جس کا اظہار پی پی پی کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی یہ دعویٰ کرکے کرچکے ہیں کہ اگلا میئر کراچی پی پی پی کا ہوگا۔

    ایم کیو ایم اور پی پی کے معاہدے میں ضمانتی شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن تھے لیکن وہ بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کے باعث ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی زبان بھی تلخ ہوتی جارہی ہے۔ عوامی سطح کے بعد اب ایم کیو ایم کی حکومت کے خلاف آواز ایوان میں بھی بلند ہونے لگی ہے اور اسمبلی کے فلور پر حکومت سے علیحدگی کی کھلے لفظوں میں دھمکی دے چکی ہے حکومت سے صرف ایم کیو ایم ہی ناراض نہیں بلکہ ن لیگ کی ہم پیالہ اور ہم نوالہ بنی جے یو آئی (ف) بھی پریشان ہے، بالخصوص سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے یکطرفہ نتائج اور کھلے عام دھاندلیوں کی بازگشت پر وفاقی حکومت کی پراسرار خاموشی نے اس کے اشتعال میں اضافہ کردیا ہے۔

    جمعیت علمائے اسلام (ف) جو اطلاعات کے مطابق پہلے ہی مولانا فضل الرحمٰن کو صدر بنانے کے وعدے سے مُکر جانے پر اتحاد کی بڑی جماعتوں سے نالاں تھی سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ان پر جلتی پر تیلی کا کام کیا ہے اور اس نے دو ووٹوں کی بیساکھی پر کھڑی شہباز حکومت کو اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دیدی ہے۔

    مولانا فضل الرحمٰن کے دست راست تصور کیے جانے والے جے یو آئی کے رہنما مولانا راشد سومرو نے پی پی پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پی پی کی من مانیوں، مبینہ دھاندلیوں اور اپنے اتحادیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا نوٹس لیں اگر انہوں نے اس پر خاموشی اختیار رکھی تو وہ اتحاد کی بیساکھی واپس لینے پر مجبور ہوں گے، راشد سومرو نے صرف شہباز شریف کو ہی تنبیہہ نہیں کی ہے کہ بلکہ اپنے قائد فضل الرحمان سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کریں۔

    شہباز حکومت کی ایک اور اتحادی بی اے پی اور آزاد رکن اسلم بھوتانی بھی حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے ہیں ایک جانب انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خدشات اور حکومت کی بے وفائی کا کھل کر اظہار کیا تو دوسری جانب جب اس شور شرابے پر وزیراعظم نے انہیں ملاقات کیلیے بلایا تو وہاں بھی اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کو کھری کھری سناتے ہوئے واضح کردیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ان کا مزید حکومت کے ساتھ رہنا مشکل ہوگا۔

    اے این پی اراکین کی اکثریت تو حکومت سے علیحدگی کی رائے رکھتی ہے اس حوالے سے حتمی فیصلے کیلیے ایمل ولی نے عید بعد پارٹی کا اہم اجلاس بلا لیا ہے۔

    اس دوران حکومتی اتحادیوں کے اختلافات دور کرانے کیلیے آصف زرداری بھی میدان میں اترے جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی ہے تاہم ان ملاقاتوں کے بھی کوئی حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔

    ناقابل برداشت مہنگائی، اپنوں کی بیوفائی کے ساتھ ہی عدالتی فیصلوں نے بھی شہباز شریف اور حمزہ کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پہلے الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کی پی ٹی آئی کی 5 مخصوص نشستوں کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرنے اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے ووٹوں سے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ منہا کرکے فوری طور پر اگلے روز دوبارہ گنتی کرانے کے فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن کے بعد 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ اںتخاب کرانے کا حکم دیدیا گیا ہے جس پر دونوں فریقوں یعنی پی ٹی آئی اور ن لیگ نے آمادگی ظاہر کی ہے۔

    شہباز حکومت جو پہلے ہی آئی ایم ایف کے بعد اتحادیوں کا دباؤ برداشت کر رہی ہے ایسے میں عدالتی فیصلوں نے اس کی پریشانی بڑھا دی ہے، اگر 17 جولائی کو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی واضح کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں حمزہ شہباز کی ہار یقینی ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہوجائے گی اور حمزہ شہباز کیلیے وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو یہ پنجاب کے بعد تخت اسلام آباد کیلیے بھی اچھا شگون نہیں ہوگا کیونکہ یہ تو بادشاہوں کو معلوم ہی ہے کہ اگر تخت اسلام آباد پر براجمان رہنا ہے تو پھر تخت لاہور کو قبضے میں رکھنا ہوگا۔

    اس تمام صورتحال میں اگر کوئی خوش ہے تو وہ ہے پی ٹی آئی جو اقتدار سے جانے کے بعد سے سڑکوں پر ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اب تک عمران خان کی اپیل پر متعدد بار گھروں سے باہر آکر اور احتجاج کرکے ثابت بھی کردیا ہے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں؟ گوکہ 25 مئی کو اسلام آباد دھرنے کا منصوبہ نامکمل رہنے کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست میں کچھ ٹھہراؤ آیا تھا تاہم ایک ہفتے سے بدلتی صورتحال نے نئے مواقعوں کو جنم دیا ہے اور عمران خان نے ایک بار پھر سیاسی میدان گرم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مظاہرہ گزشتہ ماہ مہنگائی کے خلاف ہونے والے پی ٹی آئی کے ملک گیر احتجاج اور گزشتہ روز اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں مہنگائی کیخلاف ہونے والے بھرپور احتجاج سے ہوگیا ہے اور ان دونوں ایونٹس میں پی ٹی آئی نے بھرپور عوامی شو سے ثابت کردیا ہے کہ فی الوقت وہ ملک کے سب سے بڑے مقبول لیڈر اور عوام میں ان کا بیانیہ سب سے زیادہ پر اثر ہے۔

    تمام تر سیاسی صورتحال سے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس وقت صرف عوام کی بے چینی میں ہی اضافہ نہیں ہورہا بلکہ مقتدر حلقوں اور بند کمروں میں بھی کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے جس کا جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی نتیجہ برآمد ہونا ہے۔

  • سڑکوں پر  موت بانٹتا ہیوی ٹریفک اور چارہ گر

    سڑکوں پر موت بانٹتا ہیوی ٹریفک اور چارہ گر

    "نائٹ ڈیوٹی کرکے آنے کے بعد گھر میں سو رہا تھا کہ اچانک کانوں میں ایمبولینس کے سائرن کی تیز آواز سنائی دی۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اللہ خیر کرے کہتا ہوا گھر سے باہر نکلا تو وہاں محلے والوں کا ہجوم لگا ہوا تھا اور ایمبولینس سے میتیں نکالی جارہی تھیں، آہ و فغاں جاری تھا معلوم ہوا کہ پڑوس کے عنایت صاحب جو بیٹے کو چھوڑنے اسکول گئے تھے کہ سڑک پر دندناتے ڈمپر نے روند ڈالا اور آن کی آن میں باپ اور بیٹا دنیا چھوڑ گئے۔ متوفی گھر کے واحد کفیل اور بیٹا بھی اکلوتا تھا وہ اپنے پیچھے دو کمسن بیٹیاں اور بیوہ کو بے سہارا چھوڑ گئے۔”

    یہ کہانی تو فرضی ہے لیکن زمینی حقائق کے منافی نہیں، آئے دن ایسے حادثات رونما ہونا معمول بن چکے ہیں، ان حادثات میں زیادہ تر حادثات کی وجہ ہیں سڑکوں پر دندناتے ٹریلر، ڈمپر اور کنٹینر کے ساتھ سڑکوں پر ریس لگاتی بسیں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ چار روز کے دوران ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں ڈمپر اور ٹرالروں نے کم از کم 5 گھروں کے چراغ بجھا دیے ہیں، چار روز قبل نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگ کے قریب ڈمپر نے دو موٹر سائیکل سواروں کو کچل ڈالا، ڈرائیور فرار ہوگیا، اہل علاقہ نے مشتعل ہوکر ڈمپر جلا ڈالا، اگلے روز ایسا ہی ایک حادثہ پرانی سبزی منڈی کے علاقے میں پیش آیا جب کہ گزشتہ روز عائشہ منزل کے قریب ڈمپر کی ٹکر سے دو موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے گئے۔ اس کے علاوہ ریسکیو ادارے کی دو ماہ کی رپورٹ اٹھا کر دیکھیں تو رواں سال کے ابتدائی دو ماہ یعنی جنوری اور فروری میں ہی 151 افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ 784 افراد زخمی ہوئے ہیں اور اس حادثات کے نقصانات کے اعداد وشمار میں اگر لگ بھگ رواں سال کو پورا نصف شامل کریں تو یہ گراف کہیں اوپر پہنچ جائے گا۔ اب ان میں سے کوئی اکلوتا بیٹا تو کوئی گھر کا واحد کفیل اور کوئی جوان بہنوں کا واحد سہارا، کسی کی حال ہی شادی ہوئی ہوگی تو کسی کی ماں اپنے بیٹے پر سہرے سجانے کے خواب دیکھتی ہوگی لیکن جب گھر سے خون پھولوں کی چادر میں یہ میتیں اٹھتی ہوں گی تو اس کا حقیقی درد تو وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس کرب سے گزر رہا ہے یا گزر چکا ہے۔ ان ٹریفک حادثات شکار وہ بھی بنے ہوں گے جن کی نظریں مستقبل کے آفاق پر ہوں گی، لیکن ان کے خواب بھی ان کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہوگئے ہوں گے۔ لوگ بھی آئے دن ٹی وی چینلز، اخبارات اور اب تو سوشل میڈیا پر خبر پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ آج فلاں علاقے میں ٹینکر نے تین افراد کو کچل دیا، آج ڈمپر نے موٹر سائیکل سواروں کو روند ڈالا، بے قابو ٹرک گھر یا فیکٹری میں گھس گیا اور کئی قیمتی جانیں نگل گیا۔

    حادثے کا شکار کبھی ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہوتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے دوست، لیکن حکومت سمیت متعلقہ اداروں کی کمال بے حسی کہ ان حادثات پر اب تو رسمی بیانات اور اقدامات کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ ہم کراچی شہر میں رہتے ہیں جو کہنے کو بین الاقوامی سطح پر پہچان رکھنے والا شہر ہے لیکن یہاں کراچی کے شہریوں کو دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیں تو اس ’’بین الاقوامی‘‘ شہر کے باسیوں کی حالت زار پر صرف ’’بین‘‘ کرنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی شہ رگ کہلانے والا شہر کراچی جس کی آبادی متنازع مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ کے لگ بھگ جب کہ عمومی رائے کے مطابق ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میٹروپولیٹن قرار دیے جانیوالے اس شہر کے باسیوں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کی جاتیں جو کہ حقیقتاْ اس شہر کے باسیوں کا حق ہیں لیکن ہوا اس کے برعکس بجائے اس کے کہ عنان اقتدار پر جمے جدی پشتی حکمران کراچی کے عوام کو دستیاب سہولتوں میں اضافہ کرتے اس کے برخلاف شہریوں کو جو سہولتیں دستیاب تھیں وہ بھی ان سے آہستہ آہستہ چھین لی گئیں۔

    منی پاکستان کہلائے جانے والے کراچی کا حال تو یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مشکل ترین امر ہوگیا ہے۔ لیکن ہم یہاں صرف شہر کی خستہ حال سڑکوں پر بلاخوف وخطر دندناتے اور شہریوں میں موت بانٹتے ہیوی ٹریفک کا ذکر ہی کریں گے کیونکہ کراچی کے شہریوں کو درپیش تمام مسائل اتنے زیادہ اور گمبھیر ہیں کہ ان کا احاطہ تو ایک بلاگ میں نہیں ہوسکتا بلکہ اس کیلیے ضخیم مضمون بھی شاید ناکافی ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ حادثات کی بڑی وجہ ہیوی ٹریفک چلانے والے ڈرائیورز کا ٹریفک قوانین سے نابلد ہونا، نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا، کم عمر ڈرائیور اور سڑکوں پر ریس لگانا سرفہرست ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8 فیصد حادثات تیز رفتاری اور 17 فیصد اموات ڈرائیورز کی بے باک ڈرائیونگ کے باعث ہوتی ہیں لیکن کمال حیرت کی بات ہے کہ حادثات کے وقت کئی مقامات پر پولیس موجود ہوتی ہے لیکن حادثے کا موجب ڈرائیور اور اس کے ساتھی وہاں سے باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کہ پولیس کارکردگی پر سوالیہ نشان ہی لگاتا ہے؟ ڈمپر، ٹریلر اور ٹینکر حادثات میں اضافے کے بعد حسب روایت پولیس افسران کی جانب سے صبح 7 سے 9 تک اور شام 5 سے رات 9 تک شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور ان میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں، کنسٹریکشن مکسچر کی گاڑی، ڈمپر، واٹر ٹینکر اور ایسی دیگر گاڑیاں شامل ہیں اور ساتھ ہی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں اور تیز رفتاری اور غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا گیا لیکن اس پابندی کو عائد ہوئے تین ماہ گزر جانے کے باوجود اس پر کہیں عملدرآمد نظر نہیں آتا۔ آج بھی دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک شہر قائد کی سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ اعلانات، پابندیاں نئی بات یا پہلی بار نہیں بلکہ ریکارڈ اٹھاکر دیکھا جائے تو شہر میں ہیوی ٹریفک کے شہر میں دن کے اوقات میں داخلے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے لیکن اس پر کبھی عملدرآمد ہوا ہی نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس پر کبھی موثر طریقے سے عملدرآمد کرایا ہی نہیں گیا ہے۔ عملدرآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک قوانین پر عملد رآمد کیلیے متعین عملے کی مبینہ غفلت اور کرپشن ہے دیکھا گیا ہے اور اکثر سوشل میڈیا پر بھی ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں کہ ٹریفک اہلکار غریب موٹر سائیکل سواروں کو تو روک لیتے ہیں لیکن پابندی کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کے شہر میں داخلے پر مبینہ غفلت یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور اگر کبھی کہیں پکڑ بھی لیا جائے تو مبینہ مُک مُکا کرکے انہیں کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔

    ملک میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے ہی عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر عمر بھر کی معذوری کا عذاب سہتے ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہوتا ہے۔ نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق مستقبل میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں 2030 میں حادثات میں 200 فیصد تک اضافے کا خدشہ ہے۔ روڈ سیفٹی پروجیکٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت پر خرچ ہوتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کیلیے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے اور حادثات کے مرتکب ڈرائیورز کو قانون کی مضبوط گرفت میں نہ لانے کے باعث حادثات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ حکام نے توجہ نہ دی تو سڑکوں پر بے فکری سے دندناتے اور بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلاتے یہ ٹریلر، ڈمپر، کنٹینرز اور بس ڈرائیورز یونہی گھروں کے چراغ بجھاتے رہیں گے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کراتے ہوئے ہیوی ٹریفک کو پابندی کے اوقات میں شہر میں ہرگز ہرگز داخل نہ ہونے دیا جائے اور حادثات کے مرتکب غافل ڈرائیورز کو قانون کے کٹہرے میں لا کر ایسی سزائیں دی جائیں جو دیگر کیلیے نمونہ عبرت بن جائیں۔

  • شہباز حکومت کے شاہانہ انداز اور عوام سے ڈومور کے مطالبات

    شہباز حکومت کے شاہانہ انداز اور عوام سے ڈومور کے مطالبات

    مثل مشہور ہے کہ "اندھوں میں کانا راجا ہوتا ہے۔” شاید اندھوں کی بستی میں یہی بہتر آپشن ہوتا ہو۔ ہم اپنے وطنِ عزیز کی بات کریں تو پاکستان کے عوام کو تو اکثر بے حس راجا (حکمراں) ہی ملے ہیں جنہیں عوام سے زیادہ اپنا خیال رہا ہے، اس مثل کو دیکھتے ہوئے کہیں تو یہ سوچ ابھرتی ہوگی کہ پاکستان میں بستے عوام کو بھی کوئی کانا راجا مل جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔

    مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی کی چیخ پکار کرنے والے جب اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تو ” امید پر دنیا قائم ہے” کے مصداق غربت کی ماری عوام نے بھی ایک امید باندھی کہ زیادہ کچھ نہیں بس اتنا ہو کہ وہ سکون سے اپنے اہلخانہ کی کفالت کرسکیں۔ دو ماہ کی حکومت نے ایک ماہ کی ادھر ادھر تاکا جھانکی کے بعد جس طرح اپنی کارکردگی کی رونمائی کرائی اس نے تو غریب عوام کے چودہ طبق ہی روشن کردیے۔

    عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کی کارکردگی کی داستانیں تو لوگ روز ہی ٹی وی چینلز پر دیکھ اور اخبارات میں پڑھ رہے ہوں گے اس لیے اس پر کیا بات کریں کہ بات پھر وہی ہوگی کہ قارئین پڑھ کر کہیں گے کہ ‘دل جلانے کی بات کرتے ہو’ تو ہم تو اپنے ایک بزرگ سیاسی رہنما کے اس قول ‘ مٹی پاؤ اور روٹی شوٹی کھاؤ’ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہر اس بات سے صرف نظر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس سے دل جلے لیکن کیا کریں کہ اب تو حالات صرف ‘مٹی پاؤ’ میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور روٹی شوٹی کھانے کا معاملہ تو لگتا ہے کہ حالات ایسے ہی رہے تو غریب کے لیے روٹی شوٹی کھانے کی عیاشی بھی عید کے چاند کی طرح ہو جائے گی، کیونکہ جب بجلی، گیس، پٹرول سمیت سب کے دام اقبال کے شاہیں (جسے شہباز بھی کہا جاتا ہے) کے پر لگا کر ان کے شعر کے اس مصرع ” تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر” پر عمل کرتے ہوئے پہاڑ کیا آسمان دنیا عبور کرکے پتہ نہیں کہاں تک جا پہنچے ہیں اور سنا ہے ان کی قوت پرواز ابھی باقی ہے تو پھر ہمیں واقعی "شہباز اسپیڈ” یعنی شاہین کی قوت پرواز کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

    بلاگ لکھنا تو کسی اور موضوع پر تھا لیکن قلم بہک کر دوسری سمت چلا گیا چلیں اس کو رام کرکے ہم راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکمرانوں کی نظر میں تو ملک کے عوام کو روٹی چٹنی کھانے کی عیاشی کا بھی حق نہیں لیکن وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

    بدترین معاشی بحران کا شکار پاکستان جس کا رونا ہمارے موجودہ حکمران روتے رہتے ہیں، لیکن اس ملک کے حالات بدلنے کیلیے کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ گزشتہ ایک ماہ میں میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے کپڑے بیچ کر ملک کو سستا آٹا فراہم کرنے والے وزیراعظم اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا تو نہ دے سکے لیکن اسی عوام کے پیسوں میں سے کروڑوں روپے سے وزیراعظم ہاؤس میں پہلے سے موجود سوئمنگ پول کی مرمت کرائی گئی ہے جب کہ اسی پر بس نہیں بلکہ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم ہاؤس مزید سجاوٹ بھی ہونی ہے اس کے لیے عوام کے خون پسینے کی کتنی کمائی استعمال ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکے گا۔

    دوسری جانب دو ہفتوں میں تین بار دکھی دل کے ساتھ عوام پر پٹرول بم گرانے والے ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی عوامی خزانے کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل ہوگئے ہیں، خبر کے مطابق مفتاح اسماعیل نے اپنے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لیے سرکاری خزانے سے 48 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔

    ایک جانب عوام کے سب سے بڑے ہمدرد ہمارے حکمرانوں کے یہ شاہانہ انداز ہیں تو دوسری جانب ہمارے یہی وزیراعظم اور ان کے درباری وزرا عوام کو سادگی سے زندگی گزارنے کا درس دے رہے ہیں اور جس طرح امریکا اور آئی ایم ایف ہماری حکومت سے ڈومور ڈومور کا مطالبہ کرتے ہیں ہمارے حکمرانوں نے بھی اسی طریقے کو اپناتے ہوئے عوام سے ڈومور ڈومور کی رٹ لگا دی ہے۔

    اِدھر ہمارے وزیراعظم غریب کے بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لیے ایک روٹی کو چار حصوں میں تقسیم کرکے مل بانٹنے کا نایاب فارمولا بتا رہے ہیں تو اُدھر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے بہترین منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کو چائے کے دو کپ کم کرنے کا انمول مشورہ دے رہے ہیں، اسی دوران دربار شاہی کے دربانوں کی جانب سے آئے دن کچھ نہ کچھ ڈومور کا مطالبات پر مبنی بیانات آتے ہی رہتے ہیں۔ چلیں حکمرانوں کے ان نادر ونایاب مشوروں سے یہ تو ہوا ہے کہ کم از کم عوام کے دکھ بھرے چہروں پر ہلکی سی صحیح مسکراہٹ تو بکھری ہے کہ اس دور میں کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بہت نیکی کا کام ہے اور ہمارے نیک حکمرانوں نے یہ نیک کام بخیر وخوبی اور ہنستے کھیلتے انجام دیا ہے۔ ویسے بھی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے پیاروں کو یہ میٹھا پھل کھلانا چاہتا ہے تو حکمرانوں کیلیے عوام سے پیارا تو کوئی نہیں ہے نا اسی لیے تو انہوں نے عوام کو صبر کرکے اس کا میٹھا پھل کھانے کی ترغیب دلائی ہے کیونکہ اصلی پھل تو اب بے چارے عوام کی دسترس میں رہے ہی نہیں ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے اس لطیفہ نما مشوروں پر عوام کے چہروں پر آنے والی ہنسی کے پیچھے چھپی بے بسی کی ایک الگ کہانی ہے جس سے ہمارے حکمرانوں کو کوئی لینا دینا نہیں۔

    اب اگر ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ایک روٹی کے چار ٹکڑے کرکے مل بانٹ کر کھانے کا درس دیا یا صبر کرکے چائے کی پیالی کم کرنے کا مشورہ دیا تو اس پر عوام کا غم وغصہ اور سوشل میڈیا پر شور بپا ہوگیا اور ہمارے ایک محترم وزیر کو ارسطو کا خطاب مل گیا (ویسے ہمارے حکمرانوں میں تو سارے ہی ارسطو ہیں) تو اس پر حکمرانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب انہوں نے اپنی پیاری عوام کو اتنے پیارے مشورے دے ہی ڈالے تو پھر ” کیا ہے جو پیار تو پڑے کا نبھانا” کے حسب حال طنز تو برداشت کرنا پڑے گا کہ ان حالات میں عوام کی عیاشی کے صرف دو ذرائع تو رہ گئے ہیں کہ ایک روٹی اور دوسری چائے، جس سے لاکھوں غریب خاندانوں کا گھر بھی چل رہا ہے، اگر اس پر بھی قدغن لگ گیا تو پھر کیا ہوگا؟

    ویسے ارسطو وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی کفایت شعاری کی یہ منصوبہ بندی پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں بھی لاگو کی جائے گی کہ پاکستان بھر میں مہنگائی کی مناسبت سے چائے کا کپ 40 سے 50 روپے میں دستیاب ہے لیکن پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں یہی مزیدار چائے سے بھرا کپ بازار سے کئی گنا کم قیمت میں ہمارے غریب اور مسکین اراکین پارلیمنٹ کو فراہم کیا جاتا ہے اور بات آئے روٹی کی تو غریب پارلیمنٹرین کی کینٹین میں اتنی سستی روٹی ہے کہ اگر حقیقی غریب عوام تک اس کا دروازہ کھول دیا جائے تو شاید وہ بددعائیں دینے کے بجائے حکمرانوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دینے لگیں۔

    اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سال 2021ء کے قومی انسانی ترقیاتی جائزے (این ایچ ڈی آر) میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اسی پاکستان کے 9 کروڑ لوگ جو کہ مجموعی آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد ہے اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

    اس سروے رپورٹ کی عملی شکل ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کو حاصل مراعات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور دوسری جانب غربت کا نظارہ کرنا ہے تو اسی سے اندازہ لگا لیں کہ موجودہ حکومت کے دو ماہ کے اندر متعدد افراد نے غربت کے باعث اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا ہے اور جو یہ نہ کرسکے تو اپنے بچوں کی کفالت نہ کرنے کا بوجھ دل پر لے کر تھانے گرفتاری دینے یا اسمبلیوں میں دہائی دینے خاندان سمیت پہنچ رہے ہیں لیکن انہیں کہیں ایسا در نہیں مل رہا جہاں ان کی شنوائی ہوسکے۔

    مسلمانوں کے دوسرے خیلفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا۔

    ہمارے لیے رول ماڈل خلیفہ دوم کا یہ قول صرف کسی مخصوص زمانے کیلیے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کیلیے ایک واضح تنبیہ ہے۔

  • بڑھتی ہو ئی  اسلام دشمنی، مسلم دنیا بھارت کو  کیسےلگام ڈالے؟

    بڑھتی ہو ئی اسلام دشمنی، مسلم دنیا بھارت کو کیسےلگام ڈالے؟

    آج ایک بار پھر منکر اسلام اور دشمنان رسول ﷺ کی یلغار ہوئی ہے وہ جو ہمیشہ سے ہی اسلام کو مٹانے اور عظمت رسول ﷺ کو نعوذ باللہ نشانہ بنانے کیلیے ناکام کوششوں میں مصروف رہتے ہیں وہ آج ایک بار پھر حملہ آور ہوئے ہیں اور یہ حملہ کسی یورپی یا مغربی ملک سے نہیں ہوا ہے بلکہ ہندو توا کی حامی مودی حکومت کے بھارت میں ہوا ہے-

    مغرب اور یورپی ممالک میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر اسلام کی مخالفت اور برگزیدہ و مقدس ہستیوں سے متعلق توہین آمیز بیانات پر اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں عوام کی جانب سے سخت ردعمل اور احتجاج کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ رُو سیاہ کبھی گستاخانہ خاکے، کبھی کسی برگزیدہ ہستی کی زندگی پر فلم بنا کر یا کوئی توہین آمیز بیان دے کر مسلمانوں میں اشتعال انگیزی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔

    گزشتہ دنوں ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت بھارت میں ہندتوا کی حامی مودی کی جماعت کے اراکین نے کی تو پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک نے سخت ردعمل دیتے ہوئے بھارت سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا۔

    بھارت میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پالیسیوں نے بھارت میں مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو ہوا دی ہے۔ ہندو انتہا پسند کبھی کسی مسجد کو ڈھانے پر تُل جاتے ہیں، کبھی مسلمانوں کے لیے گائے کا گوشت کھانے پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب کو مسئلہ بنا کر مسلمانوں کو بغض و عناد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں‌ مسلمانوں کو معاشی اور ہر لحاظ سے پستی میں‌ دھکیلنے کی کوششیں‌ کی جارہی ہیں‌ اور انتہا پسند ہندوؤں کو بی جے پی کی خاموش حمایت حاصل ہے، لیکن اس مرتبہ جب بی جے پی کے دو اراکین کی جانب سے شانِ رسالت ﷺ میں توہین آمیز بیان دیا گیا تو بھارت اور دنیا بھر لگ بھگ دو ارب مسلمانوں اور تمام اسلامی ممالک نے مودی سرکار سے سخت احتجاج کیا ہے۔

    بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کے یکے بعد دیگرے بیانات کے بعد بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے یک زبان ہو کر ان کے خلاف سخت ترین کارروائی اور بھارتی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے، جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے کسی نہ کسی سطح پر دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ خلیجی اور عرب ممالک سمیت پاکستان، بھارت، ایران، افغانستان، مصر، ترکی، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں مسلمان غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف سڑکوں پر بھرپور احتجاج کررہے ہیں۔ یورپی، افریقی اور امریکا میں بھی جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں بھی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج ہورہا ہے۔ بھارت کی بات کریں تو وہاں مختلف ریاستوں اور تمام بڑے شہروں میں مسلمان احتجاج کے لیے نکلے، لیکن ان پر پولیس ٹوٹ پری اور وحشیانہ تشدد کیا جس میں درجنوں مظاہرین زخمی اور متعدد جان سے گئے۔ پولیس نے کئی شہروں‌ میں نہ صرف مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان پر بدترین تشدد کیا بلکہ ان پر جھوٹے الزامات میں مقدمات بنا کر گھروں کو بھی مسمار کردیا ہے۔

    پاکستان سمیت تمام عالمِ‌ اسلام نے بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں اور سعودی عرب، یو اے ای، ایران، قطر، بنگلہ دیش، ترکی و دیگر ممالک میں بھارتی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے جب کہ اسمبلیوں میں بھی مذمتی قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔

    دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کا احتجاج اور دباؤ ہی ہے کہ مودی سرکار نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پہلے ان بدبختوں کی پارٹی رکنیٹ معطل کی پھر نوپور شرما اور نوین جندال کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، لیکن مودی حکومت کی مسلمانوں سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور کئی فیصلے ایسے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مودی کی حکومت ہندوتوا کو فروغ اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کررہی ہے اور یہ سب بیرونی دباؤ پر کیا گیا ہے اور مقدمہ محض دکھاوے کی کارروائی ہے۔ جس کا ثبوت یہ بھی ہے اب تک وزیراعظم مودی اور ان کے تمام وزرا نے اس معاملے پر پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ویسے بھی مودی ہندوتوا کی حامی جماعت آر ایس ایس کے بانی اور تاحیات رکن ہیں اور ان سے مسلمانوں کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عوامی اور سرکاری سطح پر حالیہ احتجاج کے بعد بھارتی حکومت وہاں کے مسلمانوں کے خلاف اپنی روش ترک کر دے گی اور ان کو مذہبی آزادی کے ساتھ سماج میں اپنے حقوق اور تحفظ بھی حاصل ہو جائے گا؟

    بھارت میں توہین آمیز بیانات کے بعد عمان کے مفتیٔ اعظم کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی جس پر وہاں سپر اسٹورز بھارتی مصنوعات سے خالی ہونے لگے تھے جب کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا تھا کہ خلیجی ممالک کی کمپنیاں بھارتی ملازمین کو فارغ کررہی ہیں، لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

    یہ سب پہلی بار نہیں ہوا ہے اور ماضی قریب میں کبھی فرانس تو کبھی امریکا اور خود کو ترقی یافتہ و مہذب کہنے والے ممالک میں بدبختوں نے اسلام اور شانِ رسالت میں ہرزہ سرائی کی ہے جو اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کے ساتھ دنیا کا امن تہ و بالا کرنے کا سبب بنا ہے۔

    ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں‌ مسلمانوں کی بڑی تعداد حیران کن ہے اور اس رپورٹ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اور بعض ماہرین کی تحقیقی رپورٹوں‌ کے مطابق 2050 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔ دنیا کے نقشے پر 57 اسلامی ملک موجود ہیں دنیا کے 10 بڑے آبادی والے ممالک میں اسلامی ملکوں کی تعداد 6 ہے، جن میں سے ایک ملک دنیا کی آٹھویں ایٹمی طاقت ہے، لیکن افسوس کہ اپنی پالیسیوں، مغرب اور یورپ کی کاسہ لیسی اور باہمی اختلافات کے باعث ان 57 ممالک کی حیثیت صرف کاغذی شیر کی سی ہے۔ آج کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لیے مسلمان ممالک کو مضبوط معیشت کے ساتھ علم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کی ضرورت ہے۔ دنیا کو ہماری اس کمزوری اور علم و فنون کے میدان میں پستی کا علم ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔

    آج کی دنیا معیشت کی دنیا ہے، جس کی معیشت مضبوط اس کا ملک مضبوط۔ بھارت لگ بھگ دو ارب کی آبادی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کی بڑی مارکیٹ ہی کسی بھی ملک کو بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے روکتی ہے، آج بڑی تجارتی منڈی ہونے کی وجہ سے بھارت دنیا کی پہلی ترجیح ہے۔ اسلامی ممالک کے بھی بھارت سے معاشی مفادات وابستہ ہیں اگر ان واقعات کی روک تھام کرنی ہے تو پھر ان اسلامی ممالک کو اپنے وقتی معاشی فوائد کو نظرانداز کرکے بڑا فیصلہ کرنا ہوگا۔

    معاشی طور پر مضبوط اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب بھارت کو تیل بیچنے والا سب سے بڑا ملک ہے دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے ممالک میں بڑی سرمایہ کاری ہے اسی طرح یو اے ای اور بھارت بھی ایک دوسرے کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، رواں برس ہی دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو ایک سو ارب ڈالر سے آگے لے جانے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اسی طرح دیگر ممالک کے بھی تجارتی تعلقات ہیں۔

    یہاں یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ معیشت صرف اسلامی ممالک کیلیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی اہم ہے، ماضی میں جب ملائیشیا صرف اپنے صدر مہاتیر محمد کے دورہ برطانیہ کے موقع پر ان کا کارٹون برطانوی اخبارات میں شائع ہونے پر برطانیہ سے تجارتی تعلقات منقطع کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے، تو پھر بھارت سے تجارت کے رشتے میں بندھے اسلامی ممالک انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ متحد ہوکر اور متفقہ فیصلہ کرکے بھارت کو بھی اسلام دشمن اور توہین رسالت جیسے واقعات کی حتمی روک تھام اور توہین کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے معاشی تعلقات ختم کرکے اسے اسلامی دنیا کے آگے گھٹنوں کے بل گرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔