Tag: ریحان خان کا بلاگ

  • مفتاح اسماعیل کا قہقہہ اورعوام کی  دوڑ

    مفتاح اسماعیل کا قہقہہ اورعوام کی دوڑ

    عوام ابھی حکومت کی جانب سے خود پر دو بار’ پٹرول بم’ گرائے جانے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ ہمارے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے ایک پُراسرار قہقہے نے انہیں‌ ایک بار پھر دوڑ لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔

    وزیر کا قہقہہ اور عوام کی دوڑ کا آپس میں کیا تعلق ہے، یہ ہم ابھی واضح کر دیں گے۔ آج کے اس دور میں خالی پیٹ اور سوکھی جیب والوں کیلیے یہ نسبتاً دھیما قہقہہ بھی کسی بم سے کم ثابت نہیں‌ ہوا۔ مہنگائی کی اس چلچلاتی دھوپ میں عوام کو کچھ لمحے تو فرحت کے محسوس ہوتے ہیں، لیکن حکمرانوں کو شاید یہ بھی گوارا نہیں کہ غریب بلکہ ان کی نظر میں بھکاری عوام کچھ وقت چہرے پر مسکان ہی سجا سکیں۔ جبھی تو وزیر خزانہ نے ایک ایسا قہقہہ لگایا جس نے کراچی تا خیبر عوام کے ہونٹوں سے باقی ماندہ مسکان کیا چھینی بلکہ تفکر کی نئی لکیریں اور ڈال دیں جو پہلے ہی سے مارے ہوئے تھے ان کو "مرے کو مارے شاہ مدار” یا ” دس درے اور مارنے” کے مترادف مفتاح نے اپنے شاہانہ قہقہے سے نواز دیا، گو کہ اب تک اس قہقہے کی حقیقت یا خدوخال واضح نہیں ہوئے لیکن پہلے کے ڈسے عوام نے آؤ دیکھا نہ تاؤ صرف جیب میں پڑے چند روپے دیکھے اور پھر دوڑ لگا دی۔ اب پڑھنے والے اس الجھن میں ہوں گے کہ مفتاح اسماعیل صاحب نے ایسا کون سا قہقہہ لگایا جس پر عوام کی دوڑ لگ گئی۔

    تو جناب عالی یہ کوئی خالی خولی قہقہہ نہیں بلکہ اس میں پاکستانی عوام کی مزید کھال کھینچنے کا منظر نامہ پوشیدہ تھا، تھی تو اسلام آباد میں بزنس کمیونٹی کی تقریب اور وہاں موصوف نے حسب سابق انہیں اپنی دو ماہ پرانی مگر تاحال نئی نویلی دلہن کی طرح برتاؤ کرتی شہباز اسپیڈ حکومت کی کارکردگی اور سابق حکومت کی چھوڑی گئی پریشانیوں کی روداد سنانی تھی لیکن نہ جانے انہیں اس موقع پر عوام سے مذاق کرنے کی کیا سوجھی کہ پہلے مسکرائے بلکہ باقاعدہ قہقہہ لگایا پھر کہا کہ "پٹرول” تو سننے اور دیکھنے والے اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ شاید حکومت کو عوام کا کچھ خیال آگیا ہے اور شاید ان کے لیے اس قہقہے میں کوئی خوشی کی خبر ہو لیکن حکمرانوں کے بارے میں خوش گمان عوام کے لیے اگلا لمحہ بڑا سنگین تھا جب ہمارے وزیر خزانہ نے اپنا جملہ پورا کیا کہ پٹرول ابھی تھوڑا اور مہنگا ہوگا اور یہ تھوڑا مہنگا تو سب کو پتہ ہے کہ شہباز اسپیڈ کی حکومت میں 30 روپے تھوڑا کم ہی اضافہ ہوتا ہے۔

    اب بھلا یہ بھی کوئی قہقہہ لگا کر بھری دوپہر میں سنانے والی بات تھی اچانک رات گئے ٹی وی پر آتے اور بم گرا دیتے، عوام نے ان کا کیا بگاڑ لینا تھا وہ پہلے سے ہی زخم خوردہ ہیں زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک جاتا تکلیف بڑھتی پھر اللہ اللہ خیر صلّا، لیکن ہوا یہ کہ دن دیہاڑے اس حکومتی قہقہے نے عوام کو چوکنا کردیا اور انہوں نے پٹرول پمپوں کی طرف دوڑ لگا دی پمپس والے بھی حیران اور پریشان کہ ایسا کیا ہوگیا کہ عوام کا رش ٹوٹ پڑا، یہ منظر دیکھ کر عام شہریوں کو بھی تشویش ہوگئی۔ بعد میں‌ وزیر موصوف کو عوام کی اس بھاگ دوڑ کا علم ہوا تو ان کی جانب سے وضاحت کردی گئی اور کہا گیا کہ ایسا کچھ نہیں‌ ہونے جارہا اور ان کی بات کو غلط سمجھا گیا ہے۔

    خیر، اب بیچاری اس غریب عوام کو سمجھ میں آگیا ہے کہ جس طرح امریکا میں کوئی ڈنر مفت نہیں ہوتا اس طرح پاکستان میں سیاستدانوں بالخصوص حکمرانوں کے قہقہے بھی خالی خولی نہیں ہوتے ان میں بھی عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے تو پیارے عوام تیار رہیں کہ یہ پہلا قہقہہ ہے جو قہر بن کر عوام پر ٹوٹنے والا ہے دعا کریں کہ یہ آخری قہقہہ ہو ورنہ عوام فیض احمد فیض کو یاد کرتے ہوئے یہ گنگنانے پر مجبور ہوں گے۔

    یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

  • پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    گزشتہ رات تقریباً ساڑھے نو بجے کا وقت تھا عوام شام ہی کو بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا خبر پاچکے تھے اور ابھی خود کو سنبھال ہی رہے تھے کہ اچانک ٹی وی اسکرین پر ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا چہرہ دکھائی دیا جنہوں نے ایک ہفتے کے دوران پٹرول کی قیمتوں میں دوسری بار 30 روپے فی لیٹر اضافے کا مژدہ سنا دیا اور یہ خبر ایسی تھی کہ ہر طرف ہلچل مچ گئی۔

    جس طرح 29 روزے مکمل ہونے کے بعد عشاء کی نماز تک عید کے چاند کا اعلان نہ ہونے پر لوگ قدرے پُرسکون ہونے لگتے ہیں کہ اچانک کہیں سے شہادتیں ملنے پر اگلے دن عید کی نوید سنائی جاتی ہے اور لوگ پھر اپنے سارے کام اور آرام چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں تو ایسا ہی کچھ گزشتہ شب ہوا۔ جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوا تو عوام سمجھے کہ مہنگائی کی چاند رات ہوگئی ہے، اس لیے جو کھانا کھا رہا تھا وہ کھانا چھوڑ کر جو آرام کر رہا تھا وہ بستر سے اٹھ کر اور جو بیوی بچوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہا تھا وہ انہیں حیران و پریشان چھوڑ کر اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں لے کر پٹرول پمپس کی طرف نکل گیا۔ لیکن باہر نکلتے ہی شہر بھر کے اکثر پٹرول پمپ ایسے بند ملے کہ جیسے یہاں سے کورونا وائرس ہوکر گزرا ہو، شہر کے چند ایک پٹرول پمپس کھلے بھی ملے تو وہاں عید کی چاند رات پر مارکیٹوں میں پڑنے والا رش جیسا ہجوم نظر آیا۔ گاڑیوں کی طویل قطاریں ایسی تھیں کہ لگتا تھا کہ پٹرول میں 30 روپے لیٹر اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ مفت بٹ رہا ہے، یا سیل لگی ہوئی ہے۔

    ابھی یہ مناظر نگاہوں کے سامنے تھے کہ ساتھ ہی ماضی قریب کی یادوں کے کچھ دریچے بھی وا ہونے لگے۔ شاعر اختر انصاری نے کیا خوب کہا ہے:

    یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
    یاد کے تند و تیز جھونکے سے
    آج ہر داغ جل اٹھا میرا

    تو ماضی قریب کی یاد کا ایسا تند و تیز جھونکا آیا جس سے ہمارا ہر داغ جل ہی اٹھا کہ زیادہ پرانی نہیں، آج سے تین چار ماہ قبل ہی کی تو بات ہے۔ پاکستان کے عوام کے حافظے میں ضرور یہ سب تازہ ہوگا جب اس وقت کے "نئے پاکستان” میں "پرانے پاکستان” کے داعی پیٹوں میں کس طرح عوام کی حالت زار دیکھ دیکھ کر مروڑ اٹھتا تھا اور اس وقت وہ لوگ یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ "عمران حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ "، "یہ عوام دشمن حکومت ہے۔”، اور یہ بھی کہا جاتا تھاکہ "عمران خان کو عوام کا کوئی خیال نہیں۔”، "یہ سلیکٹڈ ہیں۔” اور اپوزیشن عوام کو یہ بھی بتاتی تھی کہ "مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔”، ” عوام کو سستا مکان اور بیروزگاروں کو کروڑوں نوکریاں‌ دینے کی بات کرنے والے نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔”‌ اور سب سے بڑھ کر اسی پٹرول کی قیمت میں اضافے پر کہا جاتا تھا کہ”پٹرول کی قیمت میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ عوام پر ظلم ہے۔”، "ہم نے ہمیشہ عوام کو ریلیف دیا اور موقع ملا تو دوبارہ ریلیف دیں گے۔”

    یہ تھے وہ خوش کن نعرے جو پرانے پاکستان کے موجودہ حکمران اور ان کے حلیف عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن بن کر لگاتے تھے۔ یہ نعرے اس وقت لگتے تھے جب ملک میں پٹرول 150 روپے لیٹر تھا، سی این جی 230 روپے کلو میں دستیاب تھی، ڈالر 175 سے 180 کے درمیان تھا، کوکنگ آئل اور گھی 350 روپے کلو میں عوام کو دستیاب تھے، عوام آٹا 70 سے 80 روپے کلو خرید کر پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے، بیرون شہر اور اندرون شہر ٹرانسپورٹ کے کرائے کم تھے، بجلی کے نرخ بھی آج سے کم تھے اور بجلی مکمل نہیں مگر پھر بھی دستیاب تو تھی۔ لیکن آج یہی خوش نما نعرے لگانے والے "پرانا پاکستان” کے داعی عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے والوں کی حکومت ہے اور لگ بھگ دو ماہ ہوچکے ہیں لیکن ان دو ماہ میں پٹرول 150 سے 210 روپے، ڈالر 175 سے 200 روپے کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے، بجلی کی قیمت میں عمران دور حکومت کی نسبت فی یونٹ 47 فیصد تک اضافے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس پر بھی بجلی دستیاب نہیں ہے، مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے اور دیہات میں 18 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ سی این جی نے یک دم 70 روپے چھلانگ مار کر ٹرپل سنچری کرلی، کوکنگ آئل اور گھی، مرغی اور گائے کا گوشت سب 500 روپے کلو سے تجاوز کرگئے ہیں۔ آٹا بھی سنچری عبور کرنے کے قریب ہے بلکہ بہت سے علاقوں میں تو یہ 100 کی حد بھی عبور کرچکا ہے۔

    پٹرول کی قیمتوں سے براہ راست ٹرانسپورٹ کرائے تو بڑھے ہی ہیں اسی تناسب سے کھانے پینے کی اشیا، پھل، سبزیوں، دودھ، دہی، انڈوں، گوشت غرض کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور اب تو وزیراعظم کے ماتحت وفاقی ادارہ شماریات نے بھی تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اور حالیہ جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے مہنگائی ریکارڈ شرح پر پہنچ گئی ہے اور 20 فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جو ملک کے بدترین معاشی حالات میں دو ماہ میں اب تک 6 غیر ملکی دورے کرچکے ہیں نے گزشتہ ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے پر انتہائی "دکھی” انداز میں کہا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ عوام کے پاس کھانے اور دوا تک کے پیسے نہیں ہیں اور پٹرول قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ "دل پر پتھر” رکھ کر کیا تو اب جناب نیا اضافہ ہوچکا ہے، اب دیکھتے ہیں وزیراعظم عوام کا درد کتنا دل میں سمو کر اور کتنا چہرے پر ظاہر کرکے قوم کو بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ انہوں نے اب ” کتنی بڑی چٹان” دل پر رکھ کر کیا ہے۔

    اس ملک کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور غریب عوام یوں تو عمران خان کے دور حکومت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید نہیں ہورہی تھی لیکن آج سے قدرے بہتر اور سکون کی حالت میں تھی، پرانا پاکستان کے نام پر جو جال پھینک کر سیاست کے کھلاڑیوں نے قوم کا حال کردیا ہے شاید اس کی توقع اس قوم کو نہیں تھی۔

    پوری قوم شہباز حکومت کے فیصلوں پر انگشت بدنداں ہے کہ بقول حکمران ہمارے پاس زہر خریدنے کے پیسے نہیں ہیں لیکن شاہانہ غیر ملکی دورے جاری ہیں، وزیراعظم اور ان کے کسی وزیر مشیر نے عوام کے دکھوں پر سوائے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ ان کے دکھوں کے مداوے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے حسب روایت مہنگائی کے اس طوفان کا ملبہ بھی سابق حکومت پر ڈال دیا گیا ہے لیکن عوام سب دیکھ رہے ہیں، عمران خان کے دور حکومت میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مارچ کی قیادت کرنے والے بلاول بھٹو اور مہنگائی کا رونا رونے والی پی ڈی ایم آج اسی حکومت کے دست راست بنے ہوئے ہیں جنہوں نے صرف دو ماہ میں عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں غرق کردیا ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ سابق دور میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مکاؤ مارچ کے نام پر تماشا لگانے والی پی پی پی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب خاموش تماشائی بنے ہیں شاید انہیں ملک کے خارجہ معاملات دیکھنے سے فرصت نہیں یا پھر وہ اپنی سابقہ حریف مسلم لیگ ن کی بے بسی کا تماشا انجوائے کررہے ہیں، اس کے ساتھ ہی سابقہ حکومت 5 یا 10 روپے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے پر شور مچانے والی ایم کیو ایم بھی اس 60 روپے کے ریکارڈ اضافے پر لب سیے ہوئے ہے۔

    مہنگائی مکاؤ کے فریبی نعرے سے وجود میں آنے والی حکومت کے لگ بھگ دو ماہ میں عوامی سہولت کے لیے اٹھایا گیا کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آتا کہ جس پر اسے سراہا جا سکے، حتیٰ کہ حج پالیسی میں بھی حد سے زیادہ تاخیر کا شکار کرکے عازمین حج کو اذیت میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت اور ان کے حلیفوں نے کچھ بھلائی کے کام کیے بھی ہیں تو لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد میں ہی کیے ہیں، مثلاً نیب ترامیم، انتخابی اصلاحات، ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے "سب کے سب” نیب اور ایف آئی اے کے مجرموں یا ملزموں کے ناموں کا بیک جنبش قلم نکال دینا، تفتیشی اداروں کے سربراہوں کے تبادلے وہ تو خیر ہو کہ عدالت نے اس کا نوٹس لیا اور یہ سلسلہ کچھ تھما تھا۔

    ملک و قوم کا نعرہ لگانے سے نہ تھکنے اور ہر وقت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں کی آمرانہ طرز حکومت کے پروردہ لوگوں نے شاید اپنے گھروں کو ملک اور اپنے بچوں کو قوم سمجھ رکھا ہے اسی لیے شہباز حکومت میں ایسے اقدام کثرت سے نظر آتے ہیں کہ جس میں بقول ان کے "ملک و قوم کی بھلائی” مضمر ہے۔ اب تو شاید پوری قوم کو ہی سمجھ میں آگیا ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں ملک و قوم کی بھلائی اصل میں کس کی بھلائی ہے۔

    عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب نے یہ شعر شاید آج کے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے کہا تھا۔

    قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

    قتیل شفائی مرحوم کو بھی شاید آنے والے وقت کا ادراک ہوگیا تھا جب ہی وہ بھی کہہ گئے کہ

    حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
    اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

    اسی لیے شاید عوام کی قوت برداشت کے حوصلے بھی پست سے پست ہوتے ہوتے اب ختم ہوچلے ہیں کہ اب انہوں نے حکومتوں سے حقیقی معنوں میں عوام کیلیے کسی اچھی خبر کی امید رکھنا ہی چھوڑ دی ہے۔ کسی شاعر نے یہ بھی تو کہا تھا کہ

    اتنی مہنگی پڑی ہیں تعبیریں
    خواب آنکھوں میں اب نہیں آتے

    یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں اب سب کچھ بلا خوف وخطر کہنے کی اجازت ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی لوگوں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جس میں بلاتفریق اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ ملک مشکل حالات میں ہے تو ہمیشہ قربانیاں عوام سے ہی کیوں مانگی جاتی ہیں حکومت کرنے والے برسراقتدار بھی قربانیاں دینے کا حوصلہ پیدا کریں اور اسی تناظر میں بڑی شدومد کے ساتھ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکمران، وزرا کی فوج ظفر موج، اراکین پارلیمنٹ، بلاتفریق تمام سرکاری اداروں کے افسران کی شاہانہ مراعات ختم کرکے ان سے بھی قربانی میں حصہ ڈلوایا جائے، شاید عوام کا یہ ردعمل ہی ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کے اعلانات سامنے آئے ہیں لیکن پٹرول الاؤنس میں 40 فیصد کمی اس کا مکمل علاج تو نہیں۔

    انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

    ویسے بھی پوری قوم جانتی ہے کہ عوام کا درد لیے اسمبلیوں میں آنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے مالی طور پر اتنا نوازا ہوا ہے کہ انہیں تو مراعات تو دور تنخواہ کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ عوام کا درد محسوس کرنے کا اپنا "محنتانہ” وصول کرنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے لیکن صرف محنتانہ ہی وصول کریں ساتھ میں شاہانہ مراعات تو نہ لیں اور اگر حکومت عوامی دباؤ میں کچھ ایسا فیصلہ بھی کرے تو صرف اعلان تک محدود نہ رکھے بلکہ جس طرح کے عوام کیلیے فوری فیصلے ہورہے ہیں اسی طرح ان کی شاہانہ مراعات ختم کرنے کے فوری ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جائیں یعنی فوری عملدرآمد شروع کردیا جائے۔

  • وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش، افواہوں کا بازار گرم

    وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش، افواہوں کا بازار گرم

    احتجاجی سیاست کو نیا ڈھب دینے والے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سڑکوں پر ہیں اور پچھلے چند ہفتوں سے لانگ مارچ کا نعرہ بلند کرکے عوام کو تیار کرتے رہے کہ یہ حقیقی آزادی کی جدوجہد ہے اور وہ لانگ مارچ کرکے اسلام آباد پہنچیں‌ گے اور وہاں دھرنا دیں گے اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

    عمران خان ہر رکاوٹ عبور کرکے اسلام آباد تو پہنچ گئے لیکن وہاں دھرنا نہیں دیا بلکہ جلسہ کرکے لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 6 روز کے اندر نئے الیکشن کروائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ایک بار پھر 20 لاکھ افراد کو لے کر اسلام آباد پہنچیں گے۔ اگلے روز انہوں نے اس کی مزید وضاحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر اس شام میں اسلام آباد رک جاتا تو خون خرابہ ہوجاتا۔ ملک و قوم کے وسیع مفاد میں اسلام آباد سے واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    دوسری جانب لانگ مارچ شروع ہونے کے اگلے روز قومی اسمبلی اجلاس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ دینے کا حق واپس لینے اور نیب قوانین میں ترامیم کے بلوں کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اپنی تقریر میں حسب روایت گرجے برسے اور کہا کہ وہ عمران خان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے اور الیکشن کا فیصلہ یہ ایوان ہی کرے گا لیکن ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش بھی کی اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہک موجودہ حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکاری پی ٹی آئی کی جانب سے بھی فوری طور پر کہا گیا کہ وزیراعظم مذاکراتی کمیٹی بنائیں، بات چیت کیلیے تیار ہیں۔

    پی ٹی آئی کا موقف کہ خون خرابے سے بچنے اور ملک و قوم کے مفاد میں اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ واپس لیا اور حکومت کا موقف کہ پی ٹی آئی عوام کو سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہی اور اپنی ناکامی کو وہ خون خرابے اور ملک کے وسیع مفاد کے بیانیے میں چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ ساتھ ہی دونوں جانب سے ایک دوسرے کو مذاکرات کے ڈول ڈالنا یہ وہ عوامل ہیں جس کے بعد ملک میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہوگیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اسلام آباد کی جانب بڑھتے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کے قدموں کی گونج نے ایوانوں میں لرزہ طاری کیا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ لانگ مارچ ناکام ہوگیا اور پی ٹی آئی نے پسپا ہونے کے بعد حکومت سے مذاکرات کی ہامی بھری، لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور اس کے بعد حکومتی اقدامات پر عدالتوں کا فوری حرکت میں آنا اور ایسے فیصلے دینا جس سے پی ٹی آئی کو ریلیف ملا ہے، اس نے حکومت کو لچک کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کردیا۔ جس کا واضح ثبوت سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کے ملکی صورت حال سے متعلق فیصلوں کے بعد ن لیگ کے بعض سیاسی رہنماؤں کے بدلتے لب ولہجے ہیں، بالخصوص ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز جن کا ماضی اداروں کو تنقید کے حوالے سے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، انہوں نے اپنے ٹوئٹر بیانات میں عدالتوں کو نرم لہجے میں مشورہ بھی دینا شروع کر دیا ہے۔

    ادھر سابق وزیراعظم نواز شریف جو لندن میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں موجود لیگی قیادت اور حکومت ان کے اشارے کی منتظر رہتی ہے اور کوئی فیصلہ ان کی رضامندی کے بغیر نہیں کرتی، نے گزشتہ دنوں حکومت چھوڑنے کا گرین سگنل دیتے ہوئے واضح کہہ دیا تھا کہ اگر آئی ایم ایف سے اچھا پیکیج نہیں ملتا تو حکومت جلد از جلد قومی اسمبلی سے نیب قوانین میں ترامیم اور انتخابی اصلاحات منظور کرائے اور اس کے فوری بعد حکومت سے باہر آجائے اور اب جب کہ نواز شریف کی یہ دونوں خواہشات جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوری ہو گئیں تو پھر کچھ بھی ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔

    حکومت نے گوکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے دباؤ میں گزشتہ شب اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ 30 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا اور آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتیں بھی بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ تاہم ن لیگ میں اکثریت کی رائے یہی ہے کہ قیمتیں بڑھانے کی بجائے فوری الیکشن کرائے جانے چاہییں کیونکہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پارٹی کی عوام میں مقبولیت کو بری طرح نقصان پہنچے گا، ن لیگ کے سینیئر رہنماؤں کی اکثریت کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنا پارٹی کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

    ان حالات میں ملک بالخصوص سوشل میڈیا پر تو افواہوں کا بازار گرم ہوچکا ہے اور مقتدر حلقوں کی جانب سے عمران کو یقین دہانیوں کی بات کی جارہی ہے جن میں کچھ ایسی باتیں بیان کی جارہی ہیں کہ ‘عمران خان نے دھرنے کا فیصلہ ایسے ہی واپس نہیں لیا بلکہ سب معاملات طے ہوچکے ہیں، اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر وزیراعظم شہباز شریف کے دستخط کرکے لفافہ صدر کے پاس رکھ دیا ہے جس کا اعلان 2 جون کو ہوگا، تب تک کیئر ٹیکر حکومت کا فیصلہ کیا جائے گا، قوم الیکشن کی تیاری کرے۔’

    اسی طرح یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ مذاکرات میں فیصلہ 25 مئی کو دن 12 بجے ہی ہوگیا تھا لیکن عمران خان نے کہا کہ درمیان میں آنے والوں سے کہا کہ مجھے کسی کے زبانی کہنے پر یقین نہیں ہے، سمری لکھ کر صدر کے پاس رکھ دو، پھر جب قافلے ہر طرف سے اسلام اباد داخل ہوئے اور آئی ایم ایف سے حکومت کے مذاکرات بھی ناکام ہو گٸے تو صبح 4 بجے حکومت کی جانب سے سمری صدر کو بھیج دی گئی جس پر صدر علوی نے عمران خان کو آگاہ کیا اور تب عمران خان 6 دن کا وقت دے کر اسلام آباد سے واپس ہوئے۔’

    یہ افواہیں یا قیاس آرائیاں سوشل میڈیا پر کافی گردش کررہی ہیں اور لوگ اس کو پھیلا رہے ہیں۔ تاہم ملکی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے خاموشی ہے۔ ادھر عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بھی ڈیل نہ ہونے کی واضح بات اور حکومت کی جانب سے اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کے بیانات کے بعد یوں بھی اس قسم کی باتوں اور قیاس آرائیوں کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی لیکن یہ سارا تماشا اب بھی سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ ساتھ ہی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اور حکومتی کھیلوں میں اس سے قبل بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ زبان پر کچھ ہوتا ہے، پس پردہ کچھ اور نتیجہ کچھ سامنے آتا ہے۔

    اب چاہے نواز شریف کا مشرف سے معاہدہ ہو، بینظیر اور مشرف کے درمیان معاہدہ ہو یا معاہدے کے تحت ہی مشرف کا صدر کا عہدہ چھوڑنا، جب یہ باتیں باہر نکلیں تو پہلے متعلقین اس کی بھرپور تردید کرتے رہے لیکن جب سب کچھ ویسے ہی سامنے آیا تو انہیں ماننا ہی پڑا۔

    ہوسکتا ہے کہ آج بھی تمام تر تردید اور مسلسل بیانات کے باوجود ان افواہوں سے ہی کوئی حقیقت جنم لے لے، کیونکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے۔” آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، یہ جلد واضح ہو جائیگا لیکن سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی بقا اور استحکام ان کی انا اور ضد سے بڑھ کر ہے۔

  • کیا ملک اس وقت کسی تصادم کا متحمل ہوسکتا ہے؟

    کیا ملک اس وقت کسی تصادم کا متحمل ہوسکتا ہے؟

    پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی بیرونی سازش کے تحت لائی گئی "امپورٹڈ حکومت نامنظور” کے بیانیے کے ساتھ ملک بھر میں جلسے کرنا شروع کر دیے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ ماہ جاری رہنے کے بعد 20 مئی کو ملتان میں ہونے والے جلسے میں جاکر تھما جہاں اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے تاریخ کا اعلان ہونا تھا۔ انہوں نے اس مارچ کو حقیقی آزادی مارچ کا نام دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ موجودہ حکومت ختم کر کے فوری عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ تاہم بعض یقین دہانیوں اور پس پردہ کوششوں کے وعدوں کے باعث 20 مئی کو اعلان تو نہ ہوسکا لیکن 22 مئی کو پشاور میں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد حقیقی آزادی مارچ کے لیے 25 مئی کی حتمی تاریخ دے دی گئی۔

    پی ٹی آئی کے ‘حقیقی آزادی لانگ مارچ’ کی حتمی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی حکومت بھی حرکت میں آگئی اور اپنے اتحادیوں سے بھرپور مشاورت کے بعد اس لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس پر عمل بھی شروع کردیا لیکن ان سے وہ عوام جن کا نہ پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت سے کتنے متاثر ہوں گے؟ اس کی حکومت نے پروا نہیں کی اور مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کی جو کوششیں اور جس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں اس سے تصادم کا خدشہ ہے۔

    ہم اس بلاگ میں پہلے حکومت کے کچھ اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں۔ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے وفاقی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا اور اسلام آباد میں رینجرز کی تعیناتی سمیت ملک بھر سے پولیس کی بھاری نفری، خواتین اہلکار، قیدیوں کی وینز اور ہزاروں کی تعداد میں آنسو گیس شیلز بھی منگوا لیے گئے جب کہ اطلاعات کے مطابق ایف سی کو مظاہرین کیخلاف آنسو گیس کے استعمال کی اجازت بھی دے دی گئی اور کئی جگہ ان کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب اور سندھ میں دفعہ 144 نافذ کی جاچکی ہے، پنجاب بھر کے اسلام آباد جانے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیے جانے سے لاہور سمیت کئی بڑے شہروں کا ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت صوبہ پنجاب کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے طبی عملے کی چھٹیاں بھی منسوخ کی جاچکی ہیں، میٹرک کا منگل کے روز ہونے والا پرچہ منسوخ کردیا گیا تھا، منگل کو پنجاب بھر کے اسکولوں میں چھٹی بھی رہی اور معلوم نہیں کہ اس صورتحال میں کب تک اسکول بند رہیں۔ ان تمام اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، مارچ کے آغاز سے قبل ہی ملک بھر بالخصوص پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں جو صورتحال ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مارچ نہیں بلکہ دشمن کی فوج آرہی ہے جس سے نمٹنے کیلیے حکومت سخت ترین اقدامات کررہی ہے۔ اس کا ایک اندازہ دو روز سے پنجاب بھر میں ہونے والے پولیس چھاپوں اور سیکڑوں پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری سے لگایا جاسکتا ہے، حد تو یہ ہے کہ حکومت نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے خون کو بھی نہیں بخشا اور علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصر جاوید اور پوتے ولید اقبال کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے، اسی افراتفری میں لاہور میں گھر میں داخل ہونے والے پولیس اہلکاروں پر مبینہ طور پر اہلخانہ کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل کمال شہید ہوگیا، یہ بلاگ لکھے جانے تک پولیس پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی حراست میں لے چکی ہے جن میں خاتون رہنما یاسمین راشد، عندلیب عباس بھی شامل ہیں۔

    حکومت نے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لیے اگر دو منصوبوں کا اعلان کیا ہے تو پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کیلیے تین منصوبے تیار کر رکھے ہیں جو پی ٹی آئی رہنما اسد عمر بتا چکے ہیں لیکن یہ منصوبے کیا ہیں اس کی میڈیا تک کو ہوا نہیں لگنے دی گئی ہے۔

    اب آتے ہیں حکومتی اقدامات سے عام لوگوں اور سیاسی جماعتوں سے دور رہنے والے عوام کی تکالیف کی طرف تو ایک جانب جب پورا پنجاب بند کر دیا گیا ہے اور مال بردار کنٹینرز اور ٹریلر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے تو ایک جانب ان کنٹینرز اور دیگر گاڑیوں میں لدا سامان خراب ہونے اور عوام کے کروڑوں روپے کے نقصان کا امکان غالب ہے تو دوسری جانب ترسیل نہ ہونے سے ملک میں اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہوسکتی ہے، راستوں کی بندش کے باعث ٹینکرز ایسویسی ایشن نے پنجاب بھر کو پٹرول کی سپلائی بند رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ راستوں اور مسافر گاڑیوں کی بندش سے لوگوں کے اپنے عزیز واقارب سے رابطے منقطع ہوچکے، اس دوران کئی خوشی اور غمی کے لمحات میں لوگ اپنے پیاروں سے نہیں مل سکیں گے۔ ایمرجنسی میں اسپتال نہیں پہنچ سکیں گے جس کے باعث زندگیوں کو خطرات لاحق ہونگے۔ لوگ اپنے کاموں پر نہیں جاسکیں گے تو مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی پسے عوام کس طرح اپنے گھروں کا چولہا جلا پائیں گے۔

    ایک جانب عمران خان کا کہنا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن پھر بھی جہاد سمجھ کر نکل رہا ہوں جب کہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی زندگی کو خطرہ اور خودکش حملے کا خدشہ ہے جس کے بارے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ کو بھی آگاہ کرچکے ہیں۔

    پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے اپنا سفر شروع کیا اور صوابی انٹرچینج پر ایک بار پھر عوام سے تمام رکاوٹیں عبور کرکے اسلام آباد پہنچنے کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ہر حال میں اسلام آباد پہنچیں گے، دوسری جانب حکومت ہر حال میں اس مارچ اور مظاہرین کو کچلنے کیلیے طاقت کا ہر حربہ آزمانے پر بضد ہے اور اس حکومت کے اصل کرتا دھرتا نواز شریف پہلے ہی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے "بھرپور” تیاریاں کرنے کی ہدایت کرچکے تھے جس کے بعد پنجاب سمیت کراچی اور اندرون سندھ بھی پولیس نے مجموعی طور پر سیکڑوں گرفتاریاں کی ہیں اور کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں تصادم جیسی صورتحال بھی سامنے آئی ہے جہاں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس بھی فائر کیے ہیں جب کہ حکومتی وزرا بالخصوص وزیر داخلہ کے سخت بیانات نے ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ اس صورتحال میں عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو کسی ممکنہ تصادم سے بچانے کیلیے پی ٹی آئی کے گرفتار افراد کو رہا کرنے جب کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو پی ٹی آئی کو احتجاج کیلیے اسلام آباد میں متبادل جگہ دینے کا حکم دیا ہے۔ ملک میں بحران سے نمٹنے کی سب سے بڑی ذمے داری تو حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے اور ایسی حکومت جس کے دامن پر 2014 میں ماڈل ٹاؤن واقعے کے 14 مقتولوں کے خون کے دھبے بھی ہیں اس کو تو ویسے ہی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے کہ زرا سی غفلت چنگاری کو شعلہ بناسکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس تمام صورتحال میں جب کہ ملک سیاسی بحران کے باعث پہلے ہی بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کررہا ہے اور معیشت کو چلانے کیلیے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ گدائی پھیلایا جارہا ہے، ایسے سخت آزمائشی دور میں اگر کسی کی بھی معمولی سی غلطی سے اگر ملک کسی تصادم سے دوچار ہوتا ہے تو کیا پاکستان اور غربت میں پسے اس کے مظلوم عوام ایسے کسی بھی تصادم کے متحمل ہوسکتے ہیں؟

    یقیناً مقتدر اور سنجیدہ حلقے اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہوں گے، باکسنگ کے رِنگ کا بھی اصول ہے کہ جب تک معاملہ کھیل تک رہے اور کوئی سنگین خطرہ نہ ہو تو ریفری رِنگ سے باہر ہی رہتا ہے لیکن جیسے ہی معاملہ بگڑنے لگتا ہے کہ ریفری مجبوراً رنگ کے اندر آتا ہے اور ایک دوسرے سے نبرد آزما کھلاڑیوں کو چھڑا کر الگ کرتا ہے کہ کہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ ہوجائے۔ یہاں مسئلہ نہ باکسنگ کے رنگ کا ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کا، بلکہ یہاں معاملہ ہے اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھری مملکت خداد پاکستان اور اس کے 22 کروڑ عوام کا۔ تو یہ وقت ہے کہ فیصلہ ساز انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ ملک و قوم کے مفاد میں پاکستان کو تصادم کا شکار ہونے سے بچائیں۔ کیونکہ ملک ہے تو سب کی سیاست ہے، ملک ہے تو اقتدار بھی ہے اور سب کی طاقت اور فیصلہ سازی کی قوت بھی ہے۔ اس لیے ملک سب سے مقدم ہے اور کسی بھی فیصلے میں اس کو ہی مقدم رکھنا چاہیے۔

  • "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    بچپن میں جب یہ سنتے تھے کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے” تو حیران ہوتے تھے کہ جب بچوں کی عید ہوتی ہے تو بڑے کیوں مناتے ہیں؟ نئے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟ اور نماز عید کیوں پڑھنے جاتے ہیں؟ لیکن جب بڑے ہوئے تو اس جملے کے مفہوم سے آشنا ہوئے۔ یقین آگیا کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور اب ہم بھی اپنے بچوں کو یہی کہتے ہیں کہ اصل عید تو بچو تمہاری ہے۔

    آج ہم اپنے بچپن کی عیدوں سے متعلق اپنی یادیں تازہ کریں گے، بقول شاعر

    میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
    آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے

    تو جناب ہمارے بچپن کی عید میں بھی آج کی طرح نئے کپڑے، عیدی، نت نئے پکوان، سیر و تفریح سب کچھ ہوتا تھا مگر عید کے وہ دن ہماری آج کی عید سے خاصے مختلف تھے۔

    70 اور 80 کی دہائی میں جنم لینے اور بچپن کے خوبصورت دن گزارنے والوں کو یاد ہوگا کہ کیسے وہ عیدیں آج کی عید سے منفرد ہوتی تھیں۔ ہم جب بچے تھے تو آج کے بچوں ہی کی طرح بے تابی سے عید کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن انداز کچھ مختلف ہوتا تھا، روز امی سے پوچھنا کہ اب عید میں کتنے دن رہ گئے، کتنے روزے باقی رہ گئے؟ اس طرح کے کئی سوال تو ہم کرتے تھے لیکن ساتھ ساتھ عید کی تیاری کچھ اس انداز میں کرتے تھے جو آج شاید ہمارے لیے ممکن بھی نہیں۔

    مثلا آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینے کے لیے روایتی عید کارڈز دینے کا رواج متروک ہی ہوچکا ہے۔ اب تو صرف ہاتھ میں پکڑے موبائل سے عید مبارک کا پیغام، کوئی ایموجی یا ڈیجیٹل کارڈ بھیج کر یہ روایت بالکل روکھے پھیکے انداز میں نبھائی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے بچپن میں رمضان کا آغاز ہوتے ہی ہم اپنے دوستوں اور کزنز وغیرہ کو عید پر دینے کیلیے عید کارڈز کی خریداری شروع کر دیا کرتے تھے اور اس کے لیے روزانہ دکانوں اور اس حوالے سے لگائے جانے والے خصوصی اسٹالز (جی ہاں اس دور میں عید کارڈز فروخت کرنے کے خصوصی اسٹالز لگائے جاتے تھے) کے روز چکر لگایا کرتے تھے۔ اس موقع پر کوشش ہوتی تھی کہ اچھے سے اچھے کارڈز کا انتخاب کریں۔ عموما اس وقت دور حاضر کے فلمی اداکار اور اداکاراؤں کے پوسٹ کارڈز پر مبنی عید کارڈز ہوا کرتے تھے جن کے ایک طرف تصویر اور دوسری جانب لکھنے کیلیے خالی جگہ ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف پھولوں اور تہنیتی پیغامات کے ساتھ کارڈز بھی ہوتے تھے، اس دور میں کارڈز پر مبارک باد کے ساتھ بچکانہ اشعار بھی لکھ کر اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیا جاتا تھا جن میں سے یہ دو تو بہت مشہور زمانہ رہے ہیں۔

    گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
    دوست سے دوستی توڑی نہیں جاتی

    عید آئی ہے بڑی دھوم دھام سے
    دوست اچھل پڑا سویوں کے نام سے

    لیکن آج کا بچہ تو روٹی کے بجائے پزا کا دلدادہ ہے، سویوں کے بجائے نوڈلز، اسپیگٹیز اور پاستا اس کے من کو بھاتے ہیں جو کہ ہمارے دور میں ندارد تھے۔

    خیر بات ہورہی تھی عید کارڈز کی تو اس دور میں محکمہ ڈاک کی جانب سے بھی عید کارڈز پوسٹ کرنے کیلیے مقررہ تاریخ کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا تھا کہ جس نے اپنے دوستوں رشتے داروں کو ملک یا بیرون ملک عید کارڈز بھیجنے ہیں وہ مقررہ تاریخ تک کارڈز محکمہ ڈاک کو دے دیں تاکہ بروقت پہنچ سکیں۔ اس کے بعد لوگ پوسٹ آفس کے باہر گھنٹوں لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور دوست واحباب کو کارڈز پوسٹ کیا کرتے تھے کیونکہ اس دور میں آج کی طرح کئی کئی کوریئر سروس موجود نہیں تھیں۔

    جیسے جیسے دن گزرتے جاتے تھے ہمارا عید کے انتظار کے حوالے سے جنون بڑھتا جاتا تھا جو کہ آج کی نسل میں عنقا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری عید کے انتظار کی سب سے بڑی وجہ نیا جوڑا، نیا جوتا اور اس کے بعد عیدی ملنا ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں عموما تہوار یا کسی شادی بیاہ میں ہی نئے کپڑے بنائے جاتے تھے جبکہ آج اس کے برعکس ہوچکا ہے۔ اب تو جب دل چاہا نئے کپڑے بنالیے تو نئے کپڑوں کی وہ خوشی جو سال میں ایک بار ملنے پر ہمیں بچپن میں ہوتی تھی اور نئے کپڑے پہننے کا انتظار وصل یار کی طرح لگتا تھا، اس مزے سے آج کی نسل ناآشنا ہے۔

    چاند رات پر رات بھر جاگ کر انتظار کیا جاتا تھا کہ صبح عید ہے نئے کپڑے پہنیں گے، پھر سب سے عیدی ملے گی تو اپنی مرضی سے چیزیں کھائیں گے اور خوشی کے یہ چھوٹے چھوٹے پروگرام ہم کئی کئی روز تک دوستوں یا کزنز اور بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر بناتے تھے۔

    ادھر چاند نظر آیا ادھر اُدھم مچ گئی، گھر میں امی اور دیگر بڑی خواتین صبح کے لیے شیر خرما اور دیگر پکوانوں کی تیاری میں جُت جاتیں اور ہم للچائی نظروں سے ہینگر میں ٹنگے استری شدہ نئے کپڑوں کو دیکھ کر جاگتی آنکھوں سے خود کو صبح اس نئے لباس میں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اس وقت صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا جو آج کے برعکس اس وقت پورا ماہ رمضان مذہبی لبادہ اوڑھے رکھتا تھا اور ایک ماہ تک گانے اور موسیقی پر پابندی ہوتی تھی لیکن چاند نظر آتے ہی اس پر بھی عید کے رنگ چڑھ جاتے تھے۔ خاص طور پر فریدہ خانم کا مشہور گانا "میں نے پیروں میں پائل تو باندھے نہیں” اور روشانے ظفر کا نغمہ ” فلک پہ کیسا یہ چاند نکلا” ہر عید کی چاند رات کو کئی سالوں تک اتنی مستقل مزاجی سے نشر کیا جاتا رہا ہے کہ بچوں بڑوں کو ان گیتوں کے بول تک ازبر ہوگئے تھے۔

    صبح عید ہوگی کا انتظار کرتے کرتے امی کی پیار بھری سرزنش کے ساتھ سوجاتے تھے۔ صبح نماز عید کے لیے خاندان کے سب بڑے مرد اکٹھا ہوکر عید گاہ نماز کے لیے جاتے تھے اگر لوگ علیحدہ علیحدہ گھروں میں بھی رہتے تھے تو نماز عید کے لیے کسی ایک گھر میں اکٹھا ہوجاتے تھے اور وہیں سے عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی بغل میں چادریں، جائے نماز اور کپڑے کے تھیلے دبائے عیدگاہ کی طرف گامزن ہوتے تھے۔ اس وقت کم سن بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ بڑے جب نماز پڑھیں تو وہ کپڑے کے تھیلوں میں گھر والوں کی جوتیاں جمع کرکے ان کی نگرانی کریں تاکہ وہ چوری نہ ہوسکیں۔

    ادھر نماز عید ہوئی لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے اور گھر واپسی ہوئی ادھر ہمیں اپنی عیدی کی فکر ہوئی۔ گھر آتے ہی ابو اور گھر کے بڑوں سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا تھا۔ اس وقت عیدی کیا ہوتی تھی آج کے بچے جان لیں تو حیران رہ جائیں۔ ایک روپیہ، دو روپے، پانچ روپے حد ہے 10 روپے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ 50 یا 100 روپے ملے ہوں۔ اگر کسی کو 100 یا 50 روپے عیدی ملتی تو سمجھ لو پورے محلے میں اس کی شان بڑھ جاتی تھی۔ عیدی ملتے ہی ہم سب گھر سے رفوچکر اور عیدی خرچ کرنے کی فکر۔

    آج کے دور میں جب بچے کولڈ ڈرنک، آئسکریم کے رسیا ہیں اور آئے روز اپنے والدین سے اپنی فرمائشیں پوری کراتے ہیں لیکن ہمارے دور میں ہم میں سے اکثریت ان چیزوں کیلیے عید کا انتظار کرتی تھی کہ عید ہی ایسا موقع ہوتا تھا جب ہم اپنی پسند یعنی کولڈ ڈرنک اور آئسکریم سے بھرپور لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس دور میں بچوں کی عیدی میں ملنے والے پیسوں سے سے بڑی عیاشی کولڈ ڈرنک، آئسکریم یا میٹھا پان ہوتا تھا یا پھر گھر کے قریب لگنے والے بچوں کیلیے شغل میلے جن میں مختلف اقسام کے دیسی جھولے، رِنگ پھینک کر انعام جیتنے والی لاٹری یا اس جیسے ہی دیگر کھیل کود۔

    عید کا سارا دن اسی ادھم چوکڑی میں گزر جاتا تھا اور رات ہوتے ہی تھکن کے مارے خوشی سے سرشار ہم نیند کی وادیوں میں گم ہوجاتے تھے۔

    ایسی ہوتی تھی ہماری تصنع و بناوٹ سے دور سادگی کے رنگوں سے لبریز خوشیوں بھری عید جس کا ذکر کرکے ہم بھی اپنے بچپن کی عیدوں میں کھوگئے اور یہ سوچنے لگے کہ کاش یہ بچپن دوبارہ واپس آجائے لیکن پھر یہ سوچ کر ہنس دیے کہ کبھی گزرا وقت بھی واپس آتا ہے اور دوبارہ اپنے مشینی دور میں واپس آگئے تاکہ اپنے بچوں کے لیے حقیقی معنوں میں عید کا اہتمام کرسکیں۔

  • سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    چند سال قبل پڑوسی ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈراما "تُو تو مَیں میں” نشر ہوتا تھا جو ساس بہو کے روایتی جھگڑوں پر مبنی مزاحیہ کہانی تھی۔ ان دنوں ہمارا معاشرہ اسی ڈرامے کی جھلکیاں‌ پیش کررہا ہے جس کی اصل وجہ ہے سیاست اور ہمارے ‘پیارے’ سیاستدان۔

    احمد اور مسعود بچپن کے دوست ہیں۔ احمد کی سیاسی وابستگی پی ٹی آئی اور مسعود کی وابستگی ن لیگ سے ہے۔ انہوں نے واٹس ایپ پر اپنے دوستوں کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے جس میں یہ اپنے اسکول اور کالج کے دوستوں سے رابطے میں رہتے اور پرانے دن اور باتوں کو شیئر کرتے رہتے ہیں۔ دو ہفتے قبل عمران خان کی حکومت گئی تو سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آگیا۔ ہر سیاسی جماعت کا سپورٹر اپنے اپنے سیاستدانوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے لگا اور اس رجحان کا اثر اس گروپ پر بھی پڑا۔ اور جہاں دوست ایک دوسرے سے حال چال پوچھا کرتے تھے، اب وہاں سیاسی بحث زور و شور سے ہونے لگی اور آہستہ آہستہ یہ حد سے بڑھنے لگی۔ ہر شخص اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو ہی اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگا۔ یہ اگر یہیں تک رہتا تو پھر بھی صحیح تھا، لیکن بات آگے بڑھی اور لوگ سیاستدانوں کی حمایت کرتے کرتے دانستہ اور نادانستہ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگے اور یہ مخالفت اتنی بڑھی کہ معمولی تبدیلی کے ساتھ اس ساری صورت حال میں‌ یہ شعر پڑھا جاسکتا ہے:
    اختلاف جب حد سے بڑھا سارے آداب مٹ گئے
    آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے

    گویا پرانی دوستی یاری بھی اس تُو تو مَیں میں کی زد میں آنے لگی اور تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد ختم ہونے کی نوبت آگئی۔ یہ تمثیل ہمارے زمینی حقائق کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

    ڈیجیٹل دنیا میں سوشل میڈیا اس لحاظ سے سب سے طاقتور میڈیا بن کر ابھرا ہے کہ یہاں ہر سچی، جھوٹی بات، تصدیق اور بلا تصدیق کوئی بھی خبر، تصویر، ویڈیو پھیلانے کی سب کو آزادی حاصل ہے۔ تو جب سے ہماری سیاست میں بھونچال آیا ہے اور عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں تب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سپورٹر اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق دلائل دے کر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کوشش میں کئی معقول ونامعقول حرکات بھی کی جارہی ہیں جس میں سیاستدانوں کی کردار کشی، دانستہ یا نادانستہ جھوٹ کو پھیلانے میں مدد دینے جیسے کام تو ہو رہے ہیں لیکن ان دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کی محبت میں برسوں سے دوستی کے رشتے میں بندھے دوست، خونی رشتوں والے ناتے جو پہلے سیاستدانوں کی محبت میں نوک جھونک تک ہی رہتے تھے اب سیاستدانوں کو چھوڑ کر باقاعدہ اور براہ راست ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور رکیک جملے بازیوں پر اتر آئے ہیں جو اب ایک انتہائی حساس معاملہ بنتا جارہا ہے کیونکہ یہ بلاوجہ کی بحث ان پیارے اور میٹھے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کرسکتا ہے۔

    میرے ہم وطنو!
    براہِ مہربانی میرے اس طرز تخاطب کو کسی اور پیرائے میں نہ جوڑیں بلکہ سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا سیاست اور سیاستدانوں کے حوالے سے جتنا تناؤ ہم لے رہے ہیں اور اس فرسٹریشن میں خود ایک دوسرے کو ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں کیا ہمارے "پیارے” سیاستدان بھی باہمی تناؤ کو اپنی ذات پر لاگو کرتے ہیں۔

    انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
    شاید کہ تیرے دل میں اترجائے میری بات

    بہت سے لوگ آگاہ ہونگے کہ پاکستان میں اقتدار کی بساط بچھانے کیلیے سیاستدان باہمی رشتے داریاں مضبوط کرتے آئے ہیں۔ آپس میں یہ کتنا ہی ایک دوسرے کو برا کہیں لیکن اپنی رشتے داریاں خراب نہیں کرتے، اگر ن لیگ کا قالین اٹھا کردیکھیں تو اس میں پی ٹی آئی، ق لیگ، پی ٹی آئی کے لوگ دکھائی دیں گے، اگر پی ٹی آئی کا قالین اٹھائیں تو اس میں دیگر جماعتیں نظر آئیں گی۔ زیادہ دور نہ جائیں پی ٹی آئی کے اسد عمر اور ن لیگ کے زبیر خان آپس میں سگے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی پارٹیوں کے انتہائی وفادار ہیں جو مخالف جماعت کیخلاف کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے لیکن کبھی اپنے رشتے پر حرف نہیں آنے دیتے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔

    کیا اب عوام بھی سیاستدان بن گئی ہے جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگی ہے؟ تو بہت ہوگیا ایک دوسرے کی کھینچا تانی، سیاست ہوتی رہی ہے، ہوتی رہے گی، سیاسی شور ایسے ہی مچتے رہیں گے لیکن اس شور میں اپنی اقدار، دوستیاں، محبت، رشتوں کو نہ گنوائیں کیونکہ یہ رشتے صرف قیمتی نہیں بلکہ بہت قیمتی ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے جس کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ہمیں بے حد نوازتا ہے اور عید جیسا تہوار منانے کا موقع دیتا ہے جس میں گلے لگ کر ایک دوسرے سے کدورتیں دور کی جاسکتی ہیں تو اگر اس بلاوجہ بحث مباحثے میں اگر آپ کا کوئی پیارا آپ سے ناراض ہوگیا ہے تو آپ ہی پہل کرتے ہوئے اس کی ناراضگی ختم کریں۔ یقین کریں آپ کی یہ پہل تعلقات کی بحالی اور مضبوطی کے لیے ایک جادو کی جپھی کا کام دے گی۔ اس بلاگ کا اختتام اس نظم پر ککرتا ہوں:

    خوشحال سے تم بھی لگتے ہو
    یوں افسردہ تو ہم بھی نہیں
    پر جاننے والے جانتے ہیں
    خوش تم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں
    تم اپنی خودی کے پہرے میں
    اور دام غرور میں جکڑے ہوئے
    ہم اپنے زعم کے نرغے میں
    انا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
    ایک مدت سے غلطاں پیچاں
    تم ربط وگریز کے دھاروں میں
    ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے
    پچھتاوے کے انگاروں میں
    خاموش سے تم ہم مہر بہ لب
    جگ بیت گئے ٹُک بات کیے
    سنو کھیل ادھورا چھوڑے ہیں
    بنا چال چلے بنا مات کیے
    جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں
    وہ سائے رُک بھی سکتے ہیں
    چلو توڑو قسم اقرار کریں
    ہم دونوں جُھک بھی سکتے ہیں

  • عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    پاکستان تحریک انصاف نے حکومت جانے کے بعد تین کامیاب عوامی جلسوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔

    پشاور اور کراچی کے بعد پی ٹی آئی کی سخت سیاسی حریف ن لیگ کے گڑھ لاہور میں ہونیوالے جلسے میں بھرپور پاور شو نے ایوان اقتدار میں تھرتھلی مچا دی ہے، کیونکہ یہ جلسے پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد کیے گئے ہیں اس لیے کوئی یہ شور بھی نہیں کرسکتا کہ اسکے لیے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔

    ملک میں جب 2022 کا سورج طلوع ہوا تو غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کیلیے امید کی کوئی نئی کرن اس نئے سال کے سورج میں نہیں تھی، عوام بدستور بدترین مہنگائی کا عذاب سہہ رہی تھی، اشیائے خورونوش غریب عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی تھیں آئے دن بجلی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے پروں کو انرجی فراہم کرتا تھا، یہ حالات تھے کہ اس وقت کی عمران خان حکومت کے وزرا بھی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہوچلے تھے اور کابینہ اجلاسوں میں برملا اس بات کا اظہار کیا جاتا تھا کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں کراس کرچکی ہے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو آئندہ الیکشن میں ان کا اپنے حلقوں میں عوام کے درمیان جانا مشکل ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

    اس وقت سیاسی منظر نامے پر آج کل کی طرح سیاسی ہلچل نہیں تھی۔ پی ڈی ایم گوکہ اپوزیشن کر رہی تھی اور اس نے مہنگائی کے بیانیے کو بھی اپنایا تھا لیکن عوام نے اس کے بیانیے کو مسترد تو نہیں کیا لیکن لبیک کہہ کر اپوزیشن کی صفوں میں بھی شامل نہیں ہوئی۔

    بڑھتی مہنگائی اور اس پر سابق وزیراعظم کے چند قریبی وزرا کے زخموں پر نمک چھڑکتے بیانات نے خاموش عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنا شروع کر دیا تھا اور عام محافل، پبلک ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرینوں، ہوٹلوں، دکانوں، بازاروں، دوست یاروں کی بیٹھکوں میں صرف ایک ہی مسئلہ مہنگائی زیر بحث ہوتا تھا اور لوگ ملبہ ڈال رہے تھے عمران خان کی نااہلی اور کابینہ پر۔

    ان بیٹھکوں اور غیر رسمی باتوں میں پریشان حال عوام پی ٹی آئی حکومت پر تبرا بھی بھیجتی رہی اور نالاں بھی رہی کہ عمران خان جو وعدے کرکے اقتدار میں آئے وہ پورے نہیں ہورہے بلکہ عوام جو پہلے ہی غربت ومہنگائی کے مارے تھے ان کو مزید مہنگائی کی دلدل میں اتار کر بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔

    یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا اور شاید کچھ وقت تک چلتا رہتا اور آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی اس عوامی بے اعتنائی کا خمیازہ اس وقت کے حالات کے مطابق آئندہ الیکشن میں متوقع ناکامی کی صورت میں چکھ بھی لیتی لیکن پھر ایسا ہوا کہ اپوزیشن حلقوں میں یوٹرن خان کے نام سے مشہور عمران خان کی غیر مقبولیت کو یوٹرن مل گیا اور آج عمران خان صرف ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

    تحریک عدم اعتماد کے نام پر ماضی کی دشمن نما حریف سیاسی جماعتوں کا اکٹھ ہوا تو عوام نے یہ مناظر دیکھے کہ ماضی میں ایک دوسرے کیلیے گالیاں نکالنے والے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر کرپشن کا پیسہ نکالنے، ایک دوسرے کو کرپشن کا بادشاہ کہنے والے ایک دوسرے کو درویش صفت کہتے ہوئے آپس میں بغلگیر بھی ہوئے، جب ایک شخص کے خلاف تمام سیاسی دشمنوں کو اکٹھا ہوتے دیکھا تو عمران خان حکومت سے بیزار عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آنے لگی اور یہ تبدیلی کا ہی مظہر ہے کہ آج عمران خان ملک بھر میں بھرپور پاور شو کررہے ہیں۔

    پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے کی طویل تاریخ ہے لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہاں حکومت کے جانے پر مٹھائیاں بانٹی گئی ہیں اور اگر احتجاج بھی ہوا تو محدود پیمانے پر لیکن عمران حکومت کے خاتمے پر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہاں عوام نکلی اور خوب نکلی۔

    عمران خان نے عوام کے جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیا اور ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے پہلے مرحلے میں پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسوں کا اعلان کیا اور اس بلاگ کے لکھے جانے تک تینوں جلسے ہوچکے اور بھرپور انداز میں ہوئے۔ شاید عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی توقعات سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں بھی کر رہے ہیں۔

    پی ٹی آئی کے جلسوں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی کیمپ میں سے کسی نے اب تک اسے حسب سابق جلسی یا ناکام جلسہ نہیں کہا بلکہ بیان آیا بھی ہے تو یہ کہ عمران خان عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

    عمران خان اپنے جلسوں میں ایک ہی مطالبہ لے کر چلے ہیں کہ فوری طور پر نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے اور لاہور میں انہوں نے عوام کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ اب اسلام آباد جانے کی کال دیں گے اگر ایسا ہوا تو کیا پھر 2014 کی تاریخ دہرائی جائیگی؟

    بہرحال عمران خان کے جلسوں کی کامیابی اور ملک و بیرون ملک پذیرائی دیکھ کر حکومت جو کہ خود بھی قبل از وقت الیکشن کی خواہاں ہے لیکن اس کیلیے پریشانی کا سبب اس وقت کسی بھی سیاسی لیڈر کے مقابلے میں عمران خان کی آسمان کو چھوتی مقبولیت ہے اور حکومتی حلقوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ موجودہ حالات میں اگر الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو شاید پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں آجائے اس لیے حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وقت کے ساتھ عوامی جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے، اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ عوامی جذبات حقیقی ثابت ہوتے ہیں یا صابن کے جھاگ کی طرح وقتی اس کیلیے ہمیں اور آپ کو بھی انتظار کرنا ہوگا۔

  • ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    وزیراعظم بننے کے 9 روز بعد بالآخر شہباز شریف 34 رکنی کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور حلف اٹھانے والوں میں ایم کیو ایم کے بھی دو وفاقی وزیر شامل ہیں جب کہ سندھ میں گورنر کیلیے بھی ایم کیو ایم سے نام مانگے گئے ہیں۔

    ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی کابینہ میں حلف اٹھانے والوں میں سید امین الحق اور فیصل سبزواری شامل ہیں، امین الحق کو تو ان کی پرانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی دی گئی ہے جب کہ اس بلاگ کے تحریر کیے جانے تک فیصل سبزواری کو وزارت بحری امور دیے جانے کا امکان ہے جب کہ شنید ہے کہ گورنر کیلیے ایم کیو ایم کی جانب سے عامر خان، نسرین جلیل اور سابق وفاقی وزیر فروغ نسیم کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھی اور اُس حکومت میں بھی اس کے دو وفاقی وزیر شامل تھے لیکن عدم اعتماد کے گرما گرم ماحول میں ایم کیو ایم نے اپنی سوچ بدلی اور پونے چار سال بعد اس کو خیال آگیا کہ پی ٹی آئی سے اس نے جو معاہدہ کیا تھا اس میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور اس کے بعد کئی روز تک مشاورت در مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل وہ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوگئی۔

    جس وقت ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا تو اپنے فیصلے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کا مطمح نظر حکومت، وزارتیں اور گورنر شپ نہیں بلکہ سندھ کے شہری مسائل بالخصوص بلدیاتی اختیارات، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی، بند دفاتر کی واپسی جیسے اہم مسائل کا حل شامل ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد بار ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے اور ان کا موجودہ اتحاد صرف معاہدے کے نکات پر عملدرآمد تک محدود ہے۔

    اس دوران ایم کیو ایم کے کنوینر سمیت دیگر رہنماؤں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان لفظی گولہ باری بھی جاری رہی اور سابقہ حلیف ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے تاہم اب جب کہ ایم کیو ایم باقاعدہ وفاقی حکومت میں شامل ہوگئی ہے اور جلد ہی گورنر سندھ بھی ایم کیو ایم کا ہوگا اور امکان ہے کہ سندھ کابینہ میں بھی ایم کیو ایم کو حصہ دیا جائیگا، اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر حیران و پریشان ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پہلی یا دوسری بار کسی حکومت کا حصہ بنی ہو، ایم کیو ایم کی پارلیمانی تاریخ کے 34 سالہ ادوار کا جائزہ لیں تو یہ 1993 سے 1996 کا دور بغیر حکومت کے ایم کیو ایم نے گزارا جب کہ اس کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اس کے علاوہ ایم کیو ایم تقریبا 30 سال تک ہر حکومت کا کسی نہ کسی صورت میں حصہ رہی ہے، ایم کیو ایم کے پاس گزشتہ دور حکومت میں بھی دو وزارتیں تھیں، جب کہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے کا اعزاز متحدہ کے نامزد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس رہا ہے جو کہ ایک دہائی سے زیادہ وقت تک مسلسل گورنر سندھ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

    اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر پہلے سابق حکومت سے باہر نکلنے اور اب پھر ایک نئی حکومت میں شامل ہونے کے فیصلے پر حیران ہے کہ ایم کیو ایم اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہونے کے باوجود اب تک اپنے مسائل حل نہیں کراسکی تو اب اس نئی حکومت کا حصہ بن کر اپنے کون سے حقوق حاصل کرلے گی جس سے شہری سندھ کا بھلا یا عوام کا فائدہ ہوگا؟

    نہ نہ کرتے پیار تم ہی سے کر بیٹھے
    کرنا تھا انکار مگر اقرار تم سے کر بیٹھے

    اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے عام ووٹر سمیت شہریوں کی جانب سے ایم کیو ایم کے پی ٹی آئی سے کیے گئے تین بنیادی مطالبات سے متعلق سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم لاپتہ کارکنان کی عدم بازیابی، بند دفاتر واپس نہ دیے جانے اور مقدمات ختم کیے جانے جیسے مطالبات پورے نہ ہونے کا جواز بنا کر پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہ ہوئی جب کہ یہ ایشوز پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران رونما نہیں ہوئے بلکہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ہوئے جن کی وہ آج پھر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے جب کہ یہ بات ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کے مذکورہ بنیادی مطالبات کسی سیاسی حکومت یا جماعت کے حل کرنے کے بس کی بات نہیں ہے۔

  • کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    پاکستان میں نئی حکومت کو آٹھ روز گزر چکے ہیں۔ وقت کی گردش نے اپوزیشن کو ایوان اقتدار میں لا بٹھایا اور حکمرانوں کو سڑکوں پر نکال دیا ہے۔

    شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں دکھانی شروع کردی ہیں لیکن آٹھ روز گزر جانے کے باوجود اس اتحادی حکومت میں‌ وفاقی کابینہ تشکیل نہ دیے جانا ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔

    ہم نے اپنے گزشتہ بلاگ میں کہا تھا کہ ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو یہی ہوتا دیکھا ہے لیکن ہانڈی میں ایک ہفتے کے دوران ہی ابال آنے لگے گا، اس کا اندازہ نہیں‌ تھا۔

    ملک میں چند روز ہی سیاسی سکون رہا اور اب حکومتی کیمپ سے بے چینی ظاہر ہونے لگی ہے۔ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں اختلافات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کی سرخیل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پارٹی کے بعض دیگر رہنما کابینہ میں شمولیت کے سرے سے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پی پی صرف آئینی عہدوں تک محدود رہے اور اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں‌ جو مستقبل میں حکومت کو پیش آسکتی ہیں‌۔ پی پی پی اس حکومت کی ناکامی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کو ہرگز ہرگز تیار نہیں ہے اور پارٹی کے سینیئر رہنما بھی اس معاملے پر آصف زرداری کے ہمنوا ہیں۔ اس حوالے سے پی پی پی اور ن لیگ میں اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔ پہلے پی پی نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کو پنجاب میں آئندہ عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مشروط کیا اور جب اس حوالے سے دونوں میں معاملات طے پائے تو پھر اہم وزارتوں پر اختلافات ظاہر ہوگئے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ پی پی پی نے صدر، چیئرمین سینیٹ کے ساتھ چاروں صوبوں کی گورنر شپ مانگ لی ہے جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں دیگر اتحادی جماعتیں اپنے اپنے گورنرز کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ آصف علی زرداری ایک بار پھر صدر مملکت کا منصب سنبھالنے کیلیے تیار ہیں۔

    ادھر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو صدر بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، کی جماعت جے یو آئی ف بھی وفاقی کابینہ میں شمولیت میں دلچسپی نہیں رکھتی جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے صدر پاکستان بننے کا خواب ممکنہ طور پر پورا نہ ہونے کے سبب فوری نئے عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا اپنے مطالبے کی حمایت میں کہنا ہے کہ اقتدار کو غیر ضروری طور پر طول دینا ہمارا منشا نہیں، ہمیں فوری طور پر الیکشن چاہییں، قوم کو امانت واپس کرنا ہماری ذمے داری ہے۔

    ن لیگ نے ایک بار پھر سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا کے مصداق چیئرمین سینیٹ کیلیے اسحاق ڈار کے نام کا اعلان کردیا ہے جو کہ ابھی تک ملک واپس بھی نہیں آسکے ہیں، ن لیگ کے اس اقدام نے پی پی کو مزید مشتعل کردیا ہے اور بلاول بھٹو جو کہ پی پی کے راضی ہونے پر ممکنہ طور پر وزیر خارجہ بننے جارہے تھے نے لندن کیلیے اڑان بھر لی ہے۔ دوسری طرف پی پی نے اس صورتحال میں آئندہ عام انتخابات کیلیے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کرلی ہیں۔

    شہباز حکومت کی ایک اور اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی وزارتیں لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پہلے ایم کیو ایم کی جانب سے موقف آیا تھا کہ ہمارے لیے معاہدے کے نکات زیادہ اہم ہیں اور اس پر عملدرآمد دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ وزارتوں سے زیادہ اہم ہے۔ اب حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد ایک نیا موقف سامنے آیا ہے کہ ایم کیو ایم کے کنوینر نے کہا کہ یہ خاندانی سیاست ہے جمہوریت نہیں۔ تو اس موقف پر سوال تو بنتا ہے کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی دونوں میں موروثی سیاست نہیں؟ 1990 سے ن لیگ اور 1970 سے پی پی پی کی سیاست خاندانی موروثیت کے گرد ہی تو گھوم رہی ہے۔ تو کیا معاہدہ کرتے وقت ایم کیو ایم دونوں جماعتوں کی یہ تاریخ بھول گئی تھی۔

    موجودہ سیاسی صورتحال سے لگتا تو یہ ہے کہ مفاہمت کے بادشاہ جن کیلیے ایک جملہ بہت مشہور ہے کہ ‘ایک زرداری سب پہ بھاری’ نے گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستانی سیاست میں فیصلے کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی میدان میں سب پر بھاری ہیں۔

    عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا اور جلد یا بدیر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن جہاندیدہ آصف علی زرداری نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا لالچ دے کر اس پر رام کیا اور اب خود کو ممکنہ طور پر چند ماہ یا چند ہفتوں کی حکومت میں کابینہ سے الگ تھلگ رکھ کر صرف آئینی عہدوں صدر، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر، صوبوں کے گورنرز تک ہی محدود رہنا چاہتی ہے۔ قیاس آرائیاں یہ کی جارہی ہیں کہ آصف زرداری ن لیگ کو موجودہ حکومت میں ناکام ثابت کرکے پنجاب میں اپنا راستہ صاف کرنے کے خواہشمند ہیں اور ممکنہ طور پر وہ آئندہ انتخابات میں ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے پنجاب میں الیکشن میں جانا چاہتے ہیں جب کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ن لیگ نے بھی اب آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ صرف پی پی ہی نہیں جے یو آئی اور ایم کیو ایم بھی اس معاملے میں ایک ہی پیج پر نظر آتی ہیں۔

    اس صورتحال میں ن لیگ ایک نئی مشکل میں پھنستی نظر آرہی ہے کیونکہ اگر وہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کی ناکامی پر واویلا کرنے کے بعد اب اقتدار میں ہونے کے باوجود عوام کو مشکلات سے نہیں نکال پاتی تو آئندہ الیکشن کیلیے اس کے پاس کیا نعرہ یا جواز ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ چہرے پر ناکامی کی کالک ملنے کے بجائے جلد الیکشن کی طرف جایا جائے تاکہ ملک میں بھی سیاسی استحکام آسکے۔ ان حالات میں اگر ن لیگ اقتدار میں رہتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن نہیں بلکہ اس کی اتحادی جماعتیں ہی آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلیے حکومت کیلیے مشکلات کھڑا کردیں اور ن لیگ پر یہ شعر صادق آئے:

    دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

  • پرانا پاکستان، نیا وزیراعظم اور ساجھے کی ہانڈی

    پرانا پاکستان، نیا وزیراعظم اور ساجھے کی ہانڈی

    قوم کو مبارک ہو بالآخر ہم تقریباً پونے چار سال تک نئے پاکستان میں مٹر گشت کرنے کے بعد واپس پرانے پاکستان میں آگئے ہیں۔

    پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ملک کے 23 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا اور یوں پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوگیا کہ شیروانی ٹنگی ہی رہے گی، کام نہیں آئے گی۔

    شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں سیاسی انتشار اور افراتفری بھی ختم ہوگئی ہے اور مارچ کے مہینے کے آغاز سے عدم اعتماد کے حوالے سے جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی، وہ عدم اعتماد کی کام یابی اور شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد کم از کم پارلیمنٹ کی حد تک تو سکون ہوگیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے استعفوں کے بعد ایوان میں اپوزیشن ہی نہیں رہی ہے۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اچانک اپنی ‘بیماری’ کا ٹوئٹر کے ذریعے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا ہے، اس لیے وہ نومنتخب وزیرِ اعظم سے حلف نہیں لے سکے اور ان کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین نے شہباز شریف سے حلف لیا۔ صدر مملکت کا اچانک بیمار ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر اس تناظر میں جب پی ٹی آئی کے تمام اراکینِ قومی اسمبلی کے بعد دو صوبوں کے گورنروں نے یہ کہہ کر اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا کہ وہ کسی کرپٹ وزیراعظم کے ماتحت کام نہیں کرسکتے۔

    ادھر شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے کرنے، اور یکم اپریل سے ایک لاکھ تک تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد جب کہ پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سرکاری اداروں میں ہفتہ وار دو تعطیلات بھی ختم کر دی ہیں۔

    اپنے اس خطاب میں انہوں نے عوامی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے حسب روایت سابق حکومت کی نااہلیوں کا پردہ بھی چاک کیا اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ ہونے جارہا ہے، 60 لاکھ لوگ بیروزگار اور 2 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جاچکے ہیں، تین سال میں ریکارڈ 20 ہزار ارب روپے کے قرض لیے گئے لیکن کام کچھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ صوبوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کم کریں گے، معیشت کو دوبارہ چلانے کی کوشش کریں گے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے ایک اہم اعلان یہ بھی کیا کہ مبینہ دھمکی آمیز خط پارلیمنٹ میں لایا جائے گا اور اگر خط میں بیرونی سازش کا رتی برابر شبہ ہوا تو وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلا جاؤں گا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران عالمی برادری امریکا، بھارت، برطانیہ، ایران سمیت تمام ممالک سے اچھے روابط رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔

    اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جو اعلانات کیے ہیں، ان پر کس حد تک اور کب تک عمل درآمد میں کام یاب ہوتے ہیں۔ تاہم انہیں ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے ساتھ جو سب سے اہم مسئلہ درپیش ہوگا وہ اس ساجھے کی ہنڈیا کو جوڑے رکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا کہ ایسی کوئی حکومت تشکیل پائی ہو، حال ہی میں سابق ہونے والی پی ٹی آئی سمیت ن لیگ اور پی پی پی دونوں کو ساجھے کی ہانڈی والی حکومتوں کا تجربہ ہے اور اس کے نتائج سے بھی آگاہ ہوں گے، کیونکہ اس سے قبل جتنی بھی ایوان اقتدار کے چولھے پر جتنی بھی ایسی ہانڈیاں چڑھائی گئیں وہ بیچ چوراہے پر ہی پھوٹی ہیں اور عوام نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے کہ باہم شیر و شکر رہنے والوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں تک بھی پہنچے ہیں۔

    زیادہ دور نہ جائیں چند ہفتے پہلے ہی آج کی حکومت میں شامل کچھ جماعتیں سابق حکومت کی اتحادی تھیں، مفاہمت کے بادشاہ کہلائے جانے والے آصف علی زرداری نے اس سے قبل بھی پی پی پی اور ن لیگ کو اکٹھا کیا تھا اور 2008 میں بننے والی پی پی کی وفاقی حکومت میں ن لیگ بھی شامل تھی لیکن یہ لڑکپن کا عشق ثابت ہوا اور چند ماہ بعد ہی دونوں جماعتوں میں سیاسی طلاق ہوگئی جس کے بعد وہ ایک دوسرے کو چور لٹیرا کہنے کے ساتھ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے بیانات دیتے رہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں تو شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ کالا کوٹ پہن کر اپنی دانست میں پی پی پی حکومت ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ تک جاپہنچے تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ سیاسی اتحاد کتنے عرصے تک قائم رہتا ہے۔

    اسی حکومت میں شامل ایم کیو ایم کا 34 سالہ پارلیمانی ماضی تو سب سے سامنے ہے جو 1988 سے لے کر اب تک کے عرصے میں‌ صرف 1993 سے 1996 تک حکومت سے باہر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ رہی ہے اور مشرف کے دور کی حکومت کو چھوڑ کر ہر حکومت کو خدا حافظ کہتی آئی ہے۔ رہی اے این پی، بی اے پی و دیگر جماعتیں تو پاکستانی سیاسی روایت کے مطابق جس کے جب تک مفادات ہوں گے وہ تب تک ہی ساتھ ہوگا۔

    شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اب وفاقی کابینہ کی تشکیل اہم مرحلہ ہے، جس کے لیے وزیراعظم کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں جاری ہیں، اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن پی پی پی کو اسپیکر شپ اور وزارت خارجہ کی پیشکش کرچکی ہے، تاہم پی پی وفاقی وزارتیں لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ اس کی دلچسپی آئینی عہدوں میں ہے اور وہ صدر مملکت کے ساتھ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے لینے کی خواہاں ہے۔

    ابتدائی اطلاعات کے مطابق کابینہ کی تشکیل کے لیے جو فارمولا طے کیا گیا ہے اس میں مسلم لیگ ن کے 12، پیپلز پارٹی کے 7 وزرا ہوں گے جب کہ جے یو آئی کے 4، ایم کیو ایم کے 2 ، بی این پی مینگل، اے این پی، جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ایک ایک وزارت دی جائے گی۔

    شہباز شریف نے پی پی پی، جے یو آئی (ف) کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی، بی اے پی و دیگر جماعتوں کی مدد سے وزارت عظمیٰ کا تاج تو سر پر سجا لیا ہے مگر یہ ساجھے کی ہانڈی ہے اور اس میں ابھی سے ابال آنا شروع ہو گیا ہے۔

    اس کی ابتدا تو وزیراعظم شہباز شریف کی اسمبلی میں تقریر کے بعد ہی ہوگئی جب ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے نومنتخب وزیراعظم کے خطاب میں متحدہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا ذکر نہ کرنے کا شکوہ کیا اور کہا کہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے باعث ہی شہباز شریف کو وزیراعظم کا منصب ملا ہے۔ انہیں اپنے خطاب میں ایم کیو ایم سے ہونے والے معاہدے کا ذکر کرنا چاہیے تھا جس کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اتحادیوں میں سب سے پہلے ایم کیو ایم سے ملاقات کی اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    میر تقی میر کی غزل کا ایک شعر ہے:

    ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
    آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

    تو ابھی ابتدائے عشق ہے، منزل دور اور راستہ کٹھن ہے۔

    روٹھنے، منانے کا رواج تو ہماری سیاسی ڈکشنری میں بہت ملے گا۔ مرحوم رحمٰن ملک اس حوالے سے کافی تجربہ کار تھے اور جب بھی اتحادی ادھر ادھر ہوتے تو یہ حرکت میں آجاتے اور انہیں کسی طرح رام کر لیا کرتے تھے۔ کیا شہباز شریف کے پاس کوئی مرحوم رحمٰن ملک جیسا باکمال ہوگا جو روٹھوں کو منانے کا تجربہ رکھتا ہو۔

    یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ شہباز شریف نے جو دعوے اور وعدے کر کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے ان وعدوں کو وہ کیسے پورا کریں گے اور ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو کیسے خوش رکھیں گے لیکن عوام فکر مند ضرور ہیں کیونکہ وہ 70 سال سے اپنے حکمرانوں سے صرف دعوے، وعدے اور سابق حکمرانوں کی برائیاں ہی سنتے آرہے ہیں اور اگر اب بھی ایسا ہی ہوا تو انہیں بڑی مایوسی ہوگی۔ شہباز شریف جنہیں سیاست کے ساتھ انتظامی عہدے پر کام کرنے کا طویل تجربہ ہے اور پنجاب بالخصوص لاہور اس کی ایک روشن مثال بھی ہے تو عوام کی ان سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس تجربے کو بروئے کار لا کر ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔