Tag: ریختہ

  • جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    فارسی اگرچہ ایران (فارس) کی زبان تھی، تاہم فتحِ دلّی کے بعد سے ہی بادشاہوں، علما، صوفیا اور شعرا نے اس زبان کو اپنا لیا اور اسے خوب فروغ دیا۔

    غیر ملکی زبان فارسی کو ہندوستانی نسل کے فارسی شعرا نے جس قدر عزّت بخشی تھی تو انہیں بھی اس بات کا حق حاصل تھا کہ ایرانی النّسل فارسی علما و شعرا اُن کی اس علمی اور شعری رواداری کا خیر مقدم کریں لیکن ایرانی النسل علما و شعرا تو ابتدا ہی سے یعنی عہدِ سلاطین ہی سے ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے چلے آ رہے تھے اور جن کے وار سے امیر خسرو بھی بچ نہیں سکے تھے۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً عبید زاکانی کا امیر خسرو پر پھبتی کسنا، عراقی کا فیضی کے متعلق اہانت آمیز بات کہنا، شیخ علی حزیں کی دریدہ دہنی وغیرہ۔

    یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہتی ہوں کہ بعض معروف ایرانی النّسل شعرا مثلاً عبدالرّحمٰن جامی، حافظ شیرازی اور جمال الدّین عرفی نے امیر خسرو کی زبان دانی کی تعریف کی ہے اور حافظ شیرازی نے تو انہیں ’’طوطیٔ ہند‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا ہے، تاہم ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کے تعلق سے ایرانی النسل علما و شعرا کا عام رویّہ وہی تھا جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی شعرا کے نزدیک ہندوستانی نژاد فارسی شعرا ثقہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔

    میرے خیال میں اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ ایرانیوں کا ملکی و قومی عصبیت رکھنا، جس کی واضح صورت پورے اسلامی تاریخ میں نمایا ں ہے۔ دوم وہ حریفانہ چشمک جو عام طور پر علما و شعرا میں پایا جاتا ہے۔ اس حریفانہ چشمک کے طویل سلسلے کی روک تھام اور نفسیاتی گرہ کشائی کے لیے دلبرداشتہ ہو کر دہلی کے بزرگ سعد اللہ گلشن نے پہل کی تھی اور انہوں نے ولی دکنی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ فارسی کو ترک کر کے ریختہ (اردو) میں اشعار کہیں۔ اُس کے بعد سراج الدّین علی خان آرزو نے اس پر بھرپور عمل کیا اور ریختہ میں شاعری کرنے کو تحریک کی صورت عطا کی۔

    جب شیخ علی حزیں 35-1734 میں ایران سے ہندوستان آئے تو انہوں نے اپنی ایک خود نوشت ’’تذکرۃُ الا حوال‘‘ لکھی جس میں اپنی عصبیت اور نفرت کا بَرملا اظہار کیا۔ اس میں ہندوستانی فارسی شعرا کے خلاف نہ صرف سخت نکتہ چینی کی بلکہ اہانت آمیز ہجویں بھی لکھیں۔ ’’محاکماتُ الشّعرا‘‘ میں محسن نے لکھا ہے کہ ’’کسی ہندوستانی کی طرف سے حزیں کا دل نہ دکھائے جانے کے باوجود انہوں نے ’تذکرۃُ الاحوال‘ میں بادشاہ سے لے کر گدائے بے نوا تک کے خلاف زہر اگلا اور اس خیال کی اشاعت کی کہ ہندوستان فضل و کمال کے لیے زمینِ شور کا حکم رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ انہیں تمام دارُالخلافت میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو رتبۂ فضیلت رکھتا ہو۔‘‘ (بحوالہ اردو ادب کی تاریخ از تبسم کاشمیری)

    سراج الدّین علی خان آرزو جو اپنے وقت کے بڑے عالم، استاد اور بڑے شاعر تھے، انہوں نے’’ تذکرۃُ الاحوال ‘‘کا حرفاً حرفاً عالمانہ جواب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ لکھ کر دیا اور حزیں کی خود سری اور غرور کو توڑنے کے لیے اُس میں پوشیدہ خامیوں اور غلطیوں کی طرف واضح اشارے کیے۔ آرزو کی اس کوشش نے انہیں ہندوستانی شعرا کے درمیان ہیرو بنا دیا۔ اس تاریخی معرکہ آرائی کے بعد ہندوستانی شعرا کو یہ احساس ہو گیا کہ فارسی میں خواہ وہ کتنی بھی دست گاہی حاصل کر لیں، ایرانی النّسل فارسی شعرا انہیں زبان داں تسلیم نہیں کریں گے۔ لہٰذا آرزو نے جو انہیں فارسی کی جگہ ریختہ (اردو) میں شاعری کرنے کی رغبت دلائی تھی، اُس نے اس دور کے نوجوان شعرا کو اِس طرف مائل کر لیا اور یہی دلّی دبستانِ شاعری کا نقطۂ آغاز تھا۔

    اُس دور کے نوجوان شعرا جن میں بیش تَر آرزو کے شاگرد تھے، انہوں نے ریختہ میں شاعری کرنا شروع کر دی۔ اُن کے اتباع میں دیگر استاد شاعروں کے شاگردان نے بھی ریختہ کو اپنا لیا۔ اِس طرح ریختہ کی تحریک وجود میں آئی۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عطیہ رئیس کے علمی و تحقیقی مضمون سے انتخاب، یہ تحریر تصوف، اردو شاعری اور اُس کا پیش و پس کے عنوان سے شایع ہوئی تھی)

  • ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    اٹھارہویں صدی اردو شاعری کا انتہائی زرخیز دور رہا ہے۔

    اس دور میں مختلف لسانی اور تہذیبی عوامل کے تحت شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہوئی اور اردو شاعری کی ایک بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کا جنم اسی عہد میں ہوا جس نے اردو شاعری کو بے حد متاثر کیا۔ اور اردو زبان نے شاعری کی حد تک فارسی زبان کی جگہ لے لی اور ایک توانا زبان کی حیثیت سے معروف و مقبول ہوئی۔

    صدیوں سے ہندوستان کی علمی اور ادبی زبان فارسی تھی اور ہندوستان کے شعرا اور ادبا نے فارسی زبان میں بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہلِ زبان ایران یہاں کے شعرا کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے کئی تنازعات بھی سامنے آئے، عرفی اور فیضی کا تنازع اسی دور کی پیداوار ہے۔

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ آرائی نے اس احساس کو اور بھی ہوا دی کہ ہندوستانی فارسی زبان میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اور اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی جو اہلِ ایران کو حاصل ہے۔ اس رویّے نے ہندوستان کے فارسی گو شعرا کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اور فکر و خیال کے جوہر دکھانے کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔

    چناں چہ سراج الدّین علی خاں آرزو نے یہاں کے شعرا کو ریختہ میں شعر گوئی کی ترغیب دی اور ہر ماہ کی پندرہویں تاریخ کو ان کے گھر پر ’’مراختے‘‘ کی مجلسیں آراستہ ہونے لگیں۔ مشاعرہ کے انداز پر’’مراختہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اب نئی نسل کے بیشتر شعرا نے فارسی میں شعر گوئی ترک کر دی اور ان کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی۔ یہ چیزیں اتنی عام ہوئیں کہ فارسی گو شعرا بھی رواجِ زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔

    اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ولی کا یہ دیوان ریختہ میں تھا اور فارسی روایت کے عین مطابق حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کا عمل زور پکڑنے لگا۔ اس طرح اردو شاعری ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔

    شمالی ہند میں جب اردو شاعری کا پہلا دور شروع ہوا تو اس دور کے اردو شاعر فارسی کی تہذیبی اور شعری روایت کے زیرِ سایہ پرورش پارہے تھے، لہٰذا اردو شعرا نے فارسی شعرا کے مقبول رجحانات کو ہی اپنا مشعلِ راہ بنایا اور فارسی شاعری کی جس روایت کو پہلی بار اختیار کیا گیا وہ ’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

    ’’دیوانِ ولی نے شمالی ہند کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا اور دکن کی طویل ادبی روایت شمال کی ادبی روایت کا حصّہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال و جنوب کے ادبی و تہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی عالم گیر روایت کی تشکیل و تدوین کی صدی ہے۔ اردو شاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوانِ ولی کے زیر اثر پروان چڑھی۔‘‘

    ایہام گوئی شمالی ہند میں اردو شاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمد شاہی عہد میں شروع ہوئی اور ولی کے دیوان کی دلی آمد کے بعد اس صنعت کو عوامی مقبولیت ملی۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترقّی کا آغاز اسی تحریک سے ہوتا ہے۔

    ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنٰی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘اور ’وہم میں پڑنا یا وہم میں ڈالنا۔‘چوں کہ اس صنعت کے استعمال سے پڑھنے والا وہم میں پڑ جاتا ہے، اس لیے اس کا نام ایہام رکھا گیا۔

    ایہام کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعر کے بنیادی لفظ یا لفظوں سے قریب اور بعید دونوں معنی نکلتے ہوں اور شاعر کی مراد معنٰی بعید سے ہو۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایہام کے معنٰی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہو جس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنٰی میں سے ایک قریب ہوں دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو قریب سے نہیں۔‘‘

    ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردوکے مشہور نقاد شمس الرّحمٰن فاروقی نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔

    اردو شاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیر خسرو سے ہوتی ہے۔ وہ سب سے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ایہام کو بطور صنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کیا۔ پھر فارسی اور اردو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں ایسے اشعار کہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں میں ایہام کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔

    ایہام گوئی کی اس روایت کو فروغ دینے میں ولیؔ کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صنعت کا نمایاں اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتا ہے۔ اسی لیے ولیؔ کو ہی ایہام کی تحریک کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔

    ایہام گوئی کی صنعت کو جس نے عروج عطاکیا وہ خان آرزوؔ ہیں۔ خان آرزوؔ اور ان کے شاگردوں نے اس صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع آزمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے، البتہ ایہام گو شعرا میں انعام اللہ خاں یقینؔ، شاہ مبارک آبروؔ، شاکر ناجیؔ، مصطفٰی خاں یک رنگ اور شاہ ظہور الدّین حاتم وغیرہ کا نام کافی اہمیت کاحامل ہے۔

    (ڈاکٹر محمد خلیق الزّماں کے علمی و ادبی مضمون سے اقتباسات)

  • کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    اردو ادب، ریختہ اور کلاسیکی دور کے مختلف ادبی تذکروں میں سیادت حسن سیّد جلال الدین حیدر خاں کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے جن کی عرفیت آغا حجو تھی اور شرف ان کا تخلص۔ شاعری ان کا میدان تھا جس میں‌ انھیں آتش جیسا استاد نصیب ہوا۔

    آغا حجو کا درست سنِ پیدائش تو معلوم نہیں‌، لیکن ادبی محققین کا خیال ہے کہ وہ 1812ء میں پیدا ہوئے۔ وطن ان کا لکھنؤ تھا۔ اپنے دور کے نام ور شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگردوں میں‌ سے ایک تھے۔

    آغا حجو غدر سے قبل ہی وفات پاگئے تھے۔ آغا حجو شرف کی تین تصانیف ’’شکوۂ فرنگ‘‘، ’’افسانۂ لکھنؤ‘‘ اور ’’دیوانِ اشرف‘‘ دست یاب ہوئیں۔ آج رفتگاں کے باب سے اسی شاعر کا کلام آپ کی خدمت پیش ہے۔

    غزل
    جب سے ہوا ہے عشق ترے اسمِ ذات کا
    آنکھوں میں پھر رہا ہے مرقع نجات کا

    الفت میں مر مٹے ہیں تو پوچھے ہی جائیں گے
    اک روز لطف اٹھائیں گے اس واردات کا

    سرخی کی خطِ شوق میں حاجت جہاں ہوئی
    خونِ جگر میں نوک ڈبویا دوات کا

    اے شمعِ بزمِ یار وہ پروانہ کون تھا
    لَو میں تری یہ داغ ہے جس کی وفات کا

    اس بے خودی کا دیں گے خدا کو وہ کیا جواب
    دَم بھرتے ہیں جو چند نفس کے حباب کا

    قدسی ہوے مطیع، وہ طاعت بشر نے کی
    کُل اختیار حق نے دیا کائنات کا

    ناچیز ہوں مگر میں ہوں ان کا فسانہ گو
    قرآن حمد نامہ ہے جن کی صفات کا

    رویا ہے میرا دیدۂ تر کس شہید کو؟
    مشہور ہو گیا ہے جو چشمہ فرات کا

    دھوم اس کے حسن کی ہے دو عالم میں اے شرفؔ
    خورشید روز کا ہے وہ مہتاب رات کا

    شاعر: آغا حجو شرف

  • آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے۔

    آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہر قانون اور اچھے شاعر تھے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد آئی سی ا یس (انڈین سول سروس) کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں استعفا دے دیا۔ جس کی پاداش میں انھیں جیل جانا پڑا۔ اس کے بعد وہ الہٰ اآباد یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے لکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    یہیں پر انہوں نے بہت زیادہ اردو شاعری کی جس میں آپ کی شہر آفاق کتاب گل نغمہ بھی شامل ہے۔ جس کو ہندوستان کا اعلی معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔ اور وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔

    بطور ممتاز شاعر انہوں نے اردو شاعری کی اہم اصناف مثلاً غزل، نظم، رباعی اور قطعہ میں کے وہ ایک منفرد شاعر ہیں جنہوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھیں۔

    ان کے متعدد شاعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روح کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گل نغمہ کے نام سرفہرست ہیں۔ حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات عطا کیے تھے۔

    فراق کا انتقال طویل علالت کے بعد 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں نئی دہلی میں ہوا۔ میت الہ آباد لے جائی گئی جہاں دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے سنگم پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔