Tag: ریسرچ

  • ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    پانی سے ہی زندگی ہے اور تازہ پانی بقا، صحت، خوراک کی پیداوار، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی توازن کے لیے ناگزیر ہے۔

    زراعت عالمی میٹھے پانی کا تقریباً 70 فی صد استعمال کرتی ہے، آب پاشی فصل کی نشوونما کو سہارا دیتی ہے اور خوراک کی پیداوار کو یقینی بناتی ہے۔ پانی کی کمی سے غذائی تحفظ کو خطرہ ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر قحط، اور سماجی و اقتصادی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔

    پانی کی کمی صحت کے شدید مسائل یا اموات کا باعث بن سکتی ہے جب کہ صاف میٹھے پانی تک رسائی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکتی ہے جیسا کہ ہیضہ، پیچش، جو کہ اموات کی بڑی وجوہ میں شامل ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں صفائی کی ناکافی سہولیات ہیں۔

    اسی طرح پانی کا استعمال صنعتوں میں کولنگ، اور توانائی کی پیداوار کے لیے بھی ہوتا ہے (مثلاً، ہائیڈرو الیکٹرک پاور، تھرمل پلانٹس)۔ پانی کی قلت سپلائی چینز اور انرجی گرڈز میں خلل ڈال سکتی ہے اور زرعی و صنعتی پیداوار، افرادی قوت کی صحت کو محدود کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    میٹھے پانی کی کمی


    حالاں کہ پانی پر بڑے پیمانے پر جنگیں نہیں ہوئی ہیں، تاہم یہ اکثر وسیع تر تنازعات میں ایک اہم عنصر، اسٹریٹجک ہدف، یا آلہ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تازہ پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے، اور ریسرچ اسٹڈیز اور رپورٹس میٹھے پانی کی دست یابی میں کمی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث میٹھے پانی کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں طلب میں اصافہ اور سپلائی میں کمی کی وجہ سے حکومتوں، صنعتوں اور سول سوسائٹیوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    کھارا پانی


    دوسری طرف کھارا پانی یعنی کہ سمندروں کی اچھی صحت کا براہ راست تعلق انسانی بقا، معاشی استحکام اور ماحولیاتی توازن سے ہے۔ سمندر ہمیں آکسیجن فراہم کرتا ہے، غذا دیتا ہے، گرمی کو جذب کر کے ماحول میں توازن بناتا ہے، اور بخارات کی صورت میں بارشیں برساتا ہے۔ عالمی تجارت کا 90 فی صد سمندری راستوں سے ہوتا ہے، جو معیشتوں کو جوڑتا ہے اور وسائل کی تقسیم کو فعال کرتا ہے۔

    بچپن سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہماری زمین کا 3 فی صد حصہ پانی اور صرف ایک فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔ امریکی سرکاری ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق زمین کا 71 فی صد حصہ پانی اور 29 فی صد خشکی پر مشتمل ہے، لیکن ہماری یہ معلومات عام طور سے یہیں تک محدود ہوتی ہے۔


    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات


    امریکی سائنسی ایجنسی ’’یو ایس جیولوجیکل سروے‘‘ (USGS) کے مطابق زمین کے 71 فی صد پانی میں سے 97 فی صد کھارے پانی یعنی کہ سمندری پانی اور صرف 3 فی صد میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی 68 فی صد سے زیادہ برف اور گلیشیئرز میں بند ہے، جب کہ مزید 30 فی صد میٹھا پانی زیر زمین ہے۔

    سطح کے تازہ پانی کے ذرائع جیسا کہ دریا اور جھیلیں صرف 22,300 کیوبک میل (93,100 مکعب کلومیٹر) پر مشتمل ہیں، جو کہ کُل پانی کے ایک فی صد کا تقریباً 1/150 واں حصہ ہے۔ اس طرح تمام میٹھے پانی کا صرف 1.2 فی صد سے تھوڑا زیادہ سطح کا حصہ ہمیں میسر ہے، جو ہماری زندگی کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بھی سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔

    سمندروں کی نقشہ سازی اور نئی انواع


    کھارے پانی کی بات کریں تو امریکی حکومتی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ بغیر نقشے کے، غیر مشاہدہ شدہ اور غیر دریافت شدہ ہے اور یہ کہ 91 فی صد سمندری انواع کی درجہ بندی ابھی ہونا باقی ہے۔

    بیلجیم کے ادارے ورلڈ رجسٹر آف میرین اسپیسیز (WoRMS) کے مطابق اب تک تقریباً 2 لاکھ 42,500 سمندری انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس رجسٹر میں ان ناموں کا یہ اندراج دنیا بھر سے سائنس دانوں نے کیا ہے اور ہر سال تقریباً 2000 نئی سمندری انواع کا اندارج اس رجسٹر میں ہوتا رہتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کرنے کے باوجود آخر اب تک سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ غیر دریافت شدہ کیوں ہے؟

    غیر دریافت شدہ سمندر


    اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر بحریات ڈاکٹر جین کارل فیلڈمین سمندروں کے تحفظ کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ’اوشیانا‘ کو بتاتے ہیں: ’’سمندر کی گہرائیوں میں پانی کا شدید دباؤ اور سرد درجہ حرارت تلاش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

    فیلڈ مین نے اوشیانا کو مزید بتایا کہ سمندر کی تہہ تک جانے کے مقابلے میں خلا میں جانا بہت آسان ہے۔ سمندر کی سطح پر انسانی جسم پر ہوا کا دباؤ تقریباً 15 پاؤنڈ فی مربع انچ ہے اور خلا میں زمین کے ماحول کے اوپر دباؤ کم ہو کر صفر ہو جاتا ہے، جب کہ غوطہ خوری کرنے یا پانی کے اندر موجود گاڑی میں سواری کر کے گہرائیوں میں جانے پر دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

    انھوں نے اب تک سمندر کی سب سے گہری دریافت شدہ جگہ ماریانا گھاٹی (Mariana Trench) کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ماریانا گھاٹی کے نیچے غوطہ لگانے پر، جو تقریباً 7 میل (11.265 کلو میڑ) گہری ہے، سطح کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دباؤ انسانی جسم پر 50 جمبو جیٹ رکھے جانے کے وزن کے برابر ہے۔

    سمندر کی گہرائیوں میں شدید دباؤ، سرد درجہ حرارت اور مکمل اندھیرا، ان چیلنجوں سے ماہرین بحریات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کتنی جلدی نمٹ کر سمندروں کو دریافت کر پاتے ہیں یہ تو صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔

  • آن لائن شاپنگ کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟

    آن لائن شاپنگ کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟

    بازار جاکر کسی بھی چیز کو مناسب قیمت پر خریدنا کسی کارنامے سے کم نہیں کیونکہ اکثر اوقات ہم معیار یا برانڈ کے نام پر بے وقوف بن جاتے ہیں، اس صورتحال سے بچنے کیلئے اب لوگوں کا رجحان آن لائن خریداری کی جانب بڑھتا جارہا ہے۔

    دور جدید میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کو متعدد سہولیات اور آسانیاں فراہم کی ہیں جس میں آن لائن خریداری بھی اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے اور آج ہم گھر بیٹھے اپنی پسند کی چیز اپنی دہلیز پر منگوا لیتے ہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں شوبز اداکارہ زہرہ عامر  نے شاپنگ سے متعلق اپنے تجربات شیئر کیے اور بتایا کہ وہ شاپنگ کس انداز اور کس طریقے سے کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ مجھے بازار جاکر خریداری کرنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا اسی لیے مجھے دکاندار سے بھاؤ تاؤ (بارگننگ) کرنا بالکل بھی نہیں آتا، والدہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جایا کرتی تھیں کیونکہ ضرورت کی چیز تو بہرحال خریدنی ہی پڑتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب سے آن لائن شاپنگ کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو میں بہت سی چیزیں گھر منگوا لیتی ہوں یہ طریقہ مجھے بہت پسند ہے کیوں کہ میں اپنے طور پر کسی بھی چیز پر ریسرچ کرنے بعد اس کا آرڈر دیتی ہوں۔

    انہوں نے بتایا کہ مجھے کچھ بھی منگوانا ہو تو دس دن پہلے اس پر کام کرنا شروع کردیتی ہوں، مختلف سائیٹس کا وزٹ کرنے کے بعد مکمل معلومات حاصل کرکے منگواتی ہوں۔

  • روزانہ کتنے قدم چلنا خطرناک بیماریوں سے بچا سکتا ہے؟

    روزانہ کتنے قدم چلنا خطرناک بیماریوں سے بچا سکتا ہے؟

    پیدل چلنا صحت مند رہنے اور موت کا سبب بننے والی بے شمار بیماریوں سے بچانے کے لیے فائدہ مند ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے قدموں کی تعداد کا بھی اندازہ لگایا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت مند رہنے کے لیے 6 ہزار قدم چلنا کافی ہے۔

    امریکی ماہرین کے مطابق روزانہ 6 ہزار سے 8 ہزار قدم چلنا 60 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگوں میں جلدی موت کے امکانات کو 54 فیصد تک کم کردیتا ہے، ہر روز 8 ہزار سے زائد قدم چلنے کے کوئی اضافی فوائد نہیں ہیں۔

    یونیورسٹی آف میسا چوسٹس کی ٹیم نے 15 مطالعوں کے نتائج پر نظر ثانی کی، جن میں روزمرہ کے چلے جانے والے قدم کے موت پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔ ماہرین نے یہ تحقیق 4 برِاعظموں کے 50 ہزار افراد پر کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پیدل چلنا موت کے خطرات میں کمی کے لیے اہم تھا اور چلنے کی رفتار کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

    تحقیق کی رہنما مصنف ڈاکٹر امانڈا پیلوچ کا کہنا ہے کہ تحقیق میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے قدموں کی تعداد بڑھی، خطرات میں کمی میں اضافہ ہوا، دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں ہر روز قدموں کی تعداد کے علاوہ چلنے کی رفتار کے ساتھ کوئی واضح تعلق نہیں پایا گیا۔

    تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ 60 سال سے کم عمر لوگوں کو روزانہ 8 ہزار قدم چلنے چاہیئں تاکہ قبل از وقت موت کے خطرے سے بچ سکیں۔

  • ویکسی نیشن کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    ویکسی نیشن کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے بعد کووڈ 19 کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، یہ تحقیق اسکاٹ لینڈ میں کی گئی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کے بعد بیمار ہونے پر سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر خواتین کے مقابلے میں مردوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    اسکاٹ لینڈ میں ویکسی نیشن کے بعد کووڈ 19 کے خطرے کے حوالے سے قومی سطح پر پہلی تحقیق کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جزوی ویکسی نیشن کرانے والے 0.07 فیصد جبکہ مکمل ویکسی نیشن کرانے والے 0.006 فیصد افراد بریک تھرو انفیکشن (ویکسی نیشن کے بعد بیماری کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) کی تشخیص ہوئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دسمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران جزوی ویکسی نیشن کرانے والے ہر 2 ہزار میں سے ایک جبکہ مکمل ویکسی نیشن کرانے والے ہر 10 ہزار میں سے ایک فرد کو بریک تھرو انفیکشن کے بعد بیماری کی سنگین شدت (اسپتال میں داخلے یا موت) کا سامنا ہوا۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں بریک تھرو انفیکشن کے بعد بیماری کی شدت بڑھنے کا خطرہ 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے، بالخصوص 80 سال سے زائد عمر کے مردوں میں یہ خطرہ 18 سے 64 سال کے مردوں کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ایسے افراد جو پہلے سے مختلف بیماریوں کے شکار ہوں، کووڈ سے متاثر ہونے سے 4 ہفتوں سے قبل اسپتال میں داخل ہوچکے ہوں، زیادہ خطرے والا پیشہ، کیئر ہوم یا غریب علاقوں کے رہائشیوں میں بھی یہ خطرہ ویکسی نیشن کے بعد بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں زیادہ شدت والے کیسز کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال ہوئی جو کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے کے 28 دنوں کے اندر اسپتال میں داخل ہوئے یا ہلاک ہوگئے یا اسپتال میں داخلے کی وجہ کووڈ 19 قرار دی گئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کی ایک خوراک سے بھی اسکاٹ لینڈ میں کرونا وائرس کی ایلفا قسم کے پھیلاؤ کے دوران کووڈ سے اسپتال میں داخلے یا موت کا خطرہ بہت کم ہوگیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن کے بعد سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ ان افراد میں ہی زیادہ ہوتا ہے جن میں کووڈ کی شدت زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے یعنی معمر افراد یا پہلے سے مختلف طبی امراض کے شکار افراد۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ لوگ خطرے سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ویکسین کی دوسری خوراک کا استعمال کریں۔

  • لاکھوں افراد لانگ کووڈ سے متاثر

    لاکھوں افراد لانگ کووڈ سے متاثر

    واشنگٹن: امریکا میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے بعد سامنے آنے والے اثرات یعنی لانگ کووڈ پر ایک مفصل تحقیق کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاکھوں امریکی شہریوں کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مختلف طبی مسائل کے باعث طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا، حالانکہ کرونا وائرس سے قبل ان کو ان بیماریوں کا سامنا نہیں تھا۔

    اس تحقیق میں امریکا میں لگ بھگ ایسے 20 لاکھ افراد کے ہیلتھ انشورنس ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں گزشتہ سال کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے بعد 23 فیصد افراد کو نئی بیماریوں کے لیے علاج کروانا پڑا۔

    ان میں تمام عمر کے افراد بشمول بچے بھی شامل تھے اور سب سے عام طبی مسائل میں اعصاب اور مسلز کی تکلیف، سانس لینے میں دشواری، کولیسٹرول کی شرح میں اضافہ، شدید ترین تھکاوٹ اور ہائی بلڈ پریشر شامل تھے۔

    دیگر مسائل میں آنتوں کے مسائل، آدھے سر کا درد، جلدی مسائل، دل کے افعال میں خرابیاں، نیند کے مسائل اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے بے چینی اور ڈپریشن قابل ذکر ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے بعد طبی مسائل ایسے افراد میں بھی عام تھے جو اس وائرس سے بیمار بھی نہیں ہوئے تھے یعنی اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ بیماری کو شکست دینے کے بعد مسائل کا سامنا کرنے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا، مگر 27 فیصد افراد ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی، جبکہ 19 فیصد ایسے تھے جن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم بغیر علامات والے مریضوں میں لانگ کووڈ کی شرح دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تحقیق میں جن 19 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی ان میں 50 فیصد سے زیادہ بغیرعلامات والے تھے۔

    40 فیصد میں علامات ظاہر ہوئی تھی مگر انہیں اسپتال داخل نہیں ہونا تھا، جبکہ صرف 5 فیصد کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ بغیر علامات والے افراد میں لانگ کووڈ کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جو بہت اہم دریافت ہے، جس سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو کرونا وائرس کے مابعد اثرات کے امکان پر غور کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اس تحقیق میں جن مریضوں کے ریکارڈ کو دیکھا گیا تھا ان میں کووڈ کی تشخیص فروری سے دسمبر 2020 میں ہوئی تھی اور ان کی مانیٹرنگ فروری 2021 تک کی گئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ 4 لاکھ 54 ہزار 477 افراد نے بیماری کے 30 دن یا اس کے بعد ڈاکٹروں سے مختلف علامات کی وجہ سے رجوع کیا۔

  • ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    عام طور سے اسکولوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچے میتھس (ریاضی) کے مضمون سے سخت نالاں ہوتے ہیں، اور الجبرا، فریکشن اور بہت سارے فارمولوں میں پھنسے بچے، کسی بھی صورت ریاضی کا مضمون چھوڑنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک نئی سائنسی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ ریاضی (mathematics) چھوڑنے سے دماغ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور اگر 16 برس کی عمر میں ریاضی کا مضمون چھوڑا تو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    انسانی دماغ کی بہتر نشونما کے لیے ریاضی کے سوالوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاضی کا مضمون چھوڑنے سے دماغ کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    سائنسی تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے سولہ سال کی عمر میں جو طلبہ میتھمیٹکس چھوڑ دیتے ہیں، ان میں بدستور ریاضی پڑھنے والوں کی نسبت ایک قسم کے دماغی کیمیکل کی سطح کم رہ جاتی ہے، جو دماغ اور ادراکی قوت کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچرز نے دیکھا کہ جن طلبہ نے سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد ریاضی چھوڑ دیا، ان میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ نامی کیمیکل کی مقدار کم پائی گئی، جو کہ دماغ (brain) کی شکل پذیری کے لیے اہم ہوتا ہے۔

    نیورو ٹرانسمیٹر کے طور پر کام کرنے والے اس کیمیکل کی کمی دماغ کے ایک اہم حصے پری فرنٹل کارٹیکس (prefrontal cortex) میں پائی گئی، جو ریاضی، یادداشت، سیکھنے، استدلال کی صلاحیت اور مسائل کے حل کے لیے مدد کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ ’تجرباتی نفسیات‘ کے محققین نے اس مطالعے کے لیے 14 سے 18 برس کی عمر کے 130 طلبہ کو شریک کیا، 16 سال سے زائد عمر کے طلبہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑ چکے ہیں، اور چھوٹے بچوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان سب کو ایک برین اسکین اور ادراکی تجزیے سے گزارا گیا، اور پھر 19 ماہ بعد پھر دیکھا گیا۔

    جریدے پرسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع شدہ اس مقالے کے مطابق محققین نے سولہ سال کے بعد ریاضی پڑھنے اور نہ پڑھنے والے طلبہ میں دماغی کیمیکل کی کارکردگی میں واضح فرق دیکھا، تاہم 19 ماہ بعد بچوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ کی بہتر نشوونما ہوئی وہ سوالوں کو بہ آسانی حل کر سکے۔

    تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ریاضی کی مشکل مساوات کو حل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنا دماغ کے اس حصے کو مضبوط بناتا ہے، اور لوگوں کو ممکنہ طور پر بعد کی زندگی میں مشکل مسائل حل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے نیورو سائنس کے پروفیسر، روئی کوہن قدوش نے کہا کہ ریاضی میں دل چسپی نہ رکھنے والے بچوں کو اس کے مطالعے پر مجبور کرنا بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ ہمیں ان کے لیے متبادل راستے ڈھونڈنے چاہئیں تاکہ ان کے دماغ کی ورزش ہو سکے۔

  • بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر نے تباہی مچا رکھی ہے، روزانہ 3 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہورہی ہیں۔ حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے نیا انکشاف کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بھارت میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم بی 117 کی دریافت کے بعد حکومتی سطح پر ملٹی لیبارٹری نیٹ ورک (آئی این ایس اے سی او جی) کا قیام عمل میں آیا تھا۔

    24 مارچ کو اس نیٹ ورک نے ایک ڈبل میوٹنٹ قسم دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے علامتی ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔

    زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اقسام کا ابھرنا عالمی سطح پر نگرانی کے محدود نظام کی جانب نشاندہی کرتا ہے جو دور دراز علاقوں میں کام نہیں کر رہا۔

    آئی این ایس اے سی او جی کی جانب سے توقع تھی کہ تمام ریاستوں کے مثبت کیسز کے 5 فیصد کے جینیاتی سیکونسز تیار کرے گی مگر 15 اپریل تک محض 13 ہزار سیکونس ہی تیار ہوسکے۔

    ڈبل میوٹنٹ کیا ہے؟

    وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ جگہ جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔

    نیا کرونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نققول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔

    عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کرونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینو ایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیکشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔

    جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر اقسام سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت میں دریافت نئی قسم کو بی 1617 کا نام دیا گیا ہے جس میں 2 میوٹیشنز موجود ہیں۔ پہلی میوٹیشن اسپائیک پروٹین 452 میں ہوئی اور دوسری پروٹین 484 میں۔

    ویسے اس نئی قسم میں صرف 2 میوٹیشنز نہیں ہوئیں بلکہ مجموعی طور پر 13 تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں موجود ہیں۔

    یہ وائرس اسپائیک پروٹین کو پھیپھڑوں اور دیگر انسانی خلیات کی سطح پر موجود ایس 2 ریسیپٹر پروٹین سے جڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پھر بیمار کرتا ہے۔ وائرس میں 8 ویں میوٹیشن ناپختہ اسپائیک پروٹین کے وسط میں ہوئی جو وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کا باعث ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بھارتی قسم میں موجود میوٹیشنز پر الگ الگ تو تحقیقی کام ہوا ہے مگر اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہوا، اہم بات یہ ہے کہ اس کے اسپائیک پروٹین میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔

    میوٹیشنز کی تعداد نہیں ان کا مقام اہمیت رکھتا ہے

    ماہرین کے مطابق وائرسز میں ایسا اکثر ہوتا ہے، سرفیس پروٹینز بہت تیزی سے ارتقائی مرحال سے گزرتا ہے بالخصوص کسی نئے وائرس میں، تاکہ وہ خلیات کو زیادہ بہتر طریقے سے جکڑ سکے۔

    چونکہ اسپائیک پروٹین نئے کرونا وائرس کی سطح پر ہوتا ہے تو یہ مدافعتی نظام کا بنیادی ہدف ہوتا ہے، مدافعتی خلیات ایسی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں جو اسے شناخت کر کے وائرس کو ناکارہ بنادیں۔

    یہی وجہ ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسین میں اسپائیک پروٹین کو استعمال کر کے جسم کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ بیماری سے بچا جاسکے۔

    اسپائیک پروٹین میں آنے والی تبدیلیاں اس کی شکل اور ساخت کو بدل دیتی ہیں جس سے وائرس کو اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد ملتی ہے، اس سے وائرس کی بقا اور نقول بنانے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اسپائیک پروٹین میں کسی بھی میوٹیشن سے وائرس کے افعال، پھیلاؤ اور دیگر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایل 452 آر نامی میوٹیشن سے وائرس کی خلیاات کو متاثر کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے یعنی وہ تیزی سے اپنی نقول بناتا ہے اور ایس 2 ریسیپٹر کو زیادہ سختی سے جکڑتا ہے۔

    اسی طرح ای 484 نامی میوٹیشن وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    بھارت میں دریافت قسم بی 1617 میں یہ دونوں میوٹیشنز موجود ہیں اور اس وجہ سے یہ ممکنہ طور پر بہت زیادہ مشکل میں ڈال دینے والی قسم ہوسکتی ہے، جس پر زیادہ تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔

    عالمی سطح پر پھیلاؤ

    بی 1618 بہت تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچی ہے اور اب تک 1 ملک میں اسے دریافت کیا جاچکا ہے۔

    چونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں تو اس وقت بھارت میں وبا کی لہر میں تیزی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے مگر اس حوالے سے فی الحال حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

    کچھ ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ ویکسینز اس نئی قسم کے خلاف مؤثر ہیں جبکہ احتیاطی تدابیر یعنی فیس ماسک، سماجی دوری اور ہاتھوں کو اکثر دھونا بھی اس سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہیں۔

  • موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    لندن: برطانوی ماہرین کی حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کسی شخص میں موٹاپے کا شکار رہنے کا دورانیہ امراض قلب اور میٹابولک امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

    برطانیہ کی لوفبرو یونیورسٹی کی حال ہی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپا کسی فرد کی صحت کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے مگر ہر ایک میں مختلف جان لیوا امراض کا خطرہ یکساں نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں محققین نے اس حوالے سے جائزہ لیا کہ موٹاپے کی مدت یعنی کچھ ماہ، سال یا دہائیوں سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے 10 سے 40 سال کی عمر کے 20 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی 3 تحقیقی رپورٹس کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں جسمانی وزن، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر میں اضافے کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ کسی فرد میں موٹاپے کا طویل عرصہ اس میں جان لیوا امراض کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی وزن کو کنٹرول رکھنا کتنا ضروری ہے، تاہم اگر کوئی موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے تو جسمانی وزن میں جلد کمی لا کر جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرنا ممکن ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی فرد کا جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ اسے وہاں پر ہی روک لیتا ہے تو بھی اس میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یعنی صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

    محققین کے مطابق خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب جسمانی وزن میں اضافہ مسلسل ہوتا چلا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن بڑھنے سے روکنے کے لیے پروٹین سے بھرپور ناشتا، میٹھے مشروبات اور فروٹ جوسز سے گریز، جسمانی وزن میں کمی لانے میں مددگار غذاﺅں کا استعمال، چائے یا کافی کا استعمال کم کرنا اور اچھی نیند لینا معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس دماغ کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ حیران کن انکشاف

    کرونا وائرس دماغ کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ حیران کن انکشاف

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس پر تحقیقاتی کام جاری ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کے دماغ پر اثرات سے متعلق ایک تحقیق نے ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکا کی ییل یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس دماغ کے خلیوں کو اپنے زیر اثر لے لیتا ہے۔

    ماہرین نے اسے دماغ کے خلیوں کی ہائی جیکنگ قرار دیا ہے جس میں وائرس دماغ کے خلیوں کو ہائی جیک کر لیتا ہے تاکہ وہ خود ان کی نقول تیار کرسکے، ان کی موجودگی کی وجہ سے آس پاس کے دماغی خلیات آکسیجن کی شدید کمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تحقیق کے دوران اس بات کے بھی واضح ثبوت ملے کہ کرونا وائرس دماغ کے حصے میں میٹا بولک تبدیلی کے ساتھ اس کے ارد گرد کے خلیات کو بھی متاثر کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انفیکشن کو اے سی ای 2 کو بلاک کر کے روکا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے چوہوں کے ایک گروہ میں ان کے صرف پھیپھڑوں میں جنیاتی طور پر اے سی ای 2 میں تبدیلی کی، جبکہ دوسرے گروہ کے صرف دماغ میں یہ عمل کیا۔

    جب وائرس ان چوہوں میں داخل کیا گیا تو جن کے دماغ میں انفیکشن کا اثر تھا، ان کے وزن میں تیزی سے کمی ہونے لگی اور 6 دن میں وہ مر گئے، اس کے برعکس پھیپھڑے متاثر ہونے والے چوہوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

    جب پہلے گروہ کے چوہوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ وائرس کورٹیکل نیورونز تک پہنچ گیا تھا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ نیورونز، کرونا وائرس (سارس کووڈ 2) کے حملے کا ہدف بن سکتے ہیں اور اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسے میں مقامی طور پر خون کی فراہمی رک جاتی ہے اور خلیات مر جاتے ہیں۔

    اس سے قبل ڈاکٹرز کچھ وقت تک تو یہ سمجھتے رہے کہ کرونا وائرس ایک رینج تک نیورولوجیکل بے ترتیبی، دماغ کے پروٹین پر مشتمل حصے میں خرابی، مرکزی اعصابی نظام میں سوزش، خون کے جمنے کے سبب دماغ میں خون نہ پہنچنے سے ہونے والے اسٹروک، تکلیف یا کمزوری سے عضو کے مفلوج ہونے کا سبب بنتا ہے، تاہم اس کی اصل وجہ نامعلوم تھی۔

    اس کا سبب یہی براہ راست انفیکشن تھا جسے اب ماہرین نے معلوم کرلیا ہے۔

  • پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کوبھی پیچھے چھوڑدیا، پروفیسرعطاءالرحمن

    پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کوبھی پیچھے چھوڑدیا، پروفیسرعطاءالرحمن

    کراچی : سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق وفاقی وزیر چئیرمین وزیرِ اعظم ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی ،ممتاز سائنس دان پروفیسر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    ہائر ایجوکیشن کے قیام کے بعد ریسرچ کے کام میں کافی تیزی سے آئی،سال 2001میں بھارت ہم سے آگے تھا، اب ہم نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے، اب ہمارا مقابلہ چائنا سے ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈاﺅ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اشتراک سے ساتویں انٹرنیشنل کانفرنس آن انڈورسنگ ہیلتھ سائنس ریسرچ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    انہوں نے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے پہلے ایک ارب دیئے گئے اب بجٹ بڑھا کر20ارب کر دیا گیا ہے، مگر ہمیں پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کو بڑھانا ہوگا، صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ اس کے استعمال کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ انفراسٹرکچر نہ ہو تو لوگ اپنے طور پر صاف پانی استعمال کرسکیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریسرچ کے شعبے میں نجی شعبے کا حصہ بہت کم ہے، چین میں نجی شعبہ ریسرچ پر 60فیصد خرچ کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم صرف قدرتی اور بعض صنعتی اشیا کی برآمدات کی فکر میں رہتے ہیں، جبکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ کے ذریعے ہم بہت زیادہ زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں۔

    گذشتہ ادوار میں سائنس و ٹیکنالوجی کو نظر انداز کرکے ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔ کانفرنس سے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی ، پروفیسر ٹیپو سلطان، منسٹری آف ہیلتھ سے ڈاکٹر عابد علی، ایڈوانس ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ کی سی ای او ڈاکٹر صدف احمد نے بھی خطاب کیا۔