Tag: ریسرچ

  • پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر طیبہ ظفر وہ پہلی پاکستانی خاتون بن گئی ہیں جو قطب شمالی پر کیے جانے والے ایک ریسرچ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں۔

    ڈاکٹر طیبہ ماہر فلکیات ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ ہوم وارڈ باؤنڈ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں جس کے تحت انہیں 3 ہفتے انٹارکٹیکا میں گزارنے تھے۔

    اس پروگرام کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی، انجینیئرنگ اور طب کے شعبے سے منسلک دنیا بھر کی خواتین کی صلاحیتوں اور ان کے تجربات میں اضافہ کرنا تھا۔ 26 ممالک سے تعلق رکھنے والی 80 خواتین کی ٹیم میں وہ واحد پاکستانی خاتون تھیں۔

    اپنے پروگرام کے دوران انہوں نے ان مقامات کا دورہ کیا جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے متاثر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طیبہ نے پینگوئن کی کالونیاں، وہیل اور گلیشیئرز کا بھی مشاہدہ کیا جبکہ برف پر کشتی کا سفر بھی کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ یہ سفر ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا جس نے ان کی صلاحیت اور کام کرنے کی لگن میں اضافہ کیا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انٹارکٹیکا میں قیام کے دوران ہم بیمار بھی ہوئے، ’چونکہ ہم اس ماحول کے عادی نہیں تھے لہٰذا ہمیں اس سے مطابقت کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آئی‘۔

    ڈاکٹر طیبہ فزکس میں ماسٹرز کرچکی ہیں جبکہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ سنہ 2007 میں انہیں کوپن ہیگن نیل بوہر انسٹیٹیوٹ کے ڈارک کوسمولوجی سینٹر میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ ملا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن سے فلکیات کا شوق تھا تاہم اسکول میں اس سے متعلق کوئی مضمون نہیں تھا، انہوں نے فلکیات اور ستارہ شناسی کے بارے میں بے شمار کتابیں خرید کر اپنے علم میں اضافہ کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ ملک میں سائنس کے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد نہایت کم ہے اور فلکیات میں تو بالکل نہیں، ’یہاں کی لڑکیاں بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ثقافتی و سماجی پابندیاں ان کے آڑے آجاتی ہیں‘۔

    خود انہیں بھی اپنے پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت بہت مشکل سے ملی تھی۔

    ڈاکٹر طیبہ کا عزم ہے کہ وہ اس شعبے میں مزید کامیابیاں حاصل کریں تاکہ اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں۔

  • طویل فاصلے تک دوڑنے کے حیرت انگیز فوائد

    طویل فاصلے تک دوڑنے کے حیرت انگیز فوائد

    عموی طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ میرا تھن ریس میں حصہ لینے والے ایتھلیٹ کے گھٹنوں کے جوڑ جلدی گھس جاتے ہیں اور انہیں گھٹنے کے درد سے نجات کے لیے گھٹنے تبدییل کرانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔

    تاہم 31 ممالک میں ہونے والے ایک نئی تحقیق کے نتائج اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، اس تحقیق کے حیران کن نتائج نے طب اور کھیل کے درمیان گہرے بندھن کو مزید مضبوط کرکے پرانے خیالات کی نفی کردی ہے۔

    نئی تحقیق کے مطابق طویل فاصلے تک دوڑنے والے ایتھلیٹ کے گھٹنے کسی نارمل آدمی کے گھٹنے سے زیادہ مضبوط اور پائیدار رہتے ہیں جب کہ ایتھلیٹ عام افراد کی نسبت جوڑوں کے درد سے بھی آزاد رہے ۔

     

    امریکا میں واقع تھامس جیفرسن یونیورسٹی میں کی گئی اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ جوڑوں کے درد اور سوزش کی بیماری عام افراد میں 17.9 فیصد رہی جب کہ میرا تھن ریس میں حصہ لینے والے ایتھلیٹس میں حیران کن طور پر صرف 8.8 فیصد سامنے آئی۔

    اس تحقیق سے قبل سائنس دانوں کا مانا تھا کہ ایتھلیٹس میں گھٹنوں اور کولہوں کی ہڈی کے فریکچر، درد اور سوزش کی بیماریاں عام افراد کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں اور اس حوالے سے کی گئی سابقہ ریسرچز میں بھی ملے جلے رجحان والے نتائج سامنے آئے تھے۔

     

     

    سائنس دانوں کا نئی تحقیق کے حوالے سے کہنا تھا کہ میراتھن ایتھلیٹس کی ہڈیوں کی کثافت، مضبوط پٹھے اور قابل رشک جسامت کی وجہ سے ایتھلیٹس میں جوڑوں کے درد اور سوزش عام افراد کی نسبت نہایت کم ہو تی ہے جب کہ دوڑنے کے دوران مسلسل حرکت میں رہنے کے باعث کشش ثقل بھی کم ہوجاتی ہے شاید اس لیے گھٹنے کے درد اور اور ان کے درمیان موجود کارٹیج گھسنے سے محفوظ رہتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زیر آب پہاڑوں کی موجودگی کا انکشاف، روبوٹس تصاویر لے کر واپس پہنچ گئے

    زیر آب پہاڑوں کی موجودگی کا انکشاف، روبوٹس تصاویر لے کر واپس پہنچ گئے

    لندن: برطانوی سائنس دانوں کی جانب سے زیر آب بسنے والی دنیا کےحوالے سے  بھیجے گئے روبوٹس کی واپسی گئی جس سے حاصل کردہ تصاویر اور شواہد پر مزید تحقیق کا عمل شروع کردیا گیا جن سے معلوم ہواکہ گہرے سمندر میں پہاڑ بھی موجود ہیں.

    تفصیلات کے مطابق برطانوی سائنس دانوں کی جانب سے بھیجے گئے آبدوزی روبوٹس کو ایک کشتی کے ذریعے کنٹرول کیا گیا، یہ روبوٹس سطح سمندر میں جاتے ہیں اور کشتی میں بیٹھے سائنس دان مشاہدے کے لیے اسکرین پر آنے والی تصاویر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

    BBC-3
    زیر آب کائنات کی تصاویر

    اس ریسرچ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ مشرقی اسکاٹ لینڈ کے ساحل پر واقع بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں، جن پر مونگا اگتا ہے جو سمندری مخلوق کا اہم مسکن ہے، اس مقام پر ریسرچ کرنے میں 6 ہفتوں کا وقت لگا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’’روبوٹس کو سطح سمندر میں 2 ہزار میٹر تک بھیج کر مشاہدہ کیا گیا، اس دوراں حیران کُن طور پر معلوم ہوا کہ سمندر کے اندر بڑے پہاڑ موجود ہیں اور یہاں رہنے والی مخلوق اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔ مھحققین کا کہنا ہے کہ یہاں انواع و اقسام کی آبی مخلوقات موجود ہیں.

    BBC-2
    زیر آب پہاڑ

    ریسرچ کے دوران زیر زمین کئی پہاڑوں کی تصاویر لی گئیں جس میں سب سے بلند پہاڑ کی لمبائی 1 ہزار 7 سو میٹر تک ریکارڈ کی گئی مگر یہ سب زیر آب ہیں۔6 ہفتے کی تحقیقات کے بعد ماہرین کی یہ کشتی اب واپس برطانیہ آگئی ہے جو اب وہاں سے موصول ہونے والی تصاویر اور شواہد کا تفصیلی مشاہدہ کیا جائے گا۔

    BBC-4

    آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی مشیل ٹیلر کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ریسرچ بہت اچھی ہوتی ہیں، آپ نہیں جانتے کہ سمندر کی اندھیری سطح میں جاکر آپ کیا کریں گے،اس زیر آب پہاڑ کو پہلی بار کسی نے دیکھا ہے، اس جگہ بسنے والے جانوروں کی زندگی بہت دلچسپ ہے۔

    آبی حیات کی ماہر کیری ہاول کا کہنا ہے کہ ’’اکثر لوگوں کا سوچنا ہے کہ سمندر مٹی کا ایک صحرا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے  کیونکہ ان پہاڑوں پر جانور ہیں اور ایک علیحدہ زندگی ہے۔