عظیم ولندیزی مصوّر ریمبراں (Rembrandt) کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کے سیلف پورٹریٹ کی بات سب سے پہلے کی جاتی ہے، جن میں وہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار کو دکھاتا ہے۔ ریمبراں کو دنیا سے گزرے ساڑھے تین سو سال سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن اس کا کام جہانِ فن میں اب بھی زیرِ بحث رہتا ہے۔ ریمبراں کو ایک نابغہ تسلیم کیا گیا اور نقّادوں نے اسے متاثر کن حد تک جدّت پسند مصوّر کہا ہے۔
اس مصوّر نے اپنے فن و تخلیق کی بدولت اُس دور میں نام پایا جسے مؤرخین ڈچ فن و ثقافت اور اختراع و ایجاد کا سنہری زمانہ قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص فنونِ لطیفہ کے شعبے میں اور فنِ مصوّری میں نئے رجحانات کو فروغ حاصل ہو رہا تھا۔ ریمبراں جسے اکثر ریمبرانٹ بھی لکھا جاتا ہے، اسی عہد کا ایک مقبول فن کار ہے جس نے نقّاشی اور فنِ مصوّری میں بے مثال کام کیا۔ آج ریمبراں کا یومِ وفات ہے۔ وہ 4 اکتوبر 1669ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔
کہتے ہیں کہ ہالینڈ کے کسی مصوّر کو دنیا میں اتنی شہرت نہیں ملی جتنی ریمبراں کے حصّے میں آئی۔ اس کے پورٹریٹس نے کمالِ فن کے شاہکار کا درجہ پایا۔ مشہور ہے کہ ریمبرانٹ کئی گھنٹے روزانہ اپنا تصویری خاکہ بنانے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔
عالمی شہرت یافتہ ریمبراں کی ایک پینٹنگ ‘دا نائٹ واچ‘ کے نام سے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کے ‘رائکس میوزیم‘ میں آج بھی شائقین کی توجہ کا مرکز ہے۔ ریمبراں یا ریمبرانٹ کے چند دیگر فن پارے دنیا کی متعدد بڑی آرٹ گیلریز کی زینت ہیں اور دلدادگانِ فنِ مصوّری کے ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ یہ تصاویر نو آموز آرٹسٹوں کو اس فن کی باریکیوں کو سیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔
ریمبراں کی زندگی کے ابتدائی حالات اور اس کے خاندان کے بارے میں جو معلومات دست یاب ہوسکی ہیں، ان کے مطابق وہ ایک اناج پیسنے والی چکّی کے مالک کا بیٹا تھا۔ یہ خاندان ہالینڈ میں بسا ہوا تھا۔ ریمبرانٹ نے 1609ء میں دنیا میں آنکھ کھولی۔ اس کا نام ریمبراں وان رائن رکھا گیا۔ اسے شروع ہی سے فنِ نقّاشی اور اس کی مختلف شکلوں سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اور مسلسل مشق کے ساتھ اس نے موقلم اور رنگوں سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار شروع کردیا ،مصوّری کی طرف مائل ہونے کے بعد ریمبراں نے آئل پینٹنگ اور اسکیچز بنائے اور اس فن میں مختلف تجربات بھی کیے۔
ماہرین کے مطابق ریمبراں سولھویں صدی کے اطالوی مصوّروں سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے اور اس کے کئی فن پارے انہی مصوّروں کے زیرِ اثر تخلیق کردہ ہیں۔ تاہم اس کے فن کی خاص بات مختلف تخلیقی تجربات ہیں جس سے ریمبراں کے جنون اور وفورِ شوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے ریمبراں کے فن کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ نقّادوں کے مطابق وہ ایک ایسا اختراع پسند تھا جس نے تکنیکی طور پر اپنے فن پاروں کو جدّت اور انفرادیت سے سجایا اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین صدیوں سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس مصوّر کے فن پارے زندہ و متحرک محسوس ہوتے ہیں اور یہ وہ خوبی ہے جو ریمبراں کو ڈچ فن و ثقافت کا ایک بڑا تخلیق کار ثابت کرتی ہیں۔
بطور مصوّر ریمبراں کی انفرادیت اور اس کی تصاویر کا قابلِ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی اور قدیم و تاریخی واقعات کو خوب صورتی سے کینوس پر اتارا۔ فنِ مصوّری کے ماہر اس بات کو ریمبرانٹ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں کہ اس کی پینٹنگز میں جسمانی حرکات و سکنات کو نہایت فن کارانہ چابک دستی سے نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور یہ کردار بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فن پاروں میں روشنی اور مختلف رنگوں کا وہ متنوع تأثر ملتا ہے جسے مصوّر کی اختراع پسندی نے بے مثال بنا دیا ہے۔
ریمبراں کے سیلف پورٹریٹ کسی بھی دوسرے مصوّر کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور یہ وہ کام تھا جو شاید ریمبراں کو بہت پسند تھا۔ اس نے خود کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری میں مختلف تجربات کیے ہیں۔
قارئین، ریمبراں نے ایشیائی ثقافت اور بالخصوص ہندوستان کے مغل حکم رانوں اور اس دور کی چند بااثر شخصیات کی تصاویر بھی بنائی ہیں۔ وہ دراصل مغل منی ایچر سے بہت متاثر ہوا تھا اور اس پر 1650ء کے لگ بھگ کام کیا۔ اس نے شاہ جہان، اکبر، جہانگیر اور دارا شکوہ کے اسکیچز بنائے ہیں، لیکن ریمبراں ہالینڈ سے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا، اور یہ تصاویر اس تک پہنچی تھیں۔ ریمبراں کے مغل اسکیچز کی تعداد 24 سے 25 ہے۔ تاہم یہ اس کا قابلِ ذکر کام نہیں ہے۔