Tag: ریپ

  • بھارت: مندر میں ’ریپ کے بعد قتل ہونے والی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو دفن کرنے والا‘ شخص گرفتار

    بھارت: مندر میں ’ریپ کے بعد قتل ہونے والی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو دفن کرنے والا‘ شخص گرفتار

    کرناٹکا(24 اگست 2025): بھارت میں مندر میں ’ریپ کے بعد قتل ہونے والی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو دفن کرنے والا‘ شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹکا میں مندر میں جنسی ہراسی کے بعد قتل اور دفن کرنے کا معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ متعلقہ شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کو زبردستی ایسی درجنوں خواتین کی لاشیں دفن کرنے پر مجبور کیا گیا جن کو جنسی ہراساں کرنے کے بعد قتل کر دیا جاتا تھا۔

    ملزم کے ہوش ربا دعوؤں کے نتیجے میں بھارت کے سیاحتی اور مذہبی حوالے سے مشہور شہر دھرم شالا میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

    کرناٹکا میں شدید احتجاج کے بعد ریاستی حکومت نے اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی تھی تاکہ مذکورہ شہری کے الزامات کی تصدیق کی جاسکے، ایس آئی ٹی کے ایک عہدیدار کے مطابق مذکورہ شہری کو جھوٹے بیان دینے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

    جولائی میں ایک شخص نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان بھی ریکارڈ کروایا تھا،  اس شخص نے کہا کہ وہ 1995 سے 2014 تک مندر میں صفائی کا کام کرتا رہا تھا۔

    اس شخص نے الزام لگایا کہ اس دوران اسے سینکڑوں لڑکیوں اور عورتوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جنھیں ریپ کے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، ملزم نے پانچ واقعات کی تفصیل دی اور کہا کہ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی ہیں، ملزم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کچھ متاثرہ لڑکیاں نابالغ تھیں۔

    ملزم نے پولیس کو بیان میں کہا کہ وہ 2014 سے روپوش تھا لیکن اب اپنی ضمیر کی آواز پر اس نے واپس آ کر سب کچھ بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔

  • زیادتی یا شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت کون کرے گا؟ عدالت نے فیصلہ سنا دیا

    زیادتی یا شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت کون کرے گا؟ عدالت نے فیصلہ سنا دیا

    لاہور: ہائیکورٹ نے زیادتی یا شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت کرنا بائیولوجیکل والد کی ذمہ داری قرار دے دیا ہے۔

    لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس احمد ندیم ارشد نے محمد افضل کی درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا، عدالت نے ٹرائل کورٹ کو شواہد کی روشنی میں دوبارہ فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی۔

    عدالت نے تمام فریقین کو ٹرائل کورٹ کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت کر دی، عدالت نے قرار دیا کہ اگر بچی کا بائیولوجیکل والد ثابت ہو جائے تو وہ اس کے اخراجات کا پابند ہے، جو بچی کے پیدا ہونے کا ذمہ دار ہے وہی اس کے اخراجات کا بھی ذمہ دار ہے۔


    سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ، والد کی جگہ شادہ شدہ بیٹی سرکاری نوکری کے لیے اہل قرار


    عدالتی فیصلے کے مطابق بائیولوجیکل والد کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے ناجائز بچے کی ذمہ داری اٹھائے۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق 2020 میں درخواست گزار نے خاتون مریم سے مبینہ زیادتی کی تھی، درخواست گزار کے خلاف زیادتی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، مبینہ زیادتی کے نتیجے میں خاتون نے بیٹی کو جنم دیا، جس کے بعد خاتون نے بچی کے خرچے کے لیے بائیولوجیکل والد کے خلاف دعوی دائر کیا۔


    سپریم کورٹ نے آئس کیس سے ڈسچارج شہری کو پولیس میں بھرتی کے لیے اہل قرار دے دیا


    درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ میں بیان دیا کہ بچی اس کی نہیں ہے، دعویٰ مسترد کیا جائے، ٹرائل کورٹ نے خاتون کا دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے بچی کا 3000 خرچہ مقرر کر دیا، جس پر درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

  • بھارتی کرکٹ شائقین کی ٹریوس ہیڈ کو بیٹی اور بیوی کے ریپ اور قتل کی دھمکی

    بھارتی کرکٹ شائقین کی ٹریوس ہیڈ کو بیٹی اور بیوی کے ریپ اور قتل کی دھمکی

    احمد آباد: ورلڈ کپ میں شرمناک شکست کے بعد بھارتی کرکٹ فینز آپے سے باہر ہوگئے۔

    آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 کے فائنل میں ہوم گراؤنڈ میں شکست کے  بعد بھارتی کرکٹ شائقین آپے سے باہر ہوگئے، فائنل میں سنچری بنانے والے آسٹریلوی بیٹر ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو ریپ اور قتل کی دھمکیاں دے دیں۔

    ٹریوس ہیڈ دنیا کے پہلے کرکٹر بن گئے؟

    سوشل میڈیا پر بھارتی کرکٹ کے شائقین نے بدترین کارکردگی پر اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں پر تنقید کرنے کے بجائے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا کی جیت کی راہ ہموار کرنے والے بیٹر ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور ایک سالہ بیٹی کو ہی نشانہ بنا لیا۔

    شین وارن کی ٹریوس ہیڈ سے متعلق سات سال پرانی پیشگوئی وائرل

    بھارت کے انتہا پسند شائقین کرکٹ نے ورلڈ کپ کے گزشتہ روز کے اسٹار پلئیر ٹریوس ہیڈ کو جہاں سوشل میڈیا پر گالی دی وہی نفرت اور بدسلوکی کے اس حد تک پہنچ گئے کہ انکی 1 سالہ بیٹی  اور بیوی کو عصمت دری کی دھمکیاں دے دی۔

    دنیا بھرکے سوشل میڈیا صارفین نے بھارت کے انتہا پسند شائقین کرکٹ کو شرمناک دھمکیوں پرشدید تنقید کا سامنا بنایا۔

    متعدد شائقین کرکٹ نے آسٹریلوی کرکٹر کی بیوی اور ایک سال کی بچی کو ریپ کی دھمکیاں دینے والوں کے خلاف فوری کارروائی اور ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

    یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے قبل 2021 میں بھی بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ویرات کوہلی کی جانب سے مسلمان کھلاڑی محمد شامی کی حمایت کرنے پر انہیں ان کی 10 ماہ کی بیٹی کی ’ریپ‘ کی دھمکی دے دی گئی تھی۔

  • خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ کے پی کے میں ایک سال میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 43 کا ریپ ہوا جب کہ 19 نے مبینہ طور پر خود کشی کی۔

    خیبر پختون خوا سمیت ملک بھر میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات آئے دن رونما ہو رہے ہیں، خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل پر بات تو کی جاتی ہے، حکومت قانون سازی بھی کرتی ہے، لیکن پھر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

    عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، خواتین پر تشدد کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں، خیبر پختون خوا میں گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ مختلف طریقوں سے خواتین کے ہراسانی کے واقعات میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں ذہنی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    قتل یا خود کشی؟

    شبینہ ایاز نے بتایا کہ سوات اور چترال میں خاص طور پر خواتین میں خودکشی اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آ رہے ہیں، اور گزشتہ 5 ماہ کے دوران 19 خواتین نے خود کشی کی ہے، لیکن پولیس تفتیش کے دوران پتا چلا کہ مبینہ خود کشی کرنے والی بیش تر خواتین کو قتل کیا گیا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔ شبینہ ایاز نے بتایا کہ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور جب تشدد میں خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں تو پھر ان کو خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔

    قوانین موجود پھر بھی واقعات میں اضافے کی وجہ کیا؟

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ 2021 میں خیبر پختون خوا اسمبلی سے گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ جسم ہو اور اس میں روح نہ ہو، کیوں کہ اس ایکٹ کی روح ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز ہے لیکن ابھی تک یہ کمیٹیز نوٹیفائی نہیں ہوئیں، جس کی وجہ سے خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    انھوں نے کہا کسی خاتون پر تشدد ہوتا ہے اور وہ پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر درج کرنا چاہتی ہے تو پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی، زیادہ سے زیادہ پولیس روزنامچہ درج کر دیتی ہے اور ایک دو دن بعد اس شخص کی ضمانت ہو جاتی ہے اور پھر مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ تشدد کرنے والا جب جیل سے واپس گھر آتا ہے تو خاتون پر اور بھی تشدد شروع کر دیتا ہے اور اس طرح بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے، اس کا سدباب صرف پروٹیکشن کمیٹیز ہیں۔

    خواتین کے ساتھ ساتھ پولیس بھی قانون سے بے خبر

    سماجی کارکن صائمہ منیر نے بتایا کہ قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، پارلیمنٹرین اسمبلی سے بل منظور کرتے ہیں اس پر عمل درآمد کرانا بھول جاتے ہیں۔ صائمہ منیر نے بتایا کہ گھریلو تشدد بل کو منظور ہوئے 2 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج تک اس قانون کے تحت ایک بھی کیس تھانے میں درج نہیں ہوا کیوں کہ خواتین کو اس قانون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے اور نہ پولیس کو پتا ہے کہ یہ قانون کیا ہے۔

    مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ بھی صائمہ منیر کی بات سے اتفاق کرتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ قانون بنایا جاتا ہے لیکن قانون سازی کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا، گھریلو تشدد بل اسمبلی سے منظور ہوا ہے لیکن پولیس کو اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں۔ اب پولیس کو اس حوالے سے ٹریننک دی جا رہی ہے کہ اگر کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوئی ہے تو اس ایکٹ کے تحت ملزمان کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے مسائل پر ہونے والی قانون سازی پر صوبے کے مختلف پولیس لائنز جا کر اہلکاروں کو لیکچر بھی دے رہی ہیں۔

    مہوش کے مطابق تشدد کی روک تھام اس وقت تک مشکل ہے جب تک لوگوں کو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس سے آگاہی نہ ہو، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے تو وہ پہلے تو اس کی رپورٹ درج نہیں کرتی اور اگر کوئی خاتون رپورٹ درج کرنا چاہے تو پھر پولیس اس کی رپورٹ نہیں لیتی، جب تک معاشرے میں اس کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوگی یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔

    جرم ثابت ہونے پر سزا کتنی ہوگی؟

    گھریلو تشدد کے قانون کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے ملزم کو کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال تک سزا ہوگی، اس کے علاوہ جرم ثابت ہونے پر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا، اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے اور بیوی اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی تو ملزم خاتون کو خرچہ بھی دے گا اور اگر بچے بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بچوں کا خرچ بھی وہی مرد برداشت کرے گا۔

    ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز کیوں ضروری ہیں اور یہ کام کیسے کریں گی؟

    جب کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوتی ہے تو وہ پہلے ڈسٹرکٹ کمیٹی کو شکایت درج کرے گی، پروٹیکشن کمیٹی پہلے فریقین کے درمیان مصالحت سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک جرگہ میں ہوتا ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکالا جائے۔

    مسئلے کا حل نہیں نکلتا تو پھر کمیٹی متاثرہ خاتون کا بیان لے گی اور دوسرے فریق کو نوٹس جاری کرے گی، کمیٹی میں ایک سیکریٹری ہوگا جس کی اپنی ذمہ داریاں ہوں گی، جتنے سروس فراہم کرنے والے سرکاری اور نجی ادارے ہوں گے ان کی ایک ڈائریکٹری کمیٹی میں ہوگی، کسی بھی متاثرہ خاتون کو مدد کی ضرورت ہوگی تو سیکریٹری ان کو فراہمی کے لیے اقدامات کرے گا، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کمیٹیز ہے نہیں، کمیٹیز نوٹیفائی ہو جاتی ہیں تو خواتین کو بڑی آسانی ہوگی۔

    بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟

    ریجنل ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن شبینہ ایاز نے بتایا کہ مختلف تنازعات کے حل کے لیے تھانوں کی سطح پر قائم مصالحتی کمیٹیوں (ڈی آرسیز) میں خواتین نمائندگی بڑھانی چاہیے اور ضم اضلاع میں بھی فوری طور پر ڈی آرسیز قائم ہونی چاہیئں، تاکہ ضم اضلاع میں خواتین کو درپیش وراثت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

    الیکشن وقت پر نہیں ہوتے تو کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر ہو سکتی ہے

    خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی رہنما صائمہ منیر نے بتایا کہ اب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہے ہیں، اب الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، اگر فوری الیکشن نہیں ہوتے اور نگران حکومتیں قائم رہتی ہیں تو اس سے گھریلو تشدد بل کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت، ضلعی انتظامیہ، محکمہ پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن بڑھانے کی ضرورت ہے۔

  • نشہ آور چائے پلا کر 120 سے زائد خواتین کی عصمت دری کرنے والے ’جلیبی بابا‘ کو سزا سنا دی گئی

    ہریانہ: بھارتی ریاست ہریانہ کے ’جلیبی بابا‘ کو آخرکار عدالت نے 14 سال قید کی سزا سنا دی، امر ویر عرف جلیبی بابا یا امرپوری خواتین کو نشہ آور چائے پلا کر ان کی عصمت دری کرتا تھا، اور بلیک میل کرنے کے لیے ان کی ویڈیو بھی بناتا تھا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہریانہ کے علاقے ٹوہانا کے مشہور عصمت دری و فحش ویڈیو کیس میں فتح آباد کی ایک فاسٹ ٹریک خصوصی عدالت نے امرویر کو ایک سو بیس سے زائد خواتین اور بچیوں کا ریپ کرنے کے جرم میں چودہ سال قید کی سزا دے دی۔

    63 سالہ مجرم اُن خواتین کو نشہ آور چائے پلاتا تھا جو اس کے پاس کسی طرح کی مدد مانگنے آتی تھیں، اور پھر ان کی عصمت دری کرتا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ اس حرکت کو ریکارڈ بھی کر لیتا تھا اور پھر ویڈیو پبلک کرنے کی دھمکی دے کر ان سے رقم اینٹھتا تھا۔

    امرویر کا دعویٰ تھا کہ وہ انسان کے روپ میں خدا کا اوتار ہے، عدالت نے اس کو نابالغ لڑکیوں کے ریپ میں 14 سال، خواتین سے ریپ میں 7-7 سال، اور آئی ٹی ایکٹ کے تحت 5 سال قید کی سزا سنائی، تاہم یہ سبھی سزائیں ایک ساتھ چلیں گی۔

    جلیبی بابا 2018 سے عدالتی حراست میں جیل میں قید ہے، اس لیے عدالت نے اس مدت کو بھی سزا میں شامل کر دیا ہے۔ عدالت میں جب جلیبی بابا کو سزا سنائی جا رہی تھی تو وہ رحم کی بھیک مانگتا ہوا دکھائی دیا۔

    جلیبی بابا کی کارستانیوں کا انکشاف اس وقت ہوا جب اس کے خلاف 6 خواتین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

    جلیبی بابا کون ہے؟

    پولیس کے مطابق پنجاب کے مانسا ضلع کا رہنے والا امر ویر ہریانہ کے ٹوہانا میں جلیبی کی ریڑھی لگاتا تھا، کاروبار اچھا چلنے لگا، لیکن اس دوران اس کی بیوی کی موت ہو گئی، وہ 4 لڑکیوں اور 2 لڑکوں کا باپ تھا، جن کی شادی اس نے پنجاب میں کرا دی تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ بیوی کی موت کے بعد امر ویر کسی تانترک کے رابطے میں آیا تھا، پنجاب سے آئے اس تانترک کو امر ویر نے اپنا گرو مان لیا اور اس سے تنتر منتر کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد وہ 2 سال کے لیے ٹوہانا چھوڑ کر غائب ہو گیا، لوگ کہتے ہیں کہ وہ پنجاب چلا گیا تھا۔

    ٹوہانا واپسی کے بعد امر ویر کا نام امر پوری ہو چکا تھا اور اس نے وارڈ نمبر 19 میں ایک مکان میں بابا بالک ناتھ کا مندر بنا لیا، جہاں اس نے اپنے بچوں کے ساتھ رہائش بھی اختیار کر لی۔

    امر پوری مندر میں آنے والے لوگوں کے مسائل تنتر منتر کے ذریعے حل کرنے کا دعویٰ کرنے لگا، اور اس کا جادو ایسا چلا کہ اس کے گھر پر لوگوں کی قطاریں لگنے لگیں۔

    بتایا جاتا ہے کہ امرپوری کو لوگ بابا بلورام اور جلیبی بابا جیسے ناموں سے پکارنے لگے تھے۔

    2018 میں ٹوہانا میں پولیس کے ایک افسر کو مخبر نے موبائل پر ایک فحش ویڈیو بھیجی، جس میں جلیبی بابا کسی خاتون کے ساتھ غلط کاری کرتا نظر آ رہا تھا، یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد تھانہ انچارج پردیپ کمار کی شکایت پر جلیبی بابا کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔

    جلیبی بابا کو جب پکڑا گیا تو اس کے پاس سے خواتین کے ریپ کی 120 سے زائد ویڈیوز برآمد ہو گئیں، تفتیش میں اس نے خواتین کے ریپ کا اعتراف کیا۔

  • لاہور میں ایک روز میں خواتین سے زیادتی کے 3 مقدمات درج

    لاہور میں ایک روز میں خواتین سے زیادتی کے 3 مقدمات درج

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک روز میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے 3 مقدمات درج کیے گئے ہیں، پولیس ملزمان کو تلاش کر رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے 3 واقعات پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

    ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق گرین ٹاؤن میں شادی شدہ خاتون کو نوکری کاجھانسہ دے کر زیادتی کی گئی، ملزم وقاص نے نوکری دلانے کے بہانے 1 لاکھ روپے بھی ہتھیائے۔

    دوسرا واقعہ گجر پورہ کا ہے جہاں 20 سالہ معذور خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    ایف آئی آر متاثرہ خاتون کے چچا نے درج کروائی جس کے مطابق ملزم صداقت گھر کے ساتھ حویلی میں خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنا کر فرار ہوا۔

    تیسرا واقعہ اقبال ٹاؤن کا ہے جہاں ملزم تنویر نے اپنی 17 سالہ کزن کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، واقعے کا مقدمہ متاثرہ لڑکی کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

    ایف آئی آر کے مطابق ملزم تنویر نے کزن کو شادی کا جھانسہ دے کر متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

  • صرف ہراساں کیا گیا: پولیس 9 سالہ بچی سے زیادتی کا مقدمہ درج کرنے سے انکاری

    صرف ہراساں کیا گیا: پولیس 9 سالہ بچی سے زیادتی کا مقدمہ درج کرنے سے انکاری

    لاہور: صوبہ پنجاب کے علاقے روجھان میں 9 سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا، پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچی کو صرف ہراساں کیا گیا زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے علاقے روجھان میں تھانہ شاہوالی کی حدود میں بااثر شخص نے 9 سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    بچی اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بچی کو زیادتی کے بعد جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا، اطلاع ملنے پر پولیس جائے وقوع پر پہنچی تو بچی کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔

    اہل خانہ کے مطابق پولیس بااثر افراد سے ملی ہوئی ہے، بچی کا میڈیکل بھی نہیں ہونے دیا گیا، شاہوالی پولیس نے تاحال ملزم کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔

    اہل خانہ نے ڈی آئی جی، آر پی او ڈی جی خان اور ڈی پی او راجن پور سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کو ہراساں کیا گیا ہے لیکن زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

  • ‘اگر زیادتی کا شکار ہونا ناگزیر ہو جائے تو’ … بھارتی سیاست دان نے حد کر دی

    ‘اگر زیادتی کا شکار ہونا ناگزیر ہو جائے تو’ … بھارتی سیاست دان نے حد کر دی

    نئی دہلی: ایک طرف بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات وبا کی طرح پھیلے ہوئے ہیں، دوسری طرف آئے روز سیاست دانوں کی جانب سے ریپ سے متعلق انتہائی بے حسی پر مبنی بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔

    تازہ ترین واقعہ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کا ہے، جہاں رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر کے آر رمیش کمار نے جمعرات کے روز ریپ کے حوالے سے متنازعہ بیان دے دیا۔

    کرناٹک اسمبلی میں ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے رکن رمیش کمار نے کہا ‘لوگ کہتے ہیں کہ اگرریپ ہونا ناگزیر محسوس ہوتو آرام سے لیٹ جانا اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔’

    بیان تو تھا ہی افسوس ناک تاہم اس کے بعد ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آ گیا، اس بیان پر اسمبلی کے اسپیکر نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ہنستے رہے، اور دیگر اراکین بھی بیان سے محظوظ ہوتے دکھائی دیے۔

    جب سوشل میڈیا پر رمیش کمار کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا، متعدد خواتین تنظیموں اور خواتین سیاست دانوں نے بھی اس پر سخت اعتراض کیا، تو رمیش کمار نے جمعے کے روز اسمبلی میں اپنے بیان پر معذرت کی، اور اس کے بعد ہی کانگریس پارٹی نے بھی بیان پر ناراضی کا اظہار کیا۔

    تاہم بھارت میں پیش آنے والا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے، ماضی میں متعدد اہم سیاست دان خواتین اور بالخصوص ریپ کی متاثرین کے لیے بے حسی کا اظہار کر چکے ہیں۔

    اس حوالے سے سب سے ‘مشہور’ بیان سابق وزیر دفاع اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کا ہے، جنھوں نے ریپ کے لیے سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے 2014 میں کہا تھا، ‘لڑکے ہیں، غلطی ہو جاتی ہے، لڑکیاں پہلے دوستی کرتی ہیں، اختلاف ہو جاتا ہے، تو اسے ریپ کا نام دے دیتی ہیں۔’

    ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالا نے لڑکیوں کو ریپ سے بچانے کے لیے ان کی شادی 16 برس میں ہی کر دینے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا، ‘لوگ مغلوں کی زیادتی سے اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لیے کم عمر میں شادی کر دیتے تھے، ریاست میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔’

  • بھارت: حاملہ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کا اندوہناک واقعہ

    بھارت: حاملہ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کا اندوہناک واقعہ

    نئی دہلی: بھارت میں جنسی زیادتی کے ایک اور اندوہناک واقعے نے انسانیت کو شرمسار کردیا، بااثر زمینداروں نے حاملہ خاتون کو یرغمال بنا کر اسے جنسی زیادتی اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق انسانیت کو شرمسار کردینے والا یہ واقعہ ریاست مدھیہ پور کے ایک گاؤں میں پیش آیا جہاں ایک بااثر زمیندار خاندان نے دلت خاندان پر ظلم کی انتہا کردی۔

    گھر میں موجود دو بھائیوں نے مذکورہ زمینداروں کی زمین پر کام کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد 3 زمیندار بھائیوں نے ان پر بری طرح تشدد کیا جس کے بعد وہ دونوں اپنی جان بچانے کے لیے گاؤں سے بھاگ گئے۔

    بعد ازاں تینوں زمیندار بھائیوں نے دلت خاندان کے گھر پر دھاوا بول دیا جہاں دونوں بھائیوں کی ماں، ایک بھائی کی حاملہ بیوی اور اس کے کمسن بچے موجود تھے۔

    غنڈوں نے خواتین اور بچوں کو کئی روز تک گھر میں یرغمال بنائے رکھا، اس دوران وہ حاملہ خاتون کو بچوں کے سامنے جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بناتے رہے، جبکہ اس مکروہ فعل سے روکنے پر 70 سالہ بوڑھی ماں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔

    بدمعاشوں نے بغیر کسی خوف کے خواتین کو 4 روز تک انہی کے گھر میں یرغمال بنا کر رکھا، اس دوران انہیں نہ کچھ کھانے پینے دیا گیا، اور نہ ہی کسی کو باہر آنے جانے دیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق حاملہ خاتون کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے بعد ان کا حمل بھی ضائع ہوگیا، یرغمال بنے رہنے کے دوران وہ شدید تکلیف میں رہی اور اسے ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جانے دیا گیا۔

    پولیس تک بات پہنچائی گئی تو انہوں نے زمیندار خاندان پر ہاتھ ڈالنے سے بچنے کے لیے لاپرواہی اختیار کی، تاحال کسی مجرم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

    اندوہناک واقعے کے بعد کانگریس کے مقامی عہدیداروں نے احتجاج کرنے دھمکی دی ہے، یوتھ کانگریس کے ضلعی صدر نے ریاستری وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اور پولیس انتظامیہ کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

    کانگریس نے وارننگ دی ہے کہ اگر اس کیس کے تمام مجرموں کو 24 گھنٹوں کے اندر نہیں پکڑا گیا تو کانگریس ضلعی اور ریاستی سطح پر احتجاج کرے گی۔

  • بھارت: 86 سالہ بزرگ خاتون سے زیادتی پر ملک میں غم و غصے کی لہر

    بھارت: 86 سالہ بزرگ خاتون سے زیادتی پر ملک میں غم و غصے کی لہر

    نئی دہلی: بھارت میں ایک 86 سالہ بزرگ خاتون سے زیادتی کے واقعے نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی، خاتون سے 50 برس کم عمر 30 سالہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ ہلا دینے والا واقعہ دارالحکومت نئی دہلی میں پیش آیا جسے ویسے ہی بھارت کے ریپ کیپیٹل کا نام دیا جاتا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ پیر کے روز ایک بزرگ خاتون اپنے گھر کے باہر دودھ والے کا انتظار کر رہی تھیں کہ ایک شخص وہاں آیا، اس نے انہیں کہا کہ دودھ والا آج نہیں آ رہا ہے اور ساتھ ہی کہا کہ وہ انہیں اس جگہ لے جائے گا جہاں دودھ مل رہا ہے۔

    مذکورہ شخص بزرگ خاتون کو قریب واقع ایک فارم پر لے گیا اور گھناؤنے فعل کا ارتکاب کیا۔ اس دوران خاتون رو رو کر کہتی رہیں کہ وہ اس کی دادی کی طرح ہیں تاہم ملزم کے کان پر جوں نہ رینگی اور مزاحمت پر اس نے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

    شور شرابے پر مقامی افراد وہاں پہنچ گئے جنہوں نے ملزم کو پکڑ لیا اور بعد ازاں اسے پولیس کے حوالے کردیا۔

    ایک مقامی سماجی کارکن کے مطابق وہ 86 سالہ بزرگ خاتون سے مل کر آئی ہیں، ان کے چہرے اور جسم پر زخموں کے نشان ہیں جبکہ وہ سخت صدمے کی حالت میں ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس وقت خواتین سے زیادتی کے جرائم بھیانک صورت اختیار کر گئے ہیں، نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق سنہ 2018 میں پولیس نے زیادتی کے 33 ہزار 977 کیسز ریکارڈ کیے جس کا مطلب ہے کہ ہر 15 منٹ میں ایک ریپ۔

    تاہم اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔

    بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا گراف اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران کرونا مریضوں کے ساتھ بھی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، گزشتہ ماہ کووڈ 19 کی مریضہ کو لے کر جانے والی ایمبولینس کے ڈرائیور نے انہیں راستے میں زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    گزشتہ ماہ ہی گنے کے ایک کھیت میں ایک 13 سالہ لڑکی کو زیادتی کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور اس کے اہلخانہ کے مطابق اس کی آنکھیں نکال دی گئی تھیں اور زبان کاٹ دی گئی تھی۔

    جولائی میں ایک 6 سالہ بچی کو بھی اغوا کرنے کے بعد اس کے ساتھ زیادتی کی گئی جبکہ اس کی آنکھوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا تاکہ وہ حملہ آوروں کو شناخت نہ کرسکے۔

    علاوہ ازیں گزشتہ برس ایک 11 سالہ معذور بچی کو 17 افراد نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، تمام ملزمان رہائشی عمارت کے چوکیدار اور دیگر ملازمین تھے جو سننے کی صلاحیت سے محروم بچی کو جنریٹر روم میں لے گئے اور نشہ آور دوائیں پلانے کے بعد اس کے ساتھ زیادتی کی۔

    بھارت میں سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ دلی کو ریپ کیپیٹل کا نام وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت دیا تھا جب وہ اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھے اور انہوں نے زیادتی کا شکار خواتین کو انصاف دلانے کے وعدے کیے تھے۔

    تاہم اب وہ اپنا وعدہ فراموش کرچکے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی بے قابو اور ہولناک صورتحال کو حکومتی مشینری قابو کرنے میں ناکام ہے۔