Tag: ریڈیو

  • ریڈیو : دور جدید میں بھی اس اہمیت اور افادیت برقرار ہے

    ریڈیو : دور جدید میں بھی اس اہمیت اور افادیت برقرار ہے

    ریڈیو مواصلات اور رابطے کا قدیم اور واحد ذریعہ تھا جو ہر مقام اور ہر شخص کی پہنچ میں تھا ماضی کی طرح اس کی اہمیت اور افادیت میں کمی نہیں آئی۔

    بحیثیت پاکستانی ریڈیو کی اہمیت ہمارے لیے اور بھی زیادہ اس لیے ہے کہ اسی سے 14 اگست 1947 کو وطن عزیز پاکستان کی آزادی کا تاریخی اعلان کیا گیا تھا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ریڈیو پریزنٹر اور مصنف رضوان زیدی نے موجودہ دور میں ریڈیو کی اہمیت اور ضرورت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

    انہوں نے کہا کہ دور حاضر میں بھی ریڈیو کی اہمیت و افادیت اور اعتبار برقرار ہے جتنی کہ ماضی میں تھی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی یہ اپنی تابناک شناخت کو سنبھالے ہوئے ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں رضوان زیدی نے بتایا کہ بحیثیت پریزنٹر نئی نسل کو یہ مشورہ دوں گا کہ اس فیلڈ میں ضرور آئیں لیکن یاد رکھیں کہ یہ صرف شوق پورا کرنے کا ذریعہ ہے کیونکہ اس میں وہ معاوضہ اور مراعات نہیں جو ذرائع ابلاغ کے دیگر شعبوں میں ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ریڈیو تربیت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کیونکہ آن ایئر آنے کے بعد یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ کیا کہنا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ کیا نہیں کہنا، اس چیز کا احساس ریڈیو میزبان ہی کر سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ 15 اگست 1947ء کو قیامِ‌ پاکستان کے بعد پہلے دن ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن سے پہلا ملّی نغمہ منور سلطانہ کی آواز میں نشر ہوا تھا۔

    ریڈیو سے نشر ہونے والے اوّلین ملّی نغمہ کے بول تھے، ‘چاند روشن چمکتا ستارہ رہے، سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے،’ جس میں دلشاد بیگم نے بھی منور سلطانہ کا ساتھ دیا تھا۔

    اس کے علاوہ پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار 13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا یہ ترانہ 11 رکنی گلوکاروں پر مشتمل گروپ نے گایا تھا۔ پاکستان کا قومی ترانہ حفیظ جالندھری نے تحریر کیا اور اس کی دھن موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ نے ترتیب دی جنہوں نے 1949 میں قومی ترانہ کمپوز کیا تھا۔

  • سائنس کا ایک کرشمہ

    کلیم الدّین احمد اردو زبان و ادب کی ایک مشہور مگر مشاہیر اور ہم عصروں میں متنازع بھی تھے جنھوں نے تنقید لکھی، شاعری کی اور مختلف موضوعات اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اردو کی ہر چیز کو انگریزی کے مخصوص چشمے سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ اردو ادب میں کوئی چیز کام کی نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ غزل جیسی مقبول اور ہر دور میں‌ لائقِ ستائش اور معتبر صنف کو نیم وحشی کہہ کر مسترد کرتے ہیں تو کبھی لکھتے ہیں کہ اردو میں‌ تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ الغرض کلیم الدّین احمد اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے۔ انھوں نے فنونِ لطیفہ، ثقافت اور اصنافِ‌ ادب کو جس طرح دیکھا اور سمجھا، اسے رقم کر دیا اور اپنی مخالفت کی پروا نہ کی۔

    کلیم الدّین احمد 1908ء میں‌ پیدا ہوئے تھے اور اسّی کی دہائی کے آغاز تک بقیدِ‌ حیات رہے۔ انھوں نے وہ دور دیکھا جب ہندوستان میں‌ ریڈیو تیزی سے مقبول ہوا اور معلومات کی فراہمی اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا۔ آج کے دور میں‌ ریڈیو سیٹ تو گھروں‌ میں‌ رہا ہی نہیں اور ٹیلی ویژن کی اہمیت بھی موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر دن گھٹ رہی ہے، لیکن دہائیوں‌ پہلے لوگ ریڈیو کو کیسی جادوئی اور نہایت اثرانگیز ایجاد تصور کرتے تھے اور ہندوستان میں اس کی کیا اہمیت تھی، یہ بتانے کے لیے کلیم الدّین احمد کے مضمون سے چند پارے حاضرِ‌ خدمت ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ریڈیو بھی سائنس کا ایک کرشمہ ہے اور دوسری سائنٹفک ایجادوں کی طرح ہم اس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور غیرناقدانہ طور پر اس کی تعریف میں رطبُ اللّسان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس چیزوں کی ایجاد کرتا ہے، لیکن ان چیزوں سے کام لینا ہمارا کام ہے۔”

    "سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا وہ واقعہ بنی ہوئی ہیں۔ جو باتیں ہم خیالی داستانوں میں پڑھا یا سنا کرتے تھے وہ اب خیالی نہیں رہیں، زندہ حقیقت کی طرح چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔”

    "داستانوں میں ہم جادو کے گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں اڑتے پھرتے تھے، آج نئے نئے قسم کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ہم دور دراز کا سفر قلیل مدت میں طے کر سکتے ہیں۔ زمین اور سمندر میں سفر کر سکتے ہیں۔ دور کی خبریں سن سکتے ہیں۔ دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ غرض بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جن کے تصور سے پہلے ہمارے دل کی تسکین ہوتی تھی۔ یہ چیزیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی۔ اور ان کی اچھائی اور برائی استعمال پر منحصر ہے۔”

    "ہوائی جہاز کو لیجیے۔ اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ خط کتابت اور سفر کی آسانی ہے۔ اسی سے مسٹر چرچل کی بیماری میں ضروری دوائیں جلد سے جلد پہنچائی جا سکتی ہیں، لیکن آج یہی ایک ایسے وسیع پیمانہ پر، جس کے تصور سے دل دھڑکنے لگتا ہے، قتل و خون، تباہی و بربادی، انسان کی خوف ناک مصیبتوں کا آلہ بنا ہوا ہے۔ سائنس نے ہوائی جہاز تو ایجاد کر دیا لیکن اس سے اچھا یا برا کام لینا تو انسان پر منحصر ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتا اور نہ بتاسکتا ہے کہ ہم اس ایجاد سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو انسانی قدروں سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ اس کی ایجادوں کی مدد سے انسانیت ترقی کر سکتی ہے اور انہی سے انسانیت تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔”

    "آج کے خونیں مناظر کے تصور سے دل بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے کاش سائنس نے یہ ترقیاں نہ کی ہوتیں۔ پھر انسانیت کو اس خون کے غسل سے سابقہ نہ پڑتا۔ سائنس کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ پہلے سالہا سال کی جنگ میں جتنی جانیں تلف ہوتی تھیں اس قدر آج ایک روز میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ توپیں، بم کے گولے، ٹینک، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس، مہلک امراض کے جراثیم، غرض ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر آمادہ ہے اور اس جرم میں سائنس اس کا معین و مددگار ہے۔”

    "ظاہر ہے کہ کسی چیز کی صرف اس لیے کہ وہ سائنس کی حیرت انگیز ایجاد ہے، ہم بے سوچے سمجھے تعریف نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی تعریف ہماری بے صبری کی دلیل ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد سے ناجائز مصرف لینے کا ذمہ دار انسان ہے سائنس نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس تو ہمیں قتل و غارت کی تلقین نہیں کرتا، انسان کو خود کشی پر نہیں ابھارتا، اس لیے سائنس موردِ الزام نہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ سائنس پر سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ انسانی بہبود کے لیے عالمِ وجود میں آیا اور اسے مقصد کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔ سائنس تباہی و بربادی کے سامان مہیا کر کے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا اور یہ کہہ کر الزام سے بری نہیں ہو سکتا کہ چیزیں تو ایجاد ہو گئیں، اب ان سے کام لینا میرا کام نہیں۔ سائنس اور سائنس داں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ایجاد کی ہوئی چیزوں کو انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کو اپنے مقام سے واقف ہونا چاہیے۔ اگر یہ اپنے حد سے نہ بڑھے، اپنی خامیوں اور حدود سے واقف ہو اور خدائی کا دعویٰ نہ کرے تو بہت سے الزام جو اس پر عائد ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہے گا۔”

    "غرض ریڈیو یا سائنس کی کوئی دوسری ایجاد اپنی جگہ پر اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس ریڈیو سے بہت سے اچھے کام لیے جا سکتے ہیں۔ جلد ضروری خبریں بھیجی جاسکتی ہیں۔ ضرورت کے وقت مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ایسی جگہوں میں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہوئی ہیں، براہ راست ربط قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دوری کا مسئلہ ریڈیو اور ہوائی جہاز کی وجہ سے حل ہو گیا ہے، دنیا مختصر اور سمٹی ہوئی ہو گئی ہے۔ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں آسانیاں ہیں اور مختلف کلچر ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ سب آپس میں مل رہے ہیں اور مل کر ایک اعلیٰ انسانیت کا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ سب سہی لیکن اسی ریڈیو سے ناجائز مصرف لیا جا سکتا ہے۔ غلط خبریں نشر کی جا سکتی ہیں۔ جنگ میں اس سے اسی قدر مہلک کام لیا جا سکتا ہے جتنا بری و بحری اور ہوائی فوجوں سے۔ اسی سے انسان کے ذہن کوغلام بنایا جا سکتا ہے، اس کی روح کو جراثیم کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ان باتوں پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے اور جو چیز رائج ہو جاتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔”

    "ریڈیو کا رواج مغربی ملکوں میں عام ہے اور اب ہندوستان میں بھی عام ہو چکا ہے۔ مختلف ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے ہیں اور صبح سے رات تک پروگرام جاری رہتا ہے جیسے سنیما کا رواج عام ہے اور اسے عموماً زندگی کی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سنیما کی اچھائی برائی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اسے تفریح کا ایک اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ سنیما اور کلچر میں کیا تعلق ہے، اس مسئلہ پر ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح اخباروں کا مسئلہ ہے۔ اخباری اشتہاروں کا مسئلہ ہے۔ بازاری رسالوں، افسانوں اور ناولوں کا مسئلہ ہے۔ غرض ایسے کتنے مسائل ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسانیت کی ذہنی خودکشی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔”

    "ہاں تو ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں لیکن اتنی فرصت نہیں کہ ان سب مسئلوں پر ایک نظر ڈالی جائے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ریڈیو نے اخباروں، اشتہاروں، تصویروں، بازاری رسالوں اور افسانوں کو گویا اپنی وسیع آغوش میں لے لیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ریڈیو کے بارے میں کہا جائے وہ اور چیزوں پر بھی منطبق ہوگا۔”

  • گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس داں اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی (Guglielmo Marconi) کے انتقال کی خبر ریڈیو پر سنی گئی جو انہی ہی کی ایجاد ہے۔ اسی نشریاتی میڈیم کی بدولت بعد میں‌ یہ افسوس ناک خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔

    مارکونی 25 اپریل 1874ء کو اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہوئے۔ نو عمری ہی میں انھوں نے وائرلیس ٹیلی گرافی، یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام ارسال کرنے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ ایک سائنس داں کی تحریر سے متاثر ہو کر مارکونی کو وائرلیس ٹیلی گرافی کے لیے ریڈیو ویوز کے استعمال کا خیال آیا اور تب 20 سال کی عمر میں انھوں نے ریڈیو ویوز کے تجربات شروع کر دیے۔ ان کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔

    انیسویں صدی کے اواخر میں مارکونی نے اپنے تیار کردہ آلات سے کئی کلومیٹر کی دوری سے تار کے بغیر ریڈیو کمیونیکیشن کرنے کا مظاہرہ کیا جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر شہرت دی۔ چند ایسے ہی تجربات کے بعد 1901ء میں وہ انگلستان سے کینیڈا وائر لیس پیغام بھیجنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔

    مارکونی کی اس ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ مارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • پطرس بخاری: وفات کے 45 سال بعد ہلالِ امتیاز پانے والے مزاح نگار

    پطرس بخاری: وفات کے 45 سال بعد ہلالِ امتیاز پانے والے مزاح نگار

    اردو ادب میں طنز و مزاح کا دفتر کھلے اور پروفیسر احمد شاہ بخاری کا نام نہ لیا جائے، یہ ممکن نہیں۔ انھیں ہم پطرس بخاری کے قلمی نام سے جانتے ہیں۔

    پطرس بخاری اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ مزاح نگاری ان کا وہ حوالہ جس سے دنیا بھر میں بسنے والے شائقینِ ادب واقف ہیں لیکن وہ ایک جید صحافی، ماہرِ تعلیم، نقّاد اور صدا کار بھی تھے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے احمد شاہ نے اردو کے علاوہ فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس حاصل کی اور تعلیمی مراحل طے کیے۔ کالج کے زمانے میں ہی معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز کیا۔

    کیمبرج پہنچے تو انگریزی زبان کے ادب سے گہری شناسائی ہوئی۔ غیر ملکی ادب میں دل چسپی لی اور تراجم بھی کیے۔ خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں تھے۔ پانچ دسمبر کو اچانک کمرے میں ٹہلتے ہوئے بے ہوش ہو گئے اور ان کی زندگی کا سفر بھی تمام ہوگیا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ سطور پڑھیے۔
    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے جیسے عام جانور کے بارے میں لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کو ان کی وفات کے پینتالیس سال بعد ہلالِ امتیاز سے نوازا۔

  • جب سزا سے بچنے کے لیے فیض احمد فیض کو اپنی نظم سنانا پڑی

    جب سزا سے بچنے کے لیے فیض احمد فیض کو اپنی نظم سنانا پڑی

    انسان دوست نظریات، اپنے افکار اور انقلابی فکر کے ساتھ اردو شاعری میں بلند مقام پر فائز فیض احمد فیض اسی مہینے ہم سے جدا ہوئے تھے۔ کل کی طرح فیض کے انقلابی ترانے اور نظمیں آج بھی ان کی عظمت اور ہر خاص و عام میں ان کی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔

    اردو ادب کی نام ور شخصیات کے حالاتِ زندگی، ان کی تخلیقات اور ان سے جڑی یادوں کو مرزا ظفرالحسن جیسے بڑے لکھاری نے اپنے قلم سے کتابی شکل میں محفوظ کیا جو ہمارا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ انہی کی زبانی فیض احمد فیض سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا ذکر ہے۔ اردو کے مایہ ناز شاعر فیض احمد فیضؔ نے اپنے گھر میں ریڈیو تو رکھ لیا تھا مگر نہ اس کا لائسنس بنوایا تھا، نہ فیس ادا کی تھی۔ اس الزام کے تحت انھیں سول عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ پیشی کے دن فیضؔ عدالت میں پہنچے۔

    مجسٹریٹ فیضؔ کو اپنے کمرے میں لے گیا اور بڑی عاجزی سے بولا ‘‘فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے، وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے، خدا رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’

    اس کا کہنا تھاکہ ‘‘آپ نے ریڈیو کا لائسنس نہ بنواکر مقدمے کا نہیں بلکہ مجھے ملاقات کا اور میری گزارش سننے کا موقع فراہم کیا ہے، اگر آپ کل شام کی چائے میرے غریب خانے پر پییں اور اپنا کلام، بالخصوص پہلی سی محبت والی نظم میری بیوی کو سنائیں تو اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوجائے گی۔’’
    فیضؔ نے جواب میں کہا کہ ‘‘آپ سمن کے بغیر بھی بلاتے تو میں حاضر ہوجاتا اور نظم سناتا، میں کل شام ضرور آؤں گا۔’’
    اس کے بعد فیض نے مجسٹریٹ سے پوچھا۔
    ‘‘محض بے پروائی میں مجھ سے جو جرم سرزد ہوا ہے آپ نے اس کی کیا سزا تجویز کی ہے؟’’

    راوی کے مطابق مجسٹریٹ کا جواب تھا کہ ‘‘فیضؔ صاحب! ماضی میں اگر آپ نے اس کے علاوہ بھی کچھ جرم کیے ہیں تو ان سب کی معافی کے لیے یہ ایک نظم ہی کافی ہے۔ ریڈیو کا لائسنس بنوالیجیے بس یہی آپ کی سزا ہے۔’’

  • فواد چوہدری کی سرکاری ٹی وی اور ریڈیومیں ڈگریوں کی تصدیق کے لیے بورڈ بنانے کی ہدایت

    فواد چوہدری کی سرکاری ٹی وی اور ریڈیومیں ڈگریوں کی تصدیق کے لیے بورڈ بنانے کی ہدایت

    اسلام آباد : وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سرکاری ٹی وی اور ریڈیومیں 2008 کے بعد تعینات ہونے والے ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو میں ڈگریوں کی تصدیق کے لیے بورڈ بنانے کی ہدایت کردی۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ 2008 کے بعد تعینات ہونے والے ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ تین رکنی بورڈ ڈگریوں کی تصدیق کا کام سرانجام دے گا، ڈگریوں کی تصدیق کا عمل ایک ماہ کے اندر مکمل کیا جائے گا۔

    وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ ایچ ای سی کا نمائندہ بھی بطورمعاون شریک ہوگا، آغاز سینئر افسران سے ہوگا تمام ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق ہوگی۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ جن کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہوگی، وہ وصول تنخواہیں واپس کریں گے، غیرتصدیقی اسناد پربھرتیاں کرنے والوں کو بھی نوٹس جاری کیے جائیں گے۔

    بیوروکریسی کو منتخب نمائندوں کی بات ماننا پڑے گی‘ فواد چوہدری

    ‌یاد رہے کہ دو روز قبل وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ صاف شفاف انتخابات دیکھ کرن لیگ والوں کے ہاتھ پھولے ہوئے ہیں۔

  • ریڈیو کا عالمی دن: صوتی لہروں کا تاریخی سفر

    ریڈیو کا عالمی دن: صوتی لہروں کا تاریخی سفر

    ہوا پرصوتی لہروں کا سفر زیادہ پرانی بات نہیں اور آج ساری دنیا کا نظام ہی ہوا میں قائم برقی لہروں کے جال کی مدد سے چل رہا ہے۔ اس سب کی شروعات سنہ 1880 میں ہوئی جب مشہور موجد گگلیلمو مارکونی نے اپنے پیشرو ہرٹز کے برقی لہروں کے نظام کو پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں مارکونی نے ایک اور سائنسدان ٹیسلا کے کام کو بھی آگے بڑھایا۔

    بالاخر مارکونی اپنے بنائے ہوئے نظام کے تحت پہلے اپنی تجربہ گاہ میں گھنٹی بجانے، اور پھر اپنی تجربہ گاہ سے 322 میٹر دور واقع اپنی رہائش گاہ پر صوتی لہروں کو نشرکرنے میں کامیاب ہوگیا۔

    دو مارچ سنہ 1897 میں مارکونی نے اپنی ایجاد کو برٹش پیٹنٹ نمبر 12039 کے تحت اپنے نام پر پیٹنٹ کروایا اور مارکونی لمیٹد نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہ کمپنی بعد ازاں وائر لیس ٹیلی گراف ٹریڈنگ سنگل کمپنی کے نام سے مشہور ہوئی۔

    radio-1

    ابتدائی طور پر یہ کام صرف ٹیلی گراف بھیجنے تک محدود تھا۔ اس سلسلے میں طبیعات کا جو قانون استعمال کیا جاتا ہے اسے ’مارکونی لاء‘ کا نام دیا گیا۔

    اسی عرصے میں کنگ ایڈورڈ ہشتم جو اس وقت پرنس آف ویلز تھے، شاہی کشتی پر ایک سفر کے دوران زخمی ہوگئے جس کے بعد ان کی درخواست پر مارکونی نے شاہی کشتی میں اپنا ریڈیو کا نظام نصب کیا۔ ٹائی ٹینک کے حادثے کے بعد ریڈیو کا استعمال ہر قسم کی جہاز رانی میں لازمی قرار دے دیا گیا۔

    سنہ 1919 میں پہلی بار امریکی شہر میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وسکنسن نے انسانی آواز کو صوتی لہروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نشر کیا۔

    امریکا کے شعبہ کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق ریڈیو کا پہلا تجارتی لائسنس 15 ستمبر 1921 کو اسپرنگ فیلڈ میسا چوسٹس کے ڈبلیو بی زیڈ اسٹیشن کو دیا گیا۔ گویا 15 ستمبر 1921 ریڈیو کے بطور تجارتی مقاصد استعمال کا پہلا دن تھا یعنی اس کی ایجاد کے لگ بھگ 20 سال بعد۔

    برصغیرمیں ریڈیو کی آمد

    برصغیر پاک و ہند میں مارچ 1926 میں انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نجی حیثیت میں قائم ہوئی اور اس نے جولائی 1927 میں بمبئی میں پہلا اسٹیشن قائم کر کے ہندوستان میں باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا۔

    ستمبر 1939 میں دہلی سے تمام زبانوں میں خبرنامہ نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    radio-3

    بارہ نومبر سنہ 1939 وہ تاریخ ساز دن تھا جب عید کے روز قائد اعظم محمد علی جناح نے انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن جو اب آل انڈیا ریڈیو بن چکا تھا، اس کے بمبئی اسٹیشن سے تاریخ ساز خطاب کیا۔

    تین جون 1947 کو قائد اعظم نے اس تاریخ ساز ادارے کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خود مختار ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔

    آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان کا سفر

    چودہ اگست 1947 نہ صرف مسلمانان ہند کے لیے بلکہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بھی تاریخ ساز دن تھا، جب اس ادارے نے ایک نئے ادارے کی حیثیت سے مملکت خداداد پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام تبدیل کرکے ریڈیو پاکستان رکھا گیا۔

    آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان نے اپنی مستحکم شناخت بنائی اور اردو کے علاوہ 20 علاقائی زبانوں کو رابطے کے ذرائع کے طور پر استعمال کر کے اور جدید مواصلاتی مہارت کے استعمال کے ذریعے معلومات کی نشر و اشاعت، پاکستانی قومیت، اس کے نظام اور ثقافت کے احترام کے جذبات کو فروغ دیا۔

    سنہ 2008 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اطلاعات کی ترسیل میں ریڈیو کے کردار کو سراہنے کے لیے 13 فروری کو ریڈیو کے عالمی دن کے طورپرمنانے کا اعلان کیا۔ یہ دن سنہ 1946 میں اقوام متحدہ کے ریڈیو کے قیام کا دن ہے۔