Tag: ری سائیکل

  • کویت: صحرا سے اٹھتے گاڑھے سیاہ دھوئیں کی ویڈیو نے لوگوں کو پریشان کردیا

    کویت: صحرا سے اٹھتے گاڑھے سیاہ دھوئیں کی ویڈیو نے لوگوں کو پریشان کردیا

    کویت سٹی: کویت میں پرانے ٹائروں کے گودام سے اٹھتے سیاہ دھوئیں نے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی، لوگوں کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج اور بڑھتی آلودگی کی وجہ سے ماحول دوست اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن یہاں ماحول کو مزید نقصان پہنچایا جارہا پے۔

    کویت میں پرانے ٹائروں کے قبرستان کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں گاڑھا سیاہ دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے، ویڈیو میں تاحد نگاہ ٹائر ہی ٹائر موجود ہیں جبکہ ایک مقام سے سیاہ دھواں اٹھ رہا ہے۔

    دھوئیں سے ظاہر ہورہا ہے جیسے ٹائروں کو جلا کر تلف کیا جارہا ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس ویڈیو کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ زمین کو کلائمٹ چینج اور بڑھتی آلودگی کے چیلنجز کا سامنا ہے اور ایسے میں ٹائروں کو جلانا ان چیلنجز کو مزید بڑھا رہا ہے۔

    کویت میں یہ ٹائروں کا نیا گودام ہے جو پرانے مقام سے یہاں منتقل کیا گیا ہے۔

    پرانا گودام اتنا بڑا تھا کہ خلا سے بھی صحرا میں ایک سیاہ دھبے کی صورت میں نظر آتا تھا لیکن گزشتہ برس اسے سعودی سرحد کے قریب ایک نئے مقام پر منتقل کر دیا گیا جہاں ان کو ری سائیکل کیا جانے کا ارادہ تھا۔

    لیکن حال ہی میں سامنے آںے والی ویڈیو سے ظاہر ہورہا ہے کہ حکام کے پاس پرانے ٹائروں کو ری سائیکل کرنے یا محفوظ طریقے سے تلف کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔

    ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ کم از کم انہیں جلاتے ہوئے فلٹر ہی استعمال کرلیا جائے تاکہ اس سے ہونے والی آلودگی میں کمی ہوسکے۔

  • پلاسٹک کو بلامعاوضہ ری سائیکل کرنے والی کمپنی

    پلاسٹک کو بلامعاوضہ ری سائیکل کرنے والی کمپنی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔

    دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    امریکا کی ایسی ہی ایک کمپنی ٹیرا سائیکل مفت میں ان اشیا کو ری سائیکل یا استعمال کے قابل بناتی ہے جو سخت ہوتی ہیں اور آرام سے ٹوٹ نہیں پاتیں۔ ان اشیا میں پرفیوم کی بوتلیں، استعمال شدہ سگریٹ، پین اور ٹوتھ برش سمیت دیگر اشیا شامل ہیں۔

    پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کے خواہشمند افراد اس کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ کمپنی ان کے گھر پر جا کر استعمال شدہ پلاسٹک وصول کرتی ہے۔

    یہ کمپنی پلاسٹک کو توڑ کر ان اداروں اور افراد کو فراہم کرتی ہیں جو پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کا کام کرتے ہیں۔

    اب تک یہ کمپنی 21 ممالک سے 8 کروڑ افراد سے پلاسٹک جمع کر کے دنیا بھر کی کمپنیوں کو روانہ کر چکی ہے جہاں اس پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    دنیا بھر میں پلاسٹک کے مضر اثرات سے واقف ہونے کے بعد اب بڑی بڑی فوڈ چین کوشش کر رہی ہیں کہ اپنے گاہکوں کو ٹیک اوے یعنی لے کر جانے والا کھانا کاغذ سے بنے برتنوں میں فراہم کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ کھپت موٹے کاغذ سے بنے کافی کے کپوں کی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اکثر افراد دفاتر تک جانے کے دوران راستوں سے کافی لے لیتے ہیں۔ اسی طرح اکثر دفاتر میں بھی کاغذ سے بنے کپ ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    لیکن ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاغذ سے بنے یہ کپ ٹوٹنے اور اس کے بعد زمین کا جزو بننے میں 30 سال کا عرصہ لے سکتے ہیں۔

    cup-2

    برطانیہ میں کیے جانے والے ایک تحقیقی سروے میں دیکھا گیا کہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے استعمال شدہ کاغذ کے کپ ری سائیکل کر لیے جائیں گے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل بنا لیے جائیں گے۔ یہی سوچ کر وہ ہر سال اربوں کی تعداد میں ان کپوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ان کپوں کو ری سائیکل مشین میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اس میں لگی ہوئی پلاسٹک کی لائننگ کو الگ نہیں کر پاتی جس کے باعث کاغذ کے کپ کافی یا پانی کو جذب نہیں کرتے۔

    پلاسٹک کی اس آمیزش کی وجہ سے یہ کپ دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنائے جا سکتے اور مجبوراً انہیں واپس پھینکنا پڑتا ہے۔

    cup-3

    لندن کے امپیریل کالج کی ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ پلاسٹک زمین میں آسانی سے حل نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے کاغذ کے اس کپ کو گلنے اور زمین کا حصہ بننے میں 30 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر یہ پلاسٹک ان کپوں میں نہ شامل کیا جائے تب بھی ان کاغذوں کی موٹائی کی وجہ سے یہ ٹوٹنے میں کم از کم 2 سال کا عرصہ لگاتے ہیں جس کے بعد ان کا زمین میں ملنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کپوں کو بنانے کے لیے بالکل نئے کاغذ استعمال کیے جاتے ہیں جو اس سے پہلے استعمال نہ کیے گئے ہوں۔

    cup-4

    ماہرین کے مطابق برطانوی شہریوں کے کافی کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے ہر سال تقریباً 1 لاکھ درخت کاٹے جاتے ہیں تاکہ ان سے کاغذ بنایا جاسکے۔

    برطانیہ سمیت دنیا بھر میں ماحول دوست افراد اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کاغذ اور پلاسٹک کے استعمال پر بھاری ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ ان کا استعمال کم ہوسکے۔

    واضح رہے کہ کچرے میں پھینکی جانے والی کاغذ یا پلاسٹک سے بنی یہ اشیا دنیا بھر کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ سمندر کنارے پھینکی جانے والی یہ اشیا اکثر اوقات سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    آپ اپنی روزمرہ زندگی میں کتنی چیزیں پھینک دیتے ہیں؟ یقیناً بہت ساری۔ لیکن نیویارک میں ایک خاتون اس قدر کم کچرا پھینکتی ہیں کہ ان کے 4 سال کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں سما سکتا ہے۔

    نیویارک کی رہائشی لورین سنگر زیرو ویسٹ طرز زندگی گزار رہی ہیں یعنی اپنے ماحول کی کم سے کم چیزوں کو ضائع کرنا۔

    jar-2

    وہ استعمال کی ہوئی چیزوں کو دوبارہ استعمال یعنی ری سائیکل کرتی ہیں۔

    jar-5

    یہی نہیں وہ اپنے گھر میں استعمال ہونے والی اکثر چیزیں مختلف چیزوں کے ذریعہ خود ہی تیار کرتی ہیں۔

    اس کی ایک مثال درخت کی ٹہنی سے بنایا ہوا ٹوتھ برش ہے جسے وہ کئی سالوں سے استعمال کر رہی ہیں۔

    jar-4

    واضح رہے کہ امریکا میں ہر شخص روزانہ اوسطاً 4.4 پاؤنڈ کچرا پھینکتا ہے۔

    لورین کہتی ہیں کہ انہیں اس طرح زندگی گزارتے ہوئے 4 سال ہوگئے لیکن انہیں ایک بار بھی اسے تبدیل کرنے کا خیال نہیں آیا۔

    jar-3

    وہ کہتی ہیں کہ کم سے کم چیزیں ضائع کرنا ماحول کے لیے ایک بہترین قدم ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مختلف اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    مختلف اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    کائنات میں موجود ہر شے زمین کا حصہ بن جاتی ہے چاہے وہ بے جان اشیا ہوں یا جاندار۔ ہم جو اشیا کچرے میں پھینکتے ہیں وہ مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر زمین کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    کچھ اشیا زمین کا حصہ بن کر زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پھلوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو مٹی کے ساتھ ملا دیا جائے تو مٹی میں موجود بیکٹریا اس کے اجزا کو توڑ دیں گے اور کچھ عرصے بعد اس کی آمیزش سے تیار ہونے والی مٹی نہایت زرخیز کھاد ثابت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    لیکن یہ عمل اتنا آسان اور معمولی نہیں۔ زمین کی مٹی اپنی فطرت کے مطابق ہر شے کو ایک مقررہ وقت میں اپنے اندر جذب کرتی ہے۔ یہ وقت کئی مہینے بھی ہوسکتا ہے اور کئی سال بھی بلکہ بعض اوقات ہزاروں سال بھی۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم جو اشیا کچرے میں پھینکتے ہیں انہیں تلف ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

    اونی موزہ ۔ 1 سے 5 سال

    دودھ کا خالی کارٹن ۔ 5 سال

    سگریٹ کے ٹوٹے ۔ 10 سے 12 سال

    لیدر کے جوتے ۔ 25 سے 40 سال

    ٹن کا کین ۔ 50 سال

    ربر کے جوتے ۔ 50 سے 80 سال

    پلاسٹک کا برتن ۔ 50 سے 80 سال

    ایلومینیئم کا کین ۔ 200 سے 500 سال

    پلاسٹک کی بوتل ۔ 450 سال

    مچھلی پکڑنے والی ڈور ۔ 600 سال

    پلاسٹک بیگ (شاپر یا تھیلی) ۔ 200 سے 1000 ہزار سال

    یاد رہے کہ چونکہ ہم ان اشیا کو زمین میں نہیں دباتے، لہٰذا یہ ایک طویل عرصے تک زمین کے اوپر رہتی ہیں اور آلودگی اور گندگی کا باعث بنتی ہیں۔ اس کچرے کی موجودگی آس پاس رہنے والے افراد کی صحت کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چیزوں کو پھینکنے کے بجائے کفایت شعاری سے استعمال کرنا چاہیئے اور انہیں ری سائیکل یا دوبارہ استعمال کرلینا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟


    یہاں آپ کو کچھ طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ ماحول کی صفائی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور خود کو ماحول دوست فرد ثابت کر سکتے ہیں۔

    قدرتی وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔

    کوشش کریں کہ کاغذ کا استعمال کم سے کم کریں۔ آج کل اسمارٹ فون نے کتاب اور کاغذ سے چھٹکارہ دلا دیا ہے لہٰذا یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ کاغذ درختوں میں پائی جانے والی گوند سے بنائے جاتے ہیں اور ہر سال اس مقصد کے لیے لاکھوں کروڑوں درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    کاغذ کی دونوں سمتوں کو استعمال کریں۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کریں۔ ان کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کریں۔

    مختلف پلاسٹک کی اشیا جیسے برتن، کپ، یا مختلف ڈبوں کو استعمال کے بعد پھینکنے کے بجائے ان سے گھریلو آرائش کی کوئی شے تخلیق کرلیں۔

    بازار سے خریدی جانے والی مختلف اشیا کی پیکنگ پھینک دی جاتی ہے اور یہ ہمارے ماحول کی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ سائنسدان دودھ کے پروٹین سے ایسی پیکنگ بنانے کی کوششوں میں ہیں جو کھائی جاسکے گی یا گرم پانی میں حل کی جاسکے گی۔


     

  • تائیوان میں ’کچرا دن‘ کا انعقاد

    تائیوان میں ’کچرا دن‘ کا انعقاد

    کیا آپ جانتے ہیں تائیوان کے ایک علاقہ کاؤسیونگ میں ’کچرا دن‘ منایا جاتا ہے؟

    یہ کوئی فیسٹیول یا تہوار نہیں بلکہ تائیوان کے شہریوں کی ایک صحت مندانہ عادت ہے جس نے تائیوان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا دیا ہے۔

    tai-2

    دراصل یہ علاقہ میں کچرا اٹھانے والے ٹرک کے آنے کا دن ہے اور اس دن علاقہ کے تمام لوگ اپنے گھر کا تمام کچرا لے کر باہر نکلتے ہیں اور اس ٹرک میں نکالتے ہیں۔

    لیکن تائیوان کے لوگ ایسے ہی اپنا کچرا نہیں پھینک دیتے۔ پھینکنے سے قبل وہ اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جیسے ضائع شدہ کھانا، عام کچرا اور ایسی چیزیں جو ری سائیکل (دوبارہ استعمال کرنے) کے قابل ہوں۔

    ری سائیکل ہونے والی اشیا کو بھی تقریباً 13 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں شیشے کی اشیا، کاغذ، پلاسٹک اور گاڑی کے مختلف حصہ وغیرہ شامل ہیں۔

    tai-3

    شہری اپنے کچرے کی باقاعدہ صفائی کرتے ہیں اور انہیں مختلف تھیلوں میں ڈال کر کچرے کے ٹرک میں ڈالتے ہیں۔ جو لوگ صحیح سے چیزوں کی شناخت نہیں کر پاتے اور انہیں مختلف تھیلوں میں ڈال کر گڈ مڈ کردیتے ہیں وہ اپنے پڑوسیوں کے مذاق کا نشانہ بنتے ہیں۔

    کچرے اٹھانے والا یہ ٹرک جب علاقہ میں داخل ہوتا ہے تو ایک نہایت ہی سریلی موسیقی بجاتا ہے جس سے تمام لوگ واقف ہوجاتے ہیں کہ کچرے کا ٹرک آگیا ہے۔ یوں کچرا ڈالنے کا عمل باقاعدہ ایک موقع کی شکل اختیار کرجاتا ہے جو مہینے میں دو سے تین بار آتا ہے۔

    tai-5

    ایک زمانے میں تائیوان کو کچرا گھر کہا جاتا تھا لیکن آج یہ دنیا کے ری سائیکل کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ تائیوان میں کچرے کے 55 فیصد حصہ کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنا لیا جاتا ہے۔ امریکہ میں یہ شرح 34 جبکہ کینیڈا میں 27 فیصد ہے۔

    یہاں کے لوگ جب کچرا ڈالنے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو یہ پڑوسیوں سے میل ملاقات کا بھی ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ پڑوسی آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔

    یہاں مقیم افراد کا کہنا ہے کہ پہلے وہ لاپرواہی سے کچرا پھینک دیا کرتے تھے۔ لیکن اب اس کی اجازت نہیں ہے اور آپ کو اپنے کچرے کو طریقہ سے منظم انداز میں کچرے کے ٹرک کو دینا ہے۔

    tai-4

    یہ ایک صحت مند رجحان ہے جس کی تائیوان کے لوگ سختی سے عملداری کرتے ہیں۔