Tag: ری سائیکلنگ

  • سعودی عرب میں اہم ماحول دوست منصوبہ شروع

    سعودی عرب میں اہم ماحول دوست منصوبہ شروع

    ریاض: سعودی عرب میں استعمال شدہ اشیا کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے اور اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اہم منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق پیکجنگ جائنٹ ٹیٹرا پیک ری سائیکلنگ کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک نیا قدم اٹھاتے ہوئے، سعودی عرب کی کمیونٹی کے لیے ری سائیکل ایبل میٹریل کو بہتر استعمال کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔

    مقامی رپورٹ کے مطابق مملکت نے حالیہ برسوں میں صنعت کاری، آبادی میں اضافے اور تیزی سے اربنائزیشن کا مشاہدہ کیا ہے، اس کی وجہ سے آلودگی اور فضلے کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

    سسٹین ابلیٹی ایڈوکیسی گروپ ایکومینا نے اندازہ لگایا ہے کہ سعودی عرب ہر سال 15 ملین ٹن سے زائد ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے جبکہ فی کس فضلے کی پیداوار ہر دن تقریباً 1.5 سے 1.8 کلو گرام رہنے کا امکان ہے۔

    اس مقصد کے لیے جدہ میں ایک نیا اقدام اٹھایا گیا جس میں استعمال شدہ کارٹن پیکج کو جمع کر کے ان کی ری سائیکلنگ کرنا ہے۔

    یہ اقدام دسمبر میں دنیا کی معروف فوڈ پروسیسنگ اور پیکجنگ سلوشنز کمپنی ٹیٹرا پاک نے جدہ میں محمدیہ کے ضلعی ماڈل سینٹر کے ساتھ دسمبر میں شروع کیا تھا، اس اقدام کو الربیع سعودی فوڈز کمپنی اور سعودی ڈیری اینڈ فوڈ کمپنی (سدافکو) کی بھی حمایت حاصل ہے۔

    ٹیٹرا پاک سسٹین ابلیٹی مینیجر برائے سعودی عرب حسام ناصر نے عرب نیوز کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس طرح کے اقدام کے لیے خاص طور پر ماحولیات پر بڑھتی ہوئی توجہ کو دیکھتے ہوئے مملکت تک اپنا راستہ تیار کریں۔

    انہوں نے کہا کہ عام طور پر حالیہ برسوں میں بہت کچھ بدلا ہے، وژن 2030 کے ساتھ چیزیں سسٹین ابلیٹی کے محاذ پر خاص شکل میں ڈھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ آگاہی بڑھانے اور شعور کے حصول کے لیے بہت سارے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

    اس مہم کا مقصد ریاست میں افراد اور کاروبار دونوں کے لیے ری سائیکلنگ کو ایک مناسب اور مؤثر اختیار بنانا ہے، محمدیہ سینٹر جہاں اس پائلٹ نے کام کرنا شروع کیا ہے وہ محلوں میں اس اقدام، اس کے فوائد اور اہمیت کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ذمہ دار ہے۔

    اس کے تحت رہائشیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ری سائیکل ایبل کھانے پینے کے کارٹنز جمع کر کے اور ان کو مخصوص ری سائیکلنگ بنز میں رکھ کر اور ٹیٹرا پیک اور نقہ کی میزبانی میں آگاہی اجلاسوں میں شرکت کریں۔

    ٹیٹرا پیک استعمال شدہ کارٹن پیکجز کو اکٹھا کرے گا اور انہیں ریاض میں ری سائیکل کرنے کے لیے بھیجے گا جبکہ البیبی اور سدافکو اپنی مصنوعات کی ایک بڑی تعداد میں حصہ ڈالیں گے۔

  • گھر کے کچرے سے پیسے بنانا آسان، تھوڑی سی محنت درکار!

    گھر کے کچرے سے پیسے بنانا آسان، تھوڑی سی محنت درکار!

    لاہور: کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں میں عوام سڑکوں پر بکھرے کچرے سے پریشان رہتے ہیں، لیکن اسی کچرے کو ری سائیکل کر کے پیسے بھی کمائے جا سکتے ہیں۔

    اس سلسلے میں لاہور میں قائم آبرو فاؤنڈیشن نامی ادارے کی سی ای او روبینہ شکیل قریشی نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کچرے سے لوگ پریشان ہیں لیکن اس کا حل آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔

    روبینہ قریشی نے بتایا کہ کچرے کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگانے پر ایک گھر 2 ہزار روپے تک کما سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا لوگ کراچی میں کچرے کے مسئلے سے پریشان ہیں، اس مسئلے کا حل نہیں نکل رہا لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے، بہت آسانی سے اور اچھے طریقے سے اس کا انتظام کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہم نے لاہور میں کیا۔

    انھوں نے کہا ہم اس سلسلے میں لوگوں کی کاؤنسلنگ کرتے ہیں، انھیں سمجھاتے ہیں کہ آپ کے گھروں میں جو کوڑا پیدا ہو رہا ہے اسے اپنے گھروں ہی میں فیبریکیٹ کریں، باہر گلیوں اور سڑکوں پر اس کے پیکٹ بنا کر نہ رکھیں، کیوں کہ کچرا چننے والے لوگ ان تھیلیوں کو کھول کر اپنی مطلب کی چیزیں نکال کر باقی ویسے ہی بکھرا چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے نالیاں بھی بند ہو جاتی ہیں، گٹر بند ہو جاتے ہیں، اور یہ بیماریاں پھیلنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

    آرزو ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر آرگنائزیشن کی سی ای او روبینہ شکیل قریشی نے بتایا کہ گھروں میں جو کوڑا بنتا ہے، ان میں سے سوکھا کوڑا تو ان تھیلیوں میں بالکل نہ ڈالا جائے جو سڑک پر پھینکی جاتی ہیں، کیوں کہ اسے ری سائیکل کر کے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں بھی دیگر کچرے سے الگ رکھیں، اس سے اینٹ نما سخت بنڈل بنائے جا سکتے ہیں جو مختلف جگہوں پر استعمال ہو سکتے ہیں، یہاں لاہور میں بہت سے لوگ جھگیوں میں رہتے ہیں، یہ پلاسٹک اینٹ ان کے کام آ سکتی ہے۔

    روبینہ قریشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاہور میں ہمارے پاس اس وقت 5 ہزار سے زائد بچے مفت پڑھ رہے ہیں، جن کے لیے 30 فی صد فنڈ اسی سوکھے کوڑے سے پیدا ہو رہا ہے، اس سلسلے میں سات آٹھ ہزار سے زائد لوگ ہماری مدد کر رہے ہیں، ہماری ٹیم چھوٹی ہے، وسائل کم ہیں، اگر وسائل بڑھائے جائیں تو مزید بہتر کام کر سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ موجودہ صورت حال میں اپنے علاقوں کو صاف رکھنے کے لیے ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا، کراچی کے کچرے کا حل لاہور کے ماڈل کے ذریعے ممکن ہے، لاہور میں سینکڑوں گھرانے کچرا ری سائیکل کر رہے ہیں، اس لیے اپنی گلی اور سڑک کو بھی گھر سمجھیں، کچرا نہ پھینکیں۔

  • استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    دنیا بھر میں پھینک دیے جانے والے کچرے کا جمع ہونا اور اسے تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے جس کی وجہ سے آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے ری سائیکلنگ یعنی اشیا کے دوبارہ استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    ایک افریقی فنکار نے بھی اس کی نہایت شاندار مثال پیش کی۔ مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ کے شہر عابد جان سے تعلق رکھنے والے فنکار ولفرائیڈ ٹیرور نے استعمال شدہ کینز سے خوبصورت فن پارے تشکیل دے دیے۔

    یہ فنکار گلیوں میں گھوم کر جا بجا پھینکے گئے سوڈا اور بیئر کی کینز جمع کرتا ہے اور انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ان سے خوبصورت فن پارے بناتا ہے۔

    فرائیڈ کو یہ خیال شہر میں پھیلی ہوئی بے تحاشہ آلودگی دیکھ کر آیا۔ شہر میں پھینکا گیا کچرا ندی نالوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر پانی کو آلودہ کر رہا تھا جبکہ اس سے سمندری حیات کو بھی سخت خطرات لاحق ہو رہے تھے۔

    اس شہر میں ہر سال 50 لاکھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے جس میں سے صرف 10 فیصد ری سائیکل ہوتا ہے۔

    فرائیڈ کا کہنا ہے کہ اس کی اس کوشش سے لوگوں میں بھی شعور پیدا ہوگا کہ پھینکا ہوا کچرا بھی ان کی ذمہ داری ہے، وہ سوچ سمجھ کر چیزوں کا استعمال کریں اور چیزوں کو ری سائیکل یعنی دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔

    اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اب شہر کے لوگ بھی کین جمع کر کے فرائیڈ کو دیتے ہیں تاکہ وہ مزید فن پارے تخلیق کرسکے۔

  • سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    دنیا بھر میں پلاسٹک سمیت مختلف اشیا کے کچرے کو کم سے کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور ری سائیکلنگ یعنی دوبارہ استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جارہا ہے۔

    دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست سمجھا جانے والا ملک سوئیڈن بھی اس سلسلے میں مختلف اقدامات کر رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک اور قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ سوئیڈن میں ری سائیکلنگ کے عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے کچرا رکھنے کو مختلف رنگوں کے بیگز متعارف کروائے گئے ہیں۔

    سوئیڈن کے شہر اسکلستونا میں شہریوں کو 7 بیگ ری سائیکلنگ اسکیم فراہم کرنے سے متعلق پوچھا گیا اور 98 فیصد شہریوں نے اس اسکیم کی فراہمی میں دلچسی ظاہر کی۔

    اس ست رنگی بیگز کی اسکیم میں کلر کوڈ سسٹم کے ذریعے کچرے کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ کتھئی رنگ کے بیگ میں دھاتی اشیا، سبز رنگ کے بیگ میں خوراک، نیلے رنگ کے بیگ میں اخبارات، گلابی رنگ کے بیگ میں ٹیکسٹائل مصنوعات، سرخ رنگ کے بیگ میں پلاسٹک اشیا، زرد میں کارٹن اور سفید بیگ میں ٹشو پیپرز اور ڈائپرز وغیرہ پھینکے جاتے ہیں۔

    ان بیگز کی بدولت ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ ری سائیکلنگ پلانٹ میں آنے والے تمام رنگ کے بیگز مکس ہوتے ہیں تاہم ان کے شوخ رنگوں کی بدولت اسکینرز انہیں آسانی سے الگ کرلیتے ہیں جس کے بعد انہیں ان کے مطلوبہ پلانٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    جو اشیا ری سائیکل نہیں کی جاسکتیں انہیں بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ری سائیکلنگ کی بدولت کچرے کے ڈھیر اور آلودگی میں کمی ہوگئی ہے۔

    سوئیڈن نے، یورپی یونین کے سنہ 2020 تک تمام اشیا کو ری سائیکل کیے جانے کے ٹارگٹ کو نصف ابھی سے حاصل کرلیا ہے۔ سوئیڈش انتظامیہ کا کہنا ہے اس وقت وہ ملک کے کچرے کی بڑی مقدار کو ری سائیکل کر رہے ہیں لیکن وہ اس کام مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

  • پرانے ٹائرز خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    پرانے ٹائرز خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    افریقی ملک گھانا کا ایک نوجوان طالب علم پرانے ٹائرز سے دیدہ زیب فرنیچر تیار کر رہا ہے جسے سوشل میڈیا پر نہایت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔

    جیفری یوبوہ نامی یہ نوجوان اکنامکس کی تعلیم بھی حاصل کر رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

    جیفری کچرے کے ڈھیر سے پرانے ٹائرز اکھٹے کرتا ہے جبکہ وہ سیکنڈ ہینڈ ڈیلرز سے بھی ٹائرز خریدتا ہے۔

    ان پرانے ٹائروں کو دھونے اور سکھانے کے بعد جیفری کا کام شروع ہوتا ہے۔

    وہ ان پر شیشہ، کپڑے اور رنگین رسیاں استعمال کر کے ان سے دیدہ زیب کافی ٹیبلز، کرسیاں اور دیگر فرنیچر بناتا ہے۔

    جیفری کا کہنا ہے کہ وہ خود کو معاشرے کا ایک کارآمد حصہ سمجھتا ہے کیونکہ وہ شہر کے کچرے کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

    جیفری نے اس کام کا آغاز 5 سال قبل کیا تھا، اب اس کے پاس مدد کے لیے 2 مزید نوجوان ہیں۔ اس کا بنایا ہوا فرنیچر 30 سے 250 ڈالر کے درمیان فروخت ہوتا ہے۔

    اس کا فرنیچر خریدنے والے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ وہ انہیں خرید کر بہت خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے اپنے ملک میں بنا ہوا ہے۔

    جیفری کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا یعنی ری سائیکلنگ کرنا سیکھیں، تاکہ زمین سے کچرے میں کمی کی جاسکے۔

  • ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ہم اپنی روز مرہ زندگی میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی پینے کے عادی ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے پانی رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ پلاسٹک کی بوتلوں کو سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان بوتلوں میں پانی پینا دراصل زہر پینے کے مترادف ہے۔ آپ بازار سے جو پانی کی بوتل خرید رہے ہیں، آپ کو نہیں علم کہ وہ کتنی پرانی ہے۔ زیادہ پرانی بوتلوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو لا محالہ ہمارے جسم میں جاتے ہیں۔

    یہ خدشہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب یہ بوتلیں دھوپ یا تیز روشنی میں رکھی ہوں۔ اس صورت میں پلاسٹک کی نہایت معمولی مقدار پگھل کر پانی میں شامل ہوجاتی ہے۔ گو کہ یہ مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے لیکن یہ جسم میں جا کر خطرناک بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ایسا پلاسٹک جو کھایا جاسکتا ہے

    اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ کوئی پلاسٹک کی بوتل لیں تو اسے دبا کر دیکھیں۔ اگر اس میں سے کڑکڑاہٹ کی آواز آئے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ بوتل کا پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اور اس کے ذرات پانی میں شامل ہورہے ہیں۔

    یوں تو ہر قسم کا پلاسٹک ہی تمام جانداروں کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اقسام کے پلاسٹک میں شامل کیمیائی اجزا نہایت خطرناک ہوتے ہیں اور انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

    دراصل پلاسٹک کی بوتلوں پر کچھ مخصوص نشانات بنے ہوتے ہیں جو مختلف علامتوں کے ذریعے یہ بتاتے ہیں کہ اس پلاسٹک کو کن اجزا سے بنایا گیا ہے۔ ویسے تو تمام ہی قسم کی پلاسٹک صحت کے لیے زہر قاتل ہے لیکن کچھ پلاسٹک کم نقصان دہ اور کچھ بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔
    symbols

    آئیے آپ بھی ان نشانات سے آگاہی حاصل کریں تاکہ اگلی بار پلاسٹک کی بوتل خریدنے سے پہلے آپ کو علم ہوسکے کہ کہیں آپ زہر تو نہیں خرید رہے۔


    پی ای ٹی یا پی ای ٹی ای

    یہ نشان عموماً پلاسٹک کی بوتلوں پر لکھا جانے والا نہایت عام نشان ہے کیونکہ پلاسٹک کی زیادہ تر اقسام (خصوصاً عام استعمال والی پلاسٹک) کو ایک ہی اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔

    p3

    یہ بوتلیں ایک ہی بار استعمال کے لیے موزوں ہوتی ہیں، اس کے بعد ان کا استعمال ترک کردینا چاہیئے۔ یہ پلاسٹک جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس پلاسٹک میں شامل اجزا جسم میں جا کر ہارمونز کا نظام تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    ایچ ڈی پی یا ایچ ڈی پی ای

    ماہرین پلاسٹک کی اس قسم کو محفوظ ترین قسم قرار دیتے ہیں۔ یہ عموماً سخت پلاسٹک ہوتا ہے جس سے برتن، مختلف تیلوں کی بوتلیں، کھلونے وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

    یہ پلاسٹک کسی قسم کے اجزا خارج نہیں کرتے تاہم اس مٹیریل سے بنی بہت زیادہ پرانی بوتلوں کا استعمال بھی محفوظ نہیں۔


    پی وی سی یا 3 وی

    یہ وہ پلاسٹک ہوتا ہے جو عموماً موڑا جا سکتا ہے اور اسے مختلف اشیا کو لپیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دو نہایت زہریلے اجزا کو خارج کرتا ہے جو جسم کے ہارمونز کو شدید متاثر کرتا ہے۔

    pvc-2

    pvc

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے گریز کیا جائے۔


    ایل ڈی پی ای

    یہ پلاسٹک بوتلیں بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ کیمیائی اجزا خارج نہیں کرتا تاہم پھر بھی اسے استعمال کے لیے بالکل محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    ایک اور سفید رنگ کا نیم شفاف پلاسٹک (پولی پروپلین) دواؤں کی بوتل یا فلیورڈ دہی کے کپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ سخت اور وزن میں ہلکا ہوتا ہے۔ یہ قسم نسبتاً محفوظ کہی جاسکتی ہے کیونکہ یہ درجہ حرات کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور گرم ہونے پر پگھلتا نہیں۔

    اسی کیمیائی طریقے سے بنائی جانے والی پلاسٹک کی ایک اور قسم جسے پولی سٹرین کہا جاتا ہے، وزن میں ہلکی اور نہایت ارزاں ہوتی ہے۔

    ldpe-2

    ldpe

    اس سے وہ اشیا بنائی جاتی ہیں، جن میں آپ کو کسی ریستوران سے ’ٹیک اوے‘ کھانا دیا جاتا ہے۔ جیسے ڈسپوزایبل کپ، کھانے کے کنٹینر، یا چمچے وغیرہ۔ یہ تیز درجہ حرات پر پگھلنے لگتے ہیں لہٰذا یہ صرف ایک بار استعمال کے لیے ہی بہتر ہیں۔


    پی سی یا نان لیبلڈ پلاسٹک

    یہ پلاسٹک کی سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے جو عموماً کھیلوں میں استعمال کی جانے والی پانی کی بوتلوں میں استعمال ہوتی ہے۔

    p4

    یہ قسم ری سائیکلنگ یا ری یوزنگ (دوبارہ استعمال) کے لیے بھی استعمال نہیں کی جاسکتی۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    ہم اپنے گھروں میں استعمال شدہ صابن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو پھینک دینے کے عادی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ بظاہر ناقابل استعمال صابن کے ٹکڑے لاکھوں زندگیاں بچا سکتے ہیں؟

    دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    یہ 22 لاکھ اموات زیادہ تر ان پسماندہ ممالک میں ہوتی ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات کا فقدان اور بے انتہا غربت ہے۔ اس قدر غربت کہ یہ لوگ ایک صابن خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: مختلف اشیا کو پھینکنے کے بجائے مرمت کروانے پر فائدہ

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے چند امریکی نوجوانوں نے اس سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور ان مستحق افراد کو کم از کم صابن کی بنیادی سہولت فراہم کرنے کا سوچا۔

    اس کے لیے انہوں نے استعمال شدہ صابنوں کو کام میں لانے کا سوچا۔

    گھروں کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف ہوٹل روزانہ 50 لاکھ کے قریب صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے پھنیک دیتے ہیں۔ یہ گروپ انہی ٹکڑوں کو جمع کرتا ہے۔

    اس کے بعد ان ٹکڑوں کو پیسا جاتا ہے، انہیں سینیٹائزنگ یعنی صاف ستھرا کرنے کے عمل سے گزارا جاتا ہے، اور اس کے بعد انہیں نئے صابنوں کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔

    استعمال شدہ صابنوں سے بنائی گئی ان نئی صابنوں کو مختلف پسماندہ علاقوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔

    اب تک جنوبی امریکی ملک ہونڈرس، گوئٹے مالا اور ہیٹی وغیرہ میں ہزاروں افراد کو یہ صابن فراہم کیا جاچکا ہے۔

    دنیا بھر میں 4000 ہوٹل اس کار خیر میں ان نوجوانوں کے ساتھ ہیں اور انہیں بچے ہوئے صابن کے ٹکڑے فراہم کر رہے ہیں۔

    اب جب بھی آپ اپنے گھر میں بچے ہوئے صابن کے ٹکڑوں کو پھینکنے لگیں، تو یاد رکھیں کہ صابن کا یہ بچا ہوا ٹکڑا لاکھوں لوگوں کی جان بچا سکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کنٹینر میں بنے ہوئے سوئمنگ پول

    کنٹینر میں بنے ہوئے سوئمنگ پول

    ہماری روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی مختلف اشیا کو استعمال کرنے کے بعد انہیں ٹھکانے لگانا ایک بڑا مسئلہ ہے جو نہایت مہنگا ہے۔ مختلف اشیا کو اگر تلف نہ کیا جائے تو یہ ڈھیر کی صورت میں جمع ہو کر جگہ جگہ کچرا کنڈیاں بنا دیتی ہیں۔

    انہی اشیا میں ایک بڑے بڑے کنٹینر بھی ہیں جو مال برداری اور تجارت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سفر کے دوران یہ کنٹینرز ٹکرانے یا خراب ہونے کی صورت میں آہستہ آہستہ خستہ ہوتے جاتے ہیں جس کے بعد یہ طویل سفر کے لیے موزوں نہیں رہتے۔

    تب ان کنٹینروں کو تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک آسٹریلین کمپنی نے استعمال شدہ کنٹینروں کو سوئمنگ پول میں تبدیل کرنے کا سوچا۔

    pool-2

    اس مقصد کے لیے کمپنی نے ناقابل استعمال کنٹینرز لیے اور ان میں ضروری تبدیلیاں کیں۔ کنٹینر میں چڑھنے اور اترنے کے لیے سیڑھیاں نصب کردی گئیں۔

    pool-3

    pool-4

    حفاظتی اقدامات

    علاوہ ازیں اس میں پانی کو فلٹر کرنے کی مشین بھی لگائی گئی۔ کنٹینر کی سخت کھردری سطح پر نرم مادے سے بنی تہہ چڑھادی جاتی ہے جس کے بعد یہ تیرنے والے شخص کو زخمی کرنے کا سبب نہیں بنتی۔

    کمپنی یہ منفرد سوئمنگ پولز اپنے گھر میں سوئمنگ پول بنوانے کے شوقین افراد کے گھر میں نصب کردیتی ہے۔