Tag: زبان و ادب

  • فقیر محمد فقیر کا تذکرہ جو بابائے پنجابی مشہور ہوئے

    فقیر محمد فقیر کا تذکرہ جو بابائے پنجابی مشہور ہوئے

    فقیر محمد فقیر کو ’’بابائے پنجابی‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ادیب، محقق اور پنجابی زبان کے بڑے شاعر تھے جنھیں دستِ اجل نے 11 ستمبر 1974 کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا تھا۔ آج فقیر محمد فقیر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اردو کے مشہور ادیب اور ڈرامہ نگار منو بھائی نے کہا تھا، میرے نزدیک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی زندہ رہ جانے والی نمایاں ترین خوبیوں میں سے ایک خوبی ان کی بھرپور جذبات کے ساتھ بے لوث، پُرخلوص محنتِ شاقہ کے علاوہ یہ تھی کہ پنجابی زبان سے بے پناہ محبت کے ساتھ وہ دیگر زبانوں کی بھی عزت فرماتے تھے۔

    گوجرانوالہ کے ایک گھرانے میں 5 جون 1900ء کو آنکھ کھولنے والے فقیر محمد نے تعلیمی منازل طے کرتے ہوئے ادبی ذوق و شوق کا آغاز کیا تو 1951 میں پنجابی زبان کا اوّلین رسالہ ’’پنجابی‘‘ جاری کر کے کئی قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا۔ بعدازاں ڈاکٹر محمد باقر کے ساتھ مل کر پنجابی ادبی اکادمی قائم کی جس کے تحت پنجابی زبان و ادب پر متعدد قدیم و جدید کتابیں شایع ہوئیں اور یہ سلسلہ پنجابی زبان و ادب کی ترویج اور ترقی کا باعث بنا۔

    فقیر محمد فقیر کو پنجابی شاعر کی حیثیت سے بہت اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے اس زبان کو نئے اسلوب اور نئے آہنگ سے مہکایا۔ اپنی ادبی مصروفیات کے زمانے میں انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین کا کام بحسن و خوبی انجام دیا جن میں کلیاتِ ہدایت اللہ، کلیاتِ علی حیدر، کلیاتِ بلھے شاہ اور چٹھیاں دی وار، جب کہ شعری مجموعوں میں صدائے فقیر، نیلے تارے، مہکدے پھول، ستاراں دن، چنگیاڑے اور مناظر احسن گیلانی کی النّبی الخاتم اور عمر خیّام کی رباعیات کے منظوم تراجم شامل ہیں۔

    انھیں گوجرانوالہ ہی میں احاطہ مبارک شاہ بڑا قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ڈاکٹر فیلن نے عورتوں‌ کی جلی کٹی باتیں کب سنیں؟

    ڈاکٹر فیلن نے عورتوں‌ کی جلی کٹی باتیں کب سنیں؟

    یہ ہندوستان پر راج کرنے والی انگریز سرکار کے ایک ایسے افسر کا تذکرہ ہے جس نے نہ صرف اردو انگریزی لغت مرتب کی بلکہ عام ہندوستانیوں‌ میں‌ انھیں‌ ایک نرم مزاج اور یار باش افسر سمجھا جاتا تھا.

    یہ لغت نویس ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن ہیں جو 1817 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان میں کئی دوست بنائے اور عام لوگوں سے میل جول رکھنا انھیں پسند تھا۔

    اس لغت نویس نے دنیا کو بتایا کہ ہندوستان میں عام بول چال اور تحریری زبان کے علاوہ ایک ایسی بولی بھی ہے جس کا ذخیرہ الفاظ، جملے اور صوتی اثر جداگانہ ہے۔ انھوں نے اسے زنانہ بولی کہا۔

    عورتوں کی بولی سے متعلق اپنے تبصرے میں فیلن لکھتے ہیں کہ عمر بھر تکلیف اور دکھ اٹھانے والی اس مخلوق کے لبوں سے فی البدیہہ جو جلی کٹی باتیں نکلتی ہیں، اُن میں تجربہ، خیال کی کاٹ، لفظوں کا انتخاب ہی نہیں بلکہ لہجے کی کھنک ایسی ہوتی ہے کہ ہزار مرد بھی ویسا ایک جملہ تخلیق نہیں کر سکتے۔

    ڈاکٹر فیلن نے بنگال کے محکمہ تعلیم میں ملازمت کی اور اپنی علمی استعداد اور قابلیت سے لغت مرتب کرنے کے علاوہ اردو زبان میں نظم و نثر سے متعلق کام کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر فیلن نے دہلی میں سکونت اختیار کی۔ بعد میں انگلستان چلے گئے جہاں اپنی مرتب کردہ لغت کی اشاعت کے ایک سال بعد یعنی 1880 میں ان کا انتقال ہو گیا۔