Tag: زبیدہ آغا

  • زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں فائن آرٹ کی دنیا میں جو نام تجریدی مصوّری اور ماڈرن پینٹگ کے لیے مشہور ہوئے، زبیدہ آغا ان میں سے ایک تھیں۔ وہ پہلی پاکستانی مصوّر ہیں‌ جن کے فن پاروں‌ کی نمائش ہوئی تھی۔

    پاکستان نے اپنی اوّلین دہائی ہی میں فنِ مصوّری میں آرٹسٹوں کی کہکشاں دیکھی جس میں شامل نام عالمی سطح پر فنِ‌ مصوّری میں وطنِ عزیز کی پہچان بنے اور ملک کی آرٹ گیلریوں کے علاوہ بیرونِ ملک بھی ان کے فن پاروں‌ کی نمائش منعقد ہوئی۔ ان عالمی شہرت یافتہ فن کاروں میں زبیدہ آغا کے علاوہ صادقین، عبدالرحمٰن چغتائی، اسماعیل گل جی، استاد اللّٰہ بخش، اینا مولکا احمد وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں زبیدہ آغا کو تجریدی آرٹ کی بانی اور ماڈرن پینٹنگ کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ 1997ء میں زبیدہ آغا آج ہی کے دن لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

    مصوّرہ زبیدہ آغا کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔ فنِ‌ مصوّری میں‌ ان کی انفرادیت اور مہارت کلرسٹ پینٹنگ تھی۔

    زبیدہ آغا نے لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کی اور اپنے شوق سے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور صرف 1944ء سے 1946ء تک ہی انھیں اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے تھے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں زبیدہ آغا ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کرچکی تھیں۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد انھیں پاکستانی فن کار کی حیثیت سے بیرون ملک اس فن کی مزید تعلیم اور تربیت کے علاوہ اپنے فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت مہارت سے منتقل کیا۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا اور وہ ماڈرن آرٹ کی بانی خاتون فن کار کہلائیں۔ ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے ہم وطن معاصرین ہی نہیں غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو خوب سراہا۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ وہ فنِ‌ مصوّری میں گہرے رنگوں کے بامعنی اور لائقِ توجہ استعمال کے سبب کلرسٹ پینٹر مشہور ہوئیں۔ یہ فن پارے دیکھنے والوں پر گہرا اثر قائم کرتے ہیں۔ 2006ء میں زبیدہ آغا کے فن کے اعتراف میں اور ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    1997ء میں آج ہی کے دن پاکستان کی معروف مصوّرہ زبیدہ آغا لاہور میں وفات پاگئیں۔ وہ پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔

    لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 1944ء سے 1946ء تک وہ اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں انھوں نے ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کی جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے اور فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی دور کے فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنٰی بناتی تھی۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ 2006ء میں ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔