Tag: زبیدہ خانم

  • زبیدہ خانم: پاکستانی فلم انڈسٹری کی سدا بہار آواز

    زبیدہ خانم: پاکستانی فلم انڈسٹری کی سدا بہار آواز

    پسِ پردہ گائیکی میں زبیدہ خانم پاکستانی فلم انڈسٹری کا ایک مقبول نام تھا۔ خوش شکل زبیدہ خانم اداکاری کا شوق بھی رکھتی تھیں، لیکن بطور گلوکارہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے یہ شوق جاری نہ رکھ سکیں۔ اپنے کیریئر کے عروج پر فلمی دنیا سے دوری اختیار کرنے والی زبیدہ خانم نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں‌ ڈھائی سو نغمات گائے جن میں‌ سے کئی آج بھی مقبول ہیں۔

    سیف الدین سیف کی کام یاب فلموں‌ میں‌ سے ایک ’’سات لاکھ‘‘ بھی تھی جو اداکارہ نیلو کی پہلی فلم تھی۔ اس میں زبیدہ خانم کی آواز میں ایک گانا نیلو پر عکس بند ہوا تھا جو دہائیوں تک ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نشر ہوتا رہا۔ اس کے بول تھے: ’’آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے، تُو چھٹی لے کے آجا بالما۔‘‘ 1960 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’رات کے راہی‘‘ باکس آفس پر بہت کام یاب ہوئی تھی جس کے تمام گیت زبیدہ خانم اور احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ زبیدہ خانم کی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں‌ یہ نغمہ اسی فلم کا تھا جس کے بول ہیں ’’کیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘۔

    یہ گیت بھی زبیدہ خانم کی آواز میں بہت مقبول ہوا….روتے ہیں چھم چھم نین، اجڑ گیا چین، میں نے دیکھ لیا تیرا پیار۔

    فلمی تاریخ بتاتی ہے کہ پاٹے خان 1955ء کی وہ واحد فلم ہے جس میں زبیدہ خانم نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ چند مزید فلموں‌ میں چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئیں۔ گلوکارہ زبیدہ خانم کو سنیما بینوں نے 1961ء کی فلم آبرو میں شادی کی تقریب کے ایک منظر میں اپنا ہی گیت سنتے ہوئے دیکھا تھا۔

    گلوکارہ زبیدہ خانم 78 برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئی تھیں۔ 19 اکتوبر 2013ء کو وفات پانے والی زبیدہ خانم لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں پلے بیک سنگر کے طور پر مقام بنانے والی زبیدہ خانم 1935ء میں امرتسر میں پیدا ہوئیں اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئیں۔ دورانِ تعلیم ہی وہ فنِ‌ گائیکی میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگی تھیں‌۔ ان کے ایک استاد نے جب ان کا شوق دیکھا تو ریڈیو پاکستان میں متعارف کروا دیا اور وہاں سے زبیدہ خانم کے فنی سفر کا آغاز ہوا۔پاکستان میں فلم انڈسٹری سے ان کا تعلق 1951ء میں قائم ہوا اور وہ فلم ’بلّو‘ میں بطور اداکارہ نظر آئیں۔ اپنے فلمی کیریئر کے ابتدائی برسوں میں زبیدہ خانم نے اداکاری کے میدان میں‌ قسمت آزمائی کی۔ تاہم صرف دو سال بعد 1953ء میں بطور پلے بیک سنگر ان کی آواز فلم ’شہری بابو‘ کے گیتوں کی صورت شائقینِ موسیقی تک پہنچی۔ ان کی دلکش آواز اور خوش اسلوب گائیکی نے چند ہی سالوں میں انہیں صفِ اوّل کی گلوکارہ بنا دیا۔

    گلوکارہ زبیدہ خانم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ گھر والے موسیقی کو بطور کیریئر اپنانے پر ان سے ناخوش تھے لیکن ’مجھے ہمیشہ سے گائیکی کا شوق تھا اور میں جب بھی اسٹوڈیو جاتی تھی تو بہت خوشی محسوس کرتی تھی۔‘

    زبیدہ خانم نے اپنے کیریئر کے عروج پر پاکستانی فلمی صنعت کے معروف کیمرہ مین ریاض بخاری سے شادی کر لی تھی اور اس کے بعد وہ فلم اور موسیقی کی دنیا سے دور ہوگئیں۔ وہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں‌ تھیں۔ گلوکارہ اور اداکارہ زبیدہ خانم کا گائیکی کا سفر صرف آٹھ برس تک جاری رہا لیکن ان کے گائے ہوئے نغمات آج بھی بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں۔ زبیدہ خانم نے اس دور کے تمام بڑے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں بابا جی اے چشتی، رشید عطرے، صفدر حسین، سلیم اقبال، خواجہ خورشید انور اور اے حمید شامل ہیں۔

    زبیدہ خانم کا تعلق موسیقی کے کسی روایتی گھرانے سے نہیں تھا اور نہ ہی انھوں‌ نے موسیقی کی رسمی تعلیم حاصل کی تھی بلکہ آواز اور انداز وہ خداداد صلاحیت تھی جس نے انھیں‌ کم عمری ہی میں‌ لاہور کے ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا تھا۔

    زبیدہ خانم کے مقبول ترین پنجابی گیتوں میں فلم ہیر کا اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے، شیخ چلی کا گیت سیونی میرا دل دھڑکے، فلم مکھڑا کا دلا ٹھہر جا یار دا نظارا لین دے اور چھو منتر کا نغمہ بُرے نصیب میرے ویری ہویا شامل ہیں۔