ایگری کلچر آفیسر/ پیسٹی سائیڈ انسپکٹر سمبڑیال صبا تحسین نے کہا ہے کہ کاشتکار گندم کو اسپرے کے بعد جڑی بوٹیوں کو چارے کے طور پر ہرگز استعمال نہ کریں۔ ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے دفتر میں آج منگل قومی خبر رساں ادارے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا
انہوں نے کہا ہے کہ کاشتکار زہریلی ادویات کے اسپرے کے بعد جڑی بوٹیوں کو چارے کے طور پر مویشیوں، جانوروں بالخصوص بکریوں، گائے، بھینسوں وغیرہ کو ڈالنے سے گریز کریں کیونکہ اسپرے کے زہریلے اثرات جہاں جڑی بوٹیوں کے ذریعے مذکورہ جانوروں کے پیٹ میں داخل ہو کر دودھ اور گوشت کی پیداوار کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں وہیں جانوروں اور مویشیوں کی زندگیوں کو بھی خطرات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے، نیز زہر کے چھڑکائو کے بعد گوڈی یا بارہیرو کے استعمال سے بھی گریز کیاجائے تاکہ زہروں کا اثر دیر تک برقرار رکھنے میں مدد مل سکے۔
انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات میں گندم سمیت دیگر زرعی اجناس کی بہتر پیداوار کا حصول اشدضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسپرے کے دوران انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے اوراس دوران کوئی جگہ خالی نہیں رہنے دی جانی چاہیے۔ صبا تحسین نے کہاکہ گندم کے کھیت کے خالی کناروں پر بھی اگر اسپرے کر دیاجائے تو اس کے بھی بہترین نتائچ حاصل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ریتلے اور کلراٹھے علاقوں میں ماہرین زراعت یا محکمہ زراعت کے فیلڈ اسٹاف کی مشاورت سے زہروں کا اسپرے کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
صدر پاکستان کسان اتحاد خالد محمود کھوکھر نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے آئندہ ماہ دسمبر میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق صدر پاکستان کسان اتحاد خالد محمود کھوکھر نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ملک سپورٹ پرائس دیتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں کسانوں کے بجلی کے کنکشن منقطع اور آواز اٹھانے پر ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ اپنے حق کے لیے دسمبر میں شہر شہر احتجاج کیا جائے گا لیکن ہم کسی پارٹی کی تحریک اور احتجاج کا حصہ نہیں۔
خالد کھوکھر نے بتایا کہ کاشتکار کی کاسٹ آف پروڈکشن پوری نہیں ہو رہی، ایسے میں زرعی انکم ٹیکس عائد ہونے پر تو انا لله و انا الیه راجعون پڑھ لینا چاہیے۔ زراعت حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں اور زرعی ملک ہونے کے باوجود فوڈ سیکیورٹی ہمارا نمبر ون مسئلہ بن چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل اپنی جیبوں کو بھرنے کیلیے گندم منگوائی گئی۔ عالمی ایجنڈے کے تحت پاکستان زراعت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ آم کی پیداوار 60 فیصد، تِل کی پیدوار 70 فیصد کم ہو گئی ہے جب کہ گندم کی پیداوار میں 20 سے 30 فیصد کمی آنے والی ہے۔
حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری کے کوٹے میں کمی کے بعد پاکستان میں کسان گزشتہ چند ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ صوبہ سندھ، اپنی فصل کی ابتدائی پیداوار کے ساتھ، مظاہروں کا مرکز رہا ہے، لیکن تعطل موجودہ سال وہاں گندم کی کٹائی مکمل ہونے کے دو ماہ بعد بھی برقرار ہے۔
سندھ میں قائم ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اکرم خاصخیلی نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “حکومت نے گندم کی خریداری کا ریٹ طے کیا تھا اور اسے گندم کے تھیلے براہ راست کسانوں کو جاری کرنے تھے، لیکن محکمہ خوراک کے کچھ اہلکار مبینہ طور پر یہ تھیلے کک بیکس کے عوض چھوٹے درجے کے تاجروں (پیڑھی) کو فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، پیڑھی والے کاشتکاروں سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ 100,000 روپے (360 امریکی ڈالر) فی 100 کلو گرام کے نرخ سے کم نرخوں پر گندم خرید رہے ہیں،” سرکاری خریداری مراکز کو گندم کی پیکنگ اور فروخت کے لئے گندم کے تھیلے جاری کئے جاتے ہیں۔
حکومتی ناکامیوں اور پہلے سے زیادہ غیر متوقع موسم کے امتزاج سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے
خاصخیلی نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے صورتحال پر بدانتظامی جاری رہی تو اس سے قیمتی فصلوں کو نقصان پہنچے گا، گندم کی دستیابی کے باوجود غذائی عدم تحفظ مزید بڑھے گا۔
عام طور پر، حکومت کی طرف سے کم سے کم امدادی قیمت پر پیداوار کے تقریباً 20 فیصد، یا 5.6 ملین ٹن گندم کی بڑی خریداری، خریدار کو کچھ پیداوار کا یقین دلاتی ہے اور مارکیٹ ریٹ مقرر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن موجودہ مسئلہ میں موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہے اور کس طرح یہ پاکستان کے زرعی شعبے کو بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔
2022 کے سیلاب کے بعد زرعی بحران کے دو سال
موجودہ بحران جولائی تا ستمبر 2022 کے اونچے درجے کےسیلاب سے جڑا ہے جس میں ملک کے ایک تہائی اضلاع ڈوب گئے۔ بتدریج گرم ہوتے سمندر سمیت بہت سے موسمی عوامل، کی وجہ سے شدید بارشیں ہوئیں، جس نے پاکستان کی 15 فیصد زرعی زمین کو معتدل یا شدید طور پر متاثر کیا۔
صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں جوہی جیسے علاقوں میں اس کا اثر کئی موسموں تک رہا۔ ابتدائی تباہی کے چھ ماہ بعد تک پانی بڑی مقدار میں ٹھہرا رہا۔ ایک بیراج بھی ڈھے گیا تھا، اور دو سال تک فعال نہ ہو سکا۔
44 سالہ طالب گدیہی اور ان کے بھائیوں، جو اس علاقے میں مل کر 350 ایکڑ (141 ہیکٹر) زرعی اراضی کے مالک ہیں، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ ان میں سے اکثر نے دو سالوں میں لگاتار چار موسموں تک اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے جدوجہد کی۔
گدیہی نے کہا کہ بیراج کے تباہ ہونے سے اندازاً 100,000 ایکڑ (40,469 ہیکٹر) متاثر ہوا، اور قابل کاشت زمین بنجر ہو گئی ہے۔ “اس صورتحال کے نتیجے میں علاقے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے،” انہوں نے مزید کہا۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے درآمدات بڑھ گئی ہیں
پاکستان بھر میں اس طرح کے اثرات نے ملک کو 2022 میں گلوبل ہنگر انڈیکس میں 99 ویں نمبر سے 2023 میں 102 ویں نمبر پر لانے میں کردار ادا کیا۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے جنوری 2024 کے تجزیے کے مطابق، غربت کی شرح 2022 میں 34 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 39 فیصد ہو گئی، جس کی بڑی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس سے غریب گھرانوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی کے مطابق، 10 ملین سے زیادہ لوگ “اپریل سے اکتوبر 2023 کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلی سطح کا سامنا کر رہے تھے”۔
گندم ملک کی بنیادی خوراک کا 72 فیصد بنتی ہے، اور غذائی تحفظ اور مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نگران حکومت نے 2024 کے قومی انتخابات سے قبل 2023 کے آخر میں گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس وقت تک زرعی شعبہ ٹھیک ہو چکا تھا، اور کسانوں کو معمول سے زیادہ پیداوار کی توقع تھی۔ تاہم، چونکہ حکومت پہلے ہی گندم درآمد کر چکی تھی، اس لئے اب وہ کسانوں سے کم خریدنا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے احتجاج شروع ہورہے ہیں۔”
اسلام آباد میں گلوبل کلائمیٹ چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی) میں زراعت، جنگلات اور زمین کے استعمال کے سیکشن کے سربراہ محمد عارف گوہیر نے مارچ میں احتجاج سے قبل، ڈائیلاگ ارتھ کو گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی وضاحت دی کہ یہ استطاعت کا مسئلہ ہے۔ اناج کی درآمد سے گندم کی قیمت میں گراوٹ آئی، ڈان کے مطابق، “3,000 روپے اور 3,100 روپے فی 40 کلوگرام کے درمیان جو کہ 2024-2025 کے سیزن کے لئے مقرر کردہ 3,900 روپے فی 40 کلو گرام کم سے کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے نمایاں طور پر کم ہے۔” لیکن اس کی وجہ سے دو سال کی سختی کے بعد اچھی کمائی کی امید رکھنے والے کسانوں کی طرف سے احتجاج شروع ہو گیا ہے۔
گوہیر نے کہا، “خوراک کی افراط زر اور تحفظ سے نمٹنے کا حتمی حل درست زراعت کو اپنانے اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے استعمال میں مضمر ہے۔”
لیکن ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے خاصخیلی نے بتایا کہ کسانوں کو اس سلسلے میں بہت کم یا کوئی اعانت نہیں ملتی۔ “شروع سے آخر تک، کاشتکار بے بس ہیں،” انہوں نے کہا۔ “کاشتکاروں کو معیاری بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنی فصلیں کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے فصل کی پیداوار اور غذائی تحفظ متاثر ہوتے ہیں۔”
بدانتظامی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے غذائی تحفظ کو خطرہ
مظاہرے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کی غیر معمولی درجہ بندی دونوں اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کی غذائی تحفظ اور سماجی استحکام کے لئے زرعی پالیسیاں کتنی اہم ہیں۔ بنیادی میٹرکس کے لحاظ سے، ملک نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1947-48 میں، گندم 3,953 ہیکٹر پر بوئی گئی تھی، جس سے 0.848 ٹن فی ہیکٹر پیداوار پر 3,354 ٹن گندم پیدا ہوا تھا۔ 2022-23 تک پاکستان میں 9,043 ہیکٹر پر گندم کی بوائی گئی، جس کی پیداوار 27,634 ٹن تھی جس کی اوسط پیداوار 3.056 ٹن فی ہیکٹر تھی۔
لیکن اگرچہ پاکستان اب دنیا میں گندم پیدا کرنے والا 7 واں بڑا ملک ہے، لیکن یہ انڈیکس منڈی کے مطابق گندم کی اوسط پیداوار کے لحاظ سے صرف 38 ویں نمبر پر ہے، جس کی اوسط پیداوار 3 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ نیوزی لینڈ اس وقت 10 میٹرک ٹن فی ہیکٹر کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ گندم کی اوسط پیداوار رکھتا ہے۔
فیڈرل منسٹری فار نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے تحت کلائمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورس انسٹی ٹیوٹ (سی ای ڈبلیو آر آئی) کے ڈائریکٹر بشیر احمد کے مطابق، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں ایک بڑھتا ہوا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا زرعی شعبہ آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کا 60-70 فیصد برف پگھلنے اور گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے۔
ستمبر 2022 میں، ایک کسان پاکستان کے کوئٹہ کے قریب سیلاب سے تباہ شدہ باغ میں سڑے ہوئے سیب جمع کر رہا ہے۔ گرمی کی لہروں اور سیلاب سے بارشوں بدلتے پیٹرن اور برفانی تودوں کے غیر متوقع پگھلنے تک، موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیائی ملک میں کسانوں کے لیے زندگی مشکل بنا رہی ہیں (تصویر بشکریہ ارشد بٹ/الامی)
احمد نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ اس کے علاوہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے پانی کی دستیابی اور ذخیرہ کو متاثر کیا ہے، شدید اور مختصر دورانیے کی بارشیں مٹی کے کٹاؤ کا باعث بنتی ہیں۔ اس نے پوٹھوہار کے علاقے اور ملک کے شمالی حصوں میں بارش پر منحصر زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
“مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن کے نتیجے میں مختلف فصلوں پر 6-15 فیصد اثر پڑا ہے، خاص طور پر بارش سے چلنے والی فصلیں جیسے گندم، جس میں 15 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا تعلق گرمی کی لہروں اور سیلاب کے اثرات سے نہیں ہے،” احمد نے مزید کہا۔
احمد نے کہا کہ گلگت بلتستان جیسے سرد علاقوں میں، نارنگی جیسے پھل ٹھنڈ کے ناکافی اوقات کی وجہ سے جلدی تیار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، آبپاشی کے لئے پانی کی سپلائی میں کمی نے پنجاب میں زیر زمین پانی پر انحصار بڑھا دیا ہے، جس سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔
حل موجود ہیں، لیکن سوال حکومت کی سپورٹ کا ہے
ویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سکرنڈ، سندھ میں زرعی سائنس کے ڈائریکٹر اور ایگریکلچرل سائنٹسٹ ظفر علی کھوکھر تجویز کرتے ہیں کہ مقامی بیج کی اقسام اپنی موجودہ پیداواری صلاحیت کو دوگنا کر سکتی ہیں۔ تاہم، معیاری بیج کی تیاری میں طلب اور رسد کے مسائل برقرار ہیں۔
کھوکھر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ، “ہمارے ادارے نے 80 من گندم فی ایکڑ (7.43 ٹن فی ہیکٹر) پیدا کرنے والی اقسام تیار کی ہیں، جو مسلسل استعمال سے ثابت ہیں۔ بیج کی ضروری فراہمی کو یقینی بنانا ذمہ دار مینوفیکچررز کے ہاتھوں میں ہے۔ فی الحال، بیج کی کل طلب کا صرف 30 فیصد اعلی پیداوار والے گندم کے بیجوں پر مشتمل ہے، جو حکومتی یا نجی کمپنیاں فراہم کرتے ہیں۔
عامر حیات بھنڈارا، جنہوں نے 2023 میں زراعت کی پیداوار میں بہتری کے لیے وزیر اعظم کی کمیٹی کے رکن کے طور پر کام کیا، نے اس بات پر زور دیا کہ اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ “اگر ماضی کی حکومتیں زراعت کے شعبے میں انتہائی اہمیت کے باوجود جدید تکنیک، ٹیکنالوجی اور انکی کسانوں تک رسائی پر توجہ دینے کو ترجیح نہیں دے سکیں، تو اب وقت آگیا ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔”
ذوالفقار کنبھر کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوئی تھی جسے یہاں پڑھا جاسکتا ہے
اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے گزشتہ 10 سال میں زرعی شعبے میں کی گئی تحقیق کی رپورٹ طلب کر لی، کمیٹی کا کہنا تھا کہ سالانہ کروڑوں روپے کی تنخواہیں دی جارہی ہیں لیکن کام صفر ہے۔
تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی آڈٹ رپورٹ 22-2021 کا جائزہ لیا گیا۔
پی اے سی نے گزشتہ 10 سال میں زرعی شعبے میں کی گئی تحقیق کی رپورٹ طلب کر لی، کمیٹی چیئرمین نور عالم خان کا کہنا تھا کہ سرکاری خزانے سے سالانہ 50 کروڑ روپے تنخواہیں دی جارہی ہیں لیکن سرکاری افسران کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
چیئرمین ایگری کلچر ریسرچ کونسل نے پی اے سی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسٹرابیری بھی زرعی سائنسدانوں کی تحقیق ہے۔
پی اے سی نے اسٹرابیری کے بجائے گندم جیسی فصلوں پر توجہ دینے پر زور دیا، کمیٹی ارکان نے دریافت کیا کہ 10 سال میں گندم یا چاول کی کتنی اقسام متعارف کروائی گئی ہیں؟
چیئرمین کا کہنا تھا کہ ملکی میں پی ایچ ڈی ہولڈرز بہت زیادہ ہیں لیکن زرعی شعبے میں تحقیق نہیں ہے۔
لاہور: اوکاڑہ یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے طلبا کے لیے جی پی ایس ڈیٹا کلیکشن سے متعلق تربیت کا انعقاد کیا گیا جس سے زرعی شعبے میں مثبت تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے محکمہ آبپاشی، آن فارم واٹر مینجمنٹ کے افسران اور اوکاڑہ یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (اوکاڑہ کیمپس) کے طلبا کے لیے دو روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔
ورکشاپ کا مقصد جی پی ایس کے ذریعے ڈیٹا جمع کرنے کے ٹولز کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا، علاوہ ازیں متعلقہ سرکاری محکموں بالخصوص پنجاب کے محکمہ آبپاشی میں مختلف ایپلی کیشنز اور ٹیکنالوجیز کے استعمال اور فوائد کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی تھا۔
واٹر ریسورس مینجمنٹ کے محقق ڈاکٹر انصر الیاس کے مطابق ڈیفرینشل گلوبل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم (ڈی جی این ایس ایس) زراعت کے شعبے کا منظر نامہ بدل سکتا ہے۔
اسے خاص طور پر حکومتی اہلکاروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے تیار کیا گیا تھا تاکہ انہیں زراعت میں استعمال ہونے والے ضروری آلات اور معلومات سے آراستہ کیا جا سکے۔
ورکشاپ کے دوران ڈیفرینشل گلوبل پوزیشننگ سسٹم (ڈی جی پی ایس) کے استعمال کا مظاہرہ بھی کیا گیا جس کے ذریعے شرکا نے درست مقام کی نشاندہی کی سرگرمی کی۔
انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقد کی گئی ایک اور ورکشاپ میں انٹیگریٹڈ واٹر ریسورسز مینجمنٹ کے لیے صنفی مساوات اور سماجی شمولیت پر بھی آگاہی فراہم کی گئی۔
ورکشاپ میں لیبر کی صنفی تقسیم کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف مشقیں کروائی گئیں جس سے شرکا کو روایتی صنفی تصورات کے ساتھ ساتھ جنس اور صنفی فرق کو سمجھنے میں مدد ملی۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ زراعت میں سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے، جدید طریقے سے کاشت کاری سے فصل میں اضافہ ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی زراعت کو جدید بنانا پڑے گا، جدید طریقے کے ذریعے کاشت سے فصل میں اضافہ ہوگا۔
احسن اقبال کا کہنا ہے کہ زراعت کے لیے سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے، ملک میں جدید ٹیکنالوجی سے زرعی انقلاب لا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سال گندم کی پیداوار زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، ان علاقوں میں گندم زیادہ کاشت کریں جہاں سیلاب نہیں آیا۔
اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے زرعی شعبے کے مسائل کے حل کے لیے پیکج کو جلد حتمی شکل دینے اور متعلقہ فیصلوں کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے زرعی شعبے کے مسائل کے حل کے لیے پیکج کو جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت کردی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سبسڈی پیکج پر صوبوں کے ساتھ مشاورت کی جائے، اضافی پیداوار کے لیے خوردنی تیل کے بیج پر بھی سبسڈی دی جائے۔
انہوں نے کسان پیکج سے متعلق فیصلوں کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ملک میں ہنگامی بنیادوں پر زرعی اصلاحات کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی تھی کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر کسانوں کو ضروری سہولیات فراہم کرے اور کسانوں کو کم لاگت پر بروقت معیاری بیج اور کھاد کی فراہمی یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کسانوں کو جدید مشینری اور قرضوں میں سہولت کی فراہمی یقینی بنائے گی اور گندم اور زرعی اجناس کو ذخیرہ کرنے کے لیے سائیلوز کی تعمیر پر کام کرے گی۔
اسلام آباد: پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے زرعی شعبے میں معاہدے کا فیصلہ کیا ہے، معاہدے پر وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ازبکستان کے دوران دستخط کیے جائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ازبکستان سے قبل اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے زرعی شعبے میں معاہدے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے زرعی شعبے میں تعاون کا معاہدہ کرنے کی منظوری دے دی، علاوہ ازیں سرکولیشن کے ذریعے وفاقی کابینہ سے بھی سمری کی منظوری لے لی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے پر وزیر اعظم کے دورہ ازبکستان کے دوران دستخط کیے جائیں گے۔
شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کا اجلاس 15 اور 16 ستمبر کو ازبکستان میں ہوگا۔
کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں 31 لاکھ 72 ہزار 726 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، صرف گھروں کی تعمیر کے لیے 450 ارب روپے درکار ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی انٹرنیشنل ڈونرز سے ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی، وزیر اعلیٰ ور چیف سیکریٹری سہیل راجپوت نے ڈونرز کو سندھ کی صورتحال پر بریفنگ دی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ جولائی میں عام بارشوں کے مقابلے میں 308 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں، اگست میں 784 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے 24 اضلاع، 102 تعلقہ اور 5 ہزار 727 دیہات شدید متاثر ہوئے ہوئے، 405 اموات اور 1 ہزار 74 لوگ زخمی ہوئے۔ 15 لاکھ گھر گر گئے ہیں جس کو تعمیر کے لیے 450 ارب روپے درکار ہیں۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سندھ میں 31 لاکھ 72 ہزار 726 ایکڑ پر فصلیں تباہ ہوگئیں، بارشوں میں 2281.5 کلو میٹر کے 570 روڈ تباہ ہوگئے۔ ایک کلومیٹر کی تعمیر پر 10 ملین روپے کی لاگت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نقصانات کا تخمینہ 860 بلین روپے بنتا ہے، سندھ حکومت کو اموات اور زخمیوں کا معاوضہ دینا ہے۔ گرے ہوئے گھر اور مرنے والے مویشیوں کا بھی معاوضہ دینا ہوگا۔
وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ زرعی قرضہ معاف یا ایک سال کے لیے مؤخر اور اقساط میں کرنا ہوگا، زرعی مشینری، کھاد، کیڑے مار ادویات اور بیج پر سبسڈی دینا ہوگی۔
لاہور: زرعی شعبے کے لیے مزید مشکلات سامنے آگئیں، پاکستان کی سب سے بڑی ٹریکٹر مینو فیکچرز کمپنی نے مالی مشکلات کے باعث اپنا آپریشن بند کردیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی ٹریکٹر مینو فیکچرز کمپنی نے مالی مشکلات کے باعث اپنا آپریشن بند کردیا، ملت ٹریکٹرز لمیٹڈ ماہانہ 3 ہزار ٹریکٹر فروخت کرنے والی فیکٹری ہے۔
پلانٹ بند ہونے کے بعد مارکیٹ میں ٹریکٹر گاڑیوں کی کمی ہوجائے گی جس سے قیمت بڑھ جائے گی۔ کاشت کاروں کے لیے فرٹیلائزر کے بعد ٹریکٹر بھی مہنگا ہونے کا امکان ہے۔
ملت ٹریکٹرز نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو خط لکھ کر آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ٹریکٹرز مینو فیکچرز کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس سلسلے میں تمام متعلقہ وزارتوں کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس مینو فیکچرز کے سابق چیئرمین شمشاد علی کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس ریفنڈ کی مد میں ایف بی آر نے ٹریکٹر انڈسٹری کے اربوں روپے اب تک جاری نہیں کیے، 2 سال میں سیلز ٹیکس ریفنڈ کی رقم 8 ارب روپے ہوچکی ہے۔
شمشاد علی کا کہنا تھا کہ ٹریکٹرز انڈسٹری کو ایک یونٹ کی مینو فیکچرنگ پر سیلز ٹیکس ریفنڈ نہ ملنے سے بھاری نقصان ہو رہا ہے، 1 ٹریکٹر بنا کر فروخت کرنے پر منافع سے کہیں زیادہ ڈیڑھ لاکھ روپے تک کا نقصان ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو ٹریکٹرز کے پارٹس پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا ہے، ٹریکٹر کی فروخت پر خریدار سے صرف 5 فیصد وصولی کی جاتی ہے، یعنی انڈسٹری ایک ٹریکٹر کی فروخت پر 12 فیصد سیلز ٹیکس کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔
سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ صرف ملت ٹریکٹرز پر ہر دو سال میں ایک ٹریکٹر کی فروخت پر 6 ارب روپے کے سیلز ٹیکس کا اضافی بوجھ پڑا، ملت ٹریکٹر کے پلانٹ کو ایک ٹریکٹر پر بھاری نقصان ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت فوری طور پر ٹریکٹر انڈسٹری کے سیلز ٹیکس ریفنڈ جاری کرے تاکہ ملت ٹریکٹرز کے پلانٹ کی بندش سے مزید بھاری نقصان سے بچا جاسکے۔