Tag: زراعت

پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے

زراعت کے حوالے سے تمام خبریں

  • چین میں سائنس کے طالب علم کسانوں کی مدد کرنے لگے

    چین میں سائنس کے طالب علم کسانوں کی مدد کرنے لگے

    بیجنگ: چین کی ایک یونیورسٹی میں سائنس کے طالب علموں کو کسانوں کے پاس رہنے کے لیے بھیجا گیا جس کے نتائج نے زراعت کی صنعت کو حیران کردیا۔

    چین میں کیے گئے اس تجربے میں سائنس کے طلبا نے نئی تکنیکوں کے ذریعے کسانوں کی رہنمائی کی جس سے فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوگیا۔

    ان طلبا نے کھیتوں کی مٹی اور وہاں کے موسم کا بھی جائزہ لیا اور اسی مناسبت سے کسانوں کو بیج بونے کا کہا، ساتھ ہی انہیں ہل چلانے اور موزوں فرٹیلائزر کے بارے میں بھی بتایا۔

    ابتدا میں کسانوں نے ان طلبا کی معلومات پر بھروسہ نہیں کیا اور اپنے روایتی طریقوں سے ہی زراعت کرنے پر مصر رہے، تاہم جن کسانوں نے ان طلبا کے ساتھ مل کر کام کیا ان کی فصلوں میں نمایاں بہتری اور اضافہ دیکھا گیا۔

    اس تجربے سے نہ صرف مجموعی طور پر زراعت میں اضافہ دیکھا گیا بلکہ طلبا کو بھی تجربہ حاصل ہوا کہ دور طالب علمی میں پڑھائی جانے والی تکنیکوں کو عملی طور پر کیسے استعمال کیا جائے۔

  • میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    آپ نے مصنوعی بارش برسانے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ بارش ان علاقوں میں برسائی جاتی ہے جہاں بارش نہ ہوتی ہو اور وہاں خشک سالی کا خدشہ ہو۔

    مصنوعی بارش کے لیے بادلوں پر کیمیائی مادوں کا مجموعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کہا جاتا ہے جس سے بارش ہوتی ہے۔

    لیکن میکسیکو کے رہائشی اپنی بارش خود ’اگا‘ رہے ہیں۔

    rain-post-2

    دراصل میکسیکو کے کسان اپنے کھیتوں میں پوٹاشیم کے ذرات بو رہے ہیں۔ یہ ذرات اپنی جسامت سے 500 گنا زیادہ پانی جذب کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پانی ان ذروں کے اندر 8 سال تک رہ سکتا ہے۔

    یہ علاقہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے سیزن میں کمی ہوچکی ہے لہٰذا یہاں کے کسان سنگین صورتحال سے دو چار ہیں۔

    rain-post-1

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سائنسدان سرگیو ریکو نے یہ ’خشک بارش‘ خشک سالی کا شکار کسانوں کی مدد کے لیے بنائی ہے۔ اسے کھیتوں میں ڈالنے کے بعد یہ جڑوں کو پانی فراہم کرتا رہتا ہے اور کھاد کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔

    rain-post-4

    rain-post-3

    اسے متعارف کروانے والے ماہر سرگیو ریکو کا کہنا ہے کہ یہ انہیں بے شمار فوائد دے سکتا ہے۔ بڑی بڑی بوریوں میں بارش کو محفوظ کرنے کی صورت میں ان کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

    اسے استعمال کرنے والے کسان خوش ہیں کہ یہ ’بارش‘ ان کی بھوک اور غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چاول کے کھیت میں بطخ پالنے کا جاپانی طریقہ

    چاول کے کھیت میں بطخ پالنے کا جاپانی طریقہ

    چاولوں کی زراعت کے لیے فصل کے نچلے حصے کو پانی میں بھگو کر رکھنا ضروری ہے چنانچہ چاول کے کھیت پانی سے بھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

    اس پانی کو صاف رکھنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ صحت مند فصل حاصل کی جاسکے۔

    ایک عام طریقہ کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ ہے لیکن یہ بہرحال صحت کے لیے مضر ہے۔ کئی ممالک میں اس پر پابندی بھی عائد کی جاچکی ہے۔

    بعض ممالک میں چاولوں کے پانی کو صاف رکھنے کے لیے پانی کے تالابوں میں مچھلیوں کی افزائش کی جاتی ہے۔

    یہ مچھلیاں پانی سے کیڑے مکوڑے کھا کر فصل کو صحت مند رکھتی ہیں جبکہ ان کا فضلہ مٹی کو بھی زرخیز بناتا ہے جس سے چاول کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اس طریقہ کار سے بیک وقت دو زراعتی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں یعنی چاول کی فصل کے ساتھ ساتھ مچھلیوں کی افزائش بھی ہوتی ہے جس کا کاروبار بھی کیا جاسکتا ہے۔

    بعض مقامات پر چاول کی فصل میں کچھوے بھی چھوڑے جاتے ہیں۔ کچھوے کو آبی خاکروب یعنی پانی کو صاف کرنے والا کہا جاتا ہے۔ کچھوے ہر قسم کے پانی سے کیڑے مکوڑے اور مختلف جراثیموں کو کھا کر پانی کو صاف رکھتے ہیں۔

    جاپان میں یہ کام بطخ سر انجام دیتی ہیں۔

    جاپان میں چاولوں کے کھیت میں بطخوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بطخیں کیڑے مکوڑے اور غیر ضروری جنگلی پودوں کو کھاجاتی ہیں۔

    تاہم بطخوں کو رکھنے میں ایک قباحت ہے، بطخیں کچھ عرصے بعد موٹی ہوجاتی ہیں جس کے بعد ان سے چاول کی فصل کو نقصان پہنچنے لگتا ہے چنانچہ ہر سال بطخوں کو بدل دیا جاتا ہے۔

    جاپانی کاشت کاروں کا یہ طریقہ کار اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے۔ کاشت کار فصلوں کی حفاظت کے لیے کیڑے مار ادویات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے قدرتی ذرائع کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ صحت مند فصلیں پیدا کی جاسکیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    مختلف ماحولیاتی مسائل بشمول موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) اس وقت دنیا کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، اور جس کی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، ماحولیاتی مسائل کی طرف توجہ دینا ایک احمقانہ بات ہے۔

    لیکن شاید ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کی جڑ بھی کہیں نہ کہیں انہی ماحولیاتی مسائل سے جڑی ہے جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے ان 4 بنیادی پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہیں جو دراصل ماحولیات کی خرابی کی وجہ سے ہیں اور جو ہر شخص سے تعلق رکھتے ہیں۔

    :کلائمٹ چینج کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ملک

    کلائمٹ چینج کی ایک بڑی وجہ کاربن سمیت مختلف زہریلی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ان گیسوں کے اخراج میں آگے ہیں اور اس میں چین اور امریکا سرفہرست ہیں۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا کلائمٹ چینج یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے، لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا شکار پہلے 10 ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔

    flood

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔

    سنہ 2010 میں آنے والا سیلاب، جسے اقوام متحدہ نے تاریخ کا تباہ کن سیلاب قرار دیا، اپنے ساتھ 2000 ہزار افراد کی جان لے گیا جبکہ اس سے لگ بھگ پونے دو کروڑ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے ملک کی معیشت کو 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    :پانی کی شدید قلت

    ایک طرف تو ملک کے بالائی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں، دوسری جانب پاکستان میں میٹھے (پینے کے) پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی آنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    پاکستان میں گلیشیئرز کی تعداد 5 ہزار ہے اور گزشتہ برس ان علاقوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا جس کے باعث ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا۔

    water

    ماہرین کے مطابق ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد دریاؤں اور سمندروں میں پانی میں یکایک اضافہ ہوگا جو قریبی آبادیوں کو سیلاب کی صورت تباہ کرے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوگا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔

    ایک اور وجہ بارشوں کے پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ نہ کرنا بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان وجوہات کے باعث اگلے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    :زراعت میں کمی

    پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع اور تبدیل ہوتے پیٹرن، اور پانی کی کمی کے باعث زراعت بھی نقصان کا شکار ہے۔ کسی سال ہماری کھڑی فصلیں تیز بارش میں بہہ جاتی ہیں، اور کسی سال بوائی کے موسم میں بارش نہ ہونے کے باعث فصلیں ہی نہیں اگ پاتیں۔

    drought

    پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کلائمٹ چینج اسی ڈھب سے وقوع پذیر ہوتا رہا تو سنہ 2080 تک صوبہ خیبر پختونخوا سے زراعت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ صوبہ ایک بنجر اور قحط زدہ علاقہ بن جائے گا۔

    :شمسی تونائی سے مالا مال ۔ لیکن محروم ملک

    پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں اب تک بجلی پیدا کرنے اور بجلی گھروں کو چلانے کے لیے تیلوں اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ہے۔

    solar

    ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس دولت کو کام میں لانے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شمسی توانائی کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جاسکے تو یہ بغیر کسی ایندھن کے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔

  • شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ جب کبھی آپ کو سبزیوں اور پھلوں کی ضرورت ہو، آپ اپنے فلیٹ یا گھر کی چھت پر جائیں اور وہاں اگی ’فصل‘ سے اپنی مطلوبہ شے توڑ کر لے آئیں؟

    یہ بات شاید آپ کو بہت عجیب لگے، لیکن دنیا بھر میں اب یہی رجحان فروغ پا رہا ہے جسے اربن فارمنگ کہا جاتا ہے۔

    شہری زراعت یا اربن فارمنگ کا مطلب شہروں کے بیچ میں زراعت کرنا ہے۔ یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    farming-6

    farming-2

    farming-4

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    دوسری جانب جن زمینوں پر زراعت کی جارہی ہے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ان کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں، گھر اور اسکول وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

    تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے افراد کو آخر کس طرح سبزیاں اور پھل فراہم کیے جائیں؟

    اس کا حل ماہرین نے شہری زراعت کے طور پر پیش کیا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ شہری زراعت کے ذریعہ شہر کی زیادہ سے زیادہ عمارتوں کی چھتوں کو گارڈن کی شکل میں تبدیل کردیا جائے اور وہاں پھل اور سبزیاں اگائی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے عمارتوں کی چھتوں پر مویشی بھی پالے جاسکتے ہیں جو دودھ اور گوشت کی فراہم کا ذریعہ بنیں گے۔

    farming-5

    یہی نہیں یہ سر سبز چھتیں شہر سے آلودگی کو بھی کم کریں گی جبکہ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ ٹھنڈک فراہم کریں گی اور وہی کام کریں گی جو درخت سر انجام دیتے ہیں۔

    یہ طریقہ کئی ممالک میں زیر استعمال ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں بھی متعدد فلک بوس عمارتوں کی چھتوں پر زراعت شروع کردی گئی ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی اجناس کی مقدار 23 ہزار کلو گرام سالانہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق شہری زراعت کے طریقے کو اپنا کر اگر کوئی ایک شہر بھی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوجائے تو اس سے ملکی معیشت کو کافی سہارا ہوسکتا ہے اور کسی ملک کی مجموعی زراعت پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔

    عالمی رپورٹس کے مطابق زراعت کو ایک اور خطرہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج سے بھی ہے۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ہر سال بارشوں کی مقدار میں تبدیلی (کسی سال کم اور کسی سال زیادہ بارش ہونا) بھی فصل کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے اس کی سالانہ مقدار میں کمی ہوتی ہے، یوں یہ غذائی اجناس کمیاب اور مہنگی ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر شہری زراعت کے علاوہ انفرادی طور پر بھی گھروں میں زراعت یا چھوٹے چھوٹے گملوں میں مختلف سبزیاں اور پودے اگانا کسی خاندان کو اس کی غذائی ضروریات میں خود کفیل کرسکتا ہے۔

  • ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    آپ کے گھر سے بے شمار ایسی غذائی اجزا نکلتی ہوں گی جو کوڑے کے ڈرم میں پھینکی جاتی ہوں گی۔ یہ اشیا خراب، ضائع شدہ اور پلیٹوں میں بچائی ہوئی ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر میں خوراک کو ضائع کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، ہم اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ صرف پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے غذائی قلت کے باعث 5 سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ضائع شدہ غذا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقوں پر کام کیا جارہا ہے اور اس کی ایک بہترین مثال سنگاپور کے ننھے طالب علموں نے دی۔

    singapore-4

    سنگاپور کے یونائیٹڈ ورلڈ کالج آف ساؤتھ ایشیا کے پانچویں جماعت کے طالب علموں نے ڈرموں میں پھینکی جانے والی خوراک کو قابل استعمال بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے لیے انہوں نے اس پھینکی جانے والی غذائی اشیا کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    یہ بچے ہر روز اپنے اسکول کی کینٹین سے 50 لیٹر کے قریب غذائی اشیا جمع کرتے ہیں۔ ان میں پھلوں، سبزیوں کے چھلکے، ادھ پکی اشیا، بچائی جانے والی چیزیں اور خراب ہوجانے والی اشیا شامل ہیں۔ ان اشیا کو سوکھے پتوں اور پانی کے ساتھ ملایا گیا۔

    singapore-2

    اس کے بعد اس کو اسی مقصد کے لیے مخصوص ڈرموں میں ڈال دیا گیا جس کے بعد 5 ہفتوں کے اندر بہترین کھاد تیار ہوگئی۔ طالب علموں نے اس کھاد کو اسکول کے گارڈن میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ بچی ہوئی کھاد، کسانوں اور زراعت کا کام کرنے والے افراد کو دے دی گئی۔

    منصوبے پر کام کرنے والے بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھی خوراک کو ضائع کرنے کے نقصان دہ عمل میں شامل ہیں۔ ’جب ہم اس میں شامل ہوئے تو ہمیں چیزوں کی اہمیت کا احساس ہوا اور اس کے بعد ہم نے بھی کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیا‘۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز، لاکھوں ٹن پھل ضائع

    یہ بچے غذائی اشیا کی اس ناقد ری پر اداس بھی ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ کھانے کو ضائع نہ کیا کریں۔

    singapore-3

    اس منصوبے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب پورے سنگاپور کی یونیورسٹیز، کالجز اور دیگر اسکول ایسے ہی منصوبے شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

  • ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    لندن: برطانیہ میں ضائع شدہ غذائی اشیا سے سجی پہلی سپر مارکیٹ کا افتتاح کردیا گیا۔ اس سپر مارکیٹ میں وہ غذائی اشیا فروخت کی جارہی ہیں جو مختلف ہوٹلوں اور سپر اسٹورز کی جانب سے ضائع کردی جاتی ہے یا پھینک دی جاتی ہے۔

    برطانوی شہر لیڈز میں کھولی گئی اس سپر  مارکیٹ کو، جسے ویئر ہاؤس کا نام بھی دیا گیا ہے، رئیل جنک فوڈ پروجیکٹ نامی تنظیم نے قائم کیا ہے جو ضائع شدہ خوراک کو قابل استعمال بنانے پر کام کر رہا ہے۔

    sm-1

    sm-2

    مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں کی جگہ ’پے ایز یو فیل‘ کا ٹیگ لگا ہے یعنی آپ خوراک کے لیے جو قیمت مناسب سمجھیں وہی دے دیں۔

    یہ سپر مارکیٹ ان افراد کو مفت اشیائے خورد و نوش بھی فراہم کر رہی ہے جن کی آمدنی کم ہے اور جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز

    ان ہی میں سے ایک کرسٹی رہوڈز بھی ہے۔ کرسٹی اور اس کا شوہر کم تعلیم یافتہ ہیں لہٰذا ان کی آمدنی بے حد کم ہے۔ اس آمدنی میں وہ اپنی اور اپنے 3 بچوں کی کفالت نہیں کر سکتے اور ایسے میں یہ ویئر ہاؤس ان کے لیے نعمت خداوندی ہے۔

    sm-3

    sm-4

    کرسٹی کا کہنا ہے کہ اسے یہاں سے تازہ پاستہ، جوس، مٹھائیاں، سبزیاں اور سلاد مل جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے غریب افراد کو پھلوں سے جام بنانا بھی سکھائے گی جو اس نے ایک بار اپنے گھر پر بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پروجیکٹ کے سربراہ ایڈم اسمتھ کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے اسٹور پورے ملک میں کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں سے لوگ کم قیمت یا مفت خوراک حاصل کرسکیں۔

    sm-5

    sm-6

    واضح رہے کہ خوراک کو ضائع کرنا دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    اس ضائع کردہ خوراک کی مقدار تقریباً 1.3 بلین ٹن بنتی ہے اور اس سے دنیا بھر کی معیشتوں کو مجموعی طور پر ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

  • ایسا آفس جہاں پھل اور سبزیاں اگتی ہیں

    ایسا آفس جہاں پھل اور سبزیاں اگتی ہیں

    کیا آپ نے کبھی دفتر میں پھلوں اور سبزیوں کو اگتے دیکھا ہے؟ شاید یہ تصور بہت عجیب سا ہے لیکن جاپان میں یہ ایک حقیقت ہے۔

    دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے شہر ٹوکیو میں ایک کمپنی نے اپنے 43000 فٹ اسکوائر دفتر میں زراعت شروع کردی اور مختلف قسم کے پھل اور سبزیاں اگالیں۔

    t5

    t4

    کمپنی نے یہ قدم ’گرو یور اون فوڈ‘ یعنی اپنی غذا خود اگاؤ کے اصول کے تحت اٹھایا ہے۔ واضح رہے کہ پورے جاپان میں قابل زراعت زمین کا رقبہ صرف 12 فیصد ہے۔

    اس دفتر میں چاولوں سمیت 200 قسم کی پھل اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔

    t3

    t2

    یہ زراعت زیادہ تر عمودی انداز میں کی گئی ہے یعنی سبزیوں اور پھلوں کو دیوار پر اگایا گیا ہے۔ یہ جدید انداز کی ایک زراعت ہے جس میں دیوار میں زمین جیسی معدنیات فراہم کرکے زراعت کی جاسکتی ہے۔

    کمپنی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کے پیش نظر ملازمین کو صحت مند ماحول فراہم کرنا بھی ہے۔ یہ سبزیاں اور پھل نہ صرف خود ملازمین اگاتے ہیں بلکہ تیار ہونے کے بعد انہیں استعمال بھی کرتے ہیں۔

    t1

    اگر آپ اس دفتر میں داخل ہوں گے تو آپ کو مطلوبہ شخص سے ملنے کے لیے ’ٹماٹو گیسٹ روم‘ میں انتظار کرنا پڑے گا جہاں چھت اور دیواروں پر آپ کو ٹماٹر لگے دکھائی دیں گے۔ مختلف ملازمین کے کام کی جگہ کو الگ کرنے کے لیے دیواروں کے بجائے مختلف درخت لگائے گئے ہیں جبکہ استقبالیہ پر باقاعدہ ایک بڑے رقبہ پر چاولوں کی کاشت بھی کی گئی ہے۔

    عمارت کے باہر بھی عمودی انداز میں زراعت کی گئی ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ سردیوں میں عمارت کو گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رکھتا ہے لہٰذا یہ دفتر توانائی کی بچت بھی کرتا ہے۔

    اس دفتر میں کام کرنے والے ملازمین اس ماحول کو نہایت پسند کرتے ہیں اور وہ ایسے دفتر میں کام کرنے کو اپنی زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ قرار دیتے ہیں۔

  • بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    نئی دہلی: بھارت میں حکومت ایسے زراعتی آلات بنانے پر غور کر رہی ہے جو استعمال میں ہلکے پھلکے ہوں اور خواتین خاص طور پر اسے بہ آسانی استعمال کرسکیں۔

    یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ بہتر ذرائع آمدنی کی تلاش میں مرد شہر چلے جاتے ہیں اور خواتین گاؤں میں رہتی ہیں۔ دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ انہیں فصل کی دیکھ بھال اور کاشت کاری بھی کرنی ہوتی ہے۔

    گاؤں کی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی *

    یونین منسٹری برائے زراعت کے جوائنٹ سیکریٹری آر بی سنہا نے اس بارے میں بتایا، ’کلائمٹ چینج کی وجہ سے قحط اور دیگر قدرتی آفات کے باعث زراعت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ مرد بہتر طور پر کمانے کے لیے شہر چلے جاتے ہیں پیچھے ان کی عورتیں رہ جاتی ہیں۔

    وہ زراعت کے بھاری بھرکم آلات استعمال نہیں کر سکتیں جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔

    india-women-2

    انہوں نے بتایا کہ کلائمٹ چینج، ملک کی آبادی میں اضافہ اور خوراک کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ معاشی میدان میں مردوں کے ساتھ کھڑی ہوسکیں۔

    کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر *

    سنہا کے مطابق بھارتی کونسل برائے زراعتی ریسرچ نے اس حوالے سے کام شروع کردیا ہے۔ وہ خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں جو نہ صرف خواتین بلکہ چھوٹے کاشتکاروں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں گے۔

    سنہا نے یہ بھی بتایا کہ حکومت ان خواتین دوست آلات پر سبسڈی بھی فراہم کرے گی۔

    قدرتی آفات میں جان بچانے والا کیپسول تیار *

    عالمی ادارہ برائے تحفظ پہاڑ آئی سی موڈ کے مطابق ہمالیائی علاقے میں لوگوں کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے اور ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ کلائمٹ چینج، آبادی میں اضافے، دیہاتوں سے شروں کی طرف ہجرت اور دیگر معاشرتی عوامل سے زراعت پر منفی اثر پڑا ہے۔