Tag: زمین

  • خلا میں اگائے گئے ٹماٹر زمین پر لائے جائیں گے

    خلا میں اگائے گئے ٹماٹر زمین پر لائے جائیں گے

    ایک طویل عرصے سے خلا میں مختلف تجربات جاری ہیں اور ایسے ہی ایک تجربے کے تحت خلا میں اگائے گئے ٹماٹر آج زمین پر لائے جارہے ہیں۔

    خلا میں اگائے گئے ٹماٹروں کو زمین پر لانے کا سفر شروع ہوگیا ہے جو آج زمین پر پہنچ جائیں گے۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلا کے اندر لیب میں بنائے گئے ٹماٹروں کو زمین پر لایا جارہا ہے۔

    ناسا کے اعلان کے مطابق خلائی جہاز سائنسی تجربات اور دیگر سامان لے کر آج زمین پر پہنچے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے گزشتہ برس انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں ٹماٹر اگانے کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔

  • زمین پر قدرتی آفات میں اضافہ، ماحول دشمن کوئلے کا استعمال بھی جاری

    زمین پر قدرتی آفات میں اضافہ، ماحول دشمن کوئلے کا استعمال بھی جاری

    دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور کلائمٹ چینج کی وجہ سے ایسے ایسے خطرات اور آفات سامنے آرہے ہیں جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے۔

    مختلف ممالک کی جانب سے وعدوں کے باوجود کوئلے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جو زمین کا درجہ حرارت بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    گزشتہ سال 2022 میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی پیداوار میں 19.5 گیگا واٹس کا اضافہ ہوا ہے جو 1 کروڑ 50 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔

    توانائی کے منصوبوں پر نظر رکھنے والی تنظیم گلوبل انرجی مانیٹر کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کوئلے کے استعمال میں ایک فیصد اضافہ ایسے وقت پر دیکھا گیا ہے جب موسماتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے اہداف کی غرض سے کوئلے کے بجلی گھروں کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔

    سال 2021 میں دنیا بھر کے ممالک نے کوئلے کے استعمال میں کمی کا وعدہ کیا تھا تاکہ زمین کے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود کیا جا سکے۔

    رپورٹ کی مصنف فلورا چیمپینوئس کا کہنا ہے کہ جتنی زیادہ تعداد میں نئے کوئلے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے، اتنا ہی زیادہ مستقبل کے حوالے سے وعدوں میں کمی دیکھنے میں آئے گی۔

    گزشتہ سال 14 ممالک میں کوئلے کے نئے منصوبوں کا آغاز ہوا جبکہ صرف 8 ممالک نے اعلان کیا تھا، چین، انڈیا، انڈونیشیا، ترکیہ اور زمبابوے نے نہ صرف کوئلے کے نئے پلانٹس شروع کیے بلکہ مزید منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔

    کوئلے کے تمام نئے منصوبوں میں سے سب سے زیادہ شرح 92 فیصد چین میں شروع ہونے والے منصوبوں کی ہے۔

    چین نے کوئلے کا استعمال بڑھاتے ہوئے گرڈ سٹیشن میں مزید 26.8 گیگا واٹس اور انڈیا نے 3.5 گیگا واٹس بجلی شامل کی ہے، چین نے نئے منصوبوں کی منظوری دی ہے جن کے ذریعے کوئلے کا استعمال کرتے ہوئے 100 گیگا واٹس بجلی پیدا کی جائے گی۔

    دوسری جانب امریکہ نے بڑی تعداد میں کوئلے کے بجلی گھر بند کیے ہیں جو 13.5 گیگا واٹس بجلی پیدا کرتے تھے، امریکا ان 17 ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے گزشتہ سال کوئلے کے پلاٹس بند کیے۔

    دنیا بھر میں کوئلے کے 2500 پلانٹس موجود ہیں جبکہ عالمی سطح پر توانائی کی تنصیبات میں سے ایک تہائی کوئلے کے ذریعے چلتی ہیں۔

    پیرس معاہدہ 2015 کے اہداف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام امیر ممالک 2030 تک کوئلے کے پلانٹ بند کر دیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کو 2040 تک کا وقت دیا گیا ہے۔

  • ارتھ آور: روشنی کے طوفان سے زمین کی چندھیائی آنکھوں کو آرام دینے کا وقت

    ارتھ آور: روشنی کے طوفان سے زمین کی چندھیائی آنکھوں کو آرام دینے کا وقت

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا جس کے دوران شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 کے درمیان تمام غیر ضروری روشنیاں گل کردی جائیں گی۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاؤس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے، دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    ان سب نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے سال میں ایک بار ایک گھنٹے کے لیے غیر ضروری روشنیاں گل کر کے روشنیوں کے بوجھ کو علامتی طور پر کم کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا کر زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

  • ایک ہزار سال بعد چاند آج رات پھر سے۔۔

    ایک ہزار سال بعد چاند آج رات پھر سے۔۔

    آج رات چاند زمین کے قریب ترین آئے گا اور یہ نظارہ ایک ہزار سال بعد رونما ہورہا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 992 سال بعد پہلی بار 21 جنوری 2023 کو (یعنی آج) نیا چاند زمین کے قریب ترین آئے گا، 21 جنوری کو نیا چاند زمین سے 2 لاکھ 21 ہزار 561 میل دور ہوگا اور ایسا آخری بار 3 دسمبر 1030 کو ہوا تھا۔

    زمین سے چاند کی سب سے زیادہ دوری 4 جنوری 2023 کو ہی دیکھنے میں آئی تھی جب زمین سورج کے قریب تھی۔

    رپورٹ کے مطابق آئندہ نیا چاند 20 جنوری سنہ 2368 کو زمین کے اتنے قریب آئے گا، ماہرین کے مطابق لگ بھگ ایک ہزار سال بعد نیا چاند زمین کے قریب ترین آرہا ہے مگر وہ ہمیں نظر نہیں آسکے گا۔

    البتہ 22 جنوری کو آپ آسمان پر زہرہ اور زحل کو ضرور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے (دوربین سے) دیکھ سکتے ہیں۔

    نئے چاند کے ساتھ نئے چینی سال کا آغاز بھی ہوگا اور یہ خرگوش کا سال ہے۔

  • 40 سال تک خلا میں رہنے والا سیٹلائٹ زمین پر گر پڑا

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایک سیٹلائٹ تقریباً 40 سال تک زمین کے گرد چکر لگانے کے بعد الاسکا کے ساحل کے قریب بغیر کسی نقصان کے گر گیا۔

    ارتھ ریڈی ایشن بجٹ سیٹلائٹ (ای آر بی ایس) نامی سیٹلائٹ کو 1984 میں خلا میں بھیجا گیا تھا جو اتوار کی رات گئے الاسکا سے چند سو میل دور بیرنگ سمندر کے اوپر سے گزرا، سیٹلائٹ کے گرنے والے ملبے سے کسی قسم کے نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

    ناسا کے مطابق سیٹلائٹ کے کام کا متوقع دورانیہ 2 سال کا تھا تاہم اس کے بعد بھی اس کو متحرک رکھا گیا اور وہ سنہ 2005 تک اوزون اور ماحولیات کے حوالے سے مختلف معلومات ادارے تک پہنچاتا رہا۔

    سیٹلائٹ جائزہ لیتا رہا کہ زمین سورج سے کیسے توانائی جذب کرتی ہے۔

    امریکا کی پہلی خاتون خلا باز سیلی رائیڈ نے روبوٹ آرم کا استعمال کرتے ہوئے اس سیٹلائٹ کو مدار میں چھوڑا تھا۔

    اس مشن میں امریکی کی پہلی سپیس واک بھی شامل تھی جو پہلی بار کیتھرین سلیون نے کی تھی، یہ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ 2 خلا نورد خواتین ایک ساتھ خلا میں گئی تھیں۔

  • سرجانی ٹاؤن میں کے ڈی اے کی زمین پر بڑے پیمانے پر قبضے کا انکشاف

    کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں کے ڈی اےکی زمین پر بڑے پیمانے پر قبضےکا انکشاف ہوا ہے۔

    ایڈیشنل ڈائریکٹر لینڈ سرجانی ٹاؤن نے اعلیٰ حکام کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اربوں روپے کے 14 پلاٹوں پر غیرقانونی تعمیرات جاری ہیں۔

    کے ڈی اے حکام نے کہا کہ سرکاری زمین رفاعی مقاصد کے لئے وقف کی گئی تھی،  زمین پر اسکول، کالج، بس ٹرمینل، اسپتال اور پولیس اسٹیشن تعمیر ہونا تھے۔

    حکام نے کہا کہ چودہ پلاٹ ایک لاکھ گز سے زائد زمین پر موجود ہیں جن پر قبضہ ہورہا ہے، پیرکےروزسرجانی ٹاؤن سیکٹر 6 اور اطراف میں آپریشن کیا گیا تھا، جب کے ڈی اے نے زمین کا درجہ معلوم کیا تو قبضے کا انکشاف ہوا۔

    پراجیکٹ ڈائریکٹر سرجانی ٹاؤن محمد شہزاد نے بتایا کہ آپریشن میں مشکلات کے باوجود آپریشن جاری رہے گا۔

    پروجیکٹ ڈائریکٹر سرجانی کا مزید کہنا تھا کہ اخباروں میں اشتہارات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کردیا ہے،  سرجانی میں کے ڈی اے کے آلاٹمنٹ شدہ پلاٹوں پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔

  • زمین ڈاٹ کام کا دبئی میں پاکستان پراپرٹی شو کا چوتھا کامیاب ایڈیشن، سرمایہ کاروں کی کثیر تعداد میں شرکت

    زمین ڈاٹ کام کا دبئی میں پاکستان پراپرٹی شو کا چوتھا کامیاب ایڈیشن، سرمایہ کاروں کی کثیر تعداد میں شرکت

    دبئی: پاکستان کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ ادارے زمین ڈاٹ کام کی جانب سے ورلڈ ٹرید سینٹر دبئی میں چوتھے پاکستان پراپرٹی شو کا کامیاب انعقاد۔ یہ دو روزہ ایونٹ خلیجی خطوں میں مقیم  بیرون ملک پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کومتوجہ کرنے میں کامیاب رہا ۔ شرکا کی جانب سےنمائش کے لیے پیش کیے گئے رئیل اسٹیٹ منصوبوں میں گہری دلچسپی کا اظہارکیا گیا ۔

    دو روزہ تقریب میں پاکستان سے 60 سے زائد ناموربلڈرز اور ڈویلپرزنے اپنے اپنے پراجیکٹس نمائش کے لیے پیش کئے،زمین ڈاٹ کام کے پراجیکٹس سمیت مجموعی طور پر 200 سے زائد  پراپرٹی منصوبوں کی نمائش کی گئ۔

    زمین ڈاٹ کام  کے زیراہتمام پاکستان پراپرٹی شو میں ریکارڈ 20,000 افراد نے شرکت کی۔ سالانہ ایونٹ کا ہدف خلیجی خطے میں  بسے تقریباً 40 لاکھ سمندرپارپاکستانیوں کوپاکستان کے بڑے شہروں میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنا تھا

    تقریب میں اہم شخصیات شریک ہوئیں جن میں دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل سلطان بٹی بن مجرن، اور پاکستان کے نامور صحافی شامل تھے۔ زمین ڈاٹ کام کے سی۔ای۔او ذیشان علی خان،کنٹری ہیڈ احمد بھٹی سیمت زمین کی سینئر مینیجمنٹ کے ممبران بھی اس موقع پرموجود تھے۔

    دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل سلطان بٹی بن مجرن نے زمیں ڈاٹ کام کی اس کاوش کو سراہا اوراس پراپرٹی شو کو ایک شاندار اقدام  قرار دیا۔  انہوں نے کہا کہ پاکستان پراپرٹی شو کا افتتاح کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے اور انہیں اس تقریب کا حصہ بننے پر فخر ہے، وہ مستقبل میں بھی زمین ڈاٹ کام کی جانب سے اسی طرح کے اقدامات کے منتظر رہیں گے۔

    پراپرٹی شو کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے، زمین ڈاٹ کام کے سی ای او ذیشان علی خان نے کہا "ایک مرتبہ پھر، دبئی میں پاکستان پراپرٹی شوکا انقعاد ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ 20,000 سے زائد شرکاء پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے صحیح مواقع تلاش کرنے میں بھرپور دلچسپی رکھتے ہیں۔ دبئی میں ہم 60 سے زائد نمائش کنندگان کو لائے ہیں جو اس وقت پاکستانی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے شاندار مواقع فراہم  کر رہے ہیں ۔

    دو روزہ پروگرام کے دوران  ‘پاکستان میں رئیل اسٹیٹ بہترین سرمایہ کاری کیوں ہے’ کے عنوان سےایک اہم پینل سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس کو معروف ٹی وی اینکرز سید شفاعت علی اور شفاء یوسفزئی نے ماڈریٹ کیا۔ پینل میں شرکاء اور آن لائن ناظرین کو پراپرٹی سیکٹر کی موجودہ حالت اور اس کے مستقبل کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں ۔ پینل میں میڈیا کی ممتاز شخصیات وسیم بادامی، محمد مالک اور زمین ڈاٹ کام کے سی ای او ذیشان علی خان بھی شامل تھے

    پراپرٹی شو پاکستان پراپرٹی سیکٹر میں سستی اور قابل اعتماد سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ اس ایونٹ نے لوگوں کو رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں جاننے اور پاکستان کے رئیل اسٹیٹ پراجیکٹس تک رسائی حاصل کرنےکا موقع بھی فراہم کیا۔

     

  • ’بیمار‘ سمندر ہمیں صحت مند کیسے رکھ سکیں گے؟

    ’بیمار‘ سمندر ہمیں صحت مند کیسے رکھ سکیں گے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، زمین کے 70 فیصد حصے پر ہونے کی وجہ سے ہمارے سمندر، جنگلات سے کہیں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی، پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین پر پیدا ہونے والی کاربن کو جنگلات سے زیادہ سمندر جذب کرتے ہیں کیونکہ یہ تعداد اور مقدار میں جنگلات سے کیں زیادہ ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 1994 سے 2007 کے دوران سمندروں نے 34 گیگا ٹن کاربن جذب کیا۔

    سنہ 2016 میں پیش کی گئی دہائیوں کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو بیمار بنا رہا ہے جس سے سمندری جاندار اور سمندر کے قریب رہنے والے انسان بھی بیمار ہو رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ سمندر ہماری کائنات کی طویل المعری اور پائیداری کا سبب ہیں، سمندروں کو پہنچنے والے نقصان سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے خطرات میں کمی کرنا اور آلودگی کم کرنے سے ہی ہم اپنے سمندروں کو بچا سکیں گے۔

  • سنہ 2025 تک ڈائنو سار واپس آجائیں گے؟

    سنہ 2025 تک ڈائنو سار واپس آجائیں گے؟

    ڈائنو سارز کا زمین پر ہونا خاصا خوفناک خیال ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائنو سار زمین پر واپس بھی آسکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جراسک پارک سے متاثر سائنس دان کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں 2025 تک دنیا میں ڈائنو سار کی واپسی ممکن ہے۔

    سال 1993 کی مشہورِ زمانہ فلم جراسک پارک اب تک کی سب سے مشہور فلموں میں سے ایک ہے، جس کی کہانی کروڑوں سال پہلے ختم ہونے والے ڈائنو سار کی دوبارہ تخلیق پر مبنی ہے۔

    فلم میں ایک ماہر حیاتیات وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر تقریباً مکمل تھیم پارک کا دورہ کرتا ہے جہاں اسے کچھ بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، لیکن بجلی کی خرابی کے باعث پارک کے کلون شدہ ڈائنو سار چھوٹ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ انتہائی تباہ کن نکلتا ہے۔

    اس سلسلے کی پانچ بلاک بسٹرز کے بعد چھٹی اور آخری قسط جراسک ورلڈ ڈومینین 10 جون کو ریلیز ہونے والی ہے۔

    ایک ماہر حیاتیات جن سے جراسک ورلڈ کے ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ نے مشورہ کیا اور فرنچائز کے تکنیکی مشیر کے طور پر خدمات حاصل کیں، کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر یہ کہانیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔

    سال 2015 میں ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹر جیک ہورنر نے ان معدوم ہوچکی مخلوقات کی ممکنہ واپسی کے بارے میں تبصرے کیے۔

    ہارنر کے کام نے ڈاکٹر ایلن گرانٹ کو ہٹ فلم سیریز بنانے کے لیے متاثر کیا، اب انہوں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی 2025 تک ڈائنو سار کو وجود میں لانے کے قابل ہو سکتی ہے۔

    ایسا کرنے کے لیے، انہوں نے مرغیوں (ڈائنوسارز کے زندہ آباؤ اجداد) میں جینیاتی تبدیلیاں کر کے ان کی آبائی خصلتوں کو دوبارہ فعال کرنے کا منصوبہ بنایا۔

    دوسرے لفظوں میں کہیں تو، انہیں اتنا ہی خوفناک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسا کہ جراسک پارک میں ڈائنو سار دکھائے گئے ہیں۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ بلاشبہ یہ پرندے ڈائنو سار ہیں، لہٰذا ہمیں صرف انہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کچھ زیادہ ہی ڈائنوسار کی طرح نظر آئیں۔ ڈائنوسار کی دم، بازو اور ہاتھ تھے، اور ارتقا کے ذریعے وہ اپنی دم کھو چکے ہیں، اور ان کے بازو اور ہاتھ پروں میں بدل گئے ہیں۔

    ہارنر نے مزید کہا کہ دراصل، پروں اور ہاتھ کو دوبارہ بنانا اتنا مشکل نہیں ہے، چکنو سارس حقیقت کا روپ دھارنے کے راستے پر ہے۔ دراصل دم دوبارہ تخلیق کرنا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ لیکن دوسری طرف، ہم حال ہی میں کچھ چیزیں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس نے ہمیں امید دلائی ہے کہ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ پرندے زندہ ڈائنو سار ہیں۔

  • 23 سو ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت رکھنے والی چٹان

    23 سو ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت رکھنے والی چٹان

    سنہ 2011 میں دریافت ہونے والی ایک چٹان کے گرم ترین چٹان ہونے کی تصدیق کردی گئی جس کا درجہ حرارت 2370 ڈگری سیلسیئس تھا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے 11 سال قبل دریافت ہونے والی چٹان کے گرم ترین چٹان ہونے کی تصدیق کر دی۔

    اس چٹان کو 2011 میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے ایک طالب علم نے دریافت کیا تھا، ورسٹرن یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے سامنے آنے والے نئے نتائج میں چٹان کے حوالے سے غیر یقینی معلومات کو یقینی قرار دیا گیا۔

    11 سال قبل ملنے والی اس چٹان کے اوپر ہونے والے حالیہ مطالعے میں چار مزید زکرون کے دانے ملے، یہ سخت منرل ہیرے کے متبادل کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے چٹان کے 2370 ڈگری سیلسیئس کے گزشتہ ریکارڈ بلند درجہ حرارت کی تصدیق کی۔

    جرنل ارتھ اینڈ پلینیٹیری سائنس لیٹرز میں شائع ہونے والے اس مطالعے کی سربراہی ارتھ سائنسز کے پوسٹ ڈاکٹریٹ طالب علم گیون ٹولو میٹی اور شریک مصنفین نے کی جن میں ناسا جانسن اسپیس سینٹر کے ٹمنس ایرکسن، شعبہ ارضیاتی علوم کے گورڈن اوسنسکی اور کیتھرین نیش اور تھرمو مکینیکل میٹلرجی کی لیبارٹری کے کییون سائرل شامل تھے۔

    سنہ 2011 میں اس وقت کے پی ایچ ڈی کے طالب علم مائیکل زینیٹی اوسنسکی کے ساتھ مسٹیسٹن جھیل کے گڑھے پر کام کر رہے تھے جہاں انہیں شیشے کی چٹان ملی جس کے اندر چھوٹے زکرون کے دانے جمے ہوئے تھے۔

    اس چٹان کا بعد میں تجزیہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ یہ چٹان ایک سیارچے کی ٹکر کے نتیجے میں 2370 ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت پر وجود میں آئی۔

    تجزیے کے نتائچ ایک مطالعے کی صورت میں سنہ 2017 میں شائع کیے گئے تھے۔