Tag: زمین

  • زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    ماہرین فلکیات اور یورپی اسپیس ایجنسی کی دفاعی کمیٹی برائے سیارہ نے حال ہی میں زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کی ٹکر سے چند گھنٹے قبل نشان دہی کی۔

    یہ سیارچہ بحر منجمد میں نارویجیئن جزیرے جین ماین کے 40 کلو میٹر جنوب میں گرا، جس کی وجہ سے 2 سے 3 ہزار ٹن ٹی این ٹی پھٹنے کے برابر دھماکا ہوا۔

    2022 EB5 نام پانے والا یہ سیارچہ پہلی خلائی چٹان ہے جس کا یورپ سے خلا میں زمین سے ٹکرانے سے قبل مشاہدہ کیا گیا، اور اب تک کی پانچویں خلائی چٹان ہے جو زمین سے ٹکرانے سے قبل خلا میں مشاہدے میں آئی ہے۔

    یورپی خلائی ایجنسی کے نیئر ارتھ آبجیکٹس کوآرڈینیشن سینٹر کی نیوز ریلیز کے مطابق ہنگری کے ماہرِ فلکیات کرسٹرین سارنیکزکی نے زمین کے گرد گھومتی اس تیز رفتار چیز کو دریافت کیا۔

    ابتدائی اندازوں کے مطابق اس چٹان کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات ایک فیصد سے بھی کم تھے۔

    لیکن گرینج معیارِ وقت کے مطابق رات 8 بج کر 25 منٹ پر یورپی خلائی ایجنسی کے میرکٹ ایسٹیرائڈ امپیکٹ وارننگ سسٹم نے ایک انتباہ جاری کیا جس کے مطابق اس خلائی چٹان کے زمین ٹکرانے کے 100 فیصد امکانات ہیں اور وہ رات 9 بج کر 21 منٹ سے 9 بج کر 25 منٹ کے درمیان آئس لینڈ کے شمال میں چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ہزار کلومیٹر کے مربع میں گرے گی۔

    ماہرینِ فلکیات نے اس شے کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی جو زمین سے 50 ہزار کلو میٹر کے فاصلے کے اندر تھی لیکن کوئی بھی اس شعلے کی تصویر یا ویڈیو نہیں بنا پایا۔

  • زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    سنہ 2020 میں دریافت ہونے والے بلیک ہول کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق زمین کے سب سے قریب ترین بلیک ہول سسٹم میں، جس کا فاصلہ زمین سے 1 ہزار نوری سال ہے، میں دراصل کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    سنہ 2020 میں جب یہ دریافت ہوا تھا تو HR 6819 سسٹم کی غیر معمولی دریافت کے متعلق دو خیالات پیش کیے گئے تھے، ایک کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے ساتھ تھا اور دوسرے کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے بغیر تھا۔

    1 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود بلیک ہول کے خیال کو پیش کیا گیا تو اس نے شہ سرخیوں میں خوب جگہ بنائی، جبکہ دوسرے خیال کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔

    تاہم، بیلجیئم کے محقیقن نے ایک نئی تحقیق میں سسٹم کی نئی پیمائشیں لیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کس خیال کے سچ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    انہوں نے یورپی سدرن آبزرویٹری ویری لارج ٹیلی اسکوپ اور وی ایل ٹی انٹرفیرومیٹر کا رخ اس اسٹار سسٹم کی جانب کیا۔ کیوں کہ اس آلے میں ایسی صلاحیت تھی کہ ایسا ڈیٹا فراہم کر سکے جو دونوں خیالات کے مابین فرق بتا دے۔

    تمام شواہد نے ایک ویمپائر اسٹار سسٹم کی جانب اشارہ کیا، جس میں 2 ستارے ایک بہت قریبی مدار میں دیکھے گئے ہیں اور ایک ستارہ دوسرے سے مٹیریل کھینچ رہا ہے۔

    سسٹم میں کسی فاصلے پر گردش ستارے کے شواہد نہیں تھے جو بلیک ہول تھیوری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

  • زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر ڈائنوسار سے بھی کروڑوں سال قدیم چاند جیسا گڑھا دریافت ہوا ہے، جس نے ارضیاتی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔

    امریکی ریاست ویومنگ کا مطالعہ کرنے والے ماہرینِ ارضیات نے شہابِ ثاقب کے نتیجے میں پڑنے والا ایسا گڑھا دریافت کیا ہے جس کو اس سے قبل زمین پر کبھی نہیں دیکھا گیا۔

    یہ گڑھا ڈائنو سار کی موجودگی سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آیا، اور اسے شہابی پتھر کا گڑھا کہا جا رہا ہے، جو کسی شہابی پتھر کے گرنے کے نتیجے میں بنا ہے۔

    اس سلسلے میں جیولوجیکل سوسائٹی آف امریکا بلیٹن نامی جریدے میں ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جرمن اور امریکی سائنس دانوں کی ٹیم نے ثانوی اثرات کے گڑھوں کا ایک میدان دریافت کیا ہے، جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ میدان تقریباً 280 ملین سال پہلے ایک بڑے اور اصل شہابی پتھر کے گرنے کے بعد اس سے نکلنے والے مواد کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ثانوی گڑھے نظام شمسی کے چٹانی اجسام میں عام ملتے ہیں، یہ وہ سیارے ہیں جہاں یا تو ماحول ہے ہی نہیں یا پھر وہاں باریک ماحول ہے یعنی ٹھنڈا ماحول جہاں زندگی نہیں پنپ سکتی، جیسا چاند اور مریخ۔ تاہم یہ ثانوی گڑھے (Secondary craters) زمین یا وینس جیسے دبیز ماحول والے (یعنی جو گرم سیارے ہیں) اجسام میں نایاب ہیں۔

    محققین نے مقالے میں لکھا کہ یہاں پہلی بار اس بات کا ثبوت پیش کیا جا رہا ہے کہ زمین پر سیکنڈری کریٹرنگ ممکن ہے، محققین نے 10 سے 70 میٹر قطر کے 31 گڑھوں کی باقاعدہ نشان دہی کر دی ہے، جس کو وہ ویومنگ امپیکٹ کریٹر فیلڈ کہتے ہیں، جنوب مغربی ویومنگ میں اس کا رقبہ 40 بائی 90 کلومیٹر ہے، جو کیسپر، ڈگلس اور لارامی کے شہروں کے قریب ہے۔

    انھوں نے 60 ممکنہ دیگر گڑھوں کی بھی نشان دہی کی ہے، تاہم ان کی تصدیق کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اب تک زمین پر شہابِ ثاقب کی وجہ سے بننے والے صرف 208 گڑھے دریافت ہوئے ہیں۔

  • زلزلوں کا سبب زمین کی حرکت نہیں، چاند کی کشش ہے: نئی تحقیق

    زلزلوں کا سبب زمین کی حرکت نہیں، چاند کی کشش ہے: نئی تحقیق

    اب تک سمجھا جاتا رہا تھا کہ زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹس جن کی حرکت زلزلوں کا سبب بنتی ہے، زمین کی حرکت کی وجہ سے ہلتی ہیں، تاہم اب اس حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹس کا سخت خول ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے اور زمین اور اس کے اوپر بسنے والی زندگی کو متعدد طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔

    یہ بڑی پلیٹیں شاید آہستہ حرکت کرتی ہیں لیکن یہ زمین کے منظر پر منفرد چیزوں کی تخلیق کا سبب ہوتی ہیں جیسے کہ پہاڑ، کھائیاں، انفرادی جزیرے، آرکیپیلیگو (سمندر میں جزیروں کا سلسلہ) اور سمندری خندقیں۔ یہ سب برِ اعظموں کے پیمانے پر ہوتا ہے۔

    تاہم، زلزلے، آتش فشاں اور سونامی بھی زمین کے مرکز کی بیرونی چٹانی پرت، جس کو لیتھو سفیئر کہتے ہیں، کی مستقل حرکت کے نتیجے میں آتے ہیں۔

    ٹیکٹونک پلیٹ فی سال اوسطاً 40 ملی میٹر حرکت کرتی ہے، یہ رفتار ناخن بڑھنے کی رفتار کے برابر ہی ہے۔

    جنوبی امریکا کی مغرب میں نازکا پلیٹ سب سے تیزی سے یعنی 160 ملی میٹر فی سال کی رفتار سے حرکت کرتی ہے، یہ رفتار بال کے بڑھنے کی رفتارکے قریب ہے۔

    پلیٹوں کی حرکت کے متعلق اتفاق رائے کے مطابق زمین کے مرکز میں موجود بڑے پیمانے پر گرم توانائی پلیٹوں کا حرکت کا سبب ہوتی ہے۔

    لیکن سینٹ لوئس میں موجود واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی نئی تحقیق کے مطابق زمین کے اندر اتنی توانائی موجود نہیں کہ وہ ٹیکٹونک پلیٹوں کو ہلا سکیں، اس کے بجائے زمین، چاند اور سورج کے درمیان غیر متوازی کششِ ثقل ایک ساتھ پورے مرکز کی گردش کا سبب بنتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ زمین کی پلیٹیں شاید اس لیے ہلتی ہوں کہ سورج چاند پر طاقتور کششِ ثقل کا کھنچاؤ ڈالتا ہو جو زمین کے گرد چاند کے مدار کو طویل کرتا ہو۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ بیری سینٹر کی پوزیشن زمین کی سطح سے قریب ہوئی ہے، بیری سینٹر زمین اور چاند کے سینٹر آف ماس کو کہا جاتا ہے۔ یہ اب زمین کے مرکز کی نسبت 600 کلو میٹر فی ماہ آگے پیچھے حرکت کرتا ہے۔

    زمین کے گردش جاری رکھنے پر یہ عمل اندرونی دباؤ کو بھی بڑھاتا ہے۔

  • ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھتا چلا آ رہا ہے، یہ سیارچہ فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے، اور ناسا کی جانب سے اسے زمین کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ آسمان سے ایک دیوہیکل آفت تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ آفت 4660 Nereus نامی سیارچہ ہے جو فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارچے کے رواں ہفتے کے آخر تک زمین کے بہت قریب پہنچنے کا امکان ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق یہ سیارچہ 11 دسمبر کو زمین کے مدار سے گزرے گا، اس سیارچے کا قطر 330 میٹر سے زیادہ ہے، اور یہ تقریباً 3.9 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے زمین کے پاس سے گزرے گا۔

    اگرچہ اس سے ہماری زمین کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، اور 4660 نیریوس کی مطلق شدت 18.4 ہے، تاہم ناسا نے 22 سے کم شدت کے سیارچے کو ممکنہ طور پر خطرناک قرار دیا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ سیارچہ پہلی بار 1982 میں دریافت ہوا تھا، اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زمین کے قریب سے گزرتا ہے، سورج کے گرد اس کا 1.82 سالہ مدار اسے تقریباً ہر 10 سال بعد ہمارے قریب لاتا ہے۔

    تاہم خلائی سائنس کے نقطہ نظر سے اس کا ’قریب‘ ہونا بھی ایک محفوظ فاصلہ ہے، 1982 سے ناسا اور جاپانی خلائی ایجنسی JAXA اس سیارچے کی نگرانی کر رہے ہیں، چاند زمین سے جتنا دور ہے یہ سیارچہ اس سے دس گنا زیادہ دوری پر چکر کاٹ رہا ہے۔

  • کراچی ایئرپورٹ کو دی گئی زمین 25 سال سے بیکار

    کراچی ایئرپورٹ کو دی گئی زمین 25 سال سے بیکار

    اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ 25 سال سے کراچی ایئرپورٹ پر کچن کی زمین لیز پر دی گئی ہے جو تاحال بیکار پڑی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین رانا تنویر حسین کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں انکشاف ہوا کہ سنہ 1994 سے کراچی ایئرپورٹ پر کچن کی زمین لیز پر دی گئی ہے لیکن تاحال کچن تعمیر نہ ہوسکا۔

    آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ فلائٹ کچن نہ بننے سے 25 سال میں 318 ملین روپے کا نقصان ہوا، چیئرمین رانا تنویر نے دریافت کیا کہ اتنے برسوں سے یہ نقصان مسلسل کیوں ہوتا رہا؟ میری یا آپ کی زمین ہوتی تو کیا اسی طرح 25 سال خالی پڑی رہتی ۔ ہم سب نے مل کر اداروں کا بیڑا غرق کیا ہے۔

    رانا تنویر نے کہا کہ کیوں نہ تمام سابق ڈی جیز سے اس رقم کی ریکوری کی جائے۔ سیکریٹری سول ایوی ایشن نے مطالبہ کیا کہ ایک بار تفصیلی رپورٹ لے لی جائے، تفصیلی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کردی جائے گی اس کے بعد پی اے سی فیصلہ لے۔

    چیئرمین نے پوچھا کہ اس دوران کون کون ڈی جیز رہے جس پر انہیں بتایا گیا کہ متعدد ڈی جیز ان 25 سال میں رہے۔

    رکن کمیٹی مشاہد حسین نے کہا کہ یہ نالائقی تھی یا غفلت کہ اتنے سال میں کسی نے دیکھا تک نہیں، جس پر ایک اور رکن منزہ حسن نے کہا کہ مشاہد حسین کے سوال کا بڑا آسان جواب ہے، جہاز اڑانا اور بات ہے انتظامی صلاحیت ہونا اور بات ہے۔

    سیکریٹری سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ اور فلائٹ آپریشن الگ الگ کرنے جا رہے ہیں۔

    چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس زمین پر کچن نہ بننے کی رقم کے نقصان کا تخمینہ کون لگائے گا جس پر سیکریٹری نے کہا کہ اس کا تخمینہ اسٹیٹ بینک لگائے گا۔

  • زرعی زمین میں اچانک سینکڑوں فٹ چوڑا گڑھا نمودار

    زرعی زمین میں اچانک سینکڑوں فٹ چوڑا گڑھا نمودار

    شمالی امریکی ملک میکسیکو میں ایک گاؤں میں اچانک زمین میں ایک گہرا گڑھا بن گیا جو چند روز میں پھیلتے پھیلتے 300 فٹ تک پھیل گیا۔

    میکسیکو کے علاقے سانٹا ماریا زکاٹیپیک میں یہ سنک ہول چند روز قبل نمودار ہوا تھا اور اس وقت اس کی چوڑائی صرف 15 فٹ تھی، لیکن صرف ایک رات میں یہ مزید 100 فٹ تک پھیل گیا۔

    اس کے بعد دن بدن اس کی چوڑائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب تک یہ 300 فٹ چوڑا اور 60 فٹ گہرا ہوچکا ہے، گڑھے کے اندر پانی بھرا ہوا ہے۔

    اب تک یہ گڑھا سینکڑوں میٹر زرعی زمین نگل چکا ہے، زرعی زمین کے کنارے پر ایک گھر موجود ہے اور اب خدشہ ہے کہ یہ گھر بھی گڑھے کی نذر ہوجائے گا۔

    گھر کے مالکان کا کہنا ہے کہ واقعے کے روز انہیں ایک زوردار گڑگڑاہٹ سنائی دی جس کے بعد وہ خوفزدہ ہو کر باہر نکلے، شروع میں گڑھے کی چوڑائی کم تھی لیکن اگلے روز تک یہ کئی گنا پھیل چکا تھا جس کے بعد انہیں گھر خالی کرنا پڑا۔

    مالکان پریشانی کا شکار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر گڑھا ان کا گھر بھی نگل گیا تو وہ بے گھر ہوجائیں گے، ان کا اس علاقے میں کوئی جاننے والا نہیں اور وہ بالکل اکیلے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنک ہول بننے کی وجہ ارضیاتی فالٹ ہے جبکہ زمین کے نیچے پانی کی سطح میں بھی تبدیلی ہورہی ہے۔

    حکام کے مطابق اس مقام سے دور بھی زمین چٹخ رہی ہے جس کی وجہ پانی کا دباؤ ہے اور اس وجہ سے پورا علاقہ خطرے میں ہے۔

  • زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    واشنگٹن: ناسا کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجود مجسمہ اتحاد سے بھی بڑا سیارچہ یکم جون کو زمین کے قریب سے گزرے گا، جو ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جون کو زمین سے 72 لاکھ کلو میٹر فاصلے سے ایک سیارچہ گزرے گا، ناسا کا کہنا ہے کہ اس کا سائز بھارتی شہر گجرات میں ایستادہ ولبھ بھائی پٹیل کے 182 میٹر بلند مجسمے سے بھی بڑا ہے اور اس کا سائز 186 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس سیارچے (Asteroid) کو KT1 کا نام دیا ہے، اگرچہ اس کا فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے بھی 20 گنا زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود اس کو فلکیاتی پیمانے پر ’قریب‘ سمجھا جاتا ہے۔

    66 ملین سال پہلے جب قُطر میں محض چند کلو میٹر پر مشتمل ایک سیارچہ زمین سے ٹکرایا تھا، تو اس نے ہمارے نیلے سیارے پر پودوں اور جانوروں کی تین چوتھائی نسل کا صفایا کر دیا تھا، ان میں ڈائناسارز بھی شامل تھے، اور اس سے جو دھماکا ہوا وہ کئی لاکھ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بہ یک وقت دھماکے کے برابر تھا۔

    سیارچوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ناسا کی قائم کردہ جیٹ پروپلژن لیبارٹریز کے مطابق کے ٹی وَن نامی یہ سیارچہ 31 مئی سے 2 جون کے درمیان زمین سے نہایت نزدیکی میں گزرنے والے پانچ سیارچوں میں سے ایک ہے۔

    ایک بس جتنا سیارچہ آج (اکتیس مئی) کو زمین کے قریب سے گزرے گا، اس کا فاصلہ چاند کے فاصلے کا ایک تہائی ہوگا، دیگر سیارچوں میں دو ایسے ہیں جو عام گھر جتنے ہیں، اور ایک سیارچہ ہوائی جہاز جتنا ہے، یہ سیارچے زمین سے 11 لاکھ کلو میٹر سے لے کر 59 لاکھ کلو میٹر کے درمیان فاصلوں سے گزریں گے۔

    اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ چوں کہ ان سیارچوں کا سائز چھوٹا ہے اس لیے یہ نقصان دہ نہیں ہیں، تاہم کے ٹی وَن سیارچہ سائز میں بڑا ہے، ناسا ہر اس سیارچے کو ممکنہ خطرناک قرار دیتا ہے جو 150 میٹر سے بڑا اور 75 لاکھ کلو میٹرز کے فاصلے کے اندر ہو۔

    ناسا ایسے سیاروں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ متحرک سیاروں سے آنے والی کشش ثقل کھینچاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے کوئی سیارچہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔

    مذکورہ سائز کا کوئی سیارچہ اگر زمین سے ٹکرا جائے تو اس سے ہمارے نیلے سیارے پر تباہ کن اثر پڑ سکتا ہے، خوش قسمتی سے ناسا ایسی ٹیکنالوجیز تیار کر چکا ہے جسے خلا میں بھیج کر خطرناک سیارچے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے۔

  • 40 سال میں ہماری زمین کتنی بدل چکی ہے؟

    40 سال میں ہماری زمین کتنی بدل چکی ہے؟

    امریکی خلائی ادارے ناسا اور گوگل نے کچھ ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں دہائیوں کے دوران ہماری زمین میں آنے والی تبدیلیوں کو دکھایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا اور گوگل نے اشتراک کیا ہے جس کا مقصد زمین پر موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانوں کے مرتب کردہ اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔

    گوگل ارتھ میں اب دیکھا جاسکتا ہے کہ زمین میں گزرے برسوں کے دوران کتنی تبدیلی آئی ہے، اسے گوگل نے گوگل ارتھ کی تاریخ کی سب سے بڑی اپ ڈیٹ بھی قرار دیا ہے۔

    ناسا، یو ایس جیولوجیکل سروے، ورلڈز فرسٹ سویلین ارتھ آبزرویشن پروگرام اور یورپین یونین کے سیٹلائٹس کی مدد سے 1984 سے اب تک کی 2 کروڑ تصاویر کو استعمال کرکے گوگل ارتھ میں ٹائم لیپس ویڈیوز تیار کی گئی ہیں۔

    ان ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کیسی ارضیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، یعنی جنگلات کیسے ختم ہوئے، شہر کیسے پھیلے وغیرہ وغیرہ۔

    گوگل کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ہمارے سیارے میں گزشتہ نصف صدی کے دوران بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں آئی ہیں جس کی مثال انسانی تاریخ کے کسی اور عہد میں نہیں ملتی۔

    کمپنی کے مطابق گوگل ارتھ میں ٹائم لیپس کے ذریعے ہم اپنے بدلتے سیارے کی واضح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں گے، جس سے نہ صرف مسائل بلکہ اس کے حل بھی سامنے آسکیں گے۔

    ایسی ایک ویڈیو میں برازیل کے ایمیزون جنگلات میں آنے والی تبدیلیوں کو دکھایا گیا ہے جو بہت تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔

    اسی طرح دبئی کے پھیلاؤ کی ویڈیو بھی دکھائی گئی ہے کہ کس طرح گزشتہ 37 برسوں میں یہ شہر پھیلا ہے اور صحرا نے شہر کا روپ اختیار کرلیا، جبکہ مصنوعی ساحلوں کو بنتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    قطر کے دارالحکومت دوحا میں بھی صحرا کو شہر میں بدلنے کا مسحور کن نظارہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح انسان صحرا میں پھیل گئے۔

    ایک ویڈیو میں زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کے اثرات سے انٹارکٹیکا کے ایک گلیشیئر کو پگھلتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

  • دنیا بھر میں آج شب روشنیاں کیوں بجھائی جائیں گی؟

    دنیا بھر میں آج شب روشنیاں کیوں بجھائی جائیں گی؟

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا، آج وزیر اعظم آفس میں بھی ایک گھنٹے کے لیے روشنیاں گل کردی جائیں گی۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاوس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    وزیر اعظم آفس میں بھی ارتھ آور منایا جائے گا

    ارتھ آور کی مناسبت سے آج وزیر اعظم آفس کی روشنیوں کو بھی ایک گھنٹے کے لیے گل کردیا جائے گا، وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی بہتری موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

    وزیر اعظم نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صاف اور آلودگی سے پاک ماحول کے لیے حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا کر زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔