Tag: زمین

  • کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہوئی تو کیا اس وقت زمین پر موجود تمام جاندار ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے؟ شاید ماہرین نے اب اس سوال کا جواب نفی میں دے دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں پائے جانے والے 67 لاکھ جانداروں کے ڈی این اے نمونے کشتی نوح کی طرح چاند پر محفوظ کیے جائیں گے۔

    سائنسدانوں نے اسے ماڈرن گلوبل انشورنس پالیسی قرار دیا ہے جس کے تحت تمام جانداروں کے بیج، اسپرمز اور بیضے چاند کی سطح کے نیچے ایک والٹ میں محفوظ کیے جائیں گے۔

    امریکا کی ایری زونا یونیورسٹی کے 6 سائنسدانوں نے یہ منصوبہ مارچ کے آغاز میں انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجنیئرز ایرو اسپیس کانفرنس کے دوران پیش کیا، جہاں ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے انسانوں کو معدوم ہونے سے بچانے مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کو لونر آرک کا نام دیا گیا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہو تو یہ منصوبہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کو معدوم ہونے سے بچا سکے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زمین کا ماحول قدرتی طور پر کمزور ہے، مگر چاند پر زمینی حیات کے ڈین این اے نمونوں کو محفوظ کرنے سے کسی بہت بڑے سانحے سے جانداروں کی اقسام معدوم ہونے پر بچایا جاسکے گا۔

    ویسے تو یہ خیال کسی سائنس فکشن ناول یا فلم کا لگتا ہے، مگر اسے پیش کرنے والے سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 67 لاکھ جانداروں کے اسپرم، بیضے اور بیجوں کو چاند پر محفوظ کرنا قابل عمل آپریشن ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان نمونوں کو ڈھائی سو خلائی پروازوں کے ذریعے چاند پر پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے 40 پروازوں کی ضرورت ہوگی۔

    ان نمونوں کو چاند کی سطح کے نیچے منجمد ہونے یا ایک دوسرے سے جڑنے سے بچانے کے لیے سائنسدانوں نے اس والٹ کو سولر پینلز سے پاور فراہم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منصوبوں سے انسانیت کو خلائی تہذیب بنانے میں پیشرفت ہوگی اور مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر انسانوں کے بیسز ہوں گے۔

    اس طرح کے منصوبے کے لیے چاند پر مرکز بنانا بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے چاند پر بھیجے جانے والے مشنز سے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کے لیے کھربوں ڈالرز درکار ہوں گے مگر سائنسدانوں کے خیال میں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی شراکت داری سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس منصوبے کو 10 سے 15 سال میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔

  • قبضہ چھڑائی گئی زمینیں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام میں استعمال ہوں گی

    قبضہ چھڑائی گئی زمینیں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام میں استعمال ہوں گی

    لاہور: حکومت پنجاب نے واگزار کروائی گئی اراضی کو محفوظ بنانے کے لیے زمین کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور بلین ٹری منصوبے میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت پنجاب نے واگزار شدہ اراضی کو محفوظ بنانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ ایکڑ واگزار اراضی 2 منصوبوں میں استعمال کی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اراضی کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور بلین ٹری منصوبے میں استعمال کیا جائے گا۔

    محکمہ اینٹی کرپشن حکام کے مطابق پنجاب حکومت نے ڈھائی سال میں 1 لاکھ 44 ہزار 439 ایکڑ زمین واگزار کروا لی ہے جس کی مالیت 425 ارب روپے سے زائد ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں سے 1 لاکھ 42 ہزار 470 ایکڑ اراضی واگزار کروائی گئی جبکہ شہری علاقوں سے 1 ہزار 969 ایکڑ اراضی واگزار کروائی گئی۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 10 سال میں صرف 2 ارب 60 کروڑ روپے کی سرکاری اراضی پر قبضہ واگزار کرایا گیا تھا، موجودہ حکومت نے 27 ماہ میں 181 ارب 1 کروڑ 43 لاکھ 90 ہزار روپے کی اراضی واپس لی۔

    27 ماہ میں قومی خزانے کو 200 ارب 6 کروڑ 80 لاکھ روپے کا فائدہ پہنچایا جا چکا ہے، عوام کی جانب سے موصول 6 ہزار 474 شکایات میں سے 5 ہزار 196 شکایات پر بھی کارروائی مکمل کی گئی۔

    شکایات کے نتیجے میں بھی 210 کروڑ روپے سے زائد رقم ریکور ہوچکی ہے۔

  • زمین سے زندگی کا خاتمہ؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    زمین سے زندگی کا خاتمہ؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    سائنس دان برسوں سے اس سوال کا جواب کھوج رہے ہیں کہ زمین سے زندگی کا خاتمہ کب ہوگا۔

    جاپانی اور امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایک ارب سال میں زمین پر موجود زیادہ تر زندگی کا صفایا ہو جائے گا۔

    ماہرین نے ایک تحقیقاتی مطالعے میں پیش گوئی کی ہے کہ ایک ارب سال کے عرصے میں ماحولیاتی آکسیجن کی سطح میں انتہائی کمی آ جانے سے زمین کی زیادہ تر زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

    جاپان اور امریکا کے محققین نے اس سلسلے میں ایک ماڈل کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح مختلف حیاتیاتی، آب و ہوا اور ارضیاتی عمل کی روشنی میں ہمارے سیارے کی فضا بدلے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آکسیجن میں شدید کمی (Deoxygenation) دراصل سورج سے بڑھتی ہوئی توانائی کے بہاؤ کے نتیجے میں ہوگا، کیوں کہ اس سے زمین مزید روشن ہو جائے گی، اس کی سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو جائے گا اور فوٹو سنتھیسز (ضیائی تالیف) میں کمی آ جائے گی۔

    ماہرین کے مطابق تقریباً ایک ارب سال میں ڈی آکسی جنیشن ماحول کو غیر مہربان بنا دے گا اور زمین میتھین گیس سے بھرپور مرکب والی ابتدائی حالت میں لوٹ جائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ زمین کا یہ انجام اُس نام نہاد ’مرطوب گرین ہاؤس صورت حال‘ کی آمد سے بھی قبل واقع ہوگا، جس میں سیارے کے ماحول سے پانی ناقابل تلافی طور پر نکل جائے گا۔

    ماہرین نے بتایا کہ ماحولیاتی آکسیجن رہائش والے سیاروں کی مستقل حقیقت نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم دوسری دنیاؤں میں زندگی کی تلاش میں رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق 2.4 بلین سال قبل زمین کی فضا میتھین، امونیا، پانی کے بخارات اور غیر عامل گیس نیین سے بھرپور تھی، لیکن اس میں فری آکسیجن کی کمی تھی، اور پھر زمین پر آکسیجنیشن کا عظیم عمل شروع ہو گیا، جس کے دوران سمندروں میں رہنے والے سیانو بیکٹیریا نے فوٹو سنتھیسز کے ذریعے قابل ذکر مقدار میں آکسیجن پیدا کرنی شروع کر دی، اور یوں فضا میں بڑا بدلاؤ آ گیا۔

  • کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    سنہ 1967 میں نیل آرم اسٹرونگ چاند پر قدم رکھنے والا پہلا شخص تھا لیکن حال ہی میں پیش کیے گئے ایک مفروضے کے مطابق آج سے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار بھی چاند تک پہنچ چکے تھے۔

    ایک ایوارڈ یافتہ امریکی سائنس جرنلسٹ پیٹر برینن کی سنہ 2017 میں شائع شدہ کتاب دی اینڈز آف دا ورلڈ کا ایک اقتباس، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بے حد وائرل ہورہا ہے۔

    اس اقتباس میں کہا گیا ہے کہ اب سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل جب ایک شہاب ثاقب زمین سے پوری قوت سے ٹکرایا (جس نے ڈائنو سارز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا)، تو زمین میں ایک گہرا گڑھا پڑا اور یہاں سے اٹھنے والا ملبہ پوری قوت سے فضا میں اتنی دور تک گیا، کہ چاند تک پہنچ گیا۔

    کتاب میں شامل ایک جغرافیائی سائنسدان کی رائے کے مطابق اس ملبے میں ممکنہ طور پر ڈائنو سارز کے جسم کی باقیات یا ہڈیاں بھی شامل تھیں جو شہاب ثاقب کے ٹکراتے ہی جل کر بھسم ہوگئے تھے۔

    پیٹر نے لکھا ہے کہ زمین سے ٹکرانے والا یہ شہاب ثاقب زمین پر موجود بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے برابر تھا، اور یہ گولی کی رفتار سے 20 گنا زیادہ تیزی سے زمین سے ٹکرایا۔

    ماہرین کے مطابق اس شہاب ثاقب کے ٹکراؤ کے بعد زمین پر 120 میل طویل گڑھا پڑ گیا جبکہ کئی سو میل تک موجود جاندار لمحوں میں جل کر خاک ہوگئے۔

    اس تصادم سے گرد و غبار کا جو طوفان اٹھا اس نے زمین کو ڈھانپ لیا اور سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیا، جس کے نتیجے میں زمین پر طویل اور شدید موسم سرما شروع ہوگیا۔

    یہ وہی موسم سرما ہے جو زمین پر کسی بھی ممکنہ ایٹمی / جوہری جنگ کے بعد رونما ہوسکتا ہے لہٰذا اسے جوہری سرما کا نام دیا جاتا ہے۔

    اس دوران زمین پر تیزابی بارشیں بھی ہوتی رہیں اور ان تمام عوامل کے نتیجے میں زمین پر موجود 75 فیصد زندگی یا جاندار ختم ہوگئے۔

    ڈائنو سارز کی ہڈیوں کے چاند تک پہنچ جانے کے مفروضے کے کوئی سائنسی ثبوت تو نہیں تاہم اسے نہایت دلچسپی سے پڑھا جارہا ہے۔

  • امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا اور کینیڈا میں شہاب ثاقب گرنے سے ہونے والے زور دار دھماکے اور روشنی کے جھماکوں نے شہریوں کو خوفزدہ کردیا، مقامی افراد کا کہنا تھا کہ زور دار آواز کے باعث ان کے گھر ہل گئے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا کے شمال مشرقی حصوں اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے جنوبی حصے میں شہاب ثاقب گرے جن سے نہایت زور دار آواز پیدا ہوئی۔

    یہ شہاب ثاقب امریکی شہروں میری لینڈ، واشنگٹن ڈی سی، ورجینیا، پنسلوینیا اور نیویارک میں گرے۔

    مقامی افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روشنی کے چمکتے ہوئے گولے تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے گرنے سے زوردار آواز اور روشنی کا جھماکا ہوا۔

    بعد ازاں امریکی خلائی ادارے ناسا نے ان شہاب ثاقب کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر جاری کیں جس میں انہیں زمین کی حدود میں داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ناسا کے مطابق یہ سیارچوں کے ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔

    وسطی و مغربی نیویارک کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ انہیں ایک زور دار آواز سنائی دی جس سے انہیں اپنے گھر ہلتے محسوس ہوئے۔

    خیال رہے کہ شہاب ثاقب کے زمین کی حدود میں داخل ہونے کا رواں ہفتے یہ دوسرا واقعہ ہے، اس سے چند روز قبل جاپان میں بھی ایسے ہی روشن ٹکڑے زمین پر گرتے دکھائی دیے تھے جس نے مقامی لوگوں کو خوفزدہ کردیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خلا سے گرنے والے ان ٹکڑوں میں سے صرف 5 فیصد ہی زمین کی سطح تک پہنچ پاتے ہیں، ان میں موجود گیسوں کی وجہ سے زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی یہ آگ پکڑ لیتے ہیں۔

    زمین کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ تر یہ ٹکڑے سمندروں یا دریاؤں میں جا گرتے ہیں۔

  • زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا تاہم زمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ناسا نے حال ہی میں ایک سیارچے کا مشاہدہ کیا ہے جو خلا میں زمین سے براہ راست تصادم کے راستے پر ہے، 6.5 میٹر قطر کا یہ سیارچہ نومبر تک زمین کے قریب پہنچ جائے گا۔

    ناسا کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل 2 نومبر کو یہ سیارچہ زمین کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ زمین پر اس کے اثرات ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے لہٰذا یہ سیارچہ زمین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔

    اس سیارچے کو کیلی فورنیا کی رصد گاہ میں 2 سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک خطرناک جسامت کا سیارچہ زمین کے نہایت قریب آگیا تھا، ویسٹا نامی یہ سیارچہ پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا تھا جبکہ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود تھے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر تھی۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں زمین پر سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

    تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں تھا جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے، چنانچہ یہ زمین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے راستے پر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔

  • خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    واشنگٹن: زمین سے دور خلا میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) سے زمین کی ایک نہایت سحر انگیز ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے جسے دیکھ کر آپ کی سانسیں رک سکتی ہیں۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے جاری کردہ ایک خوبصورت ویڈیو میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے زمین کا سحر انگیز منظر دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں ایک خلا باز اسٹیشن سے باہر کچھ تکنیکی کاموں میں مصروف ہے جبکہ اس کے عین نیچے زمین ایک محدود دائرے میں موجود نظر آرہی ہے۔

    زمین کی فضا پر نرم روئی جیسے بادل اور کہیں نیلگوں سمندر نظر آرہا ہے، ناسا کے مطابق یہ زمین کا وہ منظر ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔

     

    View this post on Instagram

     

    The ultimate perspective of our planet, not many of us will ever experience. 🌍 By @nasa #earthfocus

    A post shared by EARTH FOCUS (@earthfocus) on

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے، یہ اسٹیشن خلا میں تحقیقی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    ناسا جلد اسے تجارتی مقاصد کے لیے بھی کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے ناسا اور معروف ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز کے درمیان ایک پروجیکٹ زیر غور ہے جس کے تحت ٹام کروز اپنی ایک فلم کی شوٹنگ خلائی اسٹیشن پر انجام دیں گے۔

  • ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، کلائمٹ ایکشن۔ کلائمٹ ایکشن کا مطلب ہے زمین پر نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی، موسمیاتی تغیرات کے نقصانات کے خلاف استعداد میں اضافے، کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات میں کمی، اور ماحولیات کے حوالے سے مؤثر حکمت عملیاں اور پالیسیاں بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا۔

    اس سال زمین کا دن منانے کے 50 برس بھی مکمل ہوگئے ہیں اور اس موقع پر گوگل نے بھی اپنا ڈوڈل اسی تھیم پر سجایا ہے۔

    گوگل ڈوڈل میں کیا پیغام چھپا ہے؟

    عالمی یوم ارض کے موقع پر گوگل آج زمین کے سب سے اہم جاندار کو یاد کر رہا ہے جو اس وقت کئی خطرات کا شکار ہے، یہ جاندار ہے شہد کی مکھی۔

    ماہرین کے مطابق خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہماری اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔

    شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے جبکہ دنیا بھر کے 85 فیصد پھول افزائش کے لیے شہد کی مکھی کے محتاج ہیں۔

    امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں۔

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں، دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    تاہم نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں، جنگلات کی آتشزدگی بھی بڑی تعداد میں مکھیوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔

    ایک اور وجہ پودوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔ یہ ادویات جہاں پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا صفایا کرتی ہیں وہیں یہ فائدہ مند اجسام جیسے ان مکھیوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری اپنی نسل کو معدومی کا خطرہ ہے۔

  • کیا ہماری زمین جامنی رنگ کی تھی؟

    کیا ہماری زمین جامنی رنگ کی تھی؟

    ہماری زمین جو اس وقت سبز نظر آتی ہے، کیا آپ کو علم ہے کہ پرانے وقتوں میں جامنی ہوا کرتی تھی؟

    اگر آپ زمین کی تصاویر دیکھیں تو آپ زمین پر ایک نیلا رنگ غالب دیکھیں گے جبکہ کہیں کہیں سبز رنگ بھی دکھائی دے گا۔ نیلا رنگ سمندر کا جبکہ سبز رنگ زمین پر اگی نباتات کا ہے۔

    تاہم سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کروڑوں سال قبل زمین میں سبز کی جگہ جامنی رنگ ہوا کرتا تھا۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کی یونیورسٹی اور اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا قیاس ہے کہ لگ بھگ 40 کروڑ سال قبل پودوں میں کلوروفل سبز کی جگہ جامنی رنگ کو منعکس کرتا تھا جس کی وجہ سے زمین کا ایک بڑا حصہ جامنی دکھائی دیتا تھا۔

    خیال رہے کہ کلوروفل وہ مادہ ہے جو پتوں کے اندر موجود ہوتا ہے اور سورج کی روشنی سے پودے کے لیے غذا بناتا ہے، اس عمل (فوٹو سینتھسس) کے دوران سبز رنگ بھی پیدا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کلوروفل سورج کی شعاعوں سے نیلا اور سرخ رنگ لے کر سبز رنگ منعکس کرتا ہے۔

    تصویر: ناسا

    اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ولیم اسپارکس کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ فوٹو سینتھسس کا عمل کلوروفل کے اندر موجود جامنی رنگ کی جھلی کے نیچے انجام پاتا ہو۔

    ان کے مطابق ممکن ہے یہ جامنی جھلی سبز رنگ کو جذب کرلیتی ہو اور کلوروفل صرف جامنی رنگ کو منعکس کرسکتا ہو۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فوٹو سینتھسس کے دوران جامنی رنگ پیدا کرنے کا عمل، سبز رنگ پیدا کرنے کے مقابلے میں نسبتاً کم پیچیدہ ہے اور اس کے لیے کم آکسیجن درکار ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کا جامنی ہونا صرف ایک مفروضہ بھی ہوسکتا ہے تاہم یہ مفروضہ زمین کے قدیم ادوار کے بارے میں اب تک کی تحقیقوں سے مماثلت رکھتا ہے۔

  • شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    خلا میں ایک چھوٹا سا شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور سائنسدانوں کے مطابق وہ یا تو زمین کے قریب سے گزر جائے گا، یا اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا زمین کے قریب سے گزرنے والے اجسام کا مشاہدہ کرنے والا ادارہ (سی ای این او ایس) ایک شہاب ثاقب کو ٹریک کر رہا ہے جسے  2020 ای ایف کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب ممکنہ طور پر زمین کے قریب سے گزر جائے گا اور اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو وہ فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    یہ شہابیہ 10 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا قطر 98 ڈایا میٹر ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ شہابیہ زمین کے قریب سے گزر جائے گا، اور اگر زمین کے قریب آیا تب بھی اس کی جسامت اتنی چھوٹی ہے کہ یہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

    تاہم زمین پر گرنے سے قبل یہ زمین کی فضا میں پھٹ سکتا ہے اور اس سے روشنی کا اخراج ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کی فضا میں شہاب ثاقب پھٹنے کا واقعہ اس سے قبل سنہ 2013 میں روس میں پیش آیا تھا جس سے روشنی کا ایک زوردار جھماکہ پیدا ہوا تھا اور یہ سورج کی روشنی سے 30 گنا زیادہ تھا۔

    اس واقعے میں 180 افراد آنکھوں کی تکلیف اور 70 عارضی نابینا پن کا شکار ہوگئے تھے، جبکہ کھڑکیاں ٹوٹنے اور ایک فیکٹری کی چھت گر جانے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔