Tag: زمین

  • شکاری چاند کے سحر انگیز نظارے

    شکاری چاند کے سحر انگیز نظارے

    برطانیہ میں شکاری چاند نمودار ہوگیا، انوکھے چاند کے باعث آسمان پر پیدا ہونے والی سرخی نے لوگوں کو سحر زدہ کردیا۔

    برطانیہ کے کچھ حصوں میں دکھائی دیا جانے والا یہ چاند ہنٹر مون یعنی شکاری چاند کہلاتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوا اور لوگوں کو سحر زدہ چھوڑ گیا۔

    چودہویں کا یہ انوکھا چاند ہر سال اکتوبر کے اختتام پر نمودار ہوتا ہے اور ہر 4 سال بعد نومبر میں دیکھا جاتا ہے۔

    اس چاند کی یہ انفرادیت زمین سے اس کے فاصلے، سفر کے مراحل اور موسم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، یہ چاند خزاں کی آمد کا اشارہ ہے۔

    یہ چاند سال کا سب سے چھوٹا مکمل (چودہویں) کا چاند تھا کیونکہ یہ اپنے سفر کے قاعدے کے مطابق اس وقت اپنے مدار کے بالکل آخری حصے اور زمین سے سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔

    غروب آفتاب کے ساتھ جب یہ چاند طلوع ہونا شروع ہوتا ہے تو اس وقت سرخی مائل ہوتا ہے اور اس کے باعث آسمان بھی سرخ ہوجاتا ہے۔ اس چاند کو ٹریول مون بھی کہا جاتا ہے۔

    اس چاند کا نام رکھے جانے کی تاریخ ان لوک روایات پر مبنی ہے جب شکاری اور کسان شکار کی تلاش اور فصلوں کی کٹائی اس چاند کی روشنی میں کیا کرتے تھے۔

    اس چاند سے ایک روایت یہ بھی منسوب ہے کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اگلے سرد مہینوں کے لیے گوشت محفوظ کرلیا جائے۔

    طلوع اور غروب ہونے کے وقت کے علاوہ بظاہر اس چاند اور چودہویں کے دیگر چاندوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

  • زمین سے بلیاں ختم ہوگئیں، تو کیا انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا؟

    زمین سے بلیاں ختم ہوگئیں، تو کیا انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا؟

    ذرا تصور کیجیے، اگر زمین سے تمام بلیاں یک دم ختم ہوجائیں، تو کیا ہوگا؟ کیا اس سے انسانی زندگی پر کوئی فرق پڑے گا؟

    شاید آپ اس کا جواب نفی میں دیں. یہ سوچا جاسکتا ہے کہ بلیاں ختم ہونے سے دنیا پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، زندگی کا سفر یوں ہی رواں دواں رہے گا، کاروبار حیات جاری رہے گا، مگر ٹھہرے، یہ سچ نہیں.

    زمین سے بلیوں‌ کا خاتمہ انتہائی مہلک اثرات مرتب کرسکتا ہے، اس کے نتیجے میں‌ بڑی تعداد میں انسانوں کی اموات ہوسکتی ہیں، اس جانور کے ہمارے نظام زندگی سے اخراج کی صورت میں‌ قحط کا خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے.

    سیارہ زمین میں‌ ہر زندگی کسی نے کسی انداز میں‌ دوسری زندگی سے جڑی ہوئی ہے، انسان، چرند، پرند، پودے، سب ایک لڑی میں‌ پروے ہوئے ہیں.

    اس لڑی سے کسی نوع کے اخراج کی صورت میں‌ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ زندگی ختم ہوجائے گی، مگر اس پر گہرے اثرات ضرور مرتب ہوں گے.

    انسانوں کی شہری آبادیوں میں جو جانور سہولت سے جگہ بنا لیتا ہے، ان میں‌ بلیاں سر فہرست ہیں. یہ عام طور سے بارہ سے سولہ گھنٹے سوتی ہیں، باقی وقت یہ شکار میں‌ صرف کرتی ہیں.

    یہ امر حیرت انگیز ہے کہ بلیاں 32 فی صد معاملات میں اپنے شکار کو گرفت کرنے میں کامیابی رہتی ہیں، یہ تعداد ببر شیر کی کامیابی کی شرح سے زیادہ ہے.

    بلیوں کا اصل شکار چوہے ہوتے ہیں. بلیاں‌ ہر سال کروڑوں چوہوں‌ کا خاتمہ کرتی ہیں. یہ چوہوں‌ کی ہلاکتوں کا سب سے بڑا سبب ہیں.

    اگر بلیاں نہ تو ہوں، تو چوہوں کی افزائش میں اس تیزی سے اضافہ ہو کہ چند ہی برس میں ان سے جان چھڑانا مشکل ہوجائے. یہ زمین پر ہر طرف پھیل جائیں.

    چوہوں کے جسم میں ایسے کئی جراثیم ہوتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں، یہ طاعون جیسی وبا کو جنم دے سکتے ہیں، اس لیے ان کی تعداد کا ایک حد میں رکھنا ضروری ہے. اس ضمن میں بلیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں.

    چوہے غذائی اجزا کو بھی خراب کرسکتے ہیں، اگر زرعی فارمز پر بلیاں نہ پالی جائیں، تو چوہے گوداموں میں پڑے مال کو تباہ و برباد کر دیں.

    مذکورہ عوامل کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے سیارے سے بلیاں ختم ہوئیں، تو بہت جلد انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا، جس کا ایک سبب بیماریاں ہوں گی اور  دوسرا قحط.

  • ایپل کا دفتر جو خطرناک قدرتی آفات میں بھی محفوظ رہے گا

    ایپل کا دفتر جو خطرناک قدرتی آفات میں بھی محفوظ رہے گا

    معروف ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کا نیا دفتر ایپل پارک کیمپس یوں تو جدید ٹیکنالوجی سے مزین فن تعمیر کا شاہکار ہے، تاہم اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی آفات خاص طور پر زلزلے کے دوران مکمل محفوظ رہے گا۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع ایپل کا یہ دفتر 5 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے، ایپل پارک کیمپس دراصل براہ راست زمین کی سطح پر تعمیر نہیں کیا گیا، یہ عظیم عمارت اسٹین لیس اسٹیل سے بنی 700 بڑی بڑی طشتریوں (گول سطح) پر قائم ہے۔

    زلزلہ آنے کی صورت میں یہ طشتریاں بلڈنگ کو 4 فٹ اوپر اٹھا دیں گی۔ ایپل کے چیف ڈیزائن افسر جان ایو کے مطابق زلزلے سے بچاؤ کے اقدامات اس عمارت کی تعمیر کا اہم حصے تھے۔

    جان ایو کے مطابق اس طرح کی عمارت بنانے کا خیال ایپل کے بانی اسٹیو جابز کے دل میں ہمشیہ سے موجود تھا۔ وہ جاپان میں تعمیرات میں استعمال کی جانے والی ’بیس آئسولیشن‘ کی تکنیک سے بے حد متاثر تھے جو اس وقت امریکا میں عام نہیں ہوئی تھی۔

    بیس آئسولیشن کی تکنیک میں عمارت اور اس کی بنیاد کے درمیان بھاری بھرکم سہارا فراہم کیا جاتا تھا جو زلزلے کے وقت عمارت کو عارضی طور پر اوپر کر کے زمین سے علیحدہ کردیتا تھا۔

    ایپل کی نئی عمارت میں بھی اس انداز تعمیر کی جدید شکل پیش کی گئی ہے۔

    اس دفتر کا رقبہ 175 ایکڑ ہے اور یہاں ایپل کے 12 ہزار ملازمین کام کرسکتے ہیں۔ گول دائرے کی شکل میں بنے اس دفتر میں متعدد عمارتیں اور پارک موجود ہیں۔

    دفتر میں تھیٹر بھی بنایا گیا ہے جو اسٹیو جابز کے نام سے منسوب ہے، تھیٹر کے ساتھ فٹنس سینٹر، پارک، اور ورزش کے لیے دوڑنے کے ٹریک بھی موجود ہیں۔

    عمارت کی چھت سولر پینلز سے ڈھکی ہوئی ہے جس سے عمارت اپنے استعمال کی بجلی پیدا کرنے میں خود کفیل ہے۔

  • زیر زمین ٹرینوں کے لیے سرنگ کیسے تیار کی جاتی ہے؟

    زیر زمین ٹرینوں کے لیے سرنگ کیسے تیار کی جاتی ہے؟

    دنیا بھر میں زیر زمین ٹرین کے ذریعے سفر نہایت عام ہوگیا ہے، اس مقصد کے لیے طویل ٹرین لائنز بچھائی جاتی ہیں جبکہ خوبصورت اسٹیشنز بھی بنائے جاتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں ٹنوں وزنی ٹرانسپورٹ کے اس نظام کے لیے زمین کی کھدائی کیسے کی جاتی ہے اور کیسے زمین دوز سرنگ بنائی جاتی ہے؟

    زیر زمین وسیع و عریض سرنگ کھودنے کے لیے ارتھ پریشر بیلنس شیٹ نامی مشین استعمال کی جاتی ہے، اس کے اگلے سرے پر ایک طاقت ور مشین نصب ہوتی ہے جو گھومتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔

    اس پوری مشین کا قطر 40 فٹ ہوتا ہے جبکہ اس کی لمبائی 312 فٹ ہوتی ہے، یہ مشین زمین کے اندر ہر ہفتے 1 ہزار فٹ تک کھدائی کرسکتی ہے۔

    ہائیڈرولک سلنڈرز کے ذریعے کام کرنے والی اس مشین کا اگلا گھومنے والا حصہ مٹی، پتھر اور دیگر اشیا کو کاٹتے ہوئے آگے بڑھتا ہے، اس دوران یہ ہر ہفتے 9 ہزار میٹرک ٹن مٹی باہر پھینکتی ہے۔

    کھدائی ہونے کے بعد اسی مشین کے ذریعے سرنگ میں زمین پر اور دیواروں پر لوہے کا جال بچھایا جاتا ہے جس کے بعد اس پرمزید کام کیا جاتا ہے۔ زیر زمین تعمیرات کرتے ہوئے سب سے اہم کام زمین کے اندر کھدائی کرنا ہوتا ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد بقیہ کام نہایت آسانی اور تیزی سے انجام دیا جاتا ہے۔

  • کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    چاند پر قدم رکھنے کے اہم ترین سنگ میل کو 50 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ ان 50 برسوں میں دنیا خلائی میدان میں بھی کافی آگے نکل چکی ہے، چاند کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی کئی کامیاب مشنز بھیجے جا چکے ہیں۔

    جب سے چاند کا سفر انسان کی دسترس میں آیا ہے تب سے دنیا کے دولت مند افراد چاند پر جانے، وہاں کی زمین کو اپنی ملکیت قرار دینے اور وہاں پر گھر بنانے کی خواہش کر چکے ہیں۔

    یہ وہ افراد ہیں جو زمین کے تمام وسائل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور زمین کی ہر سہولت ان کے لیے قابل رسائی ہے چنانچہ اب ان کا اگلا خواب چاند پر جانا ہے۔

    ایسا ہی ایک شخص ڈینس ہوپ بھی ہے جو پہلے ہی چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرچکا ہے۔ سنہ 1980 میں ڈینس نے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھ کر چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا اور دریافت کیا کہ اگر انہیں اس پر کوئی قانونی اعتراض ہے تو وہ اسے آگاہ کریں۔

    اقوام متحدہ نے ڈینس کے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد ڈینس خود کو اس حوالے سے کلیئر سمجھتا ہے۔

    اس کے بعد اس نے لونر ایمبسی نامی ویب سائٹ بنائی جہاں اس نے چاند پر جائیداد کی خرید و فروخت کا کام شروع کردیا، اور صرف یہی نہیں دنیا بھر سے اب تک 60 لاکھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس ویب سائٹ کے ذریعے چاند پر زمین خرید چکے ہیں۔

    ڈینس کے بعد اس کا بیٹا کرس لیمار اب یہ کام کر رہا ہے۔ وہ صرف 24.99 ڈالر کے عوض چاند کا ایک ایکڑ فروخت کر رہا ہے۔

    اگر لونر ایمبسی کی اس قیمت کو مدنظر رکھا جائے تو چاند کی زمین جو 9 ارب 38 کروڑ 37 لاکھ 48 ہزار 198 ایکڑ پر مشتمل ہے، کی کل قیمت 2 کھرب 34 ارب سے زائد بنتی ہے۔

    لیکن کیا آپ واقعی چاند پر جائیداد خرید سکتے ہیں؟

    سرد جنگ کے دور میں جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان خلائی دوڑ جاری تھی، تب اقوام متحدہ نے ایک خلائی معاہدہ طے کیا۔

    اس معاہدے کے مطابق کوئی بھی فلکی جسم جیسے چاند، کسی سیارے یا کسی شہاب ثاقب پر، کوئی بھی قوم حاکمیت، اپنے استعمال یا اس پر اپنے تصرف کے باعث وہاں اپنی ملکیت نہیں جتا سکتی۔

    یعنی کوئی بھی قوم وہاں اپنا جھنڈا لگا کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہماری زمین ہے۔

    تاہم کرس لیمار اور اس کے 60 لاکھ گاہک حکومتیں نہیں ہیں، یہ فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سو اسے اس معاہدے کا ایک جھول تو کہا جاسکتا ہے، تاہم چاند پر صاحب جائیداد ہونا پھر بھی ممکن نہیں۔

    سنہ 2015 میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ایک اسپیس ایکٹ پر دستخط کیے تھے جس کے تحت انفرادی طور پر چاند سمیت دیگر فلکی اجسام پر کان کنی اور خرید و فروخت کا کام کیا جاسکتا ہے، تاہم چاند کی زمین کی ملکیت پھر بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

    ناسا کے ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فار انٹرنل افیئرز اسٹیفن ای ڈوئل کے مطابق، جو ایک ریٹائرڈ وکیل بھی ہیں، ’آپ چاند پر جا سکتے ہیں اور وہاں سے اس کی مٹی یا پتھر تو ساتھ لاسکتے ہیں۔ لیکن آپ چاند پر کچھ لکیریں کھینچ کر اسے اپنا حصہ قرار نہیں دے سکتے‘۔

    یعنی آپ چاند پر زمین کی ملکیت نہیں حاصل کرسکتے۔

    اس کے باوجود چاند کے حوالے سے تجارتی دوڑ دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں کے درمیان جاری ہے۔ سنہ 2016 میں مون ایکسپریس وہ پہلی نجی امریکی کمپنی بنی جسے چاند پر لینڈ کرنے کی حکومتی اجازت ملی۔

    تاہم ابھی تک مون ایکسپریس کا شمسی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ کمپنی خلا میں ان خلائی مشنز کے لیے ایک گیس اسٹیشن بنانا چاہتی ہے جو خلا میں دور تک جانا چاہتے ہوں۔

    مون ایکسپریس کے علاوہ یورپی خلائی ایجنسی اور ایک اور نجی کمپنی پلینٹری ریسورسز بھی چاند کے حوالے سے تجارتی مقاصد رکھتی ہیں۔ جدید سائنس اور خلائی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ چاند پر بھی جلد تعمیراتی منصوبے اور ملکیتی تنازعے شروع ہوسکتے ہیں۔

  • آج سورج کو گرہن لگے گا، کون سی احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے

    آج سورج کو گرہن لگے گا، کون سی احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے

    سال کا دوسرا سورج گرہن آج شب اور کل دن میں ہوگا، سورج گرہن کے موقع پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق سورج کو مکمل گرہن آج رات 11 بج کر 3 منٹ پر لگے گا، یہ سورج گرہن 3 جولائی کو دن 11 بج کر 51 منٹ پر ختم ہوگا۔

    سورج گرہن پاکستان میں نہیں دیکھا جا سکے گا، دیگر ممالک میں سورج گرہن آج رات 9 بج کر 55 منٹ پر شروع ہوگا۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق اس گرہن کو سورج غروب ہونے سے قبل چلی اور ارجنٹینا میں دیکھا جا سکے گا، پیسیفک اور جنوبی امریکا کے کچھ علاقوں میں بھی سورج گرہن دیکھا جا سکے گا جبکہ ایکواڈور، برازیل، یورا گوئے اور پیراگے میں جزوی طور پر سورج گرہن ہوگا۔

    سورج کو گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے زمین اور سورج کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اس کی روشنی زمین تک پہنچنے سے روک دیتا ہے لیکن چونکہ سورج کا فاصلہ زمین سے چاند کے مقابلے میں 400 گنا زیادہ ہے، اس لیے سورج چاند کے پیچھے مکمل یا جزوی طور پر چھپ جاتا ہے۔

    مکمل سورج گرہن ایک علاقے میں تقریباً 370 سال بعد دوبارہ آسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ 7 منٹ 40 سیکنڈ تک برقرار رہتا ہے۔ البتہ جزوی سورج گرہن کو سال میں کئی دفعہ دیکھا جا سکتا ہے۔

    انسانی تاریخ کا سب سے منفرد مکمل سورج گرہن 11 اگست 1999 کے روز ہوا تھا جسے پاکستان سمیت دنیا کے کئی گنجان آباد شہروں میں دیکھا گیا تھا۔ اکثر گنجان آباد شہروں سے دیکھا جانے والا اگلا مکمل سورج گرہن چار سو سال بعد ہوگا۔

    کینیا میں مقامی داستانوں کے مطابق سورج گرہن اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب چاند سورج کو کھانا شروع کرتا ہے۔

    وہ افراد جو سورج گرہن کے دوران سیلفی لینا چاہتے ہیں وہ اس سے پرہیز کریں کیونکہ ماہرین امراض چشم کے مطابق سورج گرہن کے دوران سیلفی کھینچنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ سورج گرہن کے دوران سورج کی بنفشی شعاعیں اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ آنکھ کی پتلی کو جلاسکتی ہیں جس کے سبب آنکھ کو مستقل نقصان پہنچ سکتا ہے یہاں تک کہ بینائی بھی جاسکتی ہے۔

    برطانوی کالج برائے امراض چشم کے ماہر ڈینیئل ہارڈی مین کا کہنا ہے کہ سیلفی لینے کے دوران خود کو کیمرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں آنکھ کا براہ راست سورج سے رابطہ ہونے کا اندیشہ ہے جس کے اثرات انسانی آنکھ پر انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    فرانسیسی ادارے کے مطابق کیمرے کے ذریعے سورج گرہن کو دیکھنے کی کوشش بھی انسانی آنکھ کے لئے ضرر رساں ہے۔

    سورج گرہن کے دوران احتیاطی تدابیر

    سورج گرہن کے دوران مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

    سیلفی لینے سے پرہیز کریں۔

    سن گلاسز مت لگائیں۔

    دھوپ میں کمپیوٹر کی سی ڈی لے کر نکلنے سے گریز کریں۔

    طبی ایکسرے ہاتھ میں لے کر دھوپ میں نکلنے سے پرہیز کریں۔

    گرہن کے دوران استعمال کیے جانے والے خصوصی چشمے استعمال کریں۔

  • اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    ہم کئی نسلوں سے اس زمین پر آباد ہیں، ہم روز بروز ہوتی ترقی کی بدولت اپنے پڑوسی سیاروں اور اپنے نظام شمسی سے باہر کے حالات بھی کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں لیکن ان پر غور کرنے کا وقت ہمیں بہت کم ملتا ہے۔

    آئیں آج ہم اپنے اس گھر یعنی زمین اور کائنات کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ہماری کائنات ایک بہت بڑے دھماکے جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے، کے نتیجے میں 13 ارب 80 کروڑ سال قبل وجود میں آئی۔ کائنات ابتدا میں بہت سادہ تھی۔ یہاں کچھ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسیں موجود تھیں جبکہ بہت ساری توانائی بھی موجود تھی۔

    اس وقت کائنات میں ستارے، کہکہشائیں اور سیارے موجود نہیں تھے جبکہ کسی جاندار کا بھی وجود نہیں تھا۔

    کچھ وقت بعد کائنات میں کچھ پیچیدہ اجسام ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ کائنات میں پہلی بار ستارے اور کہکہشاں بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد نمودار ہوئے۔

    کچھ بڑے ستارے بنے اور پھر ختم ہوگئے، یہ دھماکے سے پھٹے اور اس دھماکے سے نئے اجسام وجود میں آئے۔ ان اجسام نے مزید نئے عناصر کو جنم دیا جیسے مٹی، برف، پتھر اور معدنیات۔ پھر ان عناصر سے سیارے بننا شروع ہوئے۔

    ہمارا سورج اور نظام شمسی ساڑھے 4 ارب سال قبل نمودار ہوا۔

    4 ارب سال قبل زمین پر زندگی نے جنم لیا۔ اس زندگی کا ارتقا ہونا شروع ہوا مگر تب بھی زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے اور یک خلیائی (ایک خلیے پر مشتمل) تھے۔ 1 ارب سال قبل پہلی بار کثیر خلیائی (بہت سارے خلیوں پر مشتمل) زندگی نے جنم لیا۔

    50 کروڑ سال قبل زمین پر بڑے اجسام عام ہوگئے تھے جیسے درخت یا ٹائرنا سارس۔ ان سب میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ انسان کا ظہور صرف 2 لاکھ سال قبل اس زمین ہوا۔

    انسان کی آمد اس زمین پر ایک اہم واقعہ تھی، کیونکہ انسان اس سے قبل آنے والی تمام مخلوق سے منفرد اور بہتر تھا۔ انسان نے اپنے آس پاس کی معلومات اور اپنے خیالات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا شروع کیا جس سے آنے والی نسلیں پرمغز ہونا شروع ہوئیں۔

    اب، صرف چند سو سال میں انسان نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ پورے کرہ ارض اور اس میں بسنے والے تمام جانداروں کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

    بے تحاشہ ترقی، ٹیکنالوجی اور دولت سے انسان موسموں کا رنگ، دریاؤں اور ہواؤں کا رخ تک بدلنے پر قادر ہوگیا ہے اور اس جنون میں اپنے ہی گھر کو نقصان پہنچانا شروع ہوگیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف اگلے چند سال میں انسان کی ترقی اس بات کا تعین کرلے گی کہ آیا یہ کرہ ارض اور اس پر موجود جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے یا اگلے کئی لاکھ سال تک موجود رہیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام سیارے کی مخلوق کی بقا، ایک مخلوق (انسان) کی مرہون منت ہے۔ اس بقا کی جنگ لڑنا ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ چیلنج 4 ارب سال میں ایک ہی بار درپیش ہے۔

  • آئندہ 30 برسوں میں‌ زمین پر آبادی کا تناسب دوگنا ہوجائے گا، اقوام متحدہ

    آئندہ 30 برسوں میں‌ زمین پر آبادی کا تناسب دوگنا ہوجائے گا، اقوام متحدہ

    نیویارک : دنیا کی موجودہ آبادی 7 ارب 70 کروڑ ہے جو آئندہ 30 برسوں میں 9 ارب 70 کروڑ ہوجائے گی، آٹھ ممالک کا نصف حصہ 2050 تک دگنا ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کی آبادی میں 2050 تک تقریباً 2 ارب نفوس کا اضافہ ہوجائے گا اور پاکستان ان 10 ممالک کی فہرست میں 9ویں نمبر ہے جہاں موجودہ آبادی کا نصف حصہ 2050 میں دگنا ہوجائےگا۔

    عالمی ادارہ اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کی جاری کردہ ورلڈ پولیشن 2019 رپورٹ میں پاکستان کی موجودہ آبادی کا نصف حصہ 2050 تک دگنا ہوجانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا

    ۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی موجودہ آبادی 7 ارب 70 کروڑ ہے جو 2050 تک تقریباً 9 ارب 70 کروڑ تک پہنچ جائےگی، آبادی سے متعلق جائزہ رپوٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی موجودہ آبادی 21 کروڑ 70 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے حیرت انگیز طور پر2017 کے بعد سے آبادی میں تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 8 ممالک کی آبادی کا نصف حصہ 2050 تک دگنا ہوجائے گا، رپورٹ میں کہا گیا کہ دیگر 8 ممالک میں بھارت، نائجیرہ، کانگو، ایتھوپیا، تنزانیہ، انڈونیشا، مصر اور امریکا شامل ہیں۔

    بھارت سے متعلق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت میں موجودہ شرح پیدائش کے تناظر میں 2027 تک اس کی آبادی تناسب کے اعتبار سے چین کو شکست دے دی گی۔

    واضح رہے کہ چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک کہلایا جاتا ہے، علاوہ ازیں پاکستان اور نائجیرہ میں آبادی کا تناسب 1990 اور 2019 کے درمیان دگنا ہوا، پاکستان 8ویں سے 5ویں اور نائجیرہ 7 ویں سے 10 ویں فہرست پر پہنچا۔

    اقوام متحدہ کے محکمہ آبادی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا میں موجودہ نوجوان طبقہ جو افزائش نسل کی صلاحیت رکھتا ہے، ان کی تعداد گزشتہ ادوار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ 2019 میں دنیا بھر کی آبادی کا 40 فیصد حصہ ان مملک سے تعلق رکھتا ہے جہاں خواتین نے زندگی بھر میں دو سے چار بچوں کو جنم دیا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک میں سرفہرست بھارت، انڈونیشا، پاکستان، میکسیکو، فلپائن اور مصر شامل ہیں۔

  • صیہونیوں نے الخلیل سمیت متعدد علاقوں میں گھر مسمار کرکے زمین پر قبضہ کرلیا

    صیہونیوں نے الخلیل سمیت متعدد علاقوں میں گھر مسمار کرکے زمین پر قبضہ کرلیا

    غزہ : یہودیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کی صیہونی فوج نے دیگر علاقوں میں فلسطینیوں کے زیتون کے باغات کے درخت کاٹ کر پورا باغ اجاڑ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق صیہونیوں کی ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کی فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے کی پالیسی آج جاری ہے، یہودیوں نے الخلیل اور دیگر علاقوں میں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے زمین پر قبضہ کرلیا۔

    فلسطینی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ظالم اسرائیلی فوج نے بلڈوزر لیکر الخلیل میں فلسطینیوں کو بندوق کے زور پر مجبور کیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود منہدم کردیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ صیہونی فوج نے مزید ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑتے ہوئے دیگر علاقوں میں فلسطینیوں کے زیتون کے باغات کے درخت کاٹ کر پورا باغ اجاڑ دیا۔

    فلسطینی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کی زمین پر قبضہ کرکے اسے ناجائز صیہونی ریاست کے دارالحکومت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، امریکی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے مالدووا نے اعلان کیا کہ وہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردے گا۔

  • زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کیا آپ اپنے شہر کی گرمی سے سخت پریشان ہیں؟ موسم گرما آپ کے لیے سخت تکلیف لے کر آتا ہے؟ اسی طرح موسم سرما میں بھی آپ مختلف دشواریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور آپ کو یہ موسم سخت لگتا ہے؟

    اگر آپ نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کے موسم کے بارے میں جانیں تو زمین آپ کو جنت کا ٹکڑا دکھائی دے گی اور اس کا موسم خدا کی رحمت۔ آئیں دیکھتے ہیں ہمارے پڑوسی سیاروں پر موسم کیسا ہوتا ہے۔

    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    سورج سے قریب ترین سیارہ مرکری سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے گرم جھلسا دینے والی ہواؤں کا مرکز ہے۔ مرکری کی فضا میں آکسیجن بھی بے حد کم ہے۔

    علاوہ ازیں سورج کی تابکار شعاعیں بھی مرکری پر براہ راست آرہی ہوتی ہیں جو زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں۔

    سیارہ مرکری پر اگر آپ گرم ہوا سے جھلس کر یا آکسیجن کی کمی سے ہلاک نہ ہوں، تو تابکار شعاعیں ضرور آپ کو ہلاک کرسکتی ہیں۔

    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    سیارہ زہرہ بادلوں سے ڈھکا ہوا سیارہ ہے، تاہم یہ بادل زہریلے ہیں اور ان سے سلفیورک ایسڈ کی بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش چند لمحوں میں کسی بھی جاندار کے جسم کو گلا سکتی ہے۔

    سیارہ مریخ ۔ مارس

    مریخ لق و دق صحرا جیسا سیارہ ہے جہاں ہر وقت ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ تیز ہوا مٹی کو اڑا کر بڑے بڑے بگولے تشکیل دے دیتی ہے اور یہ بگولے زمین کی بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند ہوسکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مریخ پر اکثر و بیشتر مٹی کے طوفان آتے رہتے ہیں جو کئی مہینوں تک جاری رہتے ہیں اور پورے سیارےکو ڈھک لیتے ہیں۔

    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے (جو خلائی دوربینوں سے نظر آتا ہے) جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ گویا 300 سال سے یہ طوفان اس سیارے پر موجود ہے۔ اس طوفان کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    اس میگا سٹورم کے علاوہ مشتری پر ایک اور چھوٹا طوفان موجود ہے۔ یہ زمین پر آنے والے درجہ 5 طوفان کے برابر ہے جسے اوول بی اے کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ بڑے طوفان سے کچھ چھوٹا ہے اور اس کا حجم زمین کے برابر ہے۔ اس کا مشاہدہ پہلی بار سنہ 2000 میں کیا گیا ہے اور تب سے اب تک اس کے حجم میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    سیارہ زحل کے قطب شمالی میں ہوا کا ایک عظیم طوفان پنپ رہا ہے۔ اس طوفان کے چھ کونے ہیں جس کی وجہ سے اسے ہیگزاگون کا نام دیا گیا ہے، اس کا ہر کونا ہماری زمین سے بڑا ہے۔

    اس طوفان کے مرکز میں بادلوں کا ایک سسٹم موجود ہے جس کا دائرہ زمین پر آنے والے طوفانوں کے دائرے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

    سیارہ یورینس

    سیارہ یورینس دیگر سیاروں کی طرح اپنے مدار میں گول گھومنے کے بجائے ایک طرف کو جھک کر گردش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس سیارے کے موسم طویل اور زیادہ شدت کے ہوتے ہیں۔

    یہاں موسم سرما میں بالکل اندھیرا ہوجاتا ہے۔ یہ سیارہ سورج سے خاصا دور ہے لہٰذا اس کے موسم سرما کا دورانیہ زمین کے 21 سالوں جتنا ہوتا ہے۔ اس دوران درجہ حرارت منفی 216 ڈگری سیلسیئس پر پہنچ جاتا ہے۔

    سیارہ نیپچون

    سیارہ نیپچون کو ہواؤں کا سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں 1 ہزار 930 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں۔

    یہ رفتار زمین پر آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے جبکہ اس رفتار پر سفر کیا جائے تو امریکی شہر نیویارک سے لاس اینجلس پہنچنے میں صرف سوا 2 گھنٹے کا وقت لگے گا۔ یہ سفر عام طور پر 6 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔

    ان تمام سیاروں کے موسم کے مقابلے میں زمین کا موسم نہایت معتدل ہے۔ نہ زیادہ گرمی، نہ زیادہ سردی اور نہ ہی طوفانی ہوائیں، اور ہاں یہاں تیزابی بارشیں، تابکاری اور مٹی کے عظیم بگولے بھی نہیں آتے۔ تو پھر زمین کے موسم کی شکایت کرنا چھوڑیں اور ہر موسم کا لطف اٹھائیں۔