Tag: زمین

  • عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے ’پروٹیکٹ اور اسپیشیز‘ یعنی مختلف انواع کا تحفظ۔

    انسانوں کی صنعتی ترقی اور ماحولیاتی وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس وقت زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے، چاہے وہ مختلف جانور ہوں یا درخت اور پودے۔

    زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ان کے علاوہ بھی جانوروں کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    یہی صورتحال درختوں اور جنگلات کی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87 لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عظیم معدومی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کے مطابق ہم انسان جس خود غرضانہ طریقے سے صرف اپنے لیے زمین اور اس کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، قوی امید ہے کہ زمین سے جنگلی حیات اور دیگر انواع کا خاتمہ ہوجائے، لیکن یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اتمام انواع ہی انسان کی بقا کی ضانت ہیں اور ان انواع کا خاتمے کے بعد انسان کی بقا کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔

  • آج کے دن ایک گھنٹہ زمین کے نام کریں

    آج کے دن ایک گھنٹہ زمین کے نام کریں

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا۔ آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بند کر کے زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیا جائے گا۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاوس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

  • کیا ہماری زمین ٹوٹ رہی ہے؟

    کیا ہماری زمین ٹوٹ رہی ہے؟

    یوں تو زمین پر مختلف سیاسی حالات کی وجہ سے سرحدیں تبدیل ہوتی رہی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں زمین کی سرحدیں جغرافیائی حالات کی وجہ سے خودبخود بھی تبدیل ہورہی ہیں؟

    ایسا براعظم افریقہ کے ساتھ ہو رہا ہے جو ٹوٹ رہا ہے جس کے بعد زمین پر ایک نیا براعظم تشکیل پاجائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین کے تشکیل پانے سے لے کر اب تک اس میں مختلف تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ زمین میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ اس کی بیرونی سطح کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس ہیں جن کی حرکت سے زمین کے اوپر بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

    ان پلیٹوں کی وجہ سے زمین کئی ہزار سال قبل سے نہایت مختلف ہے۔ براعظم افریقہ فی الحال اس تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار ہے۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے افریقہ کے کئی ممالک میں زمین پر دراڑیں پڑنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس نے مقامی آبادی کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔

    اس سلسلے میں ایک بڑی دراڑ سنہ 2005 میں سامنے آئی جب ایک 60 کلو میٹر طویل دراڑ نے ارضیاتی ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ دراڑ صرف 10 دن میں تشکیل پائی اور ماہرین کے مطابق اس کے پھیلنے کا عمل جاری ہے۔

    اس وقت افریقہ میں رفٹ ویلی براعظم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی ہے۔ یہ دراصل وہ علاقہ ہے جہاں ایک دراڑ مسلسل پھیل رہی ہے اور ماہرین کے مطابق افریقہ کا علاقہ یہاں سے دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا اور درمیان میں ایک نیا سمندر ابھر آئے گا۔

    زمین پر دراڑ کیوں بنتی ہے؟

    ہماری زمین کی اندرونی سخت تہہ جسے لیتھو سفیئر کہا جاتا ہے ٹوٹ کر ٹیکٹونک پلیٹس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ٹیکٹونک پلیٹس ٹھوس پتھر کی بڑی بڑی سلیبیں ہوتی ہیں جو مختلف رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔

    جب 2 بڑی پلیٹس حرکت کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دور ہوتی ہیں تو ان کے بیچ میں خلا پیدا ہوجاتا ہے، جس کے بعد اوپر سے زمین نیچے دھنسنے لگتی ہے۔ رفٹ ویلی میں بھی یہی ہورہا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افریقہ کا براعظم ٹوٹ جائے گا تو کیا ہوگا؟

    ارضیاتی ماہرین کے مطابق اول تو ہم اس اہم واقعے کو دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ دراڑ سالانہ 6 سے 7 ملی میٹر کے حساب سے چوڑی ہورہی ہے۔ اسے مکمل طور پر ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہونے میں 1 کروڑ سال کا عرصہ لگے گا۔

    جب یہ بہت زیادہ چوڑی ہونا شروع ہوجائے گی تو قریب واقع بحیرہ احمر کا پانی یہاں اوپر آنے لگے گا اور زمین پر ایک نیا بحیرہ تشکیل پائے گا۔

    براعظم کے مکمل طور پر ٹوٹ جانے کے بعد افریقہ کا موجودہ براعظم مزید چھوٹا ہوجائے گا، اور نیا براعظم صومالیہ اور شمالی ایتھوپیا پر مشتمل ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق ایک وقت آئے گا کہ ہماری زمین کا چہرہ اب سے مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گا۔

  • دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟ یہ سوال سن کر شاید آپ کے ذہن میں افریقہ کے صحرائے صحارا کا تصور آجاتا ہو، یا پھر چین کے صحرائے گوبی کا، لیکن آپ کا جواب غلط ہوسکتا ہے۔

    صحرا کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک لق و دق ویران مقام آجاتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین کے نزدیک صحرا کی تعریف کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا ایک ایسا علاقہ ہوتا ہے جو خشک ہو، جہاں پانی، درخت، پھول پودے نہ ہوں اور وہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں۔

    اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا صحرا قطب شمالی یعنی انٹارکٹیکا ہے۔ جی ہاں، ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ صحرا صرف گرم ہی ہو، صحرا جیسے حالات رکھنے والا ہر علاقہ اس کیٹگری میں آتا ہے اور انٹارکٹیکا بھی برف کا صحرا ہے۔

    ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کے 98 فیصد حصے پر برف کی مستقل تہہ جمی ہوئی ہے، صرف 2 فیصد علاقہ اس برف سے عاری ہے اور یہیں تمام برفانی حیات موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر صحراؤں کی طرح یہاں بھی کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔

    یہ برفانی صحرا 54 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے برعکس صحرائے صحارا کا رقبہ 35 لاکھ اسکوائر میل ہے۔ انٹارکٹیکا زمین کا سب سے بڑا صحرا ہے جبکہ صحارا دنیا کا سب سے بڑا گرم صحرا ہے۔

  • زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری زمین پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں پہنچنا بے حد مشکل ہے، اور اسے زمین کا مشکل ترین مقام قرار دیا جاتا ہے؟

    اور مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود انسان اس مقام سے، زمین پر موجود انسانوں کی نسبت زیادہ نزدیک ہیں۔

    پوائنٹ نیمو نامی یہ مقام جنوب بحر اوقیانوس کے وسط میں واقع ہے اور یہ خشکی سے نہایت دور ہے۔ اس مقام سے قریب ترین زمین 1400 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔

    لفظ ’نیمو‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’کوئی نہیں‘۔

    کسی بھی قسم کے جاندار سے خالی اس مقام کو سنہ 1992 میں اس وقت دریافت کیا گیا جب سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس خطے کا نقشہ تیار کیا جارہا تھا۔

    اس مقام کے آس پاس مہر آئی لینڈ، ایسٹر آئی لینڈ اور ڈیوئس آئی لینڈ نامی جزیرے موجود ہیں لیکن یہ بھی اس سے 2300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس مقام کو زمین کا تنہا ترین مقام بھی کہا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق عالمی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) پر موجود انسان، دیگر زمینی باشندوں کی نسبت اس مقام سے زیادہ نزدیک ہیں، یہ اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    پوائنٹ نیمو کو خلائی جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ جب بھی خلا سے کوئی سیٹلائٹ، خلائی اسٹیشن یا خلائی جہاز ناکارہ ہونے کے بعد واپس زمین پر پھینکا جاتا ہے تو اسے اسی مقام پر پھینکا جاتا ہے تاکہ یہ کسی انسانی آبادی کو نقصان نہ پہنچائے۔

  • ملک کے مختلف شہر زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھے

    ملک کے مختلف شہر زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھے

    اسلام آباد: ملک کے مختلف شہر زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھے، لوگ جانیں بچانے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے اور ورد شروع کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب، خیبر پختون خوا، گلگلت بلتستان اور آزاد کشمیر کے متعدد شہروں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

    [bs-quote quote=”لوگ ورد کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    زلزلہ پیما مرکز کے اعلامیے کے مطابق زلزلے کی شدت 5.6 ریکارڈ کی گئی، جب کہ زلزلے کی گہرائی 40 کلو میٹر تھی۔

    مختلف شہروں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق زلزلہ اسلام آباد، راولپنڈی اور گرد و نواح کے ساتھ ساتھ لاہور شہر اور گرد و نواح میں آیا۔

    خیبر پختون خوا میں پشاور، سوات، شانگلہ، مردان، نوشہرہ، دیر بالا، مالاکنڈ، صوابی، بونیر اور بٹگرام میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

    ایبٹ باد، مانسہرہ، مری، بالاکوٹ میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

    یہ بھی پڑھیں:  تین دن قبل بھی مختلف شہروں میں زلزلہ آیا تھا

    گلگت بلتستان، باغ آزاد کشمیر، مظفر آباد اور اسکردو میں بھی زلزلہ آیا، جس پر لوگ خوف زدہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے۔

    واضح رہے کہ تین دن قبل بھی اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، کوہاٹ، ایبٹ آباد، سرگودھا، بونیر، دیر بالا، اٹک، حسن ابدال، فیصل آباد، شیخو پورہ، میاں والی، کوٹ مومن، بنوں، مردان، صوابی، ہنگو، جلال پور بھٹیاں میں زلزلہ آیا تھا۔

  • زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ایک طرف تو زمین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگائے کھڑا ہے، تو دوسری جانب سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جلد ہی زمین پر برفانی دور یعنی آئس ایج کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔

    لندن کی نارتھمبریا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگلی ایک دہائی کے دوران زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے جس میں زمین کے تمام بڑے دریا منجمد ہوجائیں گے۔

    یہ پیش گوئی سورج کی مقناطیسی توانائی کی حرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    سنہ 1645 سے 1715 کے درمیان منجمد دریائے ٹیمز

    آسٹرو نومی اینڈ جیو فزکس نامی رسالے میں شائع شدہ اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 سے زمین کے درجہ حرارت میں کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور دہائی کے آخر تک زمین برفانی دور کا سامنا کرے گی۔

    ماہرین کی یہ تحقیق اس سے قبل کی جانے والی ایک اور تحقیق کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ گزشتہ تحقیق میں سورج کی دو مقناطیسی لہروں کی حرکت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

    حالیہ تحقیق کے مطابق ان مقناطیسی لہروں میں تیزی سے کمی واقع ہوگی جس کا آغاز سنہ 2021 سے ہوگا اور یہ 33 سال تک جاری رہے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر اس سے پہلے بھی ایک مختصر آئس ایج رونما ہوا تھا جو سنہ 1646 سے 1715 تک رہا تھا۔ اس دوران لندن کا دریائے ٹیمز منجمد دریا میں تبدیل ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کی یہ لہریں اور ان کی حرکت ماضی میں تو برفانی دور کا باعث بنیں، تاہم اب یہ عمل کس قدر اثر انگیز ہوسکتا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کی راہ میں گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت حائل ہے۔

    ان کے مطابق یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مستقبل میں بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنے گا یا گلوبل وارمنگ کا اثر زیادہ ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اگر اب بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنتا ہے تو یہ زمین کے لیے خوش آئند ہوگا کیونکہ اس سے گلوبل وارمنگ کا عمل سست یا رک سکتا ہے۔

    ’30 سال کے اس عرصے میں یقیناً ہم گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے عوامل کو کم کرسکتے ہیں اور اس کا مستقل حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں، اس کے بعد جب زمین معمول کی حالت پر لوٹ آئے گی تو ہمارے پاس موقع ہوگا کہ ہم گلوبل وارمنگ کو کنٹرول میں رکھ سکیں‘۔

  • اگر زمین پر موجود تمام افراد بیک وقت چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    اگر زمین پر موجود تمام افراد بیک وقت چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اپنے اندر بے انتہا وسعت رکھتی ہے تاہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اس زمین کو نقصان پہنچانے اور اس کے وسائل وقت سے پہلے ختم ہونے کا سبب بن رہی ہے۔

    دنیا میں اس وقت ساڑھے 7 ارب سے زائد افراد آباد ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اگر یہ تمام افراد مل کر بیک وقت زمین پر چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    ماہرین کے مطابق اتنی بڑی آبادی کا ایک ساتھ چھلانگ لگانا زمین پر کچھ نہ کچھ اثر مرتب کرسکتا ہے۔

    سب سے پہلے تو تمام افراد کو کسی ایک مقام پر جمع ہونا ہوگا۔ اگر ہر شخص اپنے موجودہ مقام پر رہتے ہوئے چھلانگ لگائے تو شاید اس کا کوئی اثر نہ ہو۔

    کسی ایک مقام پر جمع ہونے کے بعد یہ ساڑھے 7 ارب افراد مل کر چھلانگ لگائیں گے تو سب سے پہلے زمین پر ایک واضح لرزش محسوس ہوگی۔

    اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے اچھلنے سے بے تحاشہ توانائی خارج ہوگی جو زمین اور ہوا میں جذب ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    یہ توانائی اور لوگوں کی چھلانگ مل کر 4 سے 8 شدت کا زلزلہ پیدا کرسکتا ہے۔ 4 شدت کا زلزلہ تو برداشت کیا جاسکتا ہے، تاہم 8 شدت کا زلزلہ اس مقام پر موجود عمارتوں، پلوں اور الیکٹرک پولز کو منہدم کرسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں اس مقام پر سونامی بھی آسکتا ہے جس میں 100 فٹ تک بلند لہریں ہر شے کو بہا لے جائیں گی۔

    اس کے ساتھ ساتھ ساڑھے 7 ارب افراد کے پیروں کی دھمک ایک زوردار آواز بھی پیدا کرے گی جس سے سماعت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    تاہم اس انوکھے تجربے کے تحت جو اثرات ظاہر ہوں گے وہ صرف اسی مقام اور اس کے آس پاس تک محدود رہیں گے۔ مجموعی طور پر زمین کی گردش پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

    زمین تمام انسانوں کے وزن سے دس کھرب گنا زیادہ بھاری ہے لہٰذا یہ ساڑھے 7 ارب افراد بھی زمین کو اس کے مقررہ محور اور گردش سے نہیں ہٹا سکتے۔

  • انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کو یوں تو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تاہم یہ اشرف المخلوقات دیگر جانداروں کے لیے کس قدر نقصانات کا باعث بن رہا ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق انسان نے صرف 50 سال کے اندر زمین اور اس پر رہنے والے جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صرف 50 سال کے اندر زمین پر رہنے والے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے گہرے سمندروں میں پائی جانے والی نصف مونگے کی چٹانیں، اور دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون کا پانچواں حصہ ختم ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس تمام نقصان کی سب سے بڑی وجہ آبی و فضائی آلودگی، موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کی بربادی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 1970 سے 2014 کے درمیان 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات اور جنوبی اور وسطی امریکا میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 89 فیصد جاندار ختم ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    اس کی وجہ ان جانوروں کی پناہ گاہوں یعنی جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی تھی تاکہ وہاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زراعت کی جاسکے۔

    ماہرین کے مطابق انسان اس زمین پر چھٹی عظیم معدومی کا آغاز کر چکا ہے۔

    یاد رہے کہ زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اگلے 50 سال تک جانوروں کا شکار کرنا، آلودگی پھیلانا اور جنگلات کی کٹائی بند کردیں تب بھی زمین کو اپنی اصل حالت میں واپس لوٹنے کے لیے 30 سے 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔