Tag: زمین

  • ترکی:‌ زمین دھنسنے کا واقعہ، دو خواتین لپیٹ میں‌ آگئیں، ویڈیو وائرل

    ترکی:‌ زمین دھنسنے کا واقعہ، دو خواتین لپیٹ میں‌ آگئیں، ویڈیو وائرل

    انقرہ: ترکی کے جنوبی شہر دیار بکر میں فٹ پاتھ پھٹ جانے کا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے 2 خواتین زمین میں دھنس گئیں، حادثے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    ترک میڈیا کی جانب سے جاری ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو خواتین فٹ پاتھ پر کھڑی تھیں کہ اچانک زمین پھٹی جس کے بعد وہ دونوں اندر گر گئیں۔

    زمین دھنسنے کے منظر کو سڑک پر نصب کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا، حادثے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی۔

    حادثے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور  گڑھے میں گرنے والی خواتین کو زندہ سلامت نکال لیا گیا، معجزاتی طور پر دونوں کو معمولی خراشیں آئیں۔

    ترک میڈیا کے مطابق حادثے سے متاثر ہونے والی خواتین کا نام ڈاکٹر سوشان کودائی اور اوزلام دوئماز ہے، دونوں ایک ساتھ اسپتال میں ملازمت کرتی ہیں اور چھٹی کے بعد اسٹاپ پر کھڑے ہوکر گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔

    مقامی انتظامیہ نے دونوں خواتین کو اسپتال منتقل کرنے کے بعد جائے وقوعہ پر پولیس اور دیگر ماہرین کو طلب کیا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جنوبی علاقوں میں ہونے والی حالیہ طوفانی بارشوں کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔

    ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ بارش کا پانی کھڑا ہونے کے باعث زیرزمین مٹی سرک گئی اور اس کی وجہ سے سڑک کمزور ہوئی جس کے نتیجے مٰں فٹ پاتھ دھنس گیا۔

  • سگریٹ کے ٹوٹے سمندروں اور زمین کی آلودگی کا سبب

    سگریٹ کے ٹوٹے سمندروں اور زمین کی آلودگی کا سبب

    ہماری زمین اور سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے جس کو دیکھتے ہوئے اب پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    دنیا بھر میں پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی اشیا سے لے کر بڑی اشیا کے کم سے کم استعمال اور ان کی جگہ ماحول دوست اشیا کے استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    تاہم ہماری زمین اور خاص طور پر سمندروں کو آلودہ کرنے والی ایک شے ایسی بھی ہے جسے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

    یہ شے کچھ اور نہیں بلکہ استعمال شدہ سگریٹ ہیں جن کے پھینکے جانے والے حصے میں فلٹر موجود ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سگریٹ نوشی جسم کو کیسے تباہ کرتی ہے؟

    ماہرین کے مطابق یہ پھینکے جانے والے فلٹرز ماحول کو بھی آلودہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ ان میں معمولی سے پلاسٹک کی آمیزش ہوتی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فلٹرز صحت کے لیے بھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سگریٹ کا زہریلا اور خطرناک دھواں ان فلٹرز کے ساتھ یا ان فلٹرز کے بغیر یکساں صورت میں انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق گزشتہ چند سال سے اس طرف توجہ دی جارہی ہے اور جب سے ساحلوں پر سگریٹ کے استعمال شدہ ٹکڑے اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے چند سال میں 6 کروڑ ٹکڑے اٹھائے جاچکے ہیں۔

  • ہماری زمین کی گہرائی میں کیا ہے؟

    ہماری زمین کی گہرائی میں کیا ہے؟

    کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری زمین جس پر ہم رہتے ہیں، اپنے رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں، اپنے اندر کیا رکھتی ہے؟

    اگر زمین کو کھودا جائے تو ہم کتنی گہرائی میں جاسکتے ہیں؟ اور اس گہرائی میں ہمیں کیا ملے گا؟

    آئیں آج ان تمام سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    زمین کی اب تک کی معلوم گہرائی روس کے جزیرہ نما حصہ (پینسولا) کولا میں موجود ہے جہاں ایک 7.5 میل گہرا گڑھا موجود ہے جسے کولا بورہول کہا جاتا ہے۔

    یہ گڑھا سمندر کی اب تک کی معلوم گہرائی سے بھی زیادہ گہرا ہے۔

    زمین کی گہرائی کو جانچنے کے لیے اس گڑھے کی کھدائی سنہ 1970 میں سوویت یونین کے دور میں شروع کی گئی۔

    اس کھدائی سے اب تک 3 اہم دریافتیں کی جاچکی ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں وہ دریافتیں کیا ہیں۔


    ایک پوری تہہ غائب ہوگئی

    زمین کے اندر موجود پتھریلی تہہ میں بسالٹ نامی تہہ موجود نہیں۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین کی تہہ میں بلند درجہ حرارت کے باعث سخت مادے مائع حالت میں موجود ہیں اور انہی میں سے ایک تہہ بسالٹ کی ہے۔

    تاہم اس کھدائی میں ماہرین کو بسالٹ نہیں ملا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس تہہ کا کوئی وجود نہیں، ممکن ہے یہ تہہ مزید گہرائی میں واقع ہو جہاں ابھی تک انسان نہ پہنچ سکا ہو۔


    گہرائی میں پانی

    پانی عموماً زمین کے اندر اوپر ہی ہوتا ہے اور تھوڑی سی کھدائی کے بعد نکل آتا ہے جس کا ثبوت جا بجا کھدے کنویں اور دیہی علاقوں میں نصب ہینڈ پمپس ہیں جو زمین سے پانی نکال کر زمین کے اوپر آباد افراد کی ضروریات پورا کرتے ہیں۔

    تاہم سائنس دانوں نے اس گہرائی سے بہت دور 4.3 میل نیچے بھی پانی دریافت کیا۔ اس قدر گہرائی میں پانی کی موجودگی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔


    سب سے حیرت انگیز دریافت

    کھدائی کے اس عمل کے دوران سب سے حیرت انگیز دریافت زمین کے اندر اتھاہ گہرائی میں خوردبینی رکازیات (فاسلز) کی شکل میں زندگی کی موجودگی تھی۔

    یہ فاسلز جن پتھروں میں دریافت کیے گئے ان پتھروں کی عمر 2 ارب سال تھی۔ ان فاسلز میں خورد بینی جانداروں کی 35 انواع دریافت کی گئیں۔


    کھدائی کیوں روکی گئی؟

    انسانی عقل کو دنگ کردینے والے انکشافات پر مبنی اس کھدائی کو سنہ 1994 میں کئی وجوہات کے باعث روک دیا گیا۔

    پہلی وجہ تو زمین کی تہہ کا ناقابل برداشت درجہ حرارت تھا جو 180 سینٹی گریڈ پر تھا۔

    اس کے علاوہ جیسے جیسے کھدائی ہوتی گئی، ویسے ویسے زمین کے اندر پتھروں کی کثافت یا مضبوطی میں اضافہ ہوتا گیا۔ کھدائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مزید گہرائی میں ڈرلنگ کرنا کسی پلاسٹک سے ڈرل کرنے جیسا ہوگیا تھا۔

    ایک اور وجہ عوام میں عجیب و غریب خیالات کا پھیل جانا بھی تھا۔

    کھدائی کے دوران جب پانی کی موجودگی سامنے آئی تو لوگوں نے اسے حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں آنے والے عظیم سیلاب سے جوڑنا شروع کردیا جس کے بعد زمین پر دوبارہ زندگی کا آغاز ہوا تھا۔

    لوگوں کا ماننا تھا کہ اس عظیم سیلاب کے بعد جب پانی اترا تو وہ زیر زمین گڑھوں اور نالوں میں پھیل گیا اور اب اس قدر گہرائی میں پانی کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ یہ طوفان اور عظیم سیلاب کوئی دیو مالائی داستان نہیں بلکہ حقیقت تھی۔


    خوفزدہ کردینے والا مفروضہ

    کھدائی کے اس عمل کے دوران ماہرین کے دلوں میں بھی ایک مفروضہ بیٹھ گیا جو کافی انوکھا اور کسی حد تک خوفزدہ کردینے والا تھا۔

    ماہرین کے مطابق جہاں تک وہ کھدائی کرچکے تھے، اس حد سے آگے مزید کھدائی کرنا جہنم کی طرف جانکلنے کے مترادف تھا، جو ان کے خیال میں زمین کی گہرائی میں موجود تھی۔

    ان ماہرین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب وہ کھدائی کرتے ہوئے زمین کی گہرائی کی طرف بڑھ رہے تھے تو انہیں بعض اوقات نامانوس سی چیخیں بھی سنائی دیتی تھیں۔

    ان کے مطابق یہ چیخیں تکلیف میں مبتلا ان روحوں کی تھیں جو جہنم میں جل رہی تھیں۔

    اور آخر میں آپ کو سب سے زیادہ خوفناک بات سے آگاہ کرتے چلیں، یہ کھدائی جہاں پر ختم ہوئی وہ مقام زمین کے مرکز تک کا صرف 0.002 حصہ ہے۔

    یعنی زمین کی لامتناہی گہرائی ابھی مزید کئی عظیم دریافتوں کی منتظر ہے، کیا معلوم انسان اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ اسے دریافت کرسکے۔

  • قدرتی وسائل کی فضول خرچی عروج پر

    قدرتی وسائل کی فضول خرچی عروج پر

    کیا آپ جانتے ہیں اس سال ہم انسانوں نے زمین پر موجود ایک سال کے لیے مختص قدرتی وسائل کو صرف 7 ماہ کے اندر ختم کرلیا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہم انسانوں کو ایک سال کے اندر قدرتی وسائل کا اتنا ہی استعمال کرنا چاہیئے جتنا کہ زمین انہیں اسی ایک سال کے اندر پھر سے پیدا کرسکے۔

    تاہم ہم نے ان وسائل کو مقررہ وقت سے پہلے استعمال کرلیا اور اب آج کے دن کے بعد سے استعمال کیے جانے والے وسائل کی حیثیت ایسی ہے جیسے کوئی شخص برے وقت کے لیے بچائی گئی رقم کو روز مرہ کے معمولات کے لیے استعمال کرلے۔

    وسائل کے استعمال کے مقررہ وقت کے خاتمے کو اوور شوٹ ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے جو دنیا بھر میں آج منایا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق رواں سال ہم نے صرف 7 ماہ میں اتنا زیادہ کاربن کا اخراج کیا ہے جو سمندروں اور جنگلات سے جذب کرنا مشکل ہے، ہم نے حد سے زیادہ مچھلیوں کا شکار کیا، بے تحاشہ درخت کاٹے اور مقررہ حد سے زائد پانی کا استعمال کیا۔

    مزید پڑھیں: زمین کو بچانے کے لیے صرف 3 برس باقی

    سال کے اختتام تک چونکہ ہم ان وسائل کا مزید استعمال کرچکے ہوں گے تو اب ان جنگلات، پانی اور صاف ہوا کی دوبارہ بحالی میں زمین کو ایک سال سے کہیں زیادہ وقت درکار ہوگا۔

    یہ دن گزشتہ سال کے مقابلے میں پہلے منایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال یہ دن ستمبر میں منایا گیا تھا۔ گزشتہ صدی کے آخر میں یعنی 90 کی دہائی میں یہ دن اکتوبر اور نومبر میں منایا جاتا تھا۔

    گویا ہم زمین کے وسائل کو، مال مفت دل بے رحم کے مصداق نہایت بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے ان کی فضول خرچی کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے قدرتی وسائل کو اسی طرح استعمال کرتے رہے تو ان وسائل کو دوبارہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں کم از کم ایک اور زمین کی ضرورت پڑے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    ناسا: امریکی وفاقی اسپیس ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ آج پندرہ سال بعد ایک بار پھر سرخ سیارہ زمین کے قریب تر آ جائے گا جسے رات کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آج رات زمین کے ایک طرف آسمان پر سورج اور دوسری طرف مریخ براجمان ہوگا، جو ایک سیدھے خط میں نظر آئیں گے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے، یہ پھر بھی ایک دوسرے سے 57.6 ملین کلو میٹر (5 کروڑ 76 لاکھ کلو میٹر) دوری پر ہوں گے۔

    کہا جا رہا ہے کہ یہ اکتوبر 2020 تک زمین اور مریخ کے درمیان قریب ترین فاصلہ ہوگا، تاہم آج جس طرح سرخ سیارہ واضح طور پر نظر آئے گا اس طرح یہ صرف ہر پندرہ سے سترہ سال کے بعد ہی نظر آیا کرتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو 27 جولائی کو چاند گرہن دیکھ رہے تھے، آسمان میں مریخ کو بھی دیکھ سکیں گے، تاہم یہ آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور جنوبی امریکی ممالک ہی میں بہتر طور پر دکھائی دے گا۔

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ہم مریخ کو ستمبر تک دیکھ سکیں گے تاہم یہ ہر گزرتے روز کے ساتھ چھوٹا ہوتا جائے گا کیوں کہ یہ زمین کے قریب ترین مدار کو چھوڑ دے گا۔

    خیال رہے کہ اگر چہ مریخ پندرہ سال بعد زمین کے قریب تر آ رہا ہے اور یہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک نیا اور شان دار منظر ہوگا تاہم جن لوگوں نے اسے 2003 میں دیکھا ہے ان کے لیے یہ منظر نیا نہیں۔

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    2003 میں مریخ زمین سے ’محض‘ 56 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر آ گیا تھا، ناسا کے مطابق یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو 60 ہزار سال کے عرصے میں پیش نہیں آیا تھا اور سال 2287 تک دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب آگیا۔ سیارچے کو رات کے اوقات میں بغیر کسی ٹیلی اسکوپ کے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویسٹا نامی یہ سیارچہ ہمارے نظام شمسی کے اندر موجود چوتھا بڑا معلوم سیارچہ ہے۔ یہ زمین سے صرف 10 کروڑ 60 لاکھ میل کے فاصلے پر موجود ہے۔

    اس سیارچے کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے سے معمولی سا زیادہ یعنی 8 لاکھ کلو میٹر ہے۔ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود ہے۔

    یہ سیارچہ نہایت آسانی سے آسمان پر دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی بیرونی سطح روشنی کو چاند سے زیادہ منعکس کرتی ہے۔

    اگر یہ سیارچہ زمین سے ٹکرا گیا تو زمین سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    اس کو سمجھنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوگا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں ہے جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس بھی دو سیارچے زمین کے انتہائی قریب سے گزرے ہیں۔

    اپریل 2017 کو 2014 جے او 25 نامی سیارچہ زمین سے محض 11 لاکھ میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔ یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے 4.6 گنا زیادہ تھا۔

    ستمبر 2017 میں فلورنس نامی سیارچہ زمین سے 43 لاکھ 91 ہزار میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر موجود ہیں لہٰذا انہیں زمین سے دیکھنا ناممکن ہے۔

    لیکن اگر یہی سیارے زمین سے اس قدر قریب ہوتے کہ چاند کی طرح ہمارے آسمان پر نظر آتے تو کیسے دکھائی دیتے؟

    ایک علم فلکیات دان نک ہومز نے اینی میشن کے ذریعے بتانے کی کوشش کی ہے کہ نظام شمسی میں موجود دیگر سیارے زمین سے کیسے نظر آسکتے ہیں۔

    اس اینی میشن کی بنیاد اس نقطے پر ہے کہ اگر تمام سیارے زمین سے صرف اتنے فاصلے پر ہوتے جتنا کہ چاند ہے یعنی کہ زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 4 سو کلومیٹر کے فاصلے پر تو وہ کس طرح دکھائی دیتے۔

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    یاد رہے کہ نظام شمسی میں واقع تمام سیارے زمین سے کروڑوں اربوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

    اس اینی میشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر چاند زمین سے صرف اتنا دور ہوتا جتنا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین سے دور ہے، تو وہ کس طرح دکھائی دیتا۔

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔

  • صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    براعظم افریقہ میں صحرا زدگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتی ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    افریقہ میں یہ مسئلہ اس لیے سنگین ہے کیونکہ اس خطے میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہاں رہنے والے 1 بلین کے قریب افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ یہاں آلودہ پانی سے مرنے والے بچوں اور بڑوں کی شرح بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں تاہم ان درختوں کی افزائش کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہے جو افریقہ میں ویسے ہی نایاب ہے۔

    desert-2

    البتہ ماہرین نے اس کے باوجود اس کا حل نکال لیا۔

    بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے تجویز کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت صحراؤں میں درخت اگائے جارہے ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صحرائی علاقہ میں کیا گیا۔

    یہاں آب پاشی کے لیے بڑے بڑے پائپ بچھائے گئے جس میں قاہرہ میں واقع ایک ٹریٹ منٹ پلانٹ سے پانی آتا ہے۔

    desert-5

    desert-4

    اس پلانٹ سے آنے والا پانی کسی حد تک آلودہ ہے لہٰذا یہ زراعت کے لیے تو موزوں نہیں البتہ درخت اگانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آلودہ پانی ہمیں سرسبز اور صحت مند درخت تو نہیں دے سکتا، تاہم یہ ایسے درخت ضرور دے سکتا ہے جو صرف فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ٹھنڈی ہوا اور سایہ فراہم کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کی کوشش

    یہاں کے موسم کی وجہ سے درختوں کی افزائش کی رفتار حیران کن طور پر تیز ہے اور صرف 2 سے 3 سال میں یہاں قد آور درخت اگ آئے۔

    صحرا میں اگنے والے اس جنگل کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ صحرائی طوفانوں سے حفاظت فراہم کر رہا ہے جبکہ ان درختوں کی لکڑی تعمیرات اور ایندھن جلانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    desert-3

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے صحرا کے 5 لاکھ ایکڑ کے رقبہ پر درخت اگائے جاسکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت درختوں اور جنگلات کی کٹائی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے زمین کے ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی بھی اہم وجہ ہے جس سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین میں تباہ کن گڑھے کیوں پڑ جاتے ہیں؟

    زمین میں تباہ کن گڑھے کیوں پڑ جاتے ہیں؟

    زمین میں بڑے بڑے گڑھے پڑ جانا ایک ایسا عمل ہے جو نہایت نقصان کا سبب بنتا ہے۔ اگر یہ کسی رہائشی مقام پر اچانک نمودار ہوجائیں تو گھروں کو گرا دیتے ہیں جن کے باعث لوگوں کی ہلاکت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں زمین میں یہ گڑھے کیوں پڑتے ہیں؟

    عام طور پر یہ ایک قدرتی جغرافیائی عمل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔ زمین پر یہ تباہ کن گڑھے ہم انسانوں کی وجہ سے نمودار ہوتے ہیں۔

    دراصل ان کا سبب زمین کے اندر بچھائے جانے والے فراہمی آب یا سیوریج کے بڑے بڑے پائپ ہوتے ہیں۔

    یہ پائپ بعض اوقات کہیں کہیں سے خستہ ہوجاتے ہیں جس کے بعد وہاں سے پانی لیک ہونے لگتا ہے۔

    بعض اوقات یہ پائپ مکمل طور پر ٹوٹ کر 2 حصوں میں بھی تقسیم ہوجاتے ہیں جس کے بعد پانی کے ریلے زیر زمین بہنے لگتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہماری زمین کی گہرائی میں کیا ہے؟

    یہ پانی اس مقام سے مٹی کو بہا دیتا ہے جس کے بعد آہستہ آہستہ وہ مقام کھوکھلا ہوتا جاتا ہے۔ یہ عمل کئی دن، مہینوں یا ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔

    اس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ زمین کی اوپری سطح کے نیچے سے مٹی بالکل ختم ہوجاتی ہے اور زمین کی سطح زور دار طریقے سے ٹوٹ جاتی ہے جس سے اس وقت اس مقام پر موجود گاڑیاں یا افراد نیچے گڑھے میں آ گرتے ہیں۔

    یہ عمل بھاری مالی و جانی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔